Conditions

1

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، رضى الله عنهما يُخْبِرَانِ عَنْ أَصْحَابِ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَمَّا كَاتَبَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَئِذٍ كَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ‏.‏ فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ، وَامْتَعَضُوا مِنْهُ، وَأَبَى سُهَيْلٌ إِلاَّ ذَلِكَ، فَكَاتَبَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى ذَلِكَ، فَرَدَّ يَوْمَئِذٍ أَبَا جَنْدَلٍ عَلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَأْتِهِ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلاَّ رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ، وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، وَجَاءَ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، وَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ وَهْىَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَرْجِعْهَا إِلَيْهِمْ لِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ ‏{‏إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَلاَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ‏}‏‏.‏

عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے ” اے مسلمانو ! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو “ ۔ غفور رحیم تک ۔ عروہ نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی ، آپ صرف زبان سے بیعت کرتے تھے ۔ قسم اللہ کی ! بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا ، بلکہ آپ صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے ۔

Narrated Marwan and al-Miswar bin Makhrama:

(from the companions of Allah’s Messenger (ﷺ)) When Suhail bin `Amr agreed to the Treaty (of Hudaibiya), one of the things he stipulated then, was that the Prophet (ﷺ) should return to them (i.e. the pagans) anyone coming to him from their side, even if he was a Muslim; and would not interfere between them and that person. The Muslims did not like this condition and got disgusted with it. Suhail did not agree except with that condition. So, the Prophet (ﷺ) agreed to that condition and returned Abu Jandal to his father Suhail bin `Amr. Thenceforward the Prophet (ﷺ) returned everyone in that period (of truce) even if he was a Muslim. During that period some believing women emigrants including Um Kulthum bint `Uqba bin Abu Muait who came to Allah’s Messenger (ﷺ) and she was a young lady then. Her relative came to the Prophet (ﷺ) and asked him to return her, but the Prophet (ﷺ) did not return her to them for Allah had revealed the following Verse regarding women: “O you who believe! When the believing women come to you as emigrants. Examine them, Allah knows best as to their belief, then if you know them for true believers, Send them not back to the unbelievers, (for) they are not lawful (wives) for the disbelievers, Nor are the unbelievers lawful (husbands) for them (60.10)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 874


10

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَحَقُّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ ‏”‏‏.‏

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے حنظلہ زرقی سے سنا ، انہوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ بیان کرتے تھے کہہم اکثر انصار کاشتکاری کیا کرتے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کسی کھیت کے ایک ٹکڑے میں پیداوار ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی ، اس لیے ہمیں اس سے منع کر دیا گیا ۔ لیکن چاندی ( روپے وغیرہ ) کے لگان سے منع نہیں کیا گیا ۔

Narrated `Uqba bin Amir:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “From among all the conditions which you have to fulfill, the conditions which make it legal for you to have sexual relations (i.e. the marriage contract) have the greatest right to be fulfilled.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 882


11

حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ سَمِعْتُ حَنْظَلَةَ الزُّرَقِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ كُنَّا أَكْثَرَ الأَنْصَارِ حَقْلاً، فَكُنَّا نُكْرِي الأَرْضَ، فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ وَلَمْ تُخْرِجْ ذِهِ، فَنُهِينَا عَنْ ذَلِكَ، وَلَمْ نُنْهَ عَنِ الْوَرِقِ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، ان سے معمر نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت نہ بیچے ۔ کوئی شخص نجش نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر بھاو بڑھائے ۔ نہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے پیغام نکاح کی موجودگی میں اپنا پیغام بھیجے اور نہ کوئی عورت ( کسی مرد سے ) اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے ( جو اس مرد کے نکاح میں ہو ) تاکہ اس طرح اس کا حصہ بھی خود لے لے ۔

Narrated Rafi` bin Khadij:

We used to work on the fields more than the other Ansar, and we used to rent the land (for the yield of a specific portion of it). But sometimes that portion or the rest of the land did not give any yield, so we were forbidden (by the Prophet (ﷺ) ) to follow such a system, but we were allowed to rent the land for money.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 883


12

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ يَزِيدَنَّ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلاَ يَخْطُبَنَّ عَلَى خِطْبَتِهِ، وَلاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَكْفِئَ إِنَاءَهَا ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان ، ان سے ابن شہا ب نے ، ا ن سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابو ہر یرہ اور ز ید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہایک دیہاتی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ میرا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیں ۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا ، کہا کہ جی ہاں ! کتاب اللہ سے ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے ، اور مجھے ( اپنا مقدمہ پیش کرنے کی ) اجازت دیجئیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیش کر ۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا ۔ پھر اس نے ان کی بیوی سے زنا کر لیا ، جب مجھے معلوم ہوا کہ ( زنا کی سزا میں ) میرا لڑکا رجم کر دیا جائے گا تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دی ، پھر علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کو ( زنا کی سزا میں کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا ) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے گا ۔ البتہ اس کی بیوی رجم کر دی جائے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا ۔ اچھا انیس ! تم اس عورت کے یہاں جاؤ ، اگر وہ بھی ( زنا کا ) اقرار کر لے ، تو اسے رجم کر دو ( کیونکہ وہ شادی شدہ تھی ) بیان کیا کہ انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار کر لیا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ رجم کی گئی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “No town-dweller should sell for a bedouin. Do not practice Najsh (i.e. Do not offer a high price for a thing which you do not want to buy, in order to deceive the people). No Muslim should offer more for a thing already bought by his Muslim brother, nor should he demand the hand of a girl already engaged to another Muslim. A Muslim woman shall not try to bring about The divorce of her sister (i.e. another Muslim woman) in order to take her place herself.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 884


13

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، رضى الله عنهم أَنَّهُمَا قَالاَ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الأَعْرَابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولَ اللَّهِ أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلاَّ قَضَيْتَ لِي بِكِتَابِ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ الْخَصْمُ الآخَرُ وَهْوَ أَفْقَهُ مِنْهُ نَعَمْ فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَائْذَنْ لِي‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قُلْ ‏”‏‏.‏ قَالَ إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، وَإِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَوَلِيدَةٍ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، اغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرُجِمَتْ‏.‏

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن مکی نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بتلایا کہبریرہ رضی اللہ عنہ میرے یہاں آئیں ، انہوں نے کتابت کا معاملہ کر لیا تھا ۔ مجھ سے کہنے لگیں کہ اے ام المؤمنین ! مجھے آپ خرید لیں ، کیونکہ میرے مالک مجھے بیچنے پر آمادہ ہیں ، پھر آپ مجھے آزاد کر دینا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہاں ( میں ایسا کر لوں گی ) لیکن بریرہ رضی اللہ عنہا نے پھر کہا کہ میرے مالک مجھے اسی وقت بیچیں گے جب وہ ولاء کی شرط اپنے لیے لگا لیں ۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پھر مجھے ضرورت نہیں ہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ، یا آپ کو معلوم ہوا ( راوی کو شبہ تھا ) تو آپ نے فرمایا کہ بریرہ ( رضی اللہ عنہا ) کا کیا معاملہ ہے ؟ تم انہیں خرید کر آزاد کر دو ، وہ لوگ جو چاہیں شرط لگا لیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے بریرہ کو خرید کر آزاد کر دیا اور اس کے مالک نے ولاء کی شرط اپنے لیے محفوظ رکھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ولاء اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے ( دوسرے ) جو چاہیں شرط لگاتے رہیں ۔

Narrated Abu Huraira and Zaid bin Khalid Al-Juhani:

A bedouin came to Allah’s Messenger (ﷺ) and said, “O Allah’s apostle! I ask you by Allah to judge My case according to Allah’s Laws.” His opponent, who was more learned than he, said, “Yes, judge between us according to Allah’s Laws, and allow me to speak.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Speak.” He (i .e. the bedouin or the other man) said, “My son was working as a laborer for this (man) and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that it was obligatory that my son should be stoned to death, so in lieu of that I ransomed my son by paying one hundred sheep and a slave girl. Then I asked the religious scholars about it, and they informed me that my son must be lashed one hundred lashes, and be exiled for one year, and the wife of this (man) must be stoned to death.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “By Him in Whose Hands my soul is, I will judge between you according to Allah’s Laws. The slave-girl and the sheep are to be returned to you, your son is to receive a hundred lashes and be exiled for one year. You, Unais, go to the wife of this (man) and if she confesses her guilt, stone her to death.” Unais went to that woman next morning and she confessed. Allah’s Messenger (ﷺ) ordered that she be stoned to death.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 885


