Divorce (Kitab Al-Talaq)

1

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمُرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو مالک سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Anyone who incites a woman against her husband or a slave against his master is not one of us.


10

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، – يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ ‏.‏ قَالَ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قُلْتُ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ ‏.‏ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ فَقَالَ ‏ “‏ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا فِي قُبُلِ عِدَّتِهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِهَا قَالَ فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہمجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا ، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے ( تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا : ہاں ، تو انہوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے “ ۔ میں نے پوچھا : کیا اس طلاق کا شمار ہو گا ؟ انہوں نے کہا : تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے ۱؎ ۔

Yunus bin Jubair said “I asked ‘Abd Allah bin ‘Umar “A man divorced his wife while she was menstruating? He said do you know ‘Abd Allah bin ‘Umar? He said, yes. ‘Abd Allah bin ‘Umar divorced his wife while she was menstruating. So, ‘Umar came to the Prophet (ﷺ) and asked him (about this matter). He said Command him to take her back in marriage he may the divorce her in the beginning of the waiting period. I (Ibn Jubair) asked him “Will this divorce be counted? He said “Why not?” If he was helpless and showed his foolishness (that would have been counted).


100

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فُلاَنًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ دِعْوَةَ فِي الإِسْلاَمِ ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں ، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی ، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے “ ۔

‘Amr b. Shu’aib on his father’s authority said that his grandfather reported:A man got up and said: Messenger of Allah, so-and-so is my son; I had illicit intercourse with his mother in the pre-Islamic period. The Messenger of Allah (ﷺ) said: There is no unlawful claiming of paternity in Islam. What was done in pre-Islamic times has been annulled. The child is attributed to the one on whose bed it is born, and the fornicator is deprived of any right.


101

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ – رضى الله عنه – عَنْ رَبَاحٍ، قَالَ زَوَّجَنِي أَهْلِي أَمَةً لَهُمْ رُومِيَّةً فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ مِثْلِي فَسَمَّيْتُهُ عَبْدَ اللَّهِ ثُمَّ وَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ مِثْلِي فَسَمَّيْتُهُ عُبَيْدَ اللَّهِ ثُمَّ طَبَنَ لَهَا غُلاَمٌ لأَهْلِي رُومِيٌّ يُقَالُ لَهُ يُوحَنَّهْ فَرَاطَنَهَا بِلِسَانِهِ فَوَلَدَتْ غُلاَمًا كَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ فَقُلْتُ لَهَا مَا هَذَا فَقَالَتْ هَذَا لِيُوحَنَّهْ ‏.‏ فَرَفَعْنَا إِلَى عُثْمَانَ أَحْسِبُهُ قَالَ مَهْدِيٌّ قَالَ فَسَأَلَهُمَا فَاعْتَرَفَا فَقَالَ لَهُمَا أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ ‏.‏ وَأَحْسِبُهُ قَالَ فَجَلَدَهَا وَجَلَدَهُ وَكَانَا مَمْلُوكَيْنِ ‏.‏

رباح کہتے ہیں کہمیرے گھر والوں نے اپنی ایک رومی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا ، میں نے اس سے جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح کالا لڑکا جنا جس کا نام میں نے عبداللہ رکھا ، میں نے پھر جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح ایک اور کالے لڑکے کو جنم دیا جس کا نام میں نے عبیداللہ رکھا ، اس کے بعد میرے خاندان کے یوحنا نامی ایک رومی غلام نے اسے پھانس لیا اور اس نے اس سے اپنی زبان میں بات کی چنانچہ گرگٹ جیسا ( سرخ ) رنگ کا بچہ اس سے پیدا ہوا ، میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ کہنے لگی : یہ یوحنا کا بچہ ہے تو ہم نے یہ معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا ، تو انہوں نے ان سے بازپرس کی تو دونوں نے اعتراف کر لیا ، پھر انہوں نے ان دونوں سے کہا : کیا تم دونوں اس بات پر رضامند ہو کہ میں تمہارا فیصلہ اس طرح کر دوں جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا ؟ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ” بچہ بستر والے کا ہے “ ۔ راوی کا خیال ہے کہ پھر ان دونوں کو کوڑے لگائے ، ( سنگسار نہیں کیا ) کیونکہ وہ دونوں لونڈی و غلام تھے ۔

Rabah said:My people married me to a Roman slave-girl of theirs. I had intercourse with her, and she gave birth to a black (male) child like me. I named it Abdullah. I again had intercourse with her, and she gave birth to a black (male) child like me. I named it Ubaydullah. Then a Roman slave of my people, called Yuhannah, incited her, and spoke to her in his own unintelligible language. She gave birth to a son like a chameleon (red).

I asked her: What is this? She replied: This belongs to Yuhannah. We then brought the case to Uthman (for a decision). I think Mahdi said these words. He inquired from both of them, and they acknowledged (the facts).

He then said to them: Do you agree that I take the decision about you, which the Messenger of Allah (ﷺ) had taken? The Messenger of Allah (ﷺ) decided that the child was to attributed to the one on whose bed it was born. And I think he said: He flogged her and flogged him, for they were slaves.


102

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، – يَعْنِي الأَوْزَاعِيَّ – حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي ‏”‏ ‏.‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے ، میرا پیٹ اس کا گھر رہا ، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی ، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی ، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے ، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تک تو ( دوسرا ) نکاح نہیں کر لیتی اس کی تو ہی زیادہ حقدار ہے “ ۔

‘Amr b. Shu’aib on his father’s authority said that his grandfather (Abdullah ibn Amr ibn al-‘As) reported:A woman said: Messenger of Allah, my womb is a vessel to this son of mine, my breasts, a water-skin for him, and my lap a guard for him, yet his father has divorced me, and wants to take him away from me. The Messenger of Allah (ﷺ) said: You have more right to him as long as you do not marry.


103

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أُسَامَةَ، أَنَّ أَبَا مَيْمُونَةَ، سَلْمَى – مَوْلًى مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ رَجُلَ صِدْقٍ – قَالَ بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَارِسِيَّةٌ مَعَهَا ابْنٌ لَهَا فَادَّعَيَاهُ وَقَدْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا فَقَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ – وَرَطَنَتْ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ – زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ اسْتَهِمَا عَلَيْهِ وَرَطَنَ لَهَا بِذَلِكَ فَجَاءَ زَوْجُهَا فَقَالَ مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ اللَّهُمَّ إِنِّي لاَ أَقُولُ هَذَا إِلاَّ أَنِّي سَمِعْتُ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ سَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ وَقَدْ نَفَعَنِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اسْتَهِمَا عَلَيْهِ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ زَوْجُهَا مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ ‏”‏ ‏.‏ فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ ‏.‏

ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا ، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے ، عورت کہنے لگی : ابوہریرہ ! ( پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی ) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی ، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا : میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے ؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : یا اللہ ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا ، وہ کہنے لگی : اللہ کے رسول ! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے ، حالانکہ وہ ابوعنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو “ ، اس کا شوہر بولا : میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تیرا باپ ہے ، اور یہ تیری ماں ہے ، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے “ ، چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا ، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ۱؎ ۔

Hilal ibn Usamah quoted Abu Maimunah Salma, client of the people of Medina, as saying:While I was sitting with AbuHurayrah, a Persian woman came to him along with a son of hers. She had been divorced by her husband and they both claimed him.

She said: AbuHurayrah, speaking to him in Persian, my husband wishes to take my son away.

AbuHurayrah said: Cast lots for him, saying it to her in a foreign language.

Then her husband came and asked: Who is disputing with me about my son?

AbuHurayrah said: O Allah, I do not say this, except that I heard a woman who came to the Messenger of Allah (ﷺ) while I was sitting with him, and she said: My husband wishes to take away my son, Messenger of Allah, and he draws water for me from the well of AbuInabah, and he has been good to me.

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Cast lots for him. Her husband said: Who is disputing with me about my son? The Prophet (ﷺ) said: This is your father and this your mother, so take whichever of them you wish by the hand. So he took his mother’s hand and she went away with him.


104

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، – رضى الله عنه – قَالَ خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ فَقَدِمَ بِابْنَةِ حَمْزَةَ فَقَالَ جَعْفَرٌ أَنَا آخُذُهَا أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي خَالَتُهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ ‏.‏ فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا ‏.‏ فَقَالَ زَيْدٌ أَنَا أَحَقُّ بِهَا أَنَا خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَسَافَرْتُ وَقَدِمْتُ بِهَا ‏.‏ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ حَدِيثًا قَالَ ‏ “‏ وَأَمَّا الْجَارِيَةُ فَأَقْضِي بِهَا لِجَعْفَرٍ تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ ‏”‏ ‏.‏ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہزید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکہ گئے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو لے آئے ، جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اسے میں لوں گا ، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں ، یہ میری چچا زاد بہن ہے ، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے ، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے ، اور علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اس کا زیادہ حقدار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے ، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں ہے ، وہ بھی اس کی زیادہ حقدار ہیں اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا : سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا ، اور سفر کر کے اسے لے کر آیا ہوں ، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں کے درجے میں ہے “ ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

Zayd ibn Harithah went out to Mecca and brought the daughter of Hamzah with him. Then Ja’far said: I shall take her; I have more right to her; she is my uncle’s daughter and her maternal aunt is my wife; the maternal aunt is like mother. Ali said: I am more entitled to take her. She is my uncle’s daughter. The daughter of the Messenger of Allah (ﷺ) is my wife, and she has more right to her. Zayd said: I have more right to her. I went out and journeyed to her, and brought her with me. The Prophet (ﷺ) came out.

The narrator mentioned the rest of the tradition. He (i.e. the Prophet) said: As for the girl, I decided in favour of Ja’far. She will live with her maternal aunt. The maternal aunt is like mother.


105

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، بِهَذَا الْخَبَرِ وَلَيْسَ بِتَمَامِهِ قَالَ وَقَضَى بِهَا لِجَعْفَرٍ وَقَالَ ‏ “‏ إِنَّ خَالَتَهَا عِنْدَهُ ‏”‏ ‏.‏

عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے یہی حدیث مروی ہے لیکن پوری نہیں ہےاس میں ہے کہ : ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ لڑکی جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے گی ، کیونکہ ان کے نکاح میں اس کی خالہ ہے “ ۔

This tradition has been narrated by ‘Abd Al Rahman bin Abi Laila through a different chain of narrators. This version has “He decided that she would be given to Ja’far and said “Her maternal aunt is with him(i.e., his wife).


106

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ جَعْفَرٍ، حَدَّثَهُمْ عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئٍ، وَهُبَيْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ تَبِعَتْنَا بِنْتُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ يَا عَمِّ ‏.‏ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ دُونَكِ بِنْتَ عَمِّكِ ‏.‏ فَحَمَلَتْهَا فَقَصَّ الْخَبَرَ قَالَ وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي ‏.‏ فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِخَالَتِهَا وَقَالَ ‏ “‏ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ ‏”‏ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب ہم مکہ سے نکلے تو ہمارے پیچھے پیچھے حمزہ کی لڑکی چچا چچا پکارتی آ گئی ، علی رضی اللہ عنہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئے اور ( فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ) کہا : اپنے چچا کی لڑکی کو لو ، انہوں نے اسے اٹھا لیا ، راوی نے پھر پورا قصہ بیان کیا اور کہا کہ : جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یہ میرے چچا کی بیٹی ہے ، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا : ” خالہ ماں کے درجے میں ہے “ ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

When we came out from Mecca, Hamzah’s daughter pursued us crying: My uncle. Ali lifted her and took her by the hand. (Addressing Fatimah he said:) Take your uncle’s daughter. She then lifted her. The narrator then transmitted the rest of the tradition. Ja’far said: She is my uncle’s daughter. Her maternal aunt is my wife. The Prophet (ﷺ) decided in favour of her maternal aunt, and said: The maternal aunt is like mother.


107

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا طُلِّقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ طُلِّقَتْ أَسْمَاءُ بِالْعِدَّةِ لِلطَّلاَقِ فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ ‏.‏

اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہیں طلاق دے دی گئی ، اس وقت مطلقہ کی کوئی عدت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا چنانچہ یہی پہلی خاتون ہیں جن کے متعلق مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا ۔

Amr ibn Muhajir reported on the authority of his father:Asma’, daughter of Yazid ibn as-Sakan al-Ansariyyah, was divorced in the time of the Messenger of Allah (ﷺ). No waiting period was prescribed for a divorced woman (at that time). When Asma’ was divorced, Allah, the Exalted, sent down the injunction of waiting period for divorce. She is the first of the divorced women about whom the verse relating to waiting period was sent down.


108

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏{‏ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ ‏}‏ ‏.‏ وَقَالَ ‏{‏ وَاللاَّئِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاَثَةُ أَشْهُرٍ ‏}‏ فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ وَقَالَ ‏{‏ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ ‏}‏ ‏{‏ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ‏}‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہاللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء» ” اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر تک روکے رکھیں “ ( سورۃ البقرہ : ۲۲۸ ) اور فرمایا : «واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر» ” اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے “ ( سورۃ الطلاق : ۴ ) تو یہ عورتیں پہلی آیت کے حکم سے نکال لی گئیں ہیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن» ” اگر تم انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو انہیں کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں “ ( سورۃ الاحزاب : ۴۹ ) اس آیت میں مذکور عورتوں کو بھی پہلی آیت کے حکم سے نکال دیا گیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

Women who are divorced shall wait, keeping themselves apart, three monthly courses; and then said: And for such of your women as despair of menstruation, if ye doubt, their period (of waiting) shall be three months. This was abrogated from the former verse. Again he said: (O ye who believe, if ye wed believing women) and divorce them before ye have touched them, then there is no period that ye should reckon.”


109

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا ‏.‏

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کر لی ۔

Narrated Umar ibn al-Khattab:

The Prophet (ﷺ) divorced Hafsah, but he took her back in marriage.


11

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ، مَوْلَى عُرْوَةَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ قَالَ كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا قَالَ طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَدَّهَا عَلَىَّ وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا وَقَالَ ‏”‏ إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَقَرَأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏{‏ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ ‏}‏ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ وَأَنَسُ بْنُ سِيرِينَ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ وَمَنْصُورٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ مَعْنَاهُمْ كُلُّهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ وَنَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَالزُّهْرِيِّ وَالأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلاَفِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ ‏.‏

ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہانہوں نے عروہ کے غلام عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے ، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا اور فرمایا : ” جب وہ پاک ہو جائے تو وہ طلاق دے یا اسے روک لے “ ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن» ” اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو تم انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو “ ( سورۃ الطلاق : ۱ ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یونس بن جبیر ، انس بن سیرین ، سعید بن جبیر ، زید بن اسلم ، ابوالزبیر اور منصور نے ابووائل کے طریق سے روایت کیا ہے ، سب کا مفہوم یہی ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اگر چاہیں تو طلاق دیدیں اور چاہیں تو باقی رکھیں “ ۔ اسی طرح اسے محمد بن عبدالرحمٰن نے سالم سے ، اور سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے البتہ زہری کی جو روایت سالم اور نافع کے طریق سے ابن عمر سے مروی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر اسے حیض آئے اور پھر پاک ہو ، پھر اگر چاہیں تو طلاق دیں اور اگر چاہیں تو رکھے رہیں ، اور عطاء خراسانی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابن عمر سے نافع اور زہری کی طرح روایت کی ہے ، اور یہ تمام حدیثیں ابوالزبیر کی بیان کردہ روایت کے مخالف ہیں ۱؎ ۔

Abdur Rahman ibn Ayman, the client of Urwah, asked Ibn Umar and Abu al-Zubayr was was listening:What do you think if a man divorces his wife while she is menstruating? He said: Abdullah ibn Umar divorced his wife while she was menstruating during the time of the Messenger of Allah (ﷺ).So Umar asked the Messenger of Allah (ﷺ) saying: Abdullah ibn Umar divorced his wife while she was menstruating. Abdullah said: He returned her to me and did not count it (the pronouncement) anything. He said: When she is purified, he may divorce her or keep her with him. Ibn Umar said: The Prophet (ﷺ) recited the Qur’anic verse: O Prophet, when you divorce women, divorce them in the beginning of their waiting period.”

Abu Dawud said: This tradition has been narrated by Yunus b. Jubair, Anas b. Sirin b. Jubair, Zaid b. Aslam, Abu al-Zubair and Mansur from Abu Wa’il on the authority of Ibn ‘Umar. They all agreed on the theme that the Prophet (ﷺ) commanded him to take her back (and keep her) till she was purified. Then if he desired, he might divorce her or keep her with him if he wanted to do so. The version narrated by al-Zuhri from Salim from Nafi’ on the authority of Ibn ‘Umar has: The Prophet (ﷺ) commanded him to take her back (and keep her) till she is purified, and then has menstrual discharge, and then she is purified. Then if he desires, he may divorce her and if he desires he may keep her.

Abu Dawud said: A version like that of Nafi’ and al-Zuhri has also been transmitted by ‘Ata al-Khurasani from al-Hasan on the authority of Ibn ‘Umar. All the versions of this tradition contradict the one narrated by Abu al-Zubair.


110

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ، طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلَهُ بِشَعِيرٍ فَتَسَخَّطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَىْءٍ ‏.‏ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهَا ‏”‏ لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ ‏”‏ ‏.‏ وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ إِنَّ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ وَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ‏.‏ فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ ‏.‏

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے ، اس پر وہ برہم ہوئیں ، تو اس نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا ، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا : ” اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ ایک ایسی عورت ہے کہ اس کے پاس میرے صحابہ کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے ، لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں ، پردے کی دقت نہ ہو گی ، تم اپنے کپڑے اتار سکو گی ، اور جب عدت مکمل ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا “ ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب عدت گزر گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہما کے پیغام کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رہے ابوجہم تو وہ کندھے سے لاٹھی ہی نہیں اتارتے ( یعنی بہت زدو کوب کرنے والے شخص ہیں ) اور جہاں تک معاویہ کا سوال ہے تو وہ کنگال ہیں ، ان کے پاس مال نہیں ہے ۲؎ ، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو “ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو ، چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اس قدر بھلائی رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے ۔

Abu Salamah bin ‘Abd Al Rahman reported on the authority of Fatimah daughter of Qais Abu ‘Amr bin Hafs divorced her (Fatimah daughter of Qais) absolutely when he was away from home and his agent sent her home barley. She was displeased with it. He said “I swear by Allah, you have no claim on us. She then came to Apostle of Allah (ﷺ) and mentioned that to him. He said to her “No maintenance is due to you from him. He ordered her to spend the waiting period in the house of Umm Sharik but he said afterwards “that is a woman whom my Companions visit. Spend the waiting period in the house of Ibn Umm Maktum for he is blind and you can undress. Then when you are in a position of being remarried, tell me.” She said “When I was in a position to remarry, I mentioned to him that Mu’awiyah bin Abi Sufyan and Abu Jahm had asked me in marriage. The Apostle of Allah (ﷺ)said “As for Abu Jahm, he does not put down his stick from his shoulder, and as for Mu’awiyah he is a poor man who has no property; marry Usamah bin Zaid. I disliked him but he said “Marry Usamah bin Zaid. So, I married him. And Allah prospered him very much and I was envied.”


111

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا ثَلاَثًا وَسَاقَ الْحَدِيثَ فِيهِ وَأَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَنَفَرًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا وَإِنَّهُ تَرَكَ لَهَا نَفَقَةً يَسِيرَةً فَقَالَ ‏ “‏ لاَ نَفَقَةَ لَهَا ‏”‏ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ ‏.‏

یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور بنی مخزوم کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ابو حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی ہیں ، اور اسے معمولی نفقہ ( خرچ ) دیا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کے لیے نفقہ نہیں ہے “ ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، یہ مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۱؎ ۔

Abu Salamah bin ‘Abd Al Rahman said that Fatimah daughter of Qais told him that Abu Hafs Al Mughirah divorced her three times. He then narrated the rest of the tradition. The version has Khalid bin Walid and some people of Banu Makhzum came to the Prophet (ﷺ) and said Prophet of Allaah (ﷺ) Abu Hafs Al Mughirah divorced his wife three times and he has left a little for her. He said “No maintenance is necessary for her. He then transmitted the rest of the tradition. The tradition narrated by Malik is more perfect.


