۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)

Markazi Anjuman Khuddam ul Quran Lahore

1

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ مُوسَى – عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَ قُرَيْظَةُ وَالنَّضِيرُ – وَكَانَ النَّضِيرُ أَشْرَفَ مِنْ قُرَيْظَةَ – فَكَانَ إِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْظَةَ رَجُلاً مِنَ النَّضِيرِ قُتِلَ بِهِ وَإِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلاً مِنْ قُرَيْظَةَ فُودِيَ بِمِائَةِ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلاً مِنْ قُرَيْظَةَ فَقَالُوا ادْفَعُوهُ إِلَيْنَا نَقْتُلْهُ ‏.‏ فَقَالُوا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَتَوْهُ فَنَزَلَتْ ‏{‏ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ‏}‏ وَالْقِسْطُ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ ثُمَّ نَزَلَتْ ‏{‏ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ‏}‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قُرَيْظَةُ وَالنَّضِيرُ جَمِيعًا مِنْ وَلَدِ هَارُونَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہقریظہ اور نضیر دو ( یہودی ) قبیلے تھے ، نضیر قریظہ سے زیادہ باعزت تھے ، جب قریظہ کا کوئی آدمی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو اسے اس کے بدلے قتل کر دیا جاتا ، اور جب نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو سو وسق کھجور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا جاتا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو نضیر کے ایک آدمی نے قریظہ کے ایک آدمی کو قتل کر دیا ، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے ہمارے حوالے کرو ، ہم اسے قتل کریں گے ، نضیر نے کہا : ہمارے اور تمہارے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کریں گے ، چنانچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آیت «وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط» ” اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو “ اتری ، اور انصاف کی بات یہ تھی کہ جان کے بدلے جان لی جائے ، پھر آیت «أفحكم الجاهلية يبغون» ” کیا یہ لوگ جاہلیت کے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں ؟ “ نازل ہوئی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قریظہ اور نضیر دونوں ہارون علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔

Narrated Abdullah Ibn Abbas:

Qurayzah and Nadir (were two Jewish tribes). An-Nadir were nobler than Qurayzah. When a man of Qurayzah killed a man of an-Nadir, he would be killed. But if a man of an-Nadir killed a man of Qurayzah, a hundred wasq of dates would be paid as blood-money. When Prophethood was bestowed upon the Prophet (ﷺ), a man of an-Nadir killed a man of Qurayzah.

They said: Give him to us, we shall kill him. They replied: We have the Prophet (ﷺ) between you and us. So they came to him.

Thereupon the following verse was revealed: “If thou judge, judge in equity between them.” “In equity” means life for a life.

The following verse was then revealed: “Do they seek of a judgment of (the days) ignorance?”

Abu Dawud said: Quraizah and al-Nadir were the descendants of Harun the Prophet (peace be upon him)


10

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضَّمْرِيَّ، ح وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ، – وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُّ – يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ – قَالَ مُوسَى – وَجَدِّهِ وَكَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حُنَيْنًا – ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ وَهْبٍ – أَنَّ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ أَشْجَعَ فِي الإِسْلاَمِ وَذَلِكَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَكَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الأَشْجَعِيِّ لأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ وَتَكَلَّمَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ فَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا عُيَيْنَةُ أَلاَ تَقْبَلُ الْغِيَرَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ عُيَيْنَةُ لاَ وَاللَّهِ حَتَّى أُدْخِلَ عَلَى نِسَائِهِ مِنَ الْحَرْبِ وَالْحَزَنِ مَا أَدْخَلَ عَلَى نِسَائِي ‏.‏ قَالَ ثُمَّ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا عُيَيْنَةُ أَلاَ تَقْبَلُ الْغِيَرَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا إِلَى أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِكَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرَقَةٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الإِسْلاَمِ مَثَلاً إِلاَّ غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا اسْنُنِ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ ‏”‏ ‏.‏ وَذَلِكَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّى تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَكَ وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَقَتَلْتَهُ بِسِلاَحِكَ فِي غُرَّةِ الإِسْلاَمِ اللَّهُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ ‏”‏ ‏.‏ بِصَوْتٍ عَالٍ زَادَ أَبُو سَلَمَةَ فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّى دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْغِيَرُ الدِّيَةُ ‏.‏

