Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)

1

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا غَيْلاَنُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ قُلْتُ لأَنَسٍ أَرَأَيْتَ اسْمَ الأَنْصَارِ كُنْتُمْ تُسَمَّوْنَ بِهِ، أَمْ سَمَّاكُمُ اللَّهُ قَالَ بَلْ سَمَّانَا اللَّهُ، كُنَّا نَدْخُلُ عَلَى أَنَسٍ فَيُحَدِّثُنَا مَنَاقِبَ الأَنْصَارِ وَمَشَاهِدَهُمْ، وَيُقْبِلُ عَلَىَّ أَوْ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَزْدِ فَيَقُولُ فَعَلَ قَوْمُكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے مہدی بن میمون نے ، کہا ہم سے غیلان بن جریر نے بیان کیامیں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا بتلائیے ( انصار ) اپنا نام آپ لو گوں نے خود رکھ لیا تھا یا آپ لوگوں کا یہ نام اللہ تعالیٰ نے رکھا ؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہمارا یہ نام اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے ۔ غیلان کی روایت ہے کہ ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ہم سے انصار کی فضیلتیں اور غزوات میں ان کے مجاہدانہ واقعات بیان کیا کرتے پھر میری طرف یا قبیلہ ازد کے ایک شخص کی طرف متوجہ ہو کر کہتے : تمہاری قوم ( انصار ) نے فلاں دن فلاں دن فلاں فلاں کام انجام دیے ۔

Narrated Ghailan bin Jarir:

I asked Anas, “Tell me about the name ‘Al-Ansar.; Did you call yourselves by it or did Allah call you by it?” He said, “Allah called us by it.” We used to visit Anas (at Basra) and he used to narrate to us the virtues and deeds of the Ansar, and he used to address me or a person from the tribe of Al-Azd and say, “Your tribe did so-and-so on such-and-such a day.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 120


10

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَأَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم النِّسَاءَ وَالصِّبْيَانَ مُقْبِلِينَ ـ قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ عُرُسٍ ـ فَقَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مُمْثِلاً، فَقَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَىَّ ‏”‏‏.‏ قَالَهَا ثَلاَثَ مِرَارٍ‏.‏

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( انصار کی ) عورتوں اور بچوں کو میرے گمان کے مطابق کسی شادی سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے اور فرمایا اللہ ( گواہ ہے ) تم لوگ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو ، تین بار آپ نے ایسا ہی فرمایا ۔

Narrated Anas:

The Prophet (ﷺ) saw the women and children (of the Ansar) coming forward. (The sub-narrator said, “I think that Anas said, ‘They were returning from a wedding party.”) The Prophet (ﷺ) stood up and said thrice, “By Allah! You are from the most beloved people to me.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 129


100

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يُصَلِّي فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فَتَرُدُّ عَلَيْنَا قَالَ ‏ “‏ إِنَّ فِي الصَّلاَةِ شُغْلاً ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ لإِبْرَاهِيمَ كَيْفَ تَصْنَعُ أَنْتَ قَالَ أَرُدُّ فِي نَفْسِي‏.‏

ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے سلیمان نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ( ابتداء اسلام میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور ہم آپ کو سلام کرتے تو آپ نماز ہی میں جواب عنایت فرماتے تھے ۔ لیکن جب ہم نجاشی کے ملک حبشہ سے واپس ( مدینہ ) آئے اور ہم نے ( نماز پڑھتے میں ) آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا ۔ نماز کے بعد ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پہلے آپ کو سلام کرتے تھے تو آپ نماز ہی میں جواب عنایت فرمایا کرتے تھے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ہاں نماز میں آدمی کو دوسرا شغل ہوتا ہے ۔ سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا ایسے موقعہ پر آپ کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں دل میں جواب دے دیتا ہوں ۔

Narrated `Abdullah:

We used to greet the Prophet (ﷺ) while he used to be in prayers, and he used to reply to our greetings. But when we came back from Najashi (the King of Ethiopia) we greeted him (while he was praying) and he did not reply to us. We said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! We used to greet you in the past and you used to reply to us.” He said, “Verily The Mind is occupied and busy with more important matter during the prayer.” (So one cannot return One’s greetings.)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 215


101

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَكُمْ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ، ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کی اطلاع ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ پھر ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن اتفاق سے ہوا نے ہماری کشتی کا رخ نجاشی کے ملک حبشہ کی طرف کر دیا ۔ ہماری ملاقات وہاں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوئی ( جو ہجرت کر کے وہاں موجود تھے ) ہم انہیں کے ساتھ وہاں ٹھہرے رہے ، پھر مدینہ کا رخ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اے کشتی والو ! دو ہجرتیں کی ہیں ۔

Narrated Abu Musa:

We received the news of the departure of the Prophet (to Medina) while we were in Yemen. So we went on board a ship but our ship took us away to An-Najashi (the Negus) in Ethiopia. There we met Ja`far bin Abi Talib and stayed with him till we came (to Medina) by the time when the Prophet (ﷺ) had conquered Khaibar. The Prophet (ﷺ) said, “O you people of the ship! You will have (the reward of) two migrations.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 216


102

حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حِينَ مَاتَ النَّجَاشِيُّ ‏ “‏ مَاتَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَى أَخِيكُمْ أَصْحَمَةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو ربیع سلیمان بن داؤد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابن جریج نے ، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجس دن نجاشی ( حبشہ کے بادشاہ ) کی وفات ہوئی تو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آج ایک مردصالح اس دنیا سے چلا گیا ، اٹھو اور اپنے بھائی اصحمہ کی نماز جنازہ پڑھ لو ۔

Narrated Jabir:

When Negus died, the Prophet (ﷺ) said, “Today a pious man has died. So get up and offer the funeral prayer for your brother Ashama.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 217


103

حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ عَطَاءً، حَدَّثَهُمْ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَصَفَّنَا وَرَاءَهُ فَكُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي أَوِ الثَّالِثِ‏.‏

ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے جنازہ کی نماز پڑھی تھی اور ہم صف باندھ کر آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ۔ میں دوسری یا تیسری صف میں تھا ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah Al-Ansari:

Allah’s Messenger (ﷺ) led the funeral prayer for the Negus and made us stand in rows behind him and I was in the second or third row.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 218


104

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى أَصْحَمَةَ النَّجَاشِيِّ، فَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ الصَّمَدِ‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا ، ان سے سلیم بن حیان نے ، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا ، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور چار مرتبہ آپ نے نماز میں تکبیر کہی ۔ یزید بن ہارون کے ساتھ اس حدیث کو عبدالصمد بن عبدالوارث نے بھی ( سلیم بن حیان ) سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) offered the funeral prayer for Ashama, the Negus, with four Takbir.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 219


105

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى لَهُمُ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَقَالَ ‏ “‏ اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد ( ابراہیم بن سعد ) نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے بیان کیا اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دے دی تھی جس دن ان کا انتقال ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے بھائی کی مغفرت کے لئے دعا کرو ۔

Narrated Abu Huraira:

that Allah’s Messenger (ﷺ) informed them (i.e. his companions) of the death of Negus, the king of Ethiopia, on the very day on which the latter died, and said, “Ask Allah’s Forgiveness for your brother”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 220


106

وَعَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَفَّ بِهِمْ فِي الْمُصَلَّى، فَصَلَّى عَلَيْهِ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا‏.‏

اور صالح سے روایت ہے کہ ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نماز جنازہ کے لئے ) عیدگاہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو صف بستہ کھڑا کیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ تکبیر کہی تھی ۔

Abu Huraira further said:

“Allah’s Messenger (ﷺ) made them (i.e. the Muslims) stand in rows at the Musalla (i.e. praying place) and led the funeral prayer for the Negus and said four Takbir.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 220


107

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَرَادَ حُنَيْنًا ‏ “‏ مَنْزِلُنَا غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے سلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کا قصد کیا تو فرمایا انشاءاللہ کل ہمارا قیام خیف بنی کنانہ میں ہو گا جہاںمشرکین نے کافر ہی رہنے کے لئے عہدو پیمان کیا تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ), while going out for the battle of Hunain, said, “Tomorrow Allah willing, we will encamp at Khaif Bani Kinana where the pagans(of Quraish) took the oath of Kufr (against the Prophet (ﷺ) i.e. to be loyal to heathenism, by boycotting Banu Hashim, the Prophet’s folk. (See Hadith 1589)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 221


108

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلاَ أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، ان سے سفیان ثوری نے ، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیرنے ، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا ( ابوطالب ) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غصہ ہوتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اسی وجہ سے ) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے ۔

Narrated Al-Abbas bin `Abdul Muttalib:

That he said to the Prophet (ﷺ) “You have not been of any avail to your uncle (Abu Talib) (though) by Allah, he used to protect you and used to become angry on your behalf.” The Prophet (ﷺ) said, “He is in a shallow fire, and had It not been for me, he would have been in the bottom of the (Hell) Fire.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 222


109

حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ، لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ ‏”‏ أَىْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى قَالَ آخِرَ شَىْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ ‏”‏‏.‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ‏}‏ وَنَزَلَتْ ‏{‏إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ‏}‏

ہم سے محمودبن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزق نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہجب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا ! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو ، اللہ کی بارگاہ میں ( آپ کی بخشش کے لئے ) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی ، اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ، اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے ! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخر ی کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا ، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لئے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا ۔ چنانچہ ( سورۃ براۃ میں ) یہ آیت نازل ہوئی ” نبی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں “ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی ” بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے ۔

Narrated Al-Musaiyab:

When Abu Talib was in his death bed, the Prophet (ﷺ) went to him while Abu Jahl was sitting beside him. The Prophet (ﷺ) said, “O my uncle! Say: None has the right to be worshipped except Allah, an expression I will defend your case with, before Allah.” Abu Jahl and `Abdullah bin Umaiya said, “O Abu Talib! Will you leave the religion of `Abdul Muttalib?” So they kept on saying this to him so that the last statement he said to them (before he died) was: “I am on the religion of `Abdul Muttalib.” Then the Prophet said, ” I will keep on asking for Allah’s Forgiveness for you unless I am forbidden to do so.” Then the following Verse was revealed:– “It is not fitting for the Prophet (ﷺ) and the believers to ask Allah’s Forgiveness for the pagans, even if they were their near relatives, after it has become clear to them that they are the dwellers of the (Hell) Fire.” (9.113) The other Verse was also revealed:– “(O Prophet!) Verily, you guide not whom you like, but Allah guides whom He will …….” (28.56)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 223


11

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، فَكَلَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ “‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَىَّ ‏”‏‏.‏ مَرَّتَيْنِ‏.‏

ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ہشام بن زید نے خبر دی ، کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہانصار کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ ان کے ساتھ ایک ان کا بچہ بھی تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کلام کیا پھر فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تم لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو دو مرتبہ آپ نے یہ جملہ فرمایا ۔

Narrated Anas bin Malik:

Once an Ansari woman, accompanied by a son of hers, came to Allah’s Messenger (ﷺ). Allah’s Messenger (ﷺ) spoke to her and said twice, “By Him in Whose Hand my life is, you are the most beloved people to me.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 130


110

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ ‏ “‏ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ، يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ ‏”‏‏.‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ يَزِيدَ بِهَذَا، وَقَالَ تَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن عبداللہ ابن الہاد نے ، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا ۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

That he heard the Prophet (ﷺ) when somebody mentioned his uncle (i.e. Abu Talib), saying, “Perhaps my intercession will be helpful to him on the Day of Resurrection so that he may be put in a shallow fire reaching only up to his ankles. His brain will boil from it.”

Narrated Yazid:

(as above, Hadith 224) using the words: “will make his brain boil.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 224


111

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلاَ اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے ، کہ مجھ سے کہا ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

That he heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, “When the people of Quraish did not believe me (i.e. the story of my Night Journey), I stood up in Al-Hijr and Allah displayed Jerusalem in front of me, and I began describing it to them while I was looking at it.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 226


112

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ ‏”‏ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ ـ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ ـ مُضْطَجِعًا، إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ ـ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ ـ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ ـ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهْوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ ـ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي، ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا، فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ، ثُمَّ أُوتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ ‏”‏‏.‏ ـ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ، يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ ـ ‏”‏ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ، فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ، فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ، فَإِذَا فِيهَا آدَمُ، فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلاَمَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ ثُمَّ صَعِدَ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ‏.‏ فَفَتَحَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ، إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى، وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا‏.‏ فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا، ثُمَّ قَالاَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ‏.‏ فَفُتِحَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ‏.‏ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ‏.‏ فَفُتِحَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ‏.‏ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ، فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ، فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى، قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لأَنَّ غُلاَمًا بُعِثَ بَعْدِي، يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مَنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي‏.‏ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ‏.‏ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ‏.‏ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ، فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ، فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ السَّلاَمَ قَالَ مَرْحَبًا بِالاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ‏.‏ ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلاَلِ هَجَرَ، وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ‏.‏ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ، فَنَهَرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ‏.‏ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ، وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ‏.‏ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَىَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلاَةً كُلَّ يَوْمٍ‏.‏ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلاَةً كُلَّ يَوْمٍ‏.‏ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلاَةً كُلَّ يَوْمٍ، وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ، وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ‏.‏ فَرَجَعْتُ، فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ، فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ، فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ، فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ، فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ، فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ‏.‏ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ، وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ، وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لأُمَّتِكَ‏.‏ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ، وَلَكِنْ أَرْضَى وَأُسَلِّمُ ـ قَالَ ـ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي ‏”‏‏.‏

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ۔ بعض دفعہ قتادہ نے حطیم کے بجائے حجر بیان کیا کہ میرے پاس ایک صاحب ( جبرائیل علیہ السلام ) آئے اور میر ا سینہ چاک کیا ، قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک ۔ میں نے جارود سے سنا جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے ۔ پوچھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس لفظ سے کیا مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ حلق سے ناف تک چاک کیا ( قتادہ نے بیان کیا کہ ) میں نے حضرت انس سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے اوپر سے ناف تک چاک کیا ، پھر میرا دل نکالا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا ، اس سے میرا دل دھویا گیا اور پہلے کی طرح رکھ دیا گیا ۔ اس کے بعدایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید ! جارود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا ابوحمزہ ! کیا وہ براق تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل ۔ مجھے لے کر چلے آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا ، پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جبرائیل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ آپ نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا ، کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ۔ اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید ! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں وہ ۔ اور دروازہ کھول دیا ۔ جب میں اندر گیا تو میں نے وہاں آدم علیہ السلام کو دیکھا ، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک بیٹے اور نیک نبی ! جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے وہاں بھی دروازہ کھلوایا آواز آئی کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبرائیل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کوئی صاحب بھی ہیں ؟ کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ، پھر آواز آئی انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔ پھر دروازہ کھلا اور میں اندر گیا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام موجود تھے ۔ یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! یہاں سے جبرائیل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرائیل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں لانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، دروازہ کھلااور جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یوسف علیہ السلام موجود تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے اور چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ جبرائیل ! پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیاانہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجاگیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں کہا کہ انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ! اب دروازہ کھلا جب میں وہاںادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید پاک بھائی اور نیک نبی ۔ پھر مجھے لے کر پانچویں آسمان پر آئے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرائیل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں اب آواز آئی خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، یہاں جب میں ہارون علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! یہاں سے لے کر مجھے آگے بڑھے اور چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبرائیل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کوئی دوسرے صاحب بھی آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ پھر کہا انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔ میں جب وہاں موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا آپ روکیوں رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا میں اس پر رورہا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوں گے ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان کی طرف گئے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرائیل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ کہا کہ انہیں خوش آمدید ، کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، میں جب اندر گیا تو ابراہیم علیہ السلام تشریف رکھتے تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایاخوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے ! پھر سدرۃالمنتہیٰ کو میرے سامنے کر دیا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح ( بڑے بڑے ) تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان کی طرح تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سدرۃالمنتہیٰ ہے ۔ وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری ۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل علیہ السلام ! یہ کیا ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جو دوباطنی نہریں ہیں وہ جنت سے تعلق رکھتی ہیں اور دوظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں ۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو لایا گیا ، وہاں میرے سامنے ایک گلاس میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا ۔ میں نے دودھ کا گلاس لے لیا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی ! پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزراتو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا ؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نماز وں کا ، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔ اس سے پہلے میرا واسطہ لوگوں سے پڑچکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اس لئے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لئے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کر دی گئیں ۔ پھر میں جب واپسی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا میں دوبارہ بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہوا اور اس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم ہوئیں ۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا اور تو انہوں نے وہی مطالبہ کیا میں نے اس مرتبہ بھی بار گاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہو کر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ، موسٰی علیہ السلام کے پاس سے پھر گزرا انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا اب بارگاہ الٰہی میں حاضرہو اتو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیاحکم ہوا ؟ میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے ۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میرا واسطہ آپ سے پہلے لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہو کر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے ۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ندا آئی ” میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا ۔ “

Narrated `Abbas bin Malik:

Malik bin Sasaa said that Allah’s Messenger (ﷺ) described to them his Night Journey saying, “While I was lying in Al-Hatim or Al-Hijr, suddenly someone came to me and cut my body open from here to here.” I asked Al-Jarud who was by my side, “What does he mean?” He said, “It means from his throat to his pubic area,” or said, “From the top of the chest.” The Prophet (ﷺ) further said, “He then took out my heart. Then a gold tray of Belief was brought to me and my heart was washed and was filled (with Belief) and then returned to its original place. Then a white animal which was smaller than a mule and bigger than a donkey was brought to me.” (On this Al-Jarud asked, “Was it the Buraq, O Abu Hamza?” I (i.e. Anas) replied in the affirmative). The Prophet (ﷺ) said, “The animal’s step (was so wide that it) reached the farthest point within the reach of the animal’s sight. I was carried on it, and Gabriel set out with me till we reached the nearest heaven. When he asked for the gate to be opened, it was asked, ‘Who is it?’ Gabriel answered, ‘Gabriel.’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has Muhammad been called?’ Gabriel replied in the affirmative. Then it was said, ‘He is welcomed. What an excellent visit his is!’ The gate was opened, and when I went over the first heaven, I saw Adam there. Gabriel said (to me). ‘This is your father, Adam; pay him your greetings.’ So I greeted him and he returned the greeting to me and said, ‘You are welcomed, O pious son and pious Prophet.’ Then Gabriel ascended with me till we reached the second heaven. Gabriel asked for the gate to be opened. It was asked, ‘Who is it?’ Gabriel answered, ‘Gabriel.’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel answered in the affirmative. Then it was said, ‘He is welcomed. What an excellent visit his is!’ The gate was opened. When I went over the second heaven, there I saw Yahya (i.e. John) and `Isa (i.e. Jesus) who were cousins of each other. Gabriel said (to me), ‘These are John and Jesus; pay them your greetings.’ So I greeted them and both of them returned my greetings to me and said, ‘You are welcomed, O pious brother and pious Prophet.’ Then Gabriel ascended with me to the third heaven and asked for its gate to be opened. It was asked, ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘Gabriel.’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel replied in the affirmative. Then it was said, ‘He is welcomed, what an excellent visit his is!’ The gate was opened, and when I went over the third heaven there I saw Joseph. Gabriel said (to me), ‘This is Joseph; pay him your greetings.’ So I greeted him and he returned the greeting to me and said, ‘You are welcomed, O pious brother and pious Prophet.’ Then Gabriel ascended with me to the fourth heaven and asked for its gate to be opened. It was asked, ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘Gabriel’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel replied in the affirmative. Then it was said, ‘He is welcomed, what an excel lent visit his is!’ The gate was opened, and when I went over the fourth heaven, there I saw Idris. Gabriel said (to me), ‘This is Idris; pay him your greetings.’ So I greeted him and he returned the greeting to me and said, ‘You are welcomed, O pious brother and pious Prophet.’ Then Gabriel ascended with me to the fifth heaven and asked for its gate to be opened. It was asked, ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘Gabriel.’ It was asked. ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel replied in the affirmative. Then it was said He is welcomed, what an excellent visit his is! So when I went over the fifth heaven, there I saw Harun (i.e. Aaron), Gabriel said, (to me). This is Aaron; pay him your greetings.’ I greeted him and he returned the greeting to me and said, ‘You are welcomed, O pious brother and pious Prophet.’ Then Gabriel ascended with me to the sixth heaven and asked for its gate to be opened. It was asked. ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘Gabriel.’ It was asked, ‘Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel replied in the affirmative. It was said, ‘He is welcomed. What an excellent visit his is!’ When I went (over the sixth heaven), there I saw Moses. Gabriel said (to me),’ This is Moses; pay him your greeting. So I greeted him and he returned the greetings to me and said, ‘You are welcomed, O pious brother and pious Prophet.’ When I left him (i.e. Moses) he wept. Someone asked him, ‘What makes you weep?’ Moses said, ‘I weep because after me there has been sent (as Prophet) a young man whose followers will enter Paradise in greater numbers than my followers.’ Then Gabriel ascended with me to the seventh heaven and asked for its gate to be opened. It was asked, ‘Who is it?’ Gabriel replied, ‘Gabriel.’ It was asked,’ Who is accompanying you?’ Gabriel replied, ‘Muhammad.’ It was asked, ‘Has he been called?’ Gabriel replied in the affirmative. Then it was said, ‘He is welcomed. What an excellent visit his is!’ So when I went (over the seventh heaven), there I saw Abraham. Gabriel said (to me), ‘This is your father; pay your greetings to him.’ So I greeted him and he returned the greetings to me and said, ‘You are welcomed, O pious son and pious Prophet.’ Then I was made to ascend to Sidrat-ul-Muntaha (i.e. the Lote Tree of the utmost boundary) Behold! Its fruits were like the jars of Hajr (i.e. a place near Medina) and its leaves were as big as the ears of elephants. Gabriel said, ‘This is the Lote Tree of the utmost boundary) . Behold ! There ran four rivers, two were hidden and two were visible, I asked, ‘What are these two kinds of rivers, O Gabriel?’ He replied,’ As for the hidden rivers, they are two rivers in Paradise and the visible rivers are the Nile and the Euphrates.’ Then Al-Bait-ul-Ma’mur (i.e. the Sacred House) was shown to me and a container full of wine and another full of milk and a third full of honey were brought to me. I took the milk. Gabriel remarked, ‘This is the Islamic religion which you and your followers are following.’ Then the prayers were enjoined on me: They were fifty prayers a day. When I returned, I passed by Moses who asked (me), ‘What have you been ordered to do?’ I replied, ‘I have been ordered to offer fifty prayers a day.’ Moses said, ‘Your followers cannot bear fifty prayers a day, and by Allah, I have tested people before you, and I have tried my level best with Bani Israel (in vain). Go back to your Lord and ask for reduction to lessen your followers’ burden.’ So I went back, and Allah reduced ten prayers for me. Then again I came to Moses, but he repeated the same as he had said before. Then again I went back to Allah and He reduced ten more prayers. When I came back to Moses he said the same, I went back to Allah and He ordered me to observe ten prayers a day. When I came back to Moses, he repeated the same advice, so I went back to Allah and was ordered to observe five prayers a day. When I came back to Moses, he said, ‘What have you been ordered?’ I replied, ‘I have been ordered to observe five prayers a day.’ He said, ‘Your followers cannot bear five prayers a day, and no doubt, I have got an experience of the people before you, and I have tried my level best with Bani Israel, so go back to your Lord and ask for reduction to lessen your follower’s burden.’ I said, ‘I have requested so much of my Lord that I feel ashamed, but I am satisfied now and surrender to Allah’s Order.’ When I left, I heard a voice saying, ‘I have passed My Order and have lessened the burden of My Worshipers.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 227


113

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ‏}‏ قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ‏.‏ قَالَ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ قَالَ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینا رنے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانےاللہ کے ارشاد وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنۃ للناس‏ ( اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھایا اس سے مقصد صرف لوگوں کا امتحان تھا ) فرمایا کہ اس میں رؤیا سے آنکھ سے دیکھنا ہی مراد ہے ۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اور قرآن مجید میں ” الشجرۃ الملعونۃ “ کا ذکر آیا ہے وہ تھوہڑ کا درخت ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Regarding the Statement of Allah” “And We granted the vision (Ascension to the heavens) which We made you see (as an actual eye witness) was only made as a trial for the people.” (17.60) Ibn `Abbas added: The sights which Allah’s Messenger (ﷺ) was shown on the Night Journey when he was taken to Bait-ulMaqdis (i.e. Jerusalem) were actual sights, (not dreams). And the Cursed Tree (mentioned) in the Qur’an is the tree of Zaqqum (itself) .

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 228


114

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ ـ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ عَمِيَ ـ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ‏.‏ بِطُولِهِ، قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلاَمِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ، أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ( دوسری سند ) ، امام بخاری نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن کعب نے جب وہ نابینا ہو گئے تو وہ چلتے پھر تے وقت ان کو پکڑ کر لے چلتے تھے ، انہوں نے بیان کیا کہمیں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کا طویل واقعہ بیان کرتے تھے ابن بکیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ حضرت کعب نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عقبہ کی رات میں حاضر تھا جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا پختہ عہد کیا تھا ، میرے نزدیک ( لیلۃالعقبہ کی بیعت ) بدر کی لڑائی میں حاضری سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے اگرچہ لوگوں میں بدر کا چرچہ اس سے زیادہ ہے ۔

Narrated `Abdullah bin Ka`b:

Who was Ka`b’s guide when Ka`b turned blind: I heard Ka`b bin Malik narrating: When he remained behind (i.e. did not Join) the Prophet (ﷺ) in the Ghazwa of Tabuk. Ibn Bukair, in his narration stated that Ka`b said, ” I witnessed the Al-`Aqaba pledge of allegiance at night with the Prophet (ﷺ) when we jointly agreed to support Islam with all our efforts I would not like to have attended the Badr battle instead of that ‘Aqaba pledge although Badr is more well-known than it, amongst the people.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 229


115

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ كَانَ عَمْرٌو يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ شَهِدَ بِي خَالاَىَ الْعَقَبَةَ‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ أَحَدُهُمَا الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا کہ عمرو بن دینار کہا کرتے تھے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے بیان کیا کہمیرے دوماموں مجھے بھی بیعت عقبہ میں ساتھ لے گئے تھے ۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ ابن عیینہ نے بیان کیا ان میں سے ایک حضرت براء بن معروررضی اللہ عنہ تھے ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

I was present with my two maternal uncles at Al-`Aqaba (where the pledge of allegiance was given). (Ibn ‘Uyaina said, “One of the two was Al-Bara’ bin Marur.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 230


116

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ أَنَا وَأَبِي، وَخَالِي، مِنْ أَصْحَابِ الْعَقَبَةِ‏.‏

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، ان سے عطاء نے بیان کیا کہحضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا میں ، میرے والد اور میرے دو ماموں تینوں بیعت عقبہ کرنے والوں میں شریک تھے ۔

Narrated Jabir:

My father, my two maternal uncles and I were among those who took part in the ‘Aqaba Pledge.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 231


117

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، عَائِذُ اللَّهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ـ مِنَ الَّذِينَ شَهِدُوا بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ وَمِنْ أَصْحَابِهِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ‏ “‏ تَعَالَوْا بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُونَ بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ فِي الدُّنْيَا فَهْوَ لَهُ كَفَّارَةٌ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَبَايَعْتُهُ عَلَى ذَلِكَ‏.‏

مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے ان کے چچا نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہہمیں ابو ادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی اور عقبہ کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت آپ کے پاس صحابہ کی ایک جماعت تھی ، کہ آؤ مجھ سے اس بات کاعہد کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤگے ، چوری نہ کرو گے ، زنا نہ کرو گے ، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے ، اپنی طرف سے گھڑ کر کسی پر تہمت نہ لگاؤ گے اور اچھی باتو ں میں میری نافرمانی نہ کرو گے ، پس جو شخص اپنے اس عہد پر قائم رہے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جس شخص نے اس میں کمی کی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے چھپارہنے دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے ، چاہے تو اس پر سزا دے اور چاہے معاف کر دے ۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور پر بیعت کی ۔

Narrated ‘Ubada bin As-Samit:

Who had taken part in the battle of Badr with Allah’s Messenger (ﷺ) and had been amongst his companions on the night of Al-`Aqaba Pledge: Allah’s Messenger (ﷺ), surrounded by a group of his companions said, “Come along and give me the pledge of allegiance that you will not worship anything besides Allah, will not steal, will not commit illegal sexual intercourse will not kill your children, will not utter; slander, invented by yourself, and will not disobey me if I order you to do something good. Whoever among you will respect and fulfill this pledge, will be rewarded by Allah. And if one of you commits any of these sins and is punished in this world then that will be his expiation for it, and if one of you commits any of these sins and Allah screens his sin, then his matter, will rest with Allah: If He will, He will punish him and if He will,. He will excuse him.” So I gave the pledge of allegiance to him for these conditions.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 232


118

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ إِنِّي مِنَ النُّقَبَاءِ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَقَالَ بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لاَ نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ نَسْرِقَ، وَلاَ نَزْنِيَ، وَلاَ نَقْتُلَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، وَلاَ نَنْتَهِبَ، وَلاَ نَعْصِيَ بِالْجَنَّةِ إِنْ فَعَلْنَا ذَلِكَ، فَإِنْ غَشِينَا مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا كَانَ قَضَاءُ ذَلِكَ إِلَى اللَّهِ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعید نے ، ان سے یزید بن ابی حبیب نے ، ان سے ابو الخیر مرثد بن عبداللہ نے ، ان سے عبدالرحمٰن صنابحی نے اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں ان نقیبوں میں سے تھا جنہوں نے ( عقبہ کی رات میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ۔ آپ نے بیان کیا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا عہد کیا تھا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ، چوری نہیں کریں گے ، زنا نہیں کریں گے ، کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کریں گے جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، لوٹ مار نہیں کریں گے اور نہ اللہ کی نافرمانی کریں گے جنت کے بدلے میں ، اگر ہم اپنے عہد میں پورے اترے ۔ لیکن اگر ہم نے اس میں کچھ خلاف کیا تو اس کا فیصلہ اللہ پر ہے ۔

Narrated ‘Ubada bin As Samit:

I was one of the Naqibs who gave the (‘Aqaba) Pledge of Allegiance to Allah’s Messenger (ﷺ) . We gave the pledge of allegiance to him that we would not worship anything other than Allah, would not steal, would not commit illegal sexual intercourse, would not kill a person whose killing Allah has made illegal except rightfully, would not rob each other, and we would not be promised Paradise jf we did the above sins, then if we committed one of the above sins, Allah will give His Judgment concerning it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 233


119

حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ، فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي فَوَفَى جُمَيْمَةً، فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا لاَ أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى باب الدَّارِ، وَإِنِّي لأَنْهَجُ، حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ‏.‏ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ضُحًى، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‏.‏

مجھ سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کر کے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آ کر مجھے بخار چڑھا اور اس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہو گئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے پکا را تو میں حاضر ہو گئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر و برکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کر دیا اور انہوں نے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔

Narrated Aisha:

The Prophet (ﷺ) engaged me when I was a girl of six (years). We went to Medina and stayed at the home of Bani-al-Harith bin Khazraj. Then I got ill and my hair fell down. Later on my hair grew (again) and my mother, Um Ruman, came to me while I was playing in a swing with some of my girl friends. She called me, and I went to her, not knowing what she wanted to do to me. She caught me by the hand and made me stand at the door of the house. I was breathless then, and when my breathing became Allright, she took some water and rubbed my face and head with it. Then she took me into the house. There in the house I saw some Ansari women who said, “Best wishes and Allah’s Blessing and a good luck.” Then she entrusted me to them and they prepared me (for the marriage). Unexpectedly Allah’s Apostle came to me in the forenoon and my mother handed me over to him, and at that time I was a girl of nine years of age.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 234


12

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَتِ الأَنْصَارُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَتْبَاعٌ، وَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاكَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا مِنَّا‏.‏ فَدَعَا بِهِ‏.‏ فَنَمَيْتُ ذَلِكَ إِلَى ابْنِ أَبِي لَيْلَى‏.‏ قَالَ قَدْ زَعَمَ ذَلِكَ زَيْدٌ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن مرہ نے ، انہوں نے ابوحمزہ سے سنا اور انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہانصار نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہر نبی کے تابعدار لوگ ہوتے ہیں اور ہم نے آپ کی تابعداری کی ہے ، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ اللہ ہمارے تابعداروں کو بھی ہم میں شریک کر دے ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعا فرمائی ۔ پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ حدیث بیان کی تھی ۔

Narrated Zaid bin Al-Arqam:

The Annwar said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Every prophet has his own followers and we have followed you. So will you invoke Allah to let our followers be considered from us (as Ansar too)?” So he invoked Allah accordingly.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 131


120

حَدَّثَنَا مُعَلًّى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَهَا ‏ “‏ أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ، أَرَى أَنَّكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ وَيَقُولُ هَذِهِ امْرَأَتُكَ فَاكْشِفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُولُ إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے معلی نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھے دو مرتبہ خواب میں دکھائی گئی ہو ۔ میں نے دیکھا کہ تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور کہا جا رہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں ، ان کا چہرہ کھولئے ۔ میں نے چہرہ کھول کردیکھا تو تم تھیں ، میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو وہ خود اس کو پورا فرمائے گا ۔

Narrated `Aisha:

That the Prophet (ﷺ) said to her, “You have been shown to me twice in my dream. I saw you pictured on a piece of silk and some-one said (to me). ‘This is your wife.’ When I uncovered the picture, I saw that it was yours. I said, ‘If this is from Allah, it will be done.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 235


121

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ تُوُفِّيَتْ خَدِيجَةُ قَبْلَ مَخْرَجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلاَثِ سِنِينَ، فَلَبِثَ سَنَتَيْنِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، وَنَكَحَ عَائِشَةَ وَهْىَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهْىَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‏.‏

مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد ( عروہ بن زبیر ) نے بیان کیا کہحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت سے تین سال پہلے ہو گئی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی وفات کے تقریباً دو سال بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی جب رخصتی ہوئی تو وہ نوسال کی تھیں ۔

Narrated Hisham’s father:

Khadija died three years before the Prophet (ﷺ) departed to Medina. He stayed there for two years or so and then he married `Aisha when she was a girl of six years of age, and he consumed that marriage when she was nine years old.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 236


122

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، يَقُولُ عُدْنَا خَبَّابًا فَقَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نُرِيدُ وَجْهَ اللَّهِ، فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، فَمِنَّا مَنْ مَضَى، لَمْ يَأْخُذْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ نَمِرَةً، فَكُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ بَدَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ نُغَطِّيَ رَأْسَهُ، وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ شَيْئًا مِنْ إِذْخِرٍ‏.‏ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهْوَ يَهْدِبُهَا‏.‏

ہم سے ( عبداللہ بن زبیر ) حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہہم خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی تھی ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر دے گا ۔ پھر ہمارے بہت سے ساتھی اس دنیا سے اٹھ گئے اور انہوں نے ( دنیا میں ) اپنے اعمال کا پھل نہیں دیکھا ۔ انہیں میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کی لڑائی میں شہید کئے گئے تھے اور صرف ایک دھاری دار چادر چھوڑی تھی ۔ ( کفن دیتے وقت ) جب ہم ان کی چادر سے ان کا سر ڈھانکتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانک دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں ۔ ( تاکہ چھپ جائیں ) اور ہم میں ایسے بھی ہیں کہ ( اس دنیا میں بھی ) ان کے اعمال کا میوہ پک گیا ، پس وہ اس کو چن رہے ہیں ۔

Narrated Abu Wail:

We visited Khabbaba who said, “We migrated with the Prophet (ﷺ) for Allah’s Sake, so our reward became due and sure with Allah. Some of us passed away without taking anything of their rewards (in this world) and one of them was Mus`ab bin `Umar who was martyred on the day (of the battle) of Uhud leaving a striped woolen cloak. When we covered his head with it, his feet became naked, and when covered his feet, his head became naked. So Allah’s Messenger (ﷺ) ordered us to cover his head and put some Idhkhir (i.e. a special kind of grass) on his feet. (On the other hand) some of us have had their fruits ripened (in this world) and they are collecting them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 237


123

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ـ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ ـ عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏‏.‏

