حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْعَطَّافِ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى وَهُوَ أَوَّلُ شَىْءٍ يُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِي ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابوہریرہ ! علم فرائض سیکھو اور سکھاؤ ، اس لیے کہ وہ علم کا آدھا حصہ ہے ، وہ بھلا دیا جائے گا ، اور سب سے پہلے یہی علم میری امت سے اٹھایا جائے گا “ ۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعُودُنِي هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ وَهُمَا مَاشِيَانِ وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَىَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَبَّ عَلَىَّ مِنْ وَضُوئِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَصْنَعُ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فِي آخِرِ النِّسَاءِ {وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً} الآيَةَ وَ {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ} الآيَةَ .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمیں بیمار ہوا تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے آئے ، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے ، دونوں پیدل آئے ، مجھ پر بیہوشی طاری تھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا ، اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا ( مجھے ہوش آ گیا ) تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کیا کروں ؟ اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں ؟ یہاں تک کہ سورۃ نساء کے اخیر میں میراث کی یہ آیت نازل ہوئی «وإن كان رجل يورث كلالة» ” اور جن کی میراث لی جاتی ہے ، وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو “ ( سورۃ النساء : 12 ) اور «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» ” آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں : آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ ( خود ) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے “ ( سورۃ النساء : ۱۷۶ ) ۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلاَ الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ” .
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا ، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا “ ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ قَالَ ” وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ ” . وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلاَ عَلِيٌّ شَيْئًا لأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ . فَكَانَ عُمَرُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ لاَ يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ . وَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” لاَ يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلاَ الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دو مذہب والے ( جیسے کافر اور مسلمان ) ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے “ ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا ، اور ان کے تین بچے ہوئے ، پھر ان کی ماں کا انتقال ہوا ، تو اس کے بیٹے زمین جائیداد اور ان کے غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے ، ان سب کو لے کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے ، وہ سب طاعون عمواس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے ، جو ان کے عصبہ تھے ، اس کے بعد جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شام سے لوٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء ( حق میراث ) کا مقدمہ لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسی کے مطابق تمہارا فیصلہ کروں گا ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” جس ولاء کو لڑکا اور والد حاصل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو “ ، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا ، اور ہمارے لیے ایک دستاویز لکھ دی ، جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک تیسرے شخص کی گواہی درج تھی ، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو ام وائل کا ایک غلام مر گیا ، جس نے دو ہزار دینار میراث میں چھوڑے تھے ، مجھے پتہ چلا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا گیا ہے ، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس گیا ہے ، تو ہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھایا ، اور ان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کی دستاویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا : میرے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کرنا چاہیئے ، اور میں یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس جیسے ( واضح ) فیصلے میں شک کر رہے ہیں ، آخر کار عبدالملک نے ہماری موافقت میں فیصلہ کیا ، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ تَزَوَّجَ رِئَابُ بْنُ حُذَيْفَةَ بْنِ سُعَيْدِ بْنِ سَهْمٍ أُمَّ وَائِلٍ بِنْتَ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيَّةَ فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلاَثَةً فَتُوُفِّيَتْ أُمُّهُمْ فَوَرِثَهَا بَنُوهَا رِبَاعًا وَوَلاَءَ مَوَالِيهَا فَخَرَجَ بِهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مَعَهُ إِلَى الشَّامِ فَمَاتُوا فِي طَاعُونِ عَمْوَاسَ فَوَرِثَهُمْ عَمْرٌو وَكَانَ عَصَبَتَهُمْ فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ جَاءَ بَنُو مَعْمَرٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلاَءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَمِعْتُهُ يَقُولُ “ مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوِ الْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ ” . قَالَ فَقَضَى لَنَا بِهِ وَكَتَبَ لَنَا بِهِ كِتَابًا فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَآخَرَ حَتَّى إِذَا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ تُوُفِّيَ مَوْلًى لَهَا وَتَرَكَ أَلْفَىْ دِينَارٍ فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ الْقَضَاءَ قَدْ غُيِّرَ فَخَاصَمُوهُ إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ فَرَفَعَنَا إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ فَأَتَيْنَاهُ بِكِتَابِ عُمَرَ فَقَالَ إِنْ كُنْتُ لأَرَى أَنَّ هَذَا مِنَ الْقَضَاءِ الَّذِي لاَ يُشَكُّ فِيهِ وَمَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَمْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَلَغَ هَذَا أَنْ يَشُكُّوا فِي هَذَا الْقَضَاءِ . فَقَضَى لَنَا بِهِ فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ بَعْدُ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مر گیا ، اور کچھ مال چھوڑ گیا ، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو “ ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ مَوْلًى، لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَقَعَ مِنْ نَخْلَةٍ فَمَاتَ وَتَرَكَ مَالاً وَلَمْ يَتْرُكْ وَلَدًا وَلاَ حَمِيمًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم “ أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ ” .
عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہمیرا ایک غلام فوت ہو گیا ، اس نے ایک بیٹی چھوڑی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا ، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا ، ( بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ ) ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ بِنْتِ حَمْزَةَ، – قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَيْلَى وَهِيَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ لأُمِّهِ – قَالَتْ مَاتَ مَوْلاَىَ وَتَرَكَ ابْنَةً فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَالَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنَتِهِ فَجَعَلَ لِيَ النِّصْفَ وَلَهَا النِّصْفَ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قاتل وارث نہ ہو گا “ ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ “ الْقَاتِلُ لاَ يَرِثُ ” .
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے ، اور فرمایا : ” عورت اپنے شوہر کی دیت اور مال دونوں میں وارث ہو گی ، اور شوہر بیوی کی دیت اور مال میں وارث ہو گا ، جب کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو ، لیکن جب ایک نے دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ہو تو اس دیت اور مال سے کسی بھی چیز کا وارث نہیں ہو گا ، اور اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اس کے مال سے تو وارث ہو گا ، لیکن دیت سے وارث نہ ہو گا “ ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالاَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ، – وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَقَالَ “ الْمَرْأَةُ تَرِثُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا وَمَالِهِ وَهُوَ يَرِثُ مِنْ دِيَتِهَا وَمَالِهَا مَا لَمْ يَقْتُلْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ عَمْدًا لَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ وَمَالِهِ شَيْئًا وَإِنْ قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ خَطَأً وَرِثَ مِنْ مَالِهِ وَلَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ ” .
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا ، جس سے وہ مر گیا ، اور اس کا ماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو سارا قصہ لکھ بھیجا ، جس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسول ہیں ، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے “ ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الزُّرَقِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلاً، رَمَى رَجُلاً بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلاَّ خَالٌ فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لاَ مَوْلَى لَهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَهُ ” .
مقدام ابوکریمہ رضی اللہ عنہ ( جو اہل شام میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے ) کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ، اور جو شخص بوجھ ( قرض یا محتاج اہل و عیال ) چھوڑ جائے تو وہ ہمارے ذمہ ہے “ ، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے ، جس کا کوئی وارث نہ ہو ، اس کا وارث میں ہوں ، میں ہی اس کی دیت دوں گا ، اور میں ہی میراث لوں گا ، اور ماموں اس شخص کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو ، وہی اس کی طرف سے دیت دے گا ، اور وہی اس کا وارث بھی ہو گا “ ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَىْ سَعْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ جَمِيعَ مَا تَرَكَ أَبُوهُمَا وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لاَ تُنْكَحُ إِلاَّ عَلَى مَالِهَا . فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ “ أَعْطِ ابْنَتَىْ سَعْدٍ ثُلُثَىْ مَالِهِ وَأَعْطِ امْرَأَتَهُ الثُّمُنَ وَخُذْ أَنْتَ مَا بَقِيَ ” .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہسعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں ، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور شہید ہو گئے ، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا ( اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے ) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی کو طلب کیا اور فرمایا : ” سعد کی دونوں بیٹیوں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو ، پھر جو بچے وہ تم لے لو “ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي بُدَيْلُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ، – رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ – قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلاًّ فَإِلَيْنَا – وَرُبَّمَا قَالَ فَإِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ – وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَهُ يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ ” .
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سگے بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ، علاتی کے نہیں ، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہو گا علاتی بھائیوں کا نہیں “ ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ الْبَكْرَاوِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلاَّتِ يَرِثُ الرَّجُلُ أَخَاهُ لأَبِيهِ وَأُمِّهِ دُونَ إِخْوَتِهِ لأَبِيهِ .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مال کو اللہ کی کتاب ( قرآن ) کے مطابق ذوی الفروض ( میراث کے حصہ داروں ) میں تقسیم کرو ، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو “ ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ ” .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص مر گیا ، اور اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے ، جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا تو آپ نے اس کی میراث اسی غلام کو دلا دی ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ مَاتَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يَدَعْ لَهُ وَارِثًا إِلاَّ عَبْدًا هُوَ أَعْتَقَهُ فَدَفَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِيرَاثَهُ إِلَيْهِ .
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عورت تین میراث حاصل کرتی ہے ، ایک تو اپنے اس غلام یا لونڈی کی میراث جس کو وہ آزاد کرے ، دوسرے اس بچے کی میراث جس کو راستہ میں لاوارث پا کر پرورش کرے ، تیسرے اس بچے کی میراث جس پر اپنے شوہر سے لعان کرے “ ۔ محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہشام کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّصْرِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ الْمَرْأَةُ تَحُوزُ ثَلاَثَ مَوَارِيثَ عَتِيقِهَا وَلَقِيطِهَا وَوَلَدِهَا الَّذِي لاَعَنَتْ عَلَيْهِ ” . قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ مَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ هِشَامٍ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب لعان کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس عورت نے کسی قوم میں ایسے ( بچہ ) کو ملا دیا جو ان میں سے نہیں تھا ، تو اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ، اور وہ اس کی جنت میں ہرگز داخل نہ ہو گی ، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کو پہچان لینے کے باوجود انکار کر دیا ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کرے گا ، اور سب کے سامنے اس کو ذلیل و رسوا کرے گا “ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَلْحَقَتْ بِقَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَىْءٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا جَنَّتَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ أَنْكَرَ وَلَدَهُ وَقَدْ عَرَفَهُ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الأَشْهَادِ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی شخص کا ایسے نسب کا دعویٰ کرنا جس کو وہ پہچانتا نہیں کفر ہے یا اپنے نسب کا انکار کر دینا گرچہ اس کا سبب باریک ( دقیق ) ہو یہ بھی کفر ہے “ ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ كُفْرٌ بِامْرِئٍ ادِّعَاءُ نَسَبٍ لاَ يَعْرِفُهُ أَوْ جَحْدُهُ وَإِنْ دَقَّ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص نے کسی لونڈی یا آزاد عورت سے زنا کیا ، پھر اس سے بچہ پیدا ہوا تو وہ ولدالزنا ہے ، نہ وہ مرد اس بچے کا وارث ہو گا ، نہ وہ بچہ اس مرد کا “ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ مَنْ عَاهَرَ أَمَةً أَوْ حُرَّةً فَوَلَدُهُ وَلَدُ زِنًا لاَ يَرِثُ وَلاَ يُورَثُ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے مثلاً اس کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں ( کہ یہ ہمارے مورث کا بچہ ہے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا : ” اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقیناً اپنے والد سے مل جائے گا ، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کر لی ہو ، البتہ اگر ایسی میراث ہو جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو تو اس میں سے وہ بھی حصہ پائے گا ، لیکن اگر اس کے والد نے جس سے وہ اب ملایا جاتا ہے ، اپنی زندگی میں اس سے انکار کیا ہو یعنی یوں کہا ہو کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے ، تو وارثوں کے ملانے سے وہ اب اس کا بچہ نہ ہو گا ، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہو جو اس مرد کی ملکیت نہ تھی ، یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا ، گو اس مرد کے وارث اس بچے کو اس مرد سے ملا دیں ، اور وہ بچہ اس مرد کا وارث بھی نہ ہو گا ، ( اس لیے کہ وہ ولدالزنا ہے ) گو کہ اس مرد نے خود اپنی زندگی میں بھی یہ کہا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے ، جب بھی وہ ولدالزنا ہی ہو گا ، اور عورت کے کنبے والوں کے پاس رہے گا ، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی “ ۔ محمد بن راشد کہتے ہیں : اس سے مراد وہ میراث ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت میں تقسیم کر دی گئی ہو ۔