زبیر بن عوام اور ان والد عوام رضی اللہ عنہما ( یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے ) سے روایت ہے کہمحلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کر دیا ، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ عطفان سے تھا ، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں ، اور شور و غل بڑھ گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عیینہ ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے ؟ “ عیینہ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج و غم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچایا ہے ، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شور و غل بڑھ گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عیینہ ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے ؟ “ عیینہ نے پھر اسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے مکیتل کہا جاتا تھا ، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لیے ہوئے تھا ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے ، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے ، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں ، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئیے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو ، اور پچاس مدینے لوٹ کر دینا “ ۔ اور یہ واقعہ ایک سفر کے دوران پیش آیا تھا ، محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا ، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا ، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ بیٹھا ، اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے ، اب میں توبہ کرتا ہوں ، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے ، اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ آواز بلند فرمایا : ” کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے ، اے اللہ ! محلم کو نہ بخشنا “ ابوسلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کر محلم کھڑا ہوا ، وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا ، ابن اسحاق کہتے ہیں : محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ «غير» کے معنی دیت کے ہیں ۔

Narrated Ziyad ibn Sa’d ibn Dumayrah as-Sulami:

On the authority of his father (Sa’d) and his grandfather (Dumayrah) (according to Musa’s version) who were present in the battle of Hunayn with the Messenger of Allah (ﷺ): After the advent of Islam, Muhallam ibn Jaththamah al-Laythi killed a man of Ashja’.

That was the first blood-money decided by the Messenger of Allah (ﷺ) (for payment). Uyaynah spoke about the killing of al-Ashja’i, for he belonged to Ghatafan, and al-Aqra’ ibn Habis spoke on behalf of Muhallam, for he belonged to Khunduf. The voices rose high, and the dispute and noise grew.

So the Messenger of Allah (ﷺ) said: Do you not accept blood-money, Uyaynah?

Uyaynah then said: No, I swear by Allah, until I cause his women to suffer the same fighting and grief as he caused my women to suffer. Again the voices rose high, and the dispute and noise grew.

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Do you not accept the blood-money Uyaynah? Uyaynah gave the same reply as before, and a man of Banu Layth called Mukaytil stood up. He had a weapon and a skin shield in his hand.

He said: I do not find in the beginning of Islam any illustration for what he has done except the one that “some sheep came on, and those in the front were shot; hence those in the rear ran away”. (The other example is that) “make a law today and change it.”

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Fifty (camels) here immediately and fifty when we return to Medina. This happened during some of his journeys. Muhallam was a tall man of dark complexion. He was with the people. They continued (to make effort for him) until he was released. He sat before the Messenger of Allah (ﷺ), with his eyes flowing.

He said: Messenger of Allah! I have done (the act) of which you have been informed. I repent to Allah, the Exalted, so ask Allah’s forgiveness for me. Messenger of Allah!

The Messenger of Allah (ﷺ) then said: Did you kill him with your weapon at the beginning of Islam. O Allah! do not forgive Muhallam. He said these words loudly.

AbuSalamah added: He (Muhallam) then got up while he was wiping his tears with the end of his garment.

Ibn Ishaq said: His people alleged that the Messenger of Allah (ﷺ) asked forgiveness for him after that.

Abu Dawud said: Al-Nadr b. Shumail said: al-ghiyar means blood-wit.


100

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْعَجْمَاءُ الْمُنْفَلِتَةُ الَّتِي لاَ يَكُونُ مَعَهَا أَحَدٌ وَتَكُونُ بِالنَّهَارِ وَلاَ تَكُونُ بِاللَّيْلِ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے ، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو ، رات نہ ہو ۔

Narrated Abu Hurairah:The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: No retaliation is payable for a wound caused by a dumb animal, for a mine, and for a well. On the treasure found buried in the land there is a fifth.

Abu Dawud said: A dumb animal means an animal which is free and has not tether, and there is no one (as a watchman) with it. It causes harm by day and not by night.


101

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلاَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ح وَحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ الصَّنْعَانِيُّ، كِلاَهُمَا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ النَّارُ جُبَارٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آگ باطل ہے ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: No recompense may be demanded if the fire spreads.


