Prophets

1

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ‏.‏ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ‏.‏ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ‏.‏ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ‏.‏ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّى الآنَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا پھر فرمایا کہ جا اور ان ملائکہ کو سلام کر ، دیکھنا کن لفظوں میں وہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہو گا ۔ آدم علیہ السلام ( گئے اور ) کہا ، السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا ، السلام علیک و رحمۃ اللہ ۔ انہوں نے و رحمۃ اللہ کا جملہ بڑھا دیا ، پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی شکل اور قامت پر داخل ہو گا ، آدم علیہ السلام کے بعد انسانوں میں اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah created Adam, making him 60 cubits tall. When He created him, He said to him, “Go and greet that group of angels, and listen to their reply, for it will be your greeting (salutation) and the greeting (salutations of your offspring.” So, Adam said (to the angels), As-Salamu Alaikum (i.e. Peace be upon you). The angels said, “As-salamu Alaika wa Rahmatu-l-lahi” (i.e. Peace and Allah’s Mercy be upon you). Thus the angels added to Adam’s salutation the expression, ‘Wa Rahmatu-l-lahi,’ Any person who will enter Paradise will resemble Adam (in appearance and figure). People have been decreasing in stature since Adam’s creation.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 543


10

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مرہ نے بیان کیا ، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے ۔ کیونکہ قتل ناحق کی بنا سب سے پہلے اسی نے قائم کی تھی ۔

Narrated `Abdullah:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Whenever a person is murdered unjustly, there is a share from the burden of the crime on the first son of Adam for he was the first to start the tradition of murdering.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 552


100

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتِ ‏{‏الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‏}‏ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّنَا لاَ يَظْلِمُ نَفْسَهُ قَالَ ‏”‏ لَيْسَ ذَلِكَ، إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لاِبْنِهِ وَهْوَ يَعِظُهُ ‏{‏يَا بُنَىَّ لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‏}‏‏”‏‏.‏

مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے علقمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب آیت ” جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ، ، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بڑا شاق گزرا اور انہوں نے عرض کیا ہم میں کون ایسا ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی ہو گی ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ، ظلم سے مراد آیت میں شرک ہے ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا اسے نصیحت کرتے ہوئے کہ ، ، اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ، بیشک شرک بڑا ہی ظلم ہے ۔

Narrated `Abdullah:

When the Verse:– ‘Those who believe and mix not their belief with wrong.’ was revealed, the Muslims felt it very hard on them and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Who amongst us does not do wrong to himself?” He replied, “The Verse does not mean this. But that (wrong) means to associate others in worship to Allah: Don’t you listen to what Luqman said to his son when he was advising him,” O my son! Join not others in worship with Allah. Verily joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.” (31.13)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 639


101

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةَ أُسْرِيَ ‏ “‏ ثُمَّ صَعِدَ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ فَلَمَّا خَلَصْتُ، فَإِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ‏.‏ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا‏.‏ فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالاَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کے متعلق بیان فرمایا کہ پھر آپ اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے ۔ پھر دروازہ کھولنے کے لئے کہا ۔ پوچھا گیا ، کون ہیں ؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام ۔ پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پوچھا گیا ، کیا انہیں لانے کے لیے بھیجا ، کہا کہ جی ہاں ۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو عیسیٰ اور یحییٰ علیہماالسلام وہاں موجود تھے ۔ یہ دونوں نبی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام ہیں ۔ انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا ، دونوں نے جواب دیا اور کہا خوش آمدید نیک بھائی اور نیک نبی ۔

Narrated Malik bin Sasaa:

That the Prophet (ﷺ) talked to them about the night of his Ascension to the Heavens. He said, “(Then Gabriel took me) and ascended up till he reached the second heaven where he asked for the gate to be opened, but it was asked, ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘I am Gabriel.’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ He replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ He said, ‘Yes.’ When we reached over the second heaven, I saw Yahya (i.e. John) and Jesus who were cousins. Gabriel said, ‘These are John (Yahya) and Jesus, so greet them.’ I greeted them and they returned the greeting saying, ‘Welcome, O Pious Brother and Pious Prophet!;’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 640


102

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلاَّ يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ، غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا ‏”‏‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ ‏{‏وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ‏}‏‏.‏

ہم سے ابو لیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا ، کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے ۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے ۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ ! ) میں اسے ( مریم کو ) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔

Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab:

Abu Huraira said, “I heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, ‘There is none born among the off-spring of Adam, but Satan touches it. A child therefore, cries loudly at the time of birth because of the touch of Satan, except Mary and her child.” Then Abu Huraira recited: “And I seek refuge with You for her and for her offspring from the outcast Satan” (3.36)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 641


103

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ ‏”‏‏.‏

مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا ، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا ، ان سے ہشام ، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ، کہا کہ میں نے عبداللہ بن جعفر سے سنا ، کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مریم بنت عمران ( اپنے زمانہ میں ) سب سے بہترین خاتون تھیں اور اس امت کی سب سے بہترین خاتون حضرت خدیجہ ہیں ( رضی اللہ عنہا ) ۔

Narrated `Ali:

I heard the Prophet (ﷺ) saying, “Mary, the daughter of `Imran, was the best among the women (of the world of her time) and Khadija is the best amongst the women. (of this nation).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 642


104

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ، كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ‏”‏‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن مرہ نے ، انہوں نے کہا ہم کہ میں نے مرہ ہمدانی سے سنا ۔ وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ۔ مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہو گزرے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہیں ہوئی ۔

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari:

The Prophet (ﷺ) said, “The superiority of `Aisha to other ladies is like the superiority of Tharid (i.e. meat and bread dish) to other meals. Many men reached the level of perfection, but no woman reached such a level except Mary, the daughter of `Imran and Asia, the wife of Pharaoh.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 643


105

وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الإِبِلَ، أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ ‏”‏‏.‏ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَى إِثْرِ ذَلِكَ وَلَمْ تَرْكَبْ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ بَعِيرًا قَطُّ‏.‏ تَابَعَهُ ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ وَإِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏.‏

اور ابن وہب نے بیان کیا کہ مجھے یونس نے خبر دی ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ اونٹ سوار ہونے والیوں ( عربی خواتین ) میں سب سے بہترین قریشی خواتین ہیں ۔ اپنے بچے پر سب سے زیادہ محبت و شفقت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال و اسباب کی سب سے بہتر نگراں و محافظ ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے تھے کہ مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی تھیں ۔ یونس کے ساتھ اس حدیث کو زہری کے بھتیجے اور اسحاق کلبی نے بھی زہری سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Abu Huraira:I heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “Amongst all those women who ride camels (i.e. Arabs), the ladies of Quraish are the best. They are merciful and kind to their off-spring and the best guardians of their husbands’ properties.’ Abu Huraira added, “Mary the daughter of `Imran never rode a camel.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 643


106

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ، أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ ‏”‏‏.‏ قَالَ الْوَلِيدُ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ عَنْ عُمَيْرٍ عَنْ جُنَادَةَ وَزَادَ ‏”‏ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ، أَيَّهَا شَاءَ ‏”‏‏.‏

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، ان سے اوزاعی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں ، جسے پہنچا دیا تھا اللہ نے مریم تک اور ایک روح ہیں اس کی طرف سے اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو اس نے جو بھی عمل کیا ہو گا ( آخر ) اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ ولید نے بیان کیا ، کہ مجھ سے ابن جابر نے بیان کیا ، ان سے عمیر نے اور جنادہ نے اور اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا ( ایسا شخص ) جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے ( داخل ہو گا ) ۔

Narrated ‘Ubada:

The Prophet (ﷺ) said, “If anyone testifies that None has the right to be worshipped but Allah Alone Who has no partners, and that Muhammad is His Slave and His Apostle, and that Jesus is Allah’s Slave and His Apostle and His Word which He bestowed on Mary and a Spirit created by Him, and that Paradise is true, and Hell is true, Allah will admit him into Paradise with the deeds which he had done even if those deeds were few.” (Junada, the sub-narrator said, ” ‘Ubada added, ‘Such a person can enter Paradise through any of its eight gates he likes.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 644


107

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلاَّ ثَلاَثَةٌ عِيسَى، وَكَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ جُرَيْجٌ، كَانَ يُصَلِّي، فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ، فَقَالَ أُجِيبُهَا أَوْ أُصَلِّي‏.‏ فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُوهَ الْمُومِسَاتِ‏.‏ وَكَانَ جُرَيْجٌ فِي صَوْمَعَتِهِ، فَتَعَرَّضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَكَلَّمَتْهُ فَأَبَى، فَأَتَتْ رَاعِيًا، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا، فَقَالَتْ مِنْ جُرَيْجٍ‏.‏ فَأَتَوْهُ فَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ، وَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلاَمَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلاَمُ قَالَ الرَّاعِي‏.‏ قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ‏.‏ قَالَ لاَ إِلاَّ مِنْ طِينٍ‏.‏ وَكَانَتِ امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنًا لَهَا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ رَاكِبٌ ذُو شَارَةٍ، فَقَالَتِ اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ‏.‏ فَتَرَكَ ثَدْيَهَا، وَأَقْبَلَ عَلَى الرَّاكِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ‏.‏ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهَا يَمَصُّهُ ـ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَمَصُّ إِصْبَعَهُ ـ ثُمَّ مُرَّ بِأَمَةٍ فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذِهِ‏.‏ فَتَرَكَ ثَدْيَهَا فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا‏.‏ فَقَالَتْ لِمَ ذَاكَ فَقَالَ الرَّاكِبُ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، وَهَذِهِ الأَمَةُ يَقُولُونَ سَرَقْتِ زَنَيْتِ‏.‏ وَلَمْ تَفْعَلْ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریربن حازم نے بیان کیا ، ان سے محمد بن سرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی ۔ اول عیسیٰ علیہ السلام ( دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ، نام جریج تھا ۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا ۔ انہوں نے ۔ ( اپنے دل میں ) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں ؟ اس پر ان کی والدہ نے ( غصہ ہو کر ) بدعا کی ، اے اللہ ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے ( اس کی خواہش پوری کرنے سے ) انکار کیا ۔ پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا ۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے ۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا ، انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں ۔ پھر انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی ، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے ؟ بچہ ( اللہ کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر ( ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور ) کہا ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے ۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں ، مٹی ہی کا بنے گا ( تیسرا واقعہ ) اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی ، اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ۔ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا ، اس عورت نے دعا کی ، اے اللہ ! میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ ( اللہ کے حکم سے ) بول پڑا کہ اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ بنانا ۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی چوس رہے ہیں ( بچے کے دودھ پینے لگنے کی کیفیت بتلاتے وقت ) پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی ( جسے اس کے مالک مار رہے تھے ) تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا ۔ بچے نے پھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ ! مجھے اسی جیسا بنا دے ۔ اس عورت نے پوچھا ۔ ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے ؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے چوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “None spoke in cradle but three: (The first was) Jesus, (the second was), there a man from Bani Israel called Juraij. While he was offering his prayers, his mother came and called him. He said (to himself), ‘Shall I answer her or keep on praying?” (He went on praying) and did not answer her, his mother said, “O Allah! Do not let him die till he sees the faces of prostitutes.” So while he was in his hermitage, a lady came and sought to seduce him, but he refused. So she went to a shepherd and presented herself to him to commit illegal sexual intercourse with her and then later she gave birth to a child and claimed that it belonged to Juraij. The people, therefore, came to him and dismantled his hermitage and expelled him out of it and abused him. Juraij performed the ablution and offered prayer, and then came to the child and said, ‘O child! Who is your father?’ The child replied, ‘The shepherd.’ (After hearing this) the people said, ‘We shall rebuild your hermitage of gold,’ but he said, ‘No, of nothing but mud.'(The third was the hero of the following story) A lady from Bani Israel was nursing her child at her breast when a handsome rider passed by her. She said, ‘O Allah ! Make my child like him.’ On that the child left her breast, and facing the rider said, ‘O Allah! Do not make me like him.’ The child then started to suck her breast again. (Abu Huraira further said, “As if I were now looking at the Prophet (ﷺ) sucking his finger (in way of demonstration.”) After a while the people passed by, with a lady slave and she (i.e. the child’s mother) said, ‘O Allah! Do not make my child like this (slave girl)!, On that the child left her breast and said, ‘O Allah! Make me like her.’ When she asked why, the child replied, ‘The rider is one of the tyrants while this slave girl is falsely accused of theft and illegal sexual intercourse.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 645


108

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ،‏.‏ حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ لَقِيتُ مُوسَى ـ قَالَ فَنَعَتَهُ ـ فَإِذَا رَجُلٌ ـ حَسِبْتُهُ قَالَ ـ مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ ـ قَالَ ـ وَلَقِيتُ عِيسَى ـ فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ـ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ ـ يَعْنِي الْحَمَّامَ ـ وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ ـ قَالَ ـ وَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالآخَرُ فِيهِ خَمْرٌ، فَقِيلَ لِي خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ‏.‏ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ لِي هُدِيتَ الْفِطْرَةَ، أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبر دی ، انہیں معمر نے ( دوسری سند ) مجھ سے محمود نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس رات میری معراج ہوئی ، میں نے موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تھی ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلیہ بیان کیا وہ …. میرا خیال ہے کہ معمر نے کہا …. درازقامت اور سیدھے بالوں والے تھے جیسے قبیلہ شنوہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی حلیہ بیان فرمایا کہ درمیانہ قد اور سرخ و سپید تھے ، جیسے ابھی ابھی غسل خانے سے باہر آئے ہوں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی اور میں ان کی اولاد میں ان سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس دو برتن لائے گئے ، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب ۔ مجھ سے کہا گیا کہ جو آپ کا جی چاہے لے لو ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور پی لیا ۔ اس پر مجھ سے کہا گیا کہ فطرت کی آپ نے راہ پالی ، یا فطرت کو آپ نے پا لیا ۔ اس کے بجائے اگر آپ شراب کا برتن لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی ۔

Narrated Hisham:

From Ma`mar as below.

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “I met Moses on the night of my Ascension to heaven.” The Prophet (ﷺ) then described him saying, as I think, “He was a tall person with lank hair as if he belonged to the people of the tribe of Shanu’s.’ The Prophet (ﷺ) further said, “I met Jesus.” The Prophet (ﷺ) described him saying, “He was one of moderate height and was red-faced as if he had just come out of a bathroom. I saw Abraham whom I resembled more than any of his children did.” The Prophet (ﷺ) further said, “(That night) I was given two cups; one full of milk and the other full of wine. I was asked to take either of them which I liked, and I took the milk and drank it. On that it was said to me, ‘You have taken the right path (religion). If you had taken the wine, your (Muslim) nation would have gone astray.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 646


109

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ رَأَيْتُ عِيسَى وَمُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ، فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ، وَأَمَّا مُوسَى فَآدَمُ جَسِيمٌ سَبْطٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ الزُّطِّ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی ، کہا ہم کو عثمان بن مغیرہ نے خبر دی ، انہیں مجاہد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں نے عیسیٰ ، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا ۔ عیسیٰ علیہ السلام نہایت سرخ گھونگھریالے بال والے اور چوڑے سینے والے تھے اور موسیٰ علیہ السلام گندم ، گوں درازقامت اور سیدھے بالوں والے تھے جیسے کوئی قبیلہ زط کا آدمی ہو ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “I saw Moses, Jesus and Abraham (on the night of my Ascension to the heavens). Jesus was of red complexion, curly hair and a broad chest. Moses was of brown complexion, straight hair and tall stature as if he was from the people of Az-Zutt.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 648


11

قَالَ قَالَ اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا‏.‏

امام بخاری نے کہا کہ لیث بن سعد نے روایت کیا یحییٰ بن سعید انصاری سے ، ان سے عمرہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے ۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں اور یحییٰ بن ایوب نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، آخر تک ۔

Narrated Aishah (ra):I heard the Prophet (ﷺ), “Souls are like recruited troops: Those who are like qualities are inclined to each other, but those who have dissimilar qualities, differ.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 55, Hadith 552


110

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَكَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَىِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلاَ إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ ‏”‏‏.‏ ‏”‏ وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ، رَجِلُ الشَّعَرِ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَىْ رَجُلَيْنِ وَهْوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ‏.‏ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ‏.‏ ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلاً وَرَاءَهُ جَعْدًا قَطَطًا أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ بِابْنِ قَطَنٍ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَىْ رَجُلٍ، يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ‏.‏

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعا لیٰ کانا نہیں ہے ، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا ، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی ۔ اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا ۔ اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے ، سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں ؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ۔ اس کے بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا ، سخت اور مڑے ہوئے بالوں والا جو داہنی آنکھ سے کانا تھا ۔ اسے میں نے ابن قطن سے سب سے زیادہ شکل میں ملتا ہوا پایا ، وہ بھی ایک شخص کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا ۔ میں نے پوچھا ، یہ کون ہیں ؟ فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے ۔ اس روایت کی متابعت عبیداللہ نے نافع سے کی ہے ۔

Narrated `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) mentioned the Masih Ad-Dajjal in front of the people saying, Allah is not one-eyed while Masih Ad-Dajjal is blind in the right eye and his eye looks like a bulging out grape. While sleeping near the Ka`ba last night, I saw in my dream a man of brown color the best one can see amongst brown color and his hair was long that it fell between his shoulders. His hair was lank and water was dribbling from his head and he was placing his hands on the shoulders of two men while circumambulating the Ka`ba. I asked, ‘Who is this?’ They replied, ‘This is Jesus, son of Mary.’ Behind him I saw a man who had very curly hair and was blind in the right eye, resembling Ibn Qatan (i.e. an infidel) in appearance. He was placing his hands on the shoulders of a person while performing Tawaf around the Ka`ba. I asked, ‘Who is this? ‘They replied, ‘The Masih, Ad-Dajjal.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 649


111

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ، قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ،، قَالَ لاَ وَاللَّهِ مَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِعِيسَى أَحْمَرُ، وَلَكِنْ قَالَ ‏ “‏ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعَرِ، يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً أَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُهُ مَاءً فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا ابْنُ مَرْيَمَ، فَذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ، فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ، جَعْدُ الرَّأْسِ، أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ‏.‏ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا الدَّجَّالُ‏.‏ وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ ‏”‏‏.‏ قَالَ الزُّهْرِيُّ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ هَلَكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ‏.‏

ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے سنا ، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا ، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہہرگز نہیں ۔ خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ سرخ تھے بلکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اپنے کو دیکھا ، اس وقت مجھے ایک صاحب نظر آئے جو گندمی رنگ لٹکے ہوئے بال والے تھے ، دو آدمیوں کے درمیان ان کا سہارا لئے ہوئے اور سر سے پانی صاف کر رہے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ آپ ابن مریم علیہما السلام ہیں ۔ اس پر میں نے انہیں غور سے دیکھا تو مجھے ایک اور شخص بھی دکھائی دیا جو سرخ ، موٹا ، سر کے بال مڑے ہوئے اور داہنی آنکھ سے کانا تھا ، اس کی آنکھ ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے اٹھا ہوا انار ہو ، میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے ۔ اس سے شکل و صورت میں ابن قطن بہت زیادہ مشابہ تھا ۔ زہری نے کہا کہ یہ قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مر گیا تھا ۔

Narrated Salim from his father:

No, By Allah, the Prophet (ﷺ) did not tell that Jesus was of red complexion but said, “While I was asleep circumambulating the Ka`ba (in my dream), suddenly I saw a man of brown complexion and lank hair walking between two men, and water was dropping from his head. I asked, ‘Who is this?’ The people said, ‘He is the son of Mary.’ Then I looked behind and I saw a red-complexioned, fat, curly-haired man, blind in the right eye which looked like a bulging out grape. I asked, ‘Who is this?’ They replied, ‘He is Ad-Dajjal.’ The one who resembled to him among the people, was Ibn Qatar.” (Az-Zuhri said, “He (i.e. Ibn Qatan) was a man from the tribe Khuza`a who died in the pre-lslamic period.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 650


112

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عَنْهُ ـ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ، وَالأَنْبِيَاءُ أَوْلاَدُ عَلاَّتٍ، لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں ابن مریم علیہما السلام سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں ، انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اور میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

I heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “I am the nearest of all the people to the son of Mary, and all the prophets are paternal brothers, and there has been no prophet between me and him (i.e. Jesus).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 651


113

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَالأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلاَّتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى، وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور انبیاء علیہم السلام علاتی بھائیوں ( کی طرح ) ہیں ۔ ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے ۔ اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے ، ان سے صفوان بن سلیم نے ، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Both in this world and in the Hereafter, I am the nearest of all the people to Jesus, the son of Mary. The prophets are paternal brothers; their mothers are different, but their religion is one.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 652


114

وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلاً يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ أَسَرَقْتَ قَالَ كَلاَّ وَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ‏.‏ فَقَالَ عِيسَى آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ عَيْنِي ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالر زاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ہمام نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا پھر اس سے دریافت فرمایا تو نے چوری کی ہے ؟ اس نے کہا ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں کو دھوکا ہوا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Jesus, seeing a man stealing, asked him, ‘Did you steal?, He said, ‘No, by Allah, besides Whom there is none who has the right to be worshipped’ Jesus said, ‘I believe in Allah and suspect my eyes.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 653


115

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، سَمِعَ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے زہری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں ، اس لئے یہی کہا کرو ( میرے متعلق ) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔

Narrated `Umar:

I heard the Prophet (ﷺ) saying, “Do not exaggerate in praising me as the Christians praised the son of Mary, for I am only a Slave. So, call me the Slave of Allah and His Apostle.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 654


116

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ حَىٍّ، أَنَّ رَجُلاً، مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ قَالَ لِلشَّعْبِيِّ‏.‏ فَقَالَ الشَّعْبِيُّ أَخْبَرَنِي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِذَا أَدَّبَ الرَّجُلُ أَمَتَهُ فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا، كَانَ لَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا آمَنَ بِعِيسَى ثُمَّ آمَنَ بِي، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَالْعَبْدُ إِذَا اتَّقَى رَبَّهُ وَأَطَاعَ مَوَالِيَهُ، فَلَهُ أَجْرَانِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، کہا ہم کو صالح بن حیی نے خبر دی کہ خراسان کے ایک شخص نے شعبی سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہمجھے ابوبردہ نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ، اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو اچھی طرح ادب سکھلائے اور پورے طور پر اسے دین کی تعلیم دے ۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اور وہ شخص جو پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا ، پھر مجھ پر ایمان لایا تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے اور وہ غلام جو اپنے رب کا بھی ڈر رکھتا ہے اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہے تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے ۔

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “If a person teaches his slave girl good manners properly, educates her properly, and then manumits and marries her, he will get a double reward. And if a man believes in Jesus and then believes in me, he will get a double reward. And if a slave fears his Lord (i.e. Allah) and obeys his masters, he too will get a double reward.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 655


117

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً، ثُمَّ قَرَأَ ‏{‏كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ‏}‏ فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ‏}‏‏”‏‏.‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ذُكِرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ قَبِيصَةَ قَالَ هُمُ الْمُرْتَدُّونَ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَاتَلَهُمْ أَبُو بَكْرٍ ـ رضى الله عنه‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے مغیرہ بن نعمان نے ، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) تم لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ” جس طرح ہم نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے ، یہ ہماری جانب سے وعدہ ہے اور بیشک ہم اسے کرنے والے ہیں ‘‘ پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔ میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان ہے اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے ۔ آیت ” العزیز الحکیم تک ‘‘ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ ابوعبداللہ سے روایت ہے اور ان سے قبیصہ نے بیان کیا کہ یہ وہ مرتدین ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کفر اختیار کیا تھا اور جن سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی ۔

Narrted Ibn `Abbas:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “You will be resurrected (and assembled) bare-footed, naked and uncircumcised.” The Prophet (ﷺ) then recited the Divine Verse:– “As We began the first creation, We shall repeat it: A promise We have undertaken. Truly we shall do it.” (21.104) He added, “The first to be dressed will be Abraham. Then some of my companions will take to the right and to the left. I will say: ‘My companions! ‘It will be said, ‘They had been renegades since you left them.’ I will then say what the Pious Slave Jesus, the son of Mary said: ‘And I was a witness over them while I dwelt amongst them; when You did take me up, You were the Watcher over them, and You are a Witness to all things. If You punish them, they are Your slaves, and if you forgive them, You, only You are the All-Mighty the All-Wise.’ ” (5.117-118) Narrated Quaggas, “Those were the apostates who renegade from Islam during the Caliphate of Abu Bakr who fought them”.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 656


118

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ‏”‏‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ‏{‏وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا‏}‏‏.‏

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے سعید بن مسیب نے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا ۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہو گا ۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ” اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے ‘‘ ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “By Him in Whose Hands my soul is, surely (Jesus,) the son of Mary will soon descend amongst you and will judge mankind justly (as a Just Ruler); he will break the Cross and kill the pigs and there will be no Jizya (i.e. taxation taken from non Muslims). Money will be in abundance so that nobody will accept it, and a single prostration to Allah (in prayer) will be better than the whole world and whatever is in it.” Abu Huraira added “If you wish, you can recite (this verse of the Holy Book): — ‘And there is none Of the people of the Scriptures (Jews and Christians) But must believe in him (i.e Jesus as an Apostle of Allah and a human being) Before his death. And on the Day of Judgment He will be a witness Against them.” (4.159) (See Fath-ul-Bari, Page 302 Vol 7)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 657


119

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ عُقَيْلٌ وَالأَوْزَاعِيُّ‏.‏

ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے ( تم نماز پڑھ رہے ہو گے ) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا ۔ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said “How will you be when the son of Mary (i.e. Jesus) descends amongst you and your imam is among you.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 658


12

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ ‏ “‏ إِنِّي لأُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلاً لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ، تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس نے ، انہیں زہری نے کہ سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطبہ سنانے کھڑے ہوئے ۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی ، اس کی شان کے مطابق ثنا بیان کی ، پھر دجال کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو ۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا ۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے بھی اپنی قوم کو نہیں بتائی تھی ، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دجال کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے ۔

Narrated Ibn `Umar:

Once Allah’s Messenger (ﷺ) stood amongst the people, glorified and praised Allah as He deserved and then mentioned the Dajjal saying, “l warn you against him (i.e. the Dajjal) and there was no prophet but warned his nation against him. No doubt, Noah warned his nation against him but I tell you about him something of which no prophet told his nation before me. You should know that he is one-eyed, and Allah is not one-eyed.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 553


120

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو لِحُذَيْفَةَ أَلاَ تُحَدِّثُنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏”‏ إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَاءً وَنَارًا، فَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ فَمَاءٌ بَارِدٌ، وَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ فَنَارٌ تُحْرِقُ، فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ فَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَى أَنَّهَا نَارٌ، فَإِنَّهُ عَذْبٌ بَارِدٌ ‏”‏‏.‏ قَالَ حُذَيْفَةُ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏”‏ إِنَّ رَجُلاً كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَتَاهُ الْمَلَكُ لِيَقْبِضَ رُوحَهُ فَقِيلَ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ قَالَ مَا أَعْلَمُ، قِيلَ لَهُ انْظُرْ‏.‏ قَالَ مَا أَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا وَأُجَازِيهِمْ، فَأُنْظِرُ الْمُوسِرَ، وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمُعْسِرِ‏.‏ فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏”‏ إِنَّ رَجُلاً حَضَرَهُ الْمَوْتُ، فَلَمَّا يَئِسَ مِنَ الْحَيَاةِ أَوْصَى أَهْلَهُ إِذَا أَنَا مُتُّ فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا كَثِيرًا وَأَوْقِدُوا فِيهِ نَارًا حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِي، وَخَلَصَتْ إِلَى عَظْمِي، فَامْتَحَشْتُ، فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا، ثُمَّ انْظُرُوا يَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوهُ فِي الْيَمِّ‏.‏ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَهُ فَقَالَ لَهُ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مِنْ خَشْيَتِكَ‏.‏ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ ‏”‏‏.‏ قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ ذَاكَ، وَكَانَ نَبَّاشًا‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا ، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا کہحضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا ، کیا آپ وہ حدیث ہم سے نہیں بیان کریں گے جو آپ نے رسول اللہ سے سنی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور لوگوں کو جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا تو وہ جلانے والی آگ ہو گی ۔ اس لیے تم میں سے جو کوئی اس کے زمانے میں ہو تو اسے اس میں گرنا چاہئے جو آگ ہو گی کیونکہ وہی انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہو گا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ پہلے زمانے میں ایک شخص کے پاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنے آئے تو ان سے پوچھا گیا کوئی اپنی نیکی تمہیں یاد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتی ، ان سے دوبارہ کہا گیا کہ یاد کرو ! انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اپنی نیکی یاد نہیں ، سوا اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خریدوفروخت کیا کرتا تھا اور لین دین کیا کرتا تھا ، جو لوگ خوشحال ہوتے انہیں تو میں ( اپنا قرض وصول کرتے وقت ) مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ ہاتھ والوں کو معاف کر دیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی پر جنت میں داخل کیا ۔ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ایک شخص کی موت کا جب وقت آ گیا اور وہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میری موت ہو جائے تو میرے لیے بہت ساری لکڑیاں جمع کرنا اور ان میں آگ لگا دینا ۔ جب آگ میرے گوشت کو جلا چکے اور آخری ہڈی کو بھی جلا دے تو ان جلی ہوئی ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور کسی تند ہوا والے دن کا انتظار کرنا اور ( ایسے کسی دن ) میری راکھ کو دریا میں بہا دینا ۔ اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اس سے پوچھا ایسا تو نے کیوں کروایا تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ تیرے ہی خوف سے اے اﷲ ! اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی ۔ حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ یہ شخص کفن چور تھا ۔

Narrated Rabi bin Hirash:

`Uqba bin `Amr said to Hudhaifa, “Won’t you relate to us of what you have heard from Allah’s Apostle ?” He said, “I heard him saying, “When Al-Dajjal appears, he will have fire and water along with him. What the people will consider as cold water, will be fire that will burn (things). So, if anyone of you comes across this, he should fall in the thing which will appear to him as fire, for in reality, it will be fresh cold water.” Hudhaifa added, “I also heard him saying, ‘From among the people preceding your generation, there was a man whom the angel of death visited to capture his soul. (So his soul was captured) and he was asked if he had done any good deed.’ He replied, ‘I don’t remember any good deed.’ He was asked to think it over. He said, ‘I do not remember, except that I used to trade with the people in the world and I used to give a respite to the rich and forgive the poor (among my debtors). So Allah made him enter Paradise.” Hudhaifa further said, “I also heard him saying, ‘Once there was a man on his death-bed, who, losing every hope of surviving said to his family: When I die, gather for me a large heap of wood and make a fire (to burn me). When the fire eats my meat and reaches my bones, and when the bones burn, take and crush them into powder and wait for a windy day to throw it (i.e. the powder) over the sea. They did so, but Allah collected his particles and asked him: Why did you do so? He replied: For fear of You. So Allah forgave him.” `Uqba bin `Amr said, “I heard him saying that the Israeli used to dig the grave of the dead (to steal their shrouds).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 659


121

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَابْنَ، عَبَّاسٍ رضى الله عنهم قَالاَ لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ وَهْوَ كَذَلِكَ ‏ “‏ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ ‏”‏‏.‏ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا‏.‏

مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، انہوں نے کہا مجھ کو معمر اور یونس نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا ، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے ۔

Narrated `Aisha and Ibn `Abbas:

On his death-bed Allah’s Messenger (ﷺ) put a sheet over his-face and when he felt hot, he would remove it from his face. When in that state (of putting and removing the sheet) he said, “May Allah’s Curse be on the Jews and the Christians for they build places of worship at the graves of their prophets.” (By that) he intended to warn (the Muslim) from what they (i.e. Jews and Christians) had done.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 660


122

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ، فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ‏.‏ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے فرات قزار نے بیان کیا ، انہوں نے ابوحازم سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں ۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے ، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے ، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ ہاں میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو ، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “The Israelis used to be ruled and guided by prophets: Whenever a prophet died, another would take over his place. There will be no prophet after me, but there will be Caliphs who will increase in number.” The people asked, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! What do you order us (to do)?” He said, “Obey the one who will be given the pledge of allegiance first. Fulfil their (i.e. the Caliphs) rights, for Allah will ask them about (any shortcoming) in ruling those Allah has put under their guardianship.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 661


123

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ‏”‏‏.‏ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ ‏”‏ فَمَنْ ‏”‏‏.‏

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں ؟ آپ نے فرمایا کون ہو سکتا ہے ؟

Narrated Abu Sa`id:

The Prophet (ﷺ) said, “You will follow the wrong ways, of your predecessors so completely and literally that if they should go into the hole of a mastigure, you too will go there.” We said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Do you mean the Jews and the Christians?” He replied, “Whom else?” (Meaning, of course, the Jews and the Christians.)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 662


124

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، فَأُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ‏.‏

ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد نے ، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ( نماز کے لیے اعلان کے طریقے پر بحث کرتے وقت ) صحابہ نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا ، لیکن بعض نے کہا کہ یہ تو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے ۔ آخر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اذان میں ( کلمات ) دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں ایک ایک دفعہ ۔

Narrated Anas:

The people mentioned the fire and the bell (as means proposed for announcing the time of prayer) and by such a suggestion they referred to the Jews and the Christians. But Bilal was ordered, “Pronounce the words of the Adhan (i.e. call for the prayer) twice and the Iqama once only.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 663


125

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها كَانَتْ تَكْرَهُ أَنْ يَجْعَلَ ‏{‏الْمُصَلِّي‏}‏ يَدَهُ فِي خَاصِرَتِهِ وَتَقُولُ إِنَّ الْيَهُودَ تَفْعَلُهُ‏.‏ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عَنِ الأَعْمَشِ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابوالضحیٰ نے بیان کیا ، ان سے مسروق نے بیان کیا کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اس طرح یہود کرتے ہیں ۔

Narrated `Aisha:

That she used to hate that one should keep his hands on his flanks while praying. She said that the Jew used to do so.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 664


126

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ خَلاَ مِنَ الأُمَمِ مَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالاً فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْيَهُودُ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارَى مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ، عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ أَلاَ فَأَنْتُمُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ مِنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، أَلاَ لَكُمُ الأَجْرُ مَرَّتَيْنِ، فَغَضِبَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلاً وَأَقَلُّ عَطَاءً، قَالَ اللَّهُ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ فَإِنَّهُ فَضْلِي أُعْطِيهِ مَنْ شِئْتُ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ہے ، تمہاری مثال یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کچھ مزدور لیے اور کہا کہ میرا کام آدھے دن تک کون ایک ایک قیراط کی اجرت پر کرے گا ؟ یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ آدھے دن سے عصر کی نماز تک میرا کام کون شخص ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کرے گا ۔ اب نصاریٰ ایک ایک قیراط کی مزدوری پر آدھے دن سے عصر کے وقت تک مزدوری کرنے پر تیار ہو گئے ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک دو دو قیراط پر کون شخص میرا کام کرے گا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہیں ہو جو دو دو قیراط کی مزدوری پر عصر سے سورج ڈوبنے تک کام کرو گے ، تم آگاہ رہو کہ تمہاری مزدوری دگنی ہے ۔ یہود و نصاریٰ اس فیصلہ پر غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کو کم ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کیا میں نے تمہیں تمہارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے ، میں جسے چاہوں زیادہ دوں ۔

Narrated Ibn `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Your period (i.e. the Muslims’ period) in comparison to the periods of the previous nations, is like the period between the `Asr prayer and sunset. And your example in comparison to the Jews and the Christians is like the example of a person who employed some laborers and asked them, ‘Who will work for me till midday for one Qirat each?’ The Jews worked for half a day for one Qirat each. The person asked, ‘Who will do the work for me from midday to the time of the `Asr (prayer) for one Qirat each?’ The Christians worked from midday till the `Asr prayer for one Qirat. Then the person asked, ‘Who will do the work for me from the `Asr till sunset for two Qirats each?’ ” The Prophet (ﷺ) added, “It is you (i.e. Muslims) who are doing the work from the `Asr till sunset, so you will have a double reward. The Jews and the Christians got angry and said, ‘We have done more work but got less wages.’ Allah said, ‘Have I been unjust to you as regards your rights?’ They said, ‘No.’ So Allah said, ‘Then it is My Blessing which I bestow on whomever I like. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 665


127

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَاتَلَ اللَّهُ فُلاَنًا، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ، فَجَمَّلُوهَا فَبَاعُوهَا ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ جَابِرٌ وَأَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو نے ، ان سے طاوس نے ، ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہمیں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے ۔ انہیں کیا معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، یہود پر اللہ کی لعنت ہو ، ان کے لیے چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا ۔ اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

I heard `Umar saying, “May Allah Curse so-and-so! Doesn’t he know that the Prophet (ﷺ) said, ‘May Allah curse the Jews for, though they were forbidden (to eat) fat, they liquefied it and sold it. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 666


128

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلاَ حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم کو اوزاعی نے خبر دی ، کہا ہم سے حسان بن عطیہ نے بیان کیا ، ان سے ابوکبشہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو ، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr:

The Prophet (ﷺ) said, “Convey (my teachings) to the people even if it were a single sentence, and tell others the stories of Bani Israel (which have been taught to you), for it is not sinful to do so. And whoever tells a lie on me intentionally, will surely take his place in the (Hell) Fire.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 667


129

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لاَ يَصْبُغُونَ، فَخَالِفُوهُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہود و نصاریٰ ) ڈاڑھی وغیرہ ) میں خضاب نہیں لگاتے ، تم لوگ اس کے خلاف طریقہ اختیار کرو ( یعنی خضاب لگایا کرو ) ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “The Jews and the Christians do not dye (their grey hair), so you shall do the opposite of what they do (i.e. dye your grey hair and beards).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 668


13

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا عَنِ الدَّجَّالِ مَا حَدَّثَ بِهِ نَبِيٌّ قَوْمَهُ، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ بِمِثَالِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَالَّتِي يَقُولُ إِنَّهَا الْجَنَّةُ‏.‏ هِيَ النَّارُ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمْ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، ہم سے شیبان نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے ابوسلمہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی ۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا ۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں ، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Shall I not tell you about the Dajjal a story of which no prophet told his nation? The Dajjall is one-eyed and will bring with him what will resemble Hell and Paradise, and what he will call Paradise will be actually Hell; so I warn you (against him) as Noah warned his nation against him.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 554


130

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنِي حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، وَمَا نَسِينَا مُنْذُ حَدَّثَنَا، وَمَا نَخْشَى أَنْ يَكُونَ جُنْدُبٌ كَذَبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ فَأَخَذَ سِكِّينًا فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ، حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد نے بیان کیا ، کہا مجھ سے حجاج نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، کہا ہم سے حضرت جندب بن عبداللہ نے اسی مسجد میں بیان کیا ( حسن نے کہا کہ ) انہوں نے جب ہم سے بیان کیا ہم اسے بھولے نہیں اور نہ ہمیں اس کا اندیشہ ہے کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس حدیث کی نسبت غلط کی ہو گی ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، پچھلے زمانے میں ایک شخص ( کے ہاتھ میں ) زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی ، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا ۔

Narrated Jundub:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Amongst the nations before you there was a man who got a wound, and growing impatient (with its pain), he took a knife and cut his hand with it and the blood did not stop till he died. Allah said, ‘My Slave hurried to bring death upon himself so I have forbidden him (to enter) Paradise.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 669


131

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ح وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ إِنَّ ثَلاَثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى بَدَا لِلَّهِ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الأَبْرَصَ‏.‏ فَقَالَ أَىُّ شَىْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ‏.‏ قَالَ فَمَسَحَهُ، فَذَهَبَ عَنْهُ، فَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا‏.‏ فَقَالَ أَىُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الإِبِلُ ـ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ هُوَ شَكَّ فِي ذَلِكَ، إِنَّ الأَبْرَصَ وَالأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا الإِبِلُ، وَقَالَ الآخَرُ الْبَقَرُ ـ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ‏.‏ فَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا‏.‏ وَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ أَىُّ شَىْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ‏.‏ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ، وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا‏.‏ قَالَ فَأَىُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ‏.‏ قَالَ فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلاً، وَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا‏.‏ وَأَتَى الأَعْمَى فَقَالَ أَىُّ شَىْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ يَرُدُّ اللَّهُ إِلَىَّ بَصَرِي، فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ‏.‏ قَالَ فَمَسَحَهُ، فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ‏.‏ قَالَ فَأَىُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ‏.‏ فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ، وَوَلَّدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ‏.‏ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ، تَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلاَ بَلاَغَ الْيَوْمَ إِلاَّ بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي‏.‏ فَقَالَ لَهُ إِنَّ الْحُقُوقَ كَثِيرَةٌ‏.‏ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ فَقَالَ لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ‏.‏ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، وَأَتَى الأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ‏.‏ وَأَتَى الأَعْمَى فِي صُورَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلاَ بَلاَغَ الْيَوْمَ إِلاَّ بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي‏.‏ فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِي، وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لاَ أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ بِشَىْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ‏.‏ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ، فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا ، ان سے ہمام نے بیان کیا ، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی حمزہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا ، انہیں ہمام نے خبر دی ، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا ، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ، ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی ۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ اونٹ ! یا اس نے گائے کہی ، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی ۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا ، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے ۔ فرشتے نے پوچھا ، کس طرح کا مال پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ گائے ! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی ۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ بکریاں ! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی ۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے ، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی ۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں ، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا ، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں ۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں ۔ فرشتہ نے کہا ، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں ، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے ۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے ۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا ۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ، اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا ، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے ، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں ۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا ۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ، اللہ کی قسم جب تم نے خدا کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا ۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

that he heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “Allah willed to test three Israelis who were a Leper, a blind man and a bald-headed man. So, he sent them an angel who came to the leper and said, ‘What thing do you like most?’ He replied, ‘Good color and good skin, for the people have a strong aversion to me.’ The angel touched him and his illness was cured, and he was given a good color and beautiful skin. The angel asked him, ‘What kind of property do you like best?’ He replied, ‘Camels (or cows).’ (The narrator is in doubt, for either the leper or the bald-headed man demanded camels and the other demanded cows). So he (i.e. the leper) was given a pregnant she-camel, and the angel said (to him), ‘May Allah bless you in it.’ The angel then went to the bald-headed man and said, ‘What thing do you like most?’ He said, ‘I like good hair and wish to be cured of this disease, for the people feel repulsion for me.’ The angel touched him and his illness was cured, and he was given good hair. The angel asked (him), ‘What kind of property do you like best?’ He replied, ‘Cows,’ The angel gave him a pregnant cow and said, ‘May Allah bless you in it.’ The angel went to the blind man and asked, ‘What thing do you like best?’ He said, ‘(I like) that Allah may restore my eye-sight to me so that I may see the people.’ The angel touched his eyes and Allah gave him back his eye-sight. The angel asked him, ‘What kind of property do you like best?’ He replied, ‘Sheep.’ The angel gave him a pregnant sheep. Afterwards, all the three pregnant animals gave birth to young ones, and multiplied and brought forth so much that one of the (three) men had a herd of camels filling a valley, and one had a herd of cows filling a valley, and one had a flock of sheep filling a valley. Then the angel, disguised in the shape and appearance of a leper, went to the leper and said, I am a poor man, who has lost all means of livelihood while on a journey. So none will satisfy my need except Allah and then you. In the Name of Him Who has given you such nice color and beautiful skin, and so much property, I ask you to give me a camel so that I may reach my destination. The man replied, ‘I have many obligations (so I cannot give you).’ The angel said, ‘I think I know you; were you not a leper to whom the people had a strong aversion? Weren’t you a poor man, and then Allah gave you (all this property).’ He replied, ‘(This is all wrong), I got this property through inheritance from my fore-fathers.’ The angel said, ‘If you are telling a lie, then let Allah make you as you were before. ‘ Then the angel, disguised in the shape and appearance of a bald man, went to the bald man and said to him the same as he told the first one, and he too answered the same as the first one did. The angel said, ‘If you are telling a lie, then let Allah make you as you were before.’ The angel, disguised in the shape of a blind man, went to the blind man and said, ‘I am a poor man and a traveler, whose means of livelihood have been exhausted while on a journey. I have nobody to help me except Allah, and after Him, you yourself. I ask you in the Name of Him Who has given you back your eye-sight to give me a sheep, so that with its help, I may complete my journey.’ The man said, ‘No doubt, I was blind and Allah gave me back my eye-sight; I was poor and Allah made me rich; so take anything you wish from my property. By Allah, I will not stop you for taking anything (you need) of my property which you may take for Allah’s sake.’ The angel replied, ‘Keep your property with you. You (i.e the three men) have been tested, and Allah is pleased with you and is angry with your two companions.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 670


132

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ، فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلاَءِ لاَ يُنْجِيكُمْ إِلاَّ الصِّدْقُ، فَلْيَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ‏.‏ فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ، فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ، وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا، وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ فَقُلْتُ اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ‏.‏ فَسُقْهَا، فَقَالَ لِي إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ‏.‏ فَقُلْتُ لَهُ اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الْفَرَقِ، فَسَاقَهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ، فَفَرِّجْ عَنَّا‏.‏ فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ‏.‏ فَقَالَ الآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، فَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنَ الْجُوعِ، فَكُنْتُ لاَ أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَاىَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا، وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا، فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا، فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ، فَفَرِّجْ عَنَّا‏.‏ فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ، حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ‏.‏ فَقَالَ الآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَىَّ، وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ إِلاَّ أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ، فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا، فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، فَقَالَتِ اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلاَّ بِحَقِّهِ‏.‏ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ الْمِائَةَ دِينَارٍ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا‏.‏ فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ بن عمر نے ، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے ) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا ۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ ( غار ) میں گھس گئے ( جب وہ اندر چلے گئے ) تو غار کا منہ بند ہو گیا ۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی ۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کیا تھا ۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی ، اے اللہ ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق ( تین صاع ) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص ( غصہ میں آ کر ) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا ۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لئے ۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا ۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا ۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے ۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا ۔ پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو تو غار کا منہ کھول دے ۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا ۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے ۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں ، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا ( کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے ) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے ۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا ۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی ۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی ، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں ۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لئے کوشش کی ۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی ۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی ۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ ۔ میں ( یہ سنتے ہی ) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل آسان کر دے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے ۔

Narrated Ibn `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Once three persons (from the previous nations) were traveling, and suddenly it started raining and they took shelter in a cave. The entrance of the cave got closed while they were inside. They said to each other, ‘O you! Nothing can save you except the truth, so each of you should ask Allah’s Help by referring to such a deed as he thinks he did sincerely (i.e. just for gaining Allah’s Pleasure).’ So one of them said, ‘O Allah! You know that I had a laborer who worked for me for one Faraq (i.e. three Sas) of rice, but he departed, leaving it (i.e. his wages). I sowed that Faraq of rice and with its yield I bought cows (for him). Later on when he came to me asking for his wages, I said (to him), ‘Go to those cows and drive them away.’ He said to me, ‘But you have to pay me only a Faraq of rice,’ I said to him, ‘Go to those cows and take them, for they are the product of that Faraq (of rice).’ So he drove them. O Allah! If you consider that I did that for fear of You, then please remove the rock.’ The rock shifted a bit from the mouth of the cave. The second one said, ‘O Allah, You know that I had old parents whom I used to provide with the milk of my sheep every night. One night I was delayed and when I came, they had slept, while my wife and children were crying with hunger. I used not to let them (i.e. my family) drink unless my parents had drunk first. So I disliked to wake them up and also disliked that they should sleep without drinking it, I kept on waiting (for them to wake) till it dawned. O Allah! If You consider that I did that for fear of you, then please remove the rock.’ So the rock shifted and they could see the sky through it. The (third) one said, ‘O Allah! You know that I had a cousin (i.e. my paternal uncle’s daughter) who was most beloved to me and I sought to seduce her, but she refused, unless I paid her one-hundred Dinars (i.e. gold pieces). So I collected the amount and brought it to her, and she allowed me to sleep with her. But when I sat between her legs, she said, ‘Be afraid of Allah, and do not deflower me but legally. ‘I got up and left the hundred Dinars (for her). O Allah! If You consider that I did that for fear of you than please remove the rock. So Allah saved them and they came out (of the cave).”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 671


133

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ بَيْنَمَا امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنَهَا إِذْ مَرَّ بِهَا رَاكِبٌ وَهْىَ تُرْضِعُهُ، فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تُمِتِ ابْنِي حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ هَذَا‏.‏ فَقَالَ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ‏.‏ ثُمَّ رَجَعَ فِي الثَّدْىِ، وَمُرَّ بِامْرَأَةٍ تُجَرَّرُ وَيُلْعَبُ بِهَا فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا‏.‏ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا‏.‏ فَقَالَ أَمَّا الرَّاكِبُ فَإِنَّهُ كَافِرٌ، وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَإِنَّهُمْ يَقُولُونَ لَهَا تَزْنِي‏.‏ وَتَقُولُ حَسْبِي اللَّهُ‏.‏ وَيَقُولُونَ تَسْرِقُ‏.‏ وَتَقُولُ حَسْبِي اللَّهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ ایک سوار ( نام نامعلوم ) ادھر سے گزرا ، وہ اس وقت بھی بچے کو دودھ پلا رہی تھی ( سوار کی شان دیکھ کر ) عورت نے دعا کی اے اللہ ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ اس سوار جیسا نہ ہو جائے ۔ اسی وقت ( بقدرت الہٰی ) بچہ بول پڑا ۔ اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ کرنا ۔ اور پھر وہ دودھ پینے لگا ۔ اس کے بعد ایک ( نام نامعلوم ) عورت کو ادھر سے لے جایا گیا ، اسے لے جانے والے اسے گھسیٹ رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ ماں نے دعا کی ، اے اللہ ! میرے بچے کو اس عورت جیسا نہ کرنا ، لیکن بچے نے کہا کہ اے اللہ ! مجھے اسی جیسا بنا دینا ( پھر تو ماں نے پوچھا ، ارے یہ کیا معاملہ ہے ؟ اس بچے نے بتایا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ تو زنا کراتی ہے تو وہ جواب دیتی حسبی اللہ ( اللہ میرے لئے کافی ہے ، وہ میری پاک دامنی جانتا ہے ) لوگ کہتے کہ تو چوری کرتی ہے تو وہ جواب دیتی حسبی اللہ ( اللہ میرے لئے کافی ہے اور وہ میری پاک دامنی جانتا ہے )

Narrated Abu Huraira:

That he heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “While a lady was nursing her child, a rider passed by and she said, ‘O Allah! Don’t let my child die till he becomes like this (rider).’ The child said, ‘O Allah! Don’t make me like him,’ and then returned to her breast (sucking it). (After a while) they passed by a lady who was being pulled and teased (by the people). The child’s mother said, ‘O Allah! Do not make my child like her.’ The child said, ‘O Allah! Make me like her.’ Then he said, ‘As for the rider, he is an infidel, while the lady is accused of illegal sexual intercourse (falsely) and she says: Allah is sufficient for me (He knows the truth).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 672


134

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ، فَغُفِرَ لَهَا بِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے جریر بن حازم نے خبر دی ، انہیں ایوب نے اور انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ایک کتا ایک کنویں کے چاروں طرف چکر کاٹ رہا تھا جیسے پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جانے والی ہو کہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے اسے دیکھ لیا ۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر کتے کو پانی پلایا اور اس کی مغفرت اسی عمل کی وجہ سے ہو گئی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “While a dog was going round a well and was about to die of thirst, an Israeli prostitute saw it and took off her shoe and watered it. So Allah forgave her because of that good deed.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 673


135

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ،، عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ وَكَانَتْ فِي يَدَىْ حَرَسِيٍّ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ، وَيَقُولُ ‏ “‏ إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے سناایک سال جب وہ حج کے لئے گئے ہوئے تھے تو منبرنبوی پر کھڑے ہو کر انہوں نے پیشانی کے بالوں کا ایک کچھا لیا جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا اور فرمایا اے مدینہ والو ! تمہارے علماء کدھر گئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ آپ نے اس طرح ( بال جوڑنے کی ) ممانعت فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر بربادی اس وقت آئی جب ( شریعت کے خلاف ) ان کی عورتوں نے اس طرح بال سنوارنے شروع کر دیئے تھے ۔