14

حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ الْمَكِّيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ دَخَلَتْ عَلَىَّ بَرِيرَةُ وَهْىَ مُكَاتَبَةٌ، فَقَالَتْ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ اشْتَرِينِي فَإِنَّ أَهْلِي يَبِيعُونِي فَأَعْتِقِينِي قَالَتْ نَعَمْ‏.‏ قَالَتْ إِنَّ أَهْلِي لاَ يَبِيعُونِي حَتَّى يَشْتَرِطُوا وَلاَئِي‏.‏ قَالَتْ لاَ حَاجَةَ لِي فِيكِ‏.‏ فَسَمِعَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْ بَلَغَهُ، فَقَالَ ‏”‏ مَا شَأْنُ بَرِيرَةَ فَقَالَ اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا وَلْيَشْتَرِطُوا مَا شَاءُوا ‏”‏‏.‏ قَالَتْ فَاشْتَرَيْتُهَا فَأَعْتَقْتُهَا، وَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلاَءَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، وَإِنِ اشْتَرَطُوا مِائَةَ شَرْطٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، ان سے عدی بن ثابت نے ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تجارتی قافلوں کی ) پیشوائی سے منع فرمایا تھا اور اس سے بھی کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان تجارت بیچے اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی ( دینی یا نسبی ) بہن کے طلاق کی شرط لگائے اور اس سے کہ کوئی اپنے کسی بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے ، اسی طرح آپ نے نجش اور تصریہ سے بھی منع فرمایا ۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ بن معاذ اور عبدالصمد بن عبدالوارث نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے اور غندر اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے یوں کہا کہ ممانعت کی گئی تھی ( مجہول کے صیغے کے ساتھ ) آدم بن ابی ایاس نے یوں کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا نضر اور حجاج بن منہال نے یوں کہا کہ منع کیا تھا ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ۔

Narrated Aiman Al-Makki:

When I visited Aisha she said, “Barirah who had a written contract for her emancipation for a certain amount came to me and said, “O mother of the believers! Buy me and manumit me, as my masters will sell me.” Aisha agreed to it. Barirah said, ‘My masters will sell me on the condition that my Wala will go to them.” Aisha said to her, ‘Then I am not in need of you.’ The Prophet (ﷺ) heard of that or was told about it and so he asked Aisha, ‘What is the problem of Barirah?’ He said, ‘Buy her and manumit her, no matter what they stipulate.’ Aisha added, ‘I bought and manumitted her, though her masters had stipulated that her Wala would be for them.’ The Prophet (ﷺ) said, The Wala is for the liberator, even if the other stipulated a hundred conditions.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 886


15

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ التَّلَقِّي، وَأَنْ يَبْتَاعَ الْمُهَاجِرُ لِلأَعْرَابِيِّ، وَأَنْ تَشْتَرِطَ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا، وَأَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ، وَنَهَى عَنِ النَّجْشِ، وَعَنِ التَّصْرِيَةِ‏.‏ تَابَعَهُ مُعَاذٌ وَعَبْدُ الصَّمَدِ عَنْ شُعْبَةَ‏.‏ وَقَالَ غُنْدَرٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ نُهِيَ‏.‏ وَقَالَ آدَمُ نُهِينَا‏.‏ وَقَالَ النَّضْرُ وَحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ نَهَى‏.‏

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے اور ان میں ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے ، ابن جریج نے کہا مجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اور عمرو کے سوا اوروں نے بھی بیان کی ، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خضر سے جو جا کر ملے تھے وہ موسیٰ علیہ السلام تھے ۔ پھر آخر تک حدیث بیان کی کہ خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کیا میں آپ کو پہلے ہی نہیں بتا چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ( موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ) پہلا سوال تو بھول کر ہوا تھا ، بیچ کا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر ہوا تھا ۔ آپ نے خضر سے کہا تھا کہ ” میں جس کو بھول گیا آپ اس میں مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے اور نہ میرا کام مشکل بناؤ “ دونوں کو ایک لڑکا ملا جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا وہ وہ آگے بڑھے تو انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے والی تھی لیکن خضر علیہ السلام نے اسے درست کر دیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ورآئہم ملککے بجائے امامہم ملک پڑھا ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) forbade (1) the meeting of the caravan (of goods) on the way, (2) and that a residing person buys for a bedouin, (3) and that a woman stipulates the divorce of the wife of the would-be husband, (4) and that a man tries to cause the cancellation of a bargain concluded by another. He also forbade An-Najsh (see Hadith 824) and that one withholds the milk in the udder of the animal so that he may deceive people on selling it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 887


16

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ حَدَّثَنِي أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ ‏”‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ‏{‏قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا‏}‏ كَانَتِ الأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا ‏{‏قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا‏}‏‏.‏ ‏{‏لَقِيَا غُلاَمًا فَقَتَلَهُ‏}‏ فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ‏.‏ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، انہوں نے ہشام بن عروہ سے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہمیرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے ، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا ۔ آپ بھی میری مدد کیجئے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کر سکتی ہوں ۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہو گی ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا ۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی ، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہو گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے ۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے ۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں ۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا ۔

Narrated Ubai bin Ka`b:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Moses the Messenger of Allah,” and then he narrated the whole story about him. Al-Khadir said to Moses, “Did not I tell you that you can have no patience with me.” (18.72). Moses then violated the agreement for the first time because of forgetfulness, then Moses promised that if he asked Al-Khadir about anything, the latter would have the right to desert him. Moses abided by that condition and on the third occasion he intentionally asked Al-Khadir and caused that condition to be applied. The three occasions referred to above are referred to by the following Verses: “Call me not to account for forgetting And be not hard upon me.” (18.73) “Then they met a boy and Khadir killed him.” (18.74) “Then they proceeded and found a wall which was on the verge of falling and Khadir set it up straight.” (18.77)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 888


17

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ فَقَالَتْ كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي‏.‏ فَقَالَتْ إِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ، وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي فَعَلْتُ‏.‏ فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ، فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ، فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَءُ لَهُمْ‏.‏ فَسَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ‏”‏‏.‏ فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ ‏”‏ مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهْوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو احمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابو غسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہجب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والو ں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے ۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لئے میں انہیں جلاوطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں ۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق ( ایک یہودی خاندان ) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلاوطن کر دیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے ۔ اس نے کہا یہ ابو قاسم ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مذاق تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کے دشمن ! تم نے جھوٹی بات کہی ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی ۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبیداللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر ۔

Narrated `Urwa:

Aisha said, “Barirah came to me and said, ‘My people (masters) have written the contract for my emancipation for nine Awaq ) of gold) to be paid in yearly installments, one Uqiyya per year; so help me.” Aisha said (to her), “If your masters agree, I will pay them the whole sum provided the Wala will be for me.” Barirah went to her masters and told them about it, but they refused the offer and she returned from them while Allah’s Messenger (ﷺ)s was sitting. She said, “I presented the offer to them, but they refused unless the Wala’ would be for them.” When the Prophet (ﷺ) heard that and `Aisha told him about It, he said to her, “Buy Barirah and let them stipulate that her Wala’ will be for them, as the Wala’ is for the manumitted.” `Aisha did so. After that Allah’s Messenger (ﷺ) got up amidst the people, Glorified and Praised Allah and said, “What is wrong with some people who stipulate things which are not in Allah’s Laws? Any condition which is not in Allah’s Laws is invalid even if there were a hundred such conditions. Allah’s Rules are the most valid and Allah’s Conditions are the most solid. The Wala is for the manumitted.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 889