112

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيَّ، طَلَّقَهَا ثَلاَثًا وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَخَبَرَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ وَلاَ مَسْكَنٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فِيهِ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ لاَ تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ ‏.‏

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہمجھ سے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں ، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” نہ تو اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ رہائش “ ، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ خبر بھیجی کہ تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا ۱؎ ۔

Abu Salamah reported on the authority of Fatimah daughter of Qais that Abu ‘Amr bin Hafs Al Makhzumi divorced her three times. He then narrated the rest of the tradition. He then mentioned about Khalid bin Walid and said that the Prophet (ﷺ) said “There are no maintenance and dwelling for her.” This version has “The Apostle of Allaah(ﷺ) sent a message to her “Do not give her consent for marriage without my permission.””


113

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ جَعْفَرٍ، حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ قَالَ فِيهِ ‏ “‏ وَلاَ تَفُوتِينِي بِنَفْسِكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الشَّعْبِيُّ وَالْبَهِيُّ وَعَطَاءٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَاصِمٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ كُلُّهُمْ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا ‏.‏

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہمیں قبیلہ بنی مخروم کے ایک شخص کے نکاح میں تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے مثل حدیث بیان کی اس میں «ولا تفوتيني بنفسك» ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے شعبی اور بہی نے اور عطاء نے بواسطہ عبدالرحمٰن بن عاصم اور ابوبکر بن جہم اور سبھوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ” انہیں ان کے شوہر نے تین طلاق دی “ ( نہ کہ طلاق بتہ ) ۔

Fatimah daughter of Qais said “I was married to a man of Banu Makhzum. He divorced me absolutely. The narrator then transmitted the rest of the tradition like that of Malik. This version has “Do not marry yourself without my permission.”

Abu Dawud said Al Sha’bi, Al Bahiyy and ata from abd Al Rahman bin asim and Abu Bakr bin Abi Al Jahm all narrated on the authority of Fatimah daughter of Qais that her husband had divorced her three times.


114

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ زَوْجَهَا، طَلَّقَهَا ثَلاَثًا فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَفَقَةً وَلاَ سُكْنَى ‏.‏

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو انہیں نفقہ دلایا ، اور نہ ہی رہائش دلائی ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Al Sha’bi through a different chain of narrators. This version has “The husband of Fathima daughter of Qais pronounced her triple divorce. The Prophet (ﷺ) did not allow her to have maintenance and dwelling.”


115

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا، كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَأَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا ‏.‏ قَالَ عُرْوَةُ وَأَنْكَرَتْ عَائِشَةُ – رضى الله عنها – عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ وَابْنُ جُرَيْجٍ وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ كُلُّهُمْ عَنِ الزُّهْرِيِّ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَاسْمُ أَبِي حَمْزَةَ دِينَارٌ وَهُوَ مَوْلَى زِيَادٍ ‏.‏

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہوہ ابوحفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں ، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے گھر نکلنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا ۱؎ ۔ مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ، عروہ کہتے ہیں : ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی بات کا انکار کیا ۔

Abu Salamah reported on the authority of Fatimah daughter of Qays who said to him that she was the wife of AbuHafs ibn al-Mughirah who divorced her by three pronouncements. She said that she came to the Messenger of Allah (ﷺ) and sought his opinion about her going out from her house. He commanded her to shift to (the house of )Ibn Umm Maktum who was blind. Marwan denied to confirm the tradition of Fatimah about the going out of a divorced woman from her house. Urwah said:Aisha objected to Fatimah daughter of Qays.

Abu Dawud said: Salih b. Kaisan, Ibn Juraij, and Shu’aib b. Abi Hamzah — all of them narrated on the authority of al-Zuhru in a similar way.

Abu Dawud said: Shu’aibn b. Abi Hamzah the name of Abu Hamzah is Dinar. He is a client of Ziyad.


116

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ أَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَى فَاطِمَةَ فَسَأَلَهَا فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصٍ وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَمَّرَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ – يَعْنِي عَلَى بَعْضِ الْيَمَنِ – فَخَرَجَ مَعَهُ زَوْجُهَا فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ لَهَا وَأَمَرَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ أَنْ يُنْفِقَا عَلَيْهَا فَقَالاَ وَاللَّهِ مَا لَهَا نَفَقَةٌ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ حَامِلاً ‏.‏ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ لاَ نَفَقَةَ لَكِ إِلاَّ أَنْ تَكُونِي حَامِلاً ‏”‏ ‏.‏ وَاسْتَأْذَنَتْهُ فِي الاِنْتِقَالِ فَأَذِنَ لَهَا فَقَالَتْ أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ‏”‏ ‏.‏ وَكَانَ أَعْمَى تَضَعُ ثِيَابَهَا عِنْدَهُ وَلاَ يُبْصِرُهَا فَلَمْ تَزَلْ هُنَاكَ حَتَّى مَضَتْ عِدَّتُهَا فَأَنْكَحَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُسَامَةَ فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ مَرْوَانُ لَمْ نَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ مِنَ امْرَأَةٍ فَسَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ حِينَ بَلَغَهَا ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ‏}‏ حَتَّى ‏{‏ لاَ تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا ‏}‏ قَالَتْ فَأَىُّ أَمْرٍ يَحْدُثُ بَعْدَ الثَّلاَثِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ وَأَمَّا الزُّبَيْدِيُّ فَرَوَى الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا حَدِيثَ عُبَيْدِ اللَّهِ بِمَعْنَى مَعْمَرٍ وَحَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ بِمَعْنَى عُقَيْلٍ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ حَدَّثَهُ بِمَعْنًى دَلَّ عَلَى خَبَرِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حِينَ قَالَ فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ ‏.‏

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہمروان نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو بلوایا ، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی ، اور عیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لیے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے : اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حقدار ہو سکتی ہیں ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ( اور آپ سے دریافت کیا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے لیے نفقہ صرف اس صورت میں ہے کہ تم حاملہ ہو “ ، پھر فاطمہ نے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ، پھر فاطمہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کہاں جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر رہو ، وہ نابینا ہیں ، سو وہ ان کے پاس کپڑے بھی اتارتی تھیں تو وہ اسے دیکھ نہیں پاتے تھے “ ، چنانچہ وہ وہیں رہیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہو گئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اسامہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ تو قبیصہ ۱؎ مروان کے پاس واپس آئے اور انہیں اس کی خبر دی تو مروان نے کہا : ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت کے منہ سے سنی ہے ہم تو اسی مضبوط اور صحیح بات کو اپنائیں گے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوا تو کہنے لگیں : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی ، اللہ کا فرمان ہے «فطلقوهن لعدتهن» ، «لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا» ۲؎ تک ” یعنی خاوند کا دل مائل ہو جائے اور رجوع کر لے “ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : تین طلاق کے بعد کیا نئی بات ہو گی ؟ ۳؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے یونس نے زہری سے روایت کیا ہے ، رہے زبیدی تو انہوں نے دونوں حدیثوں کو ملا کر ایک ساتھ روایت کیا ہے یعنی عبیداللہ کی حدیث کو معمر کی حدیث کے ہم معنی اور ابوسلمہ کی حدیث کو عقیل کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے ۔ اور اسے محمد بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ قبیصہ بن ذویب نے ان سے اس معنی کی حدیث بیان کی ہے جس میں عبیداللہ بن عبداللہ کی حدیث پر دلالت ہے جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ قبیصہ مروان کے پاس لوٹے اور انہیں اس واقعہ کی خبر دی ۔

‘Ubaid Allah said “Marwan sent someone (Qabisah) to Fatimah and asked her (about the case). She said that she was the wife of Abu Hafs. The Prophet (ﷺ) appointed ‘Ali as governor in a certain part of Yemen. Her husband also proceeded with him. From there he sent a message to her pronouncing one divorce that had yet remained. He commanded ‘Ayyash bin Abi Rabi’ah and Al Harith bin Hisham to provide maintenance to her. They said “By Allah there is no sustenance for her except in case she is pregnant.” She came to the Prophet(ﷺ) who said “There is no sustenance for you except in case you are pregnant. She then asked permission to shift (from her house) and he gave her permission.” She asked “Where should I shift. Apostle of Allaah(ﷺ)? The Apostle of Allaah(ﷺ) said to Ibn Umm Maktum . He was blind. She would undress herself and he could not see her. She lived there till her waiting period passed. The Prophet (ﷺ) married her to Usamah. Qabisah then returned to Marwan and narrated that to him. Marwan said “We did not hear this tradition except from a woman, so we shall follow the reliable practice on which we found the people”. When this reached Fatimah she said “between me and you is the Book of Allah”. Allaah the exalted said “Divorce them for their waiting period…” Thou knowest not it may be that Allaah will afterward bring some new thing to pass. She said “What a new thing will emerge after triple divorce.”

Abu Dawud said “A similar tradition has been narrated by Yunus on the authority of Al Zuhri. As for Al Zubaidi he narrated both traditions, the tradition of ‘Ubaid Allah in the version of Ma’mar and the tradition of Abu Salamah in the version of ‘Aqil.”

Abu Dawud said “Muhammad bin Ishaq narrated on the authority of Al Zuhri that Qabisah bin Dhuwaib transmitted to him the version which was narrated by ‘Ubaid Allah bin ‘Abd Allaah which has Qabisah then returned to Marwan and informed him about that.”


117

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ مَعَ الأَسْوَدِ فَقَالَ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ – رضى الله عنه – فَقَالَ مَا كُنَّا لِنَدَعَ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صلى الله عليه وسلم لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لاَ نَدْرِي أَحَفِظَتْ ذَلِكَ أَمْ لاَ ‏.‏

ابواسحاق کہتے ہیں کہمیں اسود کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے کہا : فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے ، پتا نہیں اسے یہ ( اصل بات ) یاد بھی ہے یا بھول گئی ۱؎ ۔

Abu Ishaq said “I was with Al Aswad in the congregational mosque. He said “Fathimah daughter of Qais came to ‘Umar bin Al Khattab(may Allaah be pleased with him). (When she narrated the tradition about her divorce) he said “We are not to leave the Book of our Lord and the Sunnah of our Prophet (ﷺ) for the statement of a woman, we do not know whether she remembered it or not.”


118

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ – رضى الله عنها – أَشَدَّ الْعَيْبِ يَعْنِي حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ وَقَالَتْ إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

عروہ کہتے ہیں کہام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں : چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( مکان بدلنے کی ) رخصت دی تھی ۔

Urwah said:Aisha (Allah be pleased with her) severely objected to the tradition of Fatimah daughter of Qays. She said: Fatimah lived in a desolate house and she feared for her loneliness there. Hence the Messenger of Allah (ﷺ) accorded permission to her (to leave the place).


119

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ قِيلَ لِعَائِشَةَ أَلَمْ تَرَىْ إِلَى قَوْلِ فَاطِمَةَ قَالَتْ أَمَا إِنَّهُ لاَ خَيْرَ لَهَا فِي ذِكْرِ ذَلِكَ ‏.‏

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے فاطمہ ( فاطمہ بنت قیس ) رضی اللہ عنہا کے بیان پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا اس میں اس کے لیے کوئی فائدہ نہیں ۔

Urwah ibn az-Zubayr said:Aisha was asked: Did you not see (i.e. known) the statement of Fatimah? She replied: It is not good for her to mention it (to others).


12

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَهُمْ عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ، يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلاَقِهَا وَلاَ عَلَى رَجْعَتِهَا فَقَالَ طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ ‏.‏ وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ أَشْهِدْ عَلَى طَلاَقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا وَلاَ تَعُدْ ‏.‏

مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہعمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کر لے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی ، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا ۔

Narrated Mutarrif ibn Abdullah:

Imran ibn Husayn was asked about a person who divorces his wife, and then has intercourse with her, but he does not call any witness to her divorce nor to her restoration. He said: You divorced against the sunnah and took her back against the sunnah. Call someone to bear witness to her divorce, and to her return in marriage, and do not repeat it.


120

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، فِي خُرُوجِ فَاطِمَةَ قَالَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ سُوءِ الْخُلُقِ ‏.‏

سلیمان بن یسار سے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلنے کا قصہ مروی ہےوہ کہتے ہیں : یہ بد خلقی کی بنا پر ہوا تھا ۔

Sulaimah bin Yasar said about leaving the house by Fathimah “That was due to her bad manners.”


121

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَتَّةَ فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ – رضى الله عنها – إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فَقَالَتْ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدِ الْمَرْأَةَ إِلَى بَيْتِهَا ‏.‏ فَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ غَلَبَنِي ‏.‏ وَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لاَ يَضُرُّكَ أَنْ لاَ تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ ‏.‏ فَقَالَ مَرْوَانُ إِنْ كَانَ بِكِ الشَّرُّ فَحَسْبُكِ مَا كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ ‏.‏

یحییٰ بن سعید قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہانہوں نے ان دونوں کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی کو تین طلاق دے دی تو عبدالرحمٰن نے انہیں اس گھر سے منتقل کر لیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت مدینہ کے امیر مروان بن حکم کو کہلا بھیجا کہ اللہ کا خوف کھاؤ اور عورت کو اس کے گھر واپس بھیج دو ، بروایت سلیمان : مروان نے کہا : عبدالرحمٰن مجھ پر غالب آ گئے یعنی انہوں نے میری بات نہیں مانی ، اور بروایت قاسم : کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا قصہ معلوم نہیں ؟ تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : فاطمہ والی حدیث نہ بیان کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے ، تو مروان نے کہا : اگر آپ نزدیک وہاں برائی کا اندیشہ تھا تو سمجھ لو یہاں ان دونوں ( عمرہ اور ان کے شوہر یحییٰ ) کے درمیان بھی اسی برائی کا اندیشہ ہے ۔

Al-Qasim ibn Muhammad and Sulayman ibn Yasar reported:Yahya ibn Sa’id ibn al-‘As divorced the daughter of ‘Abd al-Rahman ibn al-Hakam absolutely. ‘Abd al-Rahman shifted her (from there). Aisha sent a message to Marwan ibn al-Hakam who was the governor of Medina, and said to him: Fear Allah, and return the woman to her home. Marwan said (according to Sulayman’s version): ‘Abd al-Rahman forced me. Marwan said (according to the version of al-Qasim): Did not the case of Fatimah daughter of Qays reach you? Aisha replied: There would be no harm to you if you did not make mention of the tradition of Fatimah. Marwan said: If you think that it was due to some evil (i.e. reason), then it is sufficient for you to see that there is also an evil between the two.


122

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدُفِعْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقُلْتُ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ طُلِّقَتْ فَخَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا فَقَالَ سَعِيدٌ تِلْكَ امْرَأَةٌ فَتَنَتِ النَّاسَ إِنَّهَا كَانَتْ لَسِنَةً فَوُضِعَتْ عَلَى يَدَىِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى ‏.‏

میمون بن مہران کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو سعید بن مسیب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہفاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو طلاق دی گئی تو وہ اپنے گھر سے چلی گئی ( ایسا کیوں ہوا ؟ ) تو سعید نے جواب دیا : اس عورت نے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ وہ زبان دراز تھی لہٰذا اسے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس رکھا گیا جو نابینا تھے ۔

Maimun bin Mihram said “I came to Median and went to Sa’id bin Al Musayyab”. I said (to him) Fathimah daughter of Qais was divorced and she shifted from her house. Sa’id said “This woman has perverted people. She was arrogant so she was placed with Ibn Umm Makhtum, the blind.”


123

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ طُلِّقَتْ خَالَتِي ثَلاَثًا فَخَرَجَتْ تَجُدُّ نَخْلاً لَهَا فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَنَهَاهَا فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهَا ‏ “‏ اخْرُجِي فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي مِنْهُ أَوْ تَفْعَلِي خَيْرًا ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں ، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں ، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو ، ہو سکتا ہے تم اس میں سے صدقہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو “ ۔

Jabir said “My maternal aunt was divorced by three pronouncements and she went out to cut down fruit from her palm trees. A man met her and forbade her (to go out). So she went to the Prophet (ﷺ) and mentioned it to him. He said “Go out, and cut down fruit from your palm trees for perhaps you may give alms (sadaqah) or do an act of kindness.


124

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏{‏ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ‏}‏ فَنُسِخَ ذَلِكَ بِآيَةِ الْمِيرَاثِ بِمَا فُرِضَ لَهُنَّ مِنَ الرُّبُعِ وَالثُّمُنِ وَنُسِخَ أَجَلُ الْحَوْلِ بِأَنْ جُعِلَ أَجَلُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہاللہ کا فرمان «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج» ” اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے “ ( سورۃ البقرہ : ۲۴۰ ) میراث کی آیت نازل ہو جانے کے بعد منسوخ ہو گیا کیونکہ اس میں ان کے لیے چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اسی طرح ایک سال تک نہ نکلنے کا حکم چار مہینے دس دن کی عدت کا حکم آ جانے کے بعد منسوخ ہو گیا ۔

The Qur’anic verse “Those of you who die and leave widows should bequeath for their widows a year’s maintenance and residence was abrogated by the verse containing the laws of succession, as one-fourth or one-eighth share was prescribed for them (i.e., the widows). The waiting period for one year was also repealed as a period of four months ten days was prescribed for them.


125

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الأَحَادِيثِ الثَّلاَثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ زَيْنَبُ وَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ ‏”‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَنَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ ‏”‏ ‏.‏ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ ‏”‏ لاَ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلاَ شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَىْءٍ إِلاَّ مَاتَ ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْحِفْشُ بَيْتٌ صَغِيرٌ ‏.‏

حمید بن نافع کہتے ہیں کہزینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی ، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی ، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا : ” کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے “ ۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جس وقت کہ ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا تھا ، انہوں نے ( بھی ) خوشبو منگا کر لگائی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، میں نے ایسا صرف اس بنا پر کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا : ” کسی بھی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں شوہر کی وفات پر سوگ چار مہینے دس دن ہے “ ۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے اپنی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا : ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں ، کیا ہم اسے سرمہ لگا دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ ، اس نے دو بار یا تین بار پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار فرمایا : ” نہیں “ ، پھر فرمایا : ” تم چار مہینے دس دن صبر نہیں کر سکتی ، حالانکہ زمانہ جاہلیت میں جب تم میں سے کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو ایک سال پورے ہونے پر اسے مینگنی پھینکنی پڑتی تھی “ ۔ حمید راوی کہتے ہیں میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا : مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہائش اختیار کرتی ، پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہنتی ، نہ خوشبو استعمال کر سکتی اور نہ ہی کوئی زینت و آرائش کر سکتی تھی ، جب سال پورا ہو جاتا تو اسے گدھا یا کوئی پرندہ یا بکری دی جاتی جسے وہ اپنے بدن سے رگڑتی ، وہ جانور کم ہی زندہ رہ پاتا ، پھر اس کو مینگنی دی جاتی جسے وہ سر پر گھما کر اپنے پیچھے پھینک دیتی ، اس کے بعد وہ عدت سے باہر آتی اور زیب و زینت کرتی اور خوشبو استعمال کرتی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «حفش» چھوٹے گھر ( تنگ کوٹھری ) کو کہتے ہیں ۔

Humaid ibn Nafi’ reported the following three traditions on the authority of Zaynab, daughter of Abu Salamah:

Zainab said: I visited Umm Habibah when her father AbuSufyan, died. She asked for some yellow perfume containing saffron (khaluq) or something else. Then she applied it to a girl and touched her cheeks.