102

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ أُخْتُ أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَضَى بِكِتَابِ اللَّهِ الْقِصَاصَ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا الْيَوْمَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ ‏”‏ ‏.‏ فَرَضُوا بِأَرْشٍ أَخَذُوهُ فَعَجِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏”‏ إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قِيلَ لَهُ كَيْفَ يُقْتَصُّ مِنَ السِّنِّ قَالَ تُبْرَدُ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہانس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا ، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا ، تو انس بن نضر نے کہا ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے انس ! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے “ پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا ، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا : ” اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے ۱؎ “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ان سے پوچھا گیا تھا کہ دانت کا قصاص کیسے لیا جائے ؟ تو انہوں نے کہا : وہ ریتی سے رگڑا جائے ۔

Narrated Anas bin Malik:Al-Rubayyi’, sister of Anas b. al-Nadr, broke (one of) the front teeth of a woman. They came to the Prophet (ﷺ). He made a decision in accordance with the Book of Allah that retaliation should be taken. Anas b. al-Nadr said: I swear by Him who has sent you the truth, her front tooth will not be broken today. He replied: Anas ! Allah’s decree is retaliation. But the people were agreeable to accepting a fine, so the Prophet (ﷺ) said: Among Allah’s servants there are those who, if they adjured Allah, He (Allah) would consent to it.

Abu Dawud said: I heard Ahmad b. Hanbal say: He was asked : How retaliation of a tooth is taken ? He said: It is broken with a file.


11

حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَلاَ إِنَّكُمْ يَا مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَإِنِّي عَاقِلُهُ فَمَنْ قُتِلَ لَهُ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ قَتِيلٌ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ أَنْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ أَوْ يَقْتُلُوا ‏”‏ ‏.‏

ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو خزاعہ کے لوگو ! تم نے ہذیل کے اس شخص کو قتل کیا ہے ، اور میں اس کی دیت دلاؤں گا ، میری اس گفتگو کے بعد کوئی قتل کیا گیا تو مقتول کے لوگوں کو دو باتوں کا اختیار ہو گا یا وہ دیت لے لیں یا قتل کر ڈالیں “ ۔

Narrated AbuShurayb al-Ka’bi:

The Prophet (ﷺ) said: Then you, Khuza’ah, have killed this man of Hudhayl, but I will pay his blood-wit. After these words of mine if a man of anyone is killed, his people will have a choice to accept blood-wit or to kill him.


12

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُودَى أَوْ يُقَادَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شَاهٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبْ لِي – قَالَ الْعَبَّاسُ اكْتُبُوا لِي – فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اكْتُبُوا لأَبِي شَاهٍ ‏”‏ ‏.‏ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَحْمَدَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ اكْتُبُوا لِي يَعْنِي خُطْبَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہجب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا : ” جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے ، یا قصاص میں قتل کرے “ یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ لکھ دیجئیے ( عباس بن ولید کی روایت «اکتب لی» کے بجائے «اکتبوا لی» یہ صیغۂ جمع ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابو شاہ کے لیے لکھ دو “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «اکتبوا لی» سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ہے ۔

Narrated Abu Hurairah:When Mecca was conquered, the Messenger of Allah (ﷺ) got up and said: If a relative of anyone is killed, he will have a choice between two : he (the slayer) will either pay the blood-wit or he will be killed. A man of the Yemen called Abu Shah stood up and said: Write for me, Messenger of Allah. The narrator al-‘Abbas (b. al-Walid) said: Write to me, (you people). The Messenger of Allah (ﷺ) said: Write (you people), for Abu Shah. These are the wordings of the tradition of Ahmad.

Abu Dawud said: Write (you people), for me, that is, the address of the Prophet (ﷺ).


13

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوهُ وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا ، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا ، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیا جائے گا ، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں “ ۔

Narrated ‘Amr b. Shu’aib:

On his father’s authority said that his grandfather reported the Prophet (ﷺ) said: A believer will not be killed for an infidel. If anyone kills a man deliberately, he is to be handed over to the relatives of the one who has been killed. If they wish, they may kill, but if they wish, they may accept blood-wit


14

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، – وَأَحْسَبُهُ – عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ أُعْفِي مَنْ قَتَلَ بَعْدَ أَخْذِهِ الدِّيَةَ ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اسے ہرگز نہیں معاف کروں گا ۱؎ جو دیت لینے کے بعد بھی ( قاتل کو ) قتل کر دے “ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Prophet (ﷺ) said: I will not forgive anyone who kills after accepting blood-wit