Narrated Humaid bin `Abdur-Rahman:

That he heard Muawiya bin Abi Sufyan (talking) on the pulpit in the year when he performed the Hajj. He took a tuft of hair that was in the hand of an orderly and said, “O people of Medina! Where are your learned men? I heard the Prophet (ﷺ) forbidding such a thing as this (i.e. false hair) and he used to say, ‘The Israelis were destroyed when their ladies practiced this habit (of using false hair to lengthen their locks).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 674


136

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ فِي أُمَّتِي هَذِهِ مِنْهُمْ، فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا ، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، گزشتہ امتوں میں محدث لوگ ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Amongst the people preceding you there used to be ‘Muhaddithun’ (i.e. persons who can guess things that come true later on, as if those persons have been inspired by a divine power), and if there are any such persons amongst my followers, it is `Umar bin Al-Khattab.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 675


137

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لاَ‏.‏ فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ يَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْيَةَ كَذَا وَكَذَا‏.‏ فَأَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي‏.‏ وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي‏.‏ وَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا‏.‏ فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبُ بِشِبْرٍ، فَغُفِرَ لَهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا ان سے شعبہ نے ان سے قتادہ نے ان سے ابو صدیق ناجی بکر بن قیس نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا ( نام نامعلوم ) جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر وہ نادم ہو کر ) مسئلہ پوچھنے نکلا ۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں ۔ یہ سن کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا ( اور سو خون پورے کر دئیے ) پھر وہ ( دوسروں سے ) پوچھنے لگا ۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا ) ( وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ ) اس کی موت واقع ہو گئی ۔ مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا ۔ آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا ۔ ( کہ کون اسے لے جائے ) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو ( جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا ) حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو ( جہاں سے وہ نکلا تھا ) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اور ( جب ناپا تو ) اس بستی کو ( جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا ) ایک بالشت نعش سے نزدیک پایا اس لئے وہ بخش دیا گیا ۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

The Prophet (ﷺ) said, “Amongst the men of Bani Israel there was a man who had murdered ninety-nine persons. Then he set out asking (whether his repentance could be accepted or not). He came upon a monk and asked him if his repentance could be accepted. The monk replied in the negative and so the man killed him. He kept on asking till a man advised to go to such and such village. (So he left for it) but death overtook him on the way. While dying, he turned his chest towards that village (where he had hoped his repentance would be accepted), and so the angels of mercy and the angels of punishment quarrelled amongst themselves regarding him. Allah ordered the village (towards which he was going) to come closer to him, and ordered the village (whence he had come), to go far away, and then He ordered the angels to measure the distances between his body and the two villages. So he was found to be one span closer to the village (he was going to). So he was forgiven.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 676


138

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلاَةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ ‏”‏ بَيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إِذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا فَقَالَتْ إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا، إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ـ وَمَا هُمَا ثَمَّ ـ وَبَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ فَذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ، فَطَلَبَ حَتَّى كَأَنَّهُ اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ هَذَا اسْتَنْقَذْتَهَا مِنِّي فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي ‏”‏‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ‏”‏‏.‏ وَمَا هُمَا ثَمَّ‏.‏ وَحَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمِثْلِهِ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے اعرج نے ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ایک شخص ( بنی اسرائیل کا ) اپنی گائے ہانکے لئے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا ۔ اس گائے نے ( بقدرت الہیٰ ) کہا کہ ہم جانور سواری کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لئے ہوئی ہے ۔ لوگوں نے کہا سبحان اللہ ! گائے بات کرتی ہے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی ۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے ۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا ۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑئیے سے چھڑا لیا ۔ اس پر بھیڑیا ( بقدرت الہیٰ ) بولا ، آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں ( قرب قیامت ) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا ؟ لوگوں نے کہا ، سبحان اللہ ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکرو عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، انہوں نے مسعر سے ، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے ، انہوں نے ابوسلمہ سے روایت کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی ۔

Narrated Abu Huraira:

Once Allah’s Messenger (ﷺ); offered the morning prayer and then faced the people and said, “While a man was driving a cow, he suddenly rode over it and beat it. The cow said, “We have not been created for this, but we have been created for sloughing.” On that the people said astonishingly, “Glorified be Allah! A cow speaks!” The Prophet (ﷺ) said, “I believe this, and Abu Bakr and `Umar too, believe it, although neither of them was present there. While a person was amongst his sheep, a wolf attacked and took one of the sheep. The man chased the wolf till he saved it from the wolf, where upon the wolf said, ‘You have saved it from me; but who will guard it on the day of the wild beasts when there will be no shepherd to guard them except me (because of riots and afflictions)? ‘ ” The people said surprisingly, “Glorified be Allah! A wolf speaks!” The Prophet (ﷺ) said, “But I believe this, and Abu Bakr and `Umar too, believe this, although neither of them was present there.” (See the Foot-note of page No. 10 Vol.5)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 677


139

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي، إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الأَرْضَ، وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ‏.‏ وَقَالَ الَّذِي لَهُ الأَرْضُ إِنَّمَا بِعْتُكَ الأَرْضَ وَمَا فِيهَا، فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ أَلَكُمَا وَلَدٌ قَالَ أَحَدُهُمَا لِي غُلاَمٌ‏.‏ وَقَالَ الآخَرُ لِي جَارِيَةٌ‏.‏ قَالَ أَنْكِحُوا الْغُلاَمَ الْجَارِيَةَ، وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ، وَتَصَدَّقَا ‏”‏‏.‏

ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص نے دوسرے شخص سے مکان خریدا اور مکان کے خریدار کو اس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سے وہ مکان اس نے خریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لے جا ۔ کیونکہ میں نے تم سے گھر خریدا ہے سونا نہیں خریدا تھا لیکن پہلے مالک نے کہا کہ میں نے گھر کو ان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جو اس کے اندر موجود ہوں ۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ کے گئے ۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے ؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرے ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے ۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور سونا انہیں پر خرچ کر دو اور خیرات بھی کر دو ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “A man bought a piece of land from another man, and the buyer found an earthenware jar filled with gold in the land. The buyer said to the seller. ‘Take your gold, as I have bought only the land from you, but I have not bought the gold from you.’ The (former) owner of the land said, “I have sold you the land with everything in it.’ So both of them took their case before a man who asked, ‘Do you have children?’ One of them said, “I have a boy.’ The other said, “I have a girl.’ The man said, ‘Marry the girl to the boy and spend the money on both of them and give the rest of it in charity.'”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 678


14

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ، أَىْ رَبِّ‏.‏ فَيَقُولُ لأُمَّتِهِ هَلْ بَلَّغَكُمْ فَيَقُولُونَ لاَ، مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ‏.‏ فَيَقُولُ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَأُمَّتُهُ، فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، وَهْوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ ‏{‏وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ‏}‏ وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ، ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا ، کیا ( میرا پیغام ) تم نے پہنچا دیا تھا ؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ، اے رب العزت ! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا ، کیا ( نوح علیہ السلام نے ) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے نہیں ، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا ، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے ؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت ( کے لوگ میرے گواہ ہیں ) چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے پیغام خداوندی اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے کہ ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو “ ۔ اور وسط کے معنی درمیانی کے ہیں ۔

Narrated Abu Sa`id:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Noah and his nation will come (on the Day of Resurrection and Allah will ask (Noah), “Did you convey (the Message)?’ He will reply, ‘Yes, O my Lord!’ Then Allah will ask Noah’s nation, ‘Did Noah convey My Message to you?’ They will reply, ‘No, no prophet came to us.’ Then Allah will ask Noah, ‘Who will stand a witness for you?’ He will reply, ‘Muhammad and his followers (will stand witness for me).’ So, I and my followers will stand as witnesses for him (that he conveyed Allah’s Message).” That is, (the interpretation) of the Statement of Allah: “Thus we have made you a just and the best nation that you might be witnesses Over mankind ..” (2.143)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 555


140

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ، أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الطَّاعُونِ فَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو النَّضْرِ ‏”‏ لاَ يُخْرِجُكُمْ إِلاَّ فِرَارًا مِنْهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے محمد بن منکدر اور عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابو النضر نے ، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا اور انہوں نے ( عامر نے ) اپنے والد ( سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھتے سنا تھا کہطاعون کے بارے میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا ۔ اس لئے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو ( کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے ) تو وہاں نہ جاؤ ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو ۔

Narrated Usama bin Zaid:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Plague was a means of torture sent on a group of Israelis (or on some people before you). So if you hear of its spread in a land, don’t approach it, and if a plague should appear in a land where you are present, then don’t leave that land in order to run away from it (i.e. plague).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 679


141

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الطَّاعُونِ، فَأَخْبَرَنِي ‏ “‏ أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ يُصِيبُهُ إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، إِلاَّ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی فرات نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ، ان سے یحیٰی بن یعمر نے اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے ، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لئے رحمت بنا دیا ہے ۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا ۔

Narrated `Aisha:

(the wife of the Prophet) I asked Allah’s Messenger (ﷺ) about the plague. He told me that it was a Punishment sent by Allah on whom he wished, and Allah made it a source of mercy for the believers, for if one in the time of an epidemic plague stays in his country patiently hoping for Allah’s Reward and believing that nothing will befall him except what Allah has written for him, he will get the reward of a martyr.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 680


142

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها أَنَّ قُرَيْشًا، أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالَ وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلاَّ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، ثُمَّ قَالَ ‏”‏ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہمخزومیہ خاتون ( فاطمہ بنت اسود ) جس نے ( غزوہ فتح کے موقع پر ) چوری کر لی تھی ، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا ۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کو بہت عزیز ہیں ۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ نے فرمایا ۔ اے اسامہ ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے ؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا ( جس میں ) آپ نے فرمایا ۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لئے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں ۔

Narrated `Aisha:

The people of Quraish worried about the lady from Bani Makhzum who had committed theft. They asked, “Who will intercede for her with Allah’s Messenger (ﷺ)?” Some said, “No one dare to do so except Usama bin Zaid the beloved one to Allah’s Messenger (ﷺ) .” When Usama spoke about that to Allah’s Apostle Allah’s Messenger (ﷺ) said, (to him), “Do you try to intercede for somebody in a case connected with Allah’s Prescribed Punishments?” Then he got up and delivered a sermon saying, “What destroyed the nations preceding you, was that if a noble amongst them stole, they would forgive him, and if a poor person amongst them stole, they would inflict Allah’s Legal punishment on him. By Allah, if Fatima, the daughter of Muhammad stole, I would cut off her hand.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 681


143

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ الْهِلاَلِيَّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَمِعْتُ رَجُلاً، قَرَأَ، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ خِلاَفَهَا فَجِئْتُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةَ وَقَالَ ‏ “‏ كِلاَكُمَا مُحْسِنٌ، وَلاَ تَخْتَلِفُوا، فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا ‏”‏‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے نزال بن سبرہ ہلالی سے سنا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہمیں نے ایک صحابی ( عمرو بن عاص ) کو قرآن مجید کی ایک آیت پڑھتے سنا ۔ وہی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف قرآت کے ساتھ میں سن چکا تھا ، اس لئے میں انہیں ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا لیکن میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر اس کی وجہ سے ناراضی کے آثار دیکھے ۔ آپ نے فرمایا تم دونوں اچھا پڑھتے ہو ۔ آپس میں اختلاف نہ کیا کرو ۔ تم سے پہلے لوگ اسی قسم کے جھگڑوں سے تباہ ہو گئے ۔

Narrated Ibn Mas`ud:

I heard a person reciting a (Qur’anic) Verse in a certain way, and I had heard the Prophet (ﷺ) reciting the same Verse in a different way. So I took him to the Prophet (ﷺ) and informed him of that but I noticed the sign of disapproval on his face, and then he said, “Both of you are correct, so don’t differ, for the nations before you differed, so they were destroyed.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 682


144

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، وَهْوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ ‏ “‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ کہ مجھ سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا میں گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔ آپ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے انہیں مارا اور خون آلود کر دیا ۔ لیکن وہ نبی خون صاف کرتے جاتے اور یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! میری قوم کی مغفرت فرما ۔ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

Narrated `Abdullah:

As if I saw the Prophet (ﷺ) talking about one of the prophets whose nation had beaten him and caused him to bleed, while he was cleaning the blood off his face and saying, “O Allah! Forgive my nation, for they have no knowledge.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 683


145

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْغَافِرِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَنَّ رَجُلاً كَانَ قَبْلَكُمْ رَغَسَهُ اللَّهُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِيهِ لَمَّا حُضِرَ أَىَّ أَبٍ كُنْتُ لَكُمْ قَالُوا خَيْرَ أَبٍ‏.‏ قَالَ فَإِنِّي لَمْ أَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اسْحَقُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ‏.‏ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَكَ قَالَ مَخَافَتُكَ‏.‏ فَتَلَقَّاهُ بِرَحْمَتِهِ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ مُعَاذٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ، سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ان سے عقبہ بن عبدالغافر نے ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہگزشتہ امتوں میں ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے خوب دولت دی تھی ۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا میں تمہارے حق میں کیسا باپ ثابت ہوا ؟ بیٹوں نے کہا کہ آپ ہمارے بہترین باپ تھے ۔ اس شخص نے کہا لیکن میں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا ۔ اس لئے جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا ، پھر میری ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور ( راکھ کو ) کسی سخت آندھی کے دن ہوا میں اڑا دینا ۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا ۔ لیکن اللہ پاک نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ پروردگار تیرے ہی خوف سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی ۔ اس حدیث کو معاذ عنبری نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ، انہوں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا ، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔

Narrated Abu Sa`id:

The Prophet (ﷺ) said, “Amongst the people preceding your age, there was a man whom Allah had given a lot of money. While he was in his death-bed, he called his sons and said, ‘What type of father have I been to you? They replied, ‘You have been a good father.’ He said, ‘I have never done a single good deed; so when I die, burn me, crush my body, and scatter the resulting ashes on a windy day.’ His sons did accordingly, but Allah gathered his particles and asked (him), ‘What made you do so?’ He replied, “Fear of you.’ So Allah bestowed His Mercy upon him. (forgave him).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 684


146

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ قَالَ عُقْبَةُ لِحُذَيْفَةَ أَلاَ تُحَدِّثُنَا مَا سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏”‏ إِنَّ رَجُلاً حَضَرَهُ الْمَوْتُ، لَمَّا أَيِسَ مِنَ الْحَيَاةِ، أَوْصَى أَهْلَهُ إِذَا مُتُّ فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا كَثِيرًا، ثُمَّ أَوْرُوا نَارًا حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِي، وَخَلَصَتْ إِلَى عَظْمِي، فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا، فَذَرُّونِي فِي الْيَمِّ فِي يَوْمٍ حَارٍّ أَوْ رَاحٍ‏.‏ فَجَمَعَهُ اللَّهُ، فَقَالَ لِمَ فَعَلْتَ قَالَ خَشْيَتَكَ‏.‏ فَغَفَرَ لَهُ ‏”‏‏.‏ قَالَ عُقْبَةُ وَأَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏.‏ حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ وَقَالَ ‏”‏ فِي يَوْمٍ رَاحٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا ، ہم سے ابوعوانہ نے ان سے عبدالملک بن عمیر نے ، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا کہ عقبہ بن عمرو ابومسعود انصاری نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہآپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سنی ہیں وہ آپ ہم سے کیوں بیان نہیں کرتے ؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا تھا کہ ایک شخص کی موت کا وقت جب قریب ہوا اور وہ زندگی سے بالکل ناامید ہو گیا تو اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میری موت ہو جائے تو پہلے میرے لئے بہت سی لکڑیاں جمع کرنا اور اس سے آگ جلانا ۔ جب آگ میرے جسم کو خاکستر بنا چکے اور صرف ہڈیاں باقی رہ جائیں تو ہڈیوں کو پیس لینا اور کسی سخت گرمی کے دن میں یا ( یوں فرمایا کہ ) سخت ہوا کے دن مجھ کو ہوا میں اڑا دینا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ تیرے ہی ڈر سے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ حدیث سنی ہے ۔ ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا اور کہا کہ اس روایت میں فی یوم راح ہے ( سوا شک کے ) اس کے معنی بھی کسی تیز ہوا کے دن کے ہیں ۔

Narrated Rabi` bin Hirash:

`Uqba said to Hudhaifa, “Won’t you narrate to us what you heard from Allah’s Messenger (ﷺ) ?” Hudhaifa said, “I heard him saying, ‘Death approached a man and when he had no hope of surviving, he said to his family, ‘When I die, gather for me much wood and build a fire (to burn me),. When the fire has eaten my flesh and reached my bones, take the bones and grind them and scatter the resulting powder in the sea on a hot (or windy) day.’ (That was done.) But Allah collected his particles and asked (him), ‘Why did you do so?’ He replied, ‘For fear of You.’ So Allah forgave him.”

Narrated `Abdu Malik:

As above, saying, “On a windy day.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 685


147

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ كَانَ الرَّجُلُ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَكَانَ يَقُولُ لِفَتَاهُ إِذَا أَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، لَعَلَّ اللَّهُ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا‏.‏ قَالَ فَلَقِيَ اللَّهَ فَتَجَاوَزَ عَنْهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے ان سے عبیداللہ بن عباللہ بن عتبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں کو اس نے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب تم کسی کو مفلس پاؤ ( جو میرا قرض دار ہو ) تو اسے معاف کر دیا کرو ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرما دے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “A man used to give loans to the people and used to say to his servant, ‘If the debtor is poor, forgive him, so that Allah may forgive us.’ So when he met Allah (after his death), Allah forgave him.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 687


148

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ كَانَ رَجُلٌ يُسْرِفُ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِيهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اطْحَنُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَىَّ رَبِّي لَيُعَذِّبَنِّي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا‏.‏ فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ، فَأَمَرَ اللَّهُ الأَرْضَ، فَقَالَ اجْمَعِي مَا فِيكِ مِنْهُ‏.‏ فَفَعَلَتْ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَبِّ، خَشْيَتُكَ‏.‏ فَغَفَرَ لَهُ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ ‏”‏ مَخَافَتُكَ يَا رَبِّ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے انہیں حمید بن عبدالرحمان نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص بہت گناہ کیا کرتا تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوں سے اس نے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا پھر میری ہڈیوں کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا اللہ کی قسم ! اگر میرے رب نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا سخت عذاب کرے گا جو پہلے کسی کو بھی اس نے نہیں کیا ہو گا ۔ جب وہ مر گیا تو ( اس کی وصیت کے مطابق ) اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا کہ اگر ایک ذرہ بھی کہیں اس کے جسم کا تیرے پاس ہے تو اسے جمع کر کے لا ۔ زمین حکم بجا لائی اور وہ بندہ اب ( اپنے رب کے سامنے ) کھڑا ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے عرض کیا اے رب ! تیرے ڈر کی وجہ سے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ نے اس حدیث میں لفظخشیتک کے بدل مخافتک کہا ہے ( دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے ) ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “A man used to do sinful deeds, and when death came to him, he said to his sons, ‘After my death, burn me and then crush me, and scatter the powder in the air, for by Allah, if Allah has control over me, He will give me such a punishment as He has never given to anyone else.’ When he died, his sons did accordingly. Allah ordered the earth saying, ‘Collect what you hold of his particles.’ It did so, and behold! There he was (the man) standing. Allah asked (him), ‘What made you do what you did?’ He replied, ‘O my Lord! I was afraid of You.’ So Allah forgave him. ” Another narrator said “The man said, Fear of You, O Lord!”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 688


149

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لاَ هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلاَ سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلاَ هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ ‏”‏‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ، ان سے نافع نے ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ( بنی اسرائیل کی ) ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا تھا جسے اس نے قید کر رکھا تھا جس سے وہ بلی مر گئی تھی اور اس کی سزا میں وہ عورت دوزخ میں گئی ۔ جب وہ عورت بلی کو باندھے ہوئے تھی تو اس نے اسے کھانے کے لئے کوئی چیز نہ دی ، نہ پینے کے لئے اور نہ اس نے بلی کو چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “A lady was punished because of a cat which she had imprisoned till it died. She entered the (Hell) Fire because of it, for she neither gave it food nor water as she had imprisoned it, nor set it free to eat from the vermin of the earth.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 689


15

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي دَعْوَةٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ ‏ “‏ أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ بِمَنْ يَجْمَعُ اللَّهُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ أَلاَ تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ، إِلَى مَا بَلَغَكُمْ، أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ أَبُوكُمْ آدَمُ، فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، وَأَسْكَنَكَ الْجَنَّةَ، أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا فَيَقُولُ رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلاَ يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ‏.‏ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَيَقُولُ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلاَ يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، نَفْسِي نَفْسِي، ائْتُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَيَأْتُونِي، فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَهُ ‏”‏‏.‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ لاَ أَحْفَظُ سَائِرَهُ‏.‏

مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا ، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو بہت مرغوب تھا ۔ آپ نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا ۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا ۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا ؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا ۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا ۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا ، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں ؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے ؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے ۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں ۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، اے باوا آدم ! آپ انسانوں کے دادا ہیں ۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا ، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی ، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو ( پیدا کرنے کے بعد ) ٹھہرایا تھا ۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں ۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ وہ فرمائیں گے کہ ( گناہ گاروں پر ) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت ( جنت ) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا ۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے ( نفسی نفسی ) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ۔ ہاں ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، اے نوح علیہ السلام ! آپ ( آدم علیہ السلام کے بعد ) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” عبدشکور “ کہہ کر پکارا ہے ۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں ؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے ۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا ۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے ۔ ( نفسی نفسی ) تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے ۔ میں ( ان کی شفاعت کے لیے ) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا ۔ پھر آواز آئے گی ، اے محمد ! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو ، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا ۔ محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ ساری حدیث میں یاد نہ رکھ سکا ۔

Narrated Abu Huraira:

We were in the company of the Prophet (ﷺ) at a banquet and a cooked (mutton) forearm was set before him, and he used to like it. He ate a morsel of it and said, “I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know how Allah will gather all the first and the last (people) in one level place where an observer will be able to see (all) of them and they will be able to hear the announcer, and the sun will come near to them. Some People will say: Don’t you see, in what condition you are and the state to which you have reached? Why don’t you look for a person who can intercede for you with your Lord? Some people will say: Appeal to your father, Adam.’ They will go to him and say: ‘O Adam! You are the father of all mankind, and Allah created you with His Own Hands, and ordered the angels to prostrate for you, and made you live in Paradise. Will you not intercede for us with your Lord? Don’t you see in what (miserable) state we are, and to what condition we have reached?’ On that Adam will reply, ‘My Lord is so angry as He has never been before and will never be in the future; (besides), He forbade me (to eat from) the tree, but I disobeyed (Him), (I am worried about) myself! Myself! Go to somebody else; go to Noah.’ They will go to Noah and say; ‘O Noah! You are the first amongst the messengers of Allah to the people of the earth, and Allah named you a thankful slave. Don’t you see in what a (miserable) state we are and to what condition we have reached? Will you not intercede for us with your Lord? Noah will reply: ‘Today my Lord has become so angry as he had never been before and will never be in the future Myself! Myself! Go to the Prophet (Muhammad). The people will come to me, and I will prostrate myself underneath Allah’s Throne. Then I will be addressed: ‘O Muhammad! Raise your head; intercede, for your intercession will be accepted, and ask (for anything). for you will be given. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 556


150

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ، عُقْبَةُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَافْعَلْ مَا شِئْتَ ‏”‏‏.‏

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ، ان سے زہیر نے کہا ہم سے منصور نے بیان کیا ان سے ربعی بن حراش نے کہا ہم سے ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے اگلے پیغمبروں کے کلام جو پائے ان میں یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو تو پھر جو جی چاہے کر ۔

Narrated Abu Masud `Uqba:

The Prophet (ﷺ) said, “One of the sayings of the prophets which the people have got, is. ‘If you do not feel ashamed, then do whatever you like.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 690


151

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ ‏”‏‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے منصور نے باین کیا انہوں نے کہا میں نے ربعی بن حراش سے سنا وہ ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو پھر جو جی چاہے کر ۔

Narrated Abu Mus’ud:

The Prophet (ﷺ) said, “One of the sayings of the prophets which the people have got is, ‘If you do not feel ashamed, then do whatever you like.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 691


152

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَجُرُّ إِزَارَهُ مِنَ الْخُيَلاَءِ خُسِفَ بِهِ، فَهْوَ يَتَجَلْجَلُ فِي الأَرْضِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏.‏

ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، کہا ہم کو یونس نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم نے خبر دی اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہا سے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا ۔ یونس کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن خالد نے بھی زہری سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Ibn `Umar:

The Prophet (ﷺ) said, “While a man was walking, dragging his dress with pride, he was caused to be swallowed by the earth and will go on sinking in it till the Day of Resurrection.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 692


153

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ كُلُّ أُمَّةٍ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَا مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا، فَغَدًا لِلْيَهُودِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَى ‏”‏‏.‏ ‏”‏عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِى كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمٌ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ‏”‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا مجھ سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم ( دنیا میں ) تمام امتوں کے آخر میں آئے لیکن ( قیامت کے دن ) تمام امتوں سے آگے ہوں گے ۔ صرف اتنا فرق ہے کہ انہیں پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں بعد میں ملی اور یہی وہ ( جمعہ کا ) دن ہے جس کے بارے یں لوگوں نے اختلاف کیا ۔ یہودیوں نے تو اسے اس کے دوسرے دن ( ہفتہ کو ) کر لیا اور نصاریٰ نے تیسرے دن ( اتوار کو ) ۔ پس ہر مسلمان کو ہفتے میں ایک دن ( یعنی جمعہ کے دن ) تو اسے جسم اور سر کو دھو لینا لازم ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “We are the last (to come) but we will be the foremost on the Day of Resurrection, nations were given the Book (i.e. Scripture) before us, and we were given the Holy Book after them. This (i.e. Friday) is the day about which they differed. So the next day (i.e. Saturday) was prescribed for the Jews and the day after it (i.e. Sunday) for the Christians. It is incumbent on every Muslim to wash his head and body on a Day (i.e. Friday) (at least) in every seven days.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 693


