Wills and Testaments (Wasaayaa)

1

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَىْءٌ، يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے ‘ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے ۔ امام مالک کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن مسلم نے عمرو بن دینار سے کی ہے ‘ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “It is not permissible for any Muslim who has something to will to stay for two nights without having his last will and testament written and kept ready with him.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 1


10

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبْعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ورقاء سے ‘ انہوں نے ابن ابی نجیح سے ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہشروع اسلام میں ( میراث کا ) مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کے لئے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کر دیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا ( اولاد کی موجودگی میں ) آٹھواں حصہ اور ( اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں ) چوتھا حصہ قرار دیا ۔ اسی طرح شوہر کا ( اولاد نہ ہونے کی صورت میں ) آدھا ( اولاد ہونے کی صورت میں ) چوتھائی حصہ قرار دیا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The custom (in old days) was that the property of the deceased would be inherited by his offspring; as for the parents (of the deceased), they would inherit by the will of the deceased. Then Allah cancelled from that custom whatever He wished and fixed for the male double the amount inherited by the female, and for each parent a sixth (of the whole legacy) and for the wife an eighth or a fourth and for the husband a half or a fourth.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 10


11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ ‏ “‏ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ‏.‏ تَأْمُلُ الْغِنَى، وَتَخْشَى الْفَقْرَ، وَلاَ تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلاَنٍ كَذَا وَلِفُلاَنٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلاَنٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا سفیان ثوری سے ‘ وہ عمارہ سے ‘ ان سے ابو زرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا یہ کہ صدقہ تندرستی کی حالت میں کر کہ ( تجھ کو اس مال کو باقی رکھنے کی ) خواہش بھی ہو جس سے کچھ سرمایہ جمع ہو جانے کی تمہیں امید ہو اور ( اسے خرچ کرنے کی صورت میں ) محتاجی کا ڈر ہو اور اس میں تاخیر نہ کر کہ جب روح حلق تک پہنچ جائے تو کہنے بیٹھ جائے کہ اتنا مال فلاں کے لئے ‘ فلانے کو اتنا دینا ‘ اب تو فلانے کا ہو ہی گیا ( تو تو دنیا سے چلا )

Narrated Abu Huraira:

A man asked the Prophet, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! What kind of charity is the best?” He replied. “To give in charity when you are healthy and greedy hoping to be wealthy and afraid of becoming poor. Don’t delay giving in charity till the time when you are on the death bed when you say, ‘Give so much to soand- so and so much to so-and so,’ and at that time the property is not yours but it belongs to so-and-so (i.e. your inheritors).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 11


12

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ‏”‏‏.‏

ہم سے سلیمان بن داؤد ابو الربیع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے اسمٰعیل بن جعفر نے ‘ انہوں نے کہا ہم سے نافع بن مالک بن ابی عامر ابو سہیل نے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “The signs of a hypocrite are three: Whenever he speaks he tells a lie; whenever he is entrusted he proves dishonest; whenever he promises he breaks his promise.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 12


13

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي ‏ “‏ يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ‏”‏‏.‏ قَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا‏.‏ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَىْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ‏.‏ فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ( مشہور صحابی ) نے بیان کیا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا ‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا ‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیا کا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہو گی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا ( دینے والا ) ہاتھ نیچے والے ( لینے والے ) ہاتھ سے بہتر ہے ۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لوں گا مرنے تک پھر ( حکیم کا یہ حال رہا ) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لئے ان کو بلاتے ‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لئے لیکن انہوں نے انکار کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو ! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا ۔ غرض حکیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی ( اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا ) یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی ۔ اللہ ان پر رحم کرے ۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair:

Hakim bin Hizam said, “I asked Allah’s Messenger (ﷺ) for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, ‘O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it without greed then he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it and he is like one who eats and never gets satisfied. The upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand.” Hakim added, “I said, O Allah’s Messenger (ﷺ)! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die.” Afterwards Abu Bakr used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then `Umar called him to give him (something) but he refused. Then `Umar said, “O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it.” Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died–may Allah bestow His mercy upon him.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 13


14

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخْتِيَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ ‏”‏ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا ہم کو یونس نے ، انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی ‘ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہامیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائےگا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

Narrated Ibn `Umar:

I heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “All of you are guardians and responsible for your charges: the Ruler (i.e. Imam) is a guardian and responsible for his subjects; and a man is a guardian of his family and is responsible for his charges; and a lady is a guardian in the house of her husband and is responsible for her charge; and a servant is a guardian of the property of his master and is responsible for his charge.” I think he also said, “And a man is a guardian of the property of his father.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 14


15

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأَبِي طَلْحَةَ ‏”‏ أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُنَادِي ‏”‏ يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ ‏”‏‏.‏ لِبُطُونِ قُرَيْشٍ‏.‏ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے ، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ سے فرمایا ( جب انہوں نے اپنا باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں دینا چاہا ) میں مناسب سمجھتا ہوں تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دیدے ۔ ابوطلحہ نے کہا بہت خوب ایسا ہی کروں گا ۔ پھر ابوطلحہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب ( سورۃ الشعراء کی ) یہ آیت اتری اور اپنے قریب کے ناطے والوں کو ( خدا کے عذاب سے ) ڈرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے خاندانوں بنی فہر ‘ بنی عدی کو پکار نے لگے ( ان کو ڈرایا ) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری » وانذر عشیر تک الاقربین « آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قریش کے لوگو ! ( اللہ سے ڈرو ) ۔

Narrated Anas:

The Prophet (ﷺ) said to Abu Talha, “I recommend that you divide (this garden) amongst your relatives.” Abu Talha said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I will do the same.” So Abu Talha divided it among his relatives and cousins. Ibn ‘Abbes said, “When the Qur’anic Verse: “Warn your nearest kinsmen.” (26.214) Was revealed, the Prophet (ﷺ) started calling the various big families of Quraish, “O Bani Fihr! O Bani Adi!”. Abu Huraira said, “When the Verse: “Warn your nearest kinsmen” was revealed, the Prophet (ﷺ) said (in a loud voice), “O people of Quraish!”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 15


16

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ ‏}‏ قَالَ ‏”‏ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ـ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ـ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ أَصْبَغُ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ کہا مجھ کو سعید بن مسیب اورابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب ( سورۃ الشعراء کی ) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو ! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو ( نیک اعمال کے بدل ) مول لے لو ( بچا لو ) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ( یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا ) عبد مناف کے بیٹو ! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے ! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ۔ صفیہ میری پھوپھی ! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا ۔ ابو الیمان کے ساتھ حدیث کو اصبغ نے بھی عبداللہ بن وہب سے ‘ انہوں نے یونس سے ‘ انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا ۔