ہم سے مسدد بن مسر ہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے محمد بن ابراہیم نے ، ان سے علقمہ بن ابی وقاص نے ، بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں ۔ پس جس کا مقصد ہجرت سے دنیا کمانا ہو وہ اپنے اسی مقصد کو حاصل کر سکے گا یا مقصد ہجرت سے کسی عورت سے شادی کرنا ہو تو وہ بھی اپنے مقصد تک پہنچ سکے گا ، لیکن جن کا ہجرت سے مقصد اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی ہو گی تو اسی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے سمجھی جائے گی ۔

Narrated `Umar:

I heard the Prophet (ﷺ) saying, “The reward of deeds depends on the intentions, so whoever emigrated for the worldly benefits or to marry a woman, his emigration was for that for which he emigrated, but whoever emigrated for the Sake of Allah and His Apostle, his emigration is for Allah and His Apostle.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 238


124

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ يَقُولُ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ‏.‏

مجھ سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیاں کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا ، ان سے مجاہد بن جبر مکی نے بیان کیا کہحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ فتح مکہ کے بعد ( مکہ سے مدینہ کی طرف ) ہجرت باقی نہیں رہی ۔

Narrated Mujahid bin Jabir Al-Makki:

`Abdullah bin `Umar used to say, “There is no more Hijrah (i.e. migration) after the Conquest of Mecca.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 239


125

وَحَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ زُرْتُ عَائِشَةَ مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ فَسَأَلْنَاهَا عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ لاَ هِجْرَةَ الْيَوْمَ، كَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الإِسْلاَمَ، وَالْيَوْمَ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ‏.‏

مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہعبید بن عمیر لیثی کے ساتھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے ان سے فتح مکہ کے بعد ہجرت کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عہد کر کے آتا تھا ، اس خطرہ کی وجہ سے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا ہے اور آ ج ( سرزمین عرب میں ) انسان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے ، البتہ جہاد اور نیت ثواب باقی ہے ۔

Narrated ‘Ata bin Abi Rabah:

`Ubaid bin `Umar Al-Laithi and I visited Aisha and asked her about the Hijra (i.e. migration), and she said, “Today there is no (Hijrah) emigration. A believer used to run away with his religion to Allah and His Apostle lest he should be put to trial because of his religion. Today Allah has made Islam triumphant, and today a believer can worship his Lord wherever he likes. But the deeds that are still rewardable (in place of emigration) are Jihad and good intentions.” (See Hadith No. 42 Vol. 4).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 240


126

حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ هِشَامٌ فَأَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ سَعْدًا، قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَىَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صلى الله عليه وسلم وَأَخْرَجُوهُ، اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ‏.‏ وَقَالَ أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا نَبِيَّكَ وَأَخْرَجُوهُ مِنْ قُرَيْشٍ‏.‏

مجھ سے زکریابن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ، کہا کہ ہشام نے بیان کیا کہ انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہاے اللہ ! تو جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز پسندیدہ نہیں کہ تیرے راستے میں ، میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور انہیں ( ان کے وطن مکہ سے ) نکالا اے اللہ ! لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی کا سلسلہ ختم کر دیا ہے ۔ اور ابان بن یزید نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ( یہ الفاظ سعد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ) من قوم کذبوا نبیک اخرجوہ من قریش ۔ یعنی جنہوں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا ۔ باہر نکال دیا ۔ اس سے قریش کے کافر مراد ہیں ۔

Narrated Aisha:

Sa`d said, “O Allah! You know that there is none against whom I am eager to fight more willingly for Your Cause than those people who disbelieved Your Apostle and drove him out (of his city). O Allah! I think that You have ended the fight between us and them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 241


127

حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَرْبَعِينَ سَنَةً، فَمَكُثَ بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ، ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَهَاجَرَ عَشْرَ سِنِينَ، وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ‏.‏

ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے روح نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں رسول بنایا گیا تھا ۔ پھر آپ پر مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک وحی آتی رہی اس کے بعد آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور آپ نے ہجرت کی حالت میں دس سال گزارے ، ( مدینہ میں ) جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Allah’s Messenger (ﷺ) started receiving the Divine Inspiration at the age of forty. Then he stayed in Mecca for thirteen years, receiving the Divine Revelation. Then he was ordered to migrate and he lived as an Emigrant for ten years and then died at the age of sixty-three (years).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 242


128

حَدَّثَنِي مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ، وَتُوُفِّيَ وَهْوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ‏.‏

مجھ سے مطر بن فضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریابن اسحاق نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد مکہ میں تیرہ سال قیام کیا اور جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Allah’s Messenger (ﷺ) stayed in Mecca for thirteen years (after receiving the first Divine Inspiration) and died at the age of sixty-three.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 243


129

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدٍ ـ يَعْنِي ابْنَ حُنَيْنٍ ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ ‏”‏ إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ ‏”‏‏.‏ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا‏.‏ فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ، يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهْوَ يَقُولُ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا‏.‏ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هُوَ الْمُخَيَّرَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ‏.‏ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَىَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً مِنْ أُمَّتِي لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، إِلاَّ خُلَّةَ الإِسْلاَمِ، لاَ يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلاَّ خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا ، ان سے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابو النضر نے ، ان سے عبید یعنی ابن حنین نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ، فرمایا اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لئے پسند کر لے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے ( آخرت میں ) اسے پسند کر لے ۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کر لیا ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔ ( حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس رونے پر حیرت ہوئی ، بعض لوگوں نے کہا اس بزرگ کو دیکھئیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جو اللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ حضور پر فدا ہوں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پراحسان کرنے والے ابوبکر ہیں ۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا البتہ اسلامی رشتہ ان کے ساتھ کافی ہے ۔ مسجد میں کوئی دروازہ اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے ۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

Allah’s Messenger (ﷺ) sat on the pulpit and said, “Allah has given one of His Slaves the choice of receiving the splendor and luxury of the worldly life whatever he likes or to accept the good (of the Hereafter) which is with Allah. So he has chosen that good which is with Allah.” On that Abu Bakr wept and said, “Our fathers and mothers be sacrificed for you.” We became astonished at this. The people said, “Look at this old man! Allah’s Messenger (ﷺ) talks about a Slave of Allah to whom He has given the option to choose either the splendor of this worldly life or the good which is with Him, while he says. ‘our fathers and mothers be sacrifice(i for you.” But it was Allah’s Messenger (ﷺ) who had been given option, and Abu Bakr knew it better than we. Allah’s Messenger (ﷺ) added, “No doubt, I am indebted to Abu Bakr more than to anybody else regarding both his companionship and his wealth. And if I had to take a Khalil from my followers, I would certainly have taken Abu Bakr, but the fraternity of Islam is. sufficient. Let no door (i.e. Khoukha) of the Mosque remain open, except the door of Abu Bakr.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 244


13

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ ـ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ ـ قَالَتِ الأَنْصَارُ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ أَتْبَاعًا، وَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاكَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا مِنَّا‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَتْبَاعَهُمْ مِنْهُمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ عَمْرٌو فَذَكَرْتُهُ لاِبْنِ أَبِي لَيْلَى‏.‏ قَالَ قَدْ زَعَمَ ذَاكَ زَيْدٌ‏.‏ قَالَ شُعْبَةُ أَظُنُّهُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے کہ میں نے انصار کے ایک آدمی ابوحمزہ سے سنا کہانصار نے عرض کیا ہرقوم کے تابعدار ( ہالی موالی ) ہوتے ہیں ، ہم تو آپ کے تابعدار بنے آپ دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تابعداروں کو بھی ہم میں شریک کر دے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ، اے اللہ ! ان کے تابعداروں کو بھی انہیں میں سے کر دے ۔ عمرو نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے کیا تو انہوں نے ( تعجب کے طور پر ) کہا زید نے ایسا کہا ؟ شعبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ زید ، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہیں ، ۔ ( نہ اور کوئی زید جیسے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے ابن ابی لیلیٰ نے گمان کیا )

Narrated Abu Hamza:

(A man from the Ansar) The Ansar said, “Every nation has followers and (O Prophet) we have followed you, so invoke Allah to let our followers be considered from us (as Ansar like ourselves).” So the Prophet (ﷺ) said, “O Allah! Let their followers be considered as Ansar like themselves.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 132


130

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَىَّ قَطُّ إِلاَّ وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلاَّ يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَرَفَىِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونُ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا نَحْوَ أَرْضِ الْحَبَشَةِ، حَتَّى بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهْوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ‏.‏ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي، فَأُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الأَرْضِ وَأَعْبُدَ رَبِّي‏.‏ قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ وَلاَ يُخْرَجُ، إِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَأَنَا لَكَ جَارٌ، ارْجِعْ وَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبَلَدِكَ‏.‏ فَرَجَعَ وَارْتَحَلَ مَعَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ، فَطَافَ ابْنُ الدَّغِنَةِ عَشِيَّةً فِي أَشْرَافِ قُرَيْشٍ، فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلاَ يُخْرَجُ، أَتُخْرِجُونَ رَجُلاً يَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَحْمِلُ الْكَلَّ، وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَلَمْ تُكَذِّبْ قُرَيْشٌ بِجِوَارِ ابْنِ الدَّغِنَةِ، وَقَالُوا لاِبْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَلْيُصَلِّ فِيهَا وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ، وَلاَ يُؤْذِينَا بِذَلِكَ، وَلاَ يَسْتَعْلِنْ بِهِ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا‏.‏ فَقَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لأَبِي بَكْرٍ، فَلَبِثَ أَبُو بَكْرٍ بِذَلِكَ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، وَلاَ يَسْتَعْلِنُ بِصَلاَتِهِ، وَلاَ يَقْرَأُ فِي غَيْرِ دَارِهِ، ثُمَّ بَدَا لأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَنْقَذِفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، وَهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلاً بَكَّاءً، لاَ يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ، فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ‏.‏ فَقَالُوا إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ بِجِوَارِكَ، عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَقَدْ جَاوَزَ ذَلِكَ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، فَأَعْلَنَ بِالصَّلاَةِ وَالْقِرَاءَةِ فِيهِ، وَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا فَانْهَهُ، فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ، وَإِنْ أَبَى إِلاَّ أَنْ يُعْلِنَ بِذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ، فَإِنَّا قَدْ كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ، وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لأَبِي بَكْرٍ الاِسْتِعْلاَنَ‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَاقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ، فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ، وَإِمَّا أَنْ تَرْجِعَ إِلَىَّ ذِمَّتِي، فَإِنِّي لاَ أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَإِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِلْمُسْلِمِينَ ‏”‏ إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ ‏”‏‏.‏ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ، وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ قِبَلَ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَهَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَصْحَبَهُ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ وَهْوَ الْخَبَطُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ قَالَ قَائِلٌ لأَبِي بَكْرٍ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُتَقَنِّعًا ـ فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا ـ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِدَاءٌ لَهُ أَبِي وَأُمِّي، وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلاَّ أَمْرٌ‏.‏ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَأْذَنَ، فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأَبِي بَكْرٍ ‏”‏ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصَّحَابَةُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَىَّ هَاتَيْنِ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ بِالثَّمَنِ ‏”‏‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الْجَهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مَنْ نِطَاقِهَا فَرَبَطَتْ بِهِ عَلَى فَمِ الْجِرَابِ، فَبِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقِ ـ قَالَتْ ـ ثُمَّ لَحِقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلِ ثَوْرٍ فَكَمَنَا فِيهِ ثَلاَثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَهْوَ غُلاَمٌ شَابٌّ ثَقِفٌ لَقِنٌ، فَيُدْلِجُ مِنْ عِنْدِهِمَا بِسَحَرٍ، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلاَ يَسْمَعُ أَمْرًا يُكْتَادَانِ بِهِ إِلاَّ وَعَاهُ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ يَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ الْعِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلٍ وَهْوَ لَبَنُ مِنْحَتِهِمَا وَرَضِيفِهِمَا، حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ، يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلاَثِ، وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلاً مِنْ بَنِي الدِّيلِ، وَهْوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيًا خِرِّيتًا ـ وَالْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ ـ قَدْ غَمَسَ حِلْفًا فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ، وَهْوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَأَمِنَاهُ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلاَثٍ، وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ فَأَخَذَ بِهِمْ طَرِيقَ السَّوَاحِلِ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہجب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں ، پھر جب ( مکہ میں ) مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کر کے نکلے ۔ جب آپ مقام برک غماد پر پہنچے تو آپ کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا ۔ اس نے پوچھا ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ملک ملک کی سیاحت کروں ( اور آزادی کے ساتھ ) اپنے رب کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا لیکن ابوبکر ! تم جیسے انسان کو اپنے وطن سے نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے ۔ تم محتاجوں کی مدد کرتے ہو ، صلہ رحمی کرتے ہو ۔ بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہو ، مہمان نوازی کرتے ہو اور حق پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتے ہو ، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ واپس آیا ۔ اس کے بعد ابن الدغنہ قریش کے تمام سرداروں کے یہاں شام کے وقت گیا اور سب سے اس نے کہا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ نکالا جانا چا ہیے کیا تم ایسے شخص کو نکال دو گے جو محتاجوں کی امداد کرتا ہے ، صلہ رحمی کرتا ہے ، بے کسوں کا بوجھ اٹھا تا ہے ، مہمان نوازی کرتا ہے اور حق کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتا ہے ؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ سے انکا ر نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہہ دو ، کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں ، وہیں نماز پڑھیں اور جو جی چاہے وہیں پڑھیں ، اپنی عبادات سے ہمیں تکلیف نہ پہنچا ئیں ، اس کا اظہار نہ کریں کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنہ میں نہ مبتلا ہو جائیں ۔ یہ باتیں ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی آ کر کہہ دیں کچھ دنوں تک تو آپ اس پر قائم رہے اور اپنے گھر کے اندر ہی اپنے رب کی عبادت کرتے رہے ، نہ نماز بر سر عام پڑھتے اور نہ گھر کے سوا کسی اورجگہ تلاوت قرآن کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے کچھ سوچا اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ بنائی جہاں آپ نے نماز پڑھنی شروع کی اور تلاوت قرآن بھی وہیں کرنے لگے ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں مشرکین کی عورتوں اور بچوں کا مجمع ہونے لگا ۔ وہ سب حیرت اور پسندیدگی کے ساتھ دیکھتے رہا کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے ۔ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو آنسو ؤں کو روک نہ سکتے تھے ۔ اس صورت حال سے مشرکین قریش کے سردار گھبراگئے اور انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ، جب ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کے لئے تمہاری پناہ اس شرط کے ساتھ تسلیم کی تھی کہ اپنے رب کی عبادت وہ اپنے گھر کے اندر کیا کریں لیکن انہوں نے شرط کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ بنا کر برسر عام نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے لگے ہیں ۔ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنے میں نہ مبتلا ہو جائیں اس لئے تم انہیں روک دو ، اگر انہیں یہ شرط منظور ہو کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اظہار ہی کریں تو ان سے کہو کہ تمہاری پناہ واپس دے دیں ، کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری دی ہوئی پناہ میں ہم دخل اندازی کریں لیکن ابوبکر کے اس اظہار کو بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابن الدغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور اس نے کہا کہ جس شرط کے ساتھ میں نے آپ کے ساتھ عہد کیا تھا وہ آپ کو معلوم ہے ، اب یا آپ اس شرط پر قائم رہیے یا پھر میرے عہد کو واپس کیجئے کیونکہ یہ مجھے گوار ا نہیں کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی تھی ۔ لیکن اس میں ( قریش کی طرف سے ) دخل اندازی کی گئی ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی پناہ پر راضی اور خوش ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے وہا ں کھجور کے باغات ہیں اور دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے ، چنانچہ جنہیں ہجرت کرنی تھی انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سرزمین حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیار ی شروع کر دی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لئے توقف کرو ۔ مجھے توقع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا واقعی آپ کو بھی اس کی توقع ہے ، میرے باپ آپ پر فدا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے چار مہینے تک ۔ ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، ایک دن ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے بھری دوپہر تھی کہ کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ ایسے وقت میں آپ کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لا رہے ہوں گے ، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ٰ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لئے سب کو اٹھادو ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہاں اس وقت تو سب گھر کے ہی آدمی ہیں ، میرے باپ آپ پر فدا ہوں ، یا رسول اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ! کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہو سکے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لئے تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے پٹکے کے ٹکڑے کر کے تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے انکانام ذات النطاقین ( دوپٹکے والی ) پڑ گیا عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جبل ثور کے غار میں پڑاؤ کیا اور تین راتیں گزاریں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات وہیں جا کر گزارا کرتے تھے ، یہ نو جوان بہت سمجھدار تھے اور ذہین بےحد تھے ۔ سحر کے وقت وہاں سے نکل آتے اور صبح سویرے ہی مکہ پہنچ جاتے جیسے وہیں رات گزری ہو ۔ پھر جو کچھ یہاں سنتے اور جس کے ذریعہ ان حضرات کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی تدبیر کی جاتی تو اسے محفوظ رکھتے اور جب اندھیرا چھا جاتا تو تمام اطلاعات یہاں آ کر پہنچاتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ آپ ہر دو کے لئے قریب ہی دودھ دینے والی بکری چرایا کرتے تھے اور جب کچھ رات گزر جاتی تو اسے غار میں لاتے تھے ۔ آپ اسی پر رات گزارتے اس دودھ کو گرم لوہے کے ذریعہ گرم کر لیا جاتا تھا ۔ صبح منہ اندھیرے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ غار سے نکل آتے تھے ان تین راتوں میں روزانہ کا ان کا یہی دستور تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی الدیل جو بنی عبد بن عدی کی شاخ تھی ، کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا تھا ۔ یہ شخص راستوں کا بڑا ماہر تھا ۔ آل عاص بن وائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا ۔ ان بزرگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اپنے دونوں اونٹ اس کے حوالے کر دیئے ۔ قرار یہ پایا تھا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غار ثور میں ان سے ملاقات کرے ۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر ( آ گیا ) اب عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے ۔

Narrated ‘Aisha:

(the wife of the Prophet) I never remembered my parents believing in any religion other than the true religion (i.e. Islam), and (I don’t remember) a single day passing without our being visited by Allah’s Messenger (ﷺ) in the morning and in the evening. When the Muslims were put to test (i.e. troubled by the pagans), Abu Bakr set out migrating to the land of Ethiopia, and when he reached Bark-al-Ghimad, Ibn Ad-Daghina, the chief of the tribe of Qara, met him and said, “O Abu Bakr! Where are you going?” Abu Bakr replied, “My people have turned me out (of my country), so I want to wander on the earth and worship my Lord.” Ibn Ad-Daghina said, “O Abu Bakr! A man like you should not leave his home-land, nor should he be driven out, because you help the destitute, earn their livings, and you keep good relations with your Kith and kin, help the weak and poor, entertain guests generously, and help the calamity-stricken persons. Therefore I am your protector. Go back and worship your Lord in your town.”

So Abu Bakr returned and Ibn Ad-Daghina accompanied him. In the evening Ibn Ad-Daghina visited the nobles of Quraish and said to them. “A man like Abu Bakr should not leave his homeland, nor should he be driven out. Do you (i.e. Quraish) drive out a man who helps the destitute, earns their living, keeps good relations with his Kith and kin, helps the weak and poor, entertains guests generously and helps the calamity-stricken persons?” So the people of Quraish could not refuse Ibn Ad-Daghina’s protection, and they said to Ibn Ad-Daghina, “Let Abu Bakr worship his Lord in his house. He can pray and recite there whatever he likes, but he should not hurt us with it, and should not do it publicly, because we are afraid that he may affect our women and children.” Ibn Ad-Daghina told Abu Bakr of all that. Abu Bakr stayed in that state, worshipping his Lord in his house. He did not pray publicly, nor did he recite Quran outside his house.

Then a thought occurred to Abu Bakr to build a mosque in front of his house, and there he used to pray and recite the Quran. The women and children of the pagans began to gather around him in great number. They used to wonder at him and look at him. Abu Bakr was a man who used to weep too much, and he could not help weeping on reciting the Quran. That situation scared the nobles of the pagans of Quraish, so they sent for Ibn Ad-Daghina. When he came to them, they said, “We accepted your protection of Abu Bakr on condition that he should worship his Lord in his house, but he has violated the conditions and he has built a mosque in front of his house where he prays and recites the Quran publicly. We are now afraid that he may affect our women and children unfavorably. So, prevent him from that. If he likes to confine the worship of his Lord to his house, he may do so, but if he insists on doing that openly, ask him to release you from your obligation to protect him, for we dislike to break our pact with you, but we deny Abu Bakr the right to announce his act publicly.” Ibn Ad-Daghina went to Abu- Bakr and said, (“O Abu Bakr!) You know well what contract I have made on your behalf; now, you are either to abide by it, or else release me from my obligation of protecting you, because I do not want the ‘Arabs hear that my people have dishonored a contract I have made on behalf of another man.” Abu Bakr replied, “I release you from your pact to protect me, and am pleased with the protection from Allah.”

At that time the Prophet (ﷺ) was in Mecca, and he said to the Muslims, “In a dream I have been shown your migration place, a land of date palm trees, between two mountains, the two stony tracts.” So, some people migrated to Medina, and most of those people who had previously migrated to the land of Ethiopia, returned to Medina. Abu Bakr also prepared to leave for Medina, but Allah’s Messenger (ﷺ) said to him, “Wait for a while, because I hope that I will be allowed to migrate also.” Abu Bakr said, “Do you indeed expect this? Let my father be sacrificed for you!” The Prophet (ﷺ) said, “Yes.” So Abu Bakr did not migrate for the sake of Allah’s Messenger (ﷺ) in order to accompany him. He fed two she-camels he possessed with the leaves of As-Samur tree that fell on being struck by a stick for four months.

One day, while we were sitting in Abu Bakr’s house at noon, someone said to Abu Bakr, “This is Allah’s Messenger (ﷺ) with his head covered coming at a time at which he never used to visit us before.” Abu Bakr said, “May my parents be sacrificed for him. By Allah, he has not come at this hour except for a great necessity.” So Allah’s Messenger (ﷺ) came and asked permission to enter, and he was allowed to enter. When he entered, he said to Abu Bakr. “Tell everyone who is present with you to go away.” Abu Bakr replied, “There are none but your family. May my father be sacrificed for you, O Allah’s Messenger (ﷺ)!” The Prophet (ﷺ) said, “i have been given permission to migrate.” Abu Bakr said, “Shall I accompany you? May my father be sacrificed for you, O Allah’s Messenger (ﷺ)!” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Yes.” Abu Bakr said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! May my father be sacrificed for you, take one of these two she-camels of mine.” Allah’s Messenger (ﷺ) replied, “(I will accept it) with payment.” So we prepared the baggage quickly and put some journey food in a leather bag for them. Asma, Abu Bakr’s daughter, cut a piece from her waist belt and tied the mouth of the leather bag with it, and for that reason she was named Dhat-un-Nitaqain (i.e. the owner of two belts).

Then Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr reached a cave on the mountain of Thaur and stayed there for three nights. ‘Abdullah bin Abi Bakr who was intelligent and a sagacious youth, used to stay (with them) aver night. He used to leave them before day break so that in the morning he would be with Quraish as if he had spent the night in Mecca. He would keep in mind any plot made against them, and when it became dark he would (go and) inform them of it. ‘Amir bin Fuhaira, the freed slave of Abu Bakr, used to bring the milch sheep (of his master, Abu Bakr) to them a little while after nightfall in order to rest the sheep there. So they always had fresh milk at night, the milk of their sheep, and the milk which they warmed by throwing heated stones in it. ‘Amir bin Fuhaira would then call the herd away when it was still dark (before daybreak). He did the same in each of those three nights. Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr had hired a man from the tribe of Bani Ad-Dail from the family of Bani Abd bin Adi as an expert guide, and he was in alliance with the family of Al-‘As bin Wail As-Sahmi and he was on the religion of the infidels of Quraish. The Prophet (ﷺ) and Abu Bakr trusted him and gave him their two she-camels and took his promise to bring their two she camels to the cave of the mountain of Thaur in the morning after three nights later. And (when they set out), ‘Amir bin Fuhaira and the guide went along with them and the guide led them along the sea-shore.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 245


131

قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِكٍ الْمُدْلِجِيُّ ـ وَهْوَ ابْنُ أَخِي سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ـ أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ سُرَاقَةَ بْنَ جُعْشُمٍ، يَقُولُ جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَيْشٍ يَجْعَلُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ دِيَةَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مَنْ قَتَلَهُ أَوْ أَسَرَهُ، فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِي بَنِي مُدْلِجٍ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ جُلُوسٌ، فَقَالَ يَا سُرَاقَةُ، إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ آنِفًا أَسْوِدَةً بِالسَّاحِلِ ـ أُرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ‏.‏ قَالَ سُرَاقَةُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ لَهُ إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنَّكَ رَأَيْتَ فُلاَنًا وَفُلاَنًا انْطَلَقُوا بِأَعْيُنِنَا‏.‏ ثُمَّ لَبِثْتُ فِي الْمَجْلِسِ سَاعَةً، ثُمَّ قُمْتُ فَدَخَلْتُ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي أَنْ تَخْرُجَ بِفَرَسِي وَهْىَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ فَتَحْبِسَهَا عَلَىَّ، وَأَخَذْتُ رُمْحِي، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ الْبَيْتِ، فَحَطَطْتُ بِزُجِّهِ الأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِيَهُ حَتَّى أَتَيْتُ فَرَسِي فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرَّبُ بِي حَتَّى دَنَوْتُ مِنْهُمْ، فَعَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا فَقُمْتُ، فَأَهْوَيْتُ يَدِي إِلَى كِنَانَتِي فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا الأَزْلاَمَ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا أَضُرُّهُمْ أَمْ لاَ فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَرَكِبْتُ فَرَسِي، وَعَصَيْتُ الأَزْلاَمَ، تُقَرِّبُ بِي حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ لاَ يَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكْثِرُ الاِلْتِفَاتَ سَاخَتْ يَدَا فَرَسِي فِي الأَرْضِ حَتَّى بَلَغَتَا الرُّكْبَتَيْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا ثُمَّ زَجَرْتُهَا فَنَهَضَتْ، فَلَمْ تَكَدْ تُخْرِجُ يَدَيْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً، إِذَا لأَثَرِ يَدَيْهَا عُثَانٌ سَاطِعٌ فِي السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِالأَزْلاَمِ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَنَادَيْتُهُمْ بِالأَمَانِ فَوَقَفُوا، فَرَكِبْتُ فَرَسِي حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي حِينَ لَقِيتُ مَا لَقِيتُ مِنَ الْحَبْسِ عَنْهُمْ أَنْ سَيَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِيكَ الدِّيَةَ‏.‏ وَأَخْبَرْتُهُمْ أَخْبَارَ مَا يُرِيدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِمِ الزَّادَ وَالْمَتَاعَ، فَلَمْ يَرْزَآنِي وَلَمْ يَسْأَلاَنِي إِلاَّ أَنْ قَالَ أَخْفِ عَنَّا‏.‏ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابَ أَمْنٍ، فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ، فَكَتَبَ فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدِيمٍ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَقِيَ الزُّبَيْرَ فِي رَكْبٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا تِجَارًا قَافِلِينَ مِنَ الشَّأْمِ، فَكَسَا الزُّبَيْرُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ ثِيَابَ بَيَاضٍ، وَسَمِعَ الْمُسْلِمُونَ بِالْمَدِينَةِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ مَكَّةَ، فَكَانُوا يَغْدُونَ كُلَّ غَدَاةٍ إِلَى الْحَرَّةِ فَيَنْتَظِرُونَهُ، حَتَّى يَرُدَّهُمْ حَرُّ الظَّهِيرَةِ، فَانْقَلَبُوا يَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَهُمْ، فَلَمَّا أَوَوْا إِلَى بُيُوتِهِمْ، أَوْفَى رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِهِمْ لأَمْرٍ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابِهِ مُبَيَّضِينَ يَزُولُ بِهِمُ السَّرَابُ، فَلَمْ يَمْلِكِ الْيَهُودِيُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا مَعَاشِرَ الْعَرَبِ هَذَا جَدُّكُمُ الَّذِي تَنْتَظِرُونَ‏.‏ فَثَارَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى السِّلاَحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِظَهْرِ الْحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَذَلِكَ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّاسِ، وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَامِتًا، فَطَفِقَ مَنْ جَاءَ مِنَ الأَنْصَارِ مِمَّنْ لَمْ يَرَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُحَيِّي أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى ظَلَّلَ عَلَيْهِ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم بِالْمَدِينَةِ، وَهْوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ ‏”‏ هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ الْمَنْزِلُ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْغُلاَمَيْنِ، فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالاَ لاَ بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ، وَيَقُولُ وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ ‏”‏ هَذَا الْحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرْ ‏”‏‏.‏ وَيَقُولُ ‏”‏ اللَّهُمَّ إِنَّ الأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَهْ فَارْحَمِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ ‏”‏‏.‏ فَتَمَثَّلَ بِشِعْرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يُسَمَّ لِي‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ يَبْلُغْنَا فِي الأَحَادِيثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ تَامٍّ غَيْرِ هذه الآيات

ابن شہاب نے بیان کیا اور مجھے عبدالرحمٰن بن مالک مدلجی نے خبر دی ، وہ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے ۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیااور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا ۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا سراقہ ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں ۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے ، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا ۔ ( سراقہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا ) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور صبا رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا ، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لئے ممکن تھا ، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا ۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا ۔ لیکن میں کھڑاہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ۔ فال ( اب بھی ) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی ۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لئے جا رہا تھا ۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرا ، ت سنی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کے لئے ڈانٹا میں نے اسے اٹھا نے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا ۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا ۔ میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لئے پکارا ۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا ۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا ، اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب آ کر رہے گی ۔ اس لئے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے مارنے کے لئے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے ۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی ۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لئے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے ۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی ۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے ( دوپہر کو ) انہیں واپس جانا پڑتا تھا ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے چڑھا ۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید سفید چلے آ رہے ہیں ۔ ( یا تیزی سے جلدی جلدی آ رہے ہیں ) جتنا آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریتی کا چمکنا کم ہوتا جاتا ۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو ! تمہارے یہ بزرگ سردار آ گئے جن کا تمہیں انتظار تھا ۔ مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا ۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا ۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے ۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو سلام کر رہے تھے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا ۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمرو بن عوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد ( قباء ) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر ( جمعہ کے دن ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے ۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آ کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجدنبوی ہے ۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یہ جگہ سہیل اور سہل ( رضی اللہ عنہما ) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا ۔ یہ دونوں بچے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہو گی ۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے ۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے ، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی ۔ اس کی تعمیر کے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے ۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ” یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما تے تھے کہ ” اے اللہ ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس ، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما “ اس طرح آپ نے ایک مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جن کا نام مجھے معلوم نہیں ، ابن شہاب نے بیان کیا کہ احادیث سے ہمیں یہ اب تک معلوم نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا کسی بھی شاعر کے پورے شعر کو کسی موقعہ پر پڑھا ہو ۔

The nephew of Suraqa bin Ju’sham said that his father informed him that he heard Suraqa bin Ju’sham saying, “The messengers of the heathens of Quraish came to us declaring that they had assigned for the persons why would kill or arrest Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr, a reward equal to their bloodmoney. While I was sitting in one of the gatherings of my tribe. Bani Mudlij, a man from them came to us and stood up while we were sitting, and said, “O Suraqa! No doubt, I have just seen some people far away on the seashore, and I think they are Muhammad and his companions.” Suraqa added, “I too realized that it must have been they. But I said ‘No, it is not they, but you have seen so-and-so, and so-and-so whom we saw set out.’ I stayed in the gathering for a while and then got up and left for my home. and ordered my slave-girl to get my horse which was behind a hillock, and keep it ready for me.

Then I took my spear and left by the back door of my house dragging the lower end of the spear on the ground and keeping it low. Then I reached my horse, mounted it and made it gallop. When I approached them (i.e. Muhammad and Abu Bakr), my horse stumbled and I fell down from it, Then I stood up, got hold of my quiver and took out the divining arrows and drew lots as to whether I should harm them (i.e. the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr) or not, and the lot which I disliked came out. But I remounted my horse and let it gallop, giving no importance to the divining arrows. When I heard the recitation of the Quran by Allah’s Messenger (ﷺ) who did not look hither and thither while Abu Bakr was doing it often, suddenly the forelegs of my horse sank into the ground up to the knees, and I fell down from it. Then I rebuked it and it got up but could hardly take out its forelegs from the ground, and when it stood up straight again, its fore-legs caused dust to rise up in the sky like smoke. Then again I drew lots with the divining arrows, and the lot which I disliked, came out. So I called upon them to feel secure. They stopped, and I remounted my horse and went to them. When I saw how I had been hampered from harming them, it came to my mind that the cause of Allah’s Messenger (ﷺ) (i.e. Islam) will become victorious. So I said to him, “Your people have assigned a reward equal to the bloodmoney for your head.” Then I told them all the plans the people of Mecca had made concerning them. Then I offered them some journey food and goods but they refused to take anything and did not ask for anything, but the Prophet (ﷺ) said, “Do not tell others about us.” Then I requested him to write for me a statement of security and peace. He ordered ‘Amr bin Fuhaira who wrote it for me on a parchment, and then Allah’s Messenger (ﷺ) proceeded on his way.

Narrated ‘Urwa bin Az-Zubair:Allah’s Messenger (ﷺ) met Az-Zubair in a caravan of Muslim merchants who were returning from Sham. Az-Zubair provided Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr with white clothes to wear. When the Muslims of Medina heard the news of the departure of Allah’s Messenger (ﷺ) from Mecca (towards Medina), they started going to the Harra every morning . They would wait for him till the heat of the noon forced them to return. One day, after waiting for a long while, they returned home, and when they went into their houses, a Jew climbed up the roof of one of the forts of his people to look for some thing, and he saw Allah’s Messenger (ﷺ) and his companions dressed in white clothes, emerging out of the desert mirage.

The Jew could not help shouting at the top of his voice, “O you ‘Arabs! Here is your great man whom you have been waiting for!” So all the Muslims rushed to their arms and received Allah’s Messenger (ﷺ) on the summit of Harra. The Prophet (ﷺ) turned with them to the right and alighted at the quarters of Bani ‘Amr bin ‘Auf, and this was on Monday in the month of Rabi-ul-Awal. Abu Bakr stood up, receiving the people while Allah’s Messenger (ﷺ) sat down and kept silent. Some of the Ansar who came and had not seen Allah’s Messenger (ﷺ) before, began greeting Abu Bakr, but when the sunshine fell on Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr came forward and shaded him with his sheet only then the people came to know Allah’s Messenger (ﷺ). Allah’s Messenger (ﷺ) stayed with Bani ‘Amr bin ‘Auf for ten nights and established the mosque (mosque of Quba) which was founded on piety. Allah’s Messenger (ﷺ) prayed in it and then mounted his she-camel and proceeded on, accompanied by the people till his she-camel knelt down at (the place of) the Mosque of Allah’s Messenger (ﷺ) at Medina. Some Muslims used to pray there in those days, and that place was a yard for drying dates belonging to Suhail and Sahl, the orphan boys who were under the guardianship of ‘Asad bin Zurara. When his she-camel knelt down, Allah’s Messenger (ﷺ) said, “This place, Allah willing, will be our abiding place.” Allah’s Messenger (ﷺ) then called the two boys and told them to suggest a price for that yard so that he might take it as a mosque. The two boys said, “No, but we will give it as a gift, O Allah’s Messenger (ﷺ)!” Allah’s Messenger (ﷺ) then built a mosque there. The Prophet (ﷺ) himself started carrying unburnt bricks for its building and while doing so, he was saying “This load is better than the load of Khaibar, for it is more pious in the Sight of Allah and purer and better rewardable.” He was also saying, “O Allah! The actual reward is the reward in the Hereafter, so bestow Your Mercy on the Ansar and the Emigrants.” Thus the Prophet (ﷺ) recited (by way of proverb) the poem of some Muslim poet whose name is unknown to me.