15

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ امْرَأَةً، يَهُودِيَّةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ أَرَدْتُ لأَقْتُلَكَ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَلِكَ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ عَلَىَّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقَالُوا أَلاَ نَقْتُلُهَا قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏ ‏.‏ فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک یہودی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود بکری لے کر آئی ، آپ نے اس میں سے کچھ کھا لیا ، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا ، آپ نے اس سلسلے میں اس سے پوچھا ، تو اس نے کہا : میرا ارادہ آپ کو مار ڈالنے کا تھا ، آپ نے فرمایا : ” اللہ تجھے کبھی مجھ پر مسلط نہیں کرے گا “ صحابہ نے عرض کیا : کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں ، آپ نے فرمایا : ” نہیں “ چنانچہ میں اس کا اثر برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھوں میں دیکھا کرتا تھا ۔

Narrated Anas bin Malik:A Jewess brought a poisoned sheep to the Messenger of Allah (ﷺ), and he ate of it. She was then brought to the Messenger of Allah (ﷺ) who asked her about it. She said: I intended to kill you. He said: Allah will not give you control over it ; or he said : over me. They (the Companions) said: Should we not kill her ? He said: No. He (Anas) said: I always found it in the uvula of the Messenger of Allah (ﷺ)


16

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّاُدُ بْنُ الْعَوَّامِ، ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، وَأَبِي، سَلَمَةَ – قَالَ هَارُونُ – عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةً، مِنَ الْيَهُودِ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم شَاةً مَسْمُومَةً – قَالَ – فَمَا عَرَضَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذِهِ أُخْتُ مَرْحَبٍ الْيَهُودِيَّةُ الَّتِي سَمَّتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک یہودی عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود بکری بھیجی ، لیکن آپ نے اس عورت سے کوئی تعرض نہیں کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرحب کی ایک یہودی بہن تھی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا تھا ۔

Narrated Abu Hurairah:

A Jewess presented a poisoned sheep to the Prophet (ﷺ), but the Prophet (ﷺ) did not interfere with he.

Abu Dawud said: The Jewess who poisoned the Prophet (ﷺ) was sister of Marhab.


17

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنَّ يَهُودِيَّةً، مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ ‏”‏ ‏.‏ وَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ لَهَا ‏”‏ أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتِ الْيَهُودِيَّةُ مَنْ أَخْبَرَكَ قَالَ ‏”‏ أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي ‏”‏ ‏.‏ لِلذِّرَاعِ ‏.‏ قَالَتْ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَمَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ قُلْتُ إِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنِ اسْتَرَحْنَا مِنْهُ ‏.‏ فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يُعَاقِبْهَا وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَاحْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنَ الأَنْصَارِ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہخیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا ، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں بھیجا ، آپ نے دست کا گوشت لے کر اس میں سے کچھ کھایا ، آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی کھایا ، پھر ان سے آپ نے فرمایا : ” اپنے ہاتھ روک لو “ اور آپ نے اس یہودیہ کو بلا بھیجا ، اور اس سے سوال کیا : ” کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ “ یہودیہ بولی : آپ کو کس نے بتایا ؟ آپ نے فرمایا : ” دست کے اسی گوشت نے مجھے بتایا جو میرے ہاتھ میں ہے “ وہ بولی : ہاں ( میں نے ملایا تھا ) ، آپ نے پوچھا : ” اس سے تیرا کیا ارادہ تھا ؟ “ وہ بولی : میں نے سوچا : اگر نبی ہوں گے تو زہر نقصان نہیں پہنچائے گا ، اور اگر نہیں ہوں گے تو ہم کو ان سے نجات مل جائے گی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا ، کوئی سزا نہیں دی ، اور آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے ، جسے ابوہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا ، ابوہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے ۔

Narrated Ibn Shihab:

Jabir ibn Abdullah used to say that a Jewess from the inhabitants of Khaybar poisoned a roasted sheep and presented it to the Messenger of Allah (ﷺ) who took its foreleg and ate from it. A group of his companions also ate with him.

The Messenger of Allah (ﷺ) then said: Take your hands away (from the food). The Messenger of Allah (ﷺ) then sent someone to the Jewess and he called her.

He said to her: Have you poisoned this sheep? The Jewess replied: Who has informed you? He said: This foreleg which I have in my hand has informed me. She said: Yes. He said: What did you intend by it? She said: I thought if you were a prophet, it would not harm you; if you were not a prophet, we should rid ourselves of him (i.e. the Prophet). The Messenger of Allah (ﷺ) then forgave her, and did not punish her. But some of his companions who ate it, died. The Messenger of Allah (ﷺ) had himself cupped on his shoulder on account of that which he had eaten from the sheep. AbuHind cupped him with the horn and knife. He was a client of Banu Bayadah from the Ansar.