Narrated Abu Huraira:

When Allah revealed the Verse: “Warn your nearest kinsmen,” Allah’s Messenger (ﷺ) got up and said, “O people of Quraish (or said similar words)! Buy (i.e. save) yourselves (from the Hellfire) as I cannot save you from Allah’s Punishment; O Bani `Abd Manaf! I cannot save you from Allah’s Punishment, O Safiya, the Aunt of Allah’s Messenger (ﷺ)! I cannot save you from Allah’s Punishment; O Fatima bint Muhammad! Ask me anything from my wealth, but I cannot save you from Allah’s Punishment.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 16


17

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَأَى رَجُلاً يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ لَهُ ‏”‏ ارْكَبْهَا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ‏.‏ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ ‏”‏ ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ، أَوْ وَيْحَكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص قربانی کا اونٹ ہانکے لئے جا رہا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا ۔ اس صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ قربانی کا اونٹ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا افسوس ! سوار بھی ہو جا ( یا آپ نے ویلک کی بجائےویحک فرمایا جس کے معنی بھی وہی ہیں ) ۔

Narrated Anas:

The Prophet (ﷺ) saw a man driving a Badana (i.e. camel for sacrifice) and said to him, “Ride on it.” The man said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! It is a Bandana.” (The Prophet (ﷺ) repeated his order) and on the third or fourth time he said, “Ride it, (woe to you” or said: “May Allah be merciful to you).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 17


18

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَى رَجُلاً يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ ‏”‏ ارْكَبْهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ‏.‏ قَالَ ‏”‏ ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ ‏”‏‏.‏ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ‏.‏

ہم سے اسمٰعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان نے اعرج سے اور ان ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک صاحب قربانی کا اونٹ ہانکے لئے جا رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا لیکن انہوں نے معذرت کی کہ یا رسول اللہ ! یہ تو قربانی کا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ سوار بھی ہو جا ۔ افسوس ! یہ کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) saw a man driving a Badana and said to him, “Ride on it,” and on the second or the third time he added, “Woe to you.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 18


19

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ ـ رضى الله عنه ـ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهْوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَىْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِي الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا‏.‏

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ، انہوں نے عکرمہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے ۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا ۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The mother of Sa`d bin ‘Ubada died in his absence. He said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! My mother died in my absence; will it be of any benefit for her if I give Sadaqa on her behalf?” The Prophet (ﷺ) said, “Yes,” Sa`d said, “I make you a witness that I gave my garden called Al Makhraf in charity on her behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 19


2

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، خَتَنِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخِي جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلاَ دِينَارًا وَلاَ عَبْدًا وَلاَ أَمَةً وَلاَ شَيْئًا، إِلاَّ بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ وَسِلاَحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً‏.‏

ہم سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ ابن ابی بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیااور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسبتی بھائی عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے جو جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ( ام المؤمنین ) کے بھائی ہیں ‘ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد سوائے اپنے سفید خچر ‘ اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقف کر گئے تھے نہ کوئی درہم چھوڑا تھا نہ دینار نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی چیز ۔

Narrated `Amr bin Al-Harith:

(The brother of the wife of Allah’s Messenger (ﷺ). Juwaira bint Al-Harith) When Allah’s Messenger (ﷺ) died, he did not leave any Dirham or Dinar (i.e. money), a slave or a slave woman or anything else except his white mule, his arms and a piece of land which he had given in charity .

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 2


20

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ ‏ “‏ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن ابن عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہمیں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری توبہ ( غزوہ تبوک میں نہ جانے کی ) قبول ہونے کا شکرانہ یہ ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دیدوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اپنے مال کا ایک حصہ اپنے پاس ہی باقی رکھو تو تمہارے حق میں یہ بہتر ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں ۔

Narrated Ka`b bin Malik:

I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! For the acceptance of my repentance I wish to give all my property in charity for Allah’s sake through His Apostle .” He said, “It is better for you to keep some of the property for yourself.” I said, “Then I will keep my share in Khaibar.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 20


21

وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ،، لاَ أَعْلَمُهُ إِلاَّ عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَىَّ بِيرُحَاءَ ـ قَالَ وَكَانَتْ حَدِيقَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْخُلُهَا وَيَسْتَظِلُّ بِهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ـ فَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم أَرْجُو بِرَّهُ وَذُخْرَهُ، فَضَعْهَا أَىْ رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ بَخْ يَا أَبَا طَلْحَةَ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، قَبِلْنَاهُ مِنْكَ وَرَدَدْنَاهُ عَلَيْكَ، فَاجْعَلْهُ فِي الأَقْرَبِينَ ‏”‏‏.‏ فَتَصَدَّقَ بِهِ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى ذَوِي رَحِمِهِ، قَالَ وَكَانَ مِنْهُمْ أُبَىٌّ وَحَسَّانُ، قَالَ وَبَاعَ حَسَّانُ حِصَّتَهُ مِنْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَقِيلَ لَهُ تَبِيعُ صَدَقَةَ أَبِي طَلْحَةَ فَقَالَ أَلاَ أَبِيعُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِصَاعٍ مِنْ دَرَاهِمَ قَالَ وَكَانَتْ تِلْكَ الْحَدِيقَةُ فِي مَوْضِعِ قَصْرِ بَنِي حُدَيْلَةَ الَّذِي بَنَاهُ مُعَاوِيَةُ‏.‏

اور اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے خبر دی ‘ انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ( امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ) میں سمجھتا ہوں کہیہ روایت انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا ( جب سورۃ آل عمران کی ) یہ آیت نازل ہوئی کہ ” تم نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے “ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ ” تم نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے اور میرے اموال میں سب سے پسند مجھے بیرحاء ہے ۔ بیان کیا کہ بیرحاء ایک باغ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جایا کرتے ‘ اس کے سائے میں بیٹھتے اور اس کا پانی پیتے ( ابوطلحہ نے کہا کہ ) اس لئے وہ اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے ۔ میں اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں ۔ پس یا رسول اللہ ! جس طرح اللہ آپ کو بتائے اسے خرچ کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ شاباش ابوطلحہ یہ تو بڑا نفع بخش مال ہے ‘ ہم تم سے اسے قبول کر کے پھر تمہارے ہی حوالے کر دیتے ہیں اور اب تم اسے اپنے عزیزوں کو دیدو ۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دیا ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جن لوگوں کو باغ آپ نے دیا تھا ان میں ابی اور حسان رضی اللہ عنہ تھے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسان رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بیچ دیا تو کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا دیا ہوا مال بیچ رہے ہو ؟ حسان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ باغ بنی حدیلہ کے محلہ کے قریب تھا جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ( بطور قلعہ کے ) تعمیر کیا تھا ۔