18

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ ‏”‏ نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ ‏”‏‏.‏ وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلاَهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرُهُمْ، هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهَمَتُنَا، وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلاَءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَعَامَلَنَا عَلَى الأَمْوَالِ، وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا فَقَالَ عُمَرُ أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ، لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ‏.‏ قَالَ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ‏.‏ فَأَجْلاَهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالاً وَإِبِلاً وَعُرُوضًا، مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ‏.‏ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَحْسِبُهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، اخْتَصَرَهُ‏.‏

مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘کہا مجھ کو معمر نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے زہری نے خبر دی ‘ کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان نے ‘ دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر ( مکہ ) جا رہے تھے ‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں تھے ‘ فرمایا خالد بن ولید قریش کے ( دو سو ) سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لئے مقام غمیم میں مقیم ہے ( یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے ) اس لئے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ‘ پس خدا کی قسم خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو سکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے ۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھ گئی ۔ صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کیلئے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ قصواء اڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ‘ اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں ( کے لشکر ) کو ( مکہ ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کی محرمات کی بڑائی ہو تو میں اس کا مطالبہ منظور کر لوں گا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد ( ایک چشمہ یا گڑھا ) پر جہاں پانی کم تھا ، آپ نے پڑاو کیا ۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے ، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا ، سب کھینچ ڈالا ۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیں بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لئے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے ۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا ۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے ۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں ۔ جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ‘ ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں ۔ وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے ۔ لیکن آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے ( مسلسل لڑائیوں نے قریش کو بھی کمزور کر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ‘ اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کر لوں گا ‘ اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام ( کفار مشرکین عرب ) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہو جاؤں اور ( اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین ( اسلام ) میں وہ بھی داخل ہو سکتے ہیں ( جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چکے ہوں گے ) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا ‘ میں اس دین کے لئے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا ۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریش تک آپ کی گفتگو میں پہچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ‘ اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے اسے بیان کر سکتے ہیں ۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ‘ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کر دو ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ‘ سب بیان کر دیا ۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ّ ( جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے ) کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو ! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے ۔ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور رکھتے ہیں ۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لئے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا ؟ قریش نے کہا کیوں نہیں ( آپ کی باتیں درست ہیں ) اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے تم قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس ( گفتگو ) کے لئے جانے دو ‘ سب نے کہا آپ ضرور جایئے ۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ‘ عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی ( یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے ) تو میں خدا کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں لوگ یہی کریں گے ۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے امص ببظر اللات ( ابے جا ! لات بت کی شرمگاہ چوس لے ) کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا ۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ‘ تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے ۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی کو تہی کو ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغاباز ! کیا میں نے تیری دغابازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا ؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے سے پہلے ) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا ۔ اس کے بعد ( مدینہ ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے ( تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں ) لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں ، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ۔ کیونکہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا ‘ پھر عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے ۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا ۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجاآوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی ( یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ) جب آپ گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی ۔ آپ کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے ۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو ! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں ۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو ۔ اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ‘ لوگوں نے کہا تم بھی جا سکتے ہو ۔ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اس لئے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے ۔ اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ۔ سب نے کہا کہ تم بھی جا سکتے ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص ہے ۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا ۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمر و آ گیا ۔ معمر نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نیک فالی کے طور پر ) فرمایا تمہارا معاملہ آسان ( سہل ) ہو گیا ۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان ( صلح ) کی ایک تحریر لکھ لو ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے ۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو باسمک اللھم جیسے پہلے لکھا کرتے تھے مسلمانوں نے کہا کہ قسم اللہ کی ہمیں بسم اللہ الرحمان الرحیم کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہئے ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باسمک اللھم ہی لکھنے دو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سہیل نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف اتنا لکھئے کہ ” محمد بن عبداللہ “ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو ‘ لکھو جی ” محمد بن عبداللہ “ زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ ( نرمی اور رعایت ) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا ( جو پہلے بدیل رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے ) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا ‘ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے فرمایا لیکن صلح کے لئے پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لئے جانے دو گے ۔ سہیل نے کہا قسم اللہ کی ہم ( اس سال ) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہو گئے تھے ( اس لئے ہم نے اجازت دے دی ) آئندہ سال کے لئے اجازت ہے ۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا ۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی ( لکھ لیجئے ) کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیں واپس کر دیں گے ۔ مسلمانوں نے ( یہ شرط سن کر کہا ) سبحان اللہ ! ( ایک شخص کو ) مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو ۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آ پہنچے ‘ وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا ۔ سہیل نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پہلا شخص ہے جس کے لئے ( صلح نامہ کے مطابق ) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اسے واپس کر دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے ( صلح نامہ کی اس دفعہ کو ) صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے ( اس لئے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہئے ) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح نہیں کروں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کر دو ۔ اس نے کہا کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کر سکتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہمیں احسان کر دینا چاہئے لیکن اس نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا ۔ البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرتے ہیں مگر ( اس کی بات نہیں چلی ) ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا مسلمانوں ! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں ۔ کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں ۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ! میں نے عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ! میں نے کہا پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا اور وہی میرا مددگار ہے ۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سا ل ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا نہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قید کے ساتھ نہیں فرمایا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچو گے اور ایک دن اس کا طواف کرو گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ ابوبکر ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں ؟ انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں ۔ میں نے پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! میں نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جناب ! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور رب ہی ان کا مددگار ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ‘ خدا گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔ میں نے کہا کیا آنحضور ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہونچیں گے اور اس کا طواف کریں گے انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا کہ نہیں ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ زہری نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لئے نیک اعمال کئے ۔ پھر جب صلح نامہ سے آپ فارغ ہو چکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب اٹھو اور ( جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی ) قربانی کر لو اور سر بھی منڈوا لو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا ۔ جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے نبی ! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے ۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے ۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( مکہ سے ) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ‘ اے لوگو ! جو ایمان لا چکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے لوبعصم الکوافر تک ۔ اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں ۔ ان میں سے ایک نے تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر رضی اللہ عنہ ( مکہ سے فرار ہو کر ) حاضر ہوئے ۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے ۔ قریش نے انہیں واپس لینے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہو چکا ہے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا ۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لئے اترے جو ان کے ساتھ تھی ۔ ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے فرمایا قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی ۔ اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں ۔ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کر لیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا ۔ اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا ۔ داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے ۔ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا ( اگر آپ لوگوں نے ابو بصیر کو نہ روکا ) اتنے میں ابو بصیر بھی آ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی ‘ آپ مجھے ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تیری ماں کی خرابی ) اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے ۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ پھر کفار کے حوالے کر دیں گے اس لئے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھر والوں ( مکہ سے ) چھوٹ کر ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے جا ملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا ( بجائے مدینہ آنے کے ) ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے یہاں ( ساحل سمندر پر ) چلا جاتا ۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کر دیتے ۔ اب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں ( ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں کہ وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں ) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا ( مکہ سے ) اسے امن ہے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” اور وہ ذات پروردگار جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے ( یعنی جنگ نہیں ہو سکی تھی ) وادی مکہ میں ( حدیبیہ میں ) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کر دیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی ) ۔ “ ان کی حمیت ( جاہلیت ) یہ تھی کہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی ) آپ کے لئے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے مانع بنے ۔

Narrated Ibn `Umar:

When the people of Khaibar dislocated `Abdullah bin `Umar’s hands and feet, `Umar got up delivering a sermon saying, “No doubt, Allah’s Messenger (ﷺ) made a contract with the Jews concerning their properties, and said to them, ‘We allow you (to stand in your land) as long as Allah allows you.’ Now `Abdullah bin `Umar went to his land and was attacked at night, and his hands and feet were dislocated, and as we have no enemies there except those Jews, they are our enemies and the only people whom we suspect, I have made up my mind to exile them.” When `Umar decided to carry out his decision, a son of Abu Al-Haqiq’s came and addressed `Umar, “O chief of the believers, will you exile us although Muhammad allowed us to stay at our places, and made a contract with us about our properties, and accepted the condition of our residence in our land?” `Umar said, “Do you think that I have forgotten the statement of Allah’s Messenger (ﷺ), i.e.: What will your condition be when you are expelled from Khaibar and your camel will be carrying you night after night?” The Jew replied, “That was joke from Abul-Qasim.” `Umar said, “O the enemy of Allah! You are telling a lie.” `Umar then drove them out and paid them the price of their properties in the form of fruits, money, camel saddles and ropes, etc.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 890