18

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ قَالَ فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الأَنْصَارِيُّ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ ‏ “‏ مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُتِلَتْ وَلَمْ يَذْكُرْ أَمْرَ الْحِجَامَةِ ‏.‏

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہخیبر کی ایک یہودی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی ، پھر راوی نے ویسے ہی بیان کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے ، ابوسلمہ کہتے ہیں : پھر بشر بن براء بن معرور انصاری فوت ہو گئے ، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا : ” تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا ؟ “ پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلسلہ میں حکم دیا : تو وہ قتل کر دی گئی ، اور انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎ ۔

Narrated AbuSalamah:

A Jewess presented a roasted sheep to the Messenger of Allah (ﷺ) at Khaybar.

He then mentioned the rest of the tradition like that of Jabir (No. 4495). He said: Then Bashir ibn al-Bara’ ibn Ma’rur al-Ansari died. He sent someone to call on the Jewess, and said to her (when she came): What motivated you to do the work you have done? He then mentioned the rest of the tradition similar to the one mentioned by Jabir (No. 4495).

The Messenger of Allah (ﷺ) then ordered regarding her and she was killed. But he (AbuSalamah) did not mention the matter of cupping.


19

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَلاَ يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ ‏.‏ وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَلاَ يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ ‏.‏ زَادَ فَأَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً سَمَّتْهَا فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْهَا وَأَكَلَ الْقَوْمُ فَقَالَ ‏”‏ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ فَإِنَّهَا أَخْبَرَتْنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ ‏”‏ ‏.‏ فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الأَنْصَارِيُّ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ ‏”‏ مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ الَّذِي صَنَعْتُ وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ ‏.‏ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُتِلَتْ ثُمَّ قَالَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ‏”‏ مَا زِلْتُ أَجِدُ مِنَ الأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے ، اور صدقہ نہیں کھاتے تھے ، نیز اسی سند سے ایک اور مقام پر ابوہریرہ کے ذکر کے بغیر صرف ابوسلمہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور صدقہ نہیں کھاتے تھے ، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ کو خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا اور لوگوں نے بھی کھایا ، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” اپنے ہاتھ روک لو ، اس ( گوشت ) نے مجھے بتایا ہے کہ وہ زہر آلود ہے “ چنانچہ بشر بن براء بن معرور انصاری مر گئے ، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا : ” ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا ؟ “ وہ بولی : اگر آپ نبی ہیں تو جو میں نے کیا ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ، اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو میں نے لوگوں کو آپ سے نجات دلا دی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ قتل کر دی گئی ، پھر آپ نے اپنی اس تکلیف کے بارے میں فرمایا : جس میں آپ نے وفات پائی کہ میں برابر خیبر کے اس کھانے کے اثر کو محسوس کرتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت آ گیا کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ۔

Narrated Abu Hurairah:

The Messenger of Allah (ﷺ) would accept a present, but would not accept alms (sadaqah). And Wahb bin Baqiyyah narrated to us, elsewhere, from Khalid, from Muhammad ibn Amr said on the authority of AbuSalamah, and he did not mention the name of Abu Hurairah: The Messenger of Allah (ﷺ) used to accept presents but not alms (sadaqah).

This version adds: So a Jewess presented him at Khaybar with a roasted sheep which she had poisoned. The Messenger of Allah (ﷺ) ate of it and the people also ate.

He then said: Take away your hands (from the food), for it has informed me that it is poisoned. Bishr ibn al-Bara’ ibn Ma’rur al-Ansari died.

So he (the Prophet) sent for the Jewess (and said to her): What motivated you to do the work you have done?

She said: If you were a prophet, it would not harm you; but if you were a king, I should rid the people of you. The Messenger of Allah (ﷺ) then ordered regarding her and she was killed. He then said about the pain of which he died: I continued to feel pain from the morsel which I had eaten at Khaybar. This is the time when it has cut off my aorta.