(Ibn Shibab said, “In the Hadiths it does not occur that Allah’s Apostle

recited a complete poetic verse other than this one.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 245


132

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، وَفَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ، رضى الله عنها صَنَعْتُ سُفْرَةً لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ حِينَ أَرَادَا الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ لأَبِي مَا أَجِدُ شَيْئًا أَرْبُطُهُ إِلاَّ نِطَاقِي‏.‏ قَالَ فَشُقِّيهِ‏.‏ فَفَعَلْتُ، فَسُمِّيتُ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد اور فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ ہجرت کر کے جانے لگے تو میں نے آپ دونوں کے لئے ناشتہ تیار کیا ۔ میں نے اپنے والد ( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ) سے کہا کہ میرے پٹکے کے سوا اور کوئی چیز اس وقت میرے پاس ایسی نہیں جس سے میں اس ناشتہ کو باندھ دوں ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پھر اس کے دو ٹکڑے کر لو ۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور اس وقت سے میرا نام ذات النطاقین ( دو پٹکوں والی ) ہو گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسماء کو ذات النطاق کہا ۔

Narrated Asma:

I prepared the journey food for the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr when they wanted (to migrate to) Medina. I said to my father (Abu Bakr), “I do not have anything to tie the container of the journey food with except my waist belt.” He said, “Divide it lengthwise into two.” I did so, and for this reason I was named ‘Dhat-un-Nitaqain’ (i.e. the owner of two belts). (Ibn `Abbas said, “Asma’, Dhat-un-Nitaq.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 246


133

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا أَقْبَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ تَبِعَهُ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَسَاخَتْ بِهِ فَرَسُهُ‏.‏ قَالَ ادْعُ اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكَ‏.‏ فَدَعَا لَهُ‏.‏ قَالَ فَعَطِشَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَرَّ بِرَاعٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذْتُ قَدَحًا فَحَلَبْتُ فِيهِ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، فَأَتَيْتُهُ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے ، کہا میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیاجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا پیچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بددعا کی تو اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا ، اس نے عرض کیا کہ میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے ( کہ اس مصیبت سے نجات دے ) میں آپ کا کوئی نقصان نہیں کروں گا ، آپ نے اس کے لیے دعا کی ۔ ( اس کا گھوڑا زمین سے نکل آیا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ راستے میں پیاس معلوم ہوئی اتنے میں ایک چرواہا گزرا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ایک پیالہ لیا اور اس میں ( ریوڑ کی ایک بکری کا ) تھوڑا سا دودھ دوہا ، وہ دودھ میں نے آپ کی خدمت میں لا کر پیش کیا جسے آپ نے نوش فرمایا کہ مجھے خوشی حاصل ہوئی ۔

Narrated Al-Bara:

When the Prophet (ﷺ) migrated to Medina, Suraqa bin Malik bin Ju’sham pursued him. The Prophet (ﷺ) invoked evil on him, therefore the forelegs of his horse sank into the ground. Suraqa said (to the Prophet ), “Invoke Allah to rescue me, and I will not harm you. “The Prophet (ﷺ) invoked Allah for him. Then Allah’s Messenger (ﷺ) felt thirsty and he passed by a shepherd. Abu Bakr said, “I took a bowl and milked a little milk in it and brought it to the Prophet (ﷺ) and he drank till I was pleased.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 247


134

حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَتْ فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَىْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ حَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّكَ عَلَيْهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏ تَابَعَهُ خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا هَاجَرَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْىَ حُبْلَى‏.‏

مجھ سے زکریابن یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان کے پیٹ میں تھے ، انہیں دنوں جب حمل کی مدت بھی پوری ہو چکی تھی ، میں مدینہ کے لئے روانہ ہوئی یہاں پہنچ کر میں نے قباء میں پڑاؤ کیا اور یہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ پھر میں انہیں لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کی گود میں اسے رکھ دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر آپ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے منہ میں اسے رکھ دیا ۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز جو عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک لعاب تھا ۔ اس کے بعد آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی اور اللہ سے ان کے لئے برکت طلب کی ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے بچے ہیں جن کی پیدائش ہجرت کے بعد ہوئی ۔ زکریا کے ساتھ اس روایت کی متا بعت خالد بن مخلد نے کی ہے ۔ ان سے علی بن مسہرنے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کو نکلیں تھیں تو وہ حاملہ تھیں ۔

Narrated Asma:

That she conceived `Abdullah bin Az-Zubair. She added, “I migrated to Medina while I was at full term of pregnancy and alighted at Quba where I gave birth to him. Then I brought him to the Prophet (ﷺ) and put him in his lap. The Prophet (ﷺ) asked for a date, chewed it, and put some of its juice in the child’s mouth. So, the first thing that entered the child’s stomach was the saliva of Allah’s Messenger (ﷺ). Then the Prophet rubbed the child’s palate with a date and invoked for Allah’s Blessings on him, and he was the first child born amongst the Emigrants in the Islamic Land (i.e. Medina).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 248


135

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أَوَّلُ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَتَوْا بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخَذَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم تَمْرَةً فَلاَكَهَا ثُمَّ أَدْخَلَهَا فِي فِيهِ، فَأَوَّلُ مَا دَخَلَ بَطْنَهُ رِيقُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواسامہ نے ، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہسب سے پہلا بچہ جواسلام میں ( ہجرت کے بعد ) پیدا ہوا ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہیں ، انہیں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر اسے چبایا پھر اس کو ان کے منہ میں ڈال دیا ۔ اس لئے سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں گئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا ۔

Narrated Aisha:

The first child who was born in the Islamic Land (i.e. Medina) amongst the Emigrants, was `Abdullah bin Az-Zubair. They brought him to the Prophet. The Prophet (ﷺ) took a date, and after chewing it, put its juice in his mouth. So the first thing that went into the child’s stomach, was the saliva of the Prophet.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 249


136

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ وَهْوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ، وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ، وَنَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَابٌّ لاَ يُعْرَفُ، قَالَ فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ، مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ‏.‏ قَالَ فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي الطَّرِيقَ، وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ، فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا‏.‏ فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ ‏”‏‏.‏ فَصَرَعَهُ الْفَرَسُ، ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَقِفْ مَكَانَكَ، لاَ تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا ‏”‏‏.‏ قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَانِبَ الْحَرَّةِ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الأَنْصَارِ، فَجَاءُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا، وَقَالُوا ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ‏.‏ فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَحَفُّوا دُونَهُمَا بِالسِّلاَحِ، فَقِيلَ فِي الْمَدِينَةِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ، جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَأَشْرَفُوا يَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ، جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ‏.‏ فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى نَزَلَ جَانِبَ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ، فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهُ، إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ وَهْوَ فِي نَخْلٍ لأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ، فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ لَهُمْ فِيهَا، فَجَاءَ وَهْىَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَىُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَذِهِ دَارِي، وَهَذَا بَابِي‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلاً ‏”‏‏.‏ قَالَ قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ‏.‏ فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ، وَقَدْ عَلِمَتْ يَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ، وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ، فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، فَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ قَالُوا فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ‏.‏ فَأَرْسَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَقْبَلُوا فَدَخَلُوا عَلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، وَيْلَكُمُ اتَّقُوا اللَّهَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا ‏”‏‏.‏ قَالُوا مَا نَعْلَمُهُ‏.‏ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَهَا ثَلاَثَ مِرَارٍ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَأَىُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ‏”‏‏.‏ قَالُوا ذَاكَ سَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا، وَأَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ ‏”‏‏.‏ قَالُوا حَاشَا لِلَّهِ، مَا كَانَ لِيُسْلِمَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ ‏”‏‏.‏ قَالُوا حَاشَا لِلَّهِ، مَا كَانَ لِيُسْلِمَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ يَا ابْنَ سَلاَمٍ، اخْرُجْ عَلَيْهِمْ ‏”‏‏.‏ فَخَرَجَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، اتَّقُوا اللَّهَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِحَقٍّ‏.‏ فَقَالُوا كَذَبْتَ‏.‏ فَأَخْرَجَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ، کہا مجھ سے میرے باپ عبدالوارث نے بیان کیا ، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جوان معلوم ہوتے تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے بھی نہ تھے ۔ بیان کیا کہ اگر راستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر ! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ میرے ہادی ہیں ، مجھے راستہ بتاتے ہیں پوچھنے والا یہ سمجھتا کہ مدینہ کا راستہ بتلانے والا ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مطلب اس کلام سے یہ تھا کہ آپ دین وایمان کا راستہ بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے مڑے تو ایک سوار نظر آیا جو ان کے قریب آچکا تھا ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ سوار آ گیا اور اب ہمارے قریب ہی پہنچنے والا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مڑ کر دیکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے گرادے چنانچہ گھوڑی نے اسے گرا دیا ۔ پھر جب وہ ہنہناتی ہوئی اٹھی تو سوار ( سراقہ ) نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی جگہ کھڑا رہ اور دیکھ کسی کو ہماری طرف نہ آنے دینا ۔ راوی نے بیان کیا کہ وہی شخص جو صبح آپ کے خلاف تھا شام جب ہوئی تو آپ کا وہ ہتھیار تھا دشمن کو آپ سے روکنے لگا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ پہنچ کر ) حرہ کے قریب اترے اور انصار کو بلابھیجا ۔ اکابر انصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کو سلام کیا اور عرض کیا آپ سوار ہو جائیں آپ کی حفاظت اور فرمانبرداری کی جائے گی ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سوار ہو گئے اور ہتھیار بند انصار نے آپ دونوں کو حلقہ میں لے لیا ۔ اتنے میں مدینہ میں بھی سب کو معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں سب لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے بلندی پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبی آ گئے ۔ اللہ کے نبی آ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف چلتے رہے اور ( مدینہ پہنچ کر ) حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کے گھرکے پاس سواری سے اتر گئے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( ایک یہودی عالم نے ) اپنے گھر والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا ، وہ اس وقت اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھے اور کھجور جمع کر رہے تھے انہوں نے ( سنتے ہی ) بڑی جلدی کے ساتھ جو کچھ کھجور جمع کر چکے تھے اسے رکھ دینا چاہا جب آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جمع شدہ کھجوریں ان کے ساتھ ہی تھیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اپنے گھر واپس چلے آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے ( نانہالی ) اقارب میں کس کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے ؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا اے اللہ کے نبی ! یہ میرا گھر ہے اور یہ اس کا دروازہ ہے فرمایا ( اچھا تو جاؤ ) دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ ہمارے لئے درست کرو ہم دوپہر کو وہیں آرام کریں گے ۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر آپ دونوں تشریف لے چلیں ، اللہ مبارک کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عبداللہ بن سلام بھی آ گئے اور کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ، اور یہودی میرے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں اور ان میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں ، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام لانے کا خیال انہیں معلوم ہو ، بلایئے اور ان سے میرے بارے میں دریافت فرما یئے ، کیونکہ انہیں اگر معلوم ہو گیا کہ میں اسلام لاچکا ہوں تو میرے متعلق غلط باتیں کہنی شروع کر دیں گے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور جب وہ آپ کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا اے یہودیو ! افسوس تم پر ، اللہ سے ڈرو ، اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول بر حق ہوں اور یہ بھی کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں ، پھر اب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح تین مرتبہ کہا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اچھا عبداللہ بن سلام تم میں کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ، ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ہمارےسب سے بڑے عالم کے بیٹے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ اسلام لے آئیں ۔ پھر تمہار ا کیا خیال ہو گا ۔ کہنے لگے اللہ ان کی حفاظت کرے ، وہ اسلام کیوں لانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن سلام ! اب ان کے سامنے آ جاؤ ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آ گئے اور کہا اے یہود ! خدا سے ڈرو اس اللہ کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہیں خوب معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ۔ یہودیوں نے کہا تم جھوٹے ہو ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باہر چلے جانے کے لئے فرمایا ۔

Narrated Anas bin Malik:

Allah’s Messenger (ﷺ) arrived at Medina with Abu Bakr, riding behind him on the same camel. Abu Bakr was an elderly man known to the people, while Allah’s Messenger (ﷺ) was a youth that was unknown. Thus, if a man met Abu Bakr, he would say, “O Abu Bakr! Who is this man in front of you?” Abu Bakr would say, “This man shows me the Way,” One would think that Abu Bakr meant the road, while in fact, Abu Bakr meant the way of virtue and good. Then Abu Bakr looked behind and saw a horse-rider pursuing them. He said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! This is a horse-rider pursuing us.” The Prophet (ﷺ) looked behind and said, “O Allah! Cause him to fall down.” So the horse threw him down and got up neighing. After that the rider, Suraqa said, “O Allah’s Prophet! Order me whatever you want.” The Prophet said, “Stay where you are and do not allow anybody to reach us.” So, in the first part of the day Suraqa was an enemy of Allah’s Prophet and in the last part of it, he was a protector. Then Allah’s Apostle alighted by the side of the Al-Harra and sent a message to the Ansar, and they came to Allah’s Prophet and Abu Bakr, and having greeted them, they said, “Ride (your she-camels) safe and obeyed.” Allah’s Messenger (ﷺ) and Abu Bakr rode and the Ansar, carrying their arms, surrounded them. The news that Allah’s Prophet had come circulated in Medina. The people came out and were eagerly looking and saying “Allah’s Prophet has come! Allah’s Prophet has come! So the Prophet (ﷺ) went on till he alighted near the house of Abu Ayub. While the Prophet (ﷺ) was speaking with the family members of Abu Ayub, `Abdullah bin Salam heard the news of his arrival while he himself was picking the dates for his family from his family garden. He hurried to the Prophet (ﷺ) carrying the dates which he had collected for his family from the garden. He listened to Allah’s Prophet and then went home. Then Allah’s Prophet said, “Which is the nearest of the houses of our kith and kin?” Abu Ayub replied, “Mine, O Allah’s Prophet! This is my house and this is my gate.” The Prophet (ﷺ) said, “Go and prepare a place for our midday rest.” Abu Ayub said, “Get up (both of you) with Allah’s Blessings.” So when Allah’s Prophet went into the house, `Abdullah bin Salam came and said “I testify that you (i.e. Muhammad) are Apostle of Allah and that you have come with the Truth. The Jews know well that I am their chief and the son of their chief and the most learned amongst them and the son of the most learned amongst them. So send for them (i.e. Jews) and ask them about me before they know that I have embraced Islam, for if they know that they will say about me things which are not correct.” So Allah’s Messenger (ﷺ) sent for them, and they came and entered. Allah’s Messenger (ﷺ) said to them, “O (the group of) Jews! Woe to you: be afraid of Allah. By Allah except Whom none has the right to be worshipped, you people know for certain, that I am Apostle of Allah and that I have come to you with the Truth, so embrace Islam.” The Jews replied, “We do not know this.” So they said this to the Prophet and he repeated it thrice. Then he said, “What sort of a man is `Abdullah bin Salam amongst you?” They said, “He is our chief and the son of our chief and the most learned man, and the son of the most learned amongst us.” He said, “What would you think if he should embrace Islam?” They said, “Allah forbid! He can not embrace Islam.” He said, ” What would you think if he should embrace Islam?” They said, “Allah forbid! He can not embrace Islam.” He said, “What would you think if he should embrace Islam?” They said, “Allah forbid! He can not embrace Islam.” He said, “O Ibn Salam! Come out to them.” He came out and said, “O (the group of) Jews! Be afraid of Allah except Whom none has the right to be worshipped. You know for certain that he is Apostle of Allah and that he has brought a True Religion!’ They said, “You tell a lie.” On that Allah’s Messenger (ﷺ) turned them out.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 250


137

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ يَعْنِي، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رضى الله عنه قَالَ كَانَ فَرَضَ لِلْمُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ أَرْبَعَةَ آلاَفٍ فِي أَرْبَعَةٍ، وَفَرَضَ لاِبْنِ عُمَرَ ثَلاَثَةَ آلاَفٍ وَخَمْسَمِائَةٍ فَقِيلَ لَهُ هُوَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَلِمَ نَقَصْتَهُ مِنْ أَرْبَعَةِ آلاَفٍ فَقَالَ إِنَّمَا هَاجَرَ بِهِ أَبَوَاهُ‏.‏ يَقُولُ لَيْسَ هُوَ كَمَنْ هَاجَرَ بِنَفْسِهِ‏.‏

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، ان سے ابن جریج نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عمر نے خبر دی ، انہیں نافع نے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ، فرمایاآپ نے تمام مہاجرین اولین کا وظیفہ ( اپنے عہد خلافت میں ) چار چار ہزار چار چار قسطوں میں مقرر کر دیا تھا ، لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وظیفہ چار قسطوں میں ساڑھے تین ہزار تھا اس پر ان سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مہاجرین میں سے ہیں ۔ پھر آپ انہیں چار ہزار سے کم کیوں دیتے ہیں ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں ان کے والدین ہجرت کر کے یہاں لائے تھے ۔ اس لئے وہ ان مہاجرین کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے خود ہجرت کی تھی ۔

Narrated Ibn `Umar:

`Umar bin Al-Khattab fixed a grant of 4000 (Dirhams) for every Early Emigrant (i.e. Muhajir) and fixed a grant of 3500 (Dirhams) only for Ibn `Umar. Somebody said to `Umar, “Ibn `Umar is also one of the Early Emigrants; why do you give him less than four-thousand?” `Umar replied, “His parents took him with them when they migrated, so he was not like the one who had migrated by himself.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 251


138

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی انہیں اعمش نے ، انہیں ابووائل شقیق بن سلمہ نے اور ان سے خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تھی ۔

Narrated Khabbab:

We migrated with Allah’s Messenger (ﷺ) (See Hadith No. 253 below).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 252


139

وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا خَبَّابٌ، قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ، وَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، فَمِنَّا مَنْ مَضَى لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ شَيْئًا نُكَفِّنُهُ فِيهِ، إِلاَّ نَمِرَةً كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ، فَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ نُغْطِيَ رَأْسَهُ بِهَا، وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنْ إِذْخِرٍ، وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهْوَ يَهْدِبُهَا‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، انہوں نے شقیق بن سلمہ سے سنا ، کہا کہ ہم سے خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تو ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر بھی ضرور دے گا ۔ پس ہم میں سے بعض تو پہلے ہی اس دنیا سے اٹھ گئے ۔ اور یہاں اپنا کوئی بدلہ انہوں نے نہیں پایا ۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے ہیں ۔ احد کی لڑائی میں انہوں نے شہادت پائی ۔ اور ان کے کفن کے لئے ہمارے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہیں تھا ۔ اور وہ بھی ایسا کہ اگر اس سے ہم ان کا سر چھپا تے تو ان کے پاؤں کھل جاتے ۔ اور اگر پاؤں چھپاتے تو سر کھلا رہ جاتا ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کا سر چھپا دیا جائے اور پاؤں کو اذخر گھاس سے چھپا دیا جائے ۔ اور ہم میں بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنے عمل کا پھل اس دنیا میں پختہ کر لیا ۔ اور اب وہ اس کو خوب چن رہے ہیں ۔

Narrated Khabbab:

We migrated with Allah’s Messenger (ﷺ) seeking Allah’s Countenance, so our rewards became due and sure with Allah. Some of us passed away without eating anything of their rewards in this world. One of these was Mus`ab bin `Umar who was martyred on the day of the battle of Uhud. We did not find anything to shroud his body with except a striped cloak. When we covered his head with it, his feet remained uncovered, and when we covered his feet with it, his head remained uncovered. So Allah’s Apostle ordered us to cover his head with it and put some Idhkhir (i.e. a kind of grass) over his feet. And there are some amongst us whose fruits have ripened and they are collecting them (i.e. they have received their rewards in this world).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 253


14

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ خَيْرُ دُورِ الأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الأَشْهَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ، وَفِي كُلِّ دُورِ الأَنْصَارِ خَيْرٌ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ سَعْدٌ مَا أَرَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا فَقِيلَ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَى كَثِيرٍ‏.‏

وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، سَمِعْتُ أَنَسًا، قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذَا، وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا ، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بنو نجار کا گھرانہ انصار میں سے سب سے بہتر گھرانہ ہے پھر بنو عبدالاشہل کا ، پھر بنو الحارث بن خزرج کا ، پھر بنو ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر کا ، ، جو اوس کا بھائی تھا ، خزرج اکبر اور اوس دونوں حارثہ کے بیٹے تھے اور انصار کا ہر گھرانہ عمدہ ہی ہے ۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے کئی قبیلوں کو ہم پر فضیلت دی ہے ، ان سے کسی نے کہا تجھ کو بھی تو بہت سے قبیلوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی ہے اور عبدالصمد نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے بیان کیا ، میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی ، اس روایت میں سعد کے باپ کا نام عبادہ مذکور ہے ۔

Narrated Abu Usaid:

The Prophet (ﷺ) said, “The best of the Ansar’s families (homes) are those of Banu An-Najjar and then (those of) Banu `Abdul Ash-hal, then (those of) Banu Al-Harith bin Al-Khazraj and then (those of) Banu Sa`ida; nevertheless, there is good in all the families (houses) of the Ansar.” On this, Sa`d (bin Ubada) said, “I see that the Prophet (ﷺ) has preferred some people to us.” Somebody said (to him), “No, but he has given you superiority to many.” (Hadith similar to above with a different chain)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 133


140

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيُّ، قَالَ قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هَلْ تَدْرِي مَا قَالَ أَبِي لأَبِيكَ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَإِنَّ أَبِي قَالَ لأَبِيكَ يَا أَبَا مُوسَى، هَلْ يَسُرُّكَ إِسْلاَمُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهِجْرَتُنَا مَعَهُ، وَجِهَادُنَا مَعَهُ، وَعَمَلُنَا كُلُّهُ مَعَهُ، بَرَدَ لَنَا، وَأَنَّ كُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدَهُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ فَقَالَ أَبِي لاَ وَاللَّهِ، قَدْ جَاهَدْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَصَلَّيْنَا، وَصُمْنَا، وَعَمِلْنَا خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَسْلَمَ عَلَى أَيْدِينَا بَشَرٌ كَثِيرٌ، وَإِنَّا لَنَرْجُو ذَلِكَ‏.‏ فَقَالَ أَبِي لَكِنِّي أَنَا وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ بَرَدَ لَنَا، وَأَنَّ كُلَّ شَىْءٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ‏.‏ فَقُلْتُ إِنَّ أَبَاكَ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَبِي‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا ، کہا ہم سے روح نے بیان کیا ، ان سے عوف نے بیان کیا ، ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا ، انہوں نے بیان کیا کہمجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا ۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے والد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کیا جواب دیا تھا ، انہوں نے کہا نہیں ، تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا اے ابوموسیٰ ! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اسلام ، آپ کے ساتھ ہماری ہجرت ، آپ کے ساتھ ہمارا جہاد ہمارے تمام عمل جوہم نے آپ کی زندگی میں کئے ہیں ان کے بدلہ میں ہم اپنے ان اعمال سے نجات پا جائیں جو ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں گو وہ نیک بھی ہوں بس برابری پر معاملہ ختم ہو جائے ۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا خدا کی قسم ! میں اس پر راضی نہیں ہوں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جہاد کیا ، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے اور بہت سے اعمال خیر کئے اور ہمارے ہاتھ پر ایک مخلوق نے اسلام قبول کیا ، ہم تو اس کے ثواب کی بھی امید رکھتے ہیں اس پر میرے والد نے کہا ( خیر ابھی تم سمجھو ) لیکن جہاں تک میرا سوال ہے تو اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری خواہش ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئے ہوئے ہمارے اعمال محفوظ رہے ہوں اور جتنے اعمال ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں ان سب سے اس کے بدلہ میں ہم نجات پا جائیں اور برابر پر معاملہ ختم ہو جائے ۔ ابوبردہ کہتے ہیں اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم آپ کے والد ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) میرے والد ( ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ) سے بہتر تھے ۔

Narrated Abu Burda Bin Abi Musa Al-Ash`ari:

`Abdullah bin `Umar said to me, “Do you know what my father said to your father once?” I said, “No.” He said, “My father said to your father, ‘O Abu Musa, will it please you that we will be rewarded for our conversion to Islam with Allah’s Messenger (ﷺ) and our migration with him, and our Jihad with him and all our good deeds which we did, with him, and that all the deeds we did after his death will be disregarded whether good or bad?’ Your father (i.e. Abu Musa) said, ‘No, by Allah, we took part in Jihad after Allah’s Messenger (ﷺ) , prayed and did plenty of good deeds, and many people have embraced Islam at our hands, and no doubt, we expect rewards from Allah for these good deeds.’ On that my father (i.e. `Umar) said, ‘As for myself, By Him in Whose Hand `Umar’s soul is, I wish that the deeds done by us at the time of the Prophet (ﷺ) remain rewardable while whatsoever we did after the death of the Prophet (ﷺ) be enough to save us from Punishment in that the good deeds compensate for the bad ones.’ ” On that I said (to Ibn `Umar), “By Allah, your father was better than my father!”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 254


141

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ ـ أَوْ بَلَغَنِي عَنْهُ ـ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ إِذَا قِيلَ لَهُ هَاجَرَ قَبْلَ أَبِيهِ يَغْضَبُ، قَالَ وَقَدِمْتُ أَنَا وَعُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَوَجَدْنَاهُ قَائِلاً فَرَجَعْنَا إِلَى الْمَنْزِلِ، فَأَرْسَلَنِي عُمَرُ وَقَالَ اذْهَبْ فَانْظُرْ هَلِ اسْتَيْقَظَ فَأَتَيْتُهُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَبَايَعْتُهُ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّهُ قَدِ اسْتَيْقَظَ، فَانْطَلَقْنَا إِلَيْهِ نُهَرْوِلُ هَرْوَلَةً حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ فَبَايَعَهُ ثُمَّ بَايَعْتُهُ‏.‏

مجھ سے محمدبن صباح نے خود بیان کیا یا ان سے کسی اور نے نقل کر کے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ، ان سے عاصم احول نے ، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہابن عمر رضی اللہ عنہما سے میں نے سنا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ تم نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی تو وہ غصہ ہو جایا کرتے تھے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے ، اس لئے ہم گھر واپس آ گئے پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا اور فرمایا کہ جا کر دیکھ آؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیدار ہوئے یا نہیں چنانچہ میں آیا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے ) اس لئے اندر چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی پھر میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے کی خبر دی ۔ اس کے بعد ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے عمر رضی اللہ عنہ بھی اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور میں نے بھی ( دوبارہ ) بیعت کی ۔

Narrated Abu `Uthman:

I heard that Ibn `Umar used to become angry if someone mentioned that he had migrated before his father (`Umar), and he used to say, ” `Umar and I came to Allah’s Messenger (ﷺ) and found him having his midday rest, so we returned home. Then `Umar sent me again (to the Prophet (ﷺ) ) and said, ‘Go and see whether he is awake.’ I went to him and entered his place and gave him the pledge of allegiance. Then I went back to `Umar and informed him that the Prophet (ﷺ) was awake. So we both went, running slowly, and when `Umar entered his place, he gave him the pledge of allegiance and thereafter I too gave him the pledge of allegiance.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 255


142

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يُحَدِّثُ قَالَ ابْتَاعَ أَبُو بَكْرٍ مِنْ عَازِبٍ رَحْلاً فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ قَالَ فَسَأَلَهُ عَازِبٌ عَنْ مَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ أُخِذَ عَلَيْنَا بِالرَّصَدِ، فَخَرَجْنَا لَيْلاً، فَأَحْثَثْنَا لَيْلَتَنَا وَيَوْمَنَا حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، ثُمَّ رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ، فَأَتَيْنَاهَا وَلَهَا شَىْءٌ مِنْ ظِلٍّ قَالَ فَفَرَشْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرْوَةً مَعِي، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَانْطَلَقْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ قَدْ أَقْبَلَ فِي غُنَيْمَةٍ يُرِيدُ مِنَ الصَّخْرَةِ مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا فَسَأَلْتُهُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلاَمُ فَقَالَ أَنَا لِفُلاَنٍ‏.‏ فَقُلْتُ لَهُ هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قُلْتُ لَهُ هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ قَالَ نَعَمْ‏.‏ فَأَخَذَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ فَقُلْتُ لَهُ انْفُضِ الضَّرْعَ‏.‏ قَالَ فَحَلَبَ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، وَمَعِي إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ عَلَيْهَا خِرْقَةٌ قَدْ رَوَّأْتُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ ارْتَحَلْنَا وَالطَّلَبُ فِي إِثْرِنَا‏.‏

ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا ، کہا کہ ان سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن یوسف نے ، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے ، ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا کہمیں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے حدیث سنی وہ بیان کرتے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عازب رضی اللہ عنہ سے ایک پالان خریدااور میں ان کے ساتھ اٹھا کر پہنچانے لایا تھا ، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کا حال پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ چونکہ ہماری نگرانی ہو رہی تھی ( یعنی کفار ہماری تاک میں تھے ) اس لئے ہم ( غار سے ) رات کے وقت باہر آئے اور پوری رات اور دن بھر بہت تیزی کے ساتھ چلتے رہے ، جب دوپہر ہوئی تو ہمیں ایک چٹان دکھائی دی ۔ ہم اس کے قریب پہنچے تو اس کی آڑ میں تھوڑاسا سایہ بھی موجود تھا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چمڑا بچھا دیا جو میرے ساتھ تھا آپ اس پر لیٹ گئے ، اور میں قرب وجوار کی گرد جھاڑنے لگا ۔ اتفاق سے ایک چرواہا نظر پڑا جو اپنی بکریوں کے تھوڑے سے ریوڑ کے ساتھ اسی چٹان کی طرف آ رہا تھااس کا مقصد اس چٹان سے وہی تھا جس کے لئے ہم یہاں آئے تھے ( یعنی سایہ حاصل کرنا ) میں نے اس سے پوچھا لڑکے تو کس کا غلام ہے ؟ اس نے بتایا کہ فلاں کا ہوں ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی بکریوں سے کچھ دودھ نکال سکتے ہو اس نے کہا کہ ہاں پھر وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری لایا تو میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کا تھن جھاڑ لو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر اس نے کچھ دودھ دوہا ۔ میرے ساتھ پانی کا ایک چھاگل تھا ۔ اس کے منہ پرکپڑابندھاہوا تھا ۔ یہ پانی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ساتھ لے رکھا تھا ۔ وہ پانی میں نے اس دودھ پر اتنا ڈالا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا دودھ نوش فرمایئے یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا جس سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔ اس کے بعد ہم نے پھر کوچ شروع کیا اور ڈھونڈ نے والے لوگ ہماری تلاش میں تھے ۔

Narrated Al-Bara:

Abu Bakr bought a (camel’s) saddle from `Azib, and I carried it for him. `Azib (i.e. my father) asked Abu Bakr regarding the journey of the migration of Allah’s Messenger (ﷺ). Abu Bakr said, “Close observers were appointed by our enemies to watch us. So we went out at night and travelled throughout the night and the following day till it was noon, then we perceived a rock and went towards it, and there was some shade under it. I spread a cloak I had with me for Allah’s Messenger (ﷺ) and then the Prophet (ﷺ) layed on it. I went out to guard him and all of a sudden I saw a shepherd coming with his sheep looking for the same, the shade of the rock as we did, I asked him, ‘O boy, to whom do you belong?’ He replied, ‘I belong to so-and-so.’ I asked him, ‘Is there some milk in your sheep?’ He replied in the affirmative. I asked him, ‘Will you milk?’ He replied in the affirmative. Then he got hold of one of his sheep. I said to him, ‘Remove the dust from its udder.’ Then he milked a little milk. I had a water-skin with me which was tied with a piece of cloth. I had prepared the water-skin for Allah’s Messenger (ﷺ) . So I poured some water over the milk (container) till its bottom became cold. Then I brought the milk to the Prophet and said, ‘Drink, O Allah’s Messenger (ﷺ).’ Allah’s Messenger (ﷺ) drank till I became pleased. Then we departed and the pursuers were following us.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 256


143

قَالَ الْبَرَاءُ فَدَخَلْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ عَلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا عَائِشَةُ ابْنَتُهُ مُضْطَجِعَةٌ، قَدْ أَصَابَتْهَا حُمَّى، فَرَأَيْتُ أَبَاهَا فَقَبَّلَ خَدَّهَا، وَقَالَ كَيْفَ أَنْتِ يَا بُنَيَّةُ

براء نے بیان کیا کہجب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوا تھا تو آپ کی صاحبزادی عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوئی تھیں انہیں بخار آ رہا تھا میں نے ان کے والد کو دیکھا کہ انہوں نے ان کے رخسار پر بوسہ دیا اور دریافت کیا بیٹی ! طبیعت کیسی ہے ؟

Al-Bara added:

I then went with Abu Bakr into his home (carrying that saddle) and there I saw his daughter `Aisha Lying in a bed because of heavy fever and I saw her father Abu Bakr kissing her cheek and saying, “How are you, little daughter?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 256


144

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ وَسَّاجٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَنَسٍ، خَادِمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَلَيْسَ فِي أَصْحَابِهِ أَشْمَطُ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ، فَغَلَفَهَا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ‏.‏

ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن حمیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن ابی عبلہ نے بیان کیا ، ان سے عقبہ بن وساج نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ منورہ ) تشریف لائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی آپ کے اصحاب میں ایسا نہیں تھا جس کے بال سفید ہو رہے ہوں ، اس لئے آپ نے مہندی اور وسمہ کا خضاب استعمال کیا تھا ۔

Narrated Anas:

(the servant of the Prophet) When the Prophet (ﷺ) arrived (at Medina), there was not a single companion of the Prophet (ﷺ) who had grey and black hair except Abu Bakr, and he dyed his hair with Henna’ and Katam (i.e. plants used for dying hair).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 257


145

وَقَالَ دُحَيْمٌ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ وَسَّاجٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، فَكَانَ أَسَنَّ أَصْحَابِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَغَلَفَهَا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ حَتَّى قَنَأَ لَوْنُهَا‏.‏

اور دحیم نے بیان کیا ، ان سے ولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا ، کہا مجھ سے ابو عبید نے بیان کیا ، ان سے عقبہ بن وساج نے انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے زیادہ عمر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تھی اس لئے انہوں نے مہندی اور وسمہ کا خضاب استعمال کیا ۔ اس سے آپ کے بالوں کا رنگ خوب سرخ مائل بہ سیاہی ہو گیا ۔

Through another group of narrators, Anas bin Malik said:

“When the Prophet (ﷺ) arrived at Medina, the eldest amongst his companions was Abu Bakr. He dyed his hair with Hinna and Katam till it became of dark red color.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 257


146

حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ كَلْبٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ بَكْرٍ، فَلَمَّا هَاجَرَ أَبُو بَكْرٍ طَلَّقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا ابْنُ عَمِّهَا، هَذَا الشَّاعِرُ الَّذِي قَالَ هَذِهِ الْقَصِيدَةَ، رَثَى كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ مِنَ الشِّيزَى تُزَيَّنُ بِالسَّنَامِ وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ مِنَ الْقَيْنَاتِ وَالشَّرْبِ الْكِرَامِ تُحَيِّي بِالسَّلاَمَةِ أُمُّ بَكْرٍ وَهَلْ لِي بَعْدَ قَوْمِي مِنْ سَلاَمِ يُحَدِّثُنَا الرَّسُولُ بِأَنْ سَنَحْيَا وَكَيْفَ حَيَاةُ أَصْدَاءٍ وَهَامِ

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے ، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنو کلب کی ایک عورت ام بکر نامی سے شادی کر لی تھی ۔ پھر جب انہوں نے ہجرت کی تو اسے طلاق دے آئے ۔ اس عورت سے پھر اس کے چچا زاد بھائی ( ابوبکر شداد بن اسود ) نے شادی کر لی تھی ، یہ شخص شاعر تھا اور اسی نے یہ مشہور مرثیہ کفار قریش کے بارے میں کہا تھا ” مقام بدر کے کنوؤں کو میں کیا کہوں کہ انہوں نے ہمیں در خت شیزیٰ کے بڑے بڑے پیالوں سے محروم کر دیا جو کبھی اونٹ کے کوہان کے گوشت سے بہتر ہوا کرتے تھے ، میں بدر کے کنوؤں کو کیا کہوں ! انہوں نے ہمیں گانے والی لونڈیوں اور اچھے شرابیوں سے محروم کر دیا ام بکر تو مجھے سلامتی کی دعا دیتی رہی لیکن میری قوم کی بربادی کے بعد میرے لئے سلامتی کہاں ہے یہ رسول ہمیں دوبارہ زندگی کی خبریں بیان کرتا ہے ۔ کہیں الو بن جانے کے بعد پھر زندگی کس طرح ممکن ہے ۔

Narrate Aisha:

Abu Bakr married a woman from the tribe of Bani Kalb, called Um Bakr. When Abu Bakr migrated to Medina, he divorced her and she was married by her cousin, the poet who said the following poem lamenting the infidels of Quraish: “What is there kept in the well, The well of Badr, (The owners of) the trays of Roasted camel humps? What is there kept in the well, The well of Badr, (The owners of) lady singers And friends of the honorable companions; who used to drink (wine) together, Um Bakr greets us With the greeting of peace, But can I find peace After my people have gone? The Apostle tells us that We shall live again, But what sort of life will owls and skulls live?:

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 258


147

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي الْغَارِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِأَقْدَامِ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ بَعْضَهُمْ طَأْطَأَ بَصَرَهُ رَآنَا‏.‏ قَالَ ‏ “‏ اسْكُتْ يَا أَبَا بَكْرٍ، اثْنَانِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ، ان سے ثابت نے ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا ۔ میں نے جو سر اٹھایا تو قوم کے چند لوگوں کے قدم ( باہر ) نظر آئے میں نے کہا ، اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کسی نے بھی نیچے جھک کر دیکھ لیا تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوبکر ! خاموش رہو ہم ایسے دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے ۔

Narrated Abu Bakr:

I was with the Prophet (ﷺ) in the Cave. When I raised my head, I saw the feet of the people. I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! If some of them should look down, they will see us.” The Prophet (ﷺ) said, “O Abu Bakr, be quiet! (For we are) two and Allah is the Third of us.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 259


148

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ،‏.‏ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ عَنِ الْهِجْرَةِ فَقَالَ ‏”‏ وَيْحَكَ إِنَّ الْهِجْرَةَ شَأْنُهَا شَدِيدٌ، فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ‏”‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَتُعْطِي صَدَقَتَهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَهَلْ تَمْنَحُ مِنْهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَتَحْلُبُهَا يَوْمَ وُرُودِهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا ‏”‏‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید بن مسلم دمشقی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، ( دوسری سند ) اور محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ ہم سے ا مام اوزاعی نے بیان کیا ، کہا مجھ سے زہری نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عطاء بن یزید لیثی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہا کہایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا حال پوچھنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر افسوس ! ہجرت تو بہت مشکل ہے ۔ تمہارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں ہیں ۔ فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ادا کرتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹنیوں کا دودھ دوسرے ( محتاجوں ) کو بھی دوہنے کے لئے دے دیا کرتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ ایسا بھی کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، انہیں گھاٹ پر لے جا کر ( محتاجوں کے لئے ) دوہتے ہو ؟ اس نے عرض کیا ایسا بھی کرتا ہوں ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم سات سمندر پار عمل کرو ، اللہ تعالیٰ تمہارے کسی عمل کا بھی ثواب کم نہیں کرے گا ۔

Narrated Abu Sa`id:

Once a bedouin came to the Prophet (ﷺ) and asked him about the migration. The Prophet (ﷺ) said, “Mercy of Allah be on you! The migration is a quite difficult matter. Have you got some camels?” He replied in the affirmative. Then the Prophet (ﷺ) said, “Do you give their Zakat?” He replied in the affirmative. The Prophet said, “Do you let others benefit by their milk gratis?” He replied in the affirmative. Then the Prophet asked, “Do you milk them on their watering days and give their milk to the poor and needy?” He replied in the affirmative. The Prophet, said, “Go on doing like this from beyond the seas, and there is no doubt that Allah will not overlook any of your good deeds.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 260


149

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، سَمِعَ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ وَبِلاَلٌ رضى الله عنهم‏.‏

ہم سے ابو الولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں ابواسحاق نے خبر دی ، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے یوں بیان کیا کہسب سے پہلے ( ہجرت کر کے ) ہمارے یہاں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے پھر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ آئے ۔

Narrated Al-Bara:

The first people who came to us (in Medina) were Mus`ab bin `Umar and Ibn Um Maktum. Then came to us `Ammar bin Yasir and Bilal.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 261


15

حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ أَخْبَرَنِي أَبُو أُسَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ خَيْرُ الأَنْصَارِ ـ أَوْ قَالَ خَيْرُ دُورِ الأَنْصَارِ ـ بَنُو النَّجَّارِ وَبَنُو عَبْدِ الأَشْهَلِ وَبَنُو الْحَارِثِ وَبَنُو سَاعِدَةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے سعد بن حفص طلحی نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے کہ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ مجھے حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہانصار میں سب سے بہتر یا انصارکے گھرانوں میں سب سے بہتر بنو نجار ، بنو عبدالاشھل ، بنو حارث اور بنو ساعدہ کے گھرانے ہیں ۔

Narrated Abu Usaid:

That he heard the Prophet (ﷺ) saying, “The best of the Ansar, or the best of the Ansar families (homes) are Banu An-Najjar, Bani `Abdul Ash-hal, Banu Al-Harith and Banu Sai’da.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 134


150

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَكَانَا يُقْرِئَانِ النَّاسَ، فَقَدِمَ بِلاَلٌ وَسَعْدٌ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، ثُمَّ قَدِمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَرِحُوا بِشَىْءٍ فَرَحَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، حَتَّى جَعَلَ الإِمَاءُ يَقُلْنَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَا قَدِمَ حَتَّى قَرَأْتُ ‏{‏سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى‏}‏ فِي سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہسب سے پہلے ہمارے یہاں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ( نابینا ) آئے یہ دونوں ( مدینہ کے ) مسلمانوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے تھے ۔ اس کے بعد بلال ، سعداور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم آئے ۔ پھر عمربن خطاب رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ کو ساتھ لے کر ) تشریف لائے ، مدینہ کے لوگوں کو جتنی خوشی اور مسرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہوئی میں نے کبھی انہیں کسی بات پر اس قدر خوش نہیں دیکھا ۔ لونڈیاں بھی ( خوشی میں ) کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو اس سے پہلے میں مفصل کی دوسری کئی سورتوں کے ساتھ سبح اسم ربک الاعلی بھی سیکھ چکا تھا ۔

Narrated Al-Bara bin Azib:

The first people who came to us (in Medina) were Mus`ab bin `Umar and Ibn Um Maktum who were teaching Qur’an to the people. Then their came Bilal. Sa`d and `Ammar bin Yasir. After that `Umar bin Al-Khattab came along with twenty other companions of the Prophet. Later on the Prophet (ﷺ) himself (to Medina) and I had never seen the people of Medina so joyful as they were on the arrival of Allah’s Apostle, for even the slave girls were saying, “Allah’s Messenger (ﷺ) has arrived!” And before his arrival I had read the Sura starting with:– “Glorify the Name of your Lord, the Most High” (87.1) together with other Suras of Al-Mufassal.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 262


151

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلاَلٌ ـ قَالَتْ ـ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا فَقُلْتُ يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ وَيَا بِلاَلُ، كَيْفَ تَجِدُكَ قَالَتْ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلاَلٌ إِذَا أَقْلَعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ وَيَقُولُ أَلاَ لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو مالک نے خبر دی ، انہیں ہشام بن عروہ نے ، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما کو بخار چڑھ آیا ، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا والد صاحب ! آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار چڑھا تو یہ شعر پڑھنے لگے ۔ ( ترجمہ ) ہر شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے اور موت تو جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے “ اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے ” کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے اردگرد ( خوشبودار گھاس ) اذخر اور جلیل ہوں گی ، اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا “ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ، اے اللہ ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں اتنی پیدا کر دے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ ، یہاں کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا ۔ ہمارے لئے یہا ں کے صاع اور مد ( اناج ناپنے کے پیمانے ) میں برکت عنایت فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے ۔

Narrated `Aisha:

When Allah’s Messenger (ﷺ) came to Medina, Abu Bakr and Bilal got fever, and I went to both of them and said, “O my father, how do you feel? O Bilal, how do you feel?” Whenever Abu Bakr’s fever got worse, he would say, “Every man will meet his death once in one morning while he will be among his family, for death is really nearer to him than his leather shoe laces (to his feet).” And whenever fever deserted Bilal, he would say aloud, “Would that I know whether I shall spend a night in the valley (of Mecca) with Idhkhir and Jalil (i.e. kinds of grass) around me, and whether I shall drink one day the water of Mijannah, and whether I shall see once again the hills of Shamah and Tafil?” Then I went to Allah’s Messenger (ﷺ) and told him of that. He said, “O Allah, make us love Medina as much as or more than we used to love Mecca, O Allah, make it healthy and bless its Sa’ and Mud (i.e. measures), and take away its fever to Al-Juhfa.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 263


152

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيٍّ، أَخْبَرَهُ دَخَلْتُ، عَلَى عُثْمَانَ‏.‏ وَقَالَ بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عُثْمَانَ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم بِالْحَقِّ، وَكُنْتُ مِمَّنِ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَآمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ هَاجَرْتُ هِجْرَتَيْنِ، وَنِلْتُ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَبَايَعْتُهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلاَ غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ‏.‏ تَابَعَهُ إِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ مِثْلَهُ‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا ، انہیں عبیداللہ بن عدی نے خبر دی کہمیں عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند ) اور بشر بن شعیب نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ا ن سے زہری نے ، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے حمد وشہادت پڑھنے کے بعد فرمایا ، امابعد ! کوئی شک وشبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر ( ابتداء ہی میں ) لبیک کہا اور میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جنہیں لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے ، پھر میں نے دو ہجرت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف مجھے حاصل ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے بیعت کی خدا کی قسم کہ میں نے آپ کی نہ کبھی نافرمانی کی اور نہ کبھی آپ سے دھوکہ بازی کی ، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہو گیا ۔ شعیب کے ساتھ اس روایت کی متابعت اسحاق کلبی نے بھی کی ہے ، ان سے زہری نے اس حدیث کو اسی طرح بیان کیا ۔

Narrated ‘Ubaidullah bin Ad bin Khiyair:

I went to `Uthman. After reciting Tashah-hud, he said,. “Then after no doubt, Allah sent Muhammad with the Truth, and I was amongst those who responded to the Call of Allah and His Prophet and believed in the message of Muhammad. Then took part in the two migrations. I became the son-in-law of Allah’s Messenger (ﷺ) and gave the pledge of allegiance to him By Allah, I never disobeyed him, nor did I deceive him till Allah took him unto Him.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 264


153

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ،‏.‏ وَأَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَهْوَ بِمِنًى، فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ، فَوَجَدَنِي، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تُمْهِلَ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، وَتَخْلُصَ لأَهْلِ الْفِقْهِ وَأَشْرَافِ النَّاسِ وَذَوِي رَأْيِهِمْ‏.‏ قَالَ عُمَرُ لأَقُومَنَّ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھے یونس نے خبر دی ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ کی طرف واپس آ رہے تھے ، یہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج کا واقعہ ہے تو ان کی مجھ سے ملاقات ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ( عمر رضی اللہ عنہ حاجیوں کو خطاب کرنے والے تھے اس لئے ) میں نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین ! موسم حج میں معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے سب طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور شوروغل بہت ہوتا ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ اپنا ارادہ موقوف کر دیں اور مدینہ پہنچ کر ( خطاب فرمائیں ) کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا گھر ہے اور وہاں سمجھدار معزز اور صاحب عقل لوگ رہتے ہیں ۔ “ اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو ، مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلی فرصت میں لوگوں کو خطاب کرنے کے لئے ضرور کھڑا ہوں گا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

During the last Hajj led by `Umar, `Abdur-Rahman bin `Auf returned to his family at Mina and met me there. `AbdurRahman said (to `Umar), “O chief of the believers! The season of Hajj is the season when there comes the scum of the people (besides the good amongst them), so I recommend that you should wait till you go back to Medina, for it is the place of Migration and Sunna (i.e. the Prophet’s tradition), and there you will be able to refer the matter to the religious scholars and the nobles and the people of wise opinions.” `Umar said, “I will speak of it in Medina on my very first sermon I will deliver there.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 265


154

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أُمَّ الْعَلاَءِ ـ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِمْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ـ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ طَارَ لَهُمْ فِي السُّكْنَى حِينَ اقْتَرَعَتِ الأَنْصَارُ عَلَى سُكْنَى الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ أُمُّ الْعَلاَءِ فَاشْتَكَى عُثْمَانُ عِنْدَنَا، فَمَرَّضْتُهُ حَتَّى تُوُفِّيَ، وَجَعَلْنَاهُ فِي أَثْوَابِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ، شَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ ‏”‏‏.‏ قَالَتْ قُلْتُ لاَ أَدْرِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَنْ قَالَ ‏”‏ أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ وَاللَّهِ الْيَقِينُ، وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ، وَمَا أَدْرِي وَاللَّهِ وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي ‏”‏‏.‏ قَالَتْ فَوَاللَّهِ لاَ أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ قَالَتْ فَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ فَنِمْتُ فَأُرِيتُ لِعُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ عَيْنًا تَجْرِي، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ ذَلِكَ عَمَلُهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، انہیں ابن شہاب نے خبر دی ، انہیں خارجہ بن زید بن ثابت نے کہ ( ان کی والدہ ) ام علاء رضی اللہ عنہا ( ایک انصاری خاتون جنہوں نے نبی کریم سے بیعت کی تھی ) ، نے انہیں خبر دی کہجب انصار نے مہاجرین کی میز بانی کے لئے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون ان کے گھرانے کے حصے میں آئے تھے ۔ ام علاء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر عثمان رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں بیمار پڑ گئے ۔ میں نے ان کی پوری طرح تیمارداری کی وہ نہ بچ سکے ۔ ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں لپیٹ دیا تھا ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے تو میں نے کہا ابوسائب ! ( عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ) تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں ، میری تمہارے متعلق گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے ؟ میں نے عرض کیا مجھے تو اس سلسلے میں کچھ خبر نہیں ہے ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ! لیکن اور کسے نوازے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں تو واقعی کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایک یقینی امر ( موت ) ان کو آ چکا ہے ، خدا کی قسم کہ میں بھی ان کے کئے اللہ تعالیٰ سے خیرخواہی کی امید رکھتا ہوں لیکن میں حالانکہ اللہ کا رسول ہوں خود اپنے متعلق نہیں جان سکتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا ۔ ام علا ء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا پھر خدا کی قسم کہ اس کے بعد میں اب کسی کے بارے میں اس کی پاکی نہیں کروں گی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ پر مجھے بڑا رنج ہوا ۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل تھا ۔

Narrated ‘Um Al-`Ala:

An Ansari woman who gave the pledge of allegiance to the Prophet (ﷺ) that the Ansar drew lots concerning the dwelling of the Emigrants. `Uthman bin Maz’un was decided to dwell with them (i.e. Um Al-`Ala’s family), `Uthman fell ill and I nursed him till he died, and we covered him with his clothes. Then the Prophet (ﷺ) came to us and I (addressing the dead body) said, “O Abu As-Sa’ib, may Allah’s Mercy be on you! I bear witness that Allah has honored you.” On that the Prophet (ﷺ) said, “How do you know that Allah has honored him?” I replied, “I do not know. May my father and my mother be sacrificed for you, O Allah’s Messenger (ﷺ)! But who else is worthy of it (if not `Uthman)?” He said, “As to him, by Allah, death has overtaken him, and I hope the best for him. By Allah, though I am the Apostle of Allah, yet I do not know what Allah will do to me,” By Allah, I will never assert the piety of anyone after him. That made me sad, and when I slept I saw in a dream a flowing stream for `Uthman bin Maz’un. I went to Allah’s Messenger (ﷺ) and told him of it. He remarked, “That symbolizes his (good) deeds.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 266


155

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ بُعَاثٍ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَقَدِ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ، وَقُتِلَتْ سَرَاتُهُمْ فِي دُخُولِهِمْ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہبعاث کی لڑائی کو ( انصار کے قبائل اوس و خزرج کے درمیان ) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں آنے سے پہلے ہی برپا کرا دیا تھا چنانچہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو انصار میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی اور ان کے سردار قتل ہو چکے تھے ۔ اس میں اللہ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ انصار اسلام قبول کر لیں ۔

Narrated `Aisha:

The day of Bu’ath was a day (i.e. battle) which Allah caused to take place just before the mission of His Apostle so that when Allah’s Messenger (ﷺ) came to Medina, they (the tribes) had divided (into hostile groups) and their nobles had been killed; and all that facilitated their conversion to Islam.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 267


156

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، دَخَلَ عَلَيْهَا وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عِنْدَهَا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى، وَعِنْدَهَا قَيْنَتَانِ ‏{‏تُغَنِّيَانِ‏}‏ بِمَا تَقَاذَفَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ مَرَّتَيْنِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمُ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ا نکے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عیدالفطر یا عیدالاضحی کا دن تھا ، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شیطانی گانے باجے ! ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ) دو مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا ، لیکن آپ نے فرمایا ابوبکر ! انہیں چھوڑ دو ۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے ۔

Narrated Aisha:

That once Abu Bakr came to her on the day of `Id-ul-Fitr or `Id ul Adha while the Prophet (ﷺ) was with her and there were two girl singers with her, singing songs of the Ansar about the day of Buath. Abu Bakr said twice. “Musical instrument of Satan!” But the Prophet (ﷺ) said, “Leave them Abu Bakr, for every nation has an `Id (i.e. festival) and this day is our `Id.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 268


157

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ،‏.‏ وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، نَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَىٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ـ قَالَ ـ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلإِ بَنِي النَّجَّارِ ـ قَالَ ـ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ، قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفَهُ، وَمَلأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ فَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ، وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَلإِ بَنِي النَّجَّارِ، فَجَاءُوا فَقَالَ ‏ “‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي حَائِطَكُمْ هَذَا ‏”‏‏.‏ فَقَالُوا لاَ، وَاللَّهِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ‏.‏ قَالَ فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ كَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَتْ فِيهِ خِرَبٌ، وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ، وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ ـ قَالَ ـ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً‏.‏ قَالَ قَالَ جَعَلُوا يَنْقُلُونَ ذَاكَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لاَ خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الآخِرَهْ فَانْصُرِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدالصمدنے خبر دی ، کہا کہ میں نے اپنے والد عبدالوارث سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ا بو التیاح یزید بن حمید ضبعی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند جانب قباء کے ایک محلہ میں آپ نے ( سب سے پہلے ) قیام کیا جسے بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہا جاتا تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چودہ رات قیام کیا پھر آپ نے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ انصاربنی النجار آپ کی خدمت میں تلواریں لٹکا ئے ہوئے حاضر ہوئے ۔ راوی نے بیان کیا گویا اس وقت بھی وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی سواری پر آپ کے پیچھے سوار ہیں اور بنی النجار کے انصار آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے مسلح پیدل چلے جا رہے ہیں ۔ آخر آپ حضرت ابوایوب انصاری کے گھر کے قریب اتر گئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابھی تک جہاں بھی نماز کا وقت ہو جاتا وہیں آپ نماز پڑھ لیتے تھے ۔ بکریوں کے ریوڑ جہاں رات کو باندھے جاتے وہاں بھی نماز پڑھ لی جاتی تھی ۔ بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم فرمایا ۔ آپ نے اس کے لئے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا ۔ وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا اے بنو النجار ! اپنے اس باغ کی قیمت طے کر لو ۔ انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں لے سکتے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس باغ میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے بیان کروں گا ۔ اس میں مشرکین کی قبریں تھیں ، کچھ اس میں کھنڈر تھا اور کھجور وں کے درخت بھی تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں ، جہاں کھنڈر تھا اسے برا بر کیا گیا اور کھجوروں کے درخت کاٹ دیئے گئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ کھجور کے تنے مسجد کی طرف ایک قطار میں بطور دیوار رکھ دیئے گئے اور دروازہ میں ( چوکھٹ کی جگہ ) پتھر رکھ دیئے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ جب پتھر لا رہے تھے تو شعر پڑھتے جاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ خود پتھر لاتے اور شعر پڑھتے ۔ صحابہ یہ شعر پڑھتے کہ اے اللہ ! آخرت ہی کی خیر ، خیر ہے ، پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما ۔

Narrated Anas bin Malik:

When Allah’s Messenger (ﷺ) arrived at Medina, he alighted at the upper part of Medina among the people called Bani `Amr bin `Auf and he stayed with them for fourteen nights. Then he sent for the chiefs of Bani An-Najjar, and they came, carrying their swords. As if I am just now looking at Allah’s Messenger (ﷺ) on his she-camel with Abu Bakr riding behind him (on the same camel) and the chiefs of Bani An- Najjar around him till he dismounted in the courtyard of Abu Aiyub’s home. The Prophet (ﷺ) used to offer the prayer wherever the prayer was due, and he would pray even in sheepfolds. Then he ordered that the mosque be built. He sent for the chiefs of Banu An-Najjar, and when they came, he said, “O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this garden of yours.” They replied “No! By Allah, we do not demand its price except from Allah.” In that garden there were the (following) things that I will tell you: Graves of pagans, unleveled land with holes and pits etc., and date-palm trees. Allah’s Messenger (ﷺ) ordered that the graves of the pagans be dug up and, the unleveled land be leveled and the date-palm trees be cut down. The trunks of the trees were arranged so as to form the wall facing the Qibla. The Stone pillars were built at the sides of its gate. The companions of the Prophet (ﷺ) were carrying the stones and reciting some lyrics, and Allah’s Messenger (ﷺ) . . was with them and they were saying, “O Allah! There is no good Excel the good of the Hereafter, so bestow victory on the Ansar and the Emigrants. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 269


158

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَسْأَلُ السَّائِبَ ابْنَ أُخْتِ النَّمِرِ مَا سَمِعْتَ فِي، سُكْنَى مَكَّةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَلاَءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ ثَلاَثٌ لِلْمُهَاجِرِ بَعْدَ الصَّدَرِ ‏”‏‏.‏

مجھ سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمٰن بن حمید زہری نے بیان کیا ، انہوں نے خلیفہ عمر بن عبد العزیز سے سنا ، وہ نمر کندی کے بھانجے سائب بن یزید سے دریافت کر رہے تھے کہتم نے مکہ میں ( مہاجر کے ) ٹھہر نے کے مسئلہ میں کیا سنا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہاجر کو ( حج میں ) طواف وداع کے بعد تین دن ٹھہر نے کی اجازت ہے ۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Humaid Az-Zuhri:

I heard `Umar bin `Abdul-Aziz asking As-Sa’ib, the nephew of An-Nimr. “What have you heard about residing in Mecca?” The other said, “I heard Al-Ala bin Al-Hadrami saying, Allah’s Messenger (ﷺ) said: An Emigrant is allowed to stay in Mecca for three days after departing from Mina (i.e. after performing all the ceremonies of Hajj)”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 270


159

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ مَا عَدُّوا مِنْ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَلاَ مِنْ وَفَاتِهِ، مَا عَدُّوا إِلاَّ مِنْ مَقْدَمِهِ الْمَدِينَةَ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابوحازم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد سلمہ بن دینار نے ، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہتاریخ کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سال سے ہوا اور نہ آپ کی وفات کے سال سے بلکہ اس کا شمار مدینہ کی ہجرت کے سال سے ہوا ۔

Narrated Sahl bin Sa`d:

The Prophet’s companions did not take as a starting date for the Muslim calendar, the day, the Prophet (ﷺ) had been sent as an Apostle or the day of his death, but the day of his arrival at Medina.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 271


16

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ إِنَّ خَيْرَ دُورِ الأَنْصَارِ دَارُ بَنِي النَّجَّارِ، ثُمَّ عَبْدِ الأَشْهَلِ، ثُمَّ دَارُ بَنِي الْحَارِثِ، ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ، وَفِي كُلِّ دُورِ الأَنْصَارِ خَيْرٌ ‏”‏‏.‏ فَلَحِقْنَا سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فَقَالَ أَبَا أُسَيْدٍ أَلَمْ تَرَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيَّرَ الأَنْصَارَ فَجَعَلَنَا أَخِيرًا فَأَدْرَكَ سَعْدٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، خُيِّرَ دُورُ الأَنْصَارِ فَجُعِلْنَا آخِرًا‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَوَلَيْسَ بِحَسْبِكُمْ أَنْ تَكُونُوا مِنَ الْخِيَارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے عباس بن سہل نے اور ان سے ابو حمید ساعدی نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، انصار کا سب سے بہترین گھرانہ بنو نجار کا گھرانہ ہے پھر عبدالاشھل کا پھر بنی حارث کا ، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیر ہے ، پھر ہماری ملاقات سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو وہ ابواسید رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے تمہیں معلوم نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بہترین گھرانوں کی تعریف کی اور ہمیں ( بنوساعدہ ) کو سب سے اخیر میں رکھا تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انصار کے سب سے بہترین خاندانوں کا بیان ہوا اور ہم سب سے اخیر میں کر دیئے گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا خاندان بھی بہترین خاندان ہے ۔

Narrated Abu Humaid:

The Prophet (ﷺ) said, “The best of the Ansar families (homes) are the families (homes) of Banu An- Najjar, and then that of Banu `Abdul Ash-hal, and then that of Banu Al-Harith, and then that of Banu Saida; and there is good in all the families (homes) of the Ansar.” Sa`d bin ‘Ubada followed us and said, “O Abu Usaid ! Don’t you see that the Prophet (ﷺ) compared the Ansar and made us the last of them in superiority? Then Sa`d met the Prophet (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! In comparing the Ansar’s families (homes) as to the degree of superiority, you have made us the last of them.” Allah’s Messenger (ﷺ) replied, “Isn’t it sufficient that you are regarded amongst the best?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 135


160

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ هَاجَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا، وَتُرِكَتْ صَلاَةُ السَّفَرِ عَلَى الأُولَى‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ( پہلے ) نماز صرف دو رکعت فرض ہوئی تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو وہ فرض رکعات چار رکعات ہو گئیں ۔ البتہ سفر کی حالت میں نماز اپنی حالت میں باقی رکھی گئی ۔ اس روایت کی متابعت عبدالرزاق نے معمر سے کی ہے ۔

Narrated `Aisha:

Originally, two rak`at were prescribed in every prayer. When the Prophet (ﷺ) migrated (to Medina) four rak`at were enjoined, while the journey prayer remained unchanged(i.e. two rak`at).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 272


161

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عَادَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ مَرَضٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلاَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَىْ مَالِي قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ قَالَ ‏”‏ الثُّلُثُ يَا سَعْدُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ ذُرِّيَّتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ‏”‏ أَنْ تَذَرَ ذُرِّيَّتَكَ، وَلَسْتَ بِنَافِقٍ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ آجَرَكَ اللَّهُ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ ‏”‏‏.‏ قُلْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ ‏”‏ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلاً تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَمُوسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ ‏”‏ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے عامر بن سعد بن مالک نے اور ان سے ان کے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع 10 ھ کے موقع پر میری مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے ۔ اس مرض میں میرے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فرما رہے ہیں ، میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی وارث ہے تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کا صدقہ کر دوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے عرض کیا پھر آدھے کا کر دوں ؟ فرمایا کہ سعد ! بس ایک تہائی کا کر دو ، یہ بھی بہت ہے ۔ تو اگر اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ احمد بن یونس نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن سعد نے کہ ” تم اپنی اولاد کو چھوڑ کر جو کچھ بھی خرچ کرو گے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا ثواب دے گا ، اللہ تمہیں اس لقمہ پر بھی ثواب دے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے مکہ میں رہ جاؤں گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پیچھے نہیں رہو گے اور تم جو بھی عمل کرو گے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو گی تو تمہارا مرتبہ اس کی وجہ سے بلند ہوتا رہے گا اور شاید تم ابھی بہت دنوں تک زندہ رہو گے تم سے بہت سے لوگوں ( مسلمانوں ) کو نفع پہنچے گا اور بہتوں کو ( غیرمسلموں ) نقصان ہو گا اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری کر دے اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر ( کہ وہ ہجرت کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس آ جائیں ) البتہ سعد بن خولہ نقصان میں پڑ گئے اور احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل نے اس حدیث کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اس میں ( اپنی اولاد ذریت کو چھوڑو ، کے بجائے ) تم اپنے وارثوں کو چھوڑو یہ الفاظ مروی ہیں ۔

Narrated Sa`d bin Malik:

In the year of Hajjat-ul-Wada` the Prophet (ﷺ) visited me when I fell ill and was about to die because of that illness. I said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I am very ill as you see, and I am a rich man and have no heir except my only daughter. Shall I give 2/3 of my property in charity?” He said, “No.” I said, “Shall I then give one half of it in charity?” He said, “O Sa`d! Give 1/3 (in charity) and even 1/3 is too much. No doubt, it is better to leave your children rich than to leave them poor, reduced to begging from others. And Allah will reward you for whatever you spend with the intention of gaining Allah’s Pleasure even if it were a mouthful of food you put into your wives mouth.” I said, “O Allah’s Apostle! Am I to be left behind (in Mecca) after my companions have gone?” He said, “If you should be left behind, you will be upgraded and elevated for every deed you will do with a desire to achieve Allah’s Pleasure. I hope that you will live long so that some people will benefit by you while others will be harmed. O Allah! Please fulfill the migration of my companions and do not make them turn back on their heels. But (we feel sorry for) the unlucky Sa`d bin Khaulah.” Allah’s Messenger (ﷺ) lamented his death in Mecca.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 273


162

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَآخَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ، فَعَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يُنَاصِفَهُ أَهْلَهُ وَمَالَهُ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، دُلَّنِي عَلَى السُّوقِ‏.‏ فَرَبِحَ شَيْئًا مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ أَيَّامٍ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ ‏”‏‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَمَا سُقْتَ فِيهَا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمدبن یوسف بیکندی نے بیان کیا ، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرایا تھا ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ان کے اہل و مال میں سے آدھا وہ قبول کر لیں لیکن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے ۔ آپ تو مجھے بازار کا راستہ بتا دیں ۔ چنانچہ انہوں نے تجارت شروع کر دی اور پہلے دن انہیں کچھ پنیر اور گھی میں نفع ملا ۔ چند دنوں کے بعد انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے کپڑوں پر ( خوشبو کی ) زردی کا نشان ہے تو آپ نے فرمایا عبدالرحمٰن یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں مہر میں تم نے کیا دیا ؟ انہوں نے بتایا کہ ایک گھٹلی برابر سونا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری کاہو ۔

Narrated Anas:

When `Abdur-Rahman bin `Auf came to Medina and the Prophet (ﷺ) established the bond of brotherhood between him and Sa`d bin Ar-Rabi-al-Ansari, Saud suggested that `Abdur-Rahman should accept half of his property and family. `Abdur Rahman said, “May Allah bless you in your family and property; guide me to the market.” So `Abdur-Rahman (while doing business in the market) made some profit of some condensed dry yoghurt and butter. After a few days the Prophet (ﷺ) saw him wearing clothes stained with yellow perfume. The Prophet (ﷺ) asked, “What is this, O `Abdur-Rahman?” He said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I have married an Ansar’ woman.” The Prophet (ﷺ) asked, “What have you given her as Mahr?” He (i.e. `Abdur-Rahman) said, “A piece of gold, about the weight of a date stone.” Then the Prophet said, Give a banquet, even though of a sheep.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 274


163

حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ، بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ، فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ نَبِيٌّ مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ قَالَ ‏”‏ أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا ‏”‏‏.‏ قَالَ ابْنُ سَلاَمٍ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ، فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ، وَأَمَّا الْوَلَدُ، فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الْوَلَدَ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلاَمِي، فَجَاءَتِ الْيَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَىُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ فِيكُمْ ‏”‏‏.‏ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ‏”‏‏.‏ قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ‏.‏ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‏.‏ قَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا‏.‏ وَتَنَقَّصُوهُ‏.‏ قَالَ هَذَا كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏

مجھ سے حامد بن عمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے ، ان سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہجب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ سے چند سوال کرنے کے لئے آئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھوں گا جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہو گی ؟ اہل جنت کی ضیافت سب سے پہلے کس کھانے سے کی جائے گی ؟ اور کیا بات ہے کہ بچہ کبھی باپ پر جاتا ہے اور کبھی ماں پر ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جواب ابھی مجھے حضرت جبرائیل نے آ کر بتایا ہے ۔ عبداللہ بن سلام نے کہا کہ یہ ملائکہ میں یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آپ نے فرمایا قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی ۔ جس کھانے سے سب سے پہلے اہل جنت کی ضیافت ہو گی وہ مچھلی کی کلیجی کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا ( جو نہایت لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے ) اور بچہ باپ کی صورت پر اس وقت جاتا ہے جب عورت کے پانی پر مرد کا پانی غالب آ جائے اور جب مرد کے پانی پر عورت کا پانی غالب آ جائے تو بچہ ماں پر جاتا ہے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہودی بڑے بہتان لگانے والے لوگ ہیں ، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام کے بارے میں انہیں کچھ معلوم ہو ، ان سے میرے متعلق دریافت فرمائیں ۔ چنانچہ چند یہودی آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری قوم میں عبداللہ بن سلام کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے ہیں ، ہم میں سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے ہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام لائیں ؟ وہ کہنے لگے اس سے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پناہ میں رکھے ۔ حضور نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اور انہوں نے یہی جواب دیا ۔ اس کے بعد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ اب وہ کہنے لگے یہ تو ہم میں سب سے بد تر آدمی ہیں اور سب سے بد تر باپ کے بیٹے ہیں ۔ فوراً ہی برائی شروع کر دی ، حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ً ! اسی کا مجھے ڈر تھا ۔

Narrated Anas:

When the news of the arrival of the Prophet (ﷺ) at Medina reached `Abdullah bin Salam, he went to him to ask him about certain things, He said, “I am going to ask you about three things which only a Prophet can answer: What is the first sign of The Hour? What is the first food which the people of Paradise will eat? Why does a child attract the similarity to his father or to his mother?” The Prophet (ﷺ) replied, “Gabriel has just now informed me of that.” Ibn Salam said, “He (i.e. Gabriel) is the enemy of the Jews amongst the angels. The Prophet (ﷺ) said, “As for the first sign of The Hour, it will be a fire that will collect the people from the East to the West. As for the first meal which the people of Paradise will eat, it will be the caudate (extra) lobe of the fish-liver. As for the child, if the man’s discharge proceeds the woman’s discharge, the child attracts the similarity to the man, and if the woman’s discharge proceeds the man’s, then the child attracts the similarity to the woman.” On this, `Abdullah bin Salam said, “I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and that you are the Messenger of Allah.” and added, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Jews invent such lies as make one astonished, so please ask them about me before they know about my conversion to I slam . ” The Jews came, and the Prophet (ﷺ) said, “What kind of man is `Abdullah bin Salam among you?” They replied, “The best of us and the son of the best of us and the most superior among us, and the son of the most superior among us. “The Prophet (ﷺ) said, “What would you think if `Abdullah bin Salam should embrace Islam?” They said, “May Allah protect him from that.” The Prophet (ﷺ) repeated his question and they gave the same answer. Then `Abdullah came out to them and said, “I testify that None has the right to be worshipped except Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah!” On this, the Jews said, “He is the most wicked among us and the son of the most wicked among us.” So they degraded him. On this, he (i.e. `Abdullah bin Salam) said, “It is this that I was afraid of, O Allah’s Messenger (ﷺ).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 275


164

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ أَبَا الْمِنْهَالِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُطْعِمٍ، قَالَ بَاعَ شَرِيكٌ لِي دَرَاهِمَ فِي السُّوقِ نَسِيئَةً فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ أَيَصْلُحُ هَذَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ بِعْتُهَا فِي السُّوقِ فَمَا عَابَهُ أَحَدٌ، فَسَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ فَقَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ هَذَا الْبَيْعَ، فَقَالَ ‏ “‏ مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَلاَ يَصْلُحُ ‏”‏‏.‏ وَالْقَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَاسْأَلْهُ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْظَمَنَا تِجَارَةً، فَسَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَقَالَ مِثْلَهُ‏.‏ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً فَقَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ، وَقَالَ نَسِيئَةً إِلَى الْمَوْسِمِ أَوِ الْحَجِّ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، انہوں نے ابومنہال ( عبدالرحمٰن بن مطعم ) سے سنا ، عبدالرحمٰن بن مطعم نے بیان کیا کہمیرے ایک ساجھی نے بازار میں چند درہم ادھار فروخت کیے ، میں نے اس سے کہا سبحان اللہ ! کیا یہ جائز ہے ؟ انہوں نے کہا سبحان اللہ خدا کی قسم کہ میں نے بازار میں اسے بیچا تو کسی نے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا ۔ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( ہجرت کر کے ) تشریف لائے تو اس طرح خریدوفروخت کیا کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خریدوفروخت کی اس صورت میں اگر معاملہ دست بدست ( نقد ) ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر ادھار پر معاملہ کیا تو پھر یہ صورت جائز نہیں اورزید بن ارقم سے بھی مل کر اس کے متعلق پوچھ لو کیونکہ وہ ہم میں بڑے سوداگر تھے ۔ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ سفیان نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے یہاں مدینہ تشریف لائے تو ہم ( اس طرح کی ) خریدوفروخت کیا کرتے تھے اور بیان کیا کہ ادھار موسم تک کے لئے یا ( یوں بیان کیا کہ ) حج تک کے لیے ۔