Narrated Anas (ra):When the Holy Verse: ‘By no means shall you attain Al-Birr (piety, righteousness, it means here Allah’s Reward i.e., Paradise), unless you spend of that which you love..’, (V 3:92) was revealed, Abu Talha went to Allah’s Messenger (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger ! Allah, the Blessed, the Superior stated in His book: ‘By no means shall you attain Birr, unless you spend of that which you love….’ (V 3:92) and the most beloved property to me is Bairuha’ (which was a garden where Allah’s Messenger (ﷺ) used to go to sit in its shade and drink from its water). I gave it to the Allah and His Messenger (ﷺ) hoping for Allah’s Reward in the Hereafter. So, Ao Allah’s Messenger ! Use it as Allah orders you to use it.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Bravo! O Abu Talha, it is fruitful property. We have accepted it from you and now we return it to you. Distribute it amongst you relatives.” So, Abu Talha distributed it amongst his relatives, amongst whom were Ubai and Hassan. When Hassan sold his share of that garden to Mu’awiyya, he was asked, “How do you see Abu Talha’s Sadaqa?” He replied, “Who should not I sell a Sa’ of date for Sa’ of money ?” The garden was situated on the courtyard of the palace of Bani Jadila built by Mu’awiya.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 20


22

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ نُسِخَتْ، وَلاَ وَاللَّهِ مَا نُسِخَتْ، وَلَكِنَّهَا مِمَّا تَهَاوَنَ النَّاسُ، هُمَا وَالِيَانِ وَالٍ يَرِثُ، وَذَاكَ الَّذِي يَرْزُقُ، وَوَالٍ لاَ يَرِثُ، فَذَاكَ الَّذِي يَقُولُ بِالْمَعْرُوفِ، يَقُولُ لاَ أَمْلِكُ لَكَ أَنْ أُعْطِيَكَ‏.‏

ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ابو بشر جعفر سے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہکچھ لوگ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہ آیت ( جس ذکر عنوان میں ہوا ) میراث کی آیت منسوخ ہو گئی ہے ‘ نہیں قسم اللہ کی آیت منسوخ نہیں ہوئی البتہ لوگ اس پر عمل کرنے میں سست ہو گئے ہیں ۔ ترکے کے لینے والے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو وارث ہوں ان کو حصہ دیا جائے گا دوسرے وہ جو واچٹ نہ ہوں ان کو نرمی سے جواب دینے کا حکم ہے ۔ وہ یوں کہے میاں میں تم کو دینے کا اختیار نہیں رکھتا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Some people claim that the order in the above Verse is cancelled, by Allah, it is not cancelled, but the people have stopped acting on it. There are two kinds of guardians (who are in charge of the inheritance): One is that who inherits; such a person should give (of what he inherits to the relatives, the orphans and the needy, etc.), the other is that who does not inherit (e.g. the guardian of the orphans): such a person should speak kindly and say (to those who are present at the time of distribution), “I can not give it to you (as the wealth belongs to the orphans).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 21


23

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها أَنَّ رَجُلاً، قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا، وَأُرَاهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ، تَصَدَّقْ عَنْهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہایک صحابی ( سعد بن عبادہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہو گئی ‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر ۔

Narrated `Aisha:

A man said to the Prophet, “My mother died suddenly, and I think that if she could speak, she would have given in charity. May I give in charity on her behalf?” He said, “Yes! Give in charity on her behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 22


24

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ ـ رضى الله عنه ـ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ‏.‏ فَقَالَ ‏ “‏ اقْضِهِ عَنْهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ‘ انہوں نے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی طرف سے نذر پوری کر دے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Sa`d bin Ubada consulted Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “My mother died and she had an unfulfilled vow.” The Prophet (ﷺ) said, “Fulfill it on her behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 23


25

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ ـ رضى الله عنهم ـ أَخَا بَنِي سَاعِدَةَ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهْوَ غَائِبٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، فَهَلْ يَنْفَعُهَا شَىْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِي الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا‏.‏

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ انہیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ‘ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے سنا اور انہیں ابن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہقبیلہ بنی ساعدہ کے بھائی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھے ( بلکہ رسول اللہ کے ساتھ غزوہ دومۃ الجندل میں شریک تھے ) اس لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور میں اس وقت موجود نہیں تھا تو اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ! سعد رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مخراف نامی ان کی طرف سے خیرات ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

That the mother of Sa`d bin Ubada the brother of Bani Saida died in Sa`d’s absence, so he came to the Prophet saying, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! My mother died in my absence, will it benefit her if I give in charity on her behalf?” The Prophet (ﷺ) said, “Yes.” Sa`d said, “I take you as my witness that I give my garden Al-Makhraf in charity on her behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 24


26

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ كَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها – ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ‏}‏ قَالَتْ هِيَ الْيَتِيمَةُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا، فَيَرْغَبُ فِي جَمَالِهَا وَمَالِهَا، وَيُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ نِسَائِهَا، فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ، إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ فِي إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا بِنِكَاحِ مَنْ سِوَاهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ اسْتَفْتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ‏}‏ قَالَتْ فَبَيَّنَ اللَّهُ فِي هَذِهِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا كَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ وَمَالٍ رَغِبُوا فِي نِكَاحِهَا، وَلَمْ يُلْحِقُوهَا بِسُنَّتِهَا بِإِكْمَالِ الصَّدَاقِ، فَإِذَا كَانَتْ مَرْغُوبَةً عَنْهَا فِي قِلَّةِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ تَرَكُوهَا وَالْتَمَسُوا غَيْرَهَا مِنَ النِّسَاءِ، قَالَ فَكَمَا يَتْرُكُونَهَا حِينَ يَرْغَبُونَ عَنْهَا فَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَنْكِحُوهَا إِذَا رَغِبُوا فِيهَا إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهَا الأَوْفَى مِنَ الصَّدَاقِ وَيُعْطُوهَا حَقَّهَا‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان سے حدیث بیان کرتے تھے‘انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت » وان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتمی فانکحواماطاب لکم من النساء « ( ترجمہ اوپر گزر چکا ) کا مطلب پوچھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی زیر پرورش ہو ‘ پھر ولی کے دل میں اس کا حسن اور اس کے مال کی طرف سے رغبت نکاح پیدا ہو جائے مگر اس کم مہر پر جو ویسی لڑکیوں کا ہو نا چاہئے تو اس طرح نکاح کرنے سے روکا گیا لیکن یہ کہ ولی ان کے ساتھ پورے مہر کی ادائیگی میں انصاف سے کام لیں ( تو نکاح کر سکتے ہیں ) اور انہیں لڑکیوں کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” آپ سے لوگ عورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں ہدایت کرتا ہے “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کر دیا کہ یتیم لڑکی اگر جمال اور مال والی ہو اور ( ان کے ولی ) ان سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں لیکن پورا مہر دینے میں ان کے ( خاندان کے ) طریقوں کی پابندی نہ کر سکیں تو ( وہ ان سے نکاح مت کریں ) جبکہ مال اور حسن کی کمی کی وجہ سے ان کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی ہو تو انہیں وہ چھوڑ دیتے اور ان کے سوا کسی دوسری عورت کو تلاش کرتے ۔ راوی نے کہا جس طرح ایسے لوگ رغبت نہ ہونے کی صورت میں ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ‘ اسی طرح ان کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان لڑکیوں کی طرف انہیں رغبت ہو تو ان کے پورے مہر کے معاملے میں اور ان کے حقوق ادا کرنے میں انصاف سے کام لئے بغیر ان سے نکاح کریں ۔