2

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ إِيَادٍ – حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ لأَبِي ‏”‏ ابْنُكَ هَذَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ ‏”‏ حَقًّا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَشْهَدُ بِهِ ‏.‏ قَالَ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ضَاحِكًا مِنْ ثَبْتِ شَبَهِي فِي أَبِي وَمِنْ حَلْفِ أَبِي عَلَىَّ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ أَمَا إِنَّهُ لاَ يَجْنِي عَلَيْكَ وَلاَ تَجْنِي عَلَيْهِ ‏”‏ ‏.‏ وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ‏}‏

ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ، آپ نے میرے والد سے پوچھا : ” یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ “ میرے والد نے کہا : ہاں رب کعبہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سچ مچ ؟ “ انہوں نے کہا : میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا ، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا ، اور نہ تم اس کے جرم میں “ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى» ” کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی “ ( الانعام : ۱۶۴ ، الاسراء : ۱۵ ، الفاطر : ۱۸ ) ۔

Narrated AbuRimthah:

I went to the Prophet (ﷺ) with my father. The Messenger of Allah (ﷺ) then asked my father: Is this your son? He replied: Yes, by the Lord of the Ka’bah. He again said: Is it true? He said: I bear witness to it. The Messenger of Allah (ﷺ) then smiled for my resemblance with my father, and for the fact that my father took an oath upon me. He then said: He will not bring evil on you, nor will you bring evil on him. The Messenger of Allah (ﷺ) recited the verse: “No bearer of burdens can bear the burden of another.”


20

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ، قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ مَا يُتَّهَمُ بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي لاَ أَتَّهِمُ بِابْنِي شَيْئًا إِلاَّ الشَّاةَ الْمَسْمُومَةَ الَّتِي أَكَلَ مَعَكَ بِخَيْبَرَ ‏.‏ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ وَأَنَا لاَ أَتَّهِمُ بِنَفْسِي إِلاَّ ذَلِكَ فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرُبَّمَا حَدَّثَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُرْسَلاً عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرُبَّمَا حَدَّثَ بِهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنَّ مَعْمَرًا كَانَ يُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً مُرْسَلاً فَيَكْتُبُونَهُ وَيُحَدِّثُهُمْ مَرَّةً بِهِ فَيُسْنِدُهُ فَيَكْتُبُونَهُ وَكُلٌّ صَحِيحٌ عِنْدَنَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فَلَمَّا قَدِمَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَلَى مَعْمَرٍ أَسْنَدَ لَهُ مَعْمَرٌ أَحَادِيثَ كَانَ يُوقِفُهَا ‏.‏

کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہام مبشر رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مرض میں جس میں آپ نے وفات پائی کہا : اللہ کے رسول ! آپ کا شک کس چیز پر ہے ؟ میرے بیٹے کے سلسلہ میں میرا شک تو اس زہر آلود بکری پر ہے جو اس نے آپ کے ساتھ خیبر میں کھائی تھی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے سلسلہ میں بھی میرا شک اسی پر ہے ، اور اب یہ وقت آ چکا ہے کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ہے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرزاق نے کبھی اس حدیث کو معمر سے ، معمر نے زہری سے ، زہری نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور کبھی معمر نے اسے زہری سے اور ، زہری نے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کے واسطہ سے بیان کیا ہے ۔ اور عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے کہ معمر اس حدیث کو ان سے کبھی مرسلاً روایت کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے اور کبھی مسنداً روایت کرتے تو بھی وہ اسے بھی لکھ لیتے ، اور ہمارے نزدیک دونوں صحیح ہے ۔ عبدالرزاق کہتے ہیں : جب ابن مبارک معمر کے پاس آئے تو معمر نے وہ تمام حدیثیں جنہیں وہ موقوفاً روایت کرتے تھے ان سے متصلًا روایت کیں ۔

Narrated Ibn Ka’b b. Malik:

On the authority of his father: Umm Mubashshir said to the Prophet (ﷺ) during the sickness of which he died: What do you think about your illness, Messenger of Allah (ﷺ)? I do not think about the illness of my son except the poisoned sheep of which he had eaten with you at Khaybar. The Prophet (ﷺ) said: And I do not think about my illness except that. This is the time when it cut off my aorta.

Abu Dawud said: Sometime ‘Abd al-Razzaq transmitted this tradition, omitting the link of the Companion, from Ma’mar, from al-Zuhri, from the Prophet (ﷺ), and sometimes he transmitted it from al-Zuhri from ‘Abd al-Rahman b. Ka’b b. Malik, ‘Abd al-Rahman mentioned that Ma’mar sometimes transmitted the tradition in a mursal form (omitting the link of the Companion), and they recorded it. And all this is correct with us. ‘Abd al-Razzaq said: When Ibn al-Mubarak came to Ma’mar, he transmitted the traditions in a musnad form (with a perfect chain) which he transmitted as mauquf traditions (statements of the Companions and not of the Prophet).