She said: I have no need of perfume, but I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: It is not lawful for a woman who believes in Allah and the Last Day to observe mourning for one who has died, more than three nights, except for four months and ten days in the case of a husband.

Zaynab said: I also visited Zaynab, daughter of Jahsh, when her brother died. She asked for some perfume and used it upon herself.

She then said: I have no need of perfume, but I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say when he was on the pulpit: It is not lawful for a woman who believes in Allah and the Last Day to observe mourning for one who has died, more than three nights, except for four months and ten days in the case of a husband.

Zaynab said: I heard my mother, Umm Salamah, say: A woman came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: Messenger of Allah, the husband of my daughter has died, and she is suffering from sore eyes; may we put antimony in her eyes?

The Messenger of Allah (ﷺ) said: No. He said this twice or thrice. Each time he said: No. The Messenger of Allah (ﷺ) said: The waiting period is now four months and ten days. In pre-Islamic days one of you used to throw away a piece of dung at the end of a year.

Humayd said: I asked Zaynab: What do you mean by throwing away a piece of dung at the end of a year.

Zaynab replied: When the husband of a woman died, she entered a small cell and put on shabby clothes, not touching perfume or any other thing until a year passed. Then an animal such as donkey or sheep or bird was provided for her. She rubbed herself with it. The animal with which she rubbed herself rarely survived. She then came out and was given a piece of dung which she threw away. She then used perfume or something else which she desired.

Abu Dawud said: The Arabic word “hafsh” means a small cell.


126

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ، زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، – وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – أَخْبَرَتْهَا أَنَّهَا، جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ فَإِنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِطَرَفِ الْقَدُّومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنِّي لَمْ يَتْرُكْنِي فِي مَسْكَنٍ يَمْلِكُهُ وَلاَ نَفَقَةٍ ‏.‏ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ أَوْ فِي الْمَسْجِدِ دَعَانِي أَوْ أَمَرَ بِي فَدُعِيتُ لَهُ فَقَالَ ‏”‏ كَيْفَ قُلْتِ ‏”‏ ‏.‏ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي قَالَتْ فَقَالَ ‏”‏ امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَرْسَلَ إِلَىَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ ‏.‏

زینب بنت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا ( ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن ) نے انہیں خبر دی ہے کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں ، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہ سکتی ہیں ؟ کیونکہ ان کے شوہر جب اپنے فرار ہو جانے والے غلاموں کا پیچھا کرتے ہوئے طرف القدوم نامی مقام پر پہنچے اور ان سے جا ملے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤں ؟ کیونکہ انہوں نے مجھے جس مکان میں چھوڑا تھا وہ ان کی ملکیت میں نہ تھا اور نہ ہی خرچ کے لیے کچھ تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ( وہاں چلی جاؤ ) “ فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ( یہ سن کر ) میں نکل پڑی لیکن حجرے یا مسجد تک ہی پہنچ پائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا لیا ، یا بلانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا ، ( میں آئی ) تو پوچھا : ” تم نے کیسے کہا ؟ “ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے اپنے شوہر کے متعلق ذکر کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے اسی گھر میں رہو یہاں تک کہ قرآن کی بتائی ہوئی مدت ( عدت ) پوری ہو جائے “ فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر میں نے عدت کے چار مہینے دس دن اسی گھر میں پورے کئے ، جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مجھے بلوایا اور اس مسئلہ سے متعلق مجھ سے دریافت کیا ، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے اسی کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا ۔

Zaynab, daughter of Ka’b ibn Ujrah narrated that Furay’ah daughter of Malik ibn Sinan, told her that she came to the Messenger of Allah (ﷺ) and asked him whether she could return to her people, Banu Khidrah, for her husband went out seeking his slaves who ran away. When they met him at al-Qudum, they murdered him.

So I asked the Messenger of Allah (ﷺ):”Should I return to my people, for he did not leave any dwelling house of his own and maintenance for me?

She said: The Messenger of Allah (ﷺ) replied: Yes. She said: I came out, and when I was in the apartment or in the mosque, he called for me, or he commanded (someone to call me) and, therefore, I was called.

He said: what did you say? So I repeated my story which I had already mentioned about my husband. Thereupon he said: Stay in your house till the term lapses. She said:

So I passed my waiting period in it (her house) for four months and ten days. When Uthman ibn Affan became caliph, he sent for me and asked me about that; so I informed him, and he followed it and decided cases accordingly.


127

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهِ فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ‏}‏ قَالَ عَطَاءٌ إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ ‏}‏ قَالَ عَطَاءٌ ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى تَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں«غير إخراج» ( سورة البقرہ : ۲۴۰ ) والی آیت جس میں عورت کو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارنے کا حکم ہے منسوخ کر دی گئی ہے ، اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے ، عطاء کہتے ہیں : اگر چاہے تو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے اور شوہر کی وصیت سے فائدہ اٹھا کر وہیں سکونت اختیار کرے ، اور اگر چاہے تو اللہ کے فرمان «فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن» ” اگر وہ خود نکل جائیں تو ان کے کئے ہوئے کا تم پر کوئی گناہ نہیں “ کے مطابق نکل جائے ، عطاء کہتے ہیں کہ پھر جب میراث کا حکم آ گیا ، تو شوہر کے مکان میں رہائش کا حکم منسوخ ہو گیا اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے ۔

Ibn ‘Abbas said “The following verse abrogated the rule of passing her waiting period with her people. A year’s maintenance and residence. She may pass her waiting period now anywhere she wishes. ‘Ata said “If she wishes she can pass her waiting period with the people of her husband and live in the house left by her husband by will. Or she may shift if she wishes according to the pronouncement of Allah the Exalted. But if they leave (the residence) there is no blame on you for what they do. Ata’ said “Then the verses regarding inheritance were revealed. The commandment for living in a house (for one year) was repealed. She may pass her waiting period wherever she wishes.


128

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ الْقُهُسْتَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ – السَّهْمِيِّ عَنْ هِشَامٍ، – وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْجَرَّاحِ – عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ تُحِدُّ الْمَرْأَةُ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا لاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ وَلاَ تَكْتَحِلُ وَلاَ تَمَسُّ طِيبًا إِلاَّ أَدْنَى طُهْرَتِهَا إِذَا طَهُرَتْ مِنْ مَحِيضِهَا بِنُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَعْقُوبُ مَكَانَ عَصْبٍ ‏”‏ إِلاَّ مَغْسُولاً ‏”‏ ‏.‏ وَزَادَ يَعْقُوبُ ‏”‏ وَلاَ تَخْتَضِبُ ‏”‏ ‏.‏

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے شوہر کے ، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی ( اس عرصہ میں ) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے ، نہ سرمہ لگائے ، اور نہ خوشبو استعمال کرے ، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو ( حیض کے مقام پر ) استعمال کرے “ ۔ راوی یعقوب نے : ” سفید سیاہ دھاری دار کپڑے “ کے بجائے : ” دھلے ہوئے کپڑے “ کا ذکر کیا ، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے ۔

‘Umm Athiyah reported the Prophet(ﷺ) as saying “A woman must not observe mourning for more than three (days) except for four months and ten days in the case of a husband and she must not wear a dyed garment except one of the types made of dyed yarn or apply collyrium or touch perfume except for a little costus or azfar when she has been purified after her menstrual courses.

The narrator Ya’qub mentioned the words “except washed clothes” instead of the words “one of the types made of dyed yarn”. Ya’qub also added “She must not apply Henna”


129

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمِسْمَعِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَيْسَ فِي تَمَامِ حَدِيثِهِمَا ‏.‏ قَالَ الْمِسْمَعِيُّ قَالَ يَزِيدُ وَلاَ أَعْلَمُهُ إِلاَّ قَالَ فِيهِ ‏”‏ وَلاَ تَخْتَضِبُ ‏”‏ ‏.‏ وَزَادَ فِيهِ هَارُونُ ‏”‏ وَلاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ ‏”‏ ‏.‏

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے ،لیکن ان دونوں راویوں کی حدیثوں میں پوری مشابہت نہیں ہے ، مسمعی کا بیان ہے کہ یزید کہتے ہیں میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ اس میں ہے کہ ” خضاب نہ لگائے “ اور ہارون نے اس میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ : ” رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے سوائے سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے “ ۔

The tradition mentioned above has also been narrated by Al ‘Umm Athiyah from the Prophet (ﷺ) through a different chain of narrators. The tradition narrated by Yazid bin Harun from Hisham does perfectly correspond to the tradition transmitted by Ibrahim bin Tahman and ‘Abd Allah Al Shami from Hisham. The narrator Al Misma’I reported Yazid as saying “I do not know but that he said “she should not dye herself.” To this the narrator Harun added “She should not wear colored clothes except one of the types made of dyed yarn.”


13

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ مُعَتِّبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، اسْتَفْتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فِي مَمْلُوكٍ كَانَتْ تَحْتَهُ مَمْلُوكَةٌ فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَتَيْنِ ثُمَّ عَتَقَا بَعْدَ ذَلِكَ هَلْ يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَخْطُبَهَا قَالَ نَعَمْ قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

بنی نوفل کے غلام ابوحسن نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سےاس غلام کے بارے میں فتویٰ پوچھا جس کے نکاح میں کوئی لونڈی تھی تو اس نے اسے دو طلاق دے دی اس کے بعد وہ دونوں آزاد کر دیئے گئے ، تو کیا غلام کے لیے درست ہے کہ وہ اس لونڈی کو نکاح کا پیغام دے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا فیصلہ دیا ہے ۔

Narrated Umar ibn Mu’tab:

Abu Hasan, a client of Banu Nawfal asked Ibn Abbas: A slave had a wife who was a slave-girl. He divorced her by two pronouncements. Afterwards both of them were freed. Is it permissible for him to ask her in marriage again? He said: Yes. This is a decision given by the Messenger of Allah (ﷺ).


130

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي بُدَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لاَ تَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ مِنَ الثِّيَابِ وَلاَ الْمُمَشَّقَةَ وَلاَ الْحُلِيَّ وَلاَ تَخْتَضِبُ وَلاَ تَكْتَحِلُ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس عورت کا شوہر انتقال کر جائے وہ نہ زرد اور گیروے رنگ کا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے ، نہ خضاب ( مہندی وغیرہ ) لگائے ، اور نہ سرمہ لگائے ۱؎ “ ۔

Narrated Umm Salamah, Ummul Mu’minin:

The Prophet (ﷺ) said: A woman whose husband has died must not wear clothes dyed with safflower (usfur) or with red ochre (mishq) and ornaments. She must not apply henna and collyrium.


131

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ الضَّحَّاكِ، يَقُولُ أَخْبَرَتْنِي أُمُّ حَكِيمٍ بِنْتُ أُسَيْدٍ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ زَوْجَهَا، تُوُفِّيَ وَكَانَتْ تَشْتَكِي عَيْنَيْهَا فَتَكْتَحِلُ بِالْجَلاَءِ – قَالَ أَحْمَدُ الصَّوَابُ بِكُحْلِ الْجَلاَءِ – فَأَرْسَلَتْ مَوْلاَةً لَهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا عَنْ كُحْلِ الْجَلاَءِ فَقَالَتْ لاَ تَكْتَحِلِي بِهِ إِلاَّ مِنْ أَمْرٍ لاَ بُدَّ مِنْهُ يَشْتَدُّ عَلَيْكِ فَتَكْتَحِلِينَ بِاللَّيْلِ وَتَمْسَحِينَهُ بِالنَّهَارِ ‏.‏ ثُمَّ قَالَتْ عِنْدَ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبِرًا فَقَالَ ‏”‏ مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ إِنَّمَا هُوَ صَبِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ فَلاَ تَجْعَلِيهِ إِلاَّ بِاللَّيْلِ وَتَنْزِعِينَهُ بِالنَّهَارِ وَلاَ تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ وَلاَ بِالْحِنَّاءِ فَإِنَّهُ خِضَابٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ قُلْتُ بِأَىِّ شَىْءٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ ‏”‏ ‏.‏

ام حکیم بنت اسید اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ، ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی تھی تو وہ «جلاء» ( سرمہ ) لگا لیتیں تو اپنی ایک لونڈی کو انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ وہ «جلاء» کے سرمہ کے متعلق ان سے پوچھے ، انہوں نے کہا : اس کا سرمہ نہ لگاؤ جب تک ایسی سخت ضرورت پیش نہ آ جائے جس کے بغیر چارہ نہ ہو اس صورت میں تم اسے رات میں لگاؤ ، اور دن میں پونچھ لیا کرو ، پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت یہ بھی بتایا کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، اور میں نے اپنی آنکھ میں ایلوا لگا رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” ام سلمہ یہ کیا ہے ؟ “ میں نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! یہ ایلوا ہے اور اس میں خوشبو نہیں ہے ، فرمایا : ” یہ چہرے میں حسن پیدا کرتا ہے لہٰذا اسے رات ہی میں لگاؤ ، اور دن میں ہٹا دو ، اور خوشبو لگا کر کنگھی نہ کرو ، اور نہ مہندی لگا کر ، کیونکہ وہ خضاب ہے “ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! پھر کنگھی کس چیز سے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بیری کے پتوں کو اپنے سر پر لپیٹ کر “ ۔

Umm Hakim, daughter of Usayd, reported on the authority of her mother that her husband died and she was suffering from sore eyes. She therefore applied collyrium (jala’). Ahmad said:The correct version is “glittering collyrium (kuhl al-jala’). She sent her slave-girl to Umm Salamah, and she asked her about the use of glittering collyrium (kuhl al-jala’).

She said: Do not apply it except in the case of dire need which is troubling you. In that case you can use it at night, but you should remove it in the daytime. Then Umm Salamah said: The Messenger of Allah (ﷺ) came to visit me when AbuSalamah died, and I had put the juice of aloes in my eye.

He asked : What is this, Umm Salamah? I replied: It is only the juice of aloes and contains no perfume. He said: It gives the face a glow, so apply it only at night and remove it in daytime, and do not comb yourself with scent or henna, for it is a dye. I asked: What should I use when I comb myself, Messenger of Allah? He said: Use lote-tree leaves and smear your head copiously with them.


132

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَاهُ، كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ، عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ اسْتَفْتَتْهُ فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ ابْنِ خَوْلَةَ – وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَىٍّ وَهُوَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا – فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ – رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ – فَقَالَ لَهَا مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً لَعَلَّكِ تَرْتَجِينَ النِّكَاحَ إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ ‏.‏ قَالَتْ سُبَيْعَةُ فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي ‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلاَ أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ ‏.‏

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہمجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان کی حدیث معلوم کریں ، نیز معلوم کریں کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے کیا ارشاد فرمایا ؟ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو لکھا ، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ انہیں سبیعہ نے بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ( وہ بنی عامر بن لوی کے ایک فرد ، اور بدری صحابی ہیں ) حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب وہ حاملہ تھیں تو ان کا انتقال ہو گیا ، انتقال کے بعد انہوں نے بچہ جنا ، جب نفاس سے پاک ہو گئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا تو بنی عبدالدار کا ایک شخص ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : میں تمہیں بنی سنوری ہوئی دیکھ رہا ہوں ، شاید نکاح کرنا چاہتی ہو ، اللہ کی قسم ! تم چار مہینے دس دن ( کی عدت ) گزارے بغیر نکاح نہیں کر سکتی ۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے : جب انہوں نے مجھ سے اس طرح کی گفتگو کی تو میں شام کے وقت پہن اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسئلہ بتایا اور فرمایا کہ بچہ جننے کے بعد ہی میں حلال ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں ۔ ابن شہاب کہتے ہیں : میرے خیال میں بچہ جننے کے بعد عورت کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں گرچہ وہ حالت نفاس ہی میں ہو البتہ پاک ہونے تک شوہر صحبت نہیں کرے گا ۱؎ ۔

‘Ubaid Allah bin ‘Abd Allah bin ‘Utbah said that his father wrote (a letter) to ‘Abd Allaah bin Al Arqam Al Zuhri asking him to visit Subai’ah daughter of Al Harith Al Aslamiyyah and ask her about her story and what the Apostle of Allaah(ﷺ) said to her when she asked his opinion (about her). So, ‘Umar bin Abd allah wrote in reply to ‘Abd Allah bin ‘Utbah informing him what she told him. She told that she was under (i.e., the wife of) Sa’d bin Khawlah who belonged to Banu Amir bin Luwayy. He was one of those who participated in the battle of Badr. He died at the Farwell Pilgrimage while she was pregnant. Soon after his death she gave birth to a child. When she was purified from her bleeding after child birth she adorned herself for seekers in marriage. Then Abu Al Sanabil bin Ba’kah a man from Banu Abd Al Dar entered upon her and said to her “What is the matter seeing you adorned, perhaps you are seeking marriage? I swear by Allah you cannot marry until four months and ten days pass away. Saubai’ah said “When she said this to me, I gathered my clothes on me when the evening came and I came to the Apostle of Allaah(ﷺ) and asked him about that. He told me that I became lawful when I had delivered a child. He suggested me to marry if I wished. Ibn Shihab said “I do not see any harm if she marries when she gives birth to the child, even though she had the bleeding after the child birth, but her husband should not have sexual intercourse till she is purified.


133

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، – قَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا وَقَالَ ابْنُ الْعَلاَءِ، أَخْبَرَنَا – أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ مَنْ شَاءَ لاَعَنْتُهُ لأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الأَرْبَعَةِ الأَشْهُرِ وَعَشْرًا ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجو بھی چاہے مجھ سے اس بات پر لعان ۱؎ کر لے کہ چھوٹی سورۃ نساء ( سورۃ الطلاق ) چار مہینے دس دن والے حکم کے بعد نازل ہوئی ۲؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

I can invoke the curse of Allah on anyone who wishes: The smaller surat an-Nisa (i.e. Surat at-Talaq) was revealed after the verse regarding the waiting period of four months and ten days had been revealed.


134

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ، حَدَّثَهُمْ ح، وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ لاَ تَلْبِسُوا عَلَيْنَا سُنَّتَهُ – قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى سُنَّةَ نَبِيِّنَا – صلى الله عليه وسلم عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ ‏.‏ يَعْنِي أُمَّ الْوَلَدِ ‏.‏

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ( ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) سنت کو ہم پر گڈمڈ نہ کرو ، ( سنت یہ ہے کہ ) جس کا شوہر فوت ہو جائے اس کی یعنی ام ولد ۱؎ کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔

Narrated Amr ibn al-‘As:

Do not confuse us about his Sunnah. Ibn al-Muthanna said: The Sunnah of our Prophet (ﷺ) is that the waiting period of a slave-mother whose husband has died is four months and ten days.


135

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ – يَعْنِي ثَلاَثًا – فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ فَدَخَلَ بِهَا ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا أَتَحِلُّ لِزَوْجِهَا الأَوَّلِ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ حَتَّى تَذُوقَ عُسَيْلَةَ الآخَرِ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی ؟ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے ۱؎ “ ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

The Messenger of Allah (ﷺ) was asked about a man who divorced his wife three times, and she married another who entered upon her, but divorced her before having intercourse with her, whether she was lawful for the former husband. She said: The Prophet (ﷺ) replied: She is not lawful for the first (husband) until she tastes the honey of the other husband and he tastes her honey.