154

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَدِينَةَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمَّاهُ الزُّورَ ـ يَعْنِي الْوِصَالَ فِي الشَّعَرِ‏.‏ تَابَعَهُ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے عمرو بن مرہ نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا آپ نے بیان کیا کہمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور ( خطبہ کے دوران ) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا ، میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بال سنوارنے کا نام الزور ( فریب و جھوٹ ) رکھا ہے ۔ آپ کی مراد وصال فی الشعر سے تھی ۔ یعنی بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی ( جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑ کیا کرتی ہیں ) آدم کے ساتھ اس حدیث کو غندر نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab:

When Muawiya bin Abu Sufyan came to Medina for the last time, he delivered a sermon before us. He took out a tuft of hair and said, “I never thought that someone other than the Jews would do such a thing (i.e. use false hair). The Prophet (ﷺ) named such a practice, ‘Az-Zur’ (i.e. falsehood),” meaning the use of false hair.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 694


16

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَرَأَ ‏{‏فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ‏}‏ مِثْلَ قِرَاءَةِ الْعَامَّةِ‏.‏

ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو ابواحمد نے خبر دی ، انہیں سفیان نے انہیں ابواسحاق نے انہیں اسود بن یزید نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( آیت ) » فہل من مدکر « مشہور قرآت کے مطابق ( ادغام کے ساتھ ) تلاوت فرمائی تھی ۔

Narrated `Abdullah:

Allah’s Messenger (ﷺ) recited the following Verse) in the usual tone: ‘Fahal-Min-Muddalkir.’ (54.15)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 557


17

قَالَ عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ أَنَسٌ كَانَ أَبُو ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جَاءَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ افْتَحْ‏.‏ قَالَ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا جِبْرِيلُ‏.‏ قَالَ مَعَكَ أَحَدٌ قَالَ مَعِيَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قَالَ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ، فَافْتَحْ‏.‏ فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالاِبْنِ الصَّالِحِ‏.‏ قُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا آدَمُ، وَهَذِهِ الأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ، حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا افْتَحْ‏.‏ فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الأَوَّلُ، فَفَتَحَ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ إِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ، وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ‏.‏ وَقَالَ أَنَسٌ فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِإِدْرِيسَ‏.‏ قَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ‏.‏ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ‏.‏ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا مُوسَى‏.‏ ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ‏.‏ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ عِيسَى‏.‏ ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالاِبْنِ الصَّالِحِ‏.‏ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا إِبْرَاهِيمُ‏.‏ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولاَنِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الأَقْلاَمِ ‏”‏‏.‏ قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى مَا الَّذِي فُرِضَ عَلَى أُمَّتِكَ قُلْتُ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلاَةً‏.‏ قَالَ فَرَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ‏.‏ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَقَالَ هِيَ خَمْسٌ، وَهْىَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَىَّ‏.‏ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ‏.‏ فَقُلْتُ قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ، حَتَّى أَتَى السِّدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ ‏{‏الْجَنَّةَ‏}‏ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ ‏”‏‏.‏

عبدان نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے ، ( دوسری سند ) اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ نے ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میرے گھر کی چھت کھولی گئی ۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا ۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا ، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا ۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے ، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو ، پوچھا کہ کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں جبرائیل ، پھر پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ۔ جواب دیا کہ ہاں ، اب دروازہ کھلا ، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی ، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف ، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے ۔ انہوں نے کہا خوش آمدید ، نیک نبی نیک بیٹے ! میں نے پوچھا ، جبرائیل ! یہ صاحب کون بزرگ ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں ، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے ، پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے ، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو ، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہو چکے تھے ، پھر دروازہ کھولا ، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس ، موسیٰ عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا ، لیکن انہوں نے ان انبیاء کرام کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی ، صرف اتنا کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا ( پہلے آسمان پر ) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید ، نیک نبی نیک بھائی ، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں ، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا ، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی نیک بھائی ، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے ، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہم بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی ، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں ۔ میں اس فریضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیں ہے ، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی ، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کر دیا گیا ، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کر دی ، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں خبر کی ، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں ، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے ، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی ، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرما دیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کر دی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھا گیا ، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا ۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے ۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے باربار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃالمنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظر آئے ، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے ۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی ۔

Narrated Anas (ra):Abu Dhar (ra) used to say that Allah’s Messenger (ﷺ) said, “While I was at Makkah, the roof of my house was opened and Jibril descended, opened my chest, and washed it with Zamzam water. Then he brought a golden tray full of wisdom and faith, and having poured its contents into my chest, he closed it. Then he took my hand and ascended with me to the heaven. When Jibril reached the nearest heaven, he said to the gatekeeper of the heaven, ‘Open (the gate).’ The gatekeeper asked, ‘who is it?’ Jibril answered, ‘Jibril’. He asked, ‘Is there anyone with you?’ Jibril replied, ‘Muhammad (ﷺ) is with me.’ He asked, ‘Has he been called?’, Jibril said, ‘Yes’. So, the gate was opened and we went over the nearest heaven, and there we saw a man sitting with Aswida (a large number of people) of his right and Aswida on his left. When he looked towards his right, he laughed and when he looked towards his left he wept. He said (to me), ‘Welcome, O pious Prophet and pious son’. I said, ‘Who is this man O Jibril?’ Jibril replied, ‘He is Adam, and the people on his right and left are the souls of his offspring. Those on the right are the people of Paradise, and those on the left are the people of the (Hell) Fire. So, when he looks to the right, he laughs, and when he looks to the left he weeps.’ Then Jibril ascended with me till he reached the second heaven and said to the gatekeeper, ‘Open (the gate).’ The gatekeeper said to him the same as the gatekeeper of the first heaven has said, and he opened the gate.” Anas added: Abu Dhar mentioned that Prophet (ﷺ) met Idris, Musa (Moses), ‘Isa (Jesus) and Ibrahim (Abraham) over the heavens, but he did not specify their places (i.e., on which heavens each of them was), but he mentioned that he (the Prophet (ﷺ)) had met Adam on the nearest heaven, and Ibrahim on the sixth. Anas said, “When Jibril and the Prophet (ﷺ) passed by Idris, the latter said, ‘Welcome, O pious Prophet and pious brother!’ the Prophet (ﷺ) asked, ‘Who is he?’ Jibril said, ‘He is Idris.’ ” The Prophet (ﷺ) added, “Then I passed by Musa who said, ‘Welcome, O pious Prophet and pious brother!’ I said, ‘Who is he?’ Jibril said, ‘He is Musa.’ Then I passed by ‘Isa who said, ‘Welcome, O pious Prophet and pious brother!’ I said, ‘Who is he?’ He replied, ‘He is ‘Isa.’ Then I passed by the Prophet (ﷺ) Ibrahim who said, ‘Welcome, O pious Prophet and pious son!’ I said, ‘Who is he?’ Jibril replied, ‘He is Ibrahim’.” Narrated Ibn ‘Abbas and Abu Haiyya Al-Ansari: The Prophet (ﷺ) said, “Then Jibril ascended with me to a place where I heard the creaking of pens.” Ibn Hazm and Anas bin Malik state the Prophet (ﷺ) said, “Allah enjoined fifty Salat (prayers) on me. When I returned with this order of Allah, I passed by Musa who asked me, ‘What has Allah enjoined on your followers?’ I replied, ‘He has enjoined fifty Salat (prayers) on them.’ On the Musa said to me, ‘Go back to your Lord (and appeal for reduction), for your followers will not be able to bear it.’ So, I returned to my Lord and asked for some reduction, and He reduced it to half. When I passed by Musa again and informed him about it, he once more said to me, ‘Go back to your Lord, for your followers will not be able to bear it.’ So, I returned to my Lord similarly as before, and half of it was reduced. I again passed by Musa and he said to me, ‘Go back to your Lord, for your followers will not be able to bear it.’ I again returned to my Lord and He said, ‘These are five (Salat-prayers) and they are all (equal to) fifty (in reward), for My Word does not change.’ I returned to Musa, he again told me to return to my Lord (for further reduction) but I said to him ‘I feel shy of asking my Lord now.’ Then Jibril took me till we reached Sidrat-ul-Muntaha (i.e., lote tree of utmost boundary) which was shrouded in colors indescribable. Then I was admitted into Paradise where I found small tents (made) of pearls and its earth was musk (a kind of perfume).”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 55, Hadith 557


18

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حکم نے ، ان سے مجاہد نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( غزوہ خندق کے موقع پر ) پروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کر دی گئی تھی ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “I have been made victorious with As-Saba (i.e. an easterly wind) and the people of ‘Ad were destroyed by Ad-Dabur (i.e. a westerly wind).”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 558


19

قَالَ وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ عَلِيٌّ ـ رضى الله عنه ـ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذُهَيْبَةٍ فَقَسَمَهَا بَيْنَ الأَرْبَعَةِ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ، وَعُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَزَيْدٍ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ عُلاَثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلاَبٍ، فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالأَنْصَارُ، قَالُوا يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ ‏”‏‏.‏ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقٌ فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُ، أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ فَلاَ تَأْمَنُونِي ‏”‏‏.‏ فَسَأَلَهُ رَجُلٌ قَتْلَهُ ـ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ ـ فَمَنَعَهُ، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ ‏”‏ إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا ـ أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا ـ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ، وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ ‏”‏‏.‏

( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) کہ ابن کثیر نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے ابن ابی نعیم نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہحضرت علی رضی اللہ عنہ نے ( یمن سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا ، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی ، عیینہ بن بدر فزاری ، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے ، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظرانداز کر دیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں ( کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں ) پھر ایک شخص سامنے آیا ، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، کلے پھولے ہوئے تھے ، پیشانی بھی اٹھی ہوئی ، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا ۔ اس نے کہا اے محمد ! اللہ سے ڈرو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے ۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی ، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا ، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے ، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے ، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا ( عذاب الٰہی سے ) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا ۔

Narrated Abu Sa`id:`Ali sent a piece of gold to the Prophet (ﷺ) who distributed it among four persons: Al-Aqra’ bin H`Abis Al-Hanzali from the tribe of Mujashi, ‘Uyaina bin Badr Al-Fazari, Zaid at-Ta’i who belonged to (the tribe of) Bani Nahban, and ‘Alqama bin Ulatha Al-`Amir who belonged to (the tribe of) Bani Kilab. So the Quraish and the Ansar became angry and said, “He (i.e. the Prophet, ) gives the chief of Najd and does not give us.” The Prophet (ﷺ) said, “I give them) so as to attract their hearts (to Islam).” Then a man with sunken eyes, prominent checks, a raised forehead, a thick beard and a shaven head, came (in front of the Prophet (ﷺ) ) and said, “Be afraid of Allah, O Muhammad!” The Prophet (ﷺ) ‘ said “Who would obey Allah if I disobeyed Him? (Is it fair that) Allah has trusted all the people of the earth to me while, you do not trust me?” Somebody who, I think was Khalid bin Al-Walid, requested the Prophet (ﷺ) to let him chop that man’s head off, but he prevented him. When the man left, the Prophet (ﷺ) said, “Among the off-spring of this man will be some who will recite the Qur’an but the Qur’an will not reach beyond their throats (i.e. they will recite like parrots and will not understand it nor act on it), and they will renegade from the religion as an arrow goes through the game’s body. They will kill the Muslims but will not disturb the idolaters. If I should live up to their time’ I will kill them as the people of ‘Ad were killed (i.e. I will kill all of them).”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 558


2

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً، لاَ يَبُولُونَ وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ وَلاَ يَتْفِلُونَ وَلاَ يَمْتَخِطُونَ، أَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَمَجَامِرُهُمُ الأَلُوَّةُ الأَنْجُوجُ عُودُ الطِّيبِ، وَأَزْوَاجُهُمُ الْحُورُ الْعِينُ، عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ، سِتُّونَ ذِرَاعًا فِي السَّمَاءِ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے عمارہ نے ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورتیں ایسی روشن ہوں گی جیسے چودھویں کا چاند روشن ہوتا ہے ، پھر جو لوگ اس کے بعد داخل ہوں گے وہ آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے ۔ نہ تو ان لوگوں کو پیشاب کی ضرورت ہو گی نہ پاخانہ کی ، نہ وہ تھوکیں گے نہ ناک سے آلائش نکالیں گے ۔ ان کے کنگھے سونے کے ہوں گے اور ان کا پسینہ مشک کی طرح ہو گا ۔ ان کی انگیٹھیوں میں خوشبودار عود جلتا ہو گا ، یہ نہایت پاکیزہ خوشبودار عود ہو گا ۔ ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی ۔ سب کی صورتیں ایک ہوں گی ۔ یعنی اپنے والد آدم علیہ السلام کے قد و قامت پر ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے ہوں گے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “The first group of people who will enter Paradise, will be glittering like the full moon and those who will follow them, will glitter like the most brilliant star in the sky. They will not urinate, relieve nature, spit, or have any nasal secretions. Their combs will be of gold, and their sweat will smell like musk. The aloes-wood will be used in their centers. Their wives will be houris. All of them will look alike and will resemble their father Adam (in stature), sixty cubits tall.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 544


20

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ ‏{‏فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‏}‏‏.‏

ہم سے خالد بن یزید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے ان سے اسود نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ آیت فہل من مدکر کی تلاوت فرما رہے تھے ۔

Narrated `Abdullah:

I heard the Prophet (ﷺ) reciting: “Fahal Min Muddakir.” (See Hadith No. 557)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 559


21

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَتْهُ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ ـ رضى الله عنهن أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا يَقُولُ ‏”‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ ‏”‏‏.‏ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا‏.‏ قَالَتْ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ، إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے ، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے ، ان سے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آ جائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں ، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کر دیا ہے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بنا کر بتلایا ۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کر دئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا ( تو یقیناً بربادی ہو گی ) ۔

Narrated Zainab bint Jahsh:

That the Prophet (ﷺ) once came to her in a state of fear and said, “None has the right to be worshipped but Allah. Woe unto the Arabs from a danger that has come near. An opening has been made in the wall of Gog and Magog like this,” making a circle with his thumb and index finger. Zainab bint Jahsh said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Shall we be destroyed even though there are pious persons among us?” He said, “Yes, when the evil person will increase.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 565


22

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ فَتَحَ اللَّهُ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلَ هَذَا ‏”‏‏.‏ وَعَقَدَ بِيَدِهِ تِسْعِينَ‏.‏

ہمیں مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب نے ، ان سے ابن طاوس نے ، ان سے ان کے والد طاوس نے ، ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک نے یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا کھول دیا ہے ، پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنا کر بتلایا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah has made an opening in the wall of the Gog and Magog (people) like this, and he made with his hand (with the help of his fingers).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 566


23

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى يَا آدَمُ‏.‏ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ‏.‏ فَيَقُولُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ‏.‏ قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، فَعِنْدَهُ يَشِيبُ الصَّغِيرُ، وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى، وَمَا هُمْ بِسُكَارَى، وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ ‏”‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَيُّنَا ذَلِكَ الْوَاحِدُ قَالَ ‏”‏ أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْكُمْ رَجُلٌ، وَمِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفٌ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‏”‏‏.‏ فَكَبَّرْنَا‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‏”‏‏.‏ فَكَبَّرْنَا‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‏”‏‏.‏ فَكَبَّرْنَا‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلاَّ كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْيَضَ، أَوْ كَشَعَرَةٍ بَيْضَاءَ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) فرمائے گا ، اے آدم ! آدم علیہ السلام عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں ، مستعد ہوں ، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، جہنم میں جانے والوں کو ( لوگوں میں سے الگ ) نکال لو ۔ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے ۔ اے اللہ ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ اس وقت ( کی ہولناکی اور وحشت سے ) بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی ۔ اس وقت تم ( خوف و دہشت سے ) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ بیہوش نہ ہوں گے ۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہو گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو ، وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ تم ( امت مسلمہ ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے ۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ، پھر آپ نے فرمایا کہ ( محشر میں ) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہو گے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے ۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah will say (on the Day of Resurrection), ‘O Adam.’ Adam will reply, ‘Labbaik wa Sa`daik’, and all the good is in Your Hand.’ Allah will say: ‘Bring out the people of the fire.’ Adam will say: ‘O Allah! How many are the people of the Fire?’ Allah will reply: ‘From every one thousand, take out nine-hundred-and ninety-nine.’ At that time children will become hoary headed, every pregnant female will have a miscarriage, and one will see mankind as drunken, yet they will not be drunken, but dreadful will be the Wrath of Allah.” The companions of the Prophet (ﷺ) asked, “O Allah’s Apostle! Who is that (excepted) one?” He said, “Rejoice with glad tidings; one person will be from you and one-thousand will be from Gog and Magog.” The Prophet (ﷺ) further said, “By Him in Whose Hands my life is, hope that you will be one-fourth of the people of Paradise.” We shouted, “Allahu Akbar!” He added, “I hope that you will be one-third of the people of Paradise.” We shouted, “Allahu Akbar!” He said, “I hope that you will be half of the people of Paradise.” We shouted, “Allahu Akbar!” He further said, “You (Muslims) (compared with non Muslims) are like a black hair in the skin of a white ox or like a white hair in the skin of a black ox (i.e. your number is very small as compared with theirs).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 567


24

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً ـ ثُمَّ قَرَأَ – ‏{‏كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ‏}‏ وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي أَصْحَابِي‏.‏ فَيَقُولُ، إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ‏.‏ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏الْحَكِيمُ ‏}‏‏”‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، ان سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں ، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ” جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے ۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے ( سورۃ انبیاء ) اور انبیاء میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا اور میرے اصحاب میں سے بعض کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پکار اٹھوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں ، میرے اصحاب ! لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے پھر کفر اختیار کر لیا تھا ۔ اس وقت میں بھی وہی جملہ کہوں گا جو نیک بندے ( عیسیٰ علیہ السلام ) کہیں گے کہ ” جب تک میں ان کے ساتھ تھا ۔ ان پر نگران تھا ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد الحکیم تک ۔ “

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “You will be gathered (on the Day of Judgment), bare-footed, naked and not circumcised.” He then recited:–‘As We began the first creation, We, shall repeat it: A Promise We have undertaken: Truly we shall do it.’ (21.104) He added, “The first to be dressed on the Day of Resurrection, will be Abraham, and some of my companions will be taken towards the left side (i.e. to the (Hell) Fire), and I will say: ‘My companions! My companions!’ It will be said: ‘They renegade from Islam after you left them.’ Then I will say as the Pious slave of Allah (i.e. Jesus) said. ‘And I was a witness Over them while I dwelt amongst them. When You took me up You were the Watcher over them, And You are a witness to all things. If You punish them. They are Your slaves And if You forgive them, Verily you, only You are the All-Mighty, the All-Wise.” (5.120-121)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 568


25

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَخِي عَبْدُ الْحَمِيدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي فَيَقُولُ أَبُوهُ فَالْيَوْمَ لاَ أَعْصِيكَ‏.‏ فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ يَا رَبِّ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَأَىُّ خِزْىٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ، ثُمَّ يُقَالُ يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ، فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے بھائی عبدالحمید نے خبر دی ، انہیں ابن ابی ذئب نے ، انہیں سعید مقبری نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے ( والد کے ) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے ۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا ۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے ۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “On the Day of Resurrection Abraham will meet his father Azar whose face will be dark and covered with dust.(The Prophet (ﷺ) Abraham will say to him): ‘Didn’t I tell you not to disobey me?’ His father will reply: ‘Today I will not disobey you.’ ‘Abraham will say: ‘O Lord! You promised me not to disgrace me on the Day of Resurrection; and what will be more disgraceful to me than cursing and dishonoring my father?’ Then Allah will say (to him):’ ‘I have forbidden Paradise for the disbelievers.” Then he will be addressed, ‘O Abraham! Look! What is underneath your feet?’ He will look and there he will see a Dhabh (an animal,) blood-stained, which will be caught by the legs and thrown in the (Hell) Fire.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 569


26

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بُكَيْرًا، حَدَّثَهُ عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْبَيْتَ فَوَجَدَ فِيهِ صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ وَصُورَةَ مَرْيَمَ فَقَالَ ‏ “‏ أَمَا لَهُمْ، فَقَدْ سَمِعُوا أَنَّ الْمَلاَئِكَةَ لاَ تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ، هَذَا إِبْرَاهِيمُ مُصَوَّرٌ فَمَا لَهُ يَسْتَقْسِمُ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی ، ان سے بکیر نے بیان کیا ، ان سے ابن عباس کے مولیٰ کریب نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس میں حضرت ابراہیم اور حضرت مریم علیہما السلام کی تصویریں دیکھیں ، آپ نے فرمایا کہ قریش کو کیا ہو گیا ؟ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں رکھی ہوں ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ہے اور وہ بھی پانسہ پھینکتے ہوئے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) entered the Ka`ba and found in it the pictures of (Prophet) Abraham and Mary. On that he said’ “What is the matter with them ( i.e. Quraish)? They have already heard that angels do not enter a house in which there are pictures; yet this is the picture of Abraham. And why is he depicted as practicing divination by arrows?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 570


27

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا رَأَى الصُّوَرَ فِي الْبَيْتِ لَمْ يَدْخُلْ، حَتَّى أَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ، وَرَأَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ ـ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ ـ بِأَيْدِيهِمَا الأَزْلاَمُ فَقَالَ ‏ “‏ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، وَاللَّهِ إِنِ اسْتَقْسَمَا بِالأَزْلاَمِ قَطُّ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں ایوب نے ، انہیں عکرمہ نے اور انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اندر اس وقت تک داخل نہ ہوئے جب تک وہ مٹا نہ دی گئیں اور آپ نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں میں تیر ( پانسے کے ) تھے تو آپ نے فرمایا ، اللہ ان پر بربادی لائے ۔ واللہ ان حضرات نے کبھی تیر نہیں پھینکے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

When the Prophet (ﷺ) saw pictures in the Ka`ba, he did not enter it till he ordered them to be erased. When he saw (the pictures of Abraham and Ishmael carrying the arrows of divination, he said, “May Allah curse them (i.e. the Quraish)! By Allah, neither Abraham nor Ishmael practiced divination by arrows.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 571


28

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ قَالَ ‏”‏ أَتْقَاهُمْ ‏”‏‏.‏ فَقَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونَ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقُهُوا ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَمُعْتَمِرٌ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہعرض کیا گیا یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ شریف کون ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ( سب سے زیادہ شریف ہیں ) صحابہ نے کہا کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا عرب کے خاندانوں کے متعلق تم پوچھنا چاہتے ہو ۔ سنو جو جاہلیت میں شریف تھے اسلام میں بھی وہ شریف ہیں جب کہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے ۔ ابواسامہ اور معتمر نے عبیداللہ سے بیان کیا ، ان سے سعید نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔

Narrated Abu Huraira:

The people said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Who is the most honorable amongst the people (in Allah’s Sight)?” He said, “The most righteous amongst them.” They said, “We do not ask you, about this. ” He said, “Then Joseph, Allah’s Prophet, the son of Allah’s Prophet, The son of Allah’s Prophet the son of Allah’s Khalil (i.e. Abraham).” They said, “We do not want to ask about this,” He said’ “Then you want to ask about the descent of the Arabs. Those who were the best in the pre-lslamic period of ignorance will be the best in Islam provided they comprehend the religious knowledge.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 572


29

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ طَوِيلٍ، لاَ أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولاً، وَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ صلى الله عليه وسلم ‏”‏‏.‏

ہم سے مؤمل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے عوف نے ، کہا ہم سے ابورجاء نے ، کہا ہم سے سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کی رات میرے پاس ( خواب میں ) دو فرشتے ( جبرائیل و میکائیل علیہما السلام ) آئے ۔ پھر یہ دونوں فرشتے مجھے ساتھ لے کر ایک لمبے قد کے بزرگ کے پاس گئے ، وہ اتنے لمبے تھے کہ ان کا سر میں نہیں دیکھ پاتا تھا اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے ۔

Narrated Samura:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Two persons came to me at night (in dream) (and took me along with them). We passed by a tall man who was so tall that I was not able to see his head and that person was Abraham.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 573


3

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ الْغُسْلُ إِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ ‏”‏‏.‏ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَبِمَا يُشْبِهُ الْوَلَدُ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے ، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے ، ان سے ( ام المؤمنین ) ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے کہام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ، تو کیا اگر عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل ہو گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں بشرطیکہ وہ تری دیکھ لے ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں ، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، ( اگر ایسا نہیں ہے ) تو پھر بچے میں ( ماں کی ) مشابہت کہاں سے آتی ہے ۔

Narrated Zainab bint Abi Salama:

Um Salama said, “Um Sulaim said, ‘O Allah’s Messenger (ﷺ)! Allah does not refrain from saying the truth! Is it obligatory for a woman to take a bath after she gets nocturnal discharge?’ He said, ‘Yes, if she notices the water (i.e. discharge).’ Um Salama smiled and said, ‘Does a woman get discharge?’ Allah’s Apostle said. ‘Then why does a child resemble (its mother)?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 545


30

حَدَّثَنِي بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ وَذَكَرُوا لَهُ الدَّجَّالَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ كَافِرٌ أَوْ ك ف ر‏.‏ قَالَ لَمْ أَسْمَعْهُ وَلَكِنَّهُ قَالَ ‏ “‏ أَمَّا إِبْرَاهِيمُ فَانْظُرُوا إِلَى صَاحِبِكُمْ، وَأَمَّا مُوسَى فَجَعْدٌ آدَمُ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ مَخْطُومٍ بِخُلْبَةٍ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ انْحَدَرَ فِي الْوَادِي ‏”‏‏.‏

ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا ، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی ، انہیں مجاہد نے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سناآپ کے سامنے لوگ دجال کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہو گا ” کافر “ یا ( یوں لکھا ہوا ہو گا ) ” ک ف ر “ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی ۔ البتہ آپ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ ابراہیم علیہ السلام ( کی شکل و وضع معلوم کرنے ) کے لیے تم اپنے صاحب کو دیکھ سکتے ہو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بدن گٹھا ہوا ، گندم گوں ، ایک سرخ اونٹ پر سوار تھے ۔ جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی ۔ جیسے میں انہیں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں ۔

Narrated Mujahid:

That when the people mentioned before Ibn `Abbas that the Dajjal would have the word Kafir, (i.e. unbeliever) or the letters Kafir (the root of the Arabic verb ‘disbelieve’) written on his forehead, I heard Ibn `Abbas saying, “I did not hear this, but the Prophet (ﷺ) said, ‘If you want to see Abraham, then look at your companion (i.e. the Prophet) but Moses was a curly-haired, brown man (who used to ride) a red camel, the reins of which was made of fires of date-palms. As if I were now looking down a valley.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 574


31

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ وَهْوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُّومِ ‏”‏‏.‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ‏”‏ بِالْقَدُومِ ‏”‏‏.‏ مُخَفَّفَةً‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ‏.‏ تَابَعَهُ عَجْلاَنُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن القرشی نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی ( 80 ) سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا ۔ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، پھر یہی حدیث نقل کی لیکن پہلی روایت میں قدوم بہ تشدید دال ہے اور اس میں قدوم بہ تخفیف دال ہے ۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ یعنی بسولہ ( جو بڑھیوں کا ایک مشہور ہتھیار ہوتا ہے اسے بسوہ بھی کہتے ہیں ) شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن اسحاق نے بھی ابوالزناد سے روایت کیا ہے اور عجلان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Abraham did his circumcision with an adze* at the age of eighty.” Narrated Abu Az-Zinad: (as above) With an adze*. * a type of cured blade axe.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 575


32

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ الرُّعَيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلاَّ ثَلاَثًا ‏”‏‏.‏

ہم سے سعید بن تلید رعینی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے جریر بن حازم نے خبر دی ، انہیں ایوب سختیانی نے ، انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابراہیم علیہ السلام نے توریہ تین مرتبہ کے سوا اور کبھی نہیں کیا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Abraham did not tell a lie except on three occasions.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 577


33

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ إِلاَّ ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَوْلُهُ ‏{‏إِنِّي سَقِيمٌ ‏}‏ وَقَوْلُهُ ‏{‏بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا‏}‏، وَقَالَ بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَا هُنَا رَجُلاً مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا‏.‏ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَ أُخْتِي، فَأَتَى سَارَةَ قَالَ يَا سَارَةُ، لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي فَلاَ تُكَذِّبِينِي‏.‏ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ، فَأُخِذَ فَقَالَ ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ‏.‏ فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ، فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ‏.‏ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ‏.‏ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ، إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ‏.‏ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ فَأَتَتْهُ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ مَهْيَا قَالَتْ رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الْكَافِرِ ـ أَوِ الْفَاجِرِ ـ فِي نَحْرِهِ، وَأَخْدَمَ هَاجَرَ‏.‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ‏.‏

ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا ، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کا فرمانا ( بطور توریہ کے ) کہ ” میں بیمار ہوں “ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ” بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے ( بت ) نے کیا ہے “ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے ۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری ( دینی اعتبار سے ) بہن ہو ۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں ۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو ( کہ اس مصیبت سے نجات دے ) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑ لیا گیا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو ، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو ، یہ تو کوئی سرکش جن ہے ( جاتے ہوئے ) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا ۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا ( یہ کہا کہ ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماء السماء ( اے آسمانی پانی کی اولاد ! یعنی اہل عرب ) تمہاری والدہ یہی ( حضرت ہاجرہ علیہا السلام ) ہیں ۔

Narrated Abu Huraira:

Abraham did not tell a lie except on three occasion. Twice for the Sake of Allah when he said, “I am sick,” and he said, “(I have not done this but) the big idol has done it.” The (third was) that while Abraham and Sarah (his wife) were going (on a journey) they passed by (the territory of) a tyrant. Someone said to the tyrant, “This man (i.e. Abraham) is accompanied by a very charming lady.” So, he sent for Abraham and asked him about Sarah saying, “Who is this lady?” Abraham said, “She is my sister.” Abraham went to Sarah and said, “O Sarah! There are no believers on the surface of the earth except you and I. This man asked me about you and I have told him that you are my sister, so don’t contradict my statement.” The tyrant then called Sarah and when she went to him, he tried to take hold of her with his hand, but (his hand got stiff and) he was confounded. He asked Sarah. “Pray to Allah for me, and I shall not harm you.” So Sarah asked Allah to cure him and he got cured. He tried to take hold of her for the second time, but (his hand got as stiff as or stiffer than before and) was more confounded. He again requested Sarah, “Pray to Allah for me, and I will not harm you.” Sarah asked Allah again and he became alright. He then called one of his guards (who had brought her) and said, “You have not brought me a human being but have brought me a devil.” The tyrant then gave Hajar as a girl-servant to Sarah. Sarah came back (to Abraham) while he was praying. Abraham, gesturing with his hand, asked, “What has happened?” She replied, “Allah has spoiled the evil plot of the infidel (or immoral person) and gave me Hajar for service.” (Abu Huraira then addressed his listeners saying, “That (Hajar) was your mother, O Bani Ma-is-Sama (i.e. the Arabs, the descendants of Ishmael, Hajar’s son).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 578


34

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَوِ ابْنُ سَلاَمٍ عَنْهُ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ ـ رضى الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ ‏ “‏ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا یا ابن سلام نے ( ہم سے بیان کیا عبیداللہ بن موسیٰ کے واسطے سے ) انہیں ابن جریج نے خبر دی ، انہیں عبدالحمید بن جبیر نے ، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونکا تھا ۔

Narrated Um Sharik:

Allah’s Messenger (ﷺ) ordered that the salamander should be killed and said, “It (i.e. the salamander) blew (the fire) on Abraham.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 579


35

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتِ ‏{‏الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‏}‏ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لاَ يَظْلِمُ نَفْسَهُ قَالَ ‏”‏ لَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ ‏{‏لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‏}‏ بِشِرْكٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعُوا إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لاِبْنِهِ ‏{‏يَا بُنَىَّ لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‏}‏‏”‏‏.‏

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب یہ آیت اتری ” جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے ظلم کی ملاوٹ نہ کی “ تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعہ وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو ” جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی “ ( میں ظلم سے مراد ) شرک ہے کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں سنی کہ ” اے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا ، بیشک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے “ ۔

Narrated `Abdullah:

When the Verse:–“It is those who believe and do not confuse their belief with wrong ( i.e. joining others in worship with Allah” (6.83) was revealed, we said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Who is there amongst us who has not done wrong to himself?” He replied, “It is not as you say, for ‘wrong’ in the Verse and ‘do not confuse their belief, with wrong means ‘SHIRK’ (i.e. joining others in worship with Allah). Haven’t you heard Luqman’s saying to his son, ‘O my son! Join not others in worship with Allah, verily joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.” (31.13)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 580


36

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا بِلَحْمٍ فَقَالَ ‏ “‏ إِنَّ اللَّهَ يَجْمَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيُنْفِدُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ ـ فَذَكَرَ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ ـ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنَ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ‏.‏ فَيَقُولُ ـ فَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ ـ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى ‏”‏‏.‏ تَابَعَهُ أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ابوحیان نے ، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا ، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا ( کیونکہ یہ میدان ہموار ہو گا ، زمین کی طرح گول نہ ہو گا ) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہو جائے گا ۔ پھر آپ نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں ۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے ، پھر انہیں اپنے جھوٹ ( توریہ ) یاد آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے ۔ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

One day some meat was given to the Prophet (ﷺ) and he said, “On the Day of Resurrection Allah will gather all the first and the last (people) in one plain, and the voice of the announcer will reach all of them, and one will be able to see them all, and the sun will come closer to them.” (The narrator then mentioned the narration of intercession): “The people will go to Abraham and say: ‘You are Allah’s Prophet and His Khalil on the earth. Will you intercede for us with your Lord?’ Abraham will then remember his lies and say: ‘Myself! Myself! Go to Moses.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 581


37

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، لَوْلاَ أَنَّهَا عَجِلَتْ لَكَانَ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا ‏”‏‏.‏ قَالَ الأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَمَّا كَثِيرُ بْنُ كَثِيرٍ فَحَدَّثَنِي قَالَ إِنِّي وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ جُلُوسٌ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ مَا هَكَذَا حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ أَقْبَلَ إِبْرَاهِيمُ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّهِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ وَهْىَ تُرْضِعُهُ، مَعَهَا شَنَّةٌ ـ لَمْ يَرْفَعْهُ ـ ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ‏.‏

مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا ، ہم سے وہب بن جریرنے بیان کیا ، ان سے ان کے والد جریر بن حازم نے بیان کیا ، ان سے ایوب سختیانی نے ، ان سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے ، ان سے ان کے والد سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( حضرت ہاجرہ علیہا السلام ) پر رحم کرے ، اگر انہوں نے جلدی نہ کی ہوتی ( اور زمزم کے پانی کے گرد منڈیر نہ بناتیں ) تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا ۔ محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا کہ ہم سے اسی طرح یہ حدیث ابن جریج نے بیان کی لیکن کثیر بن کثیر نے مجھ سے یوں بیان کیا کہ میں اور عثمان بن ابوسلیمان دونوں سعید بن جبیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، اتنے میں انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے یہ حدیث اس طرح بیان نہیں کی بلکہ یوں کہا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ کی سرزمین کی طرف آئے ۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ان کے ساتھ ایک پرانی مشک تھی ۔ ابن عباس نے اس حدیث کو مرفوع نہیں کیا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “May Allah bestow His Mercy on the mother of Ishmael! Had she not hastened (to fill her water-skin with water from the Zamzam well). Zamzam would have been a stream flowing on the surface of the earth.” Ibn `Abbas further added, “(The Prophet) Abraham brought Ishmael and his mother (to Mecca) and she was suckling Ishmael and she had a water-skin with her.’

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 582


38

وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، وَكَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ،، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَوَّلَ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ، اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ، ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ، وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهْىَ تُرْضِعُهُ حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ، فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى الْمَسْجِدِ، وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ، وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ، فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ، وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ، ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَتْ يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلاَ شَىْءٌ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا، وَجَعَلَ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا فَقَالَتْ لَهُ آللَّهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَتْ إِذًا لاَ يُضَيِّعُنَا‏.‏ ثُمَّ رَجَعَتْ، فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لاَ يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ، ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلاَءِ الْكَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ ‏{‏رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ‏}‏ حَتَّى بَلَغَ ‏{‏يَشْكُرُونَ‏}‏‏.‏ وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ، وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا، وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى ـ أَوْ قَالَ يَتَلَبَّطُ ـ فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَتِ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الأَرْضِ يَلِيهَا، فَقَامَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَتِ الْوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا، فَهَبَطَتْ مِنَ، الصَّفَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا، ثُمَّ سَعَتْ سَعْىَ الإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ، حَتَّى جَاوَزَتِ الْوَادِيَ، ثُمَّ أَتَتِ الْمَرْوَةَ، فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا، فَلَمْ تَرَ أَحَدًا، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ ـ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَذَلِكَ سَعْىُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا ‏”‏‏.‏ ـ فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا، فَقَالَتْ صَهٍ‏.‏ تُرِيدَ نَفْسَهَا، ثُمَّ تَسَمَّعَتْ، فَسَمِعَتْ أَيْضًا، فَقَالَتْ قَدْ أَسْمَعْتَ، إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ‏.‏ فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ، عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ، فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ ـ أَوْ قَالَ بِجَنَاحِهِ ـ حَتَّى ظَهَرَ الْمَاءُ، فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هَكَذَا، وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا، وَهْوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ ـ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ ـ أَوْ قَالَ لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ ـ لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا ‏”‏‏.‏ ـ قَالَ فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا، فَقَالَ لَهَا الْمَلَكُ لاَ تَخَافُوا الضَّيْعَةَ، فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللَّهِ، يَبْنِي هَذَا الْغُلاَمُ، وَأَبُوهُ، وَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَهْلَهُ‏.‏ وَكَانَ الْبَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الأَرْضِ كَالرَّابِيَةِ، تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ، فَكَانَتْ كَذَلِكَ، حَتَّى مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمَ ـ أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمَ ـ مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ كَدَاءٍ فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَكَّةَ، فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا‏.‏ فَقَالُوا إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَى مَاءٍ، لَعَهْدُنَا بِهَذَا الْوَادِي وَمَا فِيهِ مَاءٌ، فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ، فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَاءِ، فَأَقْبَلُوا، قَالَ وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ الْمَاءِ فَقَالُوا أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ فَقَالَتْ نَعَمْ، وَلَكِنْ لاَ حَقَّ لَكُمْ فِي الْمَاءِ‏.‏ قَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَأَلْفَى ذَلِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، وَهْىَ تُحِبُّ الإِنْسَ ‏”‏ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيهِمْ، فَنَزَلُوا مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ، وَشَبَّ الْغُلاَمُ، وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ، وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ، فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ، وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ، بَعْدَ مَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ، فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ، فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ فَقَالَتْ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا‏.‏ ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ نَحْنُ بِشَرٍّ، نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ‏.‏ فَشَكَتْ إِلَيْهِ‏.‏ قَالَ فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلاَمَ، وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ‏.‏ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ، كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا، فَقَالَ هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ قَالَتْ نَعَمْ، جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا، فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ‏.‏ قَالَ فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَىْءٍ قَالَتْ نَعَمْ، أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ‏.‏ قَالَ ذَاكِ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ‏.‏ فَطَلَّقَهَا، وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى، فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ، فَلَمْ يَجِدْهُ، فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَسَأَلَهَا عَنْهُ‏.‏ فَقَالَتْ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا‏.‏ قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ، وَهَيْئَتِهِمْ‏.‏ فَقَالَتْ نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ‏.‏ وَأَثْنَتْ عَلَى اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ مَا طَعَامُكُمْ قَالَتِ اللَّحْمُ‏.‏ قَالَ فَمَا شَرَابُكُمْ قَالَتِ الْمَاءُ‏.‏ فَقَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَاءِ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ، وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَهُمَا لاَ يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلاَّ لَمْ يُوَافِقَاهُ‏.‏ قَالَ فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلاَمَ، وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ، فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ قَالَ هَلْ أَتَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ قَالَتْ نَعَمْ أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ، وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ‏.‏ قَالَ فَأَوْصَاكِ بِشَىْءٍ قَالَتْ نَعَمْ، هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ‏.‏ قَالَ ذَاكِ أَبِي، وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ، أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ‏.‏ ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلاً لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ، فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ، فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَالْوَلَدُ بِالْوَالِدِ، ثُمَّ قَالَ يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ‏.‏ قَالَ فَاصْنَعْ مَا أَمَرَكَ رَبُّكَ‏.‏ قَالَ وَتُعِينُنِي قَالَ وَأُعِينُكَ‏.‏ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا‏.‏ وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَى مَا حَوْلَهَا‏.‏ قَالَ فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ، فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ، وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي، حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَاءَ بِهَذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ، فَقَامَ عَلَيْهِ وَهْوَ يَبْنِي، وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ، وَهُمَا يَقُولاَنِ ‏{‏رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏}‏‏.‏ قَالَ فَجَعَلاَ يَبْنِيَانِ حَتَّى يَدُورَا حَوْلَ الْبَيْتِ، وَهُمَا يَقُولاَنِ ‏{‏رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‏}‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے ۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( ہاجرہ علیہا السلام ) سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں ( وہ جلد بھاگ جائیں ) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم ( علیہما السلام ) ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام ( اپنے گھر کے لیے ) روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ، اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے ( جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے ) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ( سورۃ ابراہیم ) یشکرون تک ۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے ۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا ( پیاس کی شدت سے ) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا ( کہا کہ ) زمین پر لوٹ رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا ۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی ۔ وہ ( پانی کی تلاش میں ) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا ( تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں ) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( صفا اور مروہ کے درمیان ) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔ ( ساتویں مرتبہ ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی ، انہوں نے کہا ، خاموش ! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے ۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم ( کا کنواں ) ہے ، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے ۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے ، جس سے وہاں پانی ابل آیا ۔ حضرت ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا ( تاکہ پانی بہنے نہ پائے ) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں ۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ ! ام اسماعیل پر رحم کرے ، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں خدا کا گھر ہو گا ، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا ، اب جہاں بیت اللہ ہے ، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی ۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا ۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء ( مکہ کا بالائی حصہ ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاو کیا ( قریب ہی ) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے ، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے ۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی ۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاو ڈالنے کی اجازت دیں گی ۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا ۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے ۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی ۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے ۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ ( اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں ) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی ۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی ۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( ہاجرہ علیہا السلام ) کا انتقال ہو گیا ) ۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا ( کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں ) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں ، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو ۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے ؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ( جاتے ہوئے ) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا ( کہ کہاں ہیں ؟ ) اور میں نے بتا دیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں ( جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے ) اپنے تیر بنا رہے ہیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا ، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں ۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف ! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی ۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے ۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا ۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے ، اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے ۔ ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے ۔ ” اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما ۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے “ ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The first lady to use a girdle was the mother of Ishmael. She used a girdle so that she might hide her tracks from Sarah. Abraham brought her and her son Ishmael while she was suckling him, to a place near the Ka`ba under a tree on the spot of Zamzam, at the highest place in the mosque. During those days there was nobody in Mecca, nor was there any water So he made them sit over there and placed near them a leather bag containing some dates, and a small water-skin containing some water, and set out homeward. Ishmael’s mother followed him saying, “O Abraham! Where are you going, leaving us in this valley where there is no person whose company we may enjoy, nor is there anything (to enjoy)?” She repeated that to him many times, but he did not look back at her Then she asked him, “Has Allah ordered you to do so?” He said, “Yes.” She said, “Then He will not neglect us,” and returned while Abraham proceeded onwards, and on reaching the Thaniya where they could not see him, he faced the Ka`ba, and raising both hands, invoked Allah saying the following prayers: ‘O our Lord! I have made some of my offspring dwell in a valley without cultivation, by Your Sacred House (Ka`ba at Mecca) in order, O our Lord, that they may offer prayer perfectly. So fill some hearts among men with love towards them, and (O Allah) provide them with fruits, so that they may give thanks.’ (14.37) Ishmael’s mother went on suckling Ishmael and drinking from the water (she had). When the water in the water-skin had all been used up, she became thirsty and her child also became thirsty. She started looking at him (i.e. Ishmael) tossing in agony; She left him, for she could not endure looking at him, and found that the mountain of Safa was the nearest mountain to her on that land. She stood on it and started looking at the valley keenly so that she might see somebody, but she could not see anybody. Then she descended from Safa and when she reached the valley, she tucked up her robe and ran in the valley like a person in distress and trouble, till she crossed the valley and reached the Marwa mountain where she stood and started looking, expecting to see somebody, but she could not see anybody. She repeated that (running between Safa and Marwa) seven times.” The Prophet (ﷺ) said, “This is the source of the tradition of the walking of people between them (i.e. Safa and Marwa). When she reached the Marwa (for the last time) she heard a voice and she asked herself to be quiet and listened attentively. She heard the voice again and said, ‘O, (whoever you may be)! You have made me hear your voice; have you got something to help me?” And behold! She saw an angel at the place of Zamzam, digging the earth with his heel (or his wing), till water flowed from that place. She started to make something like a basin around it, using her hand in this way, and started filling her water-skin with water with her hands, and the water was flowing out after she had scooped some of it.” The Prophet (ﷺ) added, “May Allah bestow Mercy on Ishmael’s mother! Had she let the Zamzam (flow without trying to control it) (or had she not scooped from that water) (to fill her water-skin), Zamzam would have been a stream flowing on the surface of the earth.” The Prophet (ﷺ) further added, “Then she drank (water) and suckled her child. The angel said to her, ‘Don’t be afraid of being neglected, for this is the House of Allah which will be built by this boy and his father, and Allah never neglects His people.’ The House (i.e. Ka`ba) at that time was on a high place resembling a hillock, and when torrents came, they flowed to its right and left. She lived in that way till some people from the tribe of Jurhum or a family from Jurhum passed by her and her child, as they (i.e. the Jurhum people) were coming through the way of Kada’. They landed in the lower part of Mecca where they saw a bird that had the habit of flying around water and not leaving it. They said, ‘This bird must be flying around water, though we know that there is no water in this valley.’ They sent one or two messengers who discovered the source of water, and returned to inform them of the water. So, they all came (towards the water).” The Prophet (ﷺ) added, “Ishmael’s mother was sitting near the water. They asked her, ‘Do you allow us to stay with you?” She replied, ‘Yes, but you will have no right to possess the water.’ They agreed to that.” The Prophet (ﷺ) further said, “Ishmael’s mother was pleased with the whole situation as she used to love to enjoy the company of the people. So, they settled there, and later on they sent for their families who came and settled with them so that some families became permanent residents there. The child (i.e. Ishmael) grew up and learnt Arabic from them and (his virtues) caused them to love and admire him as he grew up, and when he reached the age of puberty they made him marry a woman from amongst them. After Ishmael’s mother had died, Abraham came after Ishmael’s marriage in order to see his family that he had left before, but he did not find Ishmael there. When he asked Ishmael’s wife about him, she replied, ‘He has gone in search of our livelihood.’ Then he asked her about their way of living and their condition, and she replied, ‘We are living in misery; we are living in hardship and destitution,’ complaining to him. He said, ‘When your husband returns, convey my salutation to him and tell him to change the threshold of the gate (of his house).’ When Ishmael came, he seemed to have felt something unusual, so he asked his wife, ‘Has anyone visited you?’ She replied, ‘Yes, an old man of so-and-so description came and asked me about you and I informed him, and he asked about our state of living, and I told him that we were living in a hardship and poverty.’ On that Ishmael said, ‘Did he advise you anything?’ She replied, ‘Yes, he told me to convey his salutation to you and to tell you to change the threshold of your gate.’ Ishmael said, ‘It was my father, and he has ordered me to divorce you. Go back to your family.’ So, Ishmael divorced her and married another woman from amongst them (i.e. Jurhum). Then Abraham stayed away from them for a period as long as Allah wished and called on them again but did not find Ishmael. So he came to Ishmael’s wife and asked her about Ishmael. She said, ‘He has gone in search of our livelihood.’ Abraham asked her, ‘How are you getting on?’ asking her about their sustenance and living. She replied, ‘We are prosperous and well-off (i.e. we have everything in abundance).’ Then she thanked Allah’ Abraham said, ‘What kind of food do you eat?’ She said. ‘Meat.’ He said, ‘What do you drink?’ She said, ‘Water.” He said, “O Allah! Bless their meat and water.” The Prophet added, “At that time they did not have grain, and if they had grain, he would have also invoked Allah to bless it.” The Prophet (ﷺ) added, “If somebody has only these two things as his sustenance, his health and disposition will be badly affected, unless he lives in Mecca.” The Prophet (ﷺ) added,” Then Abraham said Ishmael’s wife, “When your husband comes, give my regards to him and tell him that he should keep firm the threshold of his gate.’ When Ishmael came back, he asked his wife, ‘Did anyone call on you?’ She replied, ‘Yes, a good-looking old man came to me,’ so she praised him and added. ‘He asked about you, and I informed him, and he asked about our livelihood and I told him that we were in a good condition.’ Ishmael asked her, ‘Did he give you any piece of advice?’ She said, ‘Yes, he told me to give his regards to you and ordered that you should keep firm the threshold of your gate.’ On that Ishmael said, ‘It was my father, and you are the threshold (of the gate). He has ordered me to keep you with me.’ Then Abraham stayed away from them for a period as long as Allah wished, and called on them afterwards. He saw Ishmael under a tree near Zamzam, sharpening his arrows. When he saw Abraham, he rose up to welcome him (and they greeted each other as a father does with his son or a son does with his father). Abraham said, ‘O Ishmael! Allah has given me an order.’ Ishmael said, ‘Do what your Lord has ordered you to do.’ Abraham asked, ‘Will you help me?’ Ishmael said, ‘I will help you.’ Abraham said, Allah has ordered me to build a house here,’ pointing to a hillock higher than the land surrounding it.” The Prophet (ﷺ) added, “Then they raised the foundations of the House (i.e. the Ka`ba). Ishmael brought the stones and Abraham was building, and when the walls became high, Ishmael brought this stone and put it for Abraham who stood over it and carried on building, while Ishmael was handing him the stones, and both of them were saying, ‘O our Lord! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing.’ The Prophet (ﷺ) added, “Then both of them went on building and going round the Ka`ba saying: O our Lord ! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing.” (2.127)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 583