21

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ، – قَالَ أَبُو سَعِيدِ بْنُ الأَعْرَابِيِّ كَذَا قَالَ عَنْ أُمِّهِ، وَالصَّوَابُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، – دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَخْلَدِ بْنِ خَالِدٍ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ قَالَ فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَقَالَ ‏ “‏ مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُتِلَتْ وَلَمْ يَذْكُرِ الْحِجَامَةَ ‏.‏

ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں پھر راوی نے مخلد بن خالد کی حدیث کا مفہوم اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی روایت میں ہے ، اس میں ہے کہ بشر بن براء بن معرور مر گئے ، تو آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور پوچھا : ” یہ تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا ؟ “ پھر راوی نے وہی باتیں ذکر کیں جو جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ قتل کر دی گئی لیکن انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا ۔

Narrated ‘Abd al-Rahman b. ‘Abd Allah b. Ka’b b. Malik :On the authority of his mother than Umm Mubashshir said (Abu Sa’id b. al-A’rabi said: So he said it on the authority of his mother ; what is correct is: on the authority of his father, instead of his mother): I entered upon the Prophet (ﷺ). He then mentioned the tradition of Makhlad b. Khalid in a way similar to the tradition of Jabir. The narrator said: Then Bishr b. al-Bara’ b. Ma’rur died. So he (the Prophet) sent for the Jewess and said: What did motivate you for your work you have done ? He (the narrator) then mentioned the rest of the tradition like the tradition of Jabir. The Messenger of Allah (ﷺ) ordered regarding her and she was killed. He (the narrator in this version) did not mention cupping.


22

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ ‏”‏ ‏.‏

سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے ، اور جو اس کے اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے “ ۔

Narrated Samurah:

The Prophet (ﷺ) Said: If anyone kills his slave, we shall kill him, and if anyone cuts off the nose of his slave, we shall cut off his nose.


23

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَنْ خَصَى عَبَدَهُ خَصَيْنَاهُ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَحَمَّادٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ هِشَامٍ مِثْلَ حَدِيثِ مُعَاذٍ ‏.‏

اس سند سے بھی قتادہ سے بھی اسی کے مثل حدیث مروی ہےاس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے “ اس کے بعد راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے شعبہ اور حماد کی حدیث میں ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوداؤد طیالسی نے ہشام سے معاذ کی حدیث کی طرح نقل کیا ہے ۔

Narrated Qatadah:

Through the same chain of narrators as mentioned before, i.e. Samurah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: If anyone castrates his slave, we shall castrate him. He then mentioned the rest of the tradition like that of Sh’ubah and Hammad.

Abu Dawud said: Abu Dawud al-Tayalisi transmitted it from Hisham like the tradition of Mu’adh.


24

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِ شُعْبَةَ مِثْلَهُ زَادَ ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ هَذَا الْحَدِيثَ فَكَانَ يَقُولُ ‏ “‏ لاَ يُقْتَلُ حُرٌّ بِعَبْدٍ ‏”‏ ‏.‏

اس سند سے بھی قتادہ سے شعبہ کی سند والی روایت کے مثل مروی ہےاس میں اضافہ ہے کہ پھر حسن ( راوی حدیث ) اس حدیث کو بھول گئے چنانچہ وہ کہتے تھے : آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔

Qatadah transmitted the tradition mentioned above through a chain of narrators like that of Shu’bah. This version adds:Then al-Hasan forgot this tradition, and he used to say: A free man is not to be killed for a slave.


25

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ لاَ يُقَادُ الْحُرُّ بِالْعَبْدِ ‏.‏

حسن بصری کہتے ہیںآزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔

It was narrated from Hisham, from Qatadah, from Al-Hasan, who said:”A free man should not be subjected to retaliation in return for a slave.”


26

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ تَسْنِيمٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مُسْتَصْرِخٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ جَارِيَةٌ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ وَيْحَكَ مَا لَكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ شَرًّا أَبْصَرَ لِسَيِّدِهِ جَارِيَةً لَهُ فَغَارَ فَجَبَّ مَذَاكِيرَهُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ عَلَىَّ بِالرَّجُلِ ‏”‏ ‏.‏ فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى مَنْ نُصْرَتِي قَالَ ‏”‏ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ كُلِّ مُسْلِمٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الَّذِي عُتِقَ كَانَ اسْمُهُ رَوْحُ بْنُ دِينَارٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الَّذِي جَبَّهُ زِنْبَاعٌ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا زِنْبَاعٌ أَبُو رَوْحٍ كَانَ مَوْلَى الْعَبْدِ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اس کی ایک لونڈی تھی ، آپ نے فرمایا : ” ستیاناس ہو تمہارا ، بتاؤ کیا ہوا ؟ “ اس نے کہا : برا ہوا ، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا ، تو اسے غیرت آئی ، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس شخص کو میرے پاس لاؤ “ تو اسے بلایا گیا ، مگر کوئی اسے نہ لا سکا تب آپ نے ( اس غلام سے ) فرمایا : ” جاؤ تم آزاد ہو “ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری مدد کون کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” ہر مومن پر “ یا کہا : ” ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا ، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا ، یہ زنباع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے ۔