136

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ ‏”‏ أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى تَصْدِيقَ قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏{‏ وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ ‏}‏ الآيَةَ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے “ ، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا “ ، میں نے کہا پھر اس کے بعد ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو “ ، نیز کہا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون الخ ( سورۃ الفرقان : ۶۸ ) ” جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے اور ناحق اس نفس کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ زنا کرتے ہیں “ ۔

‘Abd Allaah (bin Masud) said “I asked Apostle of Allaah(ﷺ) which sin is the gravest?” He replied “That you associate someone with Allaah, while He has created you”. I again asked “Which then?” He replied “That you commit adultery with the wife of your neighbor.” Allaah then revealed the following Qur’anic verse in support of the statement of the Prophet (ﷺ) “Those who invoke not with Allaah any other god nor slay such life as Allaah has made sacred except for just cause nor commit fornication.”


137

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ جَاءَتْ مُسَيْكَةُ لِبَعْضِ الأَنْصَارِ فَقَالَتْ إِنَّ سَيِّدِي يُكْرِهُنِي عَلَى الْبِغَاءِ فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ ‏{‏ وَلاَ تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ ‏}‏ ‏.‏

ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہایک انصاری شخص کی مسکینہ لونڈی آ کر کہنے لگی کہ میرا مالک مجھے بدکاری کے لیے مجبور کرتا ہے ، تو یہ آیت نازل ہوئی «ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء» ( سورۃ النور : ۳۳ ) ” تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو “ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

Musaykah, a slave-girl of some Ansari, came and said: My master forces me to commit fornication. Thereupon the following verse was revealed: “But force not your maids to prostitution (when they desire chastity).”


138

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، ‏{‏ وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ ‏}‏ قَالَ قَالَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ غَفُورٌ لَهُنَّ الْمُكْرَهَاتِ ‏.‏

سیلمان تیمی سے روایت ہے کہآیت کریمہ : «ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم» ( النور : ۳۳ ) ” اور جو انہیں مجبور کرے تو اللہ تعالیٰ مجبور کرنے کی صورت میں بخشنے ولا رحم کرنے والا ہے “ کے متعلق سعید بن ابوالحسن نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں زنا کے لیے مجبور کیا گیا ، اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا ۔

Mu’tamir reported on the authority of his father Sa’id bin Al Hassan explain the Qur’anic verse “But if anyone compels them, yet after such compulsion is Allaah oft-forgiving most merciful(to them), said Allaah is oft-forgiving to those (slave girls) who were compelled (to prostitution)


14

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ بِلاَ إِخْبَارٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَقِيَتْ لَكَ وَاحِدَةٌ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لِمَعْمَرٍ مَنْ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا لَقَدْ تَحَمَّلَ صَخْرَةً عَظِيمَةً ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَكَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ رَوَى الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ أَحَادِيثَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَبُو الْحَسَنِ مَعْرُوفٌ وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ ‏.‏

عثمان بن عمر کہتے ہیں کہہمیں علی نے خبر دی ہے آگے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مذکور ہے لیکن عنعنہ کے صیغے کے ساتھ ہے نہ کہ «أخبرنا» کے صیغے کے ساتھ ، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : تیرے لیے ایک طلاق باقی رہ گئی ہے ، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا فیصلہ فرمایا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے پوچھا کہ یہ ابوالحسن کون ہیں ؟ انہوں نے ایک بھاری چٹان اٹھا لی ہے ؟ ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالحسن وہی ہیں جن سے زہری نے روایت کی ہے ، زہری کہتے ہیں کہ وہ فقہاء میں سے تھے ، زہری نے ابوالحسن سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالحسن معروف ہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے ۔

The aforesaid tradition (No. 2182) has also been transmitted by Ali (ibn al-Mubarak) through a different chain of narrators to the same effect.

This version adds:Ibn Abbas said: There remained one more pronouncement of divorce for you. The Messenger of Allah (ﷺ) took the same decision.

Abu Dawud said: I heard Ahmad b. Hanbal say: ‘Abd al-Razzaq said that Ibn al-Mubarak said to Ma’mar: Who is this Abu al-Hasan ? He bore a big rock.

Abu Dawud said: Al-Zuhri has narrated (traditions) on the authority of this Abu al-Hasan. Al-Zuhri said: He was lawyer, and al-Zuhri narrated many traditions from Abu al-Hasan.

Abu Dawud said: Abu al-Hasan is well known narrator. This tradition is not practiced.


15

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُظَاهِرٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ طَلاَقُ الأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنِي مُظَاهِرٌ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ ‏”‏ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهُوَ حَدِيثٌ مَجْهُولٌ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لونڈی کی طلاق دو ہیں اور اس کے قروء دو حیض ہیں “ ۔ ابوعاصم کہتے ہیں : مجھ سے مظاہر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : مجھ سے قاسم نے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ، لیکن اس میں ہے کہ اس کی عدت دو حیض ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مجہول حدیث ہے ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

The Prophet (ﷺ) said: The divorce of a slave-woman consists in saying it twice and her waiting period is two menstrual courses (qur’) AbuAsim said: A similar tradition has been narrated to me by Muzahir and al-Qasim on the authority of Aisha from the Prophet (ﷺ), except that he said: And her waiting period (‘iddah) is two courses.

Abu Dawud said: This tradition is obscure.


16

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالاَ حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ طَلاَقَ إِلاَّ فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَ عِتْقَ إِلاَّ فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَ بَيْعَ إِلاَّ فِيمَا تَمْلِكُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ ابْنُ الصَّبَّاحِ ‏”‏ وَلاَ وَفَاءَ نَذْرٍ إِلاَّ فِيمَا تَمْلِكُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” طلاق صرف انہیں میں ہے جو تمہارے نکاح میں ہوں ، اور آزادی صرف انہیں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں ، اور بیع بھی صرف انہیں چیزوں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں “ ۔ ابن صباح کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ ( تمہارے ذمہ ) صرف اسی نذر کا پورا کرنا ہے جس کے تم مالک ہو ۔

‘Amr b. Shu’aib on his father’s authority said that his grandfather (Abdullah ibn Amr ibn al-‘As):The Prophet (ﷺ) said: There is no divorce except in what you possess; there is no possession, there is no sale transaction till you possess. The narrator Ibn as-Sabbah added: There is no fulfilling a vow till you possess.


17

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ زَادَ ‏ “‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى مَعْصِيَةٍ فَلاَ يَمِينَ لَهُ وَمَنْ حَلَفَ عَلَى قَطِيعَةِ رَحِمٍ فَلاَ يَمِينَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہےاس میں اتنا اضافہ ہے : ” جس نے گناہ کرنے کی قسم کھا لی تو اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں نیز جس نے رشتہ توڑنے کی قسم کھا لی اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں “ ۔

The above tradition has also been transmitted by ‘Amr bin Shu’aib through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “If anyone swears an oath to do an act of disobedience to GOD, his oath is not valid, and if anyone swears an oath to sever relationship, his oath is not valid(i.e., he must not fulfill it)


18

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ زَادَ ‏ “‏ وَلاَ نَذْرَ إِلاَّ فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ ‏”‏ ‏.‏

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی روایت آئی ہےاس میں اتنا اضافہ ہے کہ ” وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو “ ۔

The above tradition has also been transmitted by ‘Amr bin Shu’aib through a different chain of narrators. This version adds The Prophet (ﷺ) said “There is no vow except in an act which seeks the pleasure of Allah, the Exalted.


19

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَهُمْ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ الَّذِي، كَانَ يَسْكُنُ إِيلْيَا قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيِّ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ فَبَعَثَنِي إِلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَكَانَتْ قَدْ حَفِظَتْ مِنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ فِي غَلاَقٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْغِلاَقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ ‏.‏

محمد بن عبید بن ابوصالح ( جو ایلیاء میں رہتے تھے ) کہتے ہیں کہمیں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا ، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں ، وہ کہتی ہیں : میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎ ۔

Muhammad ibn Ubayd ibn Abu Salih who lived in Ayliya said:I went out with Adi ibn Adi al-Kindi till we came to Mecca. He sent me to Safiyyah daughter of Shaybah who remembered a tradition (that she had heard) from Aisha. She said: I heard Aisha say: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: There is no divorce or emancipation in case of constraint or duress (ghalaq).

Abu Dawud said: I think ghalaq means anger.


2

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا وَلْتَنْكِحْ فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے ( یعنی اس کا حصہ خود لے لے ) اور خود نکاح کر لے ، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “A woman should not ask for the divorce of her sister to make her bowl vacant for her and to marry him. She will have what is decreed for her.”


20

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، – يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ – عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہو گا ، وہ یہ ہیں : نکاح ، طلاق اور رجعت “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: There are three things which, whether undertaken seriously or in jest, are treated as serious: Marriage, divorce and taking back a wife (after a divorce which is not final)


21

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏{‏ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ ‏}‏ الآيَةَ وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلاَثًا فَنُسِخَ ذَلِكَ وَقَالَ ‏{‏ الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ ‏}‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیںاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن» ” اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں “ ( سورۃ البقرہ : ۲۲۸ ) یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حقدار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور ارشاد ہوا «الطلاق مرتان» یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

Divorced women shall wait concerning themselves for three monthly periods. Nor is it lawful for them to hide what Allah hath created in their wombs. This means that if a man divorced his wife he had the right to take her back in marriage though he had divorced her by three pronouncements. This was then repealed (by a Qur’anic verse). Divorce is only permissible twice.


22

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ – أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ – أُمَّ رُكَانَةَ وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ مَا يُغْنِي عَنِّي إِلاَّ كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ ‏.‏ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حَمِيَّةٌ فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ ‏”‏ أَتَرَوْنَ فُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ وَفُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ – كَذَا وَكَذَا ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا نَعَمْ ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِعَبْدِ يَزِيدَ ‏”‏ طَلِّقْهَا ‏”‏ ‏.‏ فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا ‏”‏ ‏.‏ وَتَلاَ ‏{‏ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ‏}‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَصَحُّ لأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ أَنَّ رُكَانَةَ إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَاحِدَةً ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرکانہ اور اس کے بھائیوں کے والد عبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی ، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا ، وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئیے ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا ، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوا لیا ، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ : ” کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی ؟ “ ، لوگوں نے کہا : ہاں ( ملتی ہے ) ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد یزید سے فرمایا : ” اسے طلاق دے دو “ ، چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی ، پھر فرمایا : ” اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کر لو “ ، عبد یزید نے کہا : اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے معلوم ہے ، تم اس سے رجوع کر لو “ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن» ( سورۃ الطلاق : ۱ ) ” اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت ( حدیث نمبر : ۲۲۰۶ ) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی ، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رجوع کرا دیا ، زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک ہی شمار کیا ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

Abd Yazid, the father of Rukanah and his brothers, divorced Umm Rukanah and married a woman of the tribe of Muzaynah. She went to the Prophet (ﷺ) and said: He is of no use to me except that he is as useful to me as a hair; and she took a hair from her head. So separate me from him. The Prophet (ﷺ) became furious. He called on Rukanah and his brothers. He then said to those who were sitting beside him. Do you see so-and-so who resembles Abdu Yazid in respect of so-and-so; and so-and-so who resembles him in respect of so-and-so? They replied: Yes. The Prophet (ﷺ) said to Abdu Yazid: Divorce her. Then he did so. He said: Take your wife, the mother of Rukanah and his brothers, back in marriage. He said: I have divorced her by three pronouncements, Messenger of Allah. He said: I know: take her back. He then recited the verse: “O Prophet, when you divorce women, divorce them at their appointed periods.”

Abu Dawud said: The tradition narrated by Nafi’ b. ‘Ujair and ‘Abd Allah b. Yazid b. Rukanah from his father on the authority of his grandfather reads: Rukanah divorced his wife absolutely (i.e. irrevocable divorce). The Prophet (ﷺ) restored her to him. This version is sounder (than other versions), for they (i.e. these narrators) are the children of his man, and the members of the family are more aware of his case. Rukanah divorced his wife absolutely (i.e. three divorces in one pronouncement) and the Prophet (ﷺ) made it a single divorce.


23

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا ‏.‏ قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحَمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ ‏{‏ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ‏}‏ وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ ‏{‏ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ ‏}‏ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الأَعْرَجُ وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَيُّوبُ وَابْنُ جُرَيْجٍ جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَاهُ الأَعْمَشُ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ كُلُّهُمْ قَالُوا فِي الطَّلاَقِ الثَّلاَثِ إِنَّهُ أَجَازَهَا قَالَ وَبَانَتْ مِنْكَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذَا قَالَ ‏”‏ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا ‏”‏ ‏.‏ بِفَمٍ وَاحِدٍ فَهِيَ وَاحِدَةٌ وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ هَذَا قَوْلُهُ لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ وَجَعَلَهُ قَوْلَ عِكْرِمَةَ ‏.‏

مجاہد کہتے ہیں : میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے ، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے ، پھر انہوں نے کہا : تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہو پھر آ کر کہتے ہو : اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «ومن يتق الله يجعل له مخرجا» ۱؎ اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا ، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لیے بائنہ ہو گئی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن» ، «في قبل عدتهن» ۲؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد سے ، مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ۔ اور اسے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ۔ اور ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ۔ نیز اسے اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ۔ ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمہارے لیے بائنہ ہو گئی جیسے اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انہوں نے ایوب سے ایوب نے عبداللہ بن کثیر سے روایت کیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے ( یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی ) تو وہ ایک شمار ہو گی ۔ اور اسے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے ۔

Mujahid said “I was with Ibn ‘Abbas”. A man came to him and said that he divorced his wife by three pronouncements. I kept silence and thought that he was going to restore het to him. He then said “A man goes and commits a foolish act and then says “O, Ibn ‘Abbas! Alaah has said “And for those who fear Allaah, He (ever) prepares a way out.” Since you did not keep duty to Allaah I do not find a way out for you. You disobeyed your Lord and your wife was separated from you. Allaah has said “O Prophet! When you divorce women divorce them in the beginning of their waiting period.”

Abu Dawud said “This tradition has been transmitted by Humaid Al A’raj and by others from Mujahid on the authority of Ibn ‘Abbas. Shu’bjh narrated it from ‘Amr bin Murrah from Sa’id bin Jubair on the authority of Ibn ‘Abbas. Ayyub and Ibn ‘Jubair both narrated it from “’Ikrimah bin Khalid from Sa’id bin Jubair on the authority of Ibn ‘Abbas. Ibn Juraij narrated it from ‘Abd Al Hamid bin Rafi’ from ‘Ata from Ibn ‘Abbas. Al A’mash narrated it from Malik bin Al Harith on the authority of Ibn ‘Abbas. They all said about the divorce by three pronouncements. He allowed it and said” (Your wife) has been separated from you similar to the tradition narrated by Isma’il from Ayub from ‘Abd Allaah bin Kathir.”

Abu Dawud said “Hammad bin Zaid narrated it from Ayyub from ‘Ikrimah on the authority of Ibn ‘Abbas. This version adds If he said “You are divorced three times saying in one pronouncement, it constitutes a single (divorce). Isma’il bin Ibrahim narrated it from Ayyub from ‘Ikrimah. This is his (‘Ikrimah’s) statement. He did not mention the name of Ibn ‘Abbas. He narrated it as a statement of ‘Ikrimah.”


24

وَصَارَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، – وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ – قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا، هُرَيْرَةَ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلُوا عَنِ الْبِكْرِ، يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا ثَلاَثًا فَكُلُّهُمْ قَالُوا لاَ تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الْقِصَّةَ حِينَ جَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُمَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالاَ اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – ثُمَّ سَاقَ هَذَا الْخَبَرَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَقَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ هُوَ أَنَّ الطَّلاَقَ الثَّلاَثَ تَبِينُ مِنْ زَوْجِهَا مَدْخُولاً بِهَا وَغَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا لاَ تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ هَذَا مِثْلُ خَبَرِ الصَّرْفِ قَالَ فِيهِ ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ‏.‏

ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے باکرہ ( کنواری ) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو ، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی ، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس واقعہ میں موجود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر ، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے ، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ میں انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں ، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لیے بائنہ ہو جائے گی ، چاہے وہ اس کا دخول ہو چکا ہو ، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو ، اور وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی ، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے اس کی مثال «صَرْف» والی حدیث کی طرح ہے ۱؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کر لیا ۔

Abu Dawud said “The opinion of Ibn ‘Abbas has been mentioned in the following tradition. “Ahmad bin Salih and Muhammad bin Yahya narrated this is the version of Ahmad (bin Salih)” from ‘Abd Ar Razzaq from Ma’mar from Al Zuhri from Abu Salamah din Abd Al Rahman bin ‘Awf and Muhammad bin ‘Abd Al Rahman bin Thawban from Muhammad bin Iyas that Ibn ‘Abbas, Abu Hurairah and ‘Abd Alah bin ‘Amr bin Al ‘As were asked about a virgin who is divorced three times by her husband. They all said “She is not lawful for him until she marries a man other than her former husband.” Abu Dawud said “Malik narrated from Yahya bin Sa’id from Bukair bin Al Ashajj from Mu’awiyah bin Abi ‘Ayyash who was present on this occasion when Muhammad bin Iyas bin Al Bukair came to Ibn Al Zubair and Asim in ‘Umar. He asked them about this matter. They replied “Go to Ibn ‘Abbas and Abu Hurairah, I have left them with A’ishah (may Allaah be pleased with her). He then narrated the rest of the tradition.”

Abu Dawud said “The statement of Ibn ‘Abbas goes “The divorce by three pronouncements separates the wife from husband whether the marriage has been consummated or not, the previous husband is not lawful for her until she marries a man other than her husband”. This statement is like the tradition which deals with the exchange of money. In this tradition the narrator said “Ibn ‘Abbas withdrew his opinion.””


25

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ، وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ رَجُلاً، يُقَالُ لَهُ أَبُو الصَّهْبَاءِ كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لاِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا قَالَ أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ ‏.‏

طاؤس سے روایت ہے کہایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا : ہاں کیوں نہیں ؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا ، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا ، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎ ۔

Tawus said A man called Abu Al Sahba used to ask Ibn ‘Abbas questions frequently. He asked “Do you know that when a man divorced his wife by three pronouncement before sexual intercourse with her, they (the people) made it a single divorce during the time of the Apostle of Allaah(ﷺ), of Abu Bakr and in the early phase of the caliphate of ‘Umar?” Ibn “Abbas said “Yes, when a man divorced his wife by three pronouncement before sexual intercourse they made it a single divorce during the time of the Apostle of Allaah(ﷺ), of Abu Bakr and in the early phase of the caliphate of ‘Umar. When he saw that the people frequently divorced (by three pronouncements) he said “Make them operative on them (i.e., on women)”.


26

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ أَتَعْلَمُ إِنَّمَا كَانَتِ الثَّلاَثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ وَثَلاَثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَعَمْ ‏.‏

طاؤس سے روایت ہے کہابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا : ہاں ۱؎ ۔

Tawus said:Abu al-Sahba’ said to Ibn Abbas: Do you know that a divorce by three pronouncements was made a single one during the time of the Prophet (ﷺ), and of AbuBakr and in the early days of the caliphate of Umar? He replied: Yes.


27

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‏”‏ ‏.‏

علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہمیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اسی کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے مانی جائے گی ، اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی “ ۔

‘Umar bin Al Khattab reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Actions are to be judged only by intentions and a man will have only what he intended. When one’s emigration is to Allaah and His Apostle, his emigration is to Allaah and His Apostle but his emigration is to a worldly end at which he aims or to a woman whom he marries , his emigration is to that for which he emigrated.


