حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ – عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَىْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ” .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو “ ۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { وَلاَ تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ } وَ { إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا } الآيَةَ انْطَلَقَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ يَتِيمٌ فَعَزَلَ طَعَامَهُ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرَابَهُ مِنْ شَرَابِهِ فَجَعَلَ يَفْضُلُ مِنْ طَعَامِهِ فَيُحْبَسُ لَهُ حَتَّى يَأْكُلَهُ أَوْ يَفْسُدَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ } فَخَلَطُوا طَعَامَهُمْ بِطَعَامِهِ وَشَرَابَهُمْ بِشَرَابِهِ .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیںجب اللہ عزوجل نے آیت کریمہ : «ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن» ” اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہے “ ( سورۃ الانعام : ۱۵۲ ) : اور «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما» ” جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں “ ( سورۃ النساء : ۱۰ ) نازل فرمائی تو جن لوگوں کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا کھانا اپنے کھانے سے اور ان کا پانی اپنے پانی سے جدا کر دیا تو یتیم کا کھانا بچ رہتا یہاں تک کہ وہ اسے کھاتا یا سڑ جاتا ، یہ امر لوگوں پر شاق گزرا تو انہوں نے اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو اللہ نے یہ آیت «ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم» ” اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے ، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں “ ( سورۃ البقرہ : ۲۲۰ ) اتاری تو لوگوں نے اپنا کھانا پینا ان کے کھانے پینے کے ساتھ ملا لیا ۔
Narrated Abdullah ibn Abbas:
When Allah, Most High, revealed the verses: “Come not nigh to the orphan’s property except to improve it”. And “Those who unjustly eat up the property of orphans”, everyone who had an orphan with him went and separated his food from his (orphan’s) food, and his drink from his drink, and began to detain the remaining food which he (the orphan) himself ate or spoiled.
This fell heavy on them, and they mentioned this to the Messenger of Allah (ﷺ). So Allah, Most High, revealed the verse: “They ask thee concerning orphans. Say: The best thing to do is what is for their good; if ye mix their affairs with yours, they are your brethren.” Then they mixed their food with his food and their drink with his drink.
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَهُمْ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، – يَعْنِي الْمُعَلِّمَ – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلاً، أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَىْءٌ وَلِي يَتِيمٌ . قَالَ فَقَالَ “ كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلاَ مُبَادِرٍ وَلاَ مُتَأَثِّلٍ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے ، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا ، نہ جلد بازی دکھانا ( اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا ۱؎ “ ۔
Narrated ‘Amr b. Suh’aib:
On his father’s authority, said that his grandfather told that a man came to the Prophet (ﷺ) and said: I am poor, I have nothing (with me), and I have an orphan. He said: Use the property of your orphan without spending it lavishly, hurrying and taking it as your own property.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُقَيْشٍ، أَنَّهُ سَمِعَ شُيُوخًا، مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَمِنْ خَالِهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَحْمَدَ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ لاَ يُتْمَ بَعْدَ احْتِلاَمٍ وَلاَ صُمَاتَ يَوْمٍ إِلَى اللَّيْلِ ” .
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیںمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سن کر یاد رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں ( یعنی جب جوان ہو گیا تو یتیم نہیں رہا ) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خاموشی ہے ۱؎ ۔
Narrated Ali ibn AbuTalib:
I memorised (a tradition) from the Messenger of Allah (ﷺ): There is no orphanhood after puberty, and there is no silence for the whole day till the night.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ ” . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ قَالَ ” الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤْمِنَاتِ ” . قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَبُو الْغَيْثِ سَالِمٌ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سات تباہ و برباد کر دینے والی چیزوں ( کبیرہ گناہوں ) سے بچو “ ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو ، ناحق کسی کو جان سے مارنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، اور لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا ، اور پاک باز اور عفت والی بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالغیث سے مراد سالم مولی ابن مطیع ہیں ۔
The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: Refrain from seven (characteristics) which cause destruction. He was asked: What are they, Messenger of Allah ? He replied: To assign partner to Allah, magic, to kill a soul (man) which is prohibited by Allah except for which is due, to take usury, to consume the property of an orphan, to retreat on the day of the battle, and to slander chaste women, indiscreet but believing.