Narrated Az-Zuhri:

`Urwa bin Az-Zubair said that he asked `Aisha about the meaning of the Qur’anic Verse:– “And if you fear that you will not deal fairly with the orphan girls then marry (other) women of your choice.” (4.2-3) Aisha said, “It is about a female orphan under the guardianship of her guardian who is inclined towards her because of her beauty and wealth, and likes to marry her with a Mahr less than what is given to women of her standard. So they (i.e. guardians) were forbidden to marry the orphans unless they paid them a full appropriate Mahr (otherwise) they were ordered to marry other women instead of them. Later on the people asked Allah’s Messenger (ﷺ) about it. So Allah revealed the following Verse:– “They ask your instruction (O Muhammad!) regarding women. Say: Allah instructs you regarding them…” (4.127) and in this Verse Allah indicated that if the orphan girl was beautiful and wealthy, her guardian would have the desire to marry her without giving her an appropriate Mahr equal to what her peers could get, but if she was undesirable for lack of beauty or wealth, then he would not marry her, but seek to marry some other woman instead of her. So, since he did not marry her when he had no inclination towards her, he had not the right to marry her when he had an interest in her, unless he treated her justly by giving her a full Mahr and securing all her rights.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 25


27

حَدَّثَنَا هَارُونُ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ، تَصَدَّقَ بِمَالٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ يُقَالُ لَهُ ثَمْغٌ، وَكَانَ نَخْلاً، فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي اسْتَفَدْتُ مَالاً وَهُوَ عِنْدِي نَفِيسٌ فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ، لاَ يُبَاعُ وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ ‏”‏‏.‏ فَتَصَدَّقَ بِهِ عُمَرُ، فَصَدَقَتُهُ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِي الرِّقَابِ وَالْمَسَاكِينِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَلِذِي الْقُرْبَى، وَلاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ بِهِ‏.‏

ہم سے ہارون بن اشعث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے بنو ہاشم کے غلام ابوسعید نے بیان کیا ‘ ان سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک جائیداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وقف کر دی ‘ اس جائیداد کا نام ثمغ تھا اور یہ ایک کھجور کا ایک باغ تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایک جائیداد ملی ہے اور میرے خیال میں نہایت عمدہ ہے ‘ اس لئے میں نے چاہا کہ اسے صدقہ کر دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل مال کو صدقہ کر کہ نہ بیچا جا سکے نہ ہبہ کیا جا سکے اور نہ اس کا کوئی وارث بن سکے ‘ صرف اس کا پھل ( اللہ کی راہ میں ) صرف ہو ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا ‘ ان کا یہ صدقہ غازیوں کے لئے ‘ غلام آزاد کرانے کے لئے ، محتاجوں اور کمزوروں کے لئے ‘ مسافروں کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے تھا اور یہ کہ اس کے نگراں کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہ دستور کے موافق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے بشرطیکہ اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔

Narrated Ibn `Umar:

In the lifetime of Allah’s Messenger (ﷺ) , `Umar gave in charity some of his property, a garden of date-palms called Thamgh. `Umar said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I have some property which I prize highly and I want to give it in charity.” The Prophet; said, “Give it in charity (i.e. as an endowment) with its land and trees on the condition that the land and trees will neither be sold nor given as a present, nor bequeathed, but the fruits are to be spent in charity.” So `Umar gave it in charity, and it was for Allah’s Cause, the emancipation of slaves, for the poor, for guests, for travelers, and for kinsmen. The person acting as its administrator could eat from it reasonably and fairly, and could let a friend of his eat from it provided he had no intention of becoming wealthy by its means.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 26


28

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها – ‏{‏وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ‏}‏‏.‏ قَالَتْ أُنْزِلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ أَنْ يُصِيبَ مِنْ مَالِهِ إِذَا كَانَ مُحْتَاجًا بِقَدْرِ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ‏.‏

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام سے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے( قرآن مجید کی اس آیت ) ” اور جو شخص مالدار ہو وہ اپنے کو یتیم کے مال سے بالکل روکے رکھے ‘ البتہ جو شخص نادار ہو تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے “ کے بارے میں فرمایا کہ یتیموں کے ولیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ یتیم کے مال میں سے اگر ولی نادار ہو تو دستور کے مطابق اس کے مال میں سے لے سکتا ہے ۔

Narrated `Aisha:

The following Verse:– “If a guardian is well-off, let him claim no remuneration (i.e. wages), but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable.” (4.6) was revealed in connection with the guardian of an orphan, and it means that if he is poor he can have for himself (from the orphan’s wealth) what is just and reasonable according to the orphan’s share of the inheritance.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 27


29

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُنَّ قَالَ ‏”‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ‘ ان سے ثور بن زید مدنی نے بیان کیا ‘ ان سے ابو غیث نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں ‘ بچتے رہو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ‘ جادو کرنا ‘ کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ لڑائی میں سے بھاگ جانا ‘ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Avoid the seven great destructive sins.” The people enquire, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! What are they? “He said, “To join others in worship along with Allah, to practice sorcery, to kill the life which Allah has forbidden except for a just cause, (according to Islamic law), to eat up Riba (usury), to eat up an orphan’s wealth, to give back to the enemy and fleeing from the battlefield at the time of fighting, and to accuse, chaste women, who never even think of anything touching chastity and are good believers.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 28


3

حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْصَى فَقَالَ لاَ‏.‏ فَقُلْتُ كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ قَالَ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ‏.‏

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی ؟ یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا ) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا ؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی ۔ ( اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لئے حکم موجود ہے )

Narrated Talha bin Musarrif:

I asked `Abdullah bin Abu `Aufa “Did the Prophet (ﷺ) make a will?” He replied, “No,” I asked him, “How is it then that the making of a will has been enjoined on people, (or that they are ordered to make a will)?” He replied, “The Prophet (ﷺ) bequeathed Allah’s Book (i.e. Qur’an).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 3