19

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ، يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِيثَ صَاحِبِهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، حَتَّى كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ بِالْغَمِيمِ فِي خَيْلٍ لِقُرَيْشٍ طَلِيعَةً فَخُذُوا ذَاتَ الْيَمِينِ ‏”‏‏.‏ فَوَاللَّهِ مَا شَعَرَ بِهِمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا هُمْ بِقَتَرَةِ الْجَيْشِ، فَانْطَلَقَ يَرْكُضُ نَذِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا، بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ‏.‏ فَأَلَحَّتْ، فَقَالُوا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ‏”‏‏.‏ ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ، قَالَ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ، عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا، فَلَمْ يُلَبِّثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ، وَشُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْعَطَشُ، فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ خُزَاعَةَ، وَكَانُوا عَيْبَةَ نُصْحِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَهْلِ تِهَامَةَ، فَقَالَ إِنِّي تَرَكْتُ كَعْبَ بْنَ لُؤَىٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَىٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِيَاهِ الْحُدَيْبِيَةِ، وَمَعَهُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ، وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُمُ الْحَرْبُ، وَأَضَرَّتْ بِهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً، وَيُخَلُّوا بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْهَرْ فَإِنْ شَاءُوا أَنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا، وَإِلاَّ فَقَدْ جَمُّوا، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى أَمْرِي هَذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي، وَلَيُنْفِذَنَّ اللَّهُ أَمْرَهُ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ بُدَيْلٌ سَأُبَلِّغُهُمْ مَا تَقُولُ‏.‏ قَالَ فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى قُرَيْشًا قَالَ إِنَّا قَدْ جِئْنَاكُمْ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ، وَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ قَوْلاً، فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعْرِضَهُ عَلَيْكُمْ فَعَلْنَا، فَقَالَ سُفَهَاؤُهُمْ لاَ حَاجَةَ لَنَا أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْهُ بِشَىْءٍ‏.‏ وَقَالَ ذَوُو الرَّأْىِ مِنْهُمْ هَاتِ مَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، فَحَدَّثَهُمْ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَىْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ فَهَلْ تَتَّهِمُونِي‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظٍ، فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَىَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، اقْبَلُوهَا وَدَعُونِي آتِهِ‏.‏ قَالُوا ائْتِهِ‏.‏ فَأَتَاهُ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَيْلٍ، فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَىْ مُحَمَّدُ، أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى، فَإِنِّي وَاللَّهِ لأَرَى وُجُوهًا، وَإِنِّي لأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ‏.‏ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ امْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ‏.‏ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلاَ يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لأَجَبْتُكَ‏.‏ قَالَ وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ‏.‏ فَقَالَ أَىْ غُدَرُ، أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَتَلَهُمْ، وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَّا الإِسْلاَمَ فَأَقْبَلُ، وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَىْءٍ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِعَيْنَيْهِ‏.‏ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَىْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ، يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، فَاقْبَلُوهَا‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ دَعُونِي آتِهِ‏.‏ فَقَالُوا ائْتِهِ‏.‏ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هَذَا فُلاَنٌ، وَهْوَ مِنْ قَوْمٍ يُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوهَا لَهُ ‏”‏‏.‏ فَبُعِثَتْ لَهُ وَاسْتَقْبَلَهُ النَّاسُ يُلَبُّونَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا يَنْبَغِي لِهَؤُلاَءِ أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ قَالَ رَأَيْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ، فَمَا أَرَى أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ‏.‏ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ‏.‏ فَقَالَ دَعُونِي آتِهِ‏.‏ فَقَالُوا ائْتِهِ‏.‏ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هَذَا مِكْرَزٌ وَهْوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ ‏”‏‏.‏ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَبَيْنَمَا هُوَ يُكَلِّمُهُ إِذْ جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو‏.‏ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّهُ لَمَّا جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ فَجَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ هَاتِ، اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابًا، فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْكَاتِبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ‏”‏‏.‏ قَالَ سُهَيْلٌ أَمَّا الرَّحْمَنُ فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا هُوَ وَلَكِنِ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ‏.‏ كَمَا كُنْتَ تَكْتُبُ‏.‏ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ وَاللَّهِ لاَ نَكْتُبُهَا إِلاَّ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ وَلاَ قَاتَلْنَاكَ، وَلَكِنِ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي‏.‏ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَذَلِكَ لِقَوْلِهِ ‏”‏ لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ عَلَى أَنْ تُخَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَنَطُوفَ بِهِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لاَ تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَةً وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَكَتَبَ‏.‏ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَى أَنَّهُ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ، إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا‏.‏ قَالَ الْمُسْلِمُونَ سُبْحَانَ اللَّهِ كَيْفَ يُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جَاءَ مُسْلِمًا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو يَرْسُفُ فِي قُيُودِهِ، وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ، حَتَّى رَمَى بِنَفْسِهِ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُسْلِمِينَ‏.‏ فَقَالَ سُهَيْلٌ هَذَا يَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِيكَ عَلَيْهِ أَنْ تَرُدَّهُ إِلَىَّ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْكِتَابَ بَعْدُ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَوَاللَّهِ إِذًا لَمْ أُصَالِحْكَ عَلَى شَىْءٍ أَبَدًا‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَأَجِزْهُ لِي ‏”‏‏.‏ قَالَ مَا أَنَا بِمُجِيزِهِ لَكَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ بَلَى، فَافْعَلْ ‏”‏‏.‏ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ‏.‏ قَالَ مِكْرَزٌ بَلْ قَدْ أَجَزْنَاهُ لَكَ‏.‏ قَالَ أَبُو جَنْدَلٍ أَىْ مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، أُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِيتُ وَكَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِيدًا فِي اللَّهِ‏.‏ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ ‏”‏ بَلَى ‏”‏‏.‏ قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ ‏”‏ بَلَى ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ ‏”‏ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ وَهْوَ نَاصِرِي ‏”‏‏.‏ قُلْتُ أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ قَالَ ‏”‏ بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ الْعَامَ ‏”‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَيْسَ هَذَا نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ بَلَى‏.‏ قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ بَلَى‏.‏ قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ، إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَيْسَ يَعْصِي رَبَّهُ وَهْوَ نَاصِرُهُ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ عَلَى الْحَقِّ‏.‏ قُلْتُ أَلَيْسَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ وَنَطُوفُ بِهِ قَالَ بَلَى، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيهِ الْعَامَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ‏.‏ قَالَ الزُّهْرِيِّ قَالَ عُمَرُ فَعَمِلْتُ لِذَلِكَ أَعْمَالاً‏.‏ قَالَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَصْحَابِهِ ‏”‏ قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا ‏”‏‏.‏ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ يَقُمْ مِنْهُمْ أَحَدٌ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ لَهَا مَا لَقِيَ مِنَ النَّاسِ‏.‏ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ اخْرُجْ ثُمَّ لاَ تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً حَتَّى تَنْحَرَ بُدْنَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَيَحْلِقَكَ‏.‏ فَخَرَجَ فَلَمْ يُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ نَحَرَ بُدْنَهُ، وَدَعَا حَالِقَهُ فَحَلَقَهُ‏.‏ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ، قَامُوا فَنَحَرُوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَحْلِقُ بَعْضًا، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا، ثُمَّ جَاءَهُ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ‏}‏ حَتَّى بَلَغَ ‏{‏بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‏}‏ فَطَلَّقَ عُمَرُ يَوْمَئِذٍ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا لَهُ فِي الشِّرْكِ، فَتَزَوَّجَ إِحْدَاهُمَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَالأُخْرَى صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ، ثُمَّ رَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ ـ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ ـ وَهْوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ رَجُلَيْنِ، فَقَالُوا الْعَهْدَ الَّذِي جَعَلْتَ لَنَا‏.‏ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ، فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَنَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلاَنُ جَيِّدًا‏.‏ فَاسْتَلَّهُ الآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَجَيِّدٌ، لَقَدْ جَرَّبْتُ بِهِ ثُمَّ جَرَّبْتُ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ، فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ، وَفَرَّ الآخَرُ، حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ رَآهُ ‏”‏ لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا ‏”‏‏.‏ فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ وَاللَّهِ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ، قَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ أَنْجَانِي اللَّهُ مِنْهُمْ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَيْلُ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ، لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ ‏”‏‏.‏ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ‏.‏ قَالَ وَيَنْفَلِتُ مِنْهُمْ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، فَجَعَلَ لاَ يَخْرُجُ مِنْ قُرَيْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلاَّ لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ، فَوَاللَّهِ مَا يَسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيْشٍ إِلَى الشَّأْمِ إِلاَّ اعْتَرَضُوا لَهَا، فَقَتَلُوهُمْ، وَأَخَذُوا أَمْوَالَهُمْ، فَأَرْسَلَتْ قُرَيْشٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تُنَاشِدُهُ بِاللَّهِ وَالرَّحِمِ لَمَّا أَرْسَلَ، فَمَنْ أَتَاهُ فَهْوَ آمِنٌ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ‏}‏ حَتَّى بَلَغَ ‏{‏الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ‏}‏ وَكَانَتْ حَمِيَّتُهُمْ أَنَّهُمْ لَمْ يُقِرُّوا أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ، وَلَمْ يُقِرُّوا بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَحَالُوا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْبَيْتِ‏.‏