Narrated Abu Al-Minhal `AbdurRahman bin Mut`im:

A partner of mine sold some Dirhams on credit in the market. I said, “Glorified be Allah! Is this legal?” He replied, “Glorified be Allah! By Allah, when I sold them in the market, nobody objected to it.” Then I asked Al-Bara’ bin `Azib (about it) he said, “We used to make such a transaction when the Prophet came to Medina. So he said, ‘There is no harm in it if it is done from hand to hand, but it is not allowed on credit.’ Go to Zaid bin Al- Arqam and ask him about it for he was the greatest trader of all of us.” So I asked Zaid bin Al-Arqam., and he said the same (as Al-Bara) did.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 276


165

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لَوْ آمَنَ بِي عَشَرَةٌ مِنَ الْيَهُودِ لآمَنَ بِي الْيَهُودُ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دس یہودی ( احبار وعلماء ) مجھ پر ایمان لے آتے تو تمام یہود مسلمان ہو جاتے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Had only ten Jews (amongst their chiefs) believe me, all the Jews would definitely have believed me.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 277


166

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ ـ أَوْ مُحَمَّدُ ـ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْغُدَانِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَإِذَا أُنَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ يُعَظِّمُونَ عَاشُورَاءَ وَيَصُومُونَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ نَحْنُ أَحَقُّ بِصَوْمِهِ ‏”‏‏.‏ فَأَمَرَ بِصَوْمِهِ‏.‏

مجھ سے احمد یا محمد بن عبیداللہ غدانی نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا کہ انہیں ابو عمیس نے خبر دی ، انہیں قیس بن مسلم نے ، انہیں طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔

Narrated Abu Musa:

When the Prophet (ﷺ) arrived at Medina, he noticed that some people among the Jews used to respect Ashura’ (i.e. 10th of Muharram) and fast on it. The Prophet (ﷺ) then said, “We have more right to observe fast on this day.” and ordered that fasting should be observed on it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 278


167

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ، فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ، وَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهِ‏.‏

ہم سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابو بشر جعفر نے بیان کیا ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعوں پر فتح عنایت فرمائی تھی چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور آپ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

When the Prophet (ﷺ) arrived at Medina he found that the Jews observed fast on the day of ‘Ashura’. They were asked the reason for the fast. They replied, “This is the day when Allah caused Moses and the children of Israel to have victory over Pharaoh, so we fast on this day as a sign of glorifying it.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “We are closer to Moses than you.” Then he ordered that fasting on this day should be observed.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 279


168

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَسْدِلُ شَعْرَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَىْءٍ، ثُمَّ فَرَقَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَأْسَهُ‏.‏

ہم سے عبدان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبیداللہ عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر کے بال کو پیشانی پر لٹکا دیتے تھے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی اپنے سروں کے بال پیشانی پر لٹکائے رہنے دیتے تھے ۔ جن امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ( وحی کے ذریعہ ) کوئی حکم نہیں ہوتا تھا آپ ان میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے ۔ پھر بعدمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مانگ نکالنے لگے تھے ۔

Narrated `Abdullah bin `Abbas:

The Prophet (ﷺ) used to keep his hair falling loose while the pagans used to part their hair, and the People of the Scriptures used to keep their hair falling loose, and the Prophet (ﷺ) liked to follow the People of the Scriptures in matters about which he had not been instructed differently, but later on the Prophet (ﷺ) started parting his hair.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 280


169

حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ هُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، جَزَّءُوهُ أَجْزَاءً، فَآمَنُوا بِبَعْضِهِ وَكَفَرُوا بِبَعْضِهِ‏.‏ ‏{‏يَعْنِي قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ ‏}‏

مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابوبشر ( جابر بن ابی وحشیہ ) نے خبر دی ، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہوہ اہل کتاب ہی تو ہیں جنہوں نے آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، بعض باتوں پر ایمان لائے اور بعض باتوں کا انکار کیا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

They, the people of the Scriptures, divided this Scripture into parts, believing in some portions of it and disbelieving the others. (See 15:91)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 281


17

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْتَ فُلاَنًا قَالَ ‏ “‏ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے کہایک انصاری صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! فلاں شخص کی طرح مجھے بھی آپ حاکم بنادیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد ( دنیاوی معاملات میں ) تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اس لیے صبر سے کام لینا ، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو ۔

Narrated Usaid bin Hudair:

A man from the Ansar said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Will you appoint me as you have appointed so-andso?” The Prophet (ﷺ) said, “After me you will see others given preference to you; so be patient till you meet me at the Tank (i.e. Lake of Kauthar). (on the Day of Resurrection).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 136


170

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ أَبِي وَحَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، أَنَّهُ تَدَاوَلَهُ بِضْعَةَ عَشَرَ مِنْ رَبٍّ إِلَى رَبٍّ‏.‏

مجھ سے حسن بن شقیق نے بیان کیا ، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا کہ میرے والد سلیمان بن طرخان نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا کہا میں نے سنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہان کو کچھ اوپر دس آدمیوں نے ایک مالک سے ان کو دس سے زائد آدمیوں نے لیا ، ایک مالک نے دوسرے مالک سے خریدا ۔

Narrated Salman Al-Farisi:

That he was sold (as a slave) by one master to another for more than ten times (i.e between 13 and 19).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 282


171

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ سَمِعْتُ سَلْمَانَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ أَنَا مِنْ، رَامَ هُرْمُزَ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عوف اعرابی نے ، ان سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا ، کہا میں نے حضرت سلمان فارسی سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہمیں رام ہرمز ( فارس میں ایک مقام ہے ) کا رہنے والا ہوں ۔

Narrated Salman:

I am from Ram-Hurmuz (i.e. a Persian town).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 283


172

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ فَتْرَةٌ بَيْنَ عِيسَى وَمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم سِتُّمِائَةِ سَنَةٍ‏.‏

مجھ سے حسن بن مدرک نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی ، انہیں عاصم احول نے ، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ،عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں فترت کا زمانہ ( یعنی جس میں کوئی پیغمبر نہیں آیا ) چھ سو برس کا وقفہ گزراہے ۔

Narrated Salman:

The interval between Jesus and Muhammad was six hundred years.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 284


18

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِلأَنْصَارِ ‏ “‏ إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي، وَمَوْعِدُكُمُ الْحَوْضُ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہاکہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : میرے بعد تم دیکھوگے کہ تم پر دوسروں کو فوقیت دی جائے گی ، پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو اور میری تم سے ملاقات حوض پر ہو گی ۔

Narrated Anas bin Malik:

The Prophet (ﷺ) said to the Ansar, “After me you will see others given preference to you; so be patient till you meet me, and your promised place (of meeting) will be the Tank (i.e. Lake of Kauthar).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 137


19

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ حِينَ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْوَلِيدِ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الأَنْصَارَ إِلَى أَنْ يُقْطِعَ لَهُمُ الْبَحْرَيْنِ‏.‏ فَقَالُوا لاَ، إِلاَّ أَنْ تُقْطِعَ لإِخْوَانِنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مِثْلَهَا‏.‏ قَالَ ‏ “‏ إِمَّا لاَ، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي، فَإِنَّهُ سَيُصِيبُكُمْ بَعْدِي أُثْرَةٌ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا….جب وہ انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے یہاں جانے کے لیے نکلے…. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں ، انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو جب آج تم قبول نہیں کرتے ہو تو پھر میرے بعد بھی صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو ، کیونکہ میرے بعد قریب ہی تمہاری حق تلفی ہونے والی ہے ۔

Narrated Yahya bin Sa`id:

That he heard Anas bin Malik when he went with him to Al-Walid, saying, “Once the Prophet (ﷺ) called the Ansar in order to give them the territory of Bahrain they said, ‘No, unless you give to our emigrant brethren a similar share.’ On that he said ‘If you do not agree to it, then be patient till you meet me, for after me others will be given preference to you.”‘

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 138


2

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ بُعَاثَ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَدِ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ، وَقُتِلَتْ سَرَوَاتُهُمْ، وَجُرِّحُوا، فَقَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فِي دُخُولِهِمْ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہبعاث کی جنگ کو ( جو اسلام سے پہلے اوس اور خزرج میں ہوئی تھی ) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مفاد میں پہلے ہی مقدم کر رکھا تھا چنانچہ جب آپ مدینہ میں تشریف لائے تو یہ قبائل آپس کی پھوٹ کا شکار تھے اور ان کے سردار کچھ قتل کئے جا چکے تھے ، کچھ زخمی تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو آپ سے پہلے اس لیے مقدم کیا تھا تاکہ وہ آپ کے تشریف لاتے ہی مسلمان ہو جائیں ۔

Narrated `Aisha:

The day of Bu’ath (i.e. Day of fighting between the two tribes of the Ansar, the Aus and Khazraj) was brought about by Allah for the good of His Apostle so that when Allah’s Messenger (ﷺ) reached (Medina), the tribes of Medina had already divided and their chiefs had been killed and wounded. So Allah had brought about the battle for the good of H is Apostle in order that they (i.e. the Ansar) might embrace Islam.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 121


20

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِيَاسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَةِ، فَأَصْلِحِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ ‏”‏‏.‏ وَعَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ، وَقَالَ فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوایاس نے بیان کیا ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( خندق کھودتے وقت ) فرمایا حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے ، پس اے اللہ ! انصار اور مہاجرین پر اپنا کرم فرما اور قتادہ سے روایت ہے ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح ، اور انہوں نے بیان کیا اس میں یوں ہے ” پس انصار کی مغفرت فرما دے “ ۔

Narrated Anas bin Malik:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “There is no life except the life of the Hereafter; so, O Allah! Improve the state of the Ansar and the Muhajirun.” And Anas added that the Prophet (ﷺ) also said, “O Allah! Forgive the Ansar.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 139


21

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ تَقُولُ نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا عَلَى الْجِهَادِ مَا حَيِينَا أَبَدَا فَأَجَابَهُمُ اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْ فَأَكْرِمِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سناآپ نے فرمایا کہ انصار غزوہ خندق کے موقعہ پر ( خندق کھودتے ہوئے ) یہ شعر پڑھتے تھے ” ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جہاد پر بیعت کی ہے ، جب تک ہماری جان میں جان ہے “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جب یہ سنا تو ) اس کے جواب میں یوں فرمایا : ” اے اللہ ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی حقیقی زندگی نہیں ہے ، پس انصار اور مہاجرین پر اپنا فضل و کرم فرما ۔ “

Narrated Anas bin Malik:

On the day of the battle of the Trench (i.e. Ghazwat-ul-Khandaq) the Ansar used to say, “We are those who have given the pledge of allegiance to Muhammad for Jihad (i.e. holy fighting) as long as we live.” The Prophet (ﷺ) , replied to them, “O Allah! There is no life except the life of the Hereafter; so please honor the Ansar and the Emigrants.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 140


22

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَادِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن حازم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے ۔ اس وقت آپ نے یہ دعا فرمائی ” اے اللہ ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی حقیقی زندگی نہیں ، پس انصار اور مہاجرین کی تو مغفرت فرما ۔ “

Narrated Sahl:

Allah’s Messenger (ﷺ) came to us while we were digging the trench and carrying out the earth on our backs. Allah’s Messenger (ﷺ) then said, “O Allah ! There is no life except the life of the Hereafter, so please forgive the Emigrants and the Ansar.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 141


23

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَجُلاً، أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ فَقُلْنَ مَا مَعَنَا إِلاَّ الْمَاءُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ يَضُمُّ، أَوْ يُضِيفُ هَذَا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ أَنَا‏.‏ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ مَا عِنْدَنَا إِلاَّ قُوتُ صِبْيَانِي‏.‏ فَقَالَ هَيِّئِي طَعَامَكِ، وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً‏.‏ فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، فَجَعَلاَ يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلاَنِ، فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ ضَحِكَ اللَّهُ اللَّيْلَةَ ـ أَوْ عَجِبَ ـ مِنْ فَعَالِكُمَا ‏”‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‏}‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن داود نے بیان کیا ، ان سے فضیل بن غزوان نے ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہایک صاحب ( خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے ، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا ۔ ( تاکہ ان کو کھانا کھلادیں ) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کی کون مہمانی کرے گا ؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا ۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر ، بیوی نے کہا کہ گھر میںبچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے ، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلالو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلادو ۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلادیا اور اپنے بچوں کو ( بھوکا ) سلادیا ، پھر وہ دکھاتو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا ، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں ، لیکن ان دونوں نے ( اپنے بچوں سمیت رات ) فاقہ سے گزار دی ، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا ( یہ فرمایا کہ اسے ) پسند کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور وہ ( انصار ) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر ( دوسرے غریب صحابہ کو ) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “

Narrated Abu Huraira:

A man came to the Prophet. The Prophet (ﷺ) sent a messenger to his wives (to bring something for that man to eat) but they said that they had nothing except water. Then Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Who will take this (person) or entertain him as a guest?” An Ansar man said, “I.” So he took him to his wife and said to her, “Entertain generously the guest of Allah’s Messenger (ﷺ) ” She said, “We have got nothing except the meals of my children.” He said, “Prepare your meal, light your lamp and let your children sleep if they ask for supper.” So she prepared her meal, lighted her lamp and made her children sleep, and then stood up pretending to mend her lamp, but she put it off. Then both of them pretended to be eating, but they really went to bed hungry. In the morning the Ansari went to Allah’s Messenger (ﷺ) who said, “Tonight Allah laughed or wondered at your action.” Then Allah revealed: “But give them (emigrants) preference over themselves even though they were in need of that And whosoever is saved from the covetousness Such are they who will be successful.” (59.9)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 142


24

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، أَخُو عَبْدَانَ حَدَّثَنَا أَبِي، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ ـ رضى الله عنهما ـ بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْكُونَ، فَقَالَ مَا يُبْكِيكُمْ قَالُوا ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنَّا‏.‏ فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ ـ قَالَ ـ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَقَدْ عَصَبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ ـ قَالَ ـ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ أُوصِيكُمْ بِالأَنْصَارِ، فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي، وَقَدْ قَضَوُا الَّذِي عَلَيْهِمْ، وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ، فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ‏”‏‏.‏

مجھ سے ابوعلی محمد بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدان کے بھائی شاذان نے بیان کیا ، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ، ہمیں شعبہ بن حجاج نے خبر دی ، ان سے ہشام بن زید نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہحضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما انصار کی ایک مجلس سے گزرے ، دیکھا کہ تمام اہل مجلس رورہے ہیں ، پوچھا آپ لوگ کیوں رورہے ہیں ؟ مجلس والوں نے کہا کہ ابھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کو یاد کر رہے تھے جس میں ہم بیٹھا کرتے تھے ( یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کا واقعہ ہے ) اس کے بعد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی ، بیان کیا کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ، سرمبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور اس کے بعد پھر کبھی منبر پر آپ تشریف نہ لا سکے ، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم و جان ہیں ، انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیے تھا ، وہ ملنا ابھی باقی ہے ، اس لیے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرتے رہنا ۔

Narrated Anas bin Malik:

Abu Bakr and Al-`Abbas passed by one of the gatherings of the Ansar who were weeping then. He (i.e. Abu Bakr or Al-`Abbas) asked, “Why are you weeping?” They replied, “We are weeping because we remember the gathering of the Prophet (ﷺ) with us.” So Abu Bakr went to the Prophet (ﷺ) and told him of that. The Prophet (ﷺ) came out, tying his head with a piece of the hem of a sheet. He ascended the pulpit which he never ascended after that day. He glorified and praised Allah and then said, “I request you to take care of the Ansar as they are my near companions to whom I confided my private secrets. They have fulfilled their obligations and rights which were enjoined on them but there remains what is for them. So, accept the good of the good-doers amongst them and excuse the wrongdoers amongst them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 143


25

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ، سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ، مُتَعَطِّفًا بِهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ، وَعَلَيْهِ عِصَابَةٌ دَسْمَاءُ حَتَّى جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ أَمَّا بَعْدُ، أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّ النَّاسَ يَكْثُرُونَ وَتَقِلُّ الأَنْصَارُ، حَتَّى يَكُونُوا كَالْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ، فَمَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ أَمْرًا يَضُرُّ فِيهِ أَحَدًا أَوْ يَنْفَعُهُ، فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابن غسیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا میں نے عکرمہ سے سنا ، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں شانوں پر چادر اوڑھے ہوئے تھے ، اور ( سرمبارک پر ) ایک سیاہ پٹی ( بندھی ہوئی تھی ) آپ منبرپر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : امابعد ا ے لوگو ! دوسروں کی تو بہت کثرت ہو جائے گی لیکن انصار کم ہو جائیں گے اور وہ ایسے ہو جائیں گے جیسے کھانے میں نمک ہوتا ہے ، پس تم میں سے جو شخص بھی کسی ایسے محکمہ میں حاکم ہو جس کے ذریعہ کسی کو نقصان ونفع پہنچا سکتا ہو تو اسے انصار کے نیکوکاروں کی پذیرائی کرنی چاہیے ۔ اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرنا چاہیے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Allah’s Messenger (ﷺ) (in his fatal illness) came out wrapped in a sheet covering his shoulders and his head was tied with an oily tape of cloth till he sat on the pulpit, and after praising and glorifying Allah, he said, “Then-after, O people! The people will go on increasing, but the Ansar will go on decreasing till they become just like salt in a meal. So whoever amongst you will be the ruler and have the power to harm or benefit others, should accept the good of the good-doers amongst them and excuse the wrongdoers amongst them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 144


26

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الأَنْصَارُ كَرِشِي وَعَيْبَتِي، وَالنَّاسُ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ، فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن بشارنے بیان کیا ، ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، انصار میرے جسم و جان ہیں ، ایک دور آئے گا کہ دوسرے لوگ تو بہت ہو جائیں گے ، لیکن انصار کم رہ جائیں گے ، اس لیے ان کے نیکوکاروں کی پذیرائی کیا کرنا ، اور خطا کاروں سے درگزر کیا کرنا ۔

Narrated Anas bin Malik:

The Prophet (ﷺ) said, “The Ansar are my near companions to whom I confided my private secrets, People will go on increasing but the Ansar will go on decreasing; so accept the good of the good-doers amongst them and excuse the wrong-doers amongst them. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 145


27

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ أُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حُلَّةُ حَرِيرٍ، فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَمَسُّونَهَا وَيَعْجَبُونَ مِنْ لِينِهَا فَقَالَ ‏ “‏ أَتَعْجَبُونَ مِنْ لِينِ هَذِهِ لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ خَيْرٌ مِنْهَا ‏”‏‏.‏ أَوْ أَلْيَنُ‏.‏ رَوَاهُ قَتَادَةُ وَالزُّهْرِيُّ سَمِعَا أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا مجھ سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواسحٰق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ میں ایک ریشمی حلہ آیا تو صحابہ اسے چھونے لگے اور اس کی نرمی اور نزاکت پر تعجب کرنے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تمہیں اس کی نرمی پر تعجب ہے ، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال ( جنت میں ) اس سے کہیں بہتر ہیں یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) اس سے کہیں زیادہ نرم و نازک ہیں ، اس حدیث کی روایت قتادہ اور زہری نے بھی کی ہے ، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Al-Bara:

A silken cloth was given as a present to the Prophet (ﷺ) . His companions started touching it and admiring its softness. The Prophet (ﷺ) said, “Are you admiring its softness? The handkerchiefs of Sa`d bin Mu`adh (in Paradise) are better and softer than it.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 146


28

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ، خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ ـ رضى الله عنه ـ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ‏”‏‏.‏ وَعَنِ الأَعْمَشِ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ لِجَابِرٍ فَإِنَّ الْبَرَاءَ يَقُولُ اهْتَزَّ السَّرِيرُ‏.‏ فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَيَّيْنِ ضَغَائِنُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ کے داماد فضل بن مساور نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے ، ان سے ابوسفیان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا اور اعمش سے روایت ہے ، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ، ایک صاحب نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براء رضی اللہ عنہ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ چارپائی جس پر معاذ رضی اللہ عنہ کی نعش رکھی ہوئی تھی ، ہل گئی تھی ، حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کہا ان دونوں قبیلوں ( اوس اور خزرج ) کے درمیان ( زمانہ جاہلیت میں ) دشمنی تھی ، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش رحمن ہل گیا تھا ۔

Narrated Jabir:

I heard the Prophet (ﷺ) saying, “The Throne (of Allah) shook at the death of Sa`d bin Mu`adh.” Through another group of narrators, Jabir added, “I heard the Prophet (ﷺ) : saying, ‘The Throne of the Beneficent shook because of the death of Sa`d bin Mu`adh.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 147


29

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ أُنَاسًا نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ، فَلَمَّا بَلَغَ قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قُومُوا إِلَى خَيْرِكُمْ أَوْ سَيِّدِكُمْ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ يَا سَعْدُ، إِنَّ هَؤُلاَءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ حَكَمْتَ بِحُكْمِ اللَّهِ، أَوْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن عر عرہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے سعد بن ابراہیم نے ، ان سے ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک قوم ( یہود بنی قریظہ ) نے سعد بن معاذ رضی اللہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے تو انہیں بلانے کے لیے آدمی بھیجا گیا اور وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ، جب اس جگہ کے قریب پہنچے جسے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جنگ میں ) نماز پڑھنے کے لیے منتخب کیا ہوا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے سب سے بہتر شخص کے لیے یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ) اپنے سردار کو لینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے سعد ! انہوں نے تم کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے ہیں ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے جو لوگ جنگ کرنے والے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں ، بچوں کو جنگی قیدی بنا لیا جائے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) فرشتے کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri:

Some people (i.e. the Jews of Bani bin Quraiza) agreed to accept the verdict of Sa`d bin Mu`adh so the Prophet (ﷺ) sent for him (i.e. Sa`d bin Mu`adh). He came riding a donkey, and when he approached the Mosque, the Prophet (ﷺ) said, “Get up for the best amongst you.” or said, “Get up for your chief.” Then the Prophet (ﷺ) said, “O Sa`d! These people have agreed to accept your verdict.” Sa`d said, “I judge that their warriors should be killed and their children and women should be taken as captives.” The Prophet said, “You have given a judgment similar to Allah’s Judgment (or the King’s judgment).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 148


3

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ ـ وَأَعْطَى قُرَيْشًا ـ وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ، إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَاءِ قُرَيْشٍ، وَغَنَائِمُنَا تُرَدُّ عَلَيْهِمْ‏.‏ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَدَعَا الأَنْصَارَ قَالَ فَقَالَ ‏”‏ مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ ‏”‏‏.‏ وَكَانُوا لاَ يَكْذِبُونَ‏.‏ فَقَالُوا هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَوَلاَ تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلَى بُيُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى بُيُوتِكُمْ لَوْ سَلَكَتِ الأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابوالتیاح نے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہفتح مکہ کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ( غزوہ حنین کی ) غنیمت کا سارا مال دے دیا تو بعض نوجوان انصار یوں نے کہا ( اللہ کی قسم ! ) یہ تو عجیب بات ہے ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے اور ہمارا حاصل کیا ہوا مال غنیمت صرف انہیں دیا جا رہا ہے ، اس کی خبر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے انصار کو بلایا ، انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو خبر مجھے ملی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟ انصار لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے انہوں نے عرض کر دیا کہ آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس سے خوش اور راضی نہیں ہو کہ جب سب لوگ غنیمت کا مال لے کر اپنے گھروں کو واپس ہوں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ گے ؟ انصار جس نالے یا گھاٹی میں چلیں گے تو میں بھی اسی نالے یا گھاٹی میں چلوں گا ۔

Narrated Anas:

On the day of the Conquest of Mecca, when the Prophet (ﷺ) had given (from the booty) the Quraish, the Ansar said, “By Allah, this is indeed very strange: While our swords are still dribbling with the blood of Quraish, our war booty are distributed amongst them.” When this news reached the Prophet (ﷺ) he called the Ansar and said, “What is this news that has reached me from you?” They used not to tell lies, so they replied, “What has reached you is true.” He said, “Doesn’t it please you that the people take the booty to their homes and you take Allah’s Messenger (ﷺ) to your homes? If the Ansar took their way through a valley or a mountain pass, I would take the Ansar’s valley or a mountain pass.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 122


30

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَجُلَيْنِ، خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَإِذَا نُورٌ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا حَتَّى تَفَرَّقَا، فَتَفَرَّقَ النُّورُ مَعَهُمَا‏.‏ وَقَالَ مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ وَرَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ‏.‏ قَالَ حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ كَانَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے حبان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ، انہیں قتادہ نے خبر دی اور انہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر دو صحابی ایک تاریک رات میں ( اپنے گھر کی طرف ) جانے لگے تو ایک غیبی نور ان کے آگے آگے چل رہا تھا ، پھر جب وہ جدا ہوئے تو ان کے ساتھ ساتھ وہ نور بھی الگ الگ ہو گیا اور معمر نے ثابت سے بیان کیا اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے انصاری صحابی ( کے ساتھ یہ کرامت پیش آئی تھی ) اور حماد نے بیان کیا ، انہیں ثابت نے خبر دی اور انہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما کے ساتھ یہ کرامت پیش آئی تھی ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔

Narrated Anas:

Two men left the Prophet (ﷺ) on a very dark night. Suddenly a light came in front of them, and when they separated, the light also separated along with them.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 149


31

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأُبَىٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن چار ( حضرات صحابہ ) عبداللہ بن مسعود ، ابوحذیفہ کے غلام سالم اور ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے سیکھو ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr:

I heard the Prophet (ﷺ) saying, “Learn the recitation of Qur’an from four persons: Ibn Mas`ud, Salim, the freed slave of Abu Hudhaifa, Ubai and Mu`adh bin Jabal.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 150


32

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ خَيْرُ دُورِ الأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الأَشْهَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ وَفِي كُلِّ دُورِ الأَنْصَارِ خَيْرٌ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ ـ وَكَانَ ذَا قِدَمٍ فِي الإِسْلاَمِ ـ أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا‏.‏ فَقِيلَ لَهُ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَى نَاسٍ كَثِيرٍ‏.‏

ہم سے اسحٰق نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انصار کا بہترین گھرانہ بنو نجار کا گھرانہ ہے ، پھر بنو عبدالاشھل کا ، پھر بنو عبدالحارث کا ، پھر بنو ساعدہ کا اور خیر انصار کے تمام گھرانوں میں ہے ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اور وہ اسلام قبول کرنے میں بڑی قدامت رکھتے تھے کہ میرا خیال ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر دوسروں کو فضیلت دے دی ہے ، ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کوبھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے ۔ ( اعتراض کی کیا بات ہے )

Narrated Abu Usaid:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “The best of the Ansar’s houses are those of Bani An-Najjar, then those of Bani `Abdul Ash-hal, then those of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, then those of Bani Saida; but there is goodness in all the houses of the Ansar.” Sa`d bin Ubada who was one of those who embraced Islam early, said, “I see that Allah’s Messenger (ﷺ) is giving others superiority above us.” Some people said to him, “But he has given you superiority above many other people.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 152


33

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ ذُكِرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ ذَاكَ رَجُلٌ لاَ أَزَالُ أُحِبُّهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ فَبَدَأَ بِهِ ـ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن مرہ نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی مجلس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہاس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں بیٹھ گئی جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے نام سے ابتداء کی ، اور ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم سے ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ۔

Narrated Masruq:

`Abdullah bin Masud was mentioned before `Abdullah bin `Amr who said, “That is a man I still love, as I heard the Prophet (ﷺ) saying ‘Learn the recitation of Qur’an from four from `Abdullah bin Mas`ud — he started with him–Salim, the freed slave of Abu Hudaifa, Mu`adh bin Jabal and Ubai bin Ka`b.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 153


34

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأُبَىٍّ ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ ‏{‏لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا‏}‏ ‏”‏‏.‏ قَالَ وَسَمَّانِي قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ فَبَكَى‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے شعبہ سے سنا ، انہوں نے قتادہ سے سنا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو سورۃ ” لم يكن الذين كفروا‏ “ سناؤں ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ، اس پر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرط مسرت سے رونے لگے ۔

Narrated Anas bin Malik:

The Prophet (ﷺ) said to Ubai, “Allah has ordered me to recite to you: ‘Those who disbelieve (Surat-al- Bayina 98).’ ” Ubai said, “Has He mentioned my name?” The Prophet (ﷺ) said, “Yes.” On hearing this, Ubai started weeping.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 154


35

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ أُبَىٌّ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَبُو زَيْدٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ‏.‏ قُلْتُ لأَنَسِ مَنْ أَبُو زَيْدٍ قَالَ أَحَدُ عُمُومَتِي‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار آدمی جن سب کا تعلق قبیلہ انصار سے تھا ، قرآن مجید جمع کرنے والے تھے ، ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، ابوزید اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ، میں نے پوچھا : ابوزید کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ میرے ایک چچا ہیں ۔

Narrated Qatada:

Anas said, “The Qur’an was collected in the lifetime of the Prophet (ﷺ) by four (men), all of whom were from the Ansar: Ubai, Mu`adh bin Jabal, Abu Zaid and Zaid bin Thabit.” I asked Anas, “Who is Abu Zaid?” He said, “One of my uncles.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 155


36

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَىِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُجَوِّبٌ بِهِ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ لَهُ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلاً رَامِيًا شَدِيدَ الْقِدِّ، يَكْسِرُ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، وَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ فَيَقُولُ انْشُرْهَا لأَبِي طَلْحَةَ‏.‏ فَأَشْرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، لاَ تُشْرِفْ يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ‏.‏ وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا، تُنْقِزَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلآنِهَا، ثُمَّ تَجِيآنِ فَتُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَىْ أَبِي طَلْحَةَ إِمَّا مَرَّتَيْنِ، وَإِمَّا ثَلاَثًا‏.‏

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہاحد کی لڑائی کے موقعہ پر جب صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ادھر ادھر چلنے لگے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت اپنی ایک ڈھال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہے تھے حضرت ابوطلحہ بڑے تیرانداز تھے اور خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے ، چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں انہوں نے توڑ دی تھیں ، اس وقت اگر کوئی مسلمان ترکش لیے ہوئے گزرتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اس کے تیر ابوطلحہ کو دے دو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے یا نبی اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، اچک کر ملاحظہ نہ فرمائیں ، کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے ، میرا سینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کی ڈھال بنا رہا اور میں نے عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ام سلیم ( ابوطلحہ کی بیوی ) کو دیکھا کہ اپنا ازار اٹھائے ہوئے ( غازیوں کی مدد میں ) بڑی تیزی کے ساتھ مشغول تھیں ۔ ( اس خدمت میں ان کے انہماک و استغراق کی وجہ سے انہیں کپڑوں تک کا ہوش نہ تھا یہاں تک کہ ) میں ان کی پنڈلیوں کے زیور دیکھ سکتا تھا ۔ انتہائی جلدی کے ساتھ مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے جاتی تھیں اور مسلمانوں کو پلا کر واپس آتی تھیں اور پھر انہیں بھر کر لے جاتیں اور ان کا پانی مسلمانوں کو پلاتیں اور ابوطلحہ کے ہاتھ سے اس دن دو یا تین مرتبہ تلوار چھوٹ کر گر پڑی تھی ۔

Narrated Anas:

On the day of the battle of Uhud, the people ran away, leaving the Prophet (ﷺ) , but Abu- Talha was shielding the Prophet (ﷺ) with his shield in front of him. Abu Talha was a strong, experienced archer who used to keep his arrow bow strong and well stretched. On that day he broke two or three arrow bows. If any man passed by carrying a quiver full of arrows, the Prophet (ﷺ) would say to him, “Empty it in front of Abu Talha.” When the Prophet (ﷺ) stated looking at the enemy by raising his head, Abu Talha said, “O Allah’s Prophet! Let my parents be sacrificed for your sake! Please don’t raise your head and make it visible, lest an arrow of the enemy should hit you. Let my neck and chest be wounded instead of yours.” (On that day) I saw `Aisha, the daughter of Abu Bakr and Um Sulaim both lifting their dresses up so that I was able to see the ornaments of their legs, and they were carrying the water skins of their arms to pour the water into the mouths of the thirsty people and then go back and fill them and come to pour the water into the mouths of the people again. (On that day) Abu Talha’s sword fell from his hand twice or thrice.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 156


37

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ سَمِعْتُ مَالِكًا، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لأَحَدٍ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‏.‏ إِلاَّ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ وَفِيهِ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ‏}‏ الآيَةَ‏.‏ قَالَ لاَ أَدْرِي قَالَ مَالِكٌ الآيَةَ أَوْ فِي الْحَدِيثِ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا ، وہ عمربن عبیداللہ کے مولیٰ ابونضر کے واسطے سے بیان کرتے ہیں ، وہ عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اور ان سے ان کے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کے متعلق یہ نہیں سنا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ، بیان کیا کہ آیت ( ( وشهد شاهد من بني إسرائيل‏ ) ) ( الاحقاف : 10 ) انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( راوی حدیث عبداللہ بن یوسف نے ) بیان کیا کہ آیت کے نزول کے متعلق مالک کا قول ہے یا حدیث میں اسی طرح تھا ۔

Narrated Sa`d bin Abi Waqqas:

I have never heard the Prophet (ﷺ) saying about anybody walking on the earth that he is from the people of Paradise except `Abdullah bin Salam. The following Verse was revealed concerning him: “And a witness from the children of Israel testifies that this Qur’an is true” (46.10)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 157


38

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ السَّمَّانُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ كُنْتُ جَالِسًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ عَلَى وَجْهِهِ أَثَرُ الْخُشُوعِ، فَقَالُوا هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‏.‏ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ تَجَوَّزَ فِيهِمَا ثُمَّ خَرَجَ، وَتَبِعْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّكَ حِينَ دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ قَالُوا هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‏.‏ قَالَ وَاللَّهِ مَا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لاَ يَعْلَمُ وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، وَرَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ ـ ذَكَرَ مِنْ سَعَتِهَا وَخُضْرَتِهَا ـ وَسْطَهَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ، أَسْفَلُهُ فِي الأَرْضِ وَأَعْلاَهُ فِي السَّمَاءِ، فِي أَعْلاَهُ عُرْوَةٌ فَقِيلَ لَهُ ارْقَهْ‏.‏ قُلْتُ لاَ أَسْتَطِيعُ‏.‏ فَأَتَانِي مِنْصَفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي مِنْ خَلْفِي، فَرَقِيتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلاَهَا، فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقِيلَ لَهُ اسْتَمْسِكْ‏.‏ فَاسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي، فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ تِلْكَ الرَّوْضَةُ الإِسْلاَمُ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الإِسْلاَمِ، وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى، فَأَنْتَ عَلَى الإِسْلاَمِ حَتَّى تَمُوتَ ‏”‏‏.‏ وَذَاكَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ‏.‏ وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ، عَنِ ابْنِ سَلاَمٍ، قَالَ وَصِيفٌ مَكَانَ مِنْصَفٌ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ازہرسمان نے بیان کیا ، ان سے ابوعوانہ نے ، ان سے محمد نے اور ان سے قیس بن عبادنے بیان کیا کہمیں مسجدنبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پرخشوع وخضوع کے آثار ظاہر تھے لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنتی لوگوں میں سے ہیں ، پھر انہوں نے دو رکعت نماز مختصرطریقہ پر پڑھی اور باہر نکل گئے میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کیا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنت والوں میں سے ہیں ، اس پر انہوں نے کہا خدا کی قسم ! کسی کے لیے ایسی بات زبان سے نکالنا مناسب نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو اور میں تمہیں بتاؤں گا کہ ایسا کیوں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ، میں نے ایک خواب دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے بیان کیا میں نے خواب یہ دیکھا تھا کہ جیسے میں ایک باغ میں ہوں ، پھر انہوں نے اس کی وسعت اور اس کے سبزہ زاروں کا ذکر کیا اس باغ کے درمیان میں ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلاحصہ زمین میں ہے اور اوپر کا آسمان پر اور اس کی چوٹی پر ایک گھنا درخت ہے ، ( العروۃ ) مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے اتنے میں ایک خادم آیا اور پیچھے سے میرے کپڑے اس نے اٹھائے تو میں چڑھ گیا اور جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے اس گھنے درخت کو پکڑ لیا مجھ سے کہا گیا کہ اس درخت کو پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے ، ابھی میں اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ، یہ خواب جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو باغ تم نے دیکھا ہے ، وہ تواسلام ہے اور اس میں ستون اسلام کاستون ہے اور عروہ ( گھنادرخت ) العروۃ الوثقی ہے اس لیے تم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہو گے ، یہ بزرگ حضرت عبداللہ بن سلام تھے اورمجھ سے خلیفہ نے بیان کیا ان سے معاذ نے بیان کیا ان سے ابن عون نے بیان کیا ان سے محمدنے ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے انہوں نے منصف ( خادم ) کے بجائے وصیف کا لفظ ذکر کیا ۔