Abu Dawud said: The name Abu al-Ghaith is Salim client of Ibn Muti’.
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجُوزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ – وَكَانَتْ، لَهُ صُحْبَةٌ – أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْكَبَائِرُ فَقَالَ ” هُنَّ تِسْعٌ ” . فَذَكَرَ مَعْنَاهُ زَادَ ” وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ الْمُسْلِمَيْنِ وَاسْتِحْلاَلُ الْبَيْتِ الْحَرَامِ قِبْلَتِكُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا ” .
عمیر بن قتادۃ لیثی رضی اللہ عنہ ( جنہیں شرف صحبت حاصل ہے ) کہایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ نو ہیں ۱؎ “ ، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر بیان ہوئی ، اور اس میں : ” مسلمان ماں باپ کی نافرمانی ، اور بیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے کی حرمت کو حلال سمجھ لینے “ کا اضافہ ہے ۔
‘Umair, A Companion of the Prophet (ﷺ) said:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ إِلاَّ نَمِرَةٌ كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ مِنَ الإِذْخِرِ ” .
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن قتل کر دیے گئے ، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا ، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پاؤں کھل جاتے اور جب دونوں پاؤں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا ، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر اذخر ڈال دو ۱؎ “ ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، بُرَيْدَةَ أَنَّ امْرَأَةً، أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ كُنْتُ تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِوَلِيدَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَتَرَكَتْ تِلْكَ الْوَلِيدَةَ . قَالَ ” قَدْ وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَجَعَتْ إِلَيْكِ فِي الْمِيرَاثِ ” . قَالَتْ وَإِنَّهَا مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَيُجْزِئُ – أَوْ يَقْضِي – عَنْهَا أَنْ أَصُومَ عَنْهَا قَالَ ” نَعَمْ ” . قَالَتْ وَإِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ أَفَيُجْزِئُ – أَوْ يَقْضِي – عَنْهَا أَنْ أَحُجَّ عَنْهَا قَالَ ” نَعَمْ ” .
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر کہا : میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی ہبہ کی تھی ، اب وہ مر گئیں اور لونڈی چھوڑ گئیں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارا ثواب بن گیا اور تمہیں تمہاری لونڈی بھی میراث میں واپس مل گئی “ ، پھر اس نے عرض کیا : میری ماں مر گئی ، اور اس پر ایک مہینے کے روزے تھے ، کیا میں اس کی طرف سے قضاء کروں تو کافی ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ۱؎ “ ، پھر اس نے کہا : اس نے حج بھی نہیں کیا تھا ، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کے لیے کافی ہو گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ( کر لو ) “ ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ “ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا ” . فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ – وَزَادَ عَنْ بِشْرٍ – وَالضَّيْفِ – ثُمَّ اتَّفَقُوا – لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ . زَادَ عَنْ بِشْرٍ قَالَ وَقَالَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہعمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے ، مجھے کبھی کوئی مال نہیں ملا تو اس کے متعلق مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تم چاہو تو زمین کی اصل ( ملکیت ) کو روک لو اور اس کے منافع کو صدقہ کر دو “ ۱؎ ، عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا کہ نہ زمین بیچی جائے گی ، نہ ہبہ کی جائے گی ، اور نہ میراث میں تقسیم ہو گی ( بلکہ ) اس سے فقراء ، قرابت دار ، غلام ، مجاہدین اور مسافر فائدہ اٹھائیں گے ۔ بشر کی روایت میں ” مہمان کا اضافہ ہے “ ، باقی میں سارے راوی متفق ہیں : ” جو اس کا والی ہو گا دستور کے مطابق اس کے منافع سے اس کے خود کھانے اور دوستوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ مال جمع کر کے رکھنے والا نہ ہو “ ۔ بشر کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ محمد ( ابن سیرین ) کہتے ہیں : ” مال جوڑنے والا نہ ہو “ ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةِ، عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه قَالَ نَسَخَهَا لِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا كَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فِي ثَمْغٍ فَقَصَّ مِنْ خَبَرِهِ نَحْوَ حَدِيثِ نَافِعٍ قَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً فَمَا عَفَا عَنْهُ مِنْ ثَمَرِهِ فَهُوَ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ – قَالَ وَسَاقَ الْقِصَّةَ – قَالَ وَإِنْ شَاءَ وَلِيُّ ثَمْغٍ اشْتَرَى مِنْ ثَمَرِهِ رَقِيقًا لِعَمَلِهِ وَكَتَبَ مُعَيْقِيبٌ وَشَهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الأَرْقَمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ أَنَّ ثَمْغًا وَصِرْمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ وَالْعَبْدَ الَّذِي فِيهِ وَالْمِائَةَ سَهْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ وَرَقِيقَهُ الَّذِي فِيهِ وَالْمِائَةَ الَّتِي أَطْعَمَهُ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم بِالْوَادِي تَلِيهِ حَفْصَةُ مَا عَاشَتْ ثُمَّ يَلِيهِ ذُو الرَّأْىِ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ لاَ يُبَاعَ وَلاَ يُشْتَرَى يُنْفِقُهُ حَيْثُ رَأَى مِنَ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذِي الْقُرْبَى وَلاَ حَرَجَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ إِنْ أَكَلَ أَوْ آكَلَ أَوِ اشْتَرَى رَقِيقًا مِنْهُ .
یحییٰ بن سعید سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقہ کے متعلق روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہعبدالحمید بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نے مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقے کی کتاب نقل کر کے دی ، اس میں یوں لکھا ہوا تھا : ” «بسم الله الرحمن الرحيم» ، یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ کے بندے عمر نے ثمغ ( اس مال یا باغ کا نام ہے جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ یا خیبر میں وقف کیا تھا ) کے متعلق لکھا ہے “ ، پھر وہی تفصیل بیان کی جو نافع کی حدیث میں ہے اس میں ہے : ” مال جوڑنے والے نہ ہوں ، جو پھل اس سے گریں وہ مانگنے اور نہ مانگنے والے فقیروں اور محتاجوں کے لیے ہیں “ ، راوی کہتے ہیں : اور انہوں نے پورا قصہ بیان کیا ، اور کہا کہ : ” ثمغ کا متولی پھلوں کے بدلے ( باغ کے ) کام کاج کے لیے غلام خریدنا چاہے تو اس کے پھل سے خرید سکتا ہے “ ، معیقیب نے اسے لکھا اور عبداللہ بن ارقم نے اس بات کی یوں گواہی دی ۔ ” «بسم الله الرحمن الرحيم» ، یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آ جائے ( یعنی مر جاؤں ) تو ثمغ اور صرمہ بن اکوع اور غلام جو اس میں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور میرے سو وہ حصے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خیبر سے قریب کی وادی میں دیئے تھے ان سب کی متولیہ تاحیات حفصہ رہیں گی ، حفصہ کے بعد ان کے اہل میں سے جو صاحب رائے ہو گا وہ متولی ہو گا لیکن کوئی چیز نہ بیچی جائے گی ، نہ خریدی جائے گی ، سائل و محروم اور اقرباء پر ان کی ضروریات کو دیکھ کر خرچ کیا جائے گا ، ان کا متولی اگر اس میں سے کھائے یا کھلائے یا ان کی حفاظت و خدمت کے لیے ان کی آمدنی سے غلام خرید لے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں “ ۔
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، – يَعْنِي ابْنَ بِلاَلٍ – عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أُرَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ( جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے ) : ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ۲؎ ، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے “ ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَلاَ بَعِيرًا وَلاَ شَاةً وَلاَ أَوْصَى بِشَىْءٍ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی وفات کے وقت ) دینار و درہم ، اونٹ و بکری نہیں چھوڑی اور نہ کسی چیز کی وصیت فرمائی ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَتَصَدَّقَتْ وَأَعْطَتْ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم “ نَعَمْ فَتَصَدَّقِي عَنْهَا ” .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : میری ماں اچانک انتقال کر گئیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں اور ( اللہ کی راہ میں ) دیتیں ، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ انہیں کفایت کرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں تو ان کی طرف سے صدقہ کر دو ۱؎ “ ۔
Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:
A woman said: Messenger of Allah, my mother suddenly died; if it had not happened, she would have given sadaqah (charity) and donated (something). Will it suffice if I give sadaqah on her behalf? The Prophet (ﷺ) said: Yes, give sadaqah on her behalf.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا فَقَالَ “ نَعَمْ ” . قَالَ فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا وَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہایک شخص ( سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے ، کیا اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو انہیں فائدہ پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ( پہنچے گا ) “ ، اس نے کہا : میرے پاس کھجوروں کا ایک باغ ہے ، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ، أَوْصَى أَنْ يُعْتَقَ، عَنْهُ مِائَةُ رَقَبَةٍ فَأَعْتَقَ ابْنُهُ هِشَامٌ خَمْسِينَ رَقَبَةً فَأَرَادَ ابْنُهُ عَمْرٌو أَنْ يَعْتِقَ عَنْهُ الْخَمْسِينَ الْبَاقِيَةَ فَقَالَ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَوْصَى بِعِتْقِ مِائَةِ رَقَبَةٍ وَإِنَّ هِشَامًا أَعْتَقَ عَنْهُ خَمْسِينَ وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ خَمْسُونَ رَقَبَةً أَفَأُعْتِقُ عَنْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ ” .
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہعاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے ، اس کے بعد اس کے ( دوسرے ) بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کر دیں ، پھر انہوں نے کہا : ( ہم رکے رہے ) یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں ، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں ، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر وہ ( باپ ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا ۱؎ “ ۔
Narrated ‘Amr b. Suh’aib:
On his father’s authority, said that his grandfather told that Al-‘As ibn Wa’il left his will that a hundred slaves should be emancipated on his behalf. His son Hisham emancipated fifty slaves and his son Amr intended to emancipate the remaining fifty on his behalf, but he said: I should ask first the Messenger of Allah (ﷺ). He, therefore, came to the Prophet (ﷺ) and said: Messenger of Allah, my father left in his will that a hundred slaves should be emancipated on his behalf and Hisham has emancipated fifty on his behalf and fifty remain. Shall I emancipate them on his behalf? The Messenger of Allah (ﷺ) said: Had he been a Muslim and you had emancipated slaves on his behalf, or given sadaqah on his behalf, or performed the pilgrimage, that would have reached him.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، أَنَّ شُعَيْبَ بْنَ إِسْحَاقَ، حَدَّثَهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلاَثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ يَهُودَ فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ فَأَبَى فَكَلَّمَ جَابِرٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ وَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُنْظِرَهُ فَأَبَى . وَسَاقَ الْحَدِيثَ .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے ، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے ( مہلت دینے سے ) انکار کر دیا ، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ ( اپنے قرض کے بدلے میں ) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا : ” اچھا جابر کو مہلت دے دو “ ، اس نے اس سے بھی انکار کیا ، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مَرِضَ مَرَضًا – قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ – بِمَكَّةَ – ثُمَّ اتَّفَقَا – أَشْفَى فِيهِ فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالاً كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ قَالَ ” لاَ ” . قَالَ فَبِالشَّطْرِ قَالَ ” لاَ ” . قَالَ فَبِالثُّلُثِ قَالَ ” الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ ” . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي قَالَ ” إِنَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي فَتَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ لاَ تَزْدَادُ بِهِ إِلاَّ رِفْعَةً وَدَرَجَةً لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ ” . ثُمَّ قَالَ ” اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ ” .