39

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ، خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ، وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ، فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا قَالَ إِلَى اللَّهِ‏.‏ قَالَتْ رَضِيتُ بِاللَّهِ‏.‏ قَالَ فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى لَمَّا فَنِيَ الْمَاءُ قَالَتْ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا‏.‏ قَالَ فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، فَلَمَّا بَلَغَتِ الْوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتِ الْمَرْوَةَ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا، ثُمَّ قَالَتْ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ ـ تَعْنِي الصَّبِيَّ ـ فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ، فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، فَقَالَتْ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ثُمَّ قَالَتْ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ فَقَالَتْ أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ‏.‏ فَإِذَا جِبْرِيلُ، قَالَ فَقَالَ بِعَقِبِهِ هَكَذَا، وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الأَرْضِ، قَالَ فَانْبَثَقَ الْمَاءُ، فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ‏.‏ قَالَ فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ الْمَاءُ ظَاهِرًا ‏”‏‏.‏ قَالَ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الْمَاءِ، وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا ـ قَالَ ـ فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الْوَادِي، فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ، كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ، وَقَالُوا مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلاَّ عَلَى مَاءٍ‏.‏ فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ، فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَأَتَوْا إِلَيْهَا، فَقَالُوا يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً، قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ لأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي‏.‏ قَالَ فَجَاءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ‏.‏ قَالَ قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ‏.‏ فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ قَالَ أَنْتِ ذَاكِ فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ‏.‏ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ لأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي‏.‏ قَالَ فَجَاءَ فَقَالَ أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ، فَقَالَتْ أَلاَ تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ فَقَالَ وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ قَالَتْ طَعَامُنَا اللَّحْمُ، وَشَرَابُنَا الْمَاءُ‏.‏ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ‏.‏ قَالَ فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ ‏”‏‏.‏ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ لأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي‏.‏ فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ، يُصْلِحُ نَبْلاً لَهُ، فَقَالَ يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا‏.‏ قَالَ أَطِعْ رَبَّكَ‏.‏ قَالَ إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ‏.‏ قَالَ إِذًا أَفْعَلَ‏.‏ أَوْ كَمَا قَالَ‏.‏ قَالَ فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي، وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ، وَيَقُولاَنِ ‏{‏رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‏}‏ قَالَ حَتَّى ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَلَى نَقْلِ الْحِجَارَةِ، فَقَامَ عَلَى حَجَرِ الْمَقَامِ، فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ، وَيَقُولاَنِ ‏{‏رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‏}‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، ان سے کثیر بن کثیر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی ( حضرت سارہ علیہ السلام ) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ( حضرت ہاجرہ علیہ السلام ) کو لے کر نکلے ، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا ۔ جس میں پانی تھا ، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں ۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہرا کر اپنے گھر واپس جانے لگے ۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں ۔ جب مقام کداء پر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم ! ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر ! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھنا چاہئے ، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظرآ جائے ۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا ( پہاڑی ) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے لیکن کوئی نظر نہ آیا ۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں ۔ اسی طرح کئی چکر لگائے ، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے ۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا ( جیسے تکلیف کے مارے ) موت کے لیے تڑپ رہا ہو ۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا ، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظرآ جائے ، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا ۔ اس طرح حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا ، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے ؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی ۔ انہوں نے ( آواز سے مخاطب ہو کر ) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو ۔ وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے ۔ انہوں نے اپنی ایڑی سے یوں کیا ( اشارہ کر کے بتایا ) اور زمین ایڑی سے کھودی ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا ۔ ام اسماعیل ڈریں ۔ ( کہیں یہ پانی غائب نہ ہو جائے ) پھر وہ زمین کھودنے لگیں ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا ۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے ۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے ۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا ۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر ( اس طرح ) منڈلا سکتا ہے ۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا ۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا ۔ اس نے آ کر اپنے قبیلے والوں کو خبر دی تو یہ سب لوگ یہاں آ گئے اور کہا کہ اے ام اسماعیل ! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا ( یہ کہا کہ ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی ؟ پھر ان کے بیٹے ( اسماعیل علیہ السلام ) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہو گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ ( حضرت سارہ علیہا السلام ) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو ( مکہ میں ) چھوڑ آیا تھا ان کی خبرلینے جاؤں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو ( جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں ) اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو ۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاؤں گا ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئیے اور کھانا تناول فرما لیجئے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما ۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی برکت اب تک چلی آ رہی ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ( تیسری بار ) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑ آیا ہوں ان کی خبر لینے مکہ جاؤں گا ۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کر رہے تھے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، اے اسماعیل ! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں ، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے ۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو ۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں ۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے ۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لا لا کر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے ۔ اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر ۔ بیشک تو بڑا سننے والا ، بہت جاننے والا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلند ہو گئی اور بزرگ ( ابراہیم علیہ السلام ) کو پتھر ( دیوار پر ) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام ( ابراہیم ) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی ۔ ” اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے ۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے “ ۔

Narrated Ibn `Abbas:

When Abraham had differences with his wife), (because of her jealousy of Hajar, Ishmael’s mother), he took Ishmael and his mother and went away. They had a water-skin with them containing some water, Ishmael’s mother used to drink water from the water-skin so that her milk would increase for her child. When Abraham reached Mecca, he made her sit under a tree and afterwards returned home. Ishmael’s mother followed him, and when they reached Kada’, she called him from behind, ‘O Abraham! To whom are you leaving us?’ He replied, ‘(I am leaving you) to Allah’s (Care).’ She said, ‘I am satisfied to be with Allah.’ She returned to her place and started drinking water from the water-skin, and her milk increased for her child. When the water had all been used up, she said to herself, ‘I’d better go and look so that I may see somebody.’ She ascended the Safa mountain and looked, hoping to see somebody, but in vain. When she came down to the valley, she ran till she reached the Marwa mountain. She ran to and fro (between the two mountains) many times. They she said to herself, ‘i’d better go and see the state of the child,’ she went and found it in a state of one on the point of dying. She could not endure to watch it dying and said (to herself), ‘If I go and look, I may find somebody.’ She went and ascended the Safa mountain and looked for a long while but could not find anybody. Thus she completed seven rounds (of running) between Safa and Marwa. Again she said (to herself), ‘I’d better go back and see the state of the child.’ But suddenly she heard a voice, and she said to that strange voice, ‘Help us if you can offer any help.’ Lo! It was Gabriel (who had made the voice). Gabriel hit the earth with his heel like this (Ibn `Abbas hit the earth with his heel to Illustrate it), and so the water gushed out. Ishmael’s mother was astonished and started digging. (Abu Al-Qasim) (i.e. the Prophet) said, “If she had left the water, (flow naturally without her intervention), it would have been flowing on the surface of the earth.”) Ishmael’s mother started drinking from the water and her milk increased for her child . Afterwards some people of the tribe of Jurhum, while passing through the bottom of the valley, saw some birds, and that astonished them, and they said, ‘Birds can only be found at a place where there is water.’ They sent a messenger who searched the place and found the water, and returned to inform them about it. Then they all went to her and said, ‘O ishmael’s mother! Will you allow us to be with you (or dwell with you)?’ (And thus they stayed there.) Later on her boy reached the age of puberty and married a lady from them. Then an idea occurred to Abraham which he disclosed to his wife (Sarah), ‘I want to call on my dependents I left (at Mecca).’ When he went there, he greeted (Ishmael’s wife) and said, ‘Where is Ishmael?’ She replied, ‘He has gone out hunting.’ Abraham said (to her), ‘When he comes, tell him to change the threshold of his gate.’ When he came, she told him the same whereupon Ishmael said to her, ‘You are the threshold, so go to your family (i.e. you are divorced).’ Again Abraham thought of visiting his dependents whom he had left (at Mecca), and he told his wife (Sarah) of his intentions. Abraham came to Ishmael’s house and asked. “Where is Ishmael?” Ishmael’s wife replied, “He has gone out hunting,” and added, “Will you stay (for some time) and have something to eat and drink?’ Abraham asked, ‘What is your food and what is your drink?’ She replied, ‘Our food is meat and our drink is water.’ He said, ‘O Allah! Bless their meals and their drink.” Abu Al-Qa-sim (i.e. Prophet) said, “Because of Abraham’s invocation there are blessings (in Mecca).” Once more Abraham thought of visiting his family he had left (at Mecca), so he told his wife (Sarah) of his decision. He went and found Ishmael behind the Zamzam well, mending his arrows. He said, “O Ishmael, Your Lord has ordered me to build a house for Him.” Ishmael said, “Obey (the order of) your Lord.” Abraham said, “Allah has also ordered me that you should help me therein.” Ishmael said, “Then I will do.” So, both of them rose and Abraham started building (the Ka`ba) while Ishmael went on handing him the stones, and both of them were saying, “O our Lord ! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing.” (2.127). When the building became high and the old man (i.e. Abraham) could no longer lift the stones (to such a high position), he stood over the stone of Al- Maqam and Ishmael carried on handing him the stones, and both of them were saying, ‘O our Lord! Accept (this service) from us, Verily You are All-Hearing, All-Knowing.” (2.127)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 584


4

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ مَقْدَمُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ نَبِيٌّ، ‏{‏قَالَ مَا‏}‏ أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمِنْ أَىِّ شَىْءٍ يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ وَمِنْ أَىِّ شَىْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ خَبَّرَنِي بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِيلُ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ‏.‏ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ‏.‏ وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الْوَلَدِ فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ الْمَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ‏.‏ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلاَمِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِي عِنْدَكَ، فَجَاءَتِ الْيَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ الْبَيْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَىُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ‏”‏‏.‏ قَالُوا أَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا وَأَخْبَرُنَا وَابْنُ أَخْيَرِنَا‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ‏.‏ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‏.‏ فَقَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا‏.‏ وَوَقَعُوا فِيهِ‏.‏

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی ۔ انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہحضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا ۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے ؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا ؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے ۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی ، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا ، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( یہ سن کر ) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے ۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے ۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں ؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں ۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا ؟ انہوں نے کہا ، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے ۔ اتنے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے ، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے ۔

Narrated Anas:

When `Abdullah bin Salam heard the arrival of the Prophet (ﷺ) at Medina, he came to him and said, “I am going to ask you about three things which nobody knows except a prophet: What is the first portent of the Hour? What will be the first meal taken by the people of Paradise? Why does a child resemble its father, and why does it resemble its maternal uncle” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Gabriel has just now told me of their answers.” `Abdullah said, “He (i.e. Gabriel), from amongst all the angels, is the enemy of the Jews.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “The first portent of the Hour will be a fire that will bring together the people from the east to the west; the first meal of the people of Paradise will be Extra-lobe (caudate lobe) of fish-liver. As for the resemblance of the child to its parents: If a man has sexual intercourse with his wife and gets discharge first, the child will resemble the father, and if the woman gets discharge first, the child will resemble her.” On that `Abdullah bin Salam said, “I testify that you are the Messenger of Allah.” `Abdullah bin Salam further said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! The Jews are liars, and if they should come to know about my conversion to Islam before you ask them (about me), they would tell a lie about me.” The Jews came to Allah’s Messenger (ﷺ) and `Abdullah went inside the house. Allah’s Apostle asked (the Jews), “What kind of man is `Abdullah bin Salam amongst you?” They replied, “He is the most learned person amongst us, and the best amongst us, and the son of the best amongst us.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “What do you think if he embraces Islam (will you do as he does)?” The Jews said, “May Allah save him from it.” Then `Abdullah bin Salam came out in front of them saying, “I testify that None has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah.” Thereupon they said, “He is the evilest among us, and the son of the evilest amongst us,” and continued talking badly of him.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 546


40

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَىُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ أَوَّلُ قَالَ ‏”‏ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ‏”‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ ‏”‏ الْمَسْجِدُ الأَقْصَى ‏”‏‏.‏ قُلْتُ كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا قَالَ ‏”‏ أَرْبَعُونَ سَنَةً، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلاَةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ، فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے ، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجدالحرام ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد ؟ فرمایا کہ مسجدالاقصیٰ ( بیت المقدس ) میں نے عرض کیا ، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے ۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے ۔

Narrated Abu Dhar:

I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Which mosque was first built on the surface of the earth?” He said, “Al- Masjid-ul-,Haram (in Mecca).” I said, “Which was built next?” He replied “The mosque of Al-Aqsa ( in Jerusalem) .” I said, “What was the period of construction between the two?” He said, “Forty years.” He added, “Wherever (you may be, and) the prayer time becomes due, perform the prayer there, for the best thing is to do so (i.e. to offer the prayers in time).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 585


41

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، مَوْلَى الْمُطَّلِبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ فَقَالَ ‏ “‏ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا ‏”‏‏.‏ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے ، ان سے مطلب کے آزاد کردہ غلام عمرو بن ابی عمرو نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ اے اللہ ! حضرات ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا اور میں مدینہ کے دو پتھریلے علاقے کے درمیانی علاقے کے حصے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں ۔ اس حدیث کو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Anas bin Malik:

When the mountain of Uhud came in the sight of Allah’s Messenger (ﷺ) he said. “This is a mountain that loves us and is loved by us. O Allah! Abraham made Mecca a sanctuary, and I make (the area) in between these two mountains (of Medina) a sanctuary.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 586


42

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ أَبِي بَكْرٍ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنهم ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ أَلَمْ تَرَىْ أَنَّ قَوْمَكِ بَنَوُا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ لَوْلاَ حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا أُرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَرَكَ اسْتِلاَمَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلاَّ أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ‏.‏ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن ابی بکر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تمہیں معلوم نہیں کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ کی ( نئی ) تعمیر کی تو کعبہ کی ابراہیمی بنیاد کو چھوڑ دیا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ ابراہیمی بنیادوں کے مطابق دوبارہ اس کی تعمیر کیوں نہیں کر دیتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا ( تو میں ایسا ہی کرتا ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کہ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں رکنوں کے ، جو حجراسود کے قریب ہیں ، بوسہ لینے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم کی بنیاد پر نہیں بنا ہے ( یہ دونوں رکن آگے ہٹ گئے ہیں ) اسماعیل بن ابی اویس نے اس حدیث میں عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہا ۔

Narrated `Aisha:

(The wife of the Prophet) Allah’s Messenger (ﷺ) said (to her). “Don’t you see that when your folk built the Ka`ba, they did not build it on all the foundations built by Abraham?” I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Why don’t we rebuild it on the foundations of Abraham?” He said. “But for the fact that your folk have recently given up infidelity (I would have done so). Narrated Ibn `Umar: Aisha must have heard this from Allah’s Messenger (ﷺ) for I see that Allah’s Messenger (ﷺ) used not to touch the two corners facing Al-Hijr only because the House had not been built on the foundations of Abraham.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 587


43

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی ۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم نے ‘ انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں عمرو بن سلیم زرقی نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہصحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو ” اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر ۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے ۔

Narrated Abu Humaid As-Sa`idi:

The people asked, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! How shall we (ask Allah to) send blessings on you?” Allah’s Apostle replied, “Say: O Allah! Send Your Mercy on Muhammad and on his wives and on his off spring, as You sent Your Mercy on Abraham’s family; and send Your Blessings on Muhammad and on his offspring, as You sent Your Blessings on Abraham’s family, for You are the Most Praiseworthy, the Most Glorious.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 588


44

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُرَّةَ، مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ بَلَى، فَأَهْدِهَا لِي‏.‏ فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے قیس بن حفص اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابو قرہ مسلم بن سالم ہمدانی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عیسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں ( حدیث کا ) ایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا یا رسول اللہ ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو ” اے اللہ ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر ۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر ۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے ۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Abi Laila:

Ka`b bin Ujrah met me and said, “Shall I not give you a present I got from the Prophet?” `Abdur- Rahman said, “Yes, give it to me.” I said, “We asked Allah’s Messenger (ﷺ) saying, ‘O Allah’s Messenger (ﷺ)! How should one (ask Allah to) send blessings on you, the members of the family, for Allah has taught us how to salute you (in the prayer)?’ He said, ‘Say: O Allah! Send Your Mercy on Muhammad and on the family of Muhammad, as You sent Your Mercy on Abraham and on the family of Abraham, for You are the Most Praise-worthy, the Most Glorious. O Allah! Send Your Blessings on Muhammad and the family of Muhammad, as You sent your Blessings on Abraham and on the family of Abraham, for You are the Most Praise-worthy, the Most Glorious.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 589


45

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَيَقُولُ ‏ “‏ إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ، أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے منہال نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کے لئے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا ( ابراہیم علیہ السلام ) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لئے مانگا کرتے تھے “ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) used to seek Refuge with Allah for Al-Hasan and Al-Husain and say: “Your forefather (i.e. Abraham) used to seek Refuge with Allah for Ishmael and Isaac by reciting the following: ‘O Allah! I seek Refuge with Your Perfect Words from every devil and from poisonous pests and from every evil, harmful, envious eye.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 590


46

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ نَحْنُ أَحَقُّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ ‏{‏رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي‏}‏ وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ ‏”‏‏.‏

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے ‘ انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لئے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “We are more liable to be in doubt than Abraham when he said, ‘My Lord! Show me how You give life to the dead.” . He (i.e. Allah) slid: ‘Don’t you believe then?’ He (i.e. Abraham) said: “Yes, but (I ask) in order to be stronger in Faith.” (2.260) And may Allah send His Mercy on Lot! He wished to have a powerful support. If I were to stay in prison for such a long time as Joseph did I would have accepted the offer (of freedom without insisting on having my guiltless less declared).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 591


47

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ، فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلاَنٍ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَا لَكُمْ لاَ تَرْمُونَ ‏”‏‏.‏ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ قَالَ ‏”‏ ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کی ایک جماعت سے گزرے جو تیراندازی میں مقابلہ کر رہی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے بنو اسماعیل ! تیراندازی کئے جاؤ کیونکہ تمہارے بزرگ دادا بھی تیرانداز تھے اور میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں ۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی دوسرے فریق نے تیراندازی بند کر دی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کیا بات ہوئی ‘ تم لوگ تیر کیوں نہیں چلاتے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جب آپ فریق مقابل کے ساتھ ہو گئے تو اب ہم کس طرح تیر چلا سکتے ہیں ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مقابلہ جاری رکھو ‘ میں تم سب کے ساتھ ہوں ۔

Narrated Salama bin Al-Akwa`:

The Prophet (ﷺ) passed by some persons of the tribe of Aslam practicing archery (i.e. the throwing of arrows) Allah’s Messenger (ﷺ) said, “O offspring of Ishmael! Practice archery (i.e. arrow throwing) as your father was a great archer (i.e. arrow-thrower). I am with (on the side of) the son of so-and-so-.” Hearing that, one of the two teams stopped throwing. Allah’s Messenger (ﷺ) asked them, ‘ Why are you not throwing?” They replied, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! How shall we throw when you are with the opposite team?” He said, “Throw, for I am with you all.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 592


48

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ الْمُعْتَمِرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ قَالَ ‏”‏ أَكْرَمُهُمْ أَتْقَاهُمْ ‏”‏‏.‏ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي ‏”‏‏.‏ قَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا ‏”‏‏.‏

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم نے معتمر بن سلیمان سے سنا ‘ انہوں نے عبداللہ عمری سے ‘ انہوں نے سعید بن ابی سعید مقبری سے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ‘ سب سے زیادہ شریف کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جو سب سے زیادہ متقی ہو ‘ وہ سب سے زیادہ شریف ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف بنی اللہ بن نبی اللہ ( یعقوب ) بن نبی اللہ ( اسحاق ) بن خلیل اللہ ( ابراہیم علیہ السلام ) تھے صحابہ نے عرض کیا ‘ ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ عرب کے شرفاء کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر جاہلیت میں جو لوگ شریف اور اچھے عادات و اخلاق کے تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے سمجھے جائیں گے جب کہ وہ دین کی سمجھ بھی حاصل کریں ۔

Narrated Abu Huraira:

Some people asked the Prophet: “Who is the most honorable amongst the people?” He replied, “The most honorable among them is the one who is the most Allah-fearing.” They said, “O Allah’s Prophet! We do not ask about this.” He said, “Then the most honorable person is Joseph, Allah’s Prophet, the son of Allah’s Prophet, the son of Allah’s Prophet, the son of Allah’s Khalil.” They said, “We do not ask about this.” He said, “Then you want to ask me about the Arabs’ descent?” They said, “Yes.” He said, “Those who were best in the pre-lslamic period, are the best in Islam, if they comprehend (the religious knowledge).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 593


49

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏{‏يَغْفِرُ اللَّهُ لِلُوطٍ إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ‏}‏‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ حضرت لوط علیہ السلام کی مغفرت فرمائے کہ وہ زبردست رکن ( یعنی اللہ ) کی پناہ میں گئے تھے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “May Allah forgive Lot: He wanted to have a powerful support.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 594


5

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ يَعْنِي ‏ “‏ لَوْلاَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ، وَلَوْلاَ حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ہمام نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ( عبدالرزاق کی ) روایت کی طرح کہاگر قوم بنی اسرائیل نہ ہوتی تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “But for the Israelis, meat would not decay and but for Eve, wives would never betray their husbands.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 547


50

حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَرَأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏{‏فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر ‏}‏‏.‏

ہم سے محمود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو احمد نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” فھل من مدکر “ پڑھا تھا ۔

Narrated `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) recited:– ‘Hal-min-Muddakir’ (54.15) (Is there any that will remember) (and avoid evil).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 595


51

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ زَمْعَةَ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَذَكَرَ الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ قَالَ ‏ “‏ انْتَدَبَ لَهَا رَجُلٌ ذُو عِزٍّ وَمَنَعَةٍ فِي قُوَّةٍ كَأَبِي زَمْعَةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیا ن بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زمعہ نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ( خطبہ کے دوران ) آپ نے قوم کا ذکر کیا جنہوں نے اونٹنی کو ذبح کر دیا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ ( خدا کی قسم بھیجی ہوئی ) اس ( اونٹنی کو ) ذبح کرنے والا قوم کا ایک بہت ہی باعزت آدمی ( قیدار نامی ) تھا ‘ جیسے ہمارے زمانے میں ابو زمعہ ( اسود بن مطلب ) ہے ۔

Narrated `Abdullah bin Zam`a:

I heard the Prophet (ﷺ) while referring to the person who had cut the legs of the she-camel (of the Prophet (ﷺ) Salih), saying, “The man who was appointed for doing this job, was a man of honor and power in his nation like Abu Zam`a.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 560


52

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ بْنِ حَيَّانَ أَبُو زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَمَرَهُمْ أَنْ لاَ يَشْرَبُوا مِنْ بِئْرِهَا، وَلاَ يَسْتَقُوا مِنْهَا فَقَالُوا قَدْ عَجَنَّا مِنْهَا، وَاسْتَقَيْنَا‏.‏ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَطْرَحُوا ذَلِكَ الْعَجِينَ وَيُهَرِيقُوا ذَلِكَ الْمَاءَ‏.‏ وَيُرْوَى عَنْ سَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ وَأَبِي الشُّمُوسِ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِإِلْقَاءِ الطَّعَامِ‏.‏ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ عَنِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَنِ اعْتَجَنَ بِمَائِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن مسکین ابوالحسن نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حسان بن حیان ابو زکریا نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجر ( ثمود کی بستی ) میں غزوہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے پڑاو کیا تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا کہ یہاں کے کنوؤں کا پانی نہ پینا اور نہ اپنے برتنوں میں ساتھ لینا ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس سے اپنا آٹا بھی گوندھ لیا ہے اور پانی اپنے برتنوں میں بھی رکھ لیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ گندھا ہوا آٹا پھینک دیا جائے اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ جس نے آٹا اس پانی سے گوندھ لیا ہو ( وہ اسے پھینک دے ) ۔

Narrated Ibn `Umar:

When Allah’s Messenger (ﷺ) landed at Al-Hijr during the Ghazwa of Tabuk, he ordered his companions not to drink water from its well or reserve water from it. They said, “We have already kneaded the dough with its water. and also filled our bags with its water.” On that, the Prophet (ﷺ) ordered them to throw away the dough and pour out the water.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 561


53

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْضَ ثَمُودَ الْحِجْرَ، فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَاعْتَجَنُوا بِهِ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُهَرِيقُوا مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَأَنْ يَعْلِفُوا الإِبِلَ الْعَجِينَ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي كَانَ تَرِدُهَا النَّاقَةُ‏.‏ تَابَعَهُ أُسَامَةُ عَنْ نَافِعٍ‏.‏

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا‘انہوں نے کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ نے ‘ ان سے نافع نے اور اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہصحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثمود کی بستی حجر میں پڑاؤ کیا تو وہاں کے کنوؤں کا پانی اپنے برتنوں میں بھر لیا اور آٹا بھی اس پانی سے گوندھ لیا ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جو پانی انہوں نے اپنے برتنوں میں بھر لیا ہے اسے انڈیل دیں اور گندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں ۔ اس کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

The people landed at the land of Thamud called Al-Hijr along with Allah’s Messenger (ﷺ) and they took water from its well for drinking and kneading the dough with it as well. (When Allah’s Messenger (ﷺ) heard about it) he ordered them to pour out the water they had taken from its wells and feed the camels with the dough, and ordered them to take water from the well whence the she-camel (of Prophet Salih) used to drink.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 562


54

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنهم أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا مَرَّ بِالْحِجْرِ قَالَ ‏ “‏ لاَ تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا إِلاَّ أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِرِدَائِهِ، وَهْوَ عَلَى الرَّحْلِ‏.‏

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ کہا مجھ کو سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد ( عبداللہ رضی اللہ عنہ ) نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام حجر سے گزرے تو فرمایا کہ ان لوگوں کی بستی میں جنہوں نے ظلم کیا تھا نہ داخل ہو ‘ لیکن اس صورت میں کہ تم روتے ہوئے ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا ۔ پھر آپ نے اپنی چادر چہرہ مبارک پر ڈال لی ۔ آپ اس وقت کجاوے پر تشریف رکھتے تھے ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

When the Prophet (ﷺ) passed by (a place called) Al Hijr, he said, “Do not enter the house of those who were unjust to themselves, unless (you enter) weeping, lest you should suffer the same punishment as was inflicted upon them.” After that he covered his face with his sheet cloth while he was on the camel-saddle.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 563


55

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، سَمِعْتُ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ إِلاَّ أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ ‏”‏‏.‏

مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے یونس سے سنا ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سالم سے اور ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہیں ان لوگوں کی بستی سے گزرنا پڑے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تو روتے ہوئے گزرو ۔ کہیں تمہیں بھی وہ عذاب آ نہ پکڑے جس میں یہ ظالم لوگ گرفتار کئے گئے تھے ۔

Narrated Ibn `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Do not enter the ruined dwellings of those who were unjust to themselves unless (you enter) weeping, lest you should suffer the same punishment as was inflicted upon them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 564


56

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ الْكَرِيمُ ابْنُ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ ابْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ـ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ ‏”‏‏.‏

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی ‘ کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ شریف بن شریف بن شریف بن شریف ‘ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام تھے ۔

Narrated Ibn `Umar:

The Prophet (ﷺ) said, “The honorable is the son of the honorable, the son the honorable, i.e. Joseph, the son of Jacob, the son of Isaac, the son of Abraham.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 596


57

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ قَالَ ‏”‏ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي، النَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا ‏”‏‏.‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