عقیل نے زہری سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا ( جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں ) امتحان لیتے تھے ( زہری نے ) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کر دیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہو جو ( اب مسلمان ہو کر ) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی ۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی تھی ( کیونکہ اس وقت معاویہ مسلمان نہیں ہوئے تھے ) اور دوسری بیوی سے ابوجہم نے شادی کر لی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی ( کافرہ ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے ہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو “ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے ( مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آ گئی ہو ) پس اللہ نے اب یہ حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر ( کفار کے یہاں ) چلی جائے اس کے ( مہر و نفقہ کے ) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کر دئے جائیں جو ہجرت کر کے آ گئی ہیں ( اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کر لیا ہے ) اگرچہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے ( ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا ) مطالبہ آپ سے کیا تھا ۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی ۔

Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan:

(whose narrations attest each other) Allah’s Messenger (ﷺ) set out at the time of Al-Hudaibiya (treaty), and when they proceeded for a distance, he said, “Khalid bin Al-Walid leading the cavalry of Quraish constituting the front of the army, is at a place called Al-Ghamim, so take the way on the right.” By Allah, Khalid did not perceive the arrival of the Muslims till the dust arising from the march of the Muslim army reached him, and then he turned back hurriedly to inform Quraish. The Prophet (ﷺ) went on advancing till he reached the Thaniya (i.e. a mountainous way) through which one would go to them (i.e. people of Quraish). The she-camel of the Prophet (ﷺ) sat down. The people tried their best to cause the she-camel to get up but in vain, so they said, “Al-Qaswa’ (i.e. the she-camel’s name) has become stubborn! Al-Qaswa’ has become stubborn!” The Prophet (ﷺ) said, “Al-Qaswa’ has not become stubborn, for stubbornness is not her habit, but she was stopped by Him Who stopped the elephant.” Then he said, “By the Name of Him in Whose Hands my soul is, if they (i.e. the Quraish infidels) ask me anything which will respect the ordinances of Allah, I will grant it to them.” The Prophet (ﷺ) then rebuked the she-camel and she got up. The Prophet (ﷺ) changed his way till he dismounted at the farthest end of Al-Hudaibiya at a pit (i.e. well) containing a little water which the people used in small amounts, and in a short while the people used up all its water and complained to Allah’s Messenger (ﷺ); of thirst. The Prophet (ﷺ) took an arrow out of his arrow-case and ordered them to put the arrow in that pit. By Allah, the water started and continued sprouting out till all the people quenched their thirst and returned with satisfaction. While they were still in that state, Budail bin Warqa-al- Khuza`i came with some persons from his tribe Khuza`a and they were the advisers of Allah’s Messenger (ﷺ) who would keep no secret from him and were from the people of Tihama. Budail said, “I left Ka`b bin Luai and ‘Amir bin Luai residing at the profuse water of Al-Hudaibiya and they had milch camels (or their women and children) with them, and will wage war against you, and will prevent you from visiting the Ka`ba.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “We have not come to fight anyone, but to perform the `Umra. No doubt, the war has weakened Quraish and they have suffered great losses, so if they wish, I will conclude a truce with them, during which they should refrain from interfering between me and the people (i.e. the ‘Arab infidels other than Quraish), and if I have victory over those infidels, Quraish will have the option to embrace Islam as the other people do, if they wish; they will at least get strong enough to fight. But if they do not accept the truce, by Allah in Whose Hands my life is, I will fight with them defending my Cause till I get killed, but (I am sure) Allah will definitely make His Cause victorious.” Budail said, “I will inform them of what you have said.” So, he set off till he reached Quraish and said, “We have come from that man (i.e. Muhammad) whom we heard saying something which we will disclose to you if you should like.” Some of the fools among Quraish shouted that they were not in need of this information, but the wiser among them said, “Relate what you heard him saying.” Budail said, “I heard him saying so-and-so,” relating what the Prophet (ﷺ) had told him. `Urwa bin Mas`ud got up and said, “O people! Aren’t you the sons? They said, “Yes.” He added, “Am I not the father?” They said, “Yes.” He said, “Do you mistrust me?” They said, “No.” He said, “Don’t you know that I invited the people of `Ukaz for your help, and when they refused I brought my relatives and children and those who obeyed me (to help you)?” They said, “Yes.” He said, “Well, this man (i.e. the Prophet) has offered you a reasonable proposal, you’d better accept it and allow me to meet him.” They said, “You may meet him.” So, he went to the Prophet (ﷺ) and started talking to him. The Prophet (ﷺ) told him almost the same as he had told Budail. Then `Urwa said, “O Muhammad! Won’t you feel any scruple in extirpating your relations? Have you ever heard of anyone amongst the Arabs extirpating his relatives before you? On the other hand, if the reverse should happen, (nobody will aid you, for) by Allah, I do not see (with you) dignified people, but people from various tribes who would run away leaving you alone.” Hearing that, Abu Bakr abused him and said, “Do you say we would run and leave the Prophet (ﷺ) alone?” `Urwa said, “Who is that man?” They said, “He is Abu Bakr.” `Urwa said to Abu Bakr, “By Him in Whose Hands my life is, were it not for the favor which you did to me and which I did not compensate, I would retort on you.” `Urwa kept on talking to the Prophet (ﷺ) and seizing the Prophet’s beard as he was talking while Al-Mughira bin Shu`ba was standing near the head of the Prophet, holding a sword and wearing a helmet. Whenever `Urwa stretched his hand towards the beard of the Prophet, Al-Mughira would hit his hand with the handle of the sword and say (to `Urwa), “Remove your hand from the beard of Allah’s Messenger (ﷺ).” `Urwa raised his head and asked, “Who is that?” The people said, “He is Al-Mughira bin Shu`ba.” `Urwa said, “O treacherous! Am I not doing my best to prevent evil consequences of your treachery?” Before embracing Islam Al-Mughira was in the company of some people. He killed them and took their property and came (to Medina) to embrace Islam. The Prophet (ﷺ) said (to him, “As regards your Islam, I accept it, but as for the property I do not take anything of it. (As it was taken through treason). `Urwa then started looking at the Companions of the Prophet. By Allah, whenever Allah’s Messenger (ﷺ) spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet’s companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them they would carry his orders immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke to him, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect. `Urwa returned to his people and said, “O people! By Allah, I have been to the kings and to Caesar, Khosrau and An- Najashi, yet I have never seen any of them respected by his courtiers as much as Muhammad is respected by his companions. By Allah, if he spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet’s companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them, they would carry out his order immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect.” `Urwa added, “No doubt, he has presented to you a good reasonable offer, so please accept it.” A man from the tribe of Bani Kinana said, “Allow me to go to him,” and they allowed him, and when he approached the Prophet and his companions, Allah’s Messenger (ﷺ) said, “He is so-and-so who belongs to the tribe that respects the Budn (i.e. camels of the sacrifice). So, bring the Budn in front of him.” So, the Budn were brought before him and the people received him while they were reciting Talbiya. When he saw that scene, he said, “Glorified be Allah! It is not fair to prevent