Narrated Qais bin Ubad:

While I was sitting in the Mosque of Medina, there entered a man (Abdullah bin Salam) with signs of solemnity over his face. The people said, “He is one of the people of Paradise.” He prayed two light rak`at and then left. I followed him and said, “When you entered the Mosque, the people said, ‘He is one of the people of Paradise.’ ” He said, “By Allah, one ought not say what he does not know; and I will tell you why. In the lifetime of the Prophet (ﷺ) I had a dream which I narrated to him. I saw as if I were in a garden.” He then described its extension and greenery. He added: In its center there was an iron pillar whose lower end was fixed in the earth and the upper end was in the sky, and at its upper end there was a (ring-shaped) hand-hold. I was told to climb it. I said, “I can’t.” “Then a servant came to me and lifted my clothes from behind and I climbed till I reached the top (of the pillar). Then I got hold of the hand-hold, and I was told to hold it tightly, then I woke up and (the effect of) the handhold was in my hand. I narrated al I that to the Prophet (ﷺ) who said, ‘The garden is Islam, and the handhold is the Most Truth-worthy Hand-Hold. So you will remain as a Muslim till you die.” The narrator added: “The man was `Abdullah bin Salam.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 158


39

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ ـ رضى الله عنه ـ فَقَالَ أَلاَ تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا، وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ، أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ، فَلاَ تَأْخُذْهُ، فَإِنَّهُ رِبًا‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّضْرُ وَأَبُو دَاوُدَ وَوَهْبٌ عَنْ شُعْبَةَ الْبَيْتَ‏.‏

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہمیں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ، انہوں نے کہا ، آو تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہو گے ( کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے گئے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے ، نضر ابوداؤد اور وہب نے ( اپنی روایتوں میں ) البیت ( گھر ) کا ذکر نہیں کیا ۔

Narrated Abu Burda:

When I came to Medina. I met `Abdullah bin Salam. He said, “Will you come to me so that I may serve you with Sawiq (i.e. powdered barley) and dates, and let you enter a (blessed) house that in which the Prophet (ﷺ) entered?” Then he added, “You are In a country where the practice of Riba (i.e. usury) is prevalent; so if somebody owe you something and he sends you a present of a load of chopped straw or a load of barley or a load of provender then do not take it, as it is Riba.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 159


4

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَوْ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَوْ أَنَّ الأَنْصَارَ سَلَكُوا وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ فِي وَادِي الأَنْصَارِ، وَلَوْلاَ الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ مَا ظَلَمَ بِأَبِي وَأُمِّي، آوَوْهُ وَنَصَرُوهُ‏.‏ أَوْ كَلِمَةً أُخْرَى‏.‏

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے محمد بن زیاد نے ، ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ( یوں بیان کیا کہ ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انصار جس وادی یا گھاٹی میں جائیں تو میں بھی انہیں کی وادی میں جاؤں گا ۔ اور اگر میں ہجرت نہ کرتا تو میں انصار کا ایک فرد ہونا پسند کرتا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ نے یہ کوئی ظلم والی بات نہیں فرمائی آپ کو انصار نے اپنے یہاں ٹھہرایا اور آپ کی مدد کی تھی یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ( اس کے ہم معنی ) اور کوئی دوسرا کلمہ کہا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) or Abul-Qasim said, “If the Ansar took their way through a valley or a mountain pass, I would take Ansar’s valley. And but for the migration, I would have been one of the Ansar.” Abu Huraira used to say, “The Prophet (ﷺ) is not unjust (by saying so). May my parents be sacrificed for him, for the Ansar sheltered and helped him,” or said a similar sentence.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 123


40

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ح حَدَّثَنِي صَدَقَةُ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنهم ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمدنے بیان کیا ، کہا ہم کو خبر دی عبدہ نے ، انہیں ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن جعفرسے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( دوسری سند ) اور مجھ سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی ، انہیں ہشام نے ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن جعفرسے سنا انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اپنے زمانے میں ) حضرت مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور ( اس امت میں ) حضرت خدیجہ ( رضی اللہ عنہا ) سب سے افضل ہیں ۔

Narrated `Ali:

I heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying (as below)

Narrated `Ali:

The Prophet (ﷺ) said, “The best of the world’s women is Mary (at her lifetime), and the best of the world’s women is Khadija (at her lifetime).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 162


41

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ كَتَبَ إِلَىَّ هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي، لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا، وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلاَئِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ‏.‏

ہم سے سعید بن عفیرنے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، کہا کہہشام نے میرے پاس اپنے والد ( عروہ ) سے لکھ کر بھیجا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں ، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے معاملہ ، میں محسوس کرتی تھی ، وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ انہیں ( جنت میں ) موتی کے محل کی خوش خبر دی سنا دیں ، آنخصرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا ۔

Narrated `Aisha:

I did not feel jealous of any of the wives of the Prophet (ﷺ) as much as I did of Khadija (although) she died before he married me, for I often heard him mentioning her, and Allah had told him to give her the good tidings that she would have a palace of Qasab (i.e. pipes of precious stones and pearls in Paradise), and whenever he slaughtered a sheep, he would send her women-friends a good share of it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 164


42

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، مِنْ كَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِيَّاهَا‏.‏ قَالَتْ وَتَزَوَّجَنِي بَعْدَهَا بِثَلاَثِ سِنِينَ، وَأَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ جِبْرِيلُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں ، میں جتنی غیرت محسوس کرتی تھی اتنی کسی عورت کے معاملے میں نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے ، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ان کی وفات کے تین سال بعد ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا یا جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ یہ پیغام پہنچایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیں ۔

Narrated `Aisha:

I did not feel jealous of any woman as much as I did of Khadija because Allah’s Messenger (ﷺ) used to mention her very often. He married me after three years of her death, and his Lord (or Gabriel) ordered him to give her the good news of having a palace of Qasab in Paradise.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 165


43

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَنٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَا رَأَيْتُهَا، وَلَكِنْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ، ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلاَّ خَدِيجَةُ‏.‏ فَيَقُولُ إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ، وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ‏.‏

مجھ سے عمربن محمد بن حسن نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے حفص نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوںمیںجتنی غیرت مجھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی ، حالانکہ انہیں میں نے دیکھابھی نہیں تھا ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کاذکربکثرت فرمایاکرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے میں نے اکثرحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جیسے دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اورایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے ۔

Narrated `Aisha:

I did not feel jealous of any of the wives of the Prophet (ﷺ) as much as I did of Khadija though I did not see her, but the Prophet (ﷺ) used to mention her very often, and when ever he slaughtered a sheep, he would cut its parts and send them to the women friends of Khadija. When I sometimes said to him, “(You treat Khadija in such a way) as if there is no woman on earth except Khadija,” he would say, “Khadija was such-and-such, and from her I had children.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 166


44

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ بَشَّرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَدِيجَةَ قَالَ نَعَمْ بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، لاَ صَخَبَ فِيهِ وَلاَ نَصَبَ‏.‏

ہم سے مسددنے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل نے بیان کیا کہمیں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبشارت دی تھی ؟ انہوں نے فرمایا کہ کہ ہاں ، جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دی تھی ، جہاں نہ کوئی شوروغل ہو گا اور نہ تھکن ہو گی ۔

Narrated Isma`il:

I asked `Abdullah bin Abi `Aufa, “Did the Prophet (ﷺ) give glad tidings to Khadija?” He said, “Yes, of a palace of Qasab (in Paradise) where there will be neither any noise nor any fatigue.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 167


45

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ، لاَ صَخَبَ فِيهِ وَلاَ نَصَبَ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ، ان سے عمارہ نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا ( فرمایا ) کھانایا ( فرمایا ) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجئیے گا اور میری طرف سے بھی ! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجئیے گا ، جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی ۔

Narrated Abu Huraira:

Gabriel came to the Prophet (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! This is Khadija coming to you with a dish having meat soup (or some food or drink). When she reaches you, greet her on behalf of her Lord (i.e. Allah) and on my behalf, and give her the glad tidings of having a Qasab palace in Paradise wherein there will be neither any noise nor any fatigue (trouble) . ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 168


46

وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتِ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاعَ لِذَلِكَ، فَقَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ هَالَةَ ‏”‏‏.‏ قَالَتْ فَغِرْتُ فَقُلْتُ مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ، حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ، هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ، قَدْ، أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا

اور اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، انہیں علی بن مسہرنے خبر دی ، انہیں ہشام نے ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہخدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلدنے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا اللہ ! یہ تو ہالہ ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے اس پر بڑی غیرت آئی ، میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی کس بوڑھی کا ذکر کیا کرتے ہیں جس کے مسوڑوں پر بھی دانتوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے ( صرف سرخی باقی رہ گئی تھی ) اور جسے مرے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے ۔

Narrated ‘Aisha:Once Hala bint Khuwailid, Khadija’s sister, asked the permission of the Prophet (ﷺ) to enter. On that, the Prophet (ﷺ) remembered the way Khadija used to ask permission, and that upset him. He said, “O Allah! Hala!” So I became jealous and said, “What makes you remember an old woman amongst the old women of Quraish an old woman (with a teethless mouth) of red gums who died long ago, and in whose place Allah has given you somebody better than her?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 168


47

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ قَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلاَ رَآنِي إِلاَّ ضَحِكَ‏.‏

ہم سے اسحاق واسطی نے بیان یا کہا ہم سے خالدنے بیان کیا ، ان سے بیان نے کہ میں نے قیس سے سنا ، انہوں نے بیان کیاکہحضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، جب سے میں اسلام میں داخل ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( گھرکے اندر آنے سے ) نہیں روکا ( جب بھی میں نے اجازت چاہی ) اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکراتے ۔

Narrated Jarir bin ‘Abdullah:

Allah’s Messenger (ﷺ) has never refused to admit me since I embraced Islam, and whenever he saw me, he would smile.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 160


48

وَعَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بَيْتٌ يُقَالَ لَهُ ذُو الْخَلَصَةِ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ الْكَعْبَةُ الْيَمَانِيَةُ، أَوِ الْكَعْبَةُ الشَّأْمِيَّةُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ هَلْ أَنْتَ مُرِيحِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَنَفَرْتُ إِلَيْهِ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ ـ قَالَ ـ فَكَسَرْنَا، وَقَتَلْنَا مَنْ وَجَدْنَا عِنْدَهُ، فَأَتَيْنَاهُ، فَأَخْبَرْنَاهُ، فَدَعَا لَنَا وَلأَحْمَسَ‏.‏

اور قیس سے روایت ہے کہ حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایازمانہ جاہلیت میں ” ذوالخلصہ “ نامی ایک بت کدہ تھا اسے ” الکعبۃ الیمانیۃ یا الکعبۃ الشامیۃ “ بھی کہتے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ” ذی الخلصہ “ کے وجودسے میں جس اذیت میں مبتلا ہوں ، کیا تم مجھے اس سے نجات دلا سکتے ہو ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو میں لے کر چلا ، انہوں نے بیان کیا اور ہم نے بت کدے کو ڈھا دیا اور اس میں جو تھے ان کو قتل کر دیا ، پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے اور قبیلہ احمس کے لیے دعا فرمائی ۔

Jarir bin ‘Abdullah narrated:There was a house called Dhul-Khalasa in the Pre-lslamic Period and it was also called Al-Ka’ba Al-Yamaniya or Al-Ka’ba Ash-Shamiya. Allah’s Messenger (ﷺ) said to me, “Will you relieve me from Dhul-Khalasa?” So I left for it with 150 cavalrymen from the tribe of Ahmas and then we destroyed it and killed whoever we found there. Then we came to the Prophet (ﷺ) and informed him about it. He invoked good upon us and upon the tribe of Ahmas.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 160


49

حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها قَالَتْ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ هَزِيمَةً بَيِّنَةً، فَصَاحَ إِبْلِيسُ أَىْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ، فَرَجَعَتْ أُولاَهُمْ عَلَى أُخْرَاهُمْ، فَاجْتَلَدَتْ أُخْرَاهُمْ، فَنَظَرَ حُذَيْفَةُ، فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ فَنَادَى أَىْ عِبَادَ اللَّهِ، أَبِي أَبِي‏.‏ فَقَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ‏.‏ قَالَ أَبِي فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ مِنْهَا بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏

مجھ سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلمہ بن رجاء نے ، انہیں ہشام بن عروہ نے ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہاحدکی لڑائی میں جب مشرکین ہارچکے تو ابلیس نے چلا کر کہا اے اللہ کے بندو ! پیچھے والوں کو ( قتل کرو ) چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے والوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیا ، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو ان کے والد ( یمان رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے انہوں نے پکار کر کہا اے اللہ کے بندو یہ تو میرے والد ہیں میرے والد ! عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اللہ کی قسم ! اس وقت تک لوگ وہاں سے نہیں ہٹے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا ، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے ، ( ہشام نے بیان کیا کہ ) اللہ کی قسم ! حذیفہ رضی اللہ عنہ برابر یہ کلمہ دعائیہ کہتے رہے ( کہ اللہ ان کے والد پر حملہ کرنے والوں کو بخشے جو کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے یہ حرکت کربیٹھے ) یہ دعا مرتے دم تک کرتے رہے ۔

Narrated `Aisha:

On the day of the battle of Uhud the pagans were defeated completely. Then Satan shouted loudly, “O Allah’s slaves! Beware the ones behind you!” So the front files attacked the back ones. Then Hudhaifa looked and saw his father, and said loudly, “O Allah’s slaves! My father! My father!” By Allah, they did not stop till they killed him (i.e. Hudaifa’s father). Hudhaifa said, “May Allah forgive you!” The sub-narrator said, “By Allah, because of what Hudhaifa said, he remained in a good state till he met Allah (i.e. died).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 161


5

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ آخَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي أَكْثَرُ الأَنْصَارِ مَالاً فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ، وَلِي امْرَأَتَانِ، فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَسَمِّهَا لِي أُطَلِّقْهَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا‏.‏ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، أَيْنَ سُوقُكُمْ فَدَلُّوهُ عَلَى سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَمَا انْقَلَبَ إِلاَّ وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ، ثُمَّ جَاءَ يَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَهْيَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ تَزَوَّجْتُ‏.‏ قَالَ ‏”‏ كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ‏.‏ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، شَكَّ إِبْرَاهِيمُ‏.‏

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے ان کے دادا نے کہجب مہاجر لوگ مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا ۔ سعدر ضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھامال لے لیں ۔ ، اور میری دوبیویاں ہیں ، آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا ۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں ، اس پر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تمہارے اہل اور مال میں برکت عطافرمائے تمہارا بازار کدھر ہے ؟ چنانچہ میں نے بنی قینقاع کا بازار انہیں بتا دیا ، جب وہاں سے کچھ تجارت کر کے لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ پنیر اور گھی تھا پھر وہ اسی طرح روزانہ صبح سویرے بازار میں چلے جاتے اور تجارت کرتے آخر ایک دن خدمت نبوی میں آئے تو ان کے جسم پر ( خوشبو کی ) زردی کا نشان تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے شادی کر لی ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مہر کتنا ادا کیا ہے ؟ عرض کیا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا ( یہ کہا کہ ) ایک گٹھلی کے وزن برابر سونا ادا کیا ہے ، یہ شک ابراہیم راوی کو ہوا ۔

Narrated Sa`d’s father:

When the emigrants reached Medina. Allah’s Messenger (ﷺ) established the bond of fraternity between `Abdur-Rahman and Sa`d bin Ar-Rabi. Sa`d said to `Abdur-Rahman, “I am the richest of all the Ansar, so I want to divide my property (between us), and I have two wives, so see which of the two you like and tell me, so that I may divorce her, and when she finishes her prescribed period (i.e. ‘Idda) of divorce, then marry her.” `Abdur-Rahman said, “May Allah bless your family and property for you; where is your market?” So they showed him the Qainuqa’ market. (He went there and) returned with a profit in the form of dried yogurt and butter. He continued going (to the market) till one day he came, bearing the traces of yellow scent. The Prophet (ﷺ) asked, “What is this (scent)?” He replied, “I got married.” The Prophet (ﷺ) asked, “How much Mahr did you give her?” He replied, “I gave her a datestone of gold or a gold piece equal to the weight of a date-stone.” (The narrator, Ibrahim, is in doubt as to which is correct.)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 124


50

وَقَالَ عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَىَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ‏.‏ قَالَ وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَىَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا قَالَ ‏ “‏ لاَ أُرَاهُ إِلاَّ بِالْمَعْرُوفِ ‏”‏‏.‏

اور عبدان نے بیان کیا ، انہیں عبداللہ نے نے خبر دی انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، ان سے عروہ نے بیان کیا کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ، حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد ) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ ! روئے زمین پر کسی گھرانی کی ذلت آپ کی گھرانی کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر انے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں ابھی اور ترقی ہو گی اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، پھر ہند نے کہا یا رسول اللہ ! ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے ( ان کی اجازت کے بغیر ) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستورکے مطابق ہونا چاہئے ۔

Narrated ‘Aishah (ra):Hind bint ‘Utba came and said, “O Allah’s Messenger! (Before I embraced Islam) there was no family on the surface of the earth I wished to see in degradation more than I did your family, but today there is no family on the surface of the earth I wish to see honored more than I did yours.” The Prophet (ﷺ) said, “I thought similarly, by Him in whose Hand my soul is!” She further said, “O Allah’s Messenger ! Abu Sufyan is a miser, so, is it sinful of me to feed my children from his property ?” He said, “I do not allow it unless you take for your needs what is just and reasonable.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 58, Hadith 161


51

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحَ، قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْوَحْىُ فَقُدِّمَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سُفْرَةٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا ثُمَّ قَالَ زَيْدٌ إِنِّي لَسْتُ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلاَّ مَا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ‏.‏ وَأَنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرٍو كَانَ يَعِيبُ عَلَى قُرَيْشٍ ذَبَائِحَهُمْ، وَيَقُولُ الشَّاةُ خَلَقَهَا اللَّهُ، وَأَنْزَلَ لَهَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ، وَأَنْبَتَ لَهَا مِنَ الأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُونَهَا عَلَى غَيْرِ اسْمِ اللَّهِ إِنْكَارًا لِذَلِكَ وَإِعْظَامًا لَهُ‏.‏

مجھ سے محمدبن ابی بکر نے بیان کیا ، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیدبن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے ( وادی ) بلدح کے نشیبی علاقہ میں ملاقات ہوئی ، یہ قصہ نزول وحی سے پہلے کا ہے ، پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دسترخوان بچھایا گیا تو زید بن عمرو بن نفیل نے کھانے سے انکارکر دیا اور جن لوگوں نے دسترخوان بچھایا تھا ان سے کہا کہ اپنے بتوں کے نام پر جو تم ذبیحہ کرتے ہو میں اسے نہیں کھاتا میں تو بس وہی ذبیحہ کھایا کرتا ہوں جس پر صرف اللہ کا نام لیا گیا ہو ، زید بن عمرو قریش پر ان کے ذبیحے کے بارے میں عیب لگایا کرتے اور کہتے تھے کہ بکری کو پیدا تو کیا اللہ تعالیٰ نے ، ا سی نے اس کے لیے آسمان سے پانی برسایا ہے اسی نے اس کے لیے زمین سے گھاس اگائی ، پھر تم لوگ اللہ کے سوا دوسرے ( بتوں کے ) ناموں پر اسے ذبح کرتے ہو ۔ زید نے یہ کلمات ان کے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہوئے اور ان کے اس عمل کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہے تھے ۔

Narrated ‘Abdullah bin ‘Umar:

The Prophet (ﷺ) met Zaid bin ‘Amr bin Nufail in the bottom of (the valley of) Baldah before any Divine Inspiration came to the Prophet. A meal was presented to the Prophet (ﷺ) but he refused to eat from it. (Then it was presented to Zaid) who said, “I do not eat anything which you slaughter in the name of your stone idols. I eat none but those things on which Allah’s Name has been mentioned at the time of slaughtering.” Zaid bin ‘Amr used to criticize the way Quraish used to slaughter their animals, and used to say, “Allah has created the sheep and He has sent the water for it from the sky, and He has grown the grass for it from the earth; yet you slaughter it in other than the Name of Allah. He used to say so, for he rejected that practice and considered it as something abominable.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 169


52

قَالَ مُوسَى حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَلاَ أَعْلَمُهُ إِلاَّ تُحُدِّثَ بِهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، يَسْأَلُ عَنِ الدِّينِ وَيَتْبَعُهُ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنَ الْيَهُودِ، فَسَأَلَهُ عَنْ دِينِهِمْ، فَقَالَ إِنِّي لَعَلِّي أَنْ أَدِينَ دِينَكُمْ، فَأَخْبِرْنِي‏.‏ فَقَالَ لاَ تَكُونُ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ‏.‏ قَالَ زَيْدٌ مَا أَفِرُّ إِلاَّ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَلاَ أَحْمِلُ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ شَيْئًا أَبَدًا، وَأَنَّى أَسْتَطِيعُهُ فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ قَالَ مَا أَعْلَمُهُ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا‏.‏ قَالَ زَيْدٌ وَمَا الْحَنِيفُ قَالَ دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلاَ يَعْبُدُ إِلاَّ اللَّهَ‏.‏ فَخَرَجَ زَيْدٌ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنَ النَّصَارَى، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَقَالَ لَنْ تَكُونَ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ‏.‏ قَالَ مَا أَفِرُّ إِلاَّ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، وَلاَ أَحْمِلُ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ وَلاَ مِنْ غَضَبِهِ شَيْئًا أَبَدًا، وَأَنَّى أَسْتَطِيعُ فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ قَالَ مَا أَعْلَمُهُ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا‏.‏ قَالَ وَمَا الْحَنِيفُ قَالَ دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلاَ يَعْبُدُ إِلاَّ اللَّهَ‏.‏ فَلَمَّا رَأَى زَيْدٌ قَوْلَهُمْ فِي إِبْرَاهِيمَ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ خَرَجَ، فَلَمَّا بَرَزَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْهَدُ أَنِّي عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ‏.‏

موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے بیان کیا تھا کہزید بن عمرو بن نفیل شام گئے ، دین ( خالص ) کی تلاش میں نکلے ، وہاں وہ ایک یہودی عالم سے ملے تو انہوں نے ان کے دین کے بارے میں پوچھا اور کہا ممکن ہے کہ میں تمہارا دین اختیارکر لوں ، اس لیے تم مجھے اپنے دین کے متعلق بتاو ، یہودی عالم نے کہا کہ ہمارے دین میں تم اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم اللہ کے غضب کے ایک حصہ کے لیے تیار نہ ہو جاؤ ، اس پر زیدرضی اللہ عنہ نے کہا کہ واہ میں اللہ کے غضب ہی سے بھاگ کر آیا ہوں ، پھر خدا کے غضب کو میں اپنے اوپرکبھی نہ لوں گا اور نہ مجھ کو اسے اٹھانے کی طاقت ہے ! کیا تم مجھے کسی اور دوسرے دین کا کچھ پتہ بتا سکتے ہو ؟ اس عالم نے کہا میں نہیں جانتا ( کوئی دین سچا ہو تو دین حنیف ہو ) زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا دین حنیف کیا ہے ؟ اس عالم نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کا دین جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے ، زید وہاں سے چلے آئے اور ایک نصرانی پادری سے ملے ، ان سے بھی اپنا خیال بیان کیا اس نے بھی یہی کہا کہ تم ہمارے دین میں آو گے تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں سے ایک حصہ لو گے ، زیدرضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ کی لعنت سے ہی بچنے کے لیے تو یہ سب کچھ کر رہا ہوں ، اللہ کی لعنت اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں اور نہ میں اس کا یہ غضب کس طرح اٹھا سکتا ہوں ! کیا تم میرے لیے اس کے سوا کوئی اور دین بتلا سکتے ہو ، پادری نے کہا کہ میری نظر میں ہو تو صرف ایک دین حنیف سچا دین ہے زیدنے پوچھا دین حنیف کیا ہے ؟ کہا کہ وہ دین ابراہیم علیہ السلام ہے جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور اللہ کے سوا وہ کسی کی پوجا نہیں کرتے تھے ، زیدنے جب دین ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کی یہ رائے سنی تو وہاں سے روانہ ہو گئے ، اور اس سرزمین سے باہر نکل کر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کی ، اے اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں ۔

Narrated Ibn ‘Umar:Zaid bin ‘Amr bin Nufail went to Sham, inquiring about a true religion to follow. He met a Jewish religious scholar and asked him about their religion. He said, “I intend to embrace your religion, so tell me some thing about it.” The Jew said, “You will not embrace our religion unless you receive your share of Allah’s Anger.” Zaid said, “‘I do not run except from Allah’s Anger, and I will never bear a bit of it if I have the power to avoid it. Can you tell me of some other religion?” He said, “I do not know any other religion except the Hanif.” Zaid enquired, “What is Hanif?” He said, “Hanif is the religion of (the prophet) Abraham who was neither a Jew nor a Christian, and he used to worship None but Allah (Alone)” Then Zaid went out and met a Christian religious scholar and told him the same as before. The Christian said, “You will not embrace our religion unless you get a share of Allah’s Curse.” Zaid replied, “I do not run except from Allah’s Curse, and I will never bear any of Allah’s Curse and His Anger if I have the power to avoid them. Will you tell me of some other religion?” He replied, “I do not know any other religion except Hanif.” Zaid enquired, “What is Hanif?” He replied, Hanif is the religion of (the prophet) Abraham who was neither a Jew nor a Christian and he used to worship None but Allah (Alone)” When Zaid heard their Statement about (the religion of) Abraham, he left that place, and when he came out, he raised both his hands and said, “O Allah! I make You my Witness that I am on the religion of Abraham.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 169


53

وَقَالَ اللَّيْثُ كَتَبَ إِلَىَّ هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَتْ رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَائِمًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ يَقُولُ يَا مَعَاشِرَ قُرَيْشٍ، وَاللَّهِ مَا مِنْكُمْ عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ غَيْرِي، وَكَانَ يُحْيِي الْمَوْءُودَةَ، يَقُولُ لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْتُلَ ابْنَتَهُ لاَ تَقْتُلْهَا، أَنَا أَكْفِيكَهَا مَئُونَتَهَا‏.‏ فَيَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ قَالَ لأَبِيهَا إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكَ، وَإِنْ شِئْتَ كَفَيْتُكَ مَئُونَتَهَا‏.‏

اورلیث بن سعدنے کہا کہ مجھے ہشام نے لکھا ، اپنے والد ( عروہ بن زبیر ) سے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہمیں نے زیدبن عمرو بن نفیل کوکعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا ، اے قریش کے لوگو ! خدا کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کوزندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جواپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتاکہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کاذمہ میں لیتاہوں ، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کرسکتاہوں اوراگرتمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا ۔

Narrated Asma bint Abi Bakr:I saw Zaid bin Amr bin Nufail standing with his back against the Ka’ba and saying, “O people of Quraish! By Allah, none amongst you is on the religion of Abraham except me.” He used to preserve the lives of little girls: If somebody wanted to kill his daughter he would say to him, “Do not kill her for I will feed her on your behalf.” So he would take her, and when she grew up nicely, he would say to her father, “Now if you want her, I will give her to you, and if you wish, I will feed her on your behalf.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 169


54

حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا بُنِيَتِ الْكَعْبَةُ ذَهَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعَبَّاسٌ يَنْقُلاَنِ الْحِجَارَةَ، فَقَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اجْعَلْ إِزَارَكَ عَلَى رَقَبَتِكَ يَقِيكَ مِنَ الْحِجَارَةِ، فَخَرَّ إِلَى الأَرْضِ، وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ ‏ “‏ إِزَارِي إِزَارِي ‏”‏‏.‏ فَشَدَّ عَلَيْهِ إِزَارَهُ‏.‏

مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی ، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہجب کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اپنا تہبند گردن پر رکھ لو اس طرح پتھر کی ( خراش لگنے سے ) بچ جاؤ گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایسا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر گر پڑے اور آپ کی نظر آسمان پر گڑگئی جب ہوش ہوا تو آپ نے چچا سے فرمایا میرا تہبند لاؤ پھر انہوں نے آپ کا تہبند خوب مضبوط باندھ دیا ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

When the Ka`ba was rebuilt, the Prophet (ﷺ) and `Abbas went to carry stones. `Abbas said to the Prophet (ﷺ) “(Take off and) put your waist sheet over your neck so that the stones may not hurt you.” (But as soon as he took off his waist sheet) he fell unconscious on the ground with both his eyes towards the sky. When he came to his senses, he said, “My waist sheet! My waist sheet!” Then he tied his waist sheet (round his waist).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 170


55

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، قَالاَ لَمْ يَكُنْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَوْلَ الْبَيْتِ حَائِطٌ، كَانُوا يُصَلُّونَ حَوْلَ الْبَيْتِ، حَتَّى كَانَ عُمَرُ، فَبَنَى حَوْلَهُ حَائِطًا ـ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ ـ جَدْرُهُ قَصِيرٌ، فَبَنَاهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ‏.‏

ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینا ر نے اور عبیداللہ بن ابی زید نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے گرد احاطہٰ کی دیوار نہ تھی لوگ کعبہ کے گرد نماز پڑھتے تھے پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے اس کے گرد دیوار بنوائی ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ یہ دیوار یں بھی پست تھیں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما نے ان کو بلند کیا ۔

Narrated `Amr bin Dinar and ‘Ubaidullah bin Abi Yazid:

In the lifetime of the Prophet (ﷺ) there was no wall around the Ka`ba and the people used to pray around the Ka`ba till `Umar became the Caliph and he built the wall around it. ‘Ubaidullah further said, “Its wall was low, so Ibn Az-Zubair built it.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 171


56

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ هِشَامٌ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ لاَ يَصُومُهُ‏.‏

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہعاشورا کا روزہ قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے باقی رکھا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ ۲ھ میں فرض ہوا تو اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جس کا جی چاہے عاشورا کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔

Narrated `Aisha:

‘Ashura’ (i.e. the tenth of Muharram) was a day on which the tribe of Quraish used to fast in the prelslamic period of ignorance. The Prophet (ﷺ) also used to fast on this day. So when he migrated to Medina, he fasted on it and ordered (the Muslims) to fast on it. When the fasting of Ramadan was enjoined, it became optional for the people to fast or not to fast on the day of Ashura.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 172


57

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنَ الْفُجُورِ فِي الأَرْضِ، وَكَانُوا يُسَمُّونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَا الدَّبَرْ، وَعَفَا الأَثَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ‏.‏ قَالَ فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ رَابِعَةً مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ وَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَىُّ الْحِلِّ قَالَ ‏ “‏ الْحِلُّ كُلُّهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ، ان سے ان کے والدنے اور ان سے حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہزمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کرتے تھے ۔ وہ محرم کو صفر کہتے ۔ ان کے ہاں یہ مثل تھی کہ اونٹ کی پیٹھ کا زخم جب اچھا ہونے لگے اور ( حاجیوں کے ) نشانات قدم مٹ چکیں تو اب عمرہ کرنے والوں کا عمرہ جائز ہوا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو حج کا احرام باندھے ہوئے ( مکہ ) تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ کر ڈالیں ( طواف اور سعی کر کے احرام کھول دیں ) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ( اس عمرہ اور حج کے دوران میں ) کیا چیز یں حلال ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام چیزیں ! جو احرام کی نہ ہونے کی حالت میں حلال تھیں وہ سب حلال ہو جائیں گی ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The people used to consider the performance of `Umra in the months of Hajj an evil deed on the earth, and they used to call the month of Muharram as Safar and used to say, “When (the wounds over) the backs (of the camels) have healed and the foot-marks (of the camels) have vanished (after coming from Hajj), then `Umra becomes legal for the one who wants to perform `Umra.” Allah’s Messenger (ﷺ) and his companions reached Mecca assuming Ihram for Hajj on the fourth of Dhul-Hijja. The Prophet (ﷺ) ordered his companions to perform `Umra (with that lhram instead of Hajj). They asked, “O Allah’s Apostle! What kind of finishing of Ihram?” The Prophet (ﷺ) said, “Finish the Ihram completely.’