مجھ سے عبیدبن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ نے بیان کیا ‘ انہیں سعید بن ابی سعید نے خبر دی اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ شریف آدمی کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ‘ جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو ‘ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن بنی اللہ بن خلیل اللہ ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو ۔ دیکھو ! لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ( کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے برا ) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں شریف اور بہتر اخلاق کے تھے وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) was asked, “Who is the most honorable amongst the people?” He replied, “The most Allah fearing.” The people said, “We do not want to ask you about this.” He said, “The most honorable person is Joseph, Allah’s Prophet, the son of Allah’s Prophet, the son of Allah’s Prophet, the son of Allah’s Khalil” The people said, ‘We do not want to ask you about this.” He said,” Then you want to ask me about the origins of the Arabs? People are of various origins. The best in the prelslamic period are the best in Islam, provided they comprehend (the religious knowledge).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 597


58

حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَهَا ‏”‏ مُرِي أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ‏”‏‏.‏ قَالَتْ إِنَّهُ رَجُلٌ أَسِيفٌ، مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ رَقَّ‏.‏ فَعَادَ فَعَادَتْ، قَالَ شُعْبَةُ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ ‏”‏ إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مرض الموت میں ) ان سے فرمایا ‘ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ بہت نرم دل ہیں ‘ آپ کی جگہ جب کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ یہی حکم دیا ۔ لیکن انہوں نے بھی دوبارہ یہی عذر بیان کیا ‘ شعبہ نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم تو یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۔ ( ظاہر میں کچھ باطن میں کچھ ) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو نماز پڑھائیں ۔

Narrated `Aisha:

That the Prophet (ﷺ) said (to her). “Order Abu Bakr to lead the people in prayer.” She replied,” Abu Bakr is a soft-hearted person and when he stands at your place, he will weep (so he will not be able to lead the prayer).” The Prophet (ﷺ) repeated the same order and she gave the same reply. The narrator, Shuba said that the Prophet (ﷺ) said on the third or fourth time. “You are (like) the female companions of Joseph. Order Abu Bakr to lead the prayer. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 598


59

حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مَرِضَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَتْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ‏.‏ فَقَالَ مِثْلَهُ فَقَالَتْ مِثْلَهُ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مُرُوهُ فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ‏”‏‏.‏ فَأَمَّ أَبُو بَكْرٍ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَقَالَ حُسَيْنٌ عَنْ زَائِدَةَ رَجُلٌ رَقِيقٌ‏.‏

ہم سے ربیع بن یحییٰ بصریٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالملک بن عمیر نے ‘ ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑے تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل انسان ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی حکم فرمایا اور انہوں نے بھی وہی عذر دہرایا ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے کہو نماز پڑھائیں ۔ تم تو یوسف کی سا تھ والیاں ہو ۔ ظاہر کچھ باطن کچھ ) چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں امامت کی اور حسین بن علی جعفی نے زائدہ سے رجل رقیق کے الفاظ نقل کئے کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں ۔

Narrated Abu Musa:

When the Prophet (ﷺ) fell ill, he said, “Order Abu Bakr to lead the people in prayer.” `Aisha said, “Abu Bakr is a soft-hearted person. The Prophet (ﷺ) gave the same order again and she again gave the same reply. He again said, “Order Abu Bakr (to lead the prayer)! You are (like) the female companions of Joseph.” Consequently Abu Bakr led the people in prayer in the life-time of the Prophet.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 599


6

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُوسَى بْنُ حِزَامٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مَيْسَرَةَ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوکریب اور موسیٰ بن حزام نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے حسین بن علی نے بیان کیا ، ان سے زائدہ نے ، ان سے میسرہ اشجعی نے ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah ‘s Apostle said, “Treat women nicely, for a women is created from a rib, and the most curved portion of the rib is its upper portion, so, if you should try to straighten it, it will break, but if you leave it as it is, it will remain crooked. So treat women nicely.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 548


60

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ‘ اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے ‘ اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے ‘ اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے ‘ اے اللہ تمام ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو نجات دے ۔ اے اللہ ! قبیلہ مضر کو سخت گرفت میں پکڑ لے ۔ اے اللہ ! یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی قحط سالی ان ( ظالموں ) پر نازل فرما ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “O Allah! Save `Aiyyash bin Abi Rabi`a (from the unjust treatment of the infidels). O Allah! Save Salama bin Hisham. O Allah! Send your Punishment on (the tribe of) Mudar. O Allah! Let them suffer from years (of drought) similar to that inflicted during the life-time of Joseph.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 600


61

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ ابْنِ أَخِي جُوَيْرِيَةَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَأَبَا، عُبَيْدٍ أَخْبَرَاهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِي لأَجَبْتُهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء ابن اخی جویریہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے مالک نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان کو سعید بن مسیب اور ابوعبیدہ نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ وہ زبردست رکن ( یعنی خداوند کریم ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید رہتا جتنی یوسف علیہ السلام رہے تھے اور پھر میرے پاس ( بادشاہ کا آدمی ) بلانے کے لئے آتا تو میں فوراً اس کے ساتھ چلا جاتا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “May Allah bestow His Mercy on Lot. He wanted to have a powerful support. If I were to stay in prison (for a period equal to) the stay of Joseph (prison) and then the offer of freedom came to me, then I would have accepted it.” (See Hadith No. 591)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 601


62

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ، وَهْىَ أُمُّ عَائِشَةَ، عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ، إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهْىَ تَقُولُ فَعَلَ اللَّهُ بِفُلاَنٍ وَفَعَلَ‏.‏ قَالَتْ فَقُلْتُ لِمَ قَالَتْ إِنَّهُ نَمَا ذِكْرَ الْحَدِيثِ‏.‏ فَقَالَتْ عَائِشَةُ أَىُّ حَدِيثٍ فَأَخْبَرَتْهَا‏.‏ قَالَتْ فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ نَعَمْ‏.‏ فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا، فَمَا أَفَاقَتْ إِلاَّ وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ “‏ مَا لِهَذِهِ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ، فَقَعَدَتْ فَقَالَتْ وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لاَ تُصَدِّقُونِي، وَلَئِنِ اعْتَذَرْتُ لاَ تَعْذِرُونِي، فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، فَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ‏.‏ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا أَنْزَلَ، فَأَخْبَرَهَا فَقَالَتْ بِحَمْدِ اللَّهِ لاَ بِحَمْدِ أَحَدٍ‏.‏

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہمیں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں ( مسطح بن اثاثہ ) کو تباہ کر دے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے ۔ پھر انصاریہ عورت نے ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا سارا ) واقعہ بیان کیا ‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ( اپنی والدہ سے ) پوچھا کہ کون سا واقعہ ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی ۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہو گیا ہے ؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں ۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آ گیا ہے ۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم ! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے ۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے ( کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ ) ” جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں ۔ “ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لئے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں ۔

Narrated Masruq:

I asked Um Ruman, `Aisha’s mother about the accusation forged against `Aisha. She said, “While I was sitting with `Aisha, an Ansari woman came to us and said, ‘Let Allah condemn such-and-such person.’ I asked her, ‘Why do you say so?’ She replied, ‘For he has spread the (slanderous) story.’ `Aisha said, ‘What story?’ The woman then told her the story. `Aisha asked, ‘Have Abu Bakr and Allah’s Messenger (ﷺ) heard about it ?’ She said, ‘Yes.’ `Aisha fell down senseless (on hearing that), and when she came to her senses, she got fever and shaking of the body. The Prophet (ﷺ) came and asked, ‘What is wrong with her?’ I said, ‘She has got fever because of a story which has been rumored.’ `Aisha got up and said, ‘By Allah! Even if I took an oath, you would not believe me, and if I put forward an excuse, You would not excuse me. My example and your example is just like that example of Jacob and his sons. Against that which you assert, it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.’ (12.18) The Prophet (ﷺ) left and then Allah revealed the Verses (concerning the matter), and on that `Aisha said, ‘Thanks to Allah (only) and not to anybody else.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 602


63

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ ‏{‏حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا‏}‏ أَوْ كُذِبُوا‏.‏ قَالَتْ بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ‏.‏ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ‏.‏ فَقَالَتْ يَا عُرَيَّةُ، لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ‏.‏ قُلْتُ فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا‏.‏ قَالَتْ مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ قَالَتْ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ‏{‏اسْتَيْأَسُوا‏}‏ افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ‏.‏ ‏{‏مِنْهُ‏}‏ مِنْ يُوسُفَ‏.‏ ‏{‏لاَ تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ‏}‏ مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہمجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھاحتیٰ اذا استیئس الرسل وظنوا انھم قد کذبوا ( تشدید کے ساتھ ) ہے یا کذبوا ( بغیر تشدید کے ) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ( یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا ۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے ۔ پھر قرآن میں لفظ ظن گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے چھوٹے سے عروہ ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے کذبوا ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذاللہ ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک خدا کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے ( سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے ) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی ۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ استیاسوا ‘ افتعلوا کے وزن پر ہے جو یئستمنہ سے نکلا ہے ‘ ای من یوسف ( سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے یعنی زلیخا یوسف علیہ السلام سے ناامید ہو گئی » لا تایئسوا من رّوح اللّٰہ « ( یوسف : 87 ) یعنی اللہ سے امید رکھو ناامید نہ ہو ۔

Narrated `Urwa:

I asked `Aisha the wife of the Prophet (ﷺ) about the meaning of the following Verse: — “(Respite will be granted) ‘Until when the apostles give up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people)……………”(12.110) `Aisha replied, “Really, their nations did not believe them.” I said, “By Allah! They were definite that their nations treated them as liars and it was not a matter of suspecting.” `Aisha said, “O ‘Uraiya (i.e. `Urwa)! No doubt, they were quite sure about it.” I said, “May the Verse be read in such a way as to mean that the apostles thought that Allah did not help them?” Aisha said, “Allah forbid! (Impossible) The Apostles did not suspect their Lord of such a thing. But this Verse is concerned with the Apostles’ followers who had faith in their Lord and believed in their apostles and their period of trials was long and Allah’s Help was delayed till the apostles gave up hope for the conversion of the disbelievers amongst their nation and suspected that even their followers were shaken in their belief, Allah’s Help then came to them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 603


64

أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الْكَرِيمُ ابْنُ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِمِ السَّلاَمُ ‏”‏‏.‏

مجھے عبدہ بن عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ۔ ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ شریف بن شریف بن شریف بن شریف یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ہیں ۔

Narrated Ibn `Umar:The Prophet (ﷺ) said, “The honorable, the son of the honorable, the son of the honorable, (was) Joseph, the son of Jacob! the son of Isaac, the son of Abraham.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 603


65

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ بَيْنَمَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا خَرَّ عَلَيْهِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ يَحْثِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَى رَبُّهُ يَا أَيُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى قَالَ بَلَى يَا رَبِّ، وَلَكِنْ لاَ غِنَى لِي عَنْ بَرَكَتِكَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں ان پر گرنے لگیں ۔ وہ ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے ۔ ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ اے ایوب ! جو کچھ تم دیکھ رہے ہو ( سونے کی ٹڈیاں ) کیا میں نے تمہیں اس سے بےپروا نہیں کر دیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ صحیح ہے ‘ اے رب العزت لیکن تیری برکت سے میں کس طرح بےپروا ہو سکتا ہوں ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “While Job was naked, taking a bath, a swarm of gold locusts fell on him and he started collecting them in his garment. His Lord called him, ‘O Job! Have I not made you rich enough to need what you see? He said, ‘Yes, O Lord! But I cannot dispense with your Blessing.”‘

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 604


66

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ ـ رضى الله عنها فَرَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ رَجُلاً تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ‏.‏ فَقَالَ وَرَقَةُ مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ‏.‏ فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى، وَإِنْ أَدْرَكَنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏.‏ النَّامُوسُ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي يُطْلِعُهُ بِمَا يَسْتُرُهُ عَنْ غَيْرِهِ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( غار حراء سے ) ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ آئے تو آپ کا دل دھڑک رہا تھا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے ۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں ؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ ” ناموس “ جنہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا ۔ ناموس محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے ۔

Narrated `Aisha:

The Prophet (ﷺ) returned to Khadija while his heart was beating rapidly. She took him to Waraqa bin Naufal who was a Christian convert and used to read the Gospels in Arabic Waraqa asked (the Prophet), “What do you see?” When he told him, Waraqa said, “That is the same angel whom Allah sent to the Prophet) Moses. Should I live till you receive the Divine Message, I will support you strongly.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 605


67

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ تَابَعَهُ ثَابِتٌ وَعَبَّادُ بْنُ أَبِي عَلِيٍّ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس رات کے متعلق بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ جب آپ پانچویں آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں ہارون علیہ السلام سے ملے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون علیہ السلام ہیں ‘ انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا ‘ خوش آمدید ‘ صالح بھائی اور صالح نبی ۔ اس حدیث کو قتادہ کے ساتھ ثابت بنانی اور عباد بن ابی علی نے بھی انس رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Malik bin Sasaa:

Allah’s Messenger (ﷺ) talked to his companions about his Night Journey to the Heavens. When he reached the fifth Heaven, he met Aaron. (Gabriel said to the Prophet), “This is Aaron.” The Prophet (ﷺ) said, “Gabriel greeted and so did I, and he returned the greeting saying, ‘Welcome, O Pious Brother and Pious Prophet.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 606


68

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ ‏ “‏ رَأَيْتُ مُوسَى وَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى، فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ صلى الله عليه وسلم بِهِ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ، فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ، وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ فَقَالَ اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ‏.‏ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ فَقِيلَ أَخَذْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ کہا ہم کومعمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی کیفیت بیان کی جس میں آپ کو معراج ہوا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ میں سے ہوں اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا ‘ وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے ۔ ایسے تروتازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور میں ابرہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد میں سب سے زیادہ مشابہ ہوں ۔ پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے ۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے ‘ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا ۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا ( دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے ) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “On the night of my Ascension to Heaven, I saw (the prophet) Moses who was a thin person with lank hair, looking like one of the men of the tribe of Shanua; and I saw Jesus who was of average height with red face as if he had just come out of a bathroom. And I resemble prophet Abraham more than any of his offspring does. Then I was given two cups, one containing milk and the other wine. Gabriel said, ‘Drink whichever you like.’ I took the milk and drank it. Gabriel said, ‘You have accepted what is natural, (True Religion i.e. Islam) and if you had taken the wine, your followers would have gone astray.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 607


69

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ، نَبِيِّكُمْ ـ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏‏.‏ وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ‏.‏ وَذَكَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ فَقَالَ ‏”‏ مُوسَى آدَمُ طُوَالٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ ‏”‏ عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ ‏”‏‏.‏ وَذَكَرَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ، وَذَكَرَ الدَّجَّالَ‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالعالیہ نے بیان کیا اور ان سے تمہارے نبی کے چچا زاد بھائی یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ان کے والد کی طرف منسوب کر کے لیا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام گندم گوں اور دراز قد تھے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلہ شنوہ کے کوئی صاحب ہوں اور فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے اور میانہ قد کے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے داروغہ جہنم مالک کا بھی ذکر فرمایا اور دجال کا بھی ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “One should not say that I am better than Jonah (i.e. Yunus) bin Matta.” So, he mentioned his father Matta. The Prophet (ﷺ) mentioned the night of his Ascension and said, “The prophet Moses was brown, a tall person as if from the people of the tribe of Shanu’a. Jesus was a curly-haired man of moderate height.” He also mentioned Malik, the gate-keeper of the (Hell) Fire, and Ad-Dajjal.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 608


7

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ ‏ “‏ إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے ۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک علقہ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے ۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے مضغہ ( گوشت کا لوتھڑا ) کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر ( چوتھے چلہ میں ) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے ۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل ، اس کی مدت زندگی ، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد ، کو لکھ لیتا ہے ۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے ۔ پس انسان ( زندگی بھر ) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے ۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے ۔

Narrated `Abdullah:

Allah’s Messenger (ﷺ), the true and truly inspired said, “(as regards your creation), every one of you is collected in the womb of his mother for the first forty days, and then he becomes a clot for another forty days, and then a piece of flesh for another forty days. Then Allah sends an angel to write four items: He writes his deeds, time of his death, means of his livelihood, and whether he will be wretched or blessed (in religion). Then the soul is breathed into his body. So a man may do deeds characteristic of the people of the (Hell) Fire, so much so that there is only the distance of a cubit between him and it, and then what has been written (by the angel) surpasses, and so he starts doing deeds characteristic of the people of Paradise and enters Paradise. Similarly, a person may do deeds characteristic of the people of Paradise, so much so that there is only the distance of a cubit between him and it, and then what has been written (by the angel) surpasses, and he starts doing deeds of the people of the (Hell) Fire and enters the (Hell) Fire.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 549


70

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا، يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، وَهْوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ‏.‏ فَقَالَ ‏ “‏ أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ ‏”‏‏.‏ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر کے صاحبزادے ( عبداللہ ) نے اپنے والد سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں ( یہودیوں ) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے ‘ اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا ۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں ۔ چنانچہ آپ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

When the Prophet (ﷺ) came to Medina, he found (the Jews) fasting on the day of ‘Ashura’ (i.e. 10th of Muharram). They used to say: “This is a great day on which Allah saved Moses and drowned the folk of Pharaoh. Moses observed the fast on this day, as a sign of gratitude to Allah.” The Prophet (ﷺ) said, “I am closer to Moses than they.” So, he observed the fast (on that day) and ordered the Muslims to fast on it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 609


71

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي، أَمْ جُوزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے ان کے والد یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے ‘ پھر سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں گے یا ( بیہوش ہی نہیں کئے گئے ہوں گے بلکہ ) انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کا بدلہ ملا ہو گا ۔

Narrated Abu Sa`id:

The Prophet (ﷺ) said, ‘People will be struck unconscious on the Day of Resurrection and I will be the first to regain consciousness, and behold! There I will see Moses holding one of the pillars of Allah’s Throne. I will wonder whether he has become conscious before me of he has been exempted, because of his unconsciousness at the Tur (mountain) which he received (on the earth).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 610


72

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَوْلاَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ، وَلَوْلاَ حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے ( سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے ) تو گوشت کبھی نہ سڑتا ۔ اور اگر حوانہ ہوتیں ( یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں ) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Were it not for Bani Israel, meat would not decay; and were it not for Eve, no woman would ever betray her husband.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 611


73

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ خَضِرٌ، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي، هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ شَأْنَهُ قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ قَالَ لاَ‏.‏ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ‏.‏ فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ، فَجُعِلَ لَهُ الْحُوتُ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ، فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ‏.‏ فَكَانَ يَتْبَعُ الْحُوتَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ‏.‏ فَقَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ‏.‏ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے عمر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہحر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا ۔ پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لئے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نبی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے ( تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں ) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں ( سفر کے دوران ) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے ۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

That he differed with Al-Hur bin Qais Al-Fazari regarding the companion of Moses. Ibn `Abbas said that he was Al-Khadir. Meanwhile Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him saying, “My friend and I have differed regarding Moses’ companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah’s Messenger (ﷺ) mentioning something about him?” He said, “Yes, I heard Allah’s Apostle saying, ‘While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked (him), ‘Do you know anyone who is more learned than you?’ Moses replied, ‘No.’ So, Allah sent the Divine Inspiration to Moses: ‘Yes, Our slave, Khadir (is more learned than you).’ Moses asked how to meet him (i.e. Khadir). So, the fish, was made, as a sign for him, and he was told that when the fish was lost, he should return and there he would meet him. So, Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant boy of Moses said to him, ‘Do you know that when we were sitting by the side of the rock, I forgot the fish, and t was only Satan who made me forget to tell (you) about it.’ Moses said, That was what we were seeking after,’ and both of them returned, following their footmarks and found Khadir; and what happened further to them, is mentioned in Allah’s Book.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 612


74

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ‏.‏ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا‏.‏ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ لَهُ بَلَى، لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ‏.‏ قَالَ أَىْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ ـ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ أَىْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ ـ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا، فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهْوَ ثَمَّ ـ وَرُبَّمَا قَالَ فَهْوَ ثَمَّهْ ـ وَأَخَذَ حُوتًا، فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَقَالَ هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ‏.‏ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا‏.‏ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ‏.‏ قَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا‏.‏ قَالَ لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ، فَسَلَّمَ مُوسَى، فَرَدَّ عَلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ‏.‏ قَالَ أَنَا مُوسَى‏.‏ قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا‏.‏ قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لاَ تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لاَ أَعْلَمُهُ‏.‏ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ قَالَ ‏{‏إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا * وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏إِمْرًا‏}‏ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ، فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ، قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ‏.‏ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا، قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلاَّ وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ‏.‏ فَقَالَ لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا‏.‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا‏.‏ قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، فَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا‏.‏ فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلاَمٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا ـ وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا ـ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا‏.‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا‏.‏ قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَىْءٍ بَعْدَهَا فَلاَ تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا‏.‏ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ مَائِلاً ـ أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ، فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلاً إِلاَّ مَرَّةً ـ قَالَ قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا‏.‏ قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا‏”‏‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ، فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا ‏”‏‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوْ كَانَ صَبَرَ يُقَصُّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا ‏”‏‏.‏ وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ‏.‏ قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو، أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ فَقَالَ مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہنوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن خدا نے بالکل غلط بات کہی ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نبی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے ‘ انہوں نے فرمایا کہ میں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا اے رب العالمین ! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا ؟ سفیان نے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ” اے رب ! ” وکیف لی بہ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا ۔ بعض دفعہ راوی نے ( بجائے فھوثم کے ) فھوثمہ کہا ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا ۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح ۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا ۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی ( کے متعلق کہنا ) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں ( چٹان کے قریب ) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا ۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں ۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا ؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں ۔ میں آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ۔ انہوں نے فرمایا اے موسیٰ ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے ۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد امراًتک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے ۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری ۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں ۔ کشتی والوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لئے بغیر ان کو سوار کر لیا ۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی ۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے ۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ‘ کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ( یہ بےصبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لئے ) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں ۔ یہ پہلی بات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے ( ڈھر سے ) جدا کر دیا ۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے ( جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لئے ) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں ۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا ۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا ۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا ‘ کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا ، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں ۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا ۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی ۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا ۔ سفیان نے ( کیفیت بتانے کے لئے ) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں ۔ میں نے سفیان سے ” مائلا “ کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا ۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لئے بیان کرتا ۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے ( مزید واقعات ) ہمیں معلوم ہوتے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ( جمہور کی قرآت ورائھمکے بجائے ) ” امامھم ملک یاخذ کل سفینۃ غضبا “ پڑھا ہے ۔ اور وہ بچہ ( جس کی حضرت خضر علیہ السلام نے جان لی تھی ) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے ۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے ( سن کر ) یاد کی تھی ۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر ( جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو ) یاد کی تھی ؟ یا ( اس کے بجائے یہ جملہ کہا ) ”تحفظتہ من انسان دو مرتبہ “ ( شک علی بن عبداللہ کو تھا ) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے ؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی ۔

Narrated Sa`id bin Jubair:

I said to Ibn `Abbas, “Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses.” Ibn `Abbas said, “Allah’s enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka`b told us that the Prophet (ﷺ) said, ‘Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, ‘I.’ Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, ‘Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.’ Moses said, ‘O my Lord! How can I meet him?’ Allah said, ‘Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.’ Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet (ﷺ) pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), ‘Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.’ Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, ‘Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.’ So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, ‘That was what we were seeking after.’ So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, ‘How do people greet each other in your land?’ Moses said, ‘I am Moses.’ The man asked, ‘Moses of Bani Israel?’ Moses said, ‘Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.’ He said, ‘O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.’ Moses asked, ‘May I follow you?’ He said, ‘But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?’ (Moses said, ‘You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.’) So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, ‘O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah’s Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.’ Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, ‘What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.’ Al-Khadir replied, ‘Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?’ Moses replied, ‘Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.’ So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, “Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing.” Al-Khadir said, “Did I not tell you that you could not remain patient with me?’ Moses said “If I ask you about anything after this, don’t accompany me. You have received an excuse from me.’ Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, “These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it.” Al-Khadir said, “This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient.” The Prophet (ﷺ) added, “We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet (ﷺ) said, “May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 613


75

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَصْبَهَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرُ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خضر علیہ السلام کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین ( جہاں سبزی کا نام بھی نہ تھا ) پر بیٹھے ۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Al-Khadir was named so because he sat over a barren white land, it turned green with plantation after (his sitting over it.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 614


76

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ‏.‏ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ ‏”‏‏.‏

مجھ سے اسحاق بن نصرنے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ انہوں نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ نبی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ و رکوع کرتے ہوئے داخل ہوں اور یہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ ! ہم کو بخش دے ۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ” حبۃ فی شعرہ “ ( یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں ) داخل ہوئے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “It was said to Bani Israel, Enter the gate (of the town) with humility (prostrating yourselves) and saying: “Repentance”, but they changed the word and entered the town crawling on their buttocks and saying: “A wheat grain in the hair.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 615


77

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلاَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلاً حَيِيًّا سِتِّيرًا، لاَ يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَىْءٌ، اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلاَّ مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ‏.‏ وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى فَخَلاَ يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ، وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا‏}‏‏.‏‏”‏

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے عوف بن ابو جمیلہ نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس بن عمرو نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے ۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا ۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لئے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے ۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لئے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے ( اتار کر ) رکھ دیئے ۔ پھر غسل شروع کیا ۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لئے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر ! میرا کپڑا دیدے ۔ آخر نبی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی ۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا ۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے ۔ خدا کی قسم اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ” تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے ۔ “ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “(The Prophet) Moses was a shy person and used to cover his body completely because of his extensive shyness. One of the children of Israel hurt him by saying, ‘He covers his body in this way only because of some defect in his skin, either leprosy or scrotal hernia, or he has some other defect.’ Allah wished to clear Moses of what they said about him, so one day while Moses was in seclusion, he took off his clothes and put them on a stone and started taking a bath. When he had finished the bath, he moved towards his clothes so as to take them, but the stone took his clothes and fled; Moses picked up his stick and ran after the stone saying, ‘O stone! Give me my garment!’ Till he reached a group of Bani Israel who saw him naked then, and found him the best of what Allah had created, and Allah cleared him of what they had accused him of. The stone stopped there and Moses took and put his garment on and started hitting the stone with his stick. By Allah, the stone still has some traces of the hitting, three, four or five marks. This was what Allah refers to in His Saying:– “O you who believe! Be you not like those Who annoyed Moses, But Allah proved his innocence of that which they alleged, And he was honorable In Allah’s Sight.” (33.69)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 616