these people from visiting the Ka`ba.” When he returned to his people, he said, ‘I saw the Budn garlanded (with colored knotted ropes) and marked (with stabs on their backs). I do not think it is advisable to prevent them from visiting the Ka`ba.” Another person called Mikraz bin Hafs got up and sought their permission to go to Muhammad, and they allowed him, too. When he approached the Muslims, the Prophet (ﷺ) said, “Here is Mikraz and he is a vicious man.” Mikraz started talking to the Prophet and as he was talking, Suhail bin `Amr came. When Suhail bin `Amr came, the Prophet (ﷺ) said, “Now the matter has become easy.” Suhail said to the Prophet “Please conclude a peace treaty with us.” So, the Prophet (ﷺ) called the clerk and said to him, “Write: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful.” Suhail said, “As for ‘Beneficent,’ by Allah, I do not know what it means. So write: By Your Name O Allah, as you used to write previously.” The Muslims said, “By Allah, we will not write except: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful.” The Prophet (ﷺ) said, “Write: By Your Name O Allah.” Then he dictated, “This is the peace treaty which Muhammad, Allah’s Messenger (ﷺ) has concluded.” Suhail said, “By Allah, if we knew that you are Allah’s Messenger (ﷺ) we would not prevent you from visiting the Ka`ba, and would not fight with you. So, write: “Muhammad bin `Abdullah.” The Prophet (ﷺ) said, “By Allah! I am Apostle of Allah even if you people do not believe me. Write: Muhammad bin `Abdullah.” (Az-Zuhri said, “The Prophet (ﷺ) accepted all those things, as he had already said that he would accept everything they would demand if it respects the ordinance of Allah, (i.e. by letting him and his companions perform `Umra.)” The Prophet (ﷺ) said to Suhail, “On the condition that you allow us to visit the House (i.e. Ka`ba) so that we may perform Tawaf around it.” Suhail said, “By Allah, we will not (allow you this year) so as not to give chance to the ‘Arabs to say that we have yielded to you, but we will allow you next year.” So, the Prophet (ﷺ) got that written. Then Suhail said, “We also stipulate that you should return to us whoever comes to you from us, even if he embraced your religion.” The Muslims said, “Glorified be Allah! How will such a person be returned to the pagans after he has become a Muslim? While they were in this state Abu- Jandal bin Suhail bin `Amr came from the valley of Mecca staggering with his fetters and fell down amongst the Muslims. Suhail said, “O Muhammad! This is the very first term with which we make peace with you, i.e. you shall return Abu Jandal to me.” The Prophet (ﷺ) said, “The peace treaty has not been written yet.” Suhail said, “I will never allow you to keep him.” The Prophet (ﷺ) said, “Yes, do.” He said, “I won’t do.: Mikraz said, “We allow you (to keep him).” Abu Jandal said, “O Muslims! Will I be returned to the pagans though I have come as a Muslim? Don’t you see how much I have suffered?” (continued…) (continuing… 1): -3.891:… … Abu Jandal had been tortured severely for the Cause of Allah. `Umar bin Al-Khattab said, “I went to the Prophet (ﷺ) and said, ‘Aren’t you truly the Messenger of Allah?’ The Prophet (ﷺ) said, ‘Yes, indeed.’ I said, ‘Isn’t our Cause just and the cause of the enemy unjust?’ He said, ‘Yes.’ I said, ‘Then why should we be humble in our religion?’ He said, ‘I am Allah’s Messenger (ﷺ) and I do not disobey Him, and He will make me victorious.’ I said, ‘Didn’t you tell us that we would go to the Ka`ba and perform Tawaf around it?’ He said, ‘Yes, but did I tell you that we would visit the Ka`ba this year?’ I said, ‘No.’ He said, ‘So you will visit it and perform Tawaf around it?’ ” `Umar further said, “I went to Abu Bakr and said, ‘O Abu Bakr! Isn’t he truly Allah’s Prophet?’ He replied, ‘Yes.’ I said, ‘Then why should we be humble in our religion?’ He said, ‘Indeed, he is Allah’s Messenger (ﷺ) and he does not disobey his Lord, and He will make him victorious. Adhere to him as, by Allah, he is on the right.’ I said, ‘Was he not telling us that we would go to the Ka`ba and perform Tawaf around it?’ He said, ‘Yes, but did he tell you that you would go to the Ka`ba this year?’ I said, ‘No.’ He said, “You will go to Ka`ba and perform Tawaf around it.” (Az-Zuhri said, ” `Umar said, ‘I performed many good deeds as expiation for the improper questions I asked them.’ “) When the writing of the peace treaty was concluded, Allah’s Messenger (ﷺ) said to his companions, “Get up and’ slaughter your sacrifices and get your head shaved.” By Allah none of them got up, and the Prophet repeated his order thrice. When none of them got up, he left them and went to Um Salama and told her of the people’s attitudes towards him. Um Salama said, “O the Prophet (ﷺ) of Allah! Do you want your order to be carried out? Go out and don’t say a word to anybody till you have slaughtered your sacrifice and call your barber to shave your head.” So, the Prophet (ﷺ) went out and did not talk to anyone of them till he did that, i.e. slaughtered the sacrifice and called his barber who shaved his head. Seeing that, the companions of the Prophet (ﷺ) got up, slaughtered their sacrifices, and started shaving the heads of one another, and there was so much rush that there was a danger of killing each other. Then some believing women came (to the Prophet (ﷺ) ); and Allah revealed the following Divine Verses:– “O you who believe, when the believing women come to you as emigrants examine them . . .” (60.10) `Umar then divorced two wives of his who were infidels. Later on Muawiya bin Abu Sufyan married one of them, and Safwan bin Umaiya married the other. When the Prophet (ﷺ) returned to Medina, Abu Basir, a new Muslim convert from Quraish came to him. The Infidels sent in his pursuit two men who said (to the Prophet (ﷺ) ), “Abide by the promise you gave us.” So, the Prophet (ﷺ) handed him over to them. They took him out (of the City) till they reached Dhul-Hulaifa where they dismounted to eat some dates they had with them. Abu Basir said to one of them, “By Allah, O so-and-so, I see you have a fine sword.” The other drew it out (of the scabbard) and said, “By Allah, it is very fine and I have tried it many times.” Abu Basir said, “Let me have a look at it.” When the other gave it to him, he hit him with it till he died, and his companion ran away till he came to Medina and entered the Mosque running. When Allah’s Messenger (ﷺ) saw him he said, “This man appears to have been frightened.” When he reached the Prophet (ﷺ) he said, “My companion has been murdered and I would have been murdered too.” Abu Basir came and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ), by Allah, Allah has made you fulfill your obligations by your returning me to them (i.e. the Infidels), but Allah has saved me from them.” The Prophet (ﷺ) said, “Woe to his mother! what excellent war kindler he would be, should he only have supporters.” When Abu Basir heard that he understood that the Prophet (ﷺ) would return him to them again, so he set off till he reached the seashore. Abu Jandal bin Suhail got himself released from them (i.e. infidels) and joined Abu Basir. So, whenever a man from Quraish embraced Islam he would follow Abu Basir till they formed a strong group. By Allah, whenever they heard about a caravan of Quraish heading towards Sham, they stopped it and attacked and killed them (i.e. infidels) and took their properties. The people of Quraish sent a message to the Prophet (ﷺ) requesting him for the Sake of Allah and Kith and kin to send for (i.e. Abu Basir and his companions) promising that whoever (amongst them) came to the Prophet (ﷺ) would be secure. So the Prophet (ﷺ) sent for them (i.e. Abu Basir’s companions) and Allah I revealed the following Divine Verses: “And it is He Who Has withheld their hands from you and your hands From them in the midst of Mecca, After He made you the victorious over them. … the unbelievers had pride and haughtiness, in their hearts … the pride and haughtiness of the time of ignorance.” (48.24-26) And their pride and haughtiness was that they did not confess (write in the treaty) that he (i.e. Muhammad) was the Prophet of Allah and refused to write: “In the Name of Allah, the most Beneficent, the Most Merciful,” and they (the mushriks) prevented them (the Muslims) from visiting the House (the Ka`bah).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 891