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 173


58

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ كَانَ عَمْرٌو يَقُولُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ جَاءَ سَيْلٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَكَسَا مَا بَيْنَ الْجَبَلَيْنِ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ وَيَقُولُ إِنَّ هَذَا لَحَدِيثٌ لَهُ شَأْنٌ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، کہا کہ عمرو بن دینار بیان کیا کرتے تھے کہ ہم سے سعید بن مسیب نے اپنے والد سے بیان کیا ، انہوں نے سعید کے داداحزن سے بیان کیاکہزمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ سیلاب آیا کہ ( مکہ کی ) دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی ہی پانی ہو گیا سفیان نے بیان کیا کہ بیان کرتے تھے کہ اس حدیث کا ایک بہت بڑا قصہ ہے

Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab’s grand-father:

In the pre-lslamic period of ignorance a flood of rain came and filled the valley in between the two mountains (around the Ka`ba).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 174


59

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ، فَرَآهَا لاَ تَكَلَّمُ، فَقَالَ مَا لَهَا لاَ تَكَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً‏.‏ قَالَ لَهَا تَكَلَّمِي، فَإِنَّ هَذَا لاَ يَحِلُّ، هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ‏.‏ فَتَكَلَّمَتْ، فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ‏.‏ قَالَتْ أَىُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ‏.‏ قَالَتْ مِنْ أَىِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّكِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَكْرٍ‏.‏ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ‏.‏ قَالَتْ وَمَا الأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى‏.‏ قَالَ فَهُمْ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ‏.‏

ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے ابو بشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کر تیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اجی بات کرو اس طرح حج کر نا تو جاہلیت کی رسم ہے ، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے ، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو ، میں ابوبکر ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطافرمایا ہے اس پر ہم ( مسلمان ) کب تک قائم رہ سکیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر تمہار ا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہار ے امام حاکم سید ھے رہیں گے ۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں ؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں ۔

Narrated Qais bin Abi Hazim:

Abu Bakr went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, “Why does she not speak.” The people said, “She has intended to perform Hajj without speaking.” He said to her, “Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, “Who are you?” He said, “A man from the Emigrants.” She asked, “Which Emigrants?” He replied, “From Quraish.” She asked, “From what branch of Quraish are you?” He said, “You ask too many questions; I am Abu Bakr.” She said, “How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance?” He said, “You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations.” She asked, “What are the Imams?” He said, “Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them?” She said, “Yes.” He said, “So they (i.e. the Imams) are those whom I meant.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 175


6

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَكَانَ كَثِيرَ الْمَالِ، فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ عَلِمَتِ الأَنْصَارُ أَنِّي مِنْ أَكْثَرِهَا مَالاً، سَأَقْسِمُ مَالِي بَيْنِي وَبَيْنَكَ شَطْرَيْنِ، وَلِي امْرَأَتَانِ، فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَأُطَلِّقُهَا، حَتَّى إِذَا حَلَّتْ تَزَوَّجْتَهَا‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ‏.‏ فَلَمْ يَرْجِعْ يَوْمَئِذٍ حَتَّى أَفْضَلَ شَيْئًا مِنْ سَمْنٍ وَأَقِطٍ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلاَّ يَسِيرًا، حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَهْيَمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مَا سُقْتَ فِيهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ ‏”‏ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے حمید نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہجب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ( مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت دولت مند تھے ، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا : انصار کو معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اس لیے میں اپنا آدھا آدھا مال اپنے اور آپ کے درمیان بانٹ دینا چاہتا ہوں اور میرے گھر میں دوبیویاں ہیں جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں گا اس کی عدت گزرجانے پر آپ اس سے نکاح کر لیں ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہارے اہل و مال میں برکت عطافرمائے ، ( مجھ کو اپنا بازار دکھلادو ) پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک کچھ گھی اور پنیر بطور نفع بچا نہیں لیا ، تھوڑے ہی دنوں کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جسم پر زردی کا نشان تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ بولے کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کر لی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مہر کیا دیا ہے ؟ بولے ایک گٹھلی کے برابر سونا یا ( یہ کہا کہ ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اب ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی سے ہو ۔

Narrated Anas:

When `Abdur-Rahman bin `Auf came to us, Allah’s Messenger (ﷺ) made a bond of fraternity between him and Sa`d bin Ar-Rabi` who was a rich man, Sa`d said, “The Ansar know that I am the richest of all of them, so I will divide my property into two parts between me and you, and I have two wives; see which of the two you like so that I may divorce her and you can marry her after she becomes lawful to you by her passing the prescribed period (i.e. ‘Idda) of divorce. `Abdur Rahman said, “May Allah bless you your family (i.e. wives) for you.” (But `Abdur-Rahman went to the market) and did not return on that day except with some gain of dried yogurt and butter. He went on trading just a few days till he came to Allah’s Messenger (ﷺ) bearing the traces of yellow scent over his clothes. Allah’s Messenger (ﷺ) asked him, “What is this scent?” He replied, “I have married a woman from the Ansar.” Allah’s Apostle asked, “How much Mahr have you given?” He said, “A date-stone weight of gold or a golden date-stone.” The Prophet (ﷺ) said, “Arrange a marriage banquet even with a sheep.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 125


60

حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ لِبَعْضِ الْعَرَبِ، وَكَانَ لَهَا حِفْشٌ فِي الْمَسْجِدِ قَالَتْ فَكَانَتْ تَأْتِينَا فَتَحَدَّثُ عِنْدَنَا فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ حَدِيثِهَا قَالَتْ وَيَوْمُ الْوِشَاحِ مِنْ تَعَاجِيبِ رَبِّنَا أَلاَ إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الْكُفْرِ أَنْجَانِي فَلَمَّا أَكْثَرَتْ قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ وَمَا يَوْمُ الْوِشَاحِ قَالَتْ خَرَجَتْ جُوَيْرِيَةٌ لِبَعْضِ أَهْلِي، وَعَلَيْهَا وِشَاحٌ مِنْ أَدَمٍ فَسَقَطَ مِنْهَا، فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِ الْحُدَيَّا وَهْىَ تَحْسِبُهُ لَحْمًا، فَأَخَذَتْ فَاتَّهَمُونِي بِهِ فَعَذَّبُونِي، حَتَّى بَلَغَ مِنْ أَمْرِي أَنَّهُمْ طَلَبُوا فِي قُبُلِي، فَبَيْنَا هُمْ حَوْلِي وَأَنَا فِي كَرْبِي إِذْ أَقْبَلَتِ الْحُدَيَّا حَتَّى وَازَتْ بِرُءُوسِنَا ثُمَّ أَلْقَتْهُ، فَأَخَذُوهُ فَقُلْتُ لَهُمْ هَذَا الَّذِي اتَّهَمْتُمُونِي بِهِ وَأَنَا مِنْهُ بَرِيئَةٌ‏.‏

مجھ سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی ، انہیں ہشام نے ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہایک کالی عورت جو کسی عرب کی باندی تھی ، اسلام لائی اور مسجد میں اس کے رہنے کے لیے ایک کوٹھری تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا وہ ہما رے یہاں آیا کرتی اور باتیں کیا کرتی تھی ، لیکن جب باتوں سے فارغ ہو جاتی تو وہ یہ شعر پڑھتی ” اور ہار والا دن بھی ہمارے رب کے عجائب قدرت میں سے ہے ، کہ اسی نے ( بفضلہ ) کفر کے شہر سے مجھے چھڑایا ۔ “ اس نے جب کئی مرتبہ یہ شعر پڑھا توعائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے دریافت کیا کہ ہار والے دن کاقصہ کیا ہے ؟ اس نے بیان کیا کہ میرے مالکوں کے گھر انے کی ایک لڑکی ( جو نئی دولہن تھی ) لال چمڑے کا ایک ہار باندھے ہوئے تھی ۔ وہ باہر نکلی تو اتفاق سے وہ گر گیا ۔ ایک چیل کی اس پر نظر پڑی اور وہ اسے گوشت سمجھ کر اٹھا لے گئی ۔ لوگوں نے مجھ پر اس کی چوری کی تہمت لگائی اور مجھے سزائیں دینی شروع کیں ۔ یہاں تک کہ میری شرمگاہ کی بھی تلاشی لی ۔ خیر وہ ابھی میرے چاروں طرف جمع ہی تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی کہ چیل آئی اور ہمارے سروں کے با لکل اوپر اڑنے لگی ۔ پھر اس نے وہی ہار نیچے گرا دیا ۔ لوگوں نے اسے اٹھا لیا تو میں نے ان سے کہا اسی کے لیے تم لوگ مجھے اتہام لگا رہے تھے حالانکہ میں بےگناہ تھی ۔

Narrated `Aisha:

A black lady slave of some of the ‘Arabs embraced Islam and she had a hut in the mosque. She used to visit us and talk to us, and when she finished her talk, she used to say: “The day of the scarf was one of our Lord’s wonders: Verily! He has delivered me from the land of Kufr.” When she said the above verse many times, I (i.e. `Aisha) asked her, “What was the day of the scarf?” She replied, “Once the daughter of some of my masters went out and she was wearing a leather scarf (round her neck) and the leather scarf fell from her and a kite descended and picked it up, mistaking it for a piece of meat. They (i.e. my masters) accused me of stealing it and they tortured me to such an extent that they even looked for it in my private parts. So, while they all were around me, and I was in my great distress, suddenly the kite came over our heads and threw the scarf, and they took it. I said to them ‘This is what you accused me of stealing, though I was innocent.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 176


61

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ أَلاَ مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلاَ يَحْلِفْ إِلاَّ بِاللَّهِ ‏”‏‏.‏ فَكَانَتْ قُرَيْشٌ تَحْلِفُ بِآبَائِهَا، فَقَالَ ‏”‏ لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہو تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم نہ کھائے ۔

Narrated Ibn `Umar:

The Prophet (ﷺ) said, “If anybody has to take an oath, he should swear only by Allah.” The people of Quraish used to swear by their fathers, but the Prophet (ﷺ) said, “Do not swear by your fathers. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 177


62

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، حَدَّثَهُ أَنَّ الْقَاسِمَ كَانَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَىِ الْجَنَازَةِ وَلاَ يَقُومُ لَهَا، وَيُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُومُونَ لَهَا، يَقُولُونَ إِذَا رَأَوْهَا كُنْتِ فِي أَهْلِكِ مَا أَنْتِ‏.‏ مَرَّتَيْنِ‏.‏

مجھ سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہامجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی ، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا کہان کے والدقاسم بن محمد جنازہ کے آگے آگے چلاکرتے تھے اور جنازہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے وہ بیان کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازہ کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اسے دیکھ کر دوبارکہتے تھے کہ ، اے مرنے والے جس طرح اپنی زندگی میں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ تھا اب ویسا ہی کسی پرندے کے بھیس میں ہے ۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Al-Qasim:

Al-Qasim used to walk in front of the funeral procession. He used not to get up for the funeral procession (in case it passed by him). And he narrated from `Aisha that she said, “The people of the pre-lslamic period of ignorance used to stand up for the funeral procession. When they saw it they used to say twice: ‘You were noble in your family. What are you now?”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 178


63

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ قَالَ عُمَرُ ـ رضى الله عنه ـ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لاَ يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ‏.‏

مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جب تک دھوپ ثبیر پہاڑی پر نہ آجاتی قریش ( حج میں ) مزدلفہ سے نہیں نکلا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کیا ۔

Narrated `Umar:

The pagans used not to leave Jam’ (i.e. Muzdalifa) till the sun had risen on Thabir mountain. The Prophet contradicted them by leaving (Muzdalifa) before the sun rose.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 179


64

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ قُلْتُ لأَبِي أُسَامَةَ حَدَّثَكُمْ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏{‏وَكَأْسًا دِهَاقًا‏}‏ قَالَ مَلأَى مُتَتَابِعَةً‏.‏

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا ، کیا تم لوگوں سے یحییٰ بن مہلب نے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے حصین نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے ( قرآن مجید کی آیت میں ) کے متعلق فرمایا کہاس کے ( معنی ٰ ہیں ) بھرا ہوا پیالہ جس کا مسلسل دور چلے ۔

Narrated Husain:

That `Ikrima said, “Kasan Dihaqa means glass full (of something) followed successively with other full glasses.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 180


65

قَالَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ، فِي الْجَاهِلِيَّةِ اسْقِنَا كَأْسًا دِهَاقًا‏.‏

عکرمہ نے بیان کیا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےبیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں ( یہ لفظ استعمال کرتے تھے ) ’ ’اسقنا کاسا دھاقا “ یعنی ہم کو بھرپور جام شراب پلاتے رہو ۔

Ibn `Abbas said:

“In the pre-lslamic period of ignorance I heard my father saying, “Provide us with Kasan Dihaqa.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 180


66

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلاَ كُلُّ شَىْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ وَكَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیا ن نے بیان کیا ، ان سے عبدالملک نے ، ان سے ابوسلمہ نے ، ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے سچی بات جو کوئی شاعر کہہ سکتا تھا وہ لبید شاعر نے کہی ” ہا ں اللہ کے سوا ہرچیز باطل ہے “ اور امیہ بن ابی الصلٹ ( جاہلیت کا ایک شاعر ) مسلمان ہونے کے قریب تھا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “The most true words said by a poet was the words of Labid.” He said, Verily, Everything except Allah is perishable and Umaiya bin As-Salt was about to be a Muslim (but he did not embrace Islam).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 181


67

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ لأَبِي بَكْرٍ غُلاَمٌ يُخْرِجُ لَهُ الْخَرَاجَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْكُلُ مِنْ خَرَاجِهِ، فَجَاءَ يَوْمًا بِشَىْءٍ فَأَكَلَ مِنْهُ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لَهُ الْغُلاَمُ تَدْرِي مَا هَذَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَمَا هُوَ قَالَ كُنْتُ تَكَهَّنْتُ لإِنْسَانٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا أُحْسِنُ الْكِهَانَةَ، إِلاَّ أَنِّي خَدَعْتُهُ، فَلَقِيَنِي فَأَعْطَانِي بِذَلِكَ، فَهَذَا الَّذِي أَكَلْتَ مِنْهُ‏.‏ فَأَدْخَلَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ فَقَاءَ كُلَّ شَىْءٍ فِي بَطْنِهِ‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا ، ان سے سلیمان نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے ، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو روزانہ انہیں کچھ کمائی دیا کرتا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے ۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا اورحضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھا لیا ۔ پھر غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے ؟ یہ کیسی کمائی سے ہے ؟ آپ نے دریافت فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شحص کے لیے کہا نت کی تھی حالانکہ مجھے کہانت نہیں آتی تھی ، میں نے اسے صرف دھوکہ دیا تھالیکن اتفاق سے وہ مجھے مل گیا اور اس نے اس کی اجرت میں مجھ کو یہ چیز دی تھی ، آپ کھا بھی چکے ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال ڈالیں ۔

Narrated `Aisha:

Abu Bakr had a slave who used to give him some of his earnings. Abu Bakr used to eat from it. One day he brought something and Abu Bakr ate from it. The slave said to him, “Do you know what this is?” Abu Bakr then enquired, “What is it?” The slave said, “Once, in the pre-Islamic period of ignorance I foretold somebody’s future though I did not know this knowledge of foretelling but I, cheated him, and when he met me, he gave me something for that service, and that is what you have eaten from.” Then Abu Bakr put his hand in his mouth and vomited whatever was present in his stomach.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 182


68

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَبَايَعُونَ لُحُومَ الْجَزُورِ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ، قَالَ وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا، ثُمَّ تَحْمِلَ الَّتِي نُتِجَتْ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے کہا ، مجھ کو نافع نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہزمانہ جاہلیت کے لوگ ” حبل الحبلہ “ تک قیمت کی ادائیگی کے وعدہ پر ، اونٹ کا گوشت ادھار بیچا کرتے تھے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حبل الحبلۃ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حاملہ اوٹنی اپنا بچہ جنے پھر وہ نوزائیدہ بچہ ( بڑھ کر ) حاملہ ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی خریدوفروخت ممنوع قرار دے دی تھی ۔

Narrated Ibn `Umar:

In the pre-lslamic period of ignorance the people used to bargain with the meat of camels on the principle of Habal-al-Habala which meant the sale of a she-camel that would be born by a she-camel that had not yet been born. The Prophet (ﷺ) forbade them such a transaction.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 183


69

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، قَالَ غَيْلاَنُ بْنُ جَرِيرٍ كُنَّا نَأْتِي أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَيُحَدِّثُنَا عَنِ الأَنْصَارِ،، وَكَانَ، يَقُولُ لِي فَعَلَ قَوْمُكَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَفَعَلَ قَوْمُكَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا‏.‏

ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ غیلان بن جریر نے بیان کیا کہہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ وہ ہم سے انصار کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے اور مجھ سے فرما تے کہ تمہاری قوم نے فلاں موقع پر یہ کا رنامہ انجام دیا ، فلاں موقع پر یہ کارنامہ انجام دیا ۔

Narrated Ghailan bin Jarir:

We used to visit Anas bin Malik and he used to talk to us about the Ansar, and used to say to me: “Your people did so-and-so on such-and-such a day, and your people did so-and-so on such-and-such a day.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 184


7

حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو هَمَّامٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَتِ الأَنْصَارُ اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ النَّخْلَ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ لاَ ‏”‏‏.‏ قَالَ يَكْفُونَا الْمَئُونَةَ وَتُشْرِكُونَا فِي التَّمْرِ‏.‏ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‏.‏

ہم سے ابوہمام صلت بن محمد نے بیان کیا کہا میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے سنا ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہانصار نے کہا یا رسول اللہ ! کھجور کے باغات ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا اس پر انصار نے ( مہاجرین سے ) کہا پھر آپ ایسا کر لیں کہ کام ہماری طرف سے آپ انجام دیاکریں اور کھجوروں میں آپ ہمارے ساتھی ہو جائیں ، مہاجرین نے کہا ہم نے آپ لوگوں کی یہ بات سنی اور ہم ایسا ہی کریں گے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Ansar said (to the Prophet (ﷺ) ), “Please divide the date-palm trees between us and them (i.e. emigrants).” The Prophet (ﷺ) said, “No.” The Ansar said, “Let them (i.e. the emigrants) do the labor for us in the gardens and share the date-fruits with us.” The emigrants said, “We accepted this.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 126


70

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَفِينَا بَنِي هَاشِمٍ، كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذٍ أُخْرَى، فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ، فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَقَالَ أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي، لاَ تَنْفِرُ الإِبِلُ‏.‏ فَأَعْطَاهُ عِقَالاً، فَشَدَّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا عُقِلَتِ الإِبِلُ إِلاَّ بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الإِبِلِ قَالَ لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ‏.‏ قَالَ فَأَيْنَ عِقَالُهُ قَالَ فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ قَالَ مَا أَشْهَدُ، وَرُبَّمَا شَهِدْتُهُ‏.‏ قَالَ هَلْ أَنْتَ مُبْلِغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَكُنْتَ إِذَا أَنْتَ شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ‏.‏ فَإِذَا أَجَابُوكَ، فَنَادِ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ‏.‏ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلاَنًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ، وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا قَالَ مَرِضَ، فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، فَوَلِيتُ دَفْنَهُ‏.‏ قَالَ قَدْ كَانَ أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ‏.‏ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبْلِغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ فَقَالَ يَا آلَ قُرَيْشٍ‏.‏ قَالُوا هَذِهِ قُرَيْشٌ‏.‏ قَالَ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ‏.‏ قَالُوا هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ‏.‏ قَالَ أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ قَالُوا هَذَا أَبُو طَالِبٍ‏.‏ قَالَ أَمَرَنِي فُلاَنٌ أَنْ أُبْلِغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلاَنًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ‏.‏ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ لَهُ اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلاَثٍ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا، وَإِنْ شِئْتَ حَلَفَ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ فَأَتَى قَوْمَهُ، فَقَالُوا نَحْلِفُ‏.‏ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ‏.‏ فَقَالَتْ يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ وَلاَ تَصْبُرْ يَمِينَهُ حَيْثُ تُصْبَرُ الأَيْمَانُ‏.‏ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا طَالِبٍ، أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلاً أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ، يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ، هَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي وَلاَ تَصْبُرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبِرُ الأَيْمَانُ‏.‏ فَقَبِلَهُمَا، وَجَاءَ ثَمَانِيةٌ وَأَرْبَعُونَ فَحَلَفُوا‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ‏.‏

ہم سے ابو معمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے قطن ابو الہیثم نے کہا ، ہم سے ابو یزید مدنی نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاجاہلیت میں سب سے پہلا قسامہ ہمارے ہی قبیلہ بنو ہاشم میں ہوا تھا ، بنوہاشم کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کو قریش کے کسی دوسرے خاندان کے ایک شخص ( خداش بن عبداللہ عامری ) نے نوکری پر رکھا ، اب یہ ہاشمی نوکراپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر شام کی طرف چلا ، وہاں کہیں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا ، اس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا ۔ اس نے اپنے نو کر بھائی سے التجا کی میری مدد کراونٹ باندھنے کی مجھے ایک رسی دیدے ، میں اس سے اپنا تھیلا باندھوں اگر رسی نہ ہو گی تو وہ بھاگ تھوڑے جائے گا ۔ اس نے ایک رسی اسے دے دی اور اس نے اپنی بوری کا منہ اس سے باندھ لیا ( اور چلا گیا ) ۔ پھر جب اس نوکر اور صاحب نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا تو تمام اونٹ باندھے گئے لیکن ایک اونٹ کھلا رہا ۔ جس صاحب نے ہاشمی کو نوکری پر اپنے ساتھ رکھاتھا اس نے پو چھا سب اونٹ تو باندھے ، یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا کیا بات ہے ؟ نوکرنے کہا اس کی رسی موجود نہیں ہے ۔ صاحب نے پوچھا کیا ہوئی اس کی رسی ؟ اور غصہ میں آ کر ایک لکڑی اس پر پھینک ماری اس کی موت آن پہنچی ۔ اس کے ( مرنے سے پہلے ) وہاں سے ایک یمنی شخص گذر رہا تھا ۔ ہاشمی نوکرنے پوچھا کیا حج کے لیے ہر سال تم مکہ جاتے ہو ؟ اس نے کہا ابھی تو ارادہ نہیں ہے لیکن میں کبھی جاتا رہتا ہوں ۔ اس نوکرنے کہا جب بھی تم مکہ پہنچوکیا میرا ایک پیغام پہنچادوگے ؟ اس نے کہا ہاں پہنچا دوں گا ۔ اس نوکرنے کہا کہ جب بھی تم حج کے لیے جاؤ تو پکار نا اے قریش کے لوگو ! جب وہ تمہارے پاس جمع ہو جائیں تو پکارنا اے بنی ہاشم ! جب وہ تمہارے پاس آ جائیں تو ان سے ابوطالب پو چھنا اور انہیں بتلانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے لیے قتل کر دیا ۔ اس وصیت کے بعد وہ نوکر مرگیا ، پھر جب اس کا صاحب مکہ آیا تو ابوطالب کے یہا ں بھی گیا ۔ جناب ابوطالب نے دریافت کیا ہمارے قبیلہ کے جس شخص کو تم اپنے ساتھ نوکری کے لیے لے گئے تھے اس کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ وہ بیمار ہو گیا تھا میں نے خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ( لیکن وہ مرگیاتو ) میں نے اسے دفن کر دیا ۔ ابوطالب نے کہا کہ اس کے لیے تمہاری طر ف سے یہی ہونا چاہئے تھا ۔ ایک مدت کے بعد وہی یمنی شخص جسے ہاشمی نوکرنے پیغام پہنچانے کی وصیت کی تھی ، موسم حج میں آیا اور آواز دی اے قریش کے لوگو ! لوگوں نے بتا دیا کہ یہاں ہیں قریش ۱س نے آواز دی اے بنو ہاشم ! لوگو ں نے بتایا کہ بنوہاشم یہ ہیں اس نے پوچھاابوطالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے بتایا تو اس نے کہا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک پیغام پہنچانے کے لیے کہا تھا کہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کی وجہ سے قتل کر دیا ہے ۔ اب جناب ابوطالب اس صاحب کے یہا ں آئے اور کہا کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی چیز پسند کر لو اگر تم چاہو تو سو اونٹ دیت میں دے دو کیونکہ تم نے ہمارے قبیلہ کے آدمی کو قتل کیا ہے اور اگر چاہو تو تمہاری قو م کے پچاس آ دمی اس کی قسم کھالیں کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا ۔ اگر تم اس پر تیار نہیں تو ہم تمہیں اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے ۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا تو وہ اس کے لیے تیار ہو گئے کہ ہم قسم کھا لیں گے ۔ پھر بنو ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اسی قبیلہ کے ایک شخص سے بیاہی ہوئی تھی اور اپنے اس شوہر سے اس کا بچہ بھی تھا ۔ اس نے کہا اے ابوطالب ! آپ مہر بانی کریں اور میرے اس لڑکے کو ان پچاس آدمیوں میں معاف کر دیں اور جہاں قسمیں لی جاتی ہیں ( یعنی رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ) اس سے وہا ں قسم نہ لیں ۔ حضرت ابوطالب نے اسے معاف کر دیا ۔ اس کے بعد ان میں کا ایک اورشخص آیا اور کہا اے ابوطالب ! آپ نے سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم طلب کی ہے ، اس طرح ہر شخص پر دو دو اونٹ پڑ تے ہیں ۔ یہ دواونٹ میری طرف سے آپ قبول کر لیں اور مجھے اس مقام پر قسم کھا نے کے لیے مجبور نہ کریں جہاں قسم لی جاتی ہے ۔ حضرت ابوطالب نے اسے بھی منظور کر لیا ۔ اس کے بعد بقیہ جو اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی ، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابھی اس واقعہ کو پورا سال بھی نہیں گذرا تھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں رہا جو آنکھ ہلاتا ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The first event of Qasama in the pre-lslamic period of ignorance was practiced by us (i.e. Banu Hashim). A man from Banu Hashim was employed by a Quraishi man from another branch-family. The (Hashimi) laborer set out with the Quraishi driving his camels. There passed by him another man from Banu Hashim. The leather rope of the latter’s bag had broken so he said to the laborer, “Will you help me by giving me a rope in order to tie the handle of my bag lest the camels should run away from me?” The laborer gave him a rope and the latter tied his bag with it. When the caravan halted, all the camels’ legs were tied with their fetters except one camel. The employer asked the laborer, “Why, from among all the camels has this camel not been fettered?” He replied, “There is no fetter for it.” The Quraishi asked, “Where is its fetter?” and hit the laborer with a stick that caused his death (later on Just before his death) a man from Yemen passed by him. The laborer asked (him), “Will you go for the pilgrimage?” He replied, “I do not think I will attend it, but perhaps I will attend it.” The (Hashimi) laborer said, “Will you please convey a message for me once in your life?” The other man said, “yes.” The laborer wrote: ‘When you attend the pilgrimage, call the family of Quraish, and if they respond to you, call the family of Banu Hashim, and if they respond to you, ask about Abu Talib and tell him that so-and-so has killed me for a fetter.” Then the laborer expired. When the employer reached (Mecca), Abu Talib visited him and asked, “What has happened to our companion?” He said, “He became ill and I looked after him nicely (but he died) and I buried him.” Then Abu Talib said, “The deceased deserved this from you.” After some time, the messenger whom the laborer has asked to convey the message, reached during the pilgrimage season. He called, “O the family of Quraish!” The people replied, “This is Quraish.” Then he called, “O the family of Banu Hashim!” Again the people replied, “This is Banu Hashim.” He asked, “Who is Abu Talib?” The people replied, “This is Abu Talib.” He said, “‘So-and-so has asked me to convey a message to you that so-and-so has killed him for a fetter (of a camel).” Then Abu Talib went to the (Quraishi) killer and said to him, “Choose one of three alternatives: (i) If you wish, give us one-hundred camels because you have murdered our companion, (ii) or if you wish, fifty of your men should take an oath that you have not murdered our companion, and if you do not accept this, (iii) we will kill you in Qisas.” The killer went to his people and they said, “We will take an oath.” Then a woman from Banu Hashim who was married to one of them (i.e.the Quraishis) and had given birth to a child from him, came to Abu Talib and said, “O Abu Talib! I wish that my son from among the fifty men, should be excused from this oath, and that he should not take the oath where the oathtaking is carried on.” Abu Talib excused him. Then another man from them came (to Abu Talib) and said, “O Abu Talib! You want fifty persons to take an oath instead of giving a hundred camels, and that means each man has to give two camels (in case he does not take an oath). So there are two camels I would like you to accept from me and excuse me from taking an oath where the oaths are taken. Abu Talib accepted them from him. Then 48 men came and took the oath. Ibn `Abbas further said:) By Him in Whose Hand my life is, before the end of that year, none of those 48 persons remained alive.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 185


71

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ بُعَاثٍ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَدِ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ، وَقُتِّلَتْ سَرَوَاتُهُمْ وَجُرِّحُوا، قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فِي دُخُولِهِمْ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہبعاث کی لڑائی اللہ تعالیٰ نے ( مصلحت کی وجہ سے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے برپاکرادی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں انصار کی جماعت میں پھوٹ پڑ ی ہوئی تھی ۔ ان کے سردار مارے جا چکے تھے یا زخمی ہو چکے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو اس لیے پہلے برپاکیا تھا کہ انصار اسلام میں داخل ہو جائیں ۔

Narrated ‘Aisha:

Allah caused the day of Buath to take place before Allah’s Messenger (ﷺ) was sent (as an Apostle) so that when Allah’s Messenger (ﷺ) reached Medina, those people had already divided (in different groups) and their chiefs had been killed or wounded. So Allah made that day precede Allah’s Messenger (ﷺ) so that they (i.e. the Ansar) might embrace Islam.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 186


72

وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، أَنَّ كُرَيْبًا، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَيْسَ السَّعْىُ بِبَطْنِ الْوَادِي بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سُنَّةً، إِنَّمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْعَوْنَهَا وَيَقُولُونَ لاَ نُجِيزُ الْبَطْحَاءَ إِلاَّ شَدًّا

اور عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، انہیں عمرو نے خبر دی ، انہیں بکیر بن اشج نے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مولا کریب نے ان سے بیان کیا کہعبد للہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا صفا اور مروہ کے درمیان نالے کے اندر زور سے دوڑنا سنت نہیں ہے یہا ں جاہلیت کے دور میں لوگ تیزی کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو اس پتھریلی جگہ سے دوڑ ہی کر پار ہوں گے ۔

Narrated Ibn ‘Abbas:To run along the valley between two green pillars of Safa and Marwa (mountains) was not Sunna, but the people in the pre-islamic period of ignorance used to run along it, and used to say: “We do not cross this rain stream except running strongly. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 186


73

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا مُطَرِّفٌ، سَمِعْتُ أَبَا السَّفَرِ، يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا مِنِّي مَا أَقُولُ لَكُمْ، وَأَسْمِعُونِي مَا تَقُولُونَ، وَلاَ تَذْهَبُوا فَتَقُولُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ فَلْيَطُفْ مِنْ وَرَاءِ الْحِجْرِ، وَلاَ تَقُولُوا الْحَطِيمُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ يَحْلِفُ فَيُلْقِي سَوْطَهُ أَوْ نَعْلَهُ أَوْ قَوْسَهُ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو مطرف نے خبر دی ، کہا میں نے ابو السفرسے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہمیں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے کہا اے لوگو ! میری باتیں سنوکہ میں تم سے بیان کرتا ہوں اور ( جو کچھ تم نے سمجھاہے ) وہ مجھے سناؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ تم لوگ یہا ں سے اٹھ کر ( بغیر سمجھے ) چلے جاؤ اور پھر کہنے لگو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا ۔ جو شخص بھی بیت اللہ کا طواف کرے تو وہ حطیم کے پیچھے سے طواف کرے اور حجر کو حطیم نہ کہا کرو یہ جاہلیت کا نام ہے اس وقت لوگوں میں جب کوئی کسی بات کی قسم کھا تا تو اپنا کوڑا ، جوتا یا کمان وہاں پھینک دیتا ۔

Narrated Abu As-Safar:

I heard Ibn `Abbas saying, “O people! Listen to what I say to you, and let me hear whatever you say, and don’t go (without understanding), and start saying, ‘Ibn `Abbas said so-and-so, Ibn `Abbas said soand- so, Ibn `Abbas said so-and-so.’ He who wants to perform the Tawaf around the Ka`ba should go behind Al-Hijr (i.e. a portion of the Ka`ba left out unroofed) and do not call it Al-Hatim, for in the pre-Islamic period of ignorance if any man took an oath, he used to throw his whip, shoes or bow in it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 187


74

حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ رَأَيْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهَا قِرَدَةٌ قَدْ زَنَتْ، فَرَجَمُوهَا فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ‏.‏

ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے حصین نے ، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہمیں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر یا دیکھی اس کے چاروں طرف بہت سے بندر جمع ہو گئے تھے ، اس بندریا نے زنا کرایا تھا اس لیے سبھوں نے مل کر اسے رجم کیا اور ان کے ساتھ میں بھی پتھر مارنے میں شریک ہوا ۔

Narrated `Amr bin Maimun:

During the pre-lslamic period of ignorance I saw a she-monkey surrounded by a number of monkeys. They were all stoning it, because it had committed illegal sexual intercourse. I too, stoned it along with them.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 188


75

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ خِلاَلٌ مِنْ خِلاَلِ الْجَاهِلِيَّةِ الطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ وَالنِّيَاحَةُ، وَنَسِيَ الثَّالِثَةَ، قَالَ سُفْيَانُ وَيَقُولُونَ إِنَّهَا الاِسْتِسْقَاءُ بِالأَنْوَاءِ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے کہا کہجاہلیت کی عادتوں میں سے یہ عادتیں ہیں نسب کے معاملہ میں طعنہ مارنا اور میت پر نوحہ کرنا ، تیسری عادت کے متعلق ( عبیداللہ راوی ) بھول گئے تھے اور سفیا ن نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تیسری بات ستاروں کو بارش کی علت سمجھناہے ۔

Narrated Sufyan:

‘Ubaidullah said: “I heard Ibn `Abbas saying, “Following are some traits of the people of the pre- Islamic period of ignorance (i) to defame the ancestry of other families, (ii) and to wail over the dead.” ‘Ubaidullah forgot the third trait. Sufyan said, “They say it (i.e. the third trait) was to believe that rain was caused by the influence of stars (i.e. if a special star appears it will rain).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 189


76

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ، فَمَكَثَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ سَنَةً، ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ، فَهَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَمَكَثَ بِهَا عَشْرَ سِنِينَ، ثُمَّ تُوُفِّيَ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا ، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا ، کہا ان سے ہشام نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرچالیس سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ مکرمہ میں رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا او آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منور ہ ہجرت کر کے چلے گئے ، وہاں دس سال رہے پھر آپ نے وفات فرمائی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس حسا ب سے کل عمر شریف آپ کی تریسٹھ سال ہوتی ہے اور یہی صحیح ہے ۔

Narrated Ibn `Abbas:

Allah’s Messenger (ﷺ) was inspired Divinely at the age of forty. Then he stayed in Mecca for thirteen years, and then was ordered to migrate, and he migrated to Medina and stayed there for ten years and then died.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 190


77

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ، وَإِسْمَاعِيلُ، قَالاَ سَمِعْنَا قَيْسًا، يَقُولُ سَمِعْتُ خَبَّابًا، يَقُولُ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً، وَهْوَ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَقَدْ لَقِينَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ شِدَّةً فَقُلْتُ أَلاَ تَدْعُو اللَّهَ فَقَعَدَ وَهْوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ فَقَالَ ‏ “‏ لَقَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ لَيُمْشَطُ بِمِشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عِظَامِهِ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ، فَيُشَقُّ بِاثْنَيْنِ، مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ مَا يَخَافُ إِلاَّ اللَّهَ ‏”‏‏.‏ زَادَ بَيَانٌ وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے بیان بن بشر اور اسماعیل بن ابوخالد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم نے قیس بن ابوحازم سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے خباب بن ارت سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے تلے چادر مبارک پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ ہم لوگ مشرکین سے انتہائی تکالیف اٹھا رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاکیوں نہیں فرماتے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے ۔ چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گذر چکے ہیں کہ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت اورپٹھوں سے گذار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا گیا اور یہ معاملہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا ، کسی کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے اور یہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا ، اس دین اسلام کو تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دن تمام وکمال تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک ( تنہا ) جائے گا اور ( راستے ) میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف تک نہ ہو گا ۔ بیان نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ” سوائے بھیڑیئے کے کہ اس سے اپنی بکریوں کے معاملہ میں اسے ڈرہو گا ۔ “

Narrated Khabbaba:

I came to the Prophet (ﷺ) while he was leaning against his sheet cloak in the shade of the Ka`ba. We were suffering greatly from the pagans in those days. i said (to him). “Will you invoke Allah (to help us)?” He sat down with a red face and said, “(A believer among) those who were before you used to be combed with iron combs so that nothing of his flesh or nerves would remain on his bones; yet that would never make him desert his religion. A saw might be put over the parting of his head which would be split into two parts, yet all that would never make him abandon his religion. Allah will surely complete this religion (i.e. Islam) so that a traveler from Sana to Hadra-maut will not be afraid of anybody except Allah.” (The sub-narrator, Baiyan added, “Or the wolf, lest it should harm his sheep.”)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 191


78

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه قَالَ قَرَأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم النَّجْمَ، فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلاَّ سَجَدَ، إِلاَّ رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ وَقَالَ هَذَا يَكْفِينِي‏.‏ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ‏.‏

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے ، ان سے اسودنے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کا فی ہے ۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا ۔

Narrated `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) recited Surat An-Najam and prostrated, and there was nobody who did not prostrate then except a man whom I saw taking a handful of pebbles, lifting it, and prostrating on it. He then said, “This is sufficient for me.” No doubt I saw him killed as a disbeliever afterwards.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 192


79

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَى جَزُورٍ، فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ فَأَخَذَتْهُ مِنْ ظَهْرِهِ، وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلأَ مِنْ قُرَيْشٍ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ـ أَوْ أُبَىَّ بْنَ خَلَفٍ ‏”‏‏.‏ شُعْبَةُ الشَّاكُّ ـ فَرَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَىٍّ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ، فَلَمْ يُلْقَ فِي الْبِئْرِ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، ان سے ابواسحاق نے ، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز پڑھتے ہوئے ) سجدہ کی حالت میں تھے ، قریش کے کچھ لوگ وہیں اردگرد موجود تھے ۔ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی بچہ دان لایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر اسے ڈال دیا ۔ اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہیں اٹھایا پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور گندگی کو پیٹھ مبارک سے ہٹایا اور جس نے ایسا کیا تھا اسے بددعا دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ ! قریش کی اس جماعت کو پکڑلے ۔ ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف یا ( امیہ کے بجائے آپ نے بددعا ) ابی بن خلف ( کے حق میں فرمائی ) شبہ راوی حدیث شعبہ کو تھا ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر میں نے دیکھا کہ بدرکی لڑائی میں یہ سب لوگ قتل کر دئیے گئے اور ایک کنویں میں ا نہیں ڈال دیا گیا تھاسوائے امیہ یا ابی کے کہ اس کاہر ایک جوڑ الگ الگ ہو گیا تھا اس لئے کنویں میں نہیں ڈالا جا سکا ۔

Narrated `Abdullah:

While the Prophet (ﷺ) was prostrating, surrounded by some of Quraish, `Uqba bin Abi Mu’ait brought the intestines (i.e. Abdominal contents) of a camel and put them over the back of the Prophet. The Prophet (ﷺ) did not raise his head, (till) Fatima, came and took it off his back and cursed the one who had done the harm. The Prophet (ﷺ) said, “O Allah! Destroy the chiefs of Quraish, Abu Jahl bin Hisham, `Utba bin Rabi`al, Shaba bin Rabi`a, Umaiya bin Khalaf or Ubai bin Khalaf.” (The sub-narrator Shu`ba, is not sure of the last name.) I saw these people killed on the day of Badr battle and thrown in the well except Umaiya or Ubai whose body parts were mutilated but he was not thrown in the well.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 193


8

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَوْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی ، کہا کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنایا یوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا ( معلوم ہوا کہ انصار کی محبت نشان ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے ۔ )

Narrated Al-Bara:

I heard the Prophet (ﷺ) saying (or the Prophet (ﷺ) said), “None loves the Ansar but a believer, and none hates them but a hypocrite. So Allah will love him who loves them, and He will hate him who hates them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 127


80

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَوْ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى قَالَ سَلِ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ، مَا أَمْرُهُمَا ‏{‏وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ ‏}‏ ‏{‏وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا‏}‏ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَمَّا أُنْزِلَتِ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ قَالَ مُشْرِكُو أَهْلِ مَكَّةَ فَقَدْ قَتَلْنَا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، وَدَعَوْنَا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَقَدْ أَتَيْنَا الْفَوَاحِشَ‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ‏}‏ الآيَةَ فَهَذِهِ لأُولَئِكَ وَأَمَّا الَّتِي فِي النِّسَاءِ الرَّجُلُ إِذَا عَرَفَ الإِسْلاَمَ وَشَرَائِعَهُ، ثُمَّ قَتَلَ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ‏.‏ فَذَكَرْتُهُ لِمُجَاهِدٍ فَقَالَ إِلاَّ مَنْ نَدِمَ‏.‏

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، کہا مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا یا ( منصور نے ) اس طرح بیان کیا کہ مجھ سے حکم نے بیان کیا ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان دونوں آیتو ں کے متعلق پوچھو کہ ان میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے ( ایک آیت ولا تقتلوا النفس التي حرم الله الا بالحق اور دوسری آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏ ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ جب سورۃ الفرقا ن کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا ہم نے تو ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا ہم اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ” إلا من تاب وآمن‏ “ ( وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آ ئیں ) تو یہ آیت ان کے حق میں نہیں ہے لیکن سورۃ النساء کی آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو اسلام اور شرائع اسلام کے احکام جان کر بھی کسی کو قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے ، میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس ارشاد کا ذکر مجاہد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں ۔

Narrated Sa`id bin Jubair:

`AbdurRahman bin Abza said, “Ask Ibn `Abbas about these two Qur’anic Verses: ‘Nor kill such life as Allah has made sacred, Except for just cause.’ (25.168) “And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell. (4.93) So I asked Ibn `Abbas who said, “When the Verse that is in Sura-al-Furqan was revealed, the pagans of Mecca said, ‘But we have slain such life as Allah has made sacred, and we have invoked other gods along with Allah, and we have also committed fornication.’ So Allah revealed:– ‘Except those who repent, believe, and do good– (25.70) So this Verse was concerned with those people. As for the Verse in Surat-an-Nisa (4-93), it means that if a man, after understanding Islam and its laws and obligations, murders somebody, then his punishment is to dwell in the (Hell) Fire forever.” Then I mentioned this to Mujahid who said, “Except the one who regrets (one’s crime) . ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 194


81

حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ، شَىْءٍ صَنَعَهُ الْمُشْرِكُونَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فِي حِجْرِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى أَخَذَ بِمَنْكِبِهِ وَدَفَعَهُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏{‏أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ‏}‏ الآيَةَ‏.‏ تَابَعَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ، قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو‏.‏ وَقَالَ عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قِيلَ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ‏.‏ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ‏.‏

ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ، کہا مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے پوچھاکہمجھے مشرکیں کے سب سے سخت ظلم کے متعلق بتاؤ جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور ظالم اپنا کپڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں پھنسا کر زور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹنے لگا اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا کندھا پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسے ہٹا دیا اور کہا کہ تم لوگ ایک شخص کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے الآیۃ عیاش بن ولید کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابن اسحاق نے کی ( اور بیان کیا کہ ) مجھ سے یحییٰ بن عروہ نے بیان کیا اور ان سے عروہ نے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے پوچھا اور عبدہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا گیا اور محمد بن عمرو نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ نے ، اس میں یوں ہے کہ مجھ سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair:

I asked Ibn `Amr bin Al-As, “Tell me of the worst thing which the pagans did to the Prophet.” He said, “While the Prophet (ﷺ) was praying in the Hijr of the Ka`ba; `Uqba bin Abi Mu’ait came and put his garment around the Prophet’s neck and throttled him violently. Abu Bakr came and caught him by his shoulder and pushed him away from the Prophet (ﷺ) and said, “Do you want to kill a man just because he says, ‘My Lord is Allah?’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 195


82

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَمَّادٍ الآمُلِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ وَبَرَةَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ قَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَا مَعَهُ إِلاَّ خَمْسَةُ أَعْبُدٍ وَامْرَأَتَانِ، وَأَبُو بَكْرٍ‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن حماد آملی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن معین نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن مجالد نے بیان کیا ، ان سے بیان نے ، ان سے وبرہ نے ان سے ہمام بن حارث نے بیان کیا کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں بھی دیکھا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانچ غلام ، دو عورتوں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کے سوا اور کوئی ( مسلمان ) نہیں تھا ۔

Narrated `Ammar bin Yasir:

I saw Allah’s Messenger (ﷺ) , and the only converts (to Islam) with him, were five slaves, two women and Abu Bakr.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 197


83

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ مَا أَسْلَمَ أَحَدٌ إِلاَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي أَسْلَمْتُ فِيهِ، وَلَقَدْ مَكَثْتُ سَبْعَةَ أَيَّامٍ وَإِنِّي لَثُلُثُ الإِسْلاَمِ

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم مروزی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو ابواسامہ نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم سے ہاشم بن ہاشم نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے سعد بن مسیب سے سنا ، کہا کہ میں نے ابواسحاق سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہجس دن میں اسلام لایا ہوں دوسرے لوگ بھی اسی دن اسلام لائے اور اسلام میں داخل ہونے والے تیسرے آدمی کی حیثیت سے مجھ پر سات دن گزرے ۔

Narrated Abu ‘Is-haq Saud bin Abi Waqqas:

None embraced Islam, except on the day I embraced it. And for seven days I was one of the three persons who were Muslims (one-third of Islam).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 198


84

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ مَعْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ، سَأَلْتُ مَسْرُوقًا مَنْ آذَنَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِالْجِنِّ لَيْلَةَ اسْتَمَعُوا الْقُرْآنَ‏.‏ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبُوكَ ـ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ ـ أَنَّهُ آذَنَتْ بِهِمْ شَجَرَةٌ‏.‏

مجھ سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا ، ان سے معن بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہمیں نے مسروق سے پوچھا کہ جس رات میں جنوں نے قرآن مجید سنا تھا اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے دی تھی ؟ مسروق نے کہا کہ مجھ سے تمہارے والد عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کی خبر ایک ببول کے درخت نے دی تھی ۔

Narrated `Abdur-Rahman:

“I asked Masruq, ‘Who informed the Prophet (ﷺ) about the Jinns at the night when they heard the Qur’an?’ He said, ‘Your father `Abdullah informed me that a tree informed the Prophet (ﷺ) about them.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 199


85

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رضى الله عنه أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِدَاوَةً لِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا فَقَالَ ‏”‏ مَنْ هَذَا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا، وَلاَ تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلاَ بِرَوْثَةٍ ‏”‏‏.‏ فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُهَا فِي طَرَفِ ثَوْبِي حَتَّى وَضَعْتُ إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ مَشَيْتُ، فَقُلْتُ مَا بَالُ الْعَظْمِ وَالرَّوْثَةِ قَالَ ‏”‏ هُمَا مِنْ طَعَامِ الْجِنِّ، وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ، فَسَأَلُونِي الزَّادَ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ لَهُمْ أَنْ لاَ يَمُرُّوا بِعَظْمٍ وَلاَ بِرَوْثَةٍ إِلاَّ وَجَدُوا عَلَيْهَا طَعَامًا ‏”‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو اور قضائے حاجت کے لئے ( پانی کا ) ایک برتن لئے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجے کے لئے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لا نا ۔ تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا ۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لاکرمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لئے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں ۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے ۔ تو انہوں نے مجھ سے تو شہ مانگا میں نے ان کے لئے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لئے اس چیز سے کھا نا ملے ۔

Narrated Abu Huraira:

That once he was in the company of the Prophet (ﷺ) carrying a water pot for his ablution and for cleaning his private parts. While he was following him carrying it (i.e. the pot), the Prophet (ﷺ) said, “Who is this?” He said, “I am Abu Huraira.” The Prophet (ﷺ) said, “Bring me stones in order to clean my private parts, and do not bring any bones or animal dung.” Abu Huraira went on narrating: So I brought some stones, carrying them in the corner of my robe till I put them by his side and went away. When he finished, I walked with him and asked, “What about the bone and the animal dung?” He said, “They are of the food of Jinns. The delegate of Jinns of (the city of) Nasibin came to me–and how nice those Jinns were–and asked me for the remains of the human food. I invoked Allah for them that they would never pass by a bone or animal dung but find food on them.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 200


86

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي، فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ ائْتِنِي‏.‏ فَانْطَلَقَ الأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ لَهُ رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الأَخْلاَقِ، وَكَلاَمًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ‏.‏ فَقَالَ مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ، فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى الْمَسْجِدَ، فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَلاَ يَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ، فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ‏.‏ فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ، فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَىْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلاَ يَرَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ فَقَالَ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ فَأَقَامَهُ، فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لاَ يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَىْءٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمَ الثَّالِثِ، فَعَادَ عَلِيٌّ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَقَامَ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ أَلاَ تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ قَالَ إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنَّنِي فَعَلْتُ فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ‏.‏ قَالَ فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ، فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي‏.‏ فَفَعَلَ، فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي ‏”‏‏.‏ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‏.‏ ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ، وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ قَالَ وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا، فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ، فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ‏.‏

مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے ، کہا ہم سے مثنیٰ نے ، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لئے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے ۔ میرے لئے خبریں حاصل کر کے لا ۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا ۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے ، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کوحکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے ۔ اس پر ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لئے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی ، آخر انہوں نے خودتوشہ باندھا ، پانی سے بھر ا ہوا ایک پر انا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے ، مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پو چھنا بھی مناسب نہیں سمجھا ، کچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے ، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی ۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے ۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے ۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے ۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا ، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی ، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے ؟ ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا ۔ اگر میں ( راستے میں ) کوئی ایسی بات دیکھوںگا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا ۔ ( کسی دیوار کے قریب ) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے ، اس وقت تم میرا انتظار نہ کر نا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں ، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے ، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے ( تو پھر ہمارے پاس آ جانا ) ابو ذررضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکا رکر کلمئہ توحید کا اعلان کروں گا ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں “ ۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتاہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا ۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا ۔ قو م پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑگئے

Narrated Ibn `Abbas:

When Abu Dhar received the news of the Advent of the Prophet (ﷺ) he said to his brother, “Ride to this valley (of Mecca) and try to find out the truth of the person who claims to be a prophet who is informed of the news of Heaven. Listen to what he says and come back to me.” So his brother set out and came to the Prophet (ﷺ) and listened to some of his talks, and returned to Abu Dhar and said to him. “I have seen him enjoining virtuous behavior and saying something that is not poetry.” Abu Dhar said, “You have not satisfied me as to what I wanted.” He then took his journey-food and carried a waterskin of his, containing some water till be reached Mecca. He went to the Mosque and searched for the Prophet and though he did not know him, he hated to ask anybody about him. When a part of the night had passed away, `Ali saw him and knew that he was a stranger. So when Abu Dhar saw `Ali, he followed him, and none of them asked his companion about anything, and when it was dawn, Abu Dhar took his journey food and his water-skin to the Mosque and stayed there all the day long without being perceived by the Prophet, and when it was evening, he came back to his retiring place. `Ali passed by him and said, “Has the man not known his dwelling place yet?” So `Ali awakened him and took him with him and none of them spoke to the other about anything. When it was the third day. `Ali did the same and Abu Dhar stayed with him. Then `Ali said “Will you tell me what has brought you here?” Abu Dhar said, “If you give me a firm promise that you will guide me, then I will tell you.” `Ali promised him, and he informed `Ali about the matter. `Ali said, “It is true, and he is the Messenger of Allah. Next morning when you get up, accompany me, and if I see any danger for you, I will stop as if to pass water, but if I go on, follow me and enter the place which I will enter.” Abu Dhar did so, and followed `Ali till he entered the place of the Prophet, and Abu Dhar went in with him, Abu Dhar listened to some of the Prophet’s talks and embraced Islam on the spot. The Prophet (ﷺ) said to him, “Go back to your people and inform them (about it) till you receive my order.” Abu Dhar said, “By Him in Whose Hand my life is, I will proclaim my conversion loudly amongst them (i.e. the pagans).” So he went out, and when he reached the Mosque, he said as loudly as possible, “I bear witness that None has the right to be worshipped except Allah, and Muhammad is the Messenger of Allah.” The People got up and beat him painfully. Then Al-Abbas came and knelt over him ((to protect him) and said (to the people), “Woe to you! Don’t you know that this man belongs to the tribe of Ghifar and your trade to Sha’m is through their way?” So he rescued him from them. Abu Dhar again did the same the next day. They beat him and took vengeance on him and again Al-Abbas knelt over him (to protect him).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 201


87

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ يَقُولُ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنَّ عُمَرَ لَمُوثِقِي عَلَى الإِسْلاَمِ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عُمَرُ، وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا ارْفَضَّ لِلَّذِي صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ مَحْقُوقًا أَنْ يَرْفَضَّ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل نے ، ان سے قیس نے بیان کیا کہمیں نے کوفہ کی مسجد میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ ایک وقت تھا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے سے پہلے مجھے اس وجہ سے باندھ رکھا تھا کہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا لیکن تم لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اگر احد پہاڑبھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا کرنا ہی چا ہئے ۔

Narrated Qais:

I heard Sa`id bin Zaid bin `Amr bin Nufail saying in the mosque of Al-Kufa. “By Allah, I have seen myself tied and forced by `Umar to leave Islam before `Umar himself embraced Islam. And if the mountain of Uhud could move from its place for the evil which you people have done to `Uthman, then it would have the right to move from its place.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 202


88

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ‏.‏

مجھ سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے ، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعدہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے ۔

Narrated `Abdullah bin Mus’ud:

We have been powerful since `Umar embraced Islam.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 203


89

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ فَأَخْبَرَنِي جَدِّي، زَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ بَيْنَمَا هُوَ فِي الدَّارِ خَائِفًا، إِذْ جَاءَهُ الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ أَبُو عَمْرٍو، عَلَيْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ، وَقَمِيصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِيرٍ، وَهُوَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ، وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ لَهُ مَا بَالُكَ قَالَ زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَيَقْتُلُونِي إِنْ أَسْلَمْتُ‏.‏ قَالَ لاَ سَبِيلَ إِلَيْكَ‏.‏ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا أَمِنْتُ، فَخَرَجَ الْعَاصِ، فَلَقِيَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمُ الْوَادِي فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُونَ فَقَالُوا نُرِيدُ هَذَا ابْنَ الْخَطَّابِ الَّذِي صَبَا‏.‏ قَالَ لاَ سَبِيلَ إِلَيْهِ‏.‏ فَكَرَّ النَّاسُ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمربن محمد نے بیان کیا ، کہامجھ کو میرے دادا زید بن عبداللہ بن عمرو نے خبر دی ، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے کے بعد قریش سے ) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا ، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا وہ قبیلہ بنوسہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے ، عاص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا بات ہے ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مارڈالیں گے ۔ عاص نے کہا ” تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا “ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں ۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوںسے بھر گیا ہے ۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بےدین ہو گیا ہے ۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

While `Umar was at home in a state of fear, there came Al-`As bin Wail As-Sahmi Abu `Amr, wearing an embroidered cloak and a shirt having silk hems. He was from the tribe of Bani Sahm who were our allies during the pre-Islamic period of ignorance. Al-`As said to `Umar “What is wrong with you?” He said, “Your people claim that they would kill me if I become a Muslim.” Al-`As said, “Nobody will harm you after I have given protection to you.” So Al-`As went out and met the people streaming in the whole valley. He said, “Where are you going?” They said, “We want Ibn Al-Khattab who has embraced Islam.” Al-`As said, “There is no way for anybody to touch him.” So the people retreated.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 204


9

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن جبیر نے کہا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان کی نشانی انصار سے محبت رکھنا ہے اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے ۔

Narrated Anas bin Malik:

The Prophet (ﷺ) said, “The sign of Belief is to love the Ansar, and the sign of hypocrisy is to hate the Ansar.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 128


90

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُهُ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ اجْتَمَعَ النَّاسُ عِنْدَ دَارِهِ وَقَالُوا صَبَا عُمَرُ‏.‏ وَأَنَا غُلاَمٌ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِي، فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَبَاءٌ مِنْ دِيبَاجٍ فَقَالَ قَدْ صَبَا عُمَرُ‏.‏ فَمَا ذَاكَ فَأَنَا لَهُ جَارٌ‏.‏ قَالَ فَرَأَيْتُ النَّاسَ تَصَدَّعُوا عَنْهُ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے عمرو بن دینا ر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہجب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو لوگ ان کے گھر کے قریب جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ عمر بےدین ہو گیا ہے ، میں ان دنوں بچہ تھا اور اس وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھا ہوا تھا ۔ اچانک ایک شخص آیا جو ریشم کی قباء پہنے ہوئے تھا ، اس شخص نے لوگوںسے کہا ٹھیک ہے عمر بےدین ہو گیا لیکن یہ مجمع کیساہے ؟ دیکھو میں عمر کو پناہ دے چکا ہوں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی یہ بات سنتے ہی لوگ الگ الگ ہو گئے ۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب تھے ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ عاص بن وائل ہیں ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

When `Umar embraced Islam, all The (disbelieving) people gathered around his home and said, “`Umar has embraced Islam.” At that time I was still a boy and was on the roof of my house. There came a man wearing a cloak of Dibaj (i.e. a kind of silk), and said, “`Umar has embraced Islam. Nobody can harm him for I am his protector.” I then saw the people going away from `Umar and asked who the man was, and they said, “Al-`As bin Wail.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 205


91

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ، أَنَّ سَالِمًا، حَدَّثَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ مَا سَمِعْتُ عُمَرَ، لِشَىْءٍ قَطُّ يَقُولُ إِنِّي لأَظُنُّهُ كَذَا‏.‏ إِلاَّ كَانَ كَمَا يَظُنُّ، بَيْنَمَا عُمَرُ جَالِسٌ إِذْ مَرَّ بِهِ رَجُلٌ جَمِيلٌ فَقَالَ لَقَدْ أَخْطَأَ ظَنِّي، أَوْ إِنَّ هَذَا عَلَى دِينِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، أَوْ لَقَدْ كَانَ كَاهِنَهُمْ، عَلَىَّ الرَّجُلَ، فَدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ اسْتُقْبِلَ بِهِ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، قَالَ فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلاَّ مَا أَخْبَرْتَنِي‏.‏ قَالَ كُنْتُ كَاهِنَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ‏.‏ قَالَ فَمَا أَعْجَبُ مَا جَاءَتْكَ بِهِ جِنِّيَّتُكَ قَالَ بَيْنَمَا أَنَا يَوْمًا فِي السُّوقِ جَاءَتْنِي أَعْرِفُ فِيهَا الْفَزَعَ، فَقَالَتْ أَلَمْ تَرَ الْجِنَّ وَإِبْلاَسَهَا وَيَأْسَهَا مِنْ بَعْدِ إِنْكَاسِهَا وَلُحُوقَهَا بِالْقِلاَصِ وَأَحْلاَسِهَا قَالَ عُمَرُ صَدَقَ، بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ آلِهَتِهِمْ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ بِعِجْلٍ فَذَبَحَهُ، فَصَرَخَ بِهِ صَارِخٌ، لَمْ أَسْمَعْ صَارِخًا قَطُّ أَشَدَّ صَوْتًا مِنْهُ يَقُولُ يَا جَلِيحْ، أَمْرٌ نَجِيحْ رَجُلٌ فَصِيحْ يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ‏.‏ فَوَثَبَ الْقَوْمُ قُلْتُ لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَعْلَمَ مَا وَرَاءَ هَذَا ثُمَّ نَادَى يَا جَلِيحْ، أَمْرٌ نَجِيحْ، رَجُلٌ فَصِيحْ، يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ فَقُمْتُ فَمَا نَشِبْنَا أَنْ قِيلَ هَذَا نَبِيٌّ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمرو بن محمد بن زید نے بیان کیا ، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہجب بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیا ل ظاہر کرتے تھے ۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا ۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے ۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ ۔ وہ شخص بلایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دھرائی ۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن میں تمہارے لئے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں میں اپنی قوم کا کاہن تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی ، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے ، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں ۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں ، مایوس ہو رہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے سچ کہا ۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا ۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اور اس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی ۔ اس نے کہا اے دشمن ! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لا الہٰ الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ ( جو وہاں موجود تھے ) چونک پڑے ( چل دئیے ) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا ، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے ۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لا الہٰ الا اللہ ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

I never heard `Umar saying about something that he thought it would be so-and-so, but he was quite right. Once, while `Umar was sitting, a handsome man passed by him, `Umar said, “If I am not wrong, this person is still on his religion of the pre-lslamic period of ignorance or he was their foreteller. Call the man to me.” When the man was called to him, he told him of his thought. The man said, “I have never seen such a day on which a Muslim is faced with such an accusation.” `Umar said, “I am determined that you should tell me the truth.” He said, “I was a foreteller in the pre-lslamic period of ignorance.” Then `Umar said, “Tell me the most astonishing thing your female Jinn has told you of.” He said, “One-day while I was in the market, she came to me scared and said, ‘Haven’t you seen the Jinns and their despair and they were overthrown after their defeat (and prevented from listening to the news of the heaven) so that they (stopped going to the sky and) kept following camel-riders (i.e. ‘Arabs)?” `Umar said, “He is right.” and added, “One day while I was near their idols, there came a man with a calf and slaughtered it as a sacrifice (for the idols). An (unseen) creature shouted at him, and I have never heard harsher than his voice. He was crying, ‘O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except you (O Allah).’ On that the people fled, but I said, ‘I shall not go away till I know what is behind this.’ Then the cry came again: ‘O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except Allah.’ I then went away and a few days later it was said, “A prophet has appeared.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 206


92

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِلْقَوْمِ لَوْ رَأَيْتُنِي مُوثِقِي عُمَرُ عَلَى الإِسْلاَمِ أَنَا وَأُخْتُهُ وَمَا أَسْلَمَ، وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا انْقَضَّ لِمَا صَنَعْتُمْ، بِعُثْمَانَ لَكَانَ مَحْقُوقًا أَنْ يَنْقَضَّ‏.‏

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے قیس نے ، کہا کہ میں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سناانہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا ایک وقت تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو مجھے اوراپنی بہن کو اس لئے باندھ رکھا تھا کہ ہم اسلام کیوں لائے ، اور آج تم نے جو کچھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ برتاؤ کیا ہے ، اگر اس پر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے ۔

Narrated Qais:

I heard Sa`id bin Zaid saying to the people, “If you but saw me and `Umar’s sister tied and forced by `Umar to leave Islam while he was not yet a Muslim. And if the mountain of Uhud could move from its place for the evil which you people have done to `Uthman, it would have the right to do that.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 207


93

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ أَهْلَ، مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ الْقَمَرَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، ان سے سعیدبن ابی عروبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہکفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے دوٹکڑے کر کے دکھا دئیے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے حرا پہاڑ کو ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا ۔

Narrated Anas bin Malik:

The people of Mecca asked Allah’s Messenger (ﷺ) to show them a miracle. So he showed them the moon split in two halves between which they saw the Hira’ mountain.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 208


94

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمِنًى فَقَالَ ‏ “‏ اشْهَدُوا ‏”‏‏.‏ وَذَهَبَتْ فِرْقَةٌ نَحْوَ الْجَبَلِ وَقَالَ أَبُو الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ انْشَقَّ بِمَكَّةَ‏.‏ وَتَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ‏.‏

ہم سے عبدان نے بیان کیا ، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے ابو معمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجودتھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگو ! گواہ رہنا ، اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا اور ابو الضحیٰ نے بیان کیا ، ان سے مسروق نے ، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہ شق قمر کا معجزہ مکہ میں پیش آیا تھا ۔ ابراہیم نخعی کے ساتھ اس کی متابعت محمد بن مسلم نے کی ہے ، ان سے ابونجیح نے بیان کیا ، ان سے مجاہد نے ، ان سے ابو معمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ۔

Narrated `Abdullah:

The moon was split ( into two pieces ) while we were with the Prophet (ﷺ) in Mina. He said, “Be witnesses.” Then a Piece of the moon went towards the mountain.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 209


95

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ الْقَمَرَ، انْشَقَّ عَلَى زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے عثمان بن صالح نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے بکر بن مضر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ، ان سے عراک بن مالک نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلا شک وشبہ چاند پھٹ گیا تھا ۔

Narrated `Abdullah bin `Abbas:

During the lifetime of Allah’s Messenger (ﷺ) the moon was split (into two places).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 210


96

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‏.‏

ہم سے عمر بنا حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا ، ان سے ابو معمر نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہچاند پھٹ گیا تھا ۔

Narrated `Abdullah:

The moon was split (into two pieces).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 211


97

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ قَالاَ لَهُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ خَالَكَ عُثْمَانَ فِي أَخِيهِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَكَانَ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيمَا فَعَلَ بِهِ‏.‏ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَانْتَصَبْتُ لِعُثْمَانَ حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهْىَ نَصِيحَةٌ‏.‏ فَقَالَ أَيُّهَا الْمَرْءُ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَانْصَرَفْتُ، فَلَمَّا قَضَيْتُ الصَّلاَةَ جَلَسْتُ إِلَى الْمِسْوَرِ وَإِلَى ابْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، فَحَدَّثْتُهُمَا بِالَّذِي قُلْتُ لِعُثْمَانَ وَقَالَ لِي‏.‏ فَقَالاَ قَدْ قَضَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْكَ‏.‏ فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَهُمَا، إِذْ جَاءَنِي رَسُولُ عُثْمَانَ، فَقَالاَ لِي قَدِ ابْتَلاَكَ اللَّهُ‏.‏ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ مَا نَصِيحَتُكَ الَّتِي ذَكَرْتَ آنِفًا قَالَ فَتَشَهَّدْتُ ثُمَّ قُلْتُ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكُنْتَ مِمَّنِ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَآمَنْتَ بِهِ، وَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ، وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، فَحَقٌّ عَلَيْكَ أَنْ تُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدَّ‏.‏ فَقَالَ لِي يَا ابْنَ أَخِي أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ قُلْتُ لاَ، وَلَكِنْ قَدْ خَلَصَ إِلَىَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا خَلَصَ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا‏.‏ قَالَ فَتَشَهَّدَ عُثْمَانُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكُنْتُ مِمَّنِ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ كَمَا قُلْتَ، وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبَايَعْتُهُ، وَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلاَ غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلاَ غَشَشْتُهُ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلاَ غَشَشْتُهُ، ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ، أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ عَلَىَّ قَالَ بَلَى‏.‏ قَالَ فَمَا هَذِهِ الأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ فَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، فَسَنَأْخُذُ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ قَالَ فَجَلَدَ الْوَلِيدَ أَرْبَعِينَ جَلْدَةً، وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَجْلِدَهُ، وَكَانَ هُوَ يَجْلِدُهُ‏.‏ وَقَالَ يُونُسُ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ‏.‏

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ مَا ابْتُلِيتُمْ بِهِ مِنْ شِدَّةٍ وَفِي مَوْضِعٍ الْبَلَاءُ الِابْتِلَاءُ وَالتَّمْحِيصُ مَنْ بَلَوْتُهُ وَمَحَّصْتُهُ أَيْ اسْتَخْرَجْتُ مَا عِنْدَهُ يَبْلُو يَخْتَبِرُ مُبْتَلِيكُمْ مُخْتَبِرُكُمْ وَأَمَّا قَوْلُهُ بَلَاءٌ عَظِيمٌ النِّعَمُ وَهِيَ مِنْ أَبْلَيْتُهُ وَتِلْكَ مِنْ ابْتَلَيْتُهُ

ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے کہا کہ ہم سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا ، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیارنے خبر دی ، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبد الر حمن بن اسود بن عبد یغوثان دونوں نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے کہا تم اپنے ماموں ( امیرالمؤمنین ) عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے باب میں گفتگو کیوں نہیں کرتے ، ( ہوا یہ تھا کہ لوگوں نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا جو حضرت عثمان نے ولید کے ساتھ کیا تھا ) ، عبیداللہ نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے ، آپ کو ایک خیرخواہانہ مشورہ دینا ہے ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بھلے آدمی ! تم سے تو میں خدا کی پنا ہ مانگتا ہوں ۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس چلا آیا ۔ نماز سے فا رغ ہونے کے بعد میں مسور بن مخرمہ اور ابن عبد یغوث کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان رضی اللہ عنہ سے جو کچھ میں نے کہا تھا اور انہوں نے اس کا جواب مجھے جودیا تھا ، سب میں نے بیان کر دیا ۔ ان لوگوں نے کہا تم نے اپنا حق ادا کر دیا ۔ ابھی میں اس مجلس میں بیٹھا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا آدمی میرے پاس ( بلانے کے لیے ) آیا ۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا تمہیں اللہ تعالیٰ نے امتحان میں ڈالا ہے ۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے دریافت کیا تم ابھی جس خیرخواہی کا ذکر کر رہے تھے وہ کیاتھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے کہا اللہ گواہ ہے پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی ، آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا تھا ۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے دو ہجرتیں کیں ( ایک حبشہ کو اور دوسری مدینہ کو ) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو دیکھا ہے ۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگوں میں اب بہت چرچا ہونے لگا ہے ۔ اس لئے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ( شراب نوشی کی ) حد قائم کریں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے یا میرے بھانجے کیا تم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی باتیں اس طرح میں نے حاصل کی تھیں جو ایک کنوا ری لڑکی کو بھی اپنے پردے میں معلوم ہو چکی ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سن کر پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کو گواہ کر کے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر اپنی کتاب نازل کی تھی اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ( ابتداء ہی میں ) لبیک کہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے تھے میں اس پر ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی ۔ اللہ کی قسم ! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی آخر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتحب ہوئے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ ان کے کسی معاملہ میں کوئی خیانت کی ۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی ۔ اس کے بعد میں خلیفہ ہوا ۔ کیا اب میرا تم لوگوں پر وہی حق نہیں ہے جو ان کا مجھ پر تھا ؟ عبیداللہ نے عرض کیا یقیناً آپ کا حق ہے پھر انہوں نے کہا پھر ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تم لوگوں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں ؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم انشاءاللہ اس معاملے میں اس کی گرفت حق کے ساتھ کریں گے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر ( گواہی کے بعد ) ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے لگوائے گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کوڑے لگائیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے اس کو کوڑے مارے تھے ۔ اس حدیث کو یونس اورزہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے روایت کیا اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قول اس طرح بیان کیا ، کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا ۔

Narrated ‘Ubaidullah bin `Adi bin Al-Khiyar:

That Al-Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin ‘Abu Yaghuth had said to him, “What prevents you from speaking to your uncle `Uthman regarding his brother Al-Walid bin `Uqba?” The people were speaking against the latter for what he had done. ‘Ubaidullah said, “So I kept waiting for `Uthman, and when he went out for the prayer, I said to him, ‘I have got something to say to you as a piece of advice.’ `Uthman said, ‘O man! I seek Refuge with Allah from you. So I went away. When I finished my prayer, I sat with Al-Miswar and Ibn ‘Abu Yaghutb and talked to both of them of what I had said to `Uthman and what he had said to me. They said, ‘You have done your duty.’ So while I was sitting with them. `Uthman’s Messenger came to me. They said, ‘Allah has put you to trial.” I set out and when I reached `Uthman, he said, ‘What is your advice which you mentioned a while ago?’ I recited Tashahhud and added, ‘Allah has sent Muhammad and has revealed the Holy Book (i.e. Qur’an) to him. You (O `Uthman!) were amongst those who responded to the call of Allah and His Apostle and had faith in him. And you took part in the first two migrations (to Ethiopia and to Medina), and you enjoyed the company of Allah’s Messenger (ﷺ) and learned his traditions and advice. Now the people are talking much about Al-Walid bin `Uqba and so it is your duty to impose on him the legal punishment.’ `Uthman then said to me, ‘O my nephew! Did you ever meet Allah’s Messenger (ﷺ) ?’ I said, ‘No, but his knowledge has reached me as it has reached the virgin in her seclusion.’ `Uthman then recited Tashahhud and said, ‘No doubt, Allah has sent Muhammad with the Truth and has revealed to him His Holy Book (i.e. Qur’an) and I was amongst those who responded to the call of Allah and His Apostle and I had faith in Muhammad’s Mission, and I had performed the first two migrations as you have said, and I enjoyed the company of Allah’s Messenger (ﷺ) and gave the pledge of allegiance to him. By Allah, I never disobeyed him and never cheated him till Allah caused him to die. Then Allah made Abu Bakr Caliph, and by Allah, I was never disobedient to him, nor did I cheat him. Then `Umar became Caliph, and by Allah, I was never disobedient to him, nor did I cheat him. Then I became Caliph. Have I not then the same rights over you as they had over me?’ I replied in the affirmative. `Uthman further said, ‘The what are these talks which are reaching me from you? As for what you ha mentioned about Al-Walid bin ‘Uqb; Allah willing, I shall give him the leg; punishment justly. Then `Uthman ordered that Al-Walid be flogged fort lashes. He ordered `Ali to flog him an he himself flogged him as well.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 212


98

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها أَنَّ أُمَّ، حَبِيبَةَ وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالْحَبَشَةِ، فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ “‏ إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِيكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏”‏‏.‏

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد ( عروہ بن زبیر ) نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک گر جے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اس کے اندر تصویریں تھیں ۔ انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ان میں کوئی نیک مرد ہوتا اور اس کی وفات ہو جاتی تو اس کی قبر کو وہ لوگ مسجد بناتے اور پھر اس میں اس کی تصویریں رکھتے ۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بدتر ین مخلوق ہوں گے ۔

Narrated `Aisha:

Um Habiba and Um Salama mentioned a church they had seen in Ethiopia and in the church there were pictures. When they told the Prophet (ﷺ) of this, he said, “Those people are such that if a pious man amongst them died, they build a place of worship over his grave and paint these pictures in it. Those people will be Allah’s worst creatures on the Day of Resurrection . ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 213


99

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ السَّعِيدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدٍ، قَالَتْ قَدِمْتُ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَأَنَا جُوَيْرِيَةٌ، فَكَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَمِيصَةً لَهَا أَعْلاَمٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُ الأَعْلاَمَ بِيَدِهِ وَيَقُولُ ‏ “‏ سَنَاهْ، سَنَاهْ ‏”‏‏.‏ قَالَ الْحُمَيْدِيُّ يَعْنِي حَسَنٌ حَسَنٌ‏.‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے اسحاق بن سعید سعیدی نے بیان کیا ۔ ان سے ان کے والد سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے ، ان سے ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہمیں جب حبشہ سے آئی تو بہت کم عمر تھی ۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر عنایت فرمائی اور پھر آپ نے اس کی دھاریوں پر اپنا ہاتھ پھیر کر فرمایا سناہ سناہ ۔ حمیدی نے بیان کیا کہ سناہ سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی اچھا اچھا ۔

Narrated Um Khalid bint Khalid:

When I came from Ethiopia (to Medina), I was a young girl. Allah’s Messenger (ﷺ) made me wear a sheet having marks on it. Allah’s Messenger (ﷺ) was rubbing those marks with his hands saying, “Sanah! Sanah!” (i.e. good, good).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 5, Book 58, Hadith 214


Scroll to Top
Scroll to Top
Skip to content