28

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالاَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، – وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ – قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍفَسَاقَ قِصَّتَهُ فِي تَبُوكَ قَالَ حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْتِي فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ قَالَ لاَ بَلِ اعْتَزِلْهَا فَلاَ تَقْرَبَنَّهَا ‏.‏ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِي الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِي هَذَا الأَمْرِ ‏.‏

عبداللہ بن کعب بن مالک ( جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے ) کہتے ہیں کہمیں نے ( اپنے والد ) کعب بن مالک سے سنا ، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو ، میں نے پوچھا : کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ ، چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا : تم اپنے میکے چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ نہ فرما دے وہیں رہنا ۔

‘Abd Allah bin Ka’b reported “I heard Ka’ab bin Malik. He then narrated his story about the battle of Tabuk.(Narrating the story) he added “When forty out of fifty days passed”, the messenger of the Apostle of Allaah(ﷺ) came and said “The Apostle of Allaah(ﷺ) has commanded you to keep away from your wife. He said “So, I (Ka’b bin Malik)” said “Should I divorce her or what should I do? He said “No, but only keep away from her and do not go near her”. So, I said to my wife “Go to your people and live with them until Allaah, the exalted makes a decision in this matter.”


29

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاخْتَرْنَاهُ فَلَمْ يَعُدَّ ذَلِكَ شَيْئًا ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ( اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا ) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا ، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎ ۔

A’ishah said The Apostle of Allaah(ﷺ) gave us our choice and we chose him so that was not reckoned anything (i.e., divorce)


3

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُعَرِّفٌ، عَنْ مُحَارِبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَا أَحَلَّ اللَّهُ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلاَقِ ‏”‏ ‏.‏

محارب کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں “ ۔

Narrated Muharib:

The Prophet (ﷺ) said: Allah did not make anything lawful more abominable to Him than divorce.


30

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ قُلْتُ لأَيُّوبَ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ بِقَوْلِ الْحَسَنِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ ‏.‏ قَالَ لاَ إِلاَّ شَىْءٌ حَدَّثَنَاهُ قَتَادَةُ عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِنَحْوِهِ قَالَ أَيُّوبُ فَقَدِمَ عَلَيْنَا كَثِيرٌ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ مَا حَدَّثْتُ بِهَذَا قَطُّ فَذَكَرْتُهُ لِقَتَادَةَ فَقَالَ بَلَى وَلَكِنَّهُ نَسِيَ ‏.‏

حماد بن زید کہتے ہیں کہمیں نے ایوب سے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا : نہیں ، مگر وہی روایت ہے جسے ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابوسلمہ سے ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے ۔ ایوب کہتے ہیں : تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا ، وہ بولے : میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی ، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے ۔

Hammad ibn Zayd said:I asked Ayyub: Do you know anyone who narrates the tradition narrated by Al-Hasan about uttering the words (addressing wife). “Your matter is in your hand”? He replied: No, except something similar transmitted by Qatadah from Kathir, the client of Samurah, from AbuSalamah on the authority of AbuHurayrah from the Prophet (ﷺ). Ayyub said: Kathir then came to us; so I asked him (about this matter). He replied: I never narrated it. I mentioned it to Qatadah who said: Yes (he narrated it) but he forgot.


31

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ ‏.‏ قَالَ ثَلاَثٌ ‏.‏

حسن سے«أمرك بيدك» کے سلسلہ میں مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہو گی ۱؎ ۔

Qatadah reported on the authority of Al Hasan the uttering of the words “Your matter is in your hand” amounts to three pronouncements of divorce.


32

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، – فِي آخَرِينَ – قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي، مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِذَلِكَ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلاَّ وَاحِدَةً ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلاَّ وَاحِدَةً ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ رُكَانَةُ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلاَّ وَاحِدَةً ‏.‏ فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَوَّلُهُ لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ وَآخِرُهُ لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ ‏.‏

نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہرکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ۱؎ ( قطعی طلاق ) دے دی ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا : اللہ کی قسم ! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی ؟ “ رکانہ نے کہا : قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی ، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۔

Nafi’ bun Ujair bin Abd Yazid bin Ruknah reported Ruknah bin ‘Abd Yazid divorced his wife Suhaimah absolutely. The Prophet (ﷺ) was informed about this matter. He said to him (the Prophet) I swear by Allaah that I meant it to be only a single utterance of divorce. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “I swear by Allaah that I meant it to be only a single divorce. The Apostle of Allaah(ﷺ) restored her to him, Then he divorced her the second time in the time of ‘Umar and the third time of ‘Uthman.

Abu Dawud said “This tradition contains the words of Ibrahim in its beginning and the words of Ibn Al Sarh in the end.


33

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَهُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي عَمِّي، مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ رُكَانَةَ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذَا الْحَدِيثِ ‏.‏

اس سند سے بھیرکانہ بن عبد یزید سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Rukanah bin Yazid from the Prophet (ﷺ) through a different chain of narrators.


34

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَا أَرَدْتَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَاحِدَةً ‏.‏ قَالَ ‏”‏ آللَّهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ آللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا لأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‏.‏

رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا : ” تم نے کیا نیت کی تھی ؟ “ انہوں نے کہا : ایک کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہو گا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع ( جو ایک مجہول ہے ) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، ( دیکھئیے حدیث نمبر : ۲۰۹۶ )

‘Ali b. Yazid b. Rukanah reported on the authority of his father from his grandfather that he (Rukanah) divorced his wife absolutely; so he came to the Messenger of Allah (ﷺ). He asked (him):What did you intend? He said: A single utterance of divorce. He said: Do you swear by Allah? He replied: I swear by Allah. He said: It stands as you intended.

Abu Dawud said: This tradition is sounder than that of Ibn Juraij that Rukanah divorced his wife by three pronouncements, for they are the members of his family and they are more aware for him. The tradition of Ibn Juraij has been narrated by some children of Abu Rafi’ from ‘Ikrimah on the authority of Ibn ‘Abbas.


35

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي عَمَّا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ وَبِمَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے ، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Prophet (ﷺ) as saying “Allah has ignored for my community what comes to their mind, so long as they do not act or pronounce words to that effect.”


36

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، وَخَالِدٌ الطَّحَّانُ، – الْمَعْنَى – كُلُّهُمْ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلاً، قَالَ لاِمْرَأَتِهِ يَا أُخَيَّةُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أُخْتُكَ هِيَ ‏”‏ ‏.‏ فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ ‏.‏

ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن ! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ تیری بہن ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ۱؎ ۔

Narrated Tamimah al-Hujayni:

A man said to his wife: O my younger sister! The Messenger of Allah (ﷺ)said: Is she your sister? He (the Prophet disliked it and prohibited saying so.


37

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ، – يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ – عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ قَوْمِهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمِعَ رَجُلاً، يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ ‏ “‏ يَا أُخَيَّةُ ‏”‏ ‏.‏ فَنَهَاهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابو تمیمہ سے روایت ہے ، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن ! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے ، نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اور ابو تمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے ۔

Abu Tamimah reported from a man of his tribe “The Prophet (ﷺ) heard a man say his wife “O my younger sister! So he prohibited him (addressing his wife in this manner)

Abu Dawud said “This tradition has also been transmitted by ‘Abd Al Aziz bin Al Mukhtar from Khalid from Abu ‘Uthman from Abu Thamimah from the Prophet (ﷺ). This has also been narrated by Shu’bah from Khalid from a man on the authority of Abu Thamimah from the Prophet (ﷺ).


38

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلاَّ ثَلاَثًا ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى قَوْلُهُ ‏{‏ إِنِّي سَقِيمٌ ‏}‏ وَقَوْلُهُ ‏{‏ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا ‏}‏ وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلاً فَأُتِيَ الْجَبَّارُ فَقِيلَ لَهُ إِنَّهُ نَزَلَ هَا هُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ إِنَّهَا أُخْتِي ‏.‏ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا قَالَ إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلاَ تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ ‏”‏ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے ، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی ، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے ، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا : ” یہ تو میری بہن ہے “ ، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو ، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا “ ، اور پھر پوری حدیث بیان کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے ، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت کی ہے ۔

Abu Hurairah reported the Prophet(ﷺ) as saying Abraham(peace be upon him) never told a lie except on three occasions twice for the sake of Allaah. Allaah quoted his words (in the Qur’an) “I am indeed sick” and “Nay, this was done by – this is their biggest one”. Once he was passing through the land of a tyrant (king). He stayed there in a place. People went to the tyrant and informed him saying “A man has come down here; he has a most beautiful woman with him.” So he sent for him (Abraham) and asked about her. He said she is my sister. When he returned to her, he said “he asked me about you and I informed him that you were my sister. Today there is no believer except me and you. You are my sister in the Book of Allaah (i.e., sister in faith). So do not belie me before him. The narrator then narrated the rest of the tradition.

Abu Dawud said “A similar tradition has also been narrated by Shu’aib bin Abi Hamza from Abi Al Zinad from Al A’raj on the authority of Abu Hurairah from the Prophet (ﷺ).


39

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، – قَالَ ابْنُ الْعَلاَءِ ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ – عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، – قَالَ ابْنُ الْعَلاَءِ الْبَيَاضِيِّ – قَالَ كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لاَ يُصِيبُ غَيْرِي فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنَ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي حَتَّى أُصْبِحَ فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَىْءٌ فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ وَقُلْتُ امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالُوا لاَ وَاللَّهِ ‏.‏ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ‏”‏ أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ وَأَنَا صَابِرٌ لأَمْرِ اللَّهِ فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ قَالَ ‏”‏ حَرِّرْ رَقَبَةً ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي قَالَ ‏”‏ فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَهَلْ أُصِبْتُ الَّذِي أُصِبْتُ إِلاَّ مِنَ الصِّيَامِ قَالَ ‏”‏ فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ قَالَ ‏”‏ فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا ‏”‏ ‏.‏ فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي فَقُلْتُ وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْىِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْىِ وَقَدْ أَمَرَنِي – أَوْ أَمَرَ لِي – بِصَدَقَتِكُمْ زَادَ ابْنُ الْعَلاَءِ قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ ‏.‏

سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہلوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا ، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا ۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا ، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا ، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں ، وہ کہنے لگے : اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا تو میں خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری بات بتائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سلمہ ! تم نے ایسا کیا ؟ “ میں نے جواب دیا : ہاں اللہ کے رسول ، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی ، دو بار اس طرح کہا ، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں ، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سجھائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک گردن آزاد کرو “ ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو “ ، میں نے کہا : میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ “ ، میں نے جواب دیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے ، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا ، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا “ ، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا : مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے ۔

Narrated Salamah ibn Sakhr al-Bayadi:

I was a man who was more given than others to sexual intercourse with women. When the month of Ramadan came, I feared lest I should have intercourse with my wife, and this evil should remain with me till the morning. So I made my wife like my mother’s back to me till the end of Ramadan. But one night when she was waiting upon me, something of her was revealed. Suddenly I jumped upon her. When the morning came I went to my people and informed them about this matter.

I said: Go along with me to the Messenger of Allah (ﷺ).

They said: No, by Allah. So I went to the Prophet (peace be upon him and informed him of the matter.

He said: Have you really committed it, Salamah? I said: I committed it twice, Messenger of Allah. I am content with the Commandment of Allah, the Exalted; so take a decision about me according to what Allah has shown you.

He said: Free a slave. I said: By Him Who sent you with truth, I do not possess a neck other than this: and I struck the surface of my neck.

He said: Then fast two consecutive months. I said: Whatever I suffered is due to fasting.

He said: Feed sixty poor people with a wasq of dates.

I said: By Him Who sent you with truth, we passed the night hungry; there was no food in our house.

He said: Then go to the collector of sadaqah of Banu Zurayq; he must give it to you. Then feed sixty poor people with a wasq of dates; and you and your family eat the remaining dates. Then I came back to my people, and said (to them): I found with you poverty and bad opinion; and I found with the Prophet (ﷺ) prosperity and good opinion. He has commanded me to give alms to you.

Ibn al-Ala’ added: Ibn Idris said: Bayadah is a sub-clan of Banu Zurayq.


4

حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أَبْغَضُ الْحَلاَلِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلاَقُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںآپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Prophet (ﷺ) said: Of all the lawful acts the most detestable to Allah is divorce.


40

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ، عَنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَتْ ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَشْكُو إِلَيْهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُجَادِلُنِي فِيهِ وَيَقُولُ ‏”‏ اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ ‏”‏ ‏.‏ فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ ‏{‏ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا ‏}‏ إِلَى الْفَرْضِ فَقَالَ ‏”‏ يُعْتِقُ رَقَبَةً ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ لاَ يَجِدُ قَالَ ‏”‏ فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ مَا عِنْدَهُ مِنْ شَىْءٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ قَالَتْ فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ قَدْ أَحْسَنْتِ اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَالْعَرَقُ سِتُّونَ صَاعًا قَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي هَذَا إِنَّهَا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْتَأْمِرَهُ ‏.‏ وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا أَخُو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ‏.‏

خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہمیرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے : ” اللہ سے ڈر ، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے “ ، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی : «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» ” اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی “ ( سورۃ المجادلہ : ۱ ) ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ ایک گردن آزاد کریں “ ، کہنے لگیں : ان کے پاس نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں “ ، کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! وہ بوڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں “ ، کہنے لگیں : ان کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ کہتی ہیں : اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آ گئی ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ( آپ یہ دے دیجئیے ) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے ٹھیک ہی کہا ہے ، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو ، اور اپنے چچا زاد بھائی ( یعنی شوہر ) کے پاس لوٹ جاؤ “ ۔ راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں ۔

Narrated Khuwaylah, daughter of Malik ibn Tha’labah:

My husband, Aws ibn as-Samit, pronounced the words: You are like my mother. So I came to the Messenger of Allah (ﷺ), complaining to him about my husband.

The Messenger of Allah (ﷺ) disputed with me and said: Remain dutiful to Allah; he is your cousin.

I continued (complaining) until the Qur’anic verse came down: “Certainly has Allah heard the speech of the one who argues with you, [O Muhammad], concerning her husband…” [58:1] till the prescription of expiation.

He then said: He should set free a slave. She said: He cannot afford it. He said: He should fast for two consecutive months. She said: Messenger of Allah, he is an old man; he cannot keep fasts. He said: He should feed sixty poor people. She said: He has nothing which he may give in alms. At that moment an araq (i.e. date-basket holding fifteen or sixteen sa’s) was brought to him.

I said: I shall help him with another date-basked (‘araq). He said: You have done well. Go and feed sixty poor people on his behalf, and return to your cousin. The narrator said: An araq holds sixty sa’s of dates.

Abu Dawud said: She atoned on his behalf without seeking his permission.

Abu Dawud said: This man (Aws b. al-Samit) is the brother of ‘Ubadah b. al-Samit.


41

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ وَالْعَرَقُ مِكْتَلٌ يَسَعُ ثَلاَثِينَ صَاعًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ ‏.‏

اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ«عرق» ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آتی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے ۔

A similar tradition has been transmitted by Ibn Ishaq with a different chain of narrators. But in this version he said ‘Araq is a date-basket holding thirty sa’s.

Abu Dawud said “This version is sounder than that of Yahya bin Adam.”


42

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ يَعْنِي بِالْعَرَقِ زَنْبِيلاً يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا ‏.‏

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ«عرق» سے مراد ایسی زنبیل ہے جس میں پندرہ صاع کھجوریں آ جائیں ۔

Another version transmitted by Abu Salamah bin ‘Abd Al Rahman has ‘Araq is a date-basket holding fifteen sa’s.


43

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِتَمْرٍ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا قَالَ ‏”‏ تَصَدَّقْ بِهَذَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كُلْهُ أَنْتَ وَأَهْلُكَ ‏”‏ ‏.‏

سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہےاس میں ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں ، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہیں صدقہ کر دو “ ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اور تمہارے گھر والے ہی انہیں کھا لو “ ۔

The tradition mentioned above has been transmitted by Sulaiman bin Yasar. This version has “Then some dates were brought to the Apostle of Allaah(ﷺ) and he gave it him. They measured about fifteen sa’s “. He said “Give them in alms”. He said “Is there anyone needier than I and my family. Apostle of Allaah(ﷺ)?” The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Eat them, you and your family.”


44

قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَرَأْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ وَزِيرٍ الْمِصْرِيِّ قُلْتُ لَهُ حَدَّثَكُمْ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، عَنْ أَوْسٍ، أَخِي عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَعْطَاهُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ إِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَعَطَاءٌ لَمْ يُدْرِكْ أَوْسًا وَهُوَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَدِيمُ الْمَوْتِ وَالْحَدِيثُ مُرْسَلٌ وَإِنَّمَا رَوَوْهُ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّ أَوْسًا ‏.‏

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پندرہ صاع جو دی تاکہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عطا نے اوس کو نہیں پایا ہے اور وہ بدری صحابی ہیں ان کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا ، لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے ، اور لوگوں نے اسے اوزاعی سے اوزاعی نے عطاء سے روایت کیا اس میں «عن أوس» کے بجائے «أوسا» ہے ۔

Abu Dawud said “I recited to Muhammad bin Wazir Al Misri and said to him Bishr bin Bakr narrated it to you and Al Auza’i narrated it to us. And he said “At’a narrated it to us on the authority of Aus brother of ‘Ubadah bin Al Samit. The Prophet (ﷺ) gave him fifteen sa’s of wheat to feed sixty poor people.

Abu Dawud said At’a did not meet Aws (bin Al Samit) who was one of the people of Badr and died in the early days of Islam. This version is therefore, mursal (i.e., a successor narrated it directly from the Prophet (ﷺ), the link of the Companions is missing). This has been narrated by Al Auza’i from At’a from Aus.


45

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَنَّ جَمِيلَةَ، كَانَتْ تَحْتَ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ وَكَانَ رَجُلاً بِهِ لَمَمٌ فَكَانَ إِذَا اشْتَدَّ لَمَمُهُ ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ كَفَّارَةَ الظِّهَارِ ‏.‏

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہجمیلہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، اور وہ عورتوں کے دیوانے تھے جب ان کی دیوانگی بڑھ جاتی تو وہ اپنی عورت سے ظہار کر لیتے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں کے متعلق ظہار کے کفارے کا حکم نازل فرمایا ۔

Narrated Hisham b. ‘Urwah:

Khawlah was the wife of Aws ibn as-Samit; he was a man immensely given to sexual intercourse. When his desire for intercourse was intensified, he made his wife like his mother’s back. So Allah, the Exalted, sent down Qur’anic verses relating to expiation for zihar.


46

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، مِثْلَهُ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھیاسی کے مثل مروی ہے ۔

A similar tradition has been transmitted by A’ishah through a different chain of narrators.


47

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلاً، ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ ‏”‏ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقَيْهَا فِي الْقَمَرِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ ‏”‏ ‏.‏

عکرمہ سے روایت ہے کہایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا ، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ “ اس نے کہا : چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کر دو “ ۔

Narrated Ikrimah:

A man made his wife like the back of his mother. He then had intercourse with her before he atoned for it. He came to the Prophet (ﷺ) and informed him of this matter. He asked (him): What moved you to the action you have committed? He replied: I saw the whiteness of her shins in moon light. He said: Keep away from her until you expiate for your deed.


48

حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلاً، ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ فَرَأَى بَرِيقَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ ‏.‏

عکرمہ سے روایت ہے کہایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا ، پھر اس نے چاندنی میں اس کی پنڈلی کی چمک دیکھی ، تو اس سے صحبت کر بیٹھا ، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا ۔

‘Ikrimah said “A man made his wife like the back of his mother. When he saw the illumination of her shin in the moonlight, he had intercourse with her. He came to the Prophet (ﷺ). He ordered him to atone for it.


49

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرِ السَّاقَ ‏.‏

اس سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اسی طرح روایت ہےلیکن اس میں پنڈلی کا ذکر نہیں ہے ۔

A similar tradition has been transmitted by Ibn ‘Abbas from the Prophet (ﷺ) through a different chain of narrators. This version does not mention the word “shin”.