2

قَالَ عُرْوَةُ فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِهَذِهِ الآيَةِ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ‏}‏ إِلَى ‏{‏غَفُورٌ رَحِيمٌ‏}‏‏.‏ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْهُنَّ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قَدْ بَايَعْتُكِ ‏”‏‏.‏ كَلاَمًا يُكَلِّمُهَا بِهِ، وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ، وَمَا بَايَعَهُنَّ إِلاَّ بِقَوْلِهِ‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ بیان کرتے تھے کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی ۔

Narrated `Urwa:

Aisha told me, “Allah’s Messenger (ﷺ) used to examine them according to this Verse: “O you who believe! When the believing women come to you, as emigrants test them . . . for Allah is Oft- Forgiving, Most Merciful.” (60.10-12) Aisha said, “When any of them agreed to that condition Allah’s Apostle would say to her, ‘I have accepted your pledge of allegiance.’ He would only say that, but, by Allah he never touched the hand of any women (i.e. never shook hands with them) while taking the pledge of allegiance and he never took their pledge of allegiance except by his words (only).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 874


20

وَقَالَ عُقَيْلٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوا إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَحَكَمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، أَنْ لاَ يُمَسِّكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ، أَنَّ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَيْنِ قَرِيبَةَ بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، وَابْنَةَ جَرْوَلٍ الْخُزَاعِيِّ، فَتَزَوَّجَ قَرِيبَةَ مُعَاوِيَةُ، وَتَزَوَّجَ الأُخْرَى أَبُو جَهْمٍ، فَلَمَّا أَبَى الْكُفَّارُ أَنْ يُقِرُّوا بِأَدَاءِ مَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَإِنْ فَاتَكُمْ شَىْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ‏}‏ وَالْعَقِبُ مَا يُؤَدِّي الْمُسْلِمُونَ إِلَى مَنْ هَاجَرَتِ امْرَأَتُهُ مِنَ الْكُفَّارِ، فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى مَنْ ذَهَبَ لَهُ زَوْجٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مَا أَنْفَقَ مِنْ صَدَاقِ نِسَاءِ الْكُفَّارِ اللاَّئِي هَاجَرْنَ، وَمَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا‏.‏ وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرِ بْنَ أَسِيدٍ الثَّقَفِيَّ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا فِي الْمُدَّةِ، فَكَتَبَ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِيقٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُهُ أَبَا بَصِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ‏.‏

اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جنہوں نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا اور اس نے ایک مقررہ مدت تک کے لئے دے دیا ۔

Narrated Az-Zuhri:

`Urwa said, “Aisha told me that Allah’s Messenger (ﷺ) used to examine the women emigrants. We have been told also that when Allah revealed the order that the Muslims should return to the pagans what they had spent on their wives who emigrated (after embracing Islam) and that the Muslims should not keep unbelieving women as their wives, `Umar divorced two of his wives, Qariba, the daughter of Abu Umayyah and the daughter of Jarwal Al-Khuza`i. Later on Mu`awiya married Qariba and Abu Jahm married the other.” When the pagans refused to pay what the Muslims had spent on their wives, Allah revealed: “And if any of your wives have gone from you to the unbelievers and you have an accession (by the coming over of a woman from the other side) (then pay to those whose wives have gone) the equivalent of what they had spent (on their Mahr).” (60.11) So, Allah ordered that the Muslim whose wife has gone, should be given, as a compensation of the Mahr he had given to his wife, from the Mahr of the wives of the pagans who had emigrated deserting their husbands. We do not know any of the women emigrants who deserted Islam after embracing it. We have also been told that Abu Basir bin Asid Ath-Thaqafi came to the Prophet (ﷺ) as a Muslim emigrant during the truce. Al-Akhnas bin Shariq wrote to the Prophet (ﷺ) requesting him to return Abu Basir.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 891


21

وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رضى الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارِ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ وَعَطَاءٌ إِذَا أَجَّلَهُ فِي الْقَرْضِ جَازَ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ۔ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ یحییٰ بن سعید انصاری سے ‘ ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہبریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مکاتبت کے سلسلے میں ان سے مدد مانگنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہارے مالکوں کو ( پوری قیمت ) دے دوں اور تمہاری ولاء میرے ہو گی ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ سے میں نے اس کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں تو خرید لے اور آزاد کر دے ۔ ولاء تو بہرحال اسی کی ہو گی جو آزاد کر دے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے ‘ جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو خواہ ایسی سو شرطیں لگا لے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) mentioned a person who asked an Israeli man to lend him one-thousand Dinars, and the Israeli lent him the sum for a certain fixed period.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 892


22

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلاَءُ لِي‏.‏ فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَّرْتُهُ ذَلِكَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ ‏”‏ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ ‏”‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ ان سے ابن عون نے ‘ کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ‘ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کر دے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی ۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لئے ‘ رشتہ داروں کے لئے اور غلام آزاد کرانے کے لئے ‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے اور مہمانوں کیلئے صدقہ ( وقف ) کر دیا اور یہ کہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں ۔ ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نے اس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ( متولی ) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔

Narrated `Amra:

Aisha said that Barirah came to seek her help in the writing of her emancipation. `Aisha said to her, “If you wish, I will pay your masters (your price) and the wala’ will be for me.” When Allah’s Messenger (ﷺ) came, she told him about it. The Prophet (ﷺ) said to her, “Buy her (i.e. Barirah) and manumit (free) her, for the Wala is for the one who manumits.” Then Allah’s Messenger (ﷺ) ascended the pulpit and said, “What about those people who stipulate conditions which are not in Allah’s Laws? Whoever stipulates such conditions as are not in Allah’s Laws, then those conditions are invalid even if he stipulated a hundred such conditions.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 893


23

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمَا مِائَةً إِلاَّ وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی ، انہوں نے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، یہ دونوں حضرات اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دیتے تھے کہجب سہیل بن عمرو نے ( حدیبیہ میں کفار قریش کی طرف سے معاہدہ صلح ) لکھوایا تو جو شرائط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سہیل نے رکھی تھیں ، ان میں یہ شرط بھی تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر آپ کے یہاں ( فرار ہو کر ) چلا جائے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو تو آپ کو اسے ہمارے حوالہ کرنا ہو گا ۔ مسلمان یہ شرط پسند نہیں کر رہے تھے اور اس پر انہیں دکھ ہوا تھا ۔ لیکن سہیل نے اس شرط کے بغیر صلح قبول نہ کی ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرط پر صلح نامہ لکھوا لیا ۔ اتفاق سے اسی دن ابوجندل رضی اللہ عنہ کو جو مسلمان ہو کر آیا تھا ( معاہدہ کے تحت بادل ناخواستہ ) ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کر دیا گیا ۔ اسی طرح مدت صلح میں جو مرد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( مکہ سے بھاگ کر آیا ) آپ نے اسے ان کے حوالے کر دیا ۔ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ رہا ہو ۔ لیکن چند ایمان والی عورتیں بھی ہجرت کر کے آ گئی تھیں ، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بھی ان میں شامل تھیں جو اسی دن ( مکہ سے نکل کر ) آپ کی خدمت میں آئی تھیں ، وہ جوان تھیں اور جب ان کے گھر والے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے حوالے نہیں فرمایا ، بلکہ عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ( سورۃ الممتحنہ میں ) ارشاد فرما چکا تھا کہ ” جب مسلمان عورتیں تمہارے یہاں ہجرت کر کے پہنچیں تو پہلے تم ان کا امتحان لے لو ، یوں تو ان کے ایمان کے متعلق جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد تک کہ ” کفار و مشرکین ان کے لیے حلال نہیں ہیں الخ “ ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Allah has ninety-nine names, i.e. one-hundred minus one, and whoever knows them will go to Paradise.” (Please see Hadith No. 419 Vol. 8)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 894