30

وَقَالَ لَنَا سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ مَا رَدَّ ابْنُ عُمَرَ عَلَى أَحَدٍ وَصِيَّةً‏.‏ وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ أَحَبَّ الأَشْيَاءِ إِلَيْهِ فِي مَالِ الْيَتِيمِ أَنْ يَجْتَمِعَ إِلَيْهِ نُصَحَاؤُهُ وَأَوْلِيَاؤُهُ فَيَنْظُرُوا الَّذِي هُوَ خَيْرٌ لَهُ‏.‏ وَكَانَ طَاوُسٌ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَىْءٍ مِنْ أَمْرِ الْيَتَامَى قَرَأَ ‏{‏وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‏}‏‏.‏ وَقَالَ عَطَاءٌ فِي يَتَامَى الصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ يُنْفِقُ الْوَلِيُّ عَلَى كُلِّ إِنْسَانٍ بِقَدْرِهِ مِنْ حِصَّتِهِ‏.‏

اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ ان سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے نافع نے بیان کیا کہابن عمر رضی اللہ عنہما کو کوئی وصی بناتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتے ۔ ابن سیرین تابعی رحمہ اللہ کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ یتیم کے مال و جائیداد کے سلسلے میں ان کے خیر خواہوں اور ولیوں کو جمع کرتے تاکہ ان کے لئے کوئی اچھی صورت پیدا کرنے کے لئے غور کریں ۔ طاؤس تابعی رحمہ اللہ سے جب یتیموں کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا تو آپ یہ آیت پڑھتے کہ ” اور اللہ فساد پیدا کرنے والے اور سنوارنے والے کو خوب جانتا ہے ۔ “ عطاء رحمہ اللہ نے یتیموں کے بارے میں کہا خواہ وہ معمولی قسم کے لوگوں میں ہوں یا بڑے درجے کے ‘ اس کا ولی اس کے حصہ میں سے جیسے اس کے لائق ہو ، ویسا اس پر خرچ کرے ۔

Nafi’ said:”Ibn ‘Umar never refused to be appointed as guardian.” The most beloved thing to Ibn Sirin concerning an orphan’s wealth was that the orphan’s advisor and guardians would assemble to decide what is best for him. When Tawus was asked about something concerning an orphan’s affairs, he would recite: ‘…And Allah knows him who means mischief from him who means good…’ (V 2:220). ‘Ata said concerning some orphans, “The guardian is to provide for the young and the old orphans according to their needs from their shares.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 28


31

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَيِّسٌ، فَلْيَخْدُمْكَ‏.‏ قَالَ فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَا قَالَ لِي لِشَىْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا وَلاَ لِشَىْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا

ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ‘ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا ۔ اس لئے ابوطلحہ ( جو میرے سوتیلے باپ تھے ) میرا ہاتھ پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انس سمجھ دار بچہ ہے ۔ یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی سفر اور حضر میں خدمت کی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی کسی کام کے بارے میں جسے میں نے کر دیا ہو ‘ یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا ‘ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جسے میں نہ کر سکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا ۔

Narrated Anas:

When Allah’s Messenger (ﷺ) came to Medina; he did not have any servant. Abu Talha (Anas’ step-father) took me to Allah’s Messenger (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Anas is a wise boy, so let him serve you.” So, I served him at home and on journeys. If I did anything, he never asked me why I did it, and if I refrained from doing anything, he never asked me why I refrained from doing it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 29


32

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالاً مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرَحَاءَ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَلَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ قَامَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَىَّ بِيرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ بَخْ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ـ أَوْ رَايِحٌ ـ شَكَّ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَفِي بَنِي عَمِّهِ‏.‏ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى عَنْ مَالِكٍ ‏”‏ رَايِحٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سناآپ بیان کرتے تھے کہابوطلحہ رضی اللہ عنہ کجھور کے باغات کے اعتبار سے مدینہ کے انصار میں سب سے بڑے مالدار تھے اور انہیں اپنے تمام مالوں میں مسجدنبوی کے سامنے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ” نیکی تم ہرگز نہیں حاصل کرو گے جب تک اپنے اس مال سے نہ خرچ کرو جو تمہیں پسند ہوں “ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکو گے جب تک اپنے ان مالوں میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں زیادہ پسند ہوں “ اور میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسند بیرحاء ہے اور یہ اللہ کے راستہ میں صدقہ ہے ‘ میں اللہ کی بارگاہ سے اس کی نیکی اور ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں ‘ آپ کو جہاں اللہ تعالیٰ بتائے اسے خرچ کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاباش یہ تو بڑا فائدہ بخش مال ہے یا ( آپ نے بجائے رابع کے رائح کہا ) یہ شک عبداللہ بن مسلمہ راوی کو ہوا تھا ۔ ۔ ۔ اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے ناطے والوں کو دے دو ۔ ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ایسا ہی کروں گا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے لڑکوں میں تقسیم کر دیا ۔ اسماعیل ‘ عبداللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے مالک کے واسطہ سے ۔ رابح کے بجائے رائح بیان کیا ہے ۔

Narrated Anas bin Malik:

Abu Talha had the greatest wealth of date-palms amongst the Ansar in Medina, and he prized above all his wealth (his garden) Bairuha’, which was situated opposite the Mosque (of the Prophet (ﷺ) ). The Prophet used to enter It and drink from its fresh water. When the following Divine Verse came:– “By no means shall you attain piety until you spend of what you love,” (3.92) Abu Talha got up saying. “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Allah says, ‘You will not attain piety until you spend of what you love,’ and I prize above al I my wealth, Bairuha’ which I want to give in charity for Allah’s Sake, hoping for its reward from Allah. So you can use it as Allah directs you.” On that the Prophet (ﷺ) said, “Bravo! It is a profitable (or perishable) property. (Ibn Maslama is not sure as to which word is right, i.e. profitable or perishable.) I have heard what you have said, and I recommend that you distribute this amongst your relatives.” On that Abu Talha said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I will do (as you have suggested).” So, Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and cousins.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 30


33

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ رَجُلاً، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ أَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَإِنَّ لِي مِخْرَافًا وَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا‏.‏

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی ‘ کہا ہم کو زکریابن اسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے بیان کیا عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہایک صحابی سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے ۔ کیا اگر وہ ان کی طرف سے خیرات کریں تو انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں ۔ اس پر ان صحابی نے کہا کہ میرا ایک پر میوہ باغ ہے اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ ان کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