5

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ، پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے ، پھر حیض آ جائے ، پھر پاک ہو جائے ، پھر اس کے بعد اگر چاہے تو رکھے ، ورنہ چھونے سے پہلے طلاق دیدے ، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں حکم دیا ہے ۱؎ “ ۔

‘Abd Allah bin Umar said that he divorced his wife while she was menstruating during the time of the Apostle of Allaah(ﷺ). So ‘Umar bin Al Khattab asked the Apostle of Allaah(ﷺ) about this matter. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Order him, he must take her back and keep her back till she is purified, then has another menstrual period and is purified. Thereafter if he desires he may divorce her before having intercourse with her, for that is the period of waiting which Allaah the Glorified has commanded for the divorce of women.”


50

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنِي مُحَدِّثٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِنَحْوِ حَدِيثِ سُفْيَانَ ‏.‏

اس سند سے بھی عکرمہ سےسفیان کی حدیث ( نمبر : ۲۲۲۱ ) کی طرح روایت ہے ۔

A tradition similar to that of Sufyan has been transmitted by ‘Ikrimah from the Prophet(ﷺ) through a different chain of narrators.


51

قَالَ أَبُو دَاوُدَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عِيسَى، يُحَدِّثُ بِهِ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ، يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ عَنْ عِكْرِمَةَقَالَ أَبُو دَاوُدَ كَتَبَ إِلَىَّ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے ، وہ کہتے ہیںہم سے معتمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسیٰ نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن ابان سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں ۔

Abu Dawud said “I heard Muhammad bin Isa narrating this tradition who said Mu’tamar narrated it to us. And he (Mu’tamar) said “ I heard Al Hakam bin Aban narrating this tradition. He did not mention the name of Ibn ‘Abbas.

Abu Dawud said “Al Hussain bin Huraith wrote to me saying “Al Fadl bin Musa narrated from Ibn ‘Abbas to the same effect from the Prophet(ﷺ).


52

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ ‏”‏ ‏.‏

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے “ ۔

Narrated Thawban:

The Prophet (ﷺ) said: If any woman asks her husband for divorce without some strong reason, the odour of Paradise will be forbidden to her.


53

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ هَذِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَتْ أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ مَا شَأْنُكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ لاَ أَنَا وَلاَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ ‏.‏ لِزَوْجِهَا فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ ‏”‏ ‏.‏ وَذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ وَقَالَتْ حَبِيبَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ ‏”‏ خُذْ مِنْهَا ‏”‏ ‏.‏ فَأَخَذَ مِنْهَا وَجَلَسَتْ هِيَ فِي أَهْلِهَا ‏.‏

حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہوہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، ایک بار کیا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے لیے نکلے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے پر پایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کون ہے ؟ “ بولیں : میں حبیبہ بنت سہل ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا بات ہے ؟ “ وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس کے متعلق بولیں کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا ، پھر جب ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں جنہیں اللہ نے چاہا ذکر کی ہیں “ ، حبیبہ کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! انہوں نے جو کچھ مجھے ( مہر وغیرہ ) دیا تھا وہ سب میرے پاس ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے کہا : ” اس ( مال ) میں سے لے لو “ ، تو انہوں نے اس میں سے لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھی رہیں ۱؎ ۔

Amrah, daughter of ‘Abd al-Rahman ibn Sa’d ibn Zurarah, reported on the authority of Habibah, daughter of Sahl al-Ansariyyah:She (Habibah) was the wife of Thabit ibn Qays ibn Shimmas. The Messenger of Allah (ﷺ) came out one morning and found Habibah by his door.

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Who is this? She replied: I am Habibah, daughter of Sahl. He asked: What is your case? She replied: I and Thabit ibn Qays, referring to her husband, cannot live together.

When Thabit ibn Qays came, the Messenger of Allah (ﷺ) said to him: This is Habibah, daughter of Sahl, and she has mentioned (about you) what Allah wished to mention.

Habibah said: Messenger of Allah, all that he gave me is with me.

The Messenger of Allah (ﷺ) said to Thabit ibn Qays: Take it from her. So he took it from her, and she lived among her people (relatives).


54

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو السَّدُوسِيُّ الْمَدِينِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ، كَانَتْ عِنْدَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ فَضَرَبَهَا فَكَسَرَ بَعْضَهَا فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الصُّبْحِ فَاشْتَكَتْهُ إِلَيْهِ فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ثَابِتًا فَقَالَ ‏”‏ خُذْ بَعْضَ مَالِهَا وَفَارِقْهَا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ وَيَصْلُحُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَإِنِّي أَصْدَقْتُهَا حَدِيقَتَيْنِ وَهُمَا بِيَدِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ خُذْهُمَا فَفَارِقْهَا ‏”‏ ‏.‏ فَفَعَلَ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہحبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان کو ان کے شوہر نے اتنا مارا کہ کوئی عضو ٹوٹ گیا ، وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان کی شکایت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلوایا ، اور کہا کہ تم اس سے کچھ مال لے کر اس سے الگ ہو جاؤ ، ثابت نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، وہ بولے ، میں نے اسے دو باغ مہر میں دیئے ہیں یہ ابھی بھی اس کے پاس موجود ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہیں لے لو اور اس سے جدا ہو جاؤ “ ، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

Habibah daughter of Sahl was the wife of Thabit ibn Qays Shimmas He beat her and broke some of her part. So she came to the Prophet (ﷺ) after morning, and complained to him against her husband. The Prophet (ﷺ) called on Thabit ibn Qays and said (to him): Take a part of her property and separate yourself from her. He asked: Is that right, Messenger of Allah? He said: Yes. He said: I have given her two gardens of mine as a dower, and they are already in her possession. The Prophet (ﷺ) said: Take them and separate yourself from her.


55

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ، ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْهُ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عِدَّتَهَا حَيْضَةً ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُرْسَلاً ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع کر لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے عمرو بن مسلم سے عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The wife of Thabit ibn Qays separated herself from him for a compensation. The Prophet (ﷺ) made her waiting period a menstrual course.

Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by ‘Abd al-Razzaq from Ma’mar from ‘Amr b. Muslim from ‘Ikrimah from the Prophet (ﷺ) in a mursal form (i.e. missing the link of the Companion).


56

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہخلع کرانے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے ۔

Ibn ‘Umar said “The waiting period of a woman who separates herself from her husband for compensation is a menstrual period.”


57

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مُغِيثًا، كَانَ عَبْدًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْفَعْ لِي إِلَيْهَا ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا بَرِيرَةُ اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّهُ زَوْجُكِ وَأَبُو وَلَدِكِ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي بِذَلِكَ قَالَ ‏”‏ لاَ إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ ‏”‏ ‏.‏ فَكَانَ دُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى خَدِّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلْعَبَّاسِ ‏”‏ أَلاَ تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَبُغْضِهَا إِيَّاهُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہمغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! اس سے میری سفارش کر دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بریرہ ! اللہ سے ڈرو ، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے “ کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں “ مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ” کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفرت سے تعجب نہیں ہو رہا ہے ؟ “ ۔

Ibn ‘Abbas said “Mughith was a slave.” He said “Apostle of Allaah (ﷺ) make intercession for me to her (Barirah)”. The Apostle of Allaah (ﷺ) said “O Barirah fear Allaah. He is your husband and father of your child”. She said “Apostle of Allaah (ﷺ) do you command me for that? He said No, I am only interceding. Then tears were falling down on his (her husband’s) cheeks. The Apostle of Allaah (ﷺ) said to ‘Abbas “Are you not surprised with the love of Mughith for Barirah and her hatred for him.”


58

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ زَوْجَ، بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُسَمَّى مُغِيثًا فَخَيَّرَهَا – يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم – وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہبریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث رضی اللہ عنہ تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا ) اختیار دیا اور ( نہ رہنے کی صورت میں ) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا ۔

Ibn ‘Abbas said “The husband of Barirah was a black slave called Mughith. The Prophet (ﷺ) gave her choice and commanded her to observe the waiting period.”


59

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ قَالَتْ كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہاس کا شوہر غلام تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو ( آزاد ہونے کے بعد ) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا ، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے ( بریرہ کو ) اختیار نہ دیتے ۔

While relating the tradition about Barirah A’ishah said “her husband was a slave, so the Prophet(ﷺ) gave her choice. She chose herself. Had he been a free man, he would not given her choice.”


6

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ ‏.‏

نافع سے روایت ہے کہابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی ایک عورت کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی ، آگے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت ہے ۔

The aforesaid tradition has also been transmitted by Nafi’ through a different chain of narrators. This version says Ibn ‘Umar divorced a wife of his while she was menstruating pronouncing one divorce. He then narrated the rest of the tradition similar to the one narrated by Malik.


60

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَالْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ بَرِيرَةَ، خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا اس کا شوہر غلام تھا ۔

A’ishah said “The Prophet (ﷺ) gave her choice. Her husband was a slave.”


61

حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ زَوْجَ، بَرِيرَةَ كَانَ حُرًّا حِينَ أُعْتِقَتْ وَأَنَّهَا خُيِّرَتْ فَقَالَتْ مَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ مَعَهُ وَإِنَّ لِي كَذَا وَكَذَا ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہجس وقت بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد ہوئی اس وقت اس کا شوہر آزاد ۱؎ تھا ، اسے اختیار دیا گیا ، تو اس نے کہا کہ اگر مجھے اتنا اتنا مال بھی مل جائے تب بھی میں اس کے ساتھ رہنا پسند نہ کروں گی ۔

A’ishah said “Barirah’s husband was a free man when she was emancipated. She was given choice. She said “I do not like to remain with him. I have such and such (grievances)”


62

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، وَعَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ بَرِيرَةَ، أُعْتِقَتْ وَهِيَ عِنْدَ مُغِيثٍ – عَبْدٍ لآلِ أَبِي أَحْمَدَ – فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ لَهَا ‏ “‏ إِنْ قَرِبَكِ فَلاَ خِيَارَ لَكِ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہبریرہ رضی اللہ عنہا آزاد کی گئی اس وقت وہ آل ابواحمد کے غلام مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا اور اس سے کہا : ” اگر اس نے تجھ سے صحبت کر لی تو پھر تجھے اختیار حاصل نہیں رہے گا “ ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

Barirah was emancipated, and she was the wife of Mughith, a slave of Aal AbuAhmad. The Messenger of Allah (ﷺ) gave her choice, and said to her: If he has intercourse with you, then there is no choice for you.


63

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَعْتِقَ، مَمْلُوكَيْنِ لَهَا زَوْجٌ قَالَ فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَبْدَأَ بِالرَّجُلِ قَبْلَ الْمَرْأَةِ ‏.‏ قَالَ نَصْرٌ أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہانہوں نے اپنے لونڈی غلام کے ایک جوڑے کو آزاد کرنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ عورت سے پہلے مرد کو آزاد کریں ۔

Al-Qasim said:Aisha intended to set free two slaves of her who were spouses. She, therefore, asked the Prophet (ﷺ) about this matter. He commanded to begin with the man before the woman. The narrator Nasr said: Abu ‘Ali al-Hanafi reported it to me on the authority of Ubaydullah.


64

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً، جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً بَعْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي ‏.‏ فَرَدَّهَا عَلَيْهِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی ، تو اس نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی ہے تو آپ اسے میرے پاس لوٹا دیجئیے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

A man came after embracing Islam during the time of the Messenger of Allah (ﷺ). Afterwards his wife came after embracing Islam. He said: Messenger of Allah, she embraced Islam along with me; so restore her to me.


65

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَزَوَّجَتْ فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ وَعَلِمَتْ بِإِسْلاَمِي فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ زَوْجِهَا الآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الأَوَّلِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت مسلمان ہو گئی اور اس نے نکاح بھی کر لیا ، اس کے بعد اس کا شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں اسلام لے آیا تھا اور اسے میرے اسلام لانے کا علم تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شوہر سے اسے چھین کر اس کے پہلے شوہر کو لوٹا دیا ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

A woman embraced Islam during the time of the Messenger of Allah (ﷺ); she then married. Her (former) husband then came to the Prophet (ﷺ) and said: Messenger of Allah, I have already embraced Islam, and she had the knowledge about my Islam. The Messenger of Allah (ﷺ) took her away from her latter husband and restored her to her former husband.


66

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، – الْمَعْنَى – كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بِالنِّكَاحِ الأَوَّلِ لَمْ يُحْدِثْ شَيْئًا ‏.‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فِي حَدِيثِهِ بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بَعْدَ سَنَتَيْنِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا ۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا : دو سال کے بعد ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) restored his daughter Zaynab to Abul’As on the basis of the previous marriage, and he did not do anything afresh.

Muhammad b. ‘Amr said in his version: After six years. Al-Hasan b. ‘Ali said: After two years.


67

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ، – قَالَ مُسَدَّدٌ ابْنِ عُمَيْرَةَ ‏.‏ وَقَالَ وَهْبٌ الأَسَدِيِّ – قَالَ أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانُ نِسْوَةٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدَّثَنَا بِهِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ قَيْسُ بْنُ الْحَارِثِ مَكَانَ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الصَّوَابُ ‏.‏ يَعْنِي قَيْسَ بْنَ الْحَارِثِ ‏.‏

حارث بن قیس اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیںمیں نے اسلام قبول کیا ، میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں تو میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان میں سے چار کا انتخاب کر لو ( اور باقی کو طلاق دے دو ) “ ۔

Narrated Al-Harith ibn Qays al-Asadi:

I embraced Islam while I had eight wives. So I mentioned it to the Prophet (ﷺ). The Prophet (said) said: Select four of them.

Abu Dawud said: This tradition has also been narrated to us by Ahmad b. Ibrahim from Hushaim. He said: Qais b. al-Harith instead of al-Harith b. Qais. Ahmad b. Ibrahim said: This is correct, i.e. Qais b. al-Harith.


68

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَاضِي الْكُوفَةِ عَنْ عِيسَى بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ، بِمَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھی قیس بن حارث رضی اللہ عنہ سےاسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Qais bin Al Harith through a different chain of narrators to the same effect.


69

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ طَلِّقْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ ‏”‏ ‏.‏

فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو “ ۔

Al-Dahhak b. Firuz reported on the authority of his father:I said: Messenger of Allah, I have embraced Islam and two sisters are my wives. He said: Divorce any one of them you wish.


7

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ أَوْ وَهِيَ حَامِلٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہانہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے پھر جب وہ پاک ہو جائے یا حاملہ ہو تو اسے طلاق دے ۱؎ “ ۔

Ibn ‘Umar said that he divorced his wife while she was menstruating. ‘Umar mentioned the matter to the Prophet(ﷺ). He (the Prophet) said “Order him, he must take her back and divorce her when she is purified (from menstrual discharge) or she is pregnant.”


70

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، رَافِعِ بْنِ سِنَانٍ أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتِ ابْنَتِي وَهِيَ فَطِيمٌ أَوْ شِبْهُهُ وَقَالَ رَافِعٌ ابْنَتِي ‏.‏ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اقْعُدْ نَاحِيَةً ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ لَهَا ‏”‏ اقْعُدِي نَاحِيَةً ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَأَقْعَدَ الصَّبِيَّةَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ قَالَ ‏”‏ ادْعُوَاهَا ‏”‏ ‏.‏ فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أُمِّهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اللَّهُمَّ اهْدِهَا ‏”‏ ‏.‏ فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أَبِيهَا فَأَخَذَهَا ‏.‏

رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے اسلام قبول کر لیا ، لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اور آپ کے پاس آ کر کہنے لگی : بیٹی میری ہے ( اسے میں اپنے پاس رکھوں گی ) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا ، یا چھوٹنے والا تھا ، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے ( اسے میں اپنے پاس رکھوں گا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لیے فرمایا ، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا ، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لیے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ اسے ہدایت دے “ ، چنانچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو انہوں نے اسے لے لیا ۱؎ ۔

‘Abd al-Hamid ibn Ja’far reported from his father on the authority of his grandfather Rafi’ ibn Sinan that he (Rafi’ ibn Sinan) embraced Islam and his wife refused to embrace Islam. She came to the Prophet (ﷺ) and said:My daughter; she is weaned or about to wean. Rafi’ said: My daughter. The Prophet (ﷺ) said to him: Be seated on a side. And he said to her: Be seated on a side. He then seated the girl between them, and said to them: Call her. The girl inclined to her mother. The Prophet (ﷺ) said: O Allah! guide her. The daughter then inclined to her father, and he took her.


71

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ الْعَجْلاَنِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ لَهُ يَا عَاصِمُ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ ‏.‏ فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ لَهُ يَا عَاصِمُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ عَاصِمٌ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا ‏.‏ فَقَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا ‏.‏ فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ قُرْآنٌ فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ سَهْلٌ فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا ‏.‏ فَطَلَّقَهَا عُوَيْمِرٌ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ ‏.‏

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہعویمر بن اشقر عجلانی ، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے : عاصم ! ذرا بتاؤ ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی ( اجنبی ) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے ، یا وہ کیا کرے ؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو ، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بغیر ضرورت ) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں گزری ، جب عاصم رضی اللہ عنہ گھر لوٹے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا ؟ تو عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں ، میں نے سوال کیا اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا ، وہ سیدھے آپ کے پاس پہنچ گئے اس وقت آپ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے ، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول ! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ( اجنبی ) آدمی کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر آپ لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے ، یا وہ کیا کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آؤ “ ، سہل کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان ۱؎ کیا ، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا ، جب وہ ( لعان سے ) فارغ ہو گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو ( گویا ) میں نے جھوٹ کہا ہے چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : تو یہی ( ان دونوں ) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا ۔

Sahl bin Sa’ad Al Sa’idi said that ‘Uwaimir bin Ashqar Al Ajilani came to ‘Asim bin Adl and said to him “Asim tell me about a man who finds a man along with his wife. Should he kill him and then be killed by you, or how should he act? Ask the Apostle of Allaah(ﷺ) ‘Asim, for me about it. ‘Asim then asked the Apostle of Allaah(ﷺ) about it. The Apostle of Allaah(ﷺ) disliked the question and denounced it. What ‘Asim heard from the Apostle of Allaah(ﷺ) fell heavy on him. When ‘Asim returned to his family ‘Uwaimr came to him and asked ‘Asim “What did the Apostle of Allaah(ﷺ) say to you”? Asim replied “You did not do good to me”. The Apostle of Allaah(ﷺ) disliked the question that I asked him. Thereupon ‘Uwaimir said “I swear by Allaah, I shall not leave until I ask him about it. So, ‘Uwaimir came to the Apostle of Allaah(ﷺ) while he was sitting in the midst of the people.” He said “Apostle of Allaah(ﷺ) tell me about a man who finds a man along with his wife. Should he kill him and then be killed by you, or how should he act?” The Apostle of Allaah(ﷺ) said “A revelation has been sent down about you and your wife so go away and bring her. Sahl said “So we cursed one another while I was along with the people who were with the Apostle of Allaah(ﷺ). Then when they finished, ‘Umamir said “I shall have lied against her, Apostle of Allaah(ﷺ) if I keep her. He pronounced her divorce three times before the Apostle of Allaah(ﷺ)commanded him (to do so).

Ibn Shihab said “Then this became the method of invoking curses.”


72

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ ‏ “‏ أَمْسِكِ الْمَرْأَةَ عِنْدَكَ حَتَّى تَلِدَ ‏”‏ ‏.‏

سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” بچے کی ولادت تک عورت کو اپنے پاس روکے رکھو “ ۔

‘Abbas bin Sahl reported on the authority of his father “The Prophet (ﷺ) said to ‘Asim bin ‘Adl. Keep the woman with you till she begets the child.