24

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ أَنْبَأَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُ بِهِ قَالَ ‏ “‏ إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا ‏”‏‏.‏ قَالَ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى، وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ، لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، وَيُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ‏.‏ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ سِيرِينَ فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً‏.‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو ۔ جو شخص ان سب کو محفوظ رکھے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔

Narrated Ibn `Umar:

Umar bin Khattab got some land in Khaibar and he went to the Prophet (ﷺ) to consult him about it saying, “O Allah’s Messenger (ﷺ) I got some land in Khaibar better than which I have never had, what do you suggest that I do with it?” The Prophet (ﷺ) said, “If you like you can give the land as endowment and give its fruits in charity.” So `Umar gave it in charity as an endowment on the condition that would not be sold nor given to anybody as a present and not to be inherited, but its yield would be given in charity to the poor people, to the Kith and kin, for freeing slaves, for Allah’s Cause, to the travelers and guests; and that there would be no harm if the guardian of the endowment ate from it according to his need with good intention, and fed others without storing it for the future.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 895


3

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاشْتَرَطَ عَلَىَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی شرطوں کے ساتھ بیعت کی تھی ۔

Narrated Jarir:

When I gave the pledge of allegiance to Allah’s Messenger (ﷺ) and he stipulated that I should give good advice to every Muslim.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 875


4

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے کوئی ایسا کھجور کا باغ بیچا جس کی پیوند کاری ہو چکی تھی تو اس کا پھل ( اس سال کے ) بیچنے والے ہی کا ہو گا ۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے ۔ ( تو پھل سمیت بیع سمجھی جائے گی ) ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

I gave the pledge of allegiance to Allah’s Messenger (ﷺ) for offering the prayers perfectly paying the Zakat and giving good advice to every Muslim.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 876


5

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ بَاعَ نَخْلاً قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہبریرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں اپنی مکاتبت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لیے آئیں ، انہوں نے ابھی تک اس معاملے میں ( اپنے مالکوں کو ) کچھ دیا نہیں تھا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا کہ اپنے مالکوں کے یہاں جا کر ( ان سے دریافت کرو ) اگر وہ یہ صورت پسند کریں کہ تمہاری مکاتبت کی ساری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے لیے ہو جائے تو میں ایسا کر سکتی ہوں ۔ بریرہ نے اس کا تذکرہ جب اپنے مالکوں کے سامنے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) اگر چاہیں تو یہ کار ثواب تمہارے ساتھ کر سکتی ہیں لیکن ولاء تو ہمارے ہی رہے گی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم انہیں خرید کر آزاد کر دو ، ولاء تو بہرحال اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کر دے ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “If someone sells pollinated date-palms, their fruits will be for the seller, unless the buyer stipulates the contrary.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 877


6

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةََ،ـ رضى الله عنها ـ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ، فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ، وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي فَعَلْتُ‏.‏ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا فَأَبَوْا وَقَالُوا إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونَ لَنَا وَلاَؤُكِ‏.‏ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهَا ‏ “‏ ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے عامر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہوہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاؤ ، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی ) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا ، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی ، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ ( جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا ۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے ۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی ۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے ۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی ۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا ۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے ۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں ، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے ، چار دینار کا ایک اوقیہ ہو گا ۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ( ان کی روایت میں اور ) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے ۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں ( غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے ) خریدا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں ( خریدا تھا ) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا ۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے ۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے ، یہ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا ۔

Narrated `Urwa:

Aisha told me that Barirah came to seek her help in writing for emancipation and at that time she had not paid any part of her price. `Aisha said to her, “Go to your masters and if they agree that I will pay your price (and free you) on condition that your Wala’ will be for me, I will pay the money.” Barirah told her masters about that, but they refused, and said, “If `Aisha wants to do a favor she could, but your Wala will be for us.” Aisha informed Allah’s Messenger (ﷺ) of that and he said to her, “Buy and manumit Barirah as the Wala’ will go to the manumitted.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 878


7

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ حَدَّثَنِي جَابِرٌ ـ رضى الله عنه أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَضَرَبَهُ، فَدَعَا لَهُ، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ لاَ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ ‏”‏‏.‏ فَبِعْتُهُ فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلاَنَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ ‏”‏ مَا كُنْتُ لآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ فَهْوَ مَالُكَ ‏”‏‏.‏ قَالَ شُعْبَةُ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ظَهْرَهُ إِلَىَ الْمَدِينَةِ‏.‏ وَقَالَ إِسْحَاقُ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ مُغِيرَةَ فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ‏.‏ وَقَالَ عَطَاءٌ وَغَيْرُهُ لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ‏.‏ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ جَابِرٍ وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ‏.‏ وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ‏.‏ وَقَالَ الأَعْمَشُ عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرٍ تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ‏.‏ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ وَابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ وَهْبٍ عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِوَقِيَّةٍ‏.‏ وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ جَابِرٍ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ وَغَيْرِهِ عَنْ جَابِرٍ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ‏.‏ وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ‏.‏ وَلَمْ يُبَيِّنِ الثَّمَنَ مُغِيرَةُ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ الْمُنْكَدِرِ وَأَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ‏.‏ وَقَالَ الأَعْمَشُ عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرٍ وَقِيَّةُ ذَهَبٍ‏.‏ وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرٍ بِمِائَتَىْ دِرْهَمٍ‏.‏ وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ‏.‏ وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا‏.‏ وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ‏.‏ الاِشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي‏.‏ قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ‏.‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ۔ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہانصار رضوان اللہ علیہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( مؤاخات کے بعد ) یہ پیش کش کی کہ ہمارے کھجور کے باغات آپ ہم میں اور ہمارے بھائیوں ( مہاجرین ) میں تقسیم فرما دیں ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے باغوں کے کام کر دیا کریں اور ہمارے ساتھ پھل میں شریک ہو جائیں ، مہاجرین نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم ایسا ہی کریں گے ۔

Narrated Jabir:

While I was riding a (slow) and tired camel, the Prophet (ﷺ) passed by and beat it and prayed for Allah’s Blessings for it. The camel became so fast as it had never been before. The Prophet (ﷺ) then said, “Sell it to me for one Uqiyya (of gold).” I said, “No.” He again said, “Sell it to me for one Uqiyya (of gold).” I sold it and stipulated that I should ride it to my house. When we reached (Medina) I took that camel to the Prophet (ﷺ) and he gave me its price. I returned home but he sent for me (and when I went to him) he said, “I will not take your camel. Take your camel as a gift for you.” (Various narrations are mentioned here with slight variations in expressions relating the condition that Jabir had the right to ride the sold camel up to Medina).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 879


8

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَتِ الأَنْصَارُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِيلَ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ لاَ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ تَكْفُونَا الْمَئُونَةَ وَنُشْرِكُكُمْ فِي الثَّمَرَةِ‏.‏ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‏.‏

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جویریہ بنت اسماء نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دی تھی کہ اس میں کام کریں اور اسے بوئیں تو آدھی پیداوار انہیں دی جایا کرے گی ۔

Narrated Abu Huraira:

The Ansar said to the Prophet, “Divide our date-palms between us and our emigrant brothers.” The Prophet said, “No.” The Ansar said to the emigrants, “You may do the labor (in our gardens) and we will share the fruits with you.” The emigrants said, “We hear and obey.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 880


9

حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ الْيَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا ، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے ، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) gave the land of Khaibar to the Jews on the condition that they would work on it and cultivate it and they would get half of its yield.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 3, Book 50, Hadith 881


Scroll to Top
Scroll to Top
Skip to content