78

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَسَمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ‏.‏ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو الولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے سنا‘انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مال تقسیم کیا ‘ ایک شخص نے کہا کہ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا جوئی کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا ۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس کی خبر دی ۔ آپ غصہ ہوئے اور میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے ۔ پھر فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ‘ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی تھی مگر انہوں نے صبر کیا ۔

Narrated `Abdullah:

Once the Prophet (ﷺ) distributed something (among his followers. A man said, “This distribution has not been done (with justice) seeking Allah’s Countenance.” I went to the Prophet (ﷺ) and told him (of that). He became so angry that I saw the signs of anger oh his face. Then he said, “May Allah bestow His Mercy on Moses, for he was harmed more (in a worse manner) than this; yet he endured patiently.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 617


79

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَجْنِي الْكَبَاثَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ مِنْهُ، فَإِنَّهُ أَطْيَبُهُ ‏”‏‏.‏ قَالُوا أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ قَالَ ‏”‏ وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ وَقَدْ رَعَاهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ( ایک مرتبہ ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( سفر میں ) پیلو کے پھل توڑنے لگے ۔ آپ نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو ‘ کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ‘ کیا حضور نے کبھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

We were with Allah’s Messenger (ﷺ) picking the fruits of the ‘Arak trees, and Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Pick the black fruit, for it is the best.” The companions asked, “Were you a shepherd?” He replied, “There was no prophet who was not a shepherd.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 618


8

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ اللَّهَ وَكَّلَ فِي الرَّحِمِ مَلَكًا فَيَقُولُ يَا رَبِّ نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهَا قَالَ يَا رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ يَا رَبِّ أُنْثَى يَا رَبِّ شَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے وہ فرشتہ عرض کرتا ہے ، اے رب ! یہ نطفہ ہے ، اے رب یہ مضغہ ہے ۔ اے رب ! یہ علقہ ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے رب ! یہ مرد ہے یا اے رب ! یہ عورت ہے ، اے رب ! یہ بد ہے یا نیک ؟ اس کی روزی کیا ہے ؟ اور مدت زندگی کتنی ہے ؟ چنانچہ اسی کے مطابق ماں کے پیٹ ہی میں سب کچھ فرشتہ رکھ لیتا ہے ۔

Narrated Anas bin Malik:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah has appointed an angel in the womb, and the angel says, ‘O Lord! A drop of discharge (i.e. of semen), O Lord! a clot, O Lord! a piece of flesh.’ And then, if Allah wishes to complete the child’s creation, the angel will say. ‘O Lord! A male or a female? O Lord! wretched or blessed (in religion)? What will his livelihood be? What will his age be?’ The angel writes all this while the child is in the womb of its mother.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 550


80

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى ـ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ ـ فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لاَ يُرِيدُ الْمَوْتَ‏.‏ قَالَ ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ‏.‏ قَالَ أَىْ رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ‏.‏ قَالَ فَالآنَ‏.‏ قَالَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ‏.‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ ‏”‏‏.‏ قَالَ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامٍ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاوس نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہاللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا ‘ جب ملک الموت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا ( کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا ) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہا تھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں ، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی ( ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا ) حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے اے رب ! پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ ( جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے ) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے ۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Angel of Death was sent to Moses when he came to Moses, Moses slapped him on the eye. The angel returned to his Lord and said, “You have sent me to a Slave who does not want to die.” Allah said, “Return to him and tell him to put his hand on the back of an ox and for every hair that will come under it, he will be granted one year of life.” Moses said, “O Lord! What will happen after that?” Allah replied, “Then death.” Moses said, “Let it come now.” Moses then requested Allah to let him die close to the Sacred Land so much so that he would be at a distance of a stone’s throw from it.” Abu Huraira added, “Allah’s Messenger (ﷺ) said, ‘If I were there, I would show you his grave below the red sand hill on the side of the road.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 619


81

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ‏.‏ فَقَالَ الْمُسْلِمُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم عَلَى الْعَالَمِينَ‏.‏ فِي قَسَمٍ يُقْسِمُ بِهِ‏.‏ فَقَالَ الْيَهُودِيُّ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْعَالَمِينَ‏.‏ فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ عِنْدَ ذَلِكَ يَدَهُ، فَلَطَمَ الْيَهُودِيَّ، فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِهِ وَأَمْرِ الْمُسْلِمِ فَقَالَ ‏ “‏ لاَ تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمان اور سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمسلمانوں کی جماعت کے ایک آدمی اور یہودیوں میں سے ایک شخص کا جھگڑا ہوا ۔ مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں برگذیدہ بنایا ‘ قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا ۔ اس پر یہودی نے کہا ‘ قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا ۔ اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ مار دیا ۔ وہ یہودی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے اور مسلمان کے جھگڑے کی آپ کو خبر دی ۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دیا کرو ۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دئے جائیں گے اور سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا پھر دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑ ے ہوئے کھڑے ہیں ۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی بیہوش ہونے والوں میں تھے اور مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آ گئے یا انہیں اللہ تعالیٰ نے بیہوش ہونے والوں میں ہی نہیں رکھا تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

A Muslim and a Jew quarreled. The Muslim taking an oath, said, “By Him Who has preferred Muhammad over all people…!” The Jew said, “By Him Who has preferred Moses, over all people.” The Muslim raised his hand and slapped the Jew who came to the Prophet (ﷺ) to tell him what had happened between him and the Muslim. The Prophet (ﷺ) said, “Don’t give me superiority over Moses, for the people will become unconscious (on the Day of Resurrection) and I will be the first to gain consciousness to see Moses standing and holding a side of Allah’s Throne. I will not know if he has been among those people who have become unconscious; and that he has gained consciousness before me, or he has been amongst those whom Allah has exempted.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 620


82

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ‏.‏ فَقَالَ لَهُ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالاَتِهِ وَبِكَلاَمِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ‏”‏ مَرَّتَيْنِ‏.‏

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے حمید بن عبد الرحمان نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا ۔ حضرت آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Adam and Moses argued with each other. Moses said to Adam. ‘You are Adam whose mistake expelled you from Paradise.’ Adam said to him, ‘You are Moses whom Allah selected as His Messenger and as the one to whom He spoke directly; yet you blame me for a thing which had already been written in my fate before my creation?”‘ Allah’s Messenger (ﷺ) said twice, “So, Adam overpowered Moses.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 621


83

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا قَالَ ‏ “‏ عُرِضَتْ عَلَىَّ الأُمَمُ، وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ فَقِيلَ هَذَا مُوسَى فِي قَوْمِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حصین بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے سامنے تمام امتیں لائی گئیں اور میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پر چھائی ہوئی ہے ۔ پھر بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) once came to us and said, “All the nations were displayed in front of me, and I saw a large multitude of people covering the horizon. Somebody said, ‘This is Moses and his followers.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 622


84

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن مرہ نے ‘ ان سے مرہ ہمدانی نے اور ان سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں میں تو بہت سے کامل لوگ اٹھے لیکن عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران علیہما السلام کے سوا اور کوئی کامل نہیں پیدا ہوئی ‘ ہاں عورتوں پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثریدکی فضیلت ہے ۔

Narrated Abu Musa:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Many amongst men reached (the level of) perfection but none amongst the women reached this level except Asia, Pharaoh’s wife, and Mary, the daughter of `Imran. And no doubt, the superiority of `Aisha to other women is like the superiority of Tharid (i.e. a meat and bread dish) to other meals.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 623


85

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي الأَعْمَشُ،‏.‏ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ ‏”‏‏.‏ زَادَ مُسَدَّدٌ ‏”‏ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اعمش نے بیان کیا ( دوسری سند ) ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں حضرت یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں ۔ مسدد نے یونس بن متی علیہ السلام کے لفظ بڑھا کر روایت کیا ۔

Narrated `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) said, “None of you should say that I am better than Yunus (i.e. Jonah).” Musadded added, “Jonah bin Matta.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 624


86

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏‏.‏ وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ‏.‏

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے ‘ ان سے ابو العالیہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے ۔ آپ نے ان کے والد کی طرف منسوب کر کے ان کا نام لیا تھا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “No slave (of Allah) should say that I am better than Yunus bin Matta.” So the Prophet mentioned his father’s name with his name.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 625


87

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَتَهُ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ‏.‏ فَقَالَ لاَ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَامَ، فَلَطَمَ وَجْهَهُ، وَقَالَ تَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَذَهَبَ إِلَيْهِ، فَقَالَ أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا، فَمَا بَالُ فُلاَنٍ لَطَمَ وَجْهِي‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ ‏”‏‏.‏ فَذَكَرَهُ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ ‏”‏ لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ، إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِالْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ أَمْ بُعِثَ قَبْلِي -‏ وَلَا أَقُولُ إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے ‘ ان سے عبدا لعزیز بن سلمہ نے ‘ ان سے عبداللہ بن فضیل نے ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک مرتبہ لوگوں کو ایک یہودی اپنا سامان دکھا رہا تھا لیکن اسے اس کی جو قیمت لگائی گئی اس پر وہ راضی نہ تھا ۔ اس لئے کہنے لگا کہ ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا ۔ یہ لفظ ایک انصاری صحابی نے سن لئے اور کھڑے ہو کر انہوں نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ہم میں موجود ہیں اور تو اس طرح قسم کھاتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا ۔ اس پر وہ یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ‘ اے ابوالقاسم ! میرا مسلمانوں کے ساتھ امن اور صلح کا عہد و پیمان ہے ۔ پھر فلاں شخص کا کیا حال ہو گا جس نے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے منہ پر کیوں چانٹا مارا ؟ انہوں نے وجہ بیان کی تو آپ غصے ہو گئے اس قدر کہ غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نمایاں ہو گئے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں آپس میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو ، جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی ‘ سو ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا ۔ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا ‘ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑے ہوئے کھڑے ہوں گے ‘ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ انہیں طور کی بے ہوشی کا بدلا دیا گیا ہو گا یا مجھ سے بھی پہلے ان کی بے ہوشی ختم کر دی گئی ہو گی ۔ اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی شخص حضرت یونس بن متی سے بہتر ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

Once while a Jew was selling something, he was offered a price that he was not pleased with. So, he said, “No, by Him Who gave Moses superiority over all human beings!” Hearing him, an Ansari man got up and slapped him on the face and said, “You say: By Him Who Gave Moses superiority over all human beings although the Prophet (Muhammad) is present amongst us!” The Jew went to the Prophet and said, “O Abu-l-Qasim! I am under the assurance and contract of security, so what right does so-and-so have to slap me?” The Prophet (ﷺ) asked the other, “Why have you slapped”. He told him the whole story. The Prophet (ﷺ) became angry, till anger appeared on his face, and said, “Don’t give superiority to any prophet amongst Allah’s Prophets, for when the trumpet will be blown, everyone on the earth and in the heavens will become unconscious except those whom Allah will exempt. The trumpet will be blown for the second time and I will be the first to be resurrected to see Moses holding Allah’s Throne. I will not know whether the unconsciousness which Moses received on the Day of Tur has been sufficient for him, or has he got up before me. And I do not say that there is anybody who is better than Yunus bin Matta.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 626


88

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو الولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ انہوں نے حمید بن عبدالرحمٰن سے سنا اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کسی شخص کے لئے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں حضرت یونس بن متی سے افضل ہوں ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “None should say that I am better than Yunus bin Matta.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 627


89

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ الْقُرْآنُ، فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ، فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ، وَلاَ يَأْكُلُ إِلاَّ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ ‏”‏‏.‏ رَوَاهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے قرآن ( یعنی زبور ) کی قرآت بہت آسان کر دی گئی تھی ۔ چنانچہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے اور زین کسی جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے تھے اور آپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے ۔ اس کی روایت موسیٰ بن عقبہ نے کی ‘ ان سے صفوان نے ‘ ان سے عطاء بن یسار نے ‘ ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “The reciting of the Zabur (i.e. Psalms) was made easy for David. He used to order that his riding animals be saddled, and would finish reciting the Zabur before they were saddled. And he would never eat except from the earnings of his manual work.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 628


9

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، يَرْفَعُهُ ‏ “‏ أَنَّ اللَّهَ، يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَىْءٍ كُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَقَدْ سَأَلْتُكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِكَ بِي‏.‏ فَأَبَيْتَ إِلاَّ الشِّرْكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابوعمران جونی نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب کیا گیا ہو گا ۔ اگر دنیا میں تمہاری کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اس عذاب سے نجات پانے کے لیے اسے بدلے میں دے سکتا تھا ؟ وہ شخص کہے گا کہ جی ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا ( روز ازل میں ) کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا ، لیکن ( جب تو دنیا میں آیا تو ) اسی شرک کا عمل اختیار کیا ۔

Narrated Anas:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah will say to that person of the (Hell) Fire who will receive the least punishment, ‘If you had everything on the earth, would you give it as a ransom to free yourself (i.e. save yourself from this Fire)?’ He will say, ‘Yes.’ Then Allah will say, ‘While you were in the backbone of Adam, I asked you much less than this, i.e. not to worship others besides Me, but you insisted on worshipping others besides me.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 551


90

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، أَخْبَرَهُ وَأَبَا، سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِّي أَقُولُ وَاللَّهِ لأَصُومَنَّ النَّهَارَ وَلأَقُومَنَّ اللَّيْلَ مَا عِشْتُ‏.‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ وَاللَّهِ لأَصُومَنَّ النَّهَارَ وَلأَقُومَنَّ اللَّيْلَ مَا عِشْتُ ‏”‏ قُلْتُ قَدْ قُلْتُهُ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّكَ لاَ تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ ‏”‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ، وَهْوَ عَدْلُ الصِّيَامِ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ لاَ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم ‘ جب تک میں زندہ رہوں گا ‘ دن میں روزے رکھوں گا اور رات بھر عبادت کیا کروں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں نے یہ کہا ہے کہ اللہ کی قسم جب تک زندہ رہوں گا دن بھر روزے رکھوں گا اور رات بھر عبادت کروں گا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں میں نے یہ جملہ کہا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نبھا نہیں سکو گے ‘ اس لئے روزہ بھی رکھا کرو اور بغیر روزے کے بھی رہا کرو اور رات میں عبادت بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو ۔ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو ‘ کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے اس طرح روزہ کا یہ طریقہ بھی ( ثواب کے اعتبار سے ) زندگی بھر کے روزے جیسا ہو جائے گا ۔ میں نے کہا کہ میں اس سے افضل طریقہ کی طاقت رکھتا ہوں ‘ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کرو اور دو دن بغیر روزے کے رہا کرو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی افضل طریقے کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن بغیر روزہ کے رہا کرو ‘ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کا طریقہ بھی یہی تھا اور یہی سب سے افضل طریقہ ہے ۔ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! میں اس سے بھی افضل طریقے کی طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے افضل اور کوئی طریقہ نہیں ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr:

Allah’s Messenger (ﷺ) was informed that I have said: “By Allah, I will fast all the days and pray all the nights as long as I live.” On that, Allah’s Messenger (ﷺ) asked me. “Are you the one who says: ‘I will fast all the days and pray all the nights as long as I live?’ ” I said, “Yes, I have said it.” He said, “You cannot do that. So fast (sometimes) and do not fast (sometimes). Pray and sleep. Fast for three days a month, for the reward of a good deed is multiplied by ten time, and so the fasting of three days a month equals the fasting of a year.” I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I can do (fast) more than this.” He said, “Fast on every third day. I said: I can do (fast) more than that, He said: “Fast on alternate days and this was the fasting of David which is the most moderate sort of fasting.” I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I can do (fast) more than that.” He said, “There is nothing better than that.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 629


91

حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَلَمْ أُنَبَّأْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ نَعَمْ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتِ الْعَيْنُ وَنَفِهَتِ النَّفْسُ، صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ ـ أَوْ كَصَوْمِ الدَّهْرِ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ بِي ـ قَالَ مِسْعَرٌ يَعْنِي ـ قُوَّةً‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى ‏”‏‏.‏

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا ‘ ان سے ابو العباس نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہمجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ کیا میری یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہوں اور دن بھر ( روزانہ ) روزہ رکھتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا لیکن تم اسی طرح کرتے رہے تو تمہاری آنکھیں کمزور ہو جائیں گی اور تمہارا جی اکتا جائے گا ۔ ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو کہ یہی ( ثواب کے اعتبار سے ) زندگی بھر کا روزہ ہے ‘ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) زندگی بھر کے روزے کی طرح ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے میں محسوس کرتا ہوں ‘ مسعر نے بیان کیا کہ آپ کی مراد قوت سے تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کی طرح روزے رکھا کرو ۔ وہ ایک دن روزے رکھا کرتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہا کرتے تھے اور دشمن سے مقابلہ کرتے تو میدان سے بھاگا نہیں کرتے تھے ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr bin Al-As:

The Prophet (ﷺ) said to me, “I have been informed that you pray all the nights and observe fast all the days; is this true?” I replied, “Yes.” He said, “If you do so, your eyes will become weak and you will get bored. So fast three days a month, for this will be the fasting of a whole year, or equal to the fasting of a whole year.” I said, “I find myself able to fast more.” He said, “Then fast like the fasting of (the Prophet) David who used to fast on alternate days and would not flee on facing the enemy.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 630


92

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى اللَّهِ صَلاَةُ دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے ‘ ان سے عمرو بن اوس ثقفی نے ‘ انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا ۔ انہوں نے بیان کیا کہمجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کا سب سے پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا ۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز کا طریقہ تھا ‘ آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیا کرتے تھے ‘ پھر بقیہ چھٹے حصے میں بھی سوتے تھے ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr:

Allah’s Messenger (ﷺ) said to me, “The most beloved fasting to Allah was the fasting of (the Prophet) David who used to fast on alternate days. And the most beloved prayer to Allah was the prayer of David who used to sleep for (the first) half of the night and pray for 1/3 of it and (again) sleep for a sixth of it.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 631


93

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ سَمِعْتُ الْعَوَّامَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ أَسْجُدُ فِي ‏{‏ص‏}‏ فَقَرَأَ ‏{‏وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ‏}‏ حَتَّى أَتَى ‏{‏فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ‏}‏ فَقَالَ نَبِيُّكُمْ صلى الله عليه وسلم مِمَّنْ أُمِرَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِمْ‏.‏

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم سے سہل بن یوسف نے بیان کیا ، کہا میں نے عوام سے سنا ، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہمیں نے حضرت عباس رضی اللہ سے پوچھا ، کیا میں سورۃ ص میں سجدہ کیا کروں ؟ تو انہوں نے آیت ” » ومن ذریتہ داود وسلیمان « “ تلاوت کی ” » فبھداھم اقتدہ « “ تک نیز انہوں نے کہا کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں انبیاء علیہم السلام کی اقتداء کا حکم تھا ۔

Narrated Mujahid:

I asked Ibn `Abbas, “Should we perform a prostration on reciting Surat-Sa`d?” He recited (the Sura) including: ‘And among his progeny, David, Solomon..(up to)…so follow their guidance (6.84-91) And then he said, “Your Prophet is amongst those people who have been ordered to follow them (i.e. the preceding apostles).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 632


94

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَيْسَ ‏{‏ص‏}‏ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ، وَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَسْجُدُ فِيهَا‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہسورۃ ص کا سجدہ ضروری نہیں ، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The prostration in Sura-Sa`d is not amongst the compulsory prostrations, though I saw the Prophet (ﷺ) prostrating on reciting it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 633


95

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَىَّ صَلاَتِي، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ، فَأَخَذْتُهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبُطَهُ عَلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ فَذَكَرْتُ دَعْوَةَ أَخِي سُلَيْمَانَ رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي‏.‏ فَرَدَدْتُهُ خَاسِئًا ‏”‏‏.‏ عِفْرِيتٌ مُتَمَرِّدٌ مِنْ إِنْسٍ أَوْ جَانٍّ، مِثْلُ زِبْنِيَةٍ جَمَاعَتُهَا الزَّبَانِيَةُ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا ۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو ۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ ” یا اللہ ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو ، ، اس لئے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا ۔ عفریت سرکش کے معنی میں ہے ، خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “A strong demon from the Jinns came to me yesterday suddenly, so as to spoil my prayer, but Allah enabled me to overpower him, and so I caught him and intended to tie him to one of the pillars of the Mosque so that all of you might see him, but I remembered the invocation of my brother Solomon: ‘And grant me a kingdom such as shall not belong to any other after me.’ (38.35) so I let him go cursed.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 634


96

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى سَبْعِينَ امْرَأَةً تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‏.‏ فَلَمْ يَقُلْ، وَلَمْ تَحْمِلْ شَيْئًا إِلاَّ وَاحِدًا سَاقِطًا إِحْدَى شِقَّيْهِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ شُعَيْبٌ وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ‏”‏ تِسْعِينَ ‏”‏‏.‏ وَهْوَ أَصَحُّ‏.‏

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمان نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے ، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سلیمان بن داؤد علیہما السّلام نے کہا کہآج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا ۔ ان کے ساتھی نے کہا انشاءاللہ ، لیکن انہوں نے نہیں کہا ۔ چنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہیں ہوا ، صرف ایک کے یہاں ہوا اور اس کی بھی ایک جانب بیکار تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلیمان علیہ السلام انشاءاللہ کہہ لیتے ( تو سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے ) اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ۔ شعیب اور ابن ابی الزناد نے بجائے ستر کے ) نوے کہا ہے اور یہی بیان زیادہ صحیح ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Solomon (the son of) David said, ‘Tonight I will sleep with seventy ladies each of whom will conceive a child who will be a knight fighting for “Allah’s Cause.’ His companion said, ‘If Allah will.’ But Solomon did not say so; therefore none of those women got pregnant except one who gave birth to a half child.” The Prophet (ﷺ) further said, “If the Prophet (ﷺ) Solomon had said it (i.e. ‘If Allah will’) he would have begotten children who would have fought in Allah’s Cause.” Shuaib and Ibn Abi Az-Zinad said, “Ninety (women) is more correct (than seventy).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 635


97

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ أَىُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلُ قَالَ ‏”‏ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ ‏”‏ ثُمَّ الْمَسْجِدُ الأَقْصَى ‏”‏‏.‏ قُلْتُ كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا قَالَ ‏”‏ أَرْبَعُونَ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ حَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلاَةُ فَصَلِّ، وَالأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ ‏”‏‏.‏

مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، یا رسول اللہ ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی ؟ فرمایا کہ مسجدالحرام ! میں نے سوال کیا ، اس کے بعد کون سی ؟ فرمایا کہ مسجدالاقصیٰ ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا ؟ فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو ۔ تمہارے لئے تمام روئے زمین مسجد ہے ۔

Narrated Abu Dhaar:

I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Which mosque was built first?” He replied, “Al-Masjid-ul-Haram.” I asked, “Which (was built) next?” He replied, “Al-Masjid-ul-Aqs-a (i.e. Jerusalem).” I asked, “What was the period in between them?” He replied, “Forty (years).” He then added, “Wherever the time for the prayer comes upon you, perform the prayer, for all the earth is a place of worshipping for you.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 636


98

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ تَقَعُ فِي النَّارِ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ ‏”‏ كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ صَاحِبَتُهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ‏.‏ وَقَالَتِ الأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ‏.‏ فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ، فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَأَخْبَرَتَاهُ‏.‏ فَقَالَ ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا‏.‏ فَقَالَتِ الصُّغْرَى لاَ تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، هُوَ ابْنُهَا‏.‏ فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ إِلاَّ يَوْمَئِذٍ، وَمَا كُنَّا نَقُولُ إِلاَّ الْمُدْيَةُ‏.‏

ہم سے ابواالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کوشعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمان نے بیان کیا ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہمیری اور تمام انسانوں کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ہو ۔ پھر پروانے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے ہوں ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور دونوں کے ساتھ دونوں کے بچے تھے ۔ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک عورت کے بچے کو اٹھا لے گیا ۔ ان دونوں میں سے ایک عورت نے کہا بھیڑیا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے اور دوسری نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے ۔ دونوں داؤد علیہ السلام کے یہاں اپنا مقدمہ لے گئیں ۔ آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ اس کے بعد وہ دونوں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے یہاں آئیں اور انہیں اس جھگڑے کی خبر دی ۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا چھری لاؤ ۔ اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان بانٹ دوں ۔ چھوٹی عورت نے یہ سن کر کہا ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ایسا نہ کیجئے ، میں نے مان لیا کہ اسی بڑی کا لڑکا ہے ۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اس چھوٹی کے حق میں فیصلہ کیا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سکین کا لفظ اسی دن سنا ، ورنہ ہم ہمیشہ ( چھری کے لئے ) مدیہ کا لفظ بولا کرتے تھے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “My example and the example o the people is like that of a person who lit a fire and let the moths, butterflies and these insects fall in it.” He also said, “There were two women, each of whom had a child with her. A wolf came and took away the child of one of them, whereupon the other said, ‘It has taken your child.’ The first said, ‘But it has taken your child.’ So they both carried the case before David who judged that the living child be given to the elder lady. So both of them went to Solomon bin David and informed him (of the case). He said, ‘Bring me a knife so as to cut the child into two pieces and distribute it between them.’ The younger lady said, ‘May Allah be merciful to you! Don’t do that, for it is her (i.e. the other lady’s) child.’ So he gave the child to the younger lady.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 637


99

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتِ ‏{‏الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‏}‏ قَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ فَنَزَلَتْ ‏{‏لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‏}‏

ہم سے ابو الولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب آیت ” جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی “ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا ” ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنے ایمان میں ظلم نہیں کیا ہو گا “ ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ۔ بیشک شرک ہی ظلم عظیم ہے “ ۔

Narrated `Abdullah:

When the Verse:– ‘Those who believe and mix not their belief with wrong.” was revealed, the companions of the Prophet (ﷺ) said, “Who amongst us has not mixed his belief with wrong?” Then Allah revealed: “Join none in worship with Allah, Verily joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 4, Book 55, Hadith 638


Scroll to Top
Scroll to Top
Skip to content