73

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ حَضَرْتُ لِعَانَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ فِيهِ ثُمَّ خَرَجَتْ حَامِلاً فَكَانَ الْوَلَدُ يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ ‏.‏

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا ، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ” پھر وہ عورت حاملہ نکلی چنانچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا “ ۔

Sahl bin Sa’d Al Sa’idi said “I attended the invoking of the curses with the Messenger of Allah (ﷺ) when I was fifteen. He then narrated the rest of the tradition. In this version he said “She then came out pregnant and the child was ascribed to its mother.


74

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ، – يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ – عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي خَبَرِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ فَلاَ أُرَاهُ إِلاَّ قَدْ صَدَقَ وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلاَ أُرَاهُ إِلاَّ كَاذِبًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ ‏.‏

لعان والی حدیث میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس عورت پر نظر رکھو اگر بچہ سیاہ آنکھوں والا ، بڑی سرینوں والا ہو تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس ( شوہر ) نے سچ کہا ہے ، اور اگر سرخ رنگ گیرو کی طرح ہو تو میں سمجھتا ہوں کی وہ جھوٹا ہے “ ، چنانچہ اس کا بچہ ناپسندیدہ صفت پر پیدا ہوا ۔

Sahl bin Sa’ad reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying – in the tradition of spouses who invoked curses to each other “Look if she bears a child which has very black eyes, large buttocks, I cannot but imagine that he (i.e., ‘Uwaimir) has spoken the truth. But, if she bears a reddish child like the lizard with red spots (waharah), I cannot imagine that ‘Uwaimir has lied against her. She gave birth to a child (like that described the Prophet (ﷺ) ) in a detestable manner.


75

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ فَكَانَ يُدْعَى – يَعْنِي الْوَلَدَ – لأُمِّهِ ‏.‏

اس سند سے بھی سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہےاس میں ہے : تو اسے یعنی لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Sa’d Al Sa’idi through a different chain of narrators. This version adds the child was attributed to its mother.


76

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيِّ، وَغَيْرِهِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ قَالَ فَطَلَّقَهَا ثَلاَثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سُنَّةً ‏.‏ قَالَ سَهْلٌ حَضَرْتُ هَذَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَضَتِ السُّنَّةُ بَعْدُ فِي الْمُتَلاَعِنَيْنِ أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ لاَ يَجْتَمِعَانِ أَبَدًا ‏.‏

اس سند سے بھی سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہےاس میں ہے : انہوں ( عاصم بن عدی ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ فرما دیا ، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے ۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں موجود تھا ، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہو گیا کہ انہیں جدا کر دیا جائے ، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Sa’d Al Sa’idi through a different chain of narrators. This version has “He divorced her three times before the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah (ﷺ) implemented it and what is done before the Prophet (ﷺ) is sunnah(model behavior of the Prophet).

Sahl said “I attended this before the Messenger of Allah(ﷺ). Afterwards the sunnah about those who invoked curses on each other was established that they (the spouses) were separated from each other and they would never be united.”


77

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ قَالَ شَهِدْتُ الْمُتَلاَعِنَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ تَلاَعَنَا ‏.‏ وَتَمَّ حَدِيثُ مُسَدَّدٍ ‏.‏ وَقَالَ الآخَرُونَ إِنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ فَقَالَ الرَّجُلُ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا – لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ عَلَيْهَا – قَالَ أَبُو دَاوُدَ لَمْ يُتَابِعِ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَحَدٌ عَلَى أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ ‏.‏

سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا ، اور میں پندرہ سال کا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی ، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی ، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ : ” وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ : ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی “ ۔

Sahl bin Sa’ad said “The version of Musaddad has “I witnessed the invoking of curses by the two spouses during the life time of the Apostle of Allaah(ﷺ) when I was fifteen years old. When they finished invoking curses, the Apostle of Allaah(ﷺ) separated them from each other. Here ends the version of Musaddad. Others said “He was present when the Prophet (ﷺ) separated the spouses who invoked curses on each other. The man (Sahl) said “I shall have lied against her, Apostle of Allaah(ﷺ) if I keep her.

Abu Dawud said “Some narrators did not mention the word ‘alaiha(against her).”

Abu Dawud said “No one supported Ibn ‘Uyainah that he separated the spouses who invoked curses.”


78

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَكَانَتْ حَامِلاً فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهَا ‏.‏

اس سند سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہےاس میں ہے کہ : ” وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا ، چنانچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا تھا ، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا “ ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Sa’d through a different chain of narrators. This version has “She was pregnant, he denied pregnancy from him. So her son was attributed to her. In the law of succession the practice (sunnah) was established that the son gets a share in the inheritance of his mother and the mother gets the share in the inheritance of her son according to the shares prescribed by Allaah the Exalted.


79

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ إِنَّا لَلَيْلَةُ جُمْعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً فَتَكَلَّمَ بِهِ جَلَدْتُمُوهُ أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ فَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ وَاللَّهِ لأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً فَتَكَلَّمَ بِهِ جَلَدْتُمُوهُ أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ اللَّهُمَّ افْتَحْ ‏”‏ ‏.‏ وَجَعَلَ يَدْعُو فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ ‏{‏ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ ‏}‏ هَذِهِ الآيَةُ فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَلاَعَنَا فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ قَالَ فَذَهَبَتْ لِتَلْتَعِنَ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَهْ ‏”‏ ‏.‏ فَأَبَتْ فَفَعَلَتْ فَلَمَّا أَدْبَرَا قَالَ ‏”‏ لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا ‏”‏ ‏.‏ فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں ( ایک دفعہ ) جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصار کا ایک شخص مسجد میں آیا ، اور کہنے لگا : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی ( اجنبی ) آدمی کو پا لے اور ( حقیقت حال ) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگاؤ گے ، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے ، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھنے ، اللہ کی قسم ، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور دریافت کروں گا ، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی ( اجنبی ) آدمی کو پا لے اور حقیقت حال بیان کرے تو ( تہمت کی حد کے طور پر ) آپ اسے کوڑے لگائیں گے ، یا وہ قتل کر دے تو اسے قتل کر دیں گے ، یا وہ خاموشی اختیار کر کے اندر ہی غصہ سے جلے بھنے ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرنے لگے : ” اے اللہ ! معاملے کی وضاحت فرما دے “ ، چنانچہ لعان کی آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» ” اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں “ ( سورۃ النور : ۶ ) آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا ، اس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی ، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو ، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ٹھہرو “ ، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا ، تو جب وہ دونوں جانے لگے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے “ چنانچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا ۔

‘Abd Allah (bin Mas’ud) said “We were in the mosque on the night of a Friday, suddenly a man from the Ansar entered the mosque”. And said “If a man finds a man along with wife and declares (about her adultery) you will flog him. Or if he kills you, you will kill him or if keeps silence he will keep silence in anger. I swear by Allaah, I shall ask the Apostle of Allaah(ﷺ) about it”. On the next day he came to the Apostle of Allaah(ﷺ) and said “If a man finds a man along with wife and declares (about her adultery) you will flog him. Or if he kills you, you will kill him or if keeps silence he will keep silence in anger.” He said “O Allaah, disclose”. He kept on praying until the verses regarding invoking curses (li’an) came down “As for those who accuse their wives but have no witnesses except themselves.” So, the man was first involved in this trial among the people. He and his wife came to the Apostle of Allaah(ﷺ). They invoked curses on each other. The man bore witness before Allaah four times that the thing he said was indeed true. He then invoked curse of Allaah on him for the fifth time if he was a liar. She then wanted to invoke curses of Allaah on him. The Prophet (ﷺ) said “Do not do that. Bust she refused and did so (i.e., invoked curses). When they returned he said “Perhaps she will give birth to a black child with curly hair.


8

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ صلى الله عليه وسلم فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَذَلِكَ الطَّلاَقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہانہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے پھر فرمایا : ” اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کر لے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے ، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر چاہیئے کہ وہ پاکی کی حالت میں اسے چھوئے بغیر طلاق دے ، یہی عدت کا طلاق ہے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے “ ۔

‘Abd Allah (bin Umar) said that he divorced his wife while she was menstruating. ‘Umar mentioned the matter to the Messenger of Allah(ﷺ). The Messenger of Allah(ﷺ) became angry and said “Command him, he must take her back and keep her back till she is purified, then has another menstrual period and is purified. Then if he desires he may divorce her during the period of purity before he has intercourse with her. This is the divorce for waiting period as commanded by Allaah, the Exalted.


80

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلاً عَلَى امْرَأَتِهِ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ الْبَيِّنَةَ وَإِلاَّ فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ هِلاَلٌ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ فَنَزَلَتْ ‏{‏ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ ‏}‏ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ ‏{‏ مِنَ الصَّادِقِينَ ‏}‏ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَجَاءَا فَقَامَ هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ وَقَالُوا لَهَا إِنَّهَا مُوجِبَةٌ ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ فَقَالَتْ لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ ‏.‏ فَمَضَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ ‏”‏ ‏.‏ فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْلاَ مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ حَدِيثُ ابْنِ بَشَّارٍ حَدِيثُ هِلاَلٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ ( زنا کی ) تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ثبوت لاؤ ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے “ ، تو ہلال نے کہا کہ : اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ اس پر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمائے جا رہے تھے کہ : ” گواہ لاؤ ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے “ ، تو ہلال نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا ، چنانچہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» کی آیت نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے «من الصادقين» ۱؎ تک پہنچے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا ، وہ دونوں آئے ، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے : ” اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے ، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ “ پھر عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی ، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ ” اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو “ تو لوگ اس سے کہنے لگے : یہ عذاب کو واجب کر دینے والا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے : تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آ جائے گی ، لیکن پھر کہنے لگی : ہمیشہ کے لیے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگاؤں گی ( یہ کہہ کر ) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کر دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سرمگیں آنکھوں ، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے “ ، چنانچہ انہیں صفات کا بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آ گیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا “ ، یعنی میں اس پر حد جاری کرتا ۔

Ibn ‘Abbas said “Hilal bin Umayyah accused his wife in the presence of Prophet (ﷺ) of having committed adultery with Sharik bin Sahma’”. The Prophet (ﷺ) said “Produce evidence or you must receive punishment on your back.” He said “Apostle of Allaah(ﷺ) when one of us sees a man having intercourse with his wife should he go and seek evidence?” But the Prophet (ﷺ) merely said “You must produce evidence or you must receive punishment on your back.” Hilal then said “By Him Who sent you with the Truth, I am speaking Truly. May Allaah send down something which will free my back from punishment. Then the following Qur’anic verses were revealed “And those who make charges against their spouses but have no witnesses except themselves” reciting till he reached “one of those who speak the truth”. The Prophet (ﷺ) then returned and sent for them and they came (to him). Hilal bin Umayyah stood up and testified and the Prophet (ﷺ) was saying “Allaah knows that one of you is lying. Will one of you repent?” Then the woman got up and testified, but when she was about to do it a fifth time saying that Allaah’s anger be upon her if he was one of those who spoke the truth, they said to her “this is the deciding one”. Ibn ‘Abbas said “She then hesitated and drew back so that we thought the she would withdraw(what she said) “Look and see whether she gives birth to a child with eyes looking as if they have antimony in them, wide buttocks and fat legs, if she did. Sharik bin Sahma’ will be its father. She then gave birth to a child of a similar description. The Prophet (ﷺ) thereupon said “If it were not for what has already been stated in Allaah’s book I would have dealt severely with her.”

Abu Dawud said “This tradition has been transmitted by the people of Medina alone. They narrated the tradition of Hilal on the authority of Ibn Bashshar.”


81

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ رَجُلاً حِينَ أَمَرَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ أَنْ يَتَلاَعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فِيهِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ يَقُولُ إِنَّهَا مُوجِبَةٌ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے : یہ ( عذاب کو ) واجب کرنے والا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

When the Prophet (ﷺ) ordered a man and his wife to invoke curses on each other, he ordered a man to put his hand on his mouth when he came to the fifth utterance, saying that it would be the deciding one.


82

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ جَاءَ هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عَشِيًّا فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلاً فَرَأَى بِعَيْنَيْهِ وَسَمِعَ بِأُذُنَيْهِ فَلَمْ يَهِجْهُ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَهُمْ رَجُلاً فَرَأَيْتُ بِعَيْنِي وَسَمِعْتُ بِأُذُنِي فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا جَاءَ بِهِ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ ‏{‏ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ ‏}‏ الآيَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ أَبْشِرْ يَا هِلاَلُ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ هِلاَلٌ قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَلِكَ مِنْ رَبِّي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَرْسِلُوا إِلَيْهَا ‏”‏ ‏.‏ فَجَاءَتْ فَتَلاَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا فَقَالَ هِلاَلٌ وَاللَّهِ لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا فَقَالَتْ قَدْ كَذَبَ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَعِنُوا بَيْنَهُمَا ‏”‏ ‏.‏ فَقِيلَ لِهِلاَلٍ اشْهَدْ ‏.‏ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قِيلَ لَهُ يَا هِلاَلُ اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ ‏.‏ فَقَالَ وَاللَّهِ لاَ يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا كَمَا لَمْ يَجْلِدْنِي عَلَيْهَا ‏.‏ فَشَهِدَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ قِيلَ لَهَا اشْهَدِي ‏.‏ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قِيلَ لَهَا اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ ‏.‏ فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي فَشَهِدَتِ الْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُمَا وَقَضَى أَنْ لاَ يُدْعَى وَلَدُهَا لأَبٍ وَلاَ تُرْمَى وَلاَ يُرْمَى وَلَدُهَا وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَيْهِ الْحَدُّ وَقَضَى أَنْ لاَ بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ وَلاَ قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلاَقٍ وَلاَ مُتَوَفَّى عَنْهَا وَقَالَ ‏”‏ إِنْ جَاءَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ أُرَيْصِحَ أُثَيْبِجَ حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِهِلاَلٍ وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْلاَ الأَيْمَانُ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عِكْرِمَةُ فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مُضَرَ وَمَا يُدْعَى لأَبٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ ( جو کہ ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے ( ایک غزوہ میں پچھڑ جانے کی وجہ سے سرزنش کے بعد ) توبہ قبول فرمائی تھی ، وہ ) اپنی زمین سے رات کو آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو پایا ، اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھا ، اور کانوں سے پوری گفتگو سنی ، لیکن صبح تک اس معاملہ کو دبا کر رکھا ، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! رات کو میں گھر آیا تو اپنی بیوی کے پاس ایک مرد کو پایا ، اپنی آنکھوں سے ( سب کچھ ) دیکھا ، اور کانوں سے ( سب ) سنا ، ان کی ان باتوں کو آپ نے ناپسند کیا اور ان پر ناگواری کا اظہار فرمایا ، تو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم فشهادة أحدهم» ” اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو “ ( سورۃ النور : ۷ ، ۶ ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” ہلال ! خوش ہو جاؤ ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کا راستہ نکال دیا ہے “ ، ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے اپنے پروردگار سے اسی کی امید تھی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے بلواؤ “ ، تو وہ آئی تو آپ نے دونوں پر یہ آیتیں تلاوت فرمائیں ، اور نصیحت کی نیز بتایا کہ : ” آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے “ ۔ ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم اللہ کی میں نے اس کے متعلق جو کہا ہے سچ کہا ہے ، وہ کہنے لگی : یہ جھوٹے ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے درمیان لعان کراؤ “ ، چنانچہ ہلال رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ گواہی دیں تو انہوں نے چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ وہ سچے ہیں ، پانچویں کے وقت کہا گیا : ہلال ! اللہ سے ڈرو کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے ، اور اس بار کی گواہی تمہارے لیے عذاب کو واجب کر دے گی ، وہ بولے : اللہ کی قسم ! جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے کوڑوں سے بچایا ہے اسی طرح عذاب سے بھی بچائے گا ، چنانچہ پانچویں گواہی بھی دے دی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو ۔ پھر عورت سے گواہی دینے کے لیے کہا گیا ، تو اس نے بھی چار بار گواہی دی کہ وہ جھوٹے ہیں ، پانچویں بار اس سے بھی کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے ، اور اس دفعہ کی گواہی عذاب کو واجب کر دے گی ، یہ سن کر وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر بولی : اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی ، چنانچہ پانچویں بار بھی گواہی دے دی کہ اگر وہ سچے ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان تفریق کرا دی ، اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا لڑکا باپ کی طرف نہ منسوب کیا جائے ، اور لڑکے اور عورت کو تہمت نہ لگائی جائے جو اس پر یا اس کے لڑکے پر اب تہمت لگائے گا تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اسے نان نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی ، کیونکہ ان کی جدائی نہ تو طلاق کی بنا پر ہوئی ہے اور نہ شوہر کے انتقال کی وجہ سے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر وہ بھورے بالوں والا ، پتلی سرین والا ، چوڑی پیٹھ والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ ہلال کا ( نطفہ ) ہے ، اور اگر مٹیالے رنگ والا ، گھنگرالے بالوں والا ، موٹی پنڈلیوں والا ، اور بھاری سرین والا جنے تو اس کا جس کے نام کی تہمت لگائی گئی ہے “ ، چنانچہ اس عورت کا بچہ مٹیالے رنگ کا گھنگرالے بالوں والا ، موٹی پنڈلیوں والا اور بھاری سرین والا پیدا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر قسمیں نہ ہوتیں تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا “ ۔ عکرمہ کہتے ہیں : یہی بچہ آگے چل کر مضر کا امیر بنا ، اسے باپ کی جانب منسوب نہیں کیا جاتا تھا ۔

Ibn ‘Abbas said “Hilal bin Umayyah was one of the three persons whose repentance was accepted by Allaah. One night he returned from his land and found a man along with his wife. He witnessed with his eyes and heard with his ears. He did not threaten him till the morning.” Next day he went to the Apostle of Allaah(ﷺ) in the morning and said Apostle of Allaah(ﷺ) “I came to my wife in the night and found a man along with her. I saw with my own eyes and heard with my own ears. The Apostle of Allaah(ﷺ) disliked what he described and he took it seriously. There upon the following Qur’anic verse came down “And those who make charges against their spouses but have no witnesses except themselves, let the testimony of one of them ….” When the Apostle of Allaah(ﷺ) came to himself (after the revelation ended) he said “Glad tidings to you Hilal, Allaah the exalted has made ease and a way out for you.” Hilal said “I expected that from my Lord. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Send for her. She then came.” The Apostle of Allaah(ﷺ) recited the verses to them and he reminded them and told them that the punishment in the next world was more severe than that in n this world. Hilal said “I swear by Allah I spoke the truth against her.” She said “He told a lie.” The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Apply the method of invoking curses on one another. Hilal was told “Bear witness. So he bore witness before Allaah four times that he spoke the truth.” When he was about to utter the fifth time he was told “Hilal fear Allah, for the punishment in this world is easier than that in the next world and this is the deciding one, that will surely cause punishment to you.” He said “I swear by Allaah. Allah will not punish me for this (act), as He did not cause me to be flogged for this (act).” So he bore witness a fifth time invoking the curse of Allah on him if he was of those who tell a lie. Then the people said to her, Testify. So she gave testimony before Allaah that he was a liar. When she was going to testify the fifth time she was told “Fear Allah, for the punishment in this world is easier than that in the next world. This is the deciding one that will surely cause punishment to you.” She hesitated for a moment. And then said “By Allah, I will not disgrace my people.” So she testified a fifth time invoking the curse of Allah on her if he spoke the truth. Apostle of Allaah(ﷺ) separated them from each other and decided that the child will not be attributed to its father. Neither she nor her child will be accused of adultery. He who accuses her or her child will be liable to punishment. He also decided that there will be no dwelling and maintenance for her (from the husband) as they were separated without divorce and death. He then said “If she gives birth to a child with reddish hair, light buttocks, wide belly and light shins he will be the child of Hilal. If she bears a dusky child with curly hair, fat limbs, fat shins and fat buttocks he will be the child of the one who was accused of adultery. She gave birth to a child with curly hair, fat limbs, fat shins and fat buttocks. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Had there been no oaths, I would have dealt with her severely.”