A man said to Allah’s Messenger (ﷺ) , “My mother died, will it benefit her if I give in charity on her behalf?” The Prophet (ﷺ) replied in the affirmative. The man said, “I have a garden and I make you a witness that I give it in charity on her behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 31


34

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ ‏ “‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا ‏”‏‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ وَاللَّهِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ابو التیاح یزید بن حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ‘ انہوں نے کہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مدینہ میں ) مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا تم اپنے اس باغ کا مجھ سے مول کر لو ۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں خدا کی قسم ہم تو اللہ ہی سے اس کا مول لیں گے ۔

Narrated Anas:

When the Prophet (ﷺ) ordered that the mosque be built, he said, “O Bani An-Najjar! Suggest to me a price for this garden of yours.” They replied, “By Allah! We will demand its price from none but Allah.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 32


35

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ ‏ “‏ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا ‏”‏‏.‏ فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ، وَلاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ‏.‏

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عون رضی اللہ عنہ نے بیان کیاان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ،عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی ( جس کا نام ثمغ تھا ) تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایک زمین ملی ہے اور اس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ ( وقف ) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے ، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے اور فقراء ، رشتہ دار ، غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے راستے ( کے مجاہدوں ) مہمانوں اور مسافروں کے لئے ( وقف ہے ) جو شخص بھی اس کا متولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو ۔

Narrated Ibn `Umar:

When `Umar got a piece of land in Khaibar, he came to the Prophet (ﷺ) saying, “I have got a piece of land, better than which I have never got. So what do you advise me regarding it?” The Prophet (ﷺ) said, “If you wish you can keep it as an endowment to be used for charitable purposes.” So, `Umar gave the land in charity (i.e. as an endowments on the condition that the land would neither be sold nor given as a present, nor bequeathed, (and its yield) would be used for the poor, the kinsmen, the emancipation of slaves, Jihad, and for guests and travelers; and its administrator could eat in a reasonable just manner, and he also could feed his friends without intending to be wealthy by its means.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 33


36

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ، رضى الله عنه وَجَدَ مَالاً بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ، قَالَ ‏ “‏ إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا ‏”‏‏.‏ فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَذِي الْقُرْبَى وَالضَّيْفِ‏.‏

ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہعمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک جائیداد ملی تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق خبر دی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے صدقہ کر دو ۔ چنانچہ آپ نے فقراء ‘ مساکین ‘ رشتہ داروں اور مہمانوں کے لئے اسے صدقہ کر دیا ۔

Narrated Ibn `Umar:

`Umar got some property in Khaibar and he came to the Prophet (ﷺ) and informed him about it. The Prophet said to him, “If you wish you can give it in charity.” So `Umar gave it in charity (i.e. as an endowment) the yield of which was to be used for the good of the poor, the needy, the kinsmen and the guests.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 34


37

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ وَقَالَ ‏ “‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا ‏”‏‏.‏ قَالُوا لاَ وَاللَّهِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ‏.‏

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے اپنے والد ( عبدالوارث ) سے سنا ، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مسجد بنانے کے لئے حکم دیا اور فرمایا اے بنو نجار ! اپنے باغ کی مجھ سے قیمت لے لو ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے مانگتے ہیں ۔

Narrated Anas bin Malik:

When Allah’s Messenger (ﷺ) came to Medina, he ordered that a mosque be built. He said, “O Bani An- Najjar! Suggest me a price for the garden of yours.” They replied, “By Allah, we will not ask its price except from Allah.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 35


38

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ، حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَعْطَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَحْمِلَ عَلَيْهَا رَجُلاً، فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا يَبِيعُهَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَبْتَاعَهَا فَقَالَ ‏ “‏ لاَ تَبْتَعْهَا، وَلاَ تَرْجِعَنَّ فِي صَدَقَتِكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمری نے بیان کیا ، کہا کہمجھ سے نافع نے بیان کیا ، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں ( جہاد کرنے کے لئے ) ایک آدمی کو دے دیا ۔ یہ گھوڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ‘ تاکہ آپ جہاد میں کسی کو اس پر سوار کریں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ جس شخص کو یہ گھوڑا ملا تھا ‘ وہ اس گھوڑے کو بازار میں بیچ رہا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا وہ اسے خرید سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز اسے نہ خرید ۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لے ۔

Narrated Ibn `Umar:

Once `Umar gave a horse in charity to be used in holy fighting. It had been given to him by Allah’s Apostle . `Umar gave it to another man to ride. Then `Umar was informed that the man put the horse for sale, so he asked Allah’s Messenger (ﷺ) whether he could buy it. Allah’s Messenger (ﷺ) replied, “You should not buy it, for you should not take back what you have given in charity.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 36


39

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَقْتَسِمْ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهْوَ صَدَقَةٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی میرے وارث ہیں ‘ وہ روپیہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں ‘ وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “My heirs will not inherit a Dinar or a Dirham (i.e. money), for whatever I leave (excluding the adequate support of my wives and the wages of my employees) is given in charity.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 37


4

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ وَصِيًّا‏.‏ فَقَالَتْ مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي ـ أَوْ قَالَتْ حَجْرِي ـ فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي، فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ

ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی عبداللہ بن عون سے ‘ انہیں ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہعائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی رضی اللہ عنہ ( نبی اکرم کے ) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا ۔ میں تو آپ کے وصال کے وقت سرمبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے ( بجائے سینے کے ) کہا کہ اپنے گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپ نے ( پانی کا ) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں ( سرمبارک ) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے تو آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو وصی کب بنایا ۔

Narrated Al-Aswad:

In the presence of `Aisha some people mentioned that the Prophet (ﷺ) had appointed `Ali by will as his successor. `Aisha said, “When did he appoint him by will? Verily when he died he was resting against my chest (or said: in my lap) and he asked for a wash-basin and then collapsed while in that state, and I could not even perceive that he had died, so when did he appoint him by will?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 4


40

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ، اشْتَرَطَ فِي وَقْفِهِ أَنْ يَأْكُلَ مَنْ وَلِيَهُ وَيُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالاً‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف میں یہ شرط لگائی تھی کہ اس کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور اپنے دوست کو کھلا سکتا ہے پر وہ دولت نہ جوڑے ۔

Narrated Ibn `Umar:

When `Umar founded an endowment he stipulated that its administrator could eat from it and also feed his friend on the condition that he would not store anything for himself from it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 38


41

وَقَالَ عَبْدَانُ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ ـ رضى الله عنه ـ حَيْثُ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ أَنْشُدُكُمْ وَلاَ أَنْشُدُ إِلاَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ ‏”‏‏.‏ فَحَفَرْتُهَا، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ قَالَ ‏”‏ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ ‏”‏‏.‏ فَجَهَّزْتُهُمْ‏.‏ قَالَ فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ‏.‏ وَقَالَ عُمَرُ فِي وَقْفِهِ لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ‏.‏ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهْوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ‏.‏

عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی’ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں ابواسحاق نے ‘ انہیں ابوعبدالرحمن نے کہجب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرے میں لئے گئے تو ( اپنے گھر کے ) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا ۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت ( غزوہ تبوک پر جانے والے لشکر ) کو جو شخص ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہو سکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے ۔

Abu ‘Abdur-Rahman narrated:When ‘Uthman (ra) was circled (by the rebels), he looked upon them from above and said, “Ias you by Allah, I ask nobody but the Companions of the Prophet (ﷺ), dont you know that Allah’s Messenger (ﷺ) said, ‘Whoever will (buy and) dig the well of Ruma will be granted Paradise,’ and I (bought and) dug it? Don’t you know that he said. ‘Whoever equip the army of ‘Usra (i.e., Tabuk’s Ghazwa) will be granted Paradise,’ and I equipped it ?” They attested whatever he said. When ‘Umar founded his endowment he said, “Its administrator can eat from it.” The management of the endowment can be taken over by the founder himself or any other person, for both cases are permissible.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 38


42

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ ‏”‏‏.‏ قَالُوا لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اے بنو نجار ! تم اپنے باغ کی قیمت مجھ سے وصول کر لو تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے ۔

Narrated Anas:

The Prophet (ﷺ) said (at the time of building the Mosque), “O Ban, An-Najjar! Suggest to me a price for your garden.” They replied, “We do not ask its price except from Allah.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 39


43

وَقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ فَقَالُوا ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ وَعَدِيٍّ‏.‏ فَقَامَ رَجُلاَنِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، وَإِنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ‏.‏ قَالَ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ ‏إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ}‏

حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ہم سے یحیٰی بن آدم نے ‘ کہا ہم سے ابن ابی زائدہ نے ‘ انہوں نے محمد بن ابی القاسم سے ‘ انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے‘انہوں نے اپنے باپ سے ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہابنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کو نکلا ‘ وہ ایسے ملک میں جا کر مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا ۔ یہ دونوں شخص اس کا متروکہ مال لے کر مدینہ واپس آئے ۔ اس کے اسباب میں چاندی کا ایک گلاس گم تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم کھانے کا حکم فرمایا ( انہوں نے قسم کھا لی ) پھر ایسا ہوا کہ وہ گلاس مکہ میں ملا ، انہوں نے کہا ہم نے یہ گلاس تمیم اور عدی سے خریدا ہے ۔ اس وقت میت کے دو عزیز ( عمرو بن عاص اور مطلب کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اور عدی کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے ‘ یہ گلاس میت ہی کا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ( جو اوپر گزری ) »یایھاالذین امنو اشھادۃ بینکم « آخر آیت تک ۔

Ibn ‘Abbas (ra) said, “A man from the tribe of Bani Sahm went out in the company of Tamim Ad-Dari and ‘Adi bin Badda’. The man of Bani Sahm died in a land where there was no Muslim. When Tamim and ‘Adi returned conveying the property of the deceased, they claimed that they had lost a silver bowl with gold engraving. Allah’s Messenger (ﷺ) made them take an oath (to confirm their claim), and then the bowl was found in Makkah with some people who claimed that they had bought it from Tamim and ‘Adu, Then two witnesses from the relatives of the deceased got up and swore that their witnesses were more valid than the witnesses of ‘Adi and Tamim, and that the bowl belonged to their deceased fellow. So, this verse was revealed in connection with this case ; ‘O you who believe! When death approached any of you …’,” (V 5:106)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 39


44

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، أَوِ الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْهُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، قَالَ قَالَ الشَّعْبِيُّ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ قَالَ ‏”‏ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَتِهِ ‏”‏‏.‏ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ، فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ ادْعُ أَصْحَابَكَ ‏”‏‏.‏ فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَأَنَا وَاللَّهِ رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَلاَ أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ، فَسَلِمَ وَاللَّهِ الْبَيَادِرُ كُلُّهَا حَتَّى أَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَأَنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً‏.‏

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ أُغْرُوا بِي يَعْنِي هِيجُوا بِي فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ

ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا یا فضل بن یعقوب نے محمد بن سابق سے ( یہ شک خود حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو ہے ) کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن ابومعاویہ نے بیان کیا ‘ ان سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شعبی نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہان کے والد ( عبداللہ رضی اللہ عنہ ) احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ۔ اپنے پیچھے چھ لڑکیاں چھوڑی تھیں اور قرض بھی ۔ جب کجھور کے پھل توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد ماجد احد کی لڑائی میں شہید ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں ‘ میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں ( تاکہ قرض میں کچھ رعایت کر دیں ) لیکن وہ یہودی تھے اور وہ نہیں مانے ‘ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور کھلیان میں ہر قسم کی کجھور الگ الگ کر لو جب میں نے ایسا ہی کر لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ‘ قرض خواہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کر دی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو سب سے بڑے کجھور کے ڈھیر کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکر لگائے اور وہیں بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ ناپ کر دینا شروع کیا اور واللہ میرے والد کی تمام امانت ادا کر دی ‘ اللہ گواہ ہے کہ میں اتنے پر بھی راضی تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کا تمام قرض ادا کر دے اور میں اپنی بہنوں کیلئے ایک کجھور بھی اس میں سے نہ لے جاؤں لیکن ہوا یہ کہ ڈھیر کے ڈھیر بچ رہے اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے اس میں سے تو ایک کجھور بھی نہیں دی گئی تھی ۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اغروابی ( حدیث میں الفاظ ) کے معنی ہیں کہ مجھ پر بھڑکنے اور سختی کرنے لگے ۔ اسی معنی میں قرآن مجید کی آیت » فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضائ « میں فاغرینا ہے ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah Al-Ansari:

My father was martyred on the day (of the Ghazwa) of Uhud and left six daughters and some debts to be paid. When the time of plucking the date-fruits came, I went to Allah’s Messenger (ﷺ) and said, “O Allah’s Apostle! you know that my father was martyred on Uhud’s day and owed much debt, and I wish that the creditors would see you.” The Prophet (ﷺ) said, “Go and collect the various kinds of dates and place them separately in heaps”‘ I did accordingly and called him. On seeing him, the creditors started claiming their rights pressingly at that time. When the Prophet (ﷺ) saw how they behaved, he went round the biggest heap for three times and sat over it and said, “Call your companions (i.e. the creditors).” Then he kept on measuring and giving them, till Allah cleared all my father’s debts. By Allah, it would have pleased me that Allah would clear the debts of my father even though I had not taken a single date to my sisters. But by Allah, all the heaps were complete, (as they were) and I looked at the heap where Allah’s Messenger (ﷺ) was sitting and noticed as if not a single date had been taken thereof.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 40


5

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهْوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا قَالَ ‏”‏ يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ الثُّلُثُ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ ‏”‏‏.‏ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ ابْنَةٌ‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجۃ الوداع میں ) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن عفراء ( سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ) پر رحم فرمائے ۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز ( اللہ کے لئے خرچ کرو گے ) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے ( وہ بھی خیرات ہے ) اور ( ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ ( اسلام کے مخالف ) نقصان اٹھائیں ۔ اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھیں ۔

Narrated Sa`d bin Abu Waqqas:

The Prophet (ﷺ) came visiting me while I was (sick) in Mecca, (‘Amir the sub-narrator said, and he disliked to die in the land, whence he had already migrated). He (i.e. the Prophet) said, “May Allah bestow His Mercy on Ibn Afra (Sa`d bin Khaula).” I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! May I will all my property (in charity)?” He said, “No.” I said, “Then may I will half of it?” He said, “No”. I said, “One third?” He said: “Yes, one third, yet even one third is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy than to leave them poor begging others, and whatever you spend for Allah’s sake will be considered as a charitable deed even the handful of food you put in your wife’s mouth. Allah may lengthen your age so that some people may benefit by you, and some others be harmed by you.” At that time Sa`d had only one daughter.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 5


6

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبْعِ، لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ‘کاش ! لوگ ( وصیت کو ) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم تہائی ( کی وصیت کر سکتے ہو ) اور تہائی بھی بہت ہے یا ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) یہ بہت زیادہ رقم ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

I recommend that people reduce the proportion of what they bequeath by will to the fourth (of the whole legacy), for Allah’s Messenger (ﷺ) said, “One-third, yet even one third is too much.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 6


7

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَرِضْتُ فَعَادَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي‏.‏ قَالَ ‏”‏ لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا ‏”‏‏.‏ قُلْتُ أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ ـ قُلْتُ ـ أُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ ‏”‏ النِّصْفُ كَثِيرٌ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَالثُّلُثِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ‏.‏

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زکریابن عدی نے بیان کیا ‘ ان سے مروان بن معاویہ نے ‘ ان سے ہاشم ابن ہاشم نے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے ان کے باپ سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہمیں مکہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے الٹے پاؤں واپس نہ کر دے ( یعنی مکہ میں میری موت نہ ہو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحت دے اور تم سے بہت سے لوگ نفع اٹھائیں ۔ میں نے عرض کیا میرا ارادہ وصیت کرنے کا ہے ۔ ایک لڑکی کے سوا اور میرے کوئی ( اولاد ) نہیں ۔ میں نے پوچھا کیا آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدھا تو بہت ہے ۔ پھر میں نے پوچھا تو تہائی کی کر دوں ؟ فرمایا کہ تہائی کی کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے یا ( یہ فرمایا کہ ) بڑی ( رقم ) ہے ۔ چنانچہ لوگ بھی تہائی کی وصیت کرنے لگے اور یہ ان کیلئے جائز ہو گئی ۔

Narrated Sa`d:

I fell sick and the Prophet (ﷺ) paid me a visit. I said to him, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I invoke Allah that He may not let me expire in the land whence I migrated (i.e. Mecca).” He said, “May Allah give you health and let the people benefit by you.” I said, “I want to will my property, and I have only one daughter and I want to will half of my property (to be given in charity).” He said,” Half is too much.” I said, “Then I will one third.” He said, “One-third, yet even one-third is too much.” (The narrator added, “So the people started to will one third of their property and that was Permitted for them.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 7


8

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ‏.‏ فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدٌ فَقَالَ ابْنُ أَخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَىَّ فِيهِ‏.‏ فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ أَخِي، وَابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ‏.‏ فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي، كَانَ عَهِدَ إِلَىَّ فِيهِ‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي‏.‏ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ ابْنَ زَمْعَةَ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ ‏”‏ احْتَجِبِي مِنْهُ ‏”‏‏.‏ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے ‘ وہ عروہ بن زبیر سے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہعتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے ‘ اس لئے تم اسے لے لینا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ۔ انہوں نے اس بارے میں مجھے اس کی وصیت کی تھی ۔ پھر عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ تو میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی نے اس کو جنا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ پھر یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ‘ مجھے اس نے وصیت کی تھی ۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ میرا بھائی اور میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہ فرمایا کہ لڑکا تمہارا ہی ہے عبد بن زمعہ ! بچہ فراش کے تحت ہوتا ہے اور زانی کے حصے میں پتھر ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی مشابہت اس لڑکے میں صاف پائی تھی ۔ چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہ دیکھا تاآنکہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملیں ۔

Narrated `Aisha:

(the wife of the Prophet) `Utba bin Abi Waqqas entrusted (his son) to his brother Sa`d bin Abi Waqqas saying, “The son of the slave-girl of Zam`a is my (illegal) son, take him into your custody.” So during the year of the Conquest (of Mecca) Sa`d took the boy and said, “This is my brother’s son whom my brother entrusted to me.” ‘Abu bin Zam’s got up and said, “He is my brother and the son of the slave girl of my father and was born on my father’s bed.” Then both of them came to Allah’s Apostle and Sa`d said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! This is my brother’s son whom my brother entrusted to me.” Then ‘Abu bin Zam`a got up and said, “This is my brother and the son of the slave-girl of my father.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “O Abu bin Zam`a! This boy is for you as the boy belongs to the bed (where he was born), and for the adulterer is the stone (i.e. deprivation).” Then the Prophet (ﷺ) said to his wife Sauda bint Zam`a, “Screen yourself from this boy,” when he saw the boy’s resemblance to `Utba. Since then the boy did not see Sauda till he died.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 8


9

حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ أَبِي عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ يَهُوِدِيًّا، رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا مَنْ فَعَلَ بِكِ، أَفُلاَنٌ أَوْ فُلاَنٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَجِيءَ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى اعْتَرَفَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ‏.‏

ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہایک یہودی نے ایک ( انصاری ) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا ۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے ؟ کیا فلاں شخص نے کیا ؟ فلاں نے کیا ؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا ( جس نے اس کا سر کچل دیا تھا ) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا ۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا ۔

Narrated Anas:

A Jew crushed the head of a girl between two stones. She was asked, “Who has done so to you, soand- so? So-and-so?” Till the name of the Jew was mentioned, whereupon she nodded (in agreement). So the Jew was brought and was questioned till he confessed. The Prophet (ﷺ) then ordered that his head be crushed with stones.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 51, Hadith 9


Scroll to Top
Scroll to Top
Skip to content