Narrated ‘Amr b. Shu’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather told that a A man came to the Prophet (ﷺ) crying for help. He said: His slave-girl, Messenger of Allah! He said: Woe to you, what happened with you ? He said that it was an evil one. He saw the slave-girl of his master; he became jealous of him, and cut off his penis. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Bring the man to me. The man was called, but people could not get control over him. The Messenger of Allah (ﷺ) then said: Go away, you are free. He asked: Messenger of Allah! upon whom does my help lie? He replied: On every believer, or he said: On every Muslim.

Abu Dawud said: The name of the man who was emancipated was Rawh b. Dinar

Abu Dawud said: The man who cut off the penis was Zinba’

Abu Dawud said: The Zinba’ Abu Rawh was master of the slave.


27

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، انْطَلَقَا قِبَلَ خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ فَاتَّهَمُوا الْيَهُودَ فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَابْنَا عَمِّهِ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْكُبْرَ الْكُبْرَ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ لِيَبْدَإِ الأَكْبَرُ ‏”‏ ‏.‏ فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَيُدْفَعُ بِرُمَّتِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ قَالَ ‏”‏ فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْمٌ كُفَّارٌ ‏.‏ قَالَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ قِبَلِهِ ‏.‏ قَالَ قَالَ سَهْلٌ دَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ يَوْمًا فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الإِبِلِ رَكْضَةً بِرِجْلِهَا ‏.‏ قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَمَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ فِيهِ ‏”‏ أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ‏”‏ وَلَمْ يَذْكُرْ بِشْرٌ دَمًا وَقَالَ عَبْدَةُ عَنْ يَحْيَى كَمَا قَالَ حَمَّادٌ وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى فَبَدَأَ بِقَوْلِهِ ‏”‏ تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا يَحْلِفُونَ ‏”‏ ‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرِ الاِسْتِحْقَاقَ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا وَهَمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ‏.‏

سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہمحیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں ( چلتے چلتے ) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے ، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے ، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی ، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بڑوں کا لحاظ کرو “ ( اور انہیں گفتگو کا موقع دو ) یا یوں فرمایا : ” بڑے کو پہلے بولنے دو “ چنانچہ ان دونوں ( حویصہ اور محیصہ ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کر دیا جائے “ ان لوگوں نے کہا : یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے ، پھر ہم کیسے قسم کھا لیں ؟ آپ نے فرمایا : ” پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کو تم سے بچا لیں گے “ وہ بولے : اللہ کے رسول ! یہ کافر لوگ ہیں ( ان کی قسموں کا کیا اعتبار ؟ ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی ، سہل کہتے ہیں : ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا ، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی ، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے : ” کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کے خون ، یا اپنے قاتل کے مستحق ہوتے ہو ؟ “ البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے ، اور عبدہ نے یحییٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے ، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے ، تو انہوں نے ابتداء «تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون» سے کی ہے اور استحقاق کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن عیینہ کا وہم ہے ۔

Narrated Sahl b. Abi Hathmah and Rafi’ b. Khadij:

Muhayyasah b. Mas’ud and ‘Abd Allah b. Sahl came to Khaibar and parted (from each other) among palm trees. ‘Abd Allah b. Sahl was killed. The Jews were blamed (for the murder). ‘Abd al-Rahman b. Sahl and Huwayyasah and Muhayyasah, the sons of his uncle (Mas’ud) came to the Prophet (ﷺ). ‘Abd al-Rahman, who was the youngest, spoke about his brother, but the Messenger of Allah (ﷺ) said to him: (Respect) the elder, (respect) the elder or he said: Let the eldest begin. They then spoke about their friend and the Messenger of Allah (ﷺ) said: Fifty of you should take oaths regarding a man