‘Ikrimah said “Later on he became the chief of the tribe of Mudar. He was not attributed to his father.”


83

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ سَمِعَ عَمْرٌو، سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ ‏”‏ حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي ‏.‏ قَالَ ‏”‏ لاَ مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَلِكَ أَبْعَدُ لَكَ ‏”‏ ‏.‏

سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا : ” تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے ، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی ( مرد سے فرمایا ) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں “ ، اس پر اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے مال کا کیا ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارا کوئی مال نہیں ، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں “ ۔

Ibn ‘Umar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) said to the spouses who invoked curses on each other. Your reckoning is in Allaah’s hands for one of you is liar there is no way for you to (remarry) her. He then asked Apostle of Allaah(ﷺ) what about my property? He replied “There is no property for you. If you have spoken the truth, it is the price for your having had the right to intercourse with her and if you have lied against her it is still more remote for you.


84

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ ‏.‏ قَالَ فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَخَوَىْ بَنِي الْعَجْلاَنِ وَقَالَ ‏ “‏ اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ ‏.‏ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ‏”‏ ‏.‏ يُرَدِّدُهَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَأَبَيَا فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ‏.‏

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو کہا کہایک شخص اپنی عورت کو تہمت لگائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے دونوں بھائی بہنوں ۱؎ کو ( اس صورت میں ) جدا کرا دیا تھا اور فرمایا تھا : ” اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں ایک ضرور جھوٹا ہے ، تو کیا تم دونوں میں کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو آپ نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی ۔

Sa’d bin Jubair said I asked Ibn ‘Umar A man accused his wife of adultery? He said “The Apostle of Allaah(ﷺ) separated the brother and the sister of Banu Al ‘Ajilan (i.e., husband and wife). He said Allaah knows that one of you is a liar, will one of you repent? He repeated these words three times, but they refused. So he separated them from each other.


85

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلاً، لاَعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مَالِكٌ قَوْلُهُ ‏ “‏ وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فِي حَدِيثِ اللِّعَانِ وَأَنْكَرَ حَمْلَهَا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی ، اور بچے کو عورت سے ملا دیا ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جس کی روایت میں مالک منفرد ہیں وہ «وألحق الولد بالمرأة» کا جملہ ہے ، اور یونس نے زہری سے انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : اس نے اس کے حمل کا انکار کیا تو اس ( عورت ) کا بیٹا اسی ( عورت ) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا ۔

Ibn ‘Umar said A man invoked curses on his wife (charging her of adultery) during the time of Apostle of Allaah(ﷺ) and disowned the child. The Apostle of Allaah(ﷺ) therefore separated them and attributed the child to the woman. Abu Dawud said “The words narrated by Malik alone are “and he attributed the child to the woman.””

Abu Dawud said:The words narrated by Malik alone are: “and he attributed the child to the woman.”

Yunus narrated from Al Zuhri on the authority of Sahl bin Sa’d in the tradition regarding li’an(invoking curses). He disowned her conception hence her child was attributed to her.


86

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ بَنِي فَزَارَةَ فَقَالَ إِنَّ امْرَأَتِي جَاءَتْ بِوَلَدٍ أَسْوَدَ فَقَالَ ‏”‏ هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ مَا أَلْوَانُهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ حُمْرٌ قَالَ ‏”‏ فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَأَنَّى تُرَاهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ “ اس نے جواب دیا : ہاں ، پوچھا : ” کون سے رنگ کے ہیں ؟ “ جواب دیا : سرخ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کیا کوئی خاکستری بھی ہے ؟ “ جواب دیا : ہاں ، خاکی رنگ کا بھی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” پھر یہ کہاں سے آ گیا ؟ “ ، بولا : شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہاں بھی ہو سکتا ہے ( تمہارے لڑکے میں بھی ) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah said A man from Banu Fazarah came to the Prophet (ﷺ) and said “My wife has given birth to a black son”. He said “Have you any camels?” He said “They are red”. He asked “Is there a dusky one among them?” He replied “Some of them are dusky”. He asked “How do you think they have come about?” He replied “This may be a strain to which they reverted”. He said “And this is perhaps a strain to which the child has reverted.”


87

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ وَهُوَ حِينَئِذٍ يُعَرِّضُ بِأَنْ يَنْفِيَهُ ‏.‏

اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہےلیکن اس میں یہ ہے کہ یہ کہہ کر اس کا مقصد اپنے سے بچہ کی نفی کرنی تھی ۔

The tradition mentioned above has also been narrated by Al Zuhri through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “At that time he was hinting at disowning the child.”


88

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أُنْكِرُهُ ‏.‏ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : میری عورت نے ایک کالا لڑکا جنا ہے اور میں اس کا انکار کرتا ہوں ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی ۔

Narrated AbuHurayrah:

A bedouin came to the Prophet (ﷺ), and said: My wife has given birth to a black son, and I disown him. He then narrated the rest of the tradition to the same effect.


89

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، – يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ – عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلاَعِنَيْنِ ‏ “‏ أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَىْءٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہجس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کر دیا جو حقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے ، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی ، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہو گا ، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

AbuHurayrah heard the Messenger of Allah (ﷺ) say when the verse about invoking curses came down: Any woman who brings to her family one who does not belong to it has nothing to do with Allah (i.e. expects no mercy from Allah), and Allah will not bring her into His Paradise.

Allah, the Exalted, will veil Himself from any man who disowns his child when he looks at him, and disgrace him in the presence of all creatures, first and last.


9

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ كَمْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ فَقَالَ وَاحِدَةً ‏.‏

ابن سیرین کہتے ہیں کہمجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی ؟ تو انہوں نے کہا : ایک ۔

Yunus bin Jubair said that he asked Ibn ‘Umar “How many times did you pronounce divorce to your wife? He replied, once.”


90

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ سَلْمٍ، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي الذَّيَّالِ – حَدَّثَنِي بَعْضُ، أَصْحَابِنَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ مُسَاعَاةَ فِي الإِسْلاَمِ مَنْ سَاعَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَدْ لَحِقَ بِعَصَبَتِهِ وَمَنِ ادَّعَى وَلَدًا مِنْ غَيْرِ رِشْدَةٍ فَلاَ يَرِثُ وَلاَ يُورَثُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسلام میں اجرت پر بدکاری اور زنا نہیں ہے ، جس نے زمانہ جاہلیت میں بدکاری اور زنا سے کمائی کی ، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اپنے عصبہ ( مالک ) سے مل جائے گا اور جس نے بغیر نکاح یا ملک کے کسی بچے کا دعویٰ کیا تو نہ تو ( بچہ ) اس کا وارث ہو گا اور نہ وہ بچے کا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: There is no prostitution in Islam. If anyone practised prostitution in pre-Islamic times, the child will be attributed to the master (of the slave-woman). He who claims his child without a valid marriage or ownership will neither inherit nor be inherited.


91

حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، – وَهُوَ أَشْبَعُ – عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَضَى أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ فَقَضَى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَىْءٌ وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ وَلاَ يُلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لاَ يُلْحَقُ بِهِ وَلاَ يَرِثُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ كَانَ أَوْ أَمَةٍ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا ، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا ، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے ( اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے ) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا ، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہو گا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے ( اپنی زندگی میں ) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے ۔

‘Amr b. Shu’aib on his father’s authority said that his grandfather reported:The Prophet (ﷺ) decided regarding one who was treated as a member of a family after the death of his father, to whom he was attributed when the heirs said he was one of them, that if he was the child of a slave-woman whom the father owned when he had intercourse with her, he was included among those who sought his inclusion, but received none of the inheritance which was previously divided; he, however, received his portion of the inheritance which had not already been divided; but if the father to whom he was attributed had disowned him, he was not joined to the heirs.

If he was a child of a slave-woman whom the father did not possess or of a free woman with whom he had illicit intercourse, he was not joined to the heirs and did not inherit even if the one to whom he was attributed is the one who claimed paternity, since he was a child of fornication whether his mother was free or a slave.


92

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ زَادَ وَهُوَ وَلَدُ زِنًا لأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً وَذَلِكَ فِيمَا اسْتُلْحِقَ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ فَمَا اقْتُسِمَ مِنْ مَالٍ قَبْلَ الإِسْلاَمِ فَقَدْ مَضَى ‏.‏

اس سند سے بھی محمد بن راشد سے اسی مفہوم کی روایت منقول ہےلیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ ولد الزنا ہے اور اپنی ماں کے خاندان سے ملے گا چاہے وہ آزاد ہوں یا غلام ، یہ شروع اسلام میں پیش آمدہ معاملہ کا حکم ہے ، رہا جو مال قبل از اسلام تقسیم ہو چکا اس سے کچھ سروکار نہیں ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Muhammad bin Rashid through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “he is the child of fornication for the people of his mother whether she was free or a slave. This attribution of a child to the parents was practiced in the beginning of Islam. The property divided before Islam will not be taken into account.


93

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، – الْمَعْنَى – وَابْنُ السَّرْحِ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مُسَدَّدٌ وَابْنُ السَّرْحِ يَوْمًا مَسْرُورًا وَقَالَ عُثْمَانُ يُعْرَفُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ فَقَالَ ‏ “‏ أَىْ عَائِشَةُ أَلَمْ تَرَىْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ رَأَى زَيْدًا وَأُسَامَةَ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا بِقَطِيفَةٍ وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ( مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے ) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے ( اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ۱؎ محسوس کی جا رہی تھیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عائشہ ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھانکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

The Messenger of Allah (ﷺ) entered upon me. The version of Musaddad and Ibn as-Sarh has: one day looking pleased”. The version of Uthman has: “The lines of his forehead were realised.” He said: O Aisha, are you not surprised to hear that Mujazziz al-Mudlaji saw that Zayd and Usamah had a rug over them concerning their heads and letting their feet appear. He said: These feet are related.

Abu Dawud: Usamah was black and Zaid was white.


94

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَأَسَارِيرُ وَجْهِهِ ‏.‏ لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ هُوَ تَدْلِيسٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ إِنَّمَا سَمِعَ الأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِ الزُّهْرِيِّ ‏.‏ قَالَ وَالأَسَارِيرُ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ يَقُولُ كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ ‏.‏

اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے ، ابوداؤد کہتے ہیں : «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ۱؎ اور زید رضی اللہ عنہ روئی کی طرح سفید ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ibn Shihab through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “She said “he entered upon me looking pleased with the lines of his face brightened.

Abu Dawud said “Ibn ‘Uyainah did not remember the words “the lines of his face”.”

Abu Dawud said “The words “the lines of his face” have been narrated by Ibn ‘Uyainah himself. He did not hear Al Zuhri say (these words). He heard some person other than Al Zuhri say these words. The words “the lines of his face” occur in the tradition narrated by Al Laith and others.

Abu Dawud said “ I heard Ahmad bin Salih say “Usamah was very black like tar and Zaid was white like cotton.”


95

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْيَمَنِ فَقَالَ إِنَّ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَوْا عَلِيًّا يَخْتَصِمُونَ إِلَيْهِ فِي وَلَدٍ وَقَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ فَقَالَ لاِثْنَيْنِ مِنْهُمَا طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا ‏.‏ فَغَلَيَا ثُمَّ قَالَ لاِثْنَيْنِ طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا ‏.‏ فَغَلَبَا ثُمَّ قَالَ لاِثْنَيْنِ طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا ‏.‏ فَغَلَبَا فَقَالَ أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ إِنِّي مُقْرِعٌ بَيْنَكُمْ فَمَنْ قُرِعَ فَلَهُ الْوَلَدُ وَعَلَيْهِ لِصَاحِبَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ ‏.‏ فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَجَعَلَهُ لِمَنْ قُرِعَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى بَدَتْ أَضْرَاسُهُ أَوْ نَوَاجِذُهُ ‏.‏

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اہل یمن میں سے تین آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے ، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر ( پاکی ) میں جماع کیا تھا ، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے ( تیسرے کو ) دے دو ، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے ، پھر دو سے یہی بات کہی ، وہ بھی بھڑک اٹھے ، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : ” تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں ، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا ، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا “ ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں ۔

Narrated Zayd ibn Arqam:

I was sitting with the Prophet (ﷺ). A man came from the Yemen, and said: Three men from the people of the Yemen came to Ali, quarrelling about a child, asking him to give a decision. They had had sexual intercourse with a woman during a single state of purity.

He said to two of them: Give this child to this man (the third person) with pleasure. But they (refused and) cried loudly. Again he said to two of them: Give the child to the man (the third person) willingly. But they (refused and) cried loudly. He then said: You are quarrelsome partners. I shall cast lots among you; he who receives the lot, will acquire the child, and he shall pay two-thirds of the blood-money to both his companions. He then cast lots among them, and gave the child to the one who received the lot. The Messenger of Allah (ﷺ) laughed so much that his canine or molar teeth appeared.


96

حَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أُتِيَ عَلِيٌّ – رضى الله عنه – بِثَلاَثَةٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ اثْنَيْنِ أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ قَالاَ لاَ ‏.‏ حَتَّى سَأَلَهُمْ جَمِيعًا فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ قَالاَ لاَ ‏.‏ فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَىِ الدِّيَةِ قَالَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ‏.‏

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہعلی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تین آدمی ( ایک لڑکے کے لیے جھگڑا لے کر ) آئے جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی ، تو آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا : کیا تم دونوں یہ لڑکا اسے ( تیسرے کو ) دے سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اس طرح آپ نے سب سے دریافت کیا ، اور سب نے نفی میں جواب دیا ، چنانچہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی ، اور جس کا نام نکلا اسی کو لڑکا دے دیا ، نیز اس کے ذمہ ( دونوں ساتھیوں کے لیے ) دو تہائی دیت مقرر فرمائی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ آیا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں ۔

Narrated Zayd ibn Arqam:

Three persons were brought to Ali (Allah be pleased with him) when he was in the Yemen. They and sexual intercourse with a woman during a single state of purity. He asked two of them: Do you acknowledge this child for this (man)? They replied: No. He then put this (question) to all of them. Whenever he asked two of them, they replied in the negative. He, therefore, cast a lot among them, and attributed the child to the one who received the lot. He imposed two-third of the blood-money (i.e. the price of the mother) on him. This was then mentioned to the Prophet (ﷺ) and he laughed so much that his molar teeth appeared.


97

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، سَمِعَ الشَّعْبِيَّ، عَنِ الْخَلِيلِ، أَوِ ابْنِ الْخَلِيلِ قَالَ أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ – رضى الله عنه – فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ مِنْ ثَلاَثٍ نَحْوَهُ لَمْ يَذْكُرِ الْيَمَنَ وَلاَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَلاَ قَوْلَهُ طِيبَا بِالْوَلَدِ ‏.‏

خلیل یا ابن خلیل کہتے ہیں کہعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے تین آدمیوں سے صحبت کے بعد ایک لڑکا جنا تھا ، آگے اسی طرح کی روایت ہے اس میں نہ تو انہوں نے یمن کا ذکر کیا ہے ، نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ، اور نہ ( علی رضی اللہ عنہ کے ) اس قول کا کہ خوشی سے تم دونوں لڑکے کو اسے ( تیسرے کو ) دے دو ۔

Khalil or Ibn Khalil said “A woman was brought to Ali bin Abi Talib(may Allaah be pleased with him). She bore a child from intercourse of three persons. The narrator transmitted the rest of the tradition similar to the previous one. But in this version he did not mention “Yemen” and the Prophet (ﷺ) and his words “give the child willingly.”


98

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، – رضى الله عنها – زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النِّكَاحَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلاَ يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِنْ أَحَبَّ وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ يُسَمَّى نِكَاحَ الاِسْتِبْضَاعِ وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا فَتَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ وَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلاَنُ فَتُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ مِنْهُمْ بِاسْمِهِ فَيُلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا وَنِكَاحٌ رَابِعٌ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ يَكُنَّ عَلَمًا لِمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ فَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَهُ وَدُعِيَ ابْنَهُ لاَ يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم هَدَمَ نِكَاحَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلاَّ نِكَاحَ أَهْلِ الإِسْلاَمِ الْيَوْمَ ‏.‏

محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے : ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے ۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے ، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا ، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا ، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب ( عمدہ نسب کا ) ہو ، اس نکاح کو نکاح استبضاع ( نطفہ حاصل کرنے کا نکاح ) کہا جاتا تھا ۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے ، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی ، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا ، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی : تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے ، اور میں نے بچہ جنا ہے ، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں ! یہ تیرا بچہ ہے ، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا ۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے ، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی ، یہ بدکار عورتیں ہوتیں ، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے ، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا ، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے ، اور قیافہ شناس کو بلاتے ، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا ، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا ، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے ۔

A’ishah wife of the Prophet (ﷺ) said “Marriage in pre Islamic times was of four kinds.” One of them was the marriage contracted by the people today. A man asked another man to marry his relative (sister or daughter) to him. He fixed the dower and married her to him. Another kind of marriage was that a man asked his wife when she became pure from menstruation to send fro so and so and have sexual intercourse with him. Her husband kept himself aloof and did not have intercourse with her till It became apparent that she was pregnant from the man who had intercourse with her. When it was manifest that she was pregnant, her husband approached her if he liked. This marriage was called istibda’(to utilize man for intercourse for a noble birth). A third kind of marriage was that a group of people less than ten in number entered upon a woman and had intercourse with her. When she conceived gave birth to a child and a number of days passed after her delivery, she sent for them. No one of them could refuse to attend and they gathered before her. She said to them “You have realized your affair. I have now given birth to a child. And this is your son. O so and so. She called the name of anyone of them she liked and the child was attributed to him. A fourth kind of marriage was that many people gathered together and entered upon a woman who did not prevent anyone who came to her. They were prostitutes. They hoisted flags at their doors which served as a sign for the one who intended to enter upon them. When she became pregnant and delivered the child , they got together before her and called for the experts of tracing relationship from physical features. They attributed the child to whom they considered and it was given to him. The child was called his son and he could not deny. When Allah sent Muhammad (ﷺ) as a Prophet, he abolished all kinds of marriages prevalent among the people of the pre Islamic times except of the Muslims practiced today.


99

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَقَالَ سَعْدٌ أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبِضَهُ فَإِنَّهُ ابْنُهُ ‏.‏ وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ أَخِي ابْنُ أَمَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي ‏.‏ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ فَقَالَ ‏”‏ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ ‏”‏ هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ ‏”‏ ‏.‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہسعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے ، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے ، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے ، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے ساتھ کھلی مشابہت دیکھی ( اس کے باوجود ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بچہ بستر والے کا ہے ، اور زانی کے لیے سنگساری ہے ، اور سودہ ! تم اس سے پردہ کرو “ ۔ مسدد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں کہ ” آپ نے فرمایا : عبد ! یہ تیرا بھائی ہے “ ۔

A’ishah said “Sa’d bin Abi Waqqas and ‘Abd bin Zamah disputed amongst themselves about the (relationship of the) son of the slave girl of Zam’ah and brought the case to the Apostle of Allaah(ﷺ). Sa’d said “My brother ‘Utbah enjoined me that when I came to Makkah I should see the son of the slave girl of Zam’ah and take his possession for that is his son”. ‘Abd bin Zam’ah said “He is my brother, the son of my father’s slave girl having been born on my father’s bed”. The Apostle of Allaah(ﷺ) saw his clear resemblance to ‘Utbah. So he said “The child is attributed to the one on whose bed it is born and the fornicator is deprived of any right (lit. the fornicator will have the stone). Veil yourself from him, Saudah. Musaddad added in his version “he is your brother ‘Abd”.


Scroll to Top
Scroll to Top
Skip to content