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہوہ بیمار ہوئے ( ابن ابی خلف کی روایت میں ہے : مکہ میں ، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی ، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ ، پوچھا : کیا آدھا مال صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ ، پھر پوچھا : تہائی مال خیرات کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تہائی مال ( دے سکتے ہو ) اور تہائی مال بھی بہت ہے ، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ، اور جو چیز بھی تم اللہ کی رضا مندی کے لیے خرچ کرو گے اس کا ثواب تمہیں ملے گا ، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اٹھا کر دو گے تو اس کا ثواب بھی پاؤ گے “ ۱؎ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟ ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے جائیں گے ، اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے مکہ ہی میں رہ جاؤں گا ، جب کہ صحابہ مکہ چھوڑ کر ہجرت کر چکے تھے ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تم پیچھے رہ گئے ، اور میرے بعد میرے غائبانہ میں بھی نیک عمل اللہ کی رضا مندی کے لیے کرتے رہے تو تمہارا درجہ بلند رہے گا ، امید ہے کہ تم زندہ رہو گے ، یہاں تک کہ تمہاری ذات سے کچھ اقوام کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ کو نقصان و تکلیف ۲؎ “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ : ” اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فرما ، اور انہیں ان کے ایڑیوں کے بل پیچھے کی طرف نہ پلٹا “ ، لیکن بیچارے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنج و افسوس کا اظہار فرماتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال فرما گئے ۳؎ ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ “ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ تَأْمُلُ الْبَقَاءَ وَتَخْشَى الْفَقْرَ وَلاَ تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلاَنٍ كَذَا وَلِفُلاَنٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلاَنٍ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جسے تم صحت و حرص کی حالت میں کرو ، اور تمہیں زندگی کی امید ہو ، اور محتاجی کا خوف ہو ، یہ نہیں کہ تم اسے مرنے کے وقت کے لیے اٹھا رکھو یہاں تک کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو کہ : فلاں کو اتنا دے دینا ، فلاں کو اتنا ، حالانکہ اس وقت وہ فلاں کا ہو چکا ہو گا ۱؎ “ ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لأَنْ يَتَصَدَّقَ الْمَرْءُ فِي حَيَاتِهِ بِدِرْهَمٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمِائَةٍ عِنْدَ مَوْتِهِ ” .
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آدمی کا اپنی زندگی میں ( جب تندرست ہو ) ایک درہم خیرات کر دینا اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیرات کرے “ ۔
Narrated AbuSa’id al-Khudri:
The Prophet (ﷺ) said: A man giving a dirham as sadaqah (charity) during his life is better than giving one hundred dirhams as sadaqah (charity) at the moment of his death.
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُدَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةَ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ ” . قَالَ وَقَرَأَ عَلَىَّ أَبُو هُرَيْرَةَ مِنْ هَا هُنَا { مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ } حَتَّى بَلَغَ { ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } . قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا – يَعْنِي الأَشْعَثَ بْنَ جَابِرٍ – جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مرد اور عورت دونوں ساٹھ برس تک اللہ کی اطاعت کے کام میں لگے رہتے ہیں ، پھر جب انہیں موت آنے لگتی ہے ، تو وہ غلط وصیت کر کے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ( کسی کو محروم کر دیتے ہیں ، کسی کا حق کم کر دیتے ہیں ) تو ان کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے “ ۔ شہر بن حوشب کہتے ہیں : اس موقع پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار» پڑھی یہاں تک کہ «ذلك الفوز العظيم» پر پہنچے ۔ یعنی ( اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو ، یہ مقرر کیا ہوا اللہ کی طرف سے ہے ، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں ، اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ ( سورۃ النساء : ۱۱ ، ۱۲ ) ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یعنی اشعت بن جابر ، نصر بن علی کے دادا ہیں ۔
Narrated AbuHurayrah:
The Prophet (ﷺ) said: A man or a woman acts in obedience to Allah for sixty years, then when they are about to die they cause injury by their will, so they must go to Hell. Then AbuHurayrah recited: “After a legacy which you bequeath or a debt, causing no injury…that will be the mighty success.
Abu Dawud said: Al-Ash’ath b. Jabir is the grandfather of Nasr b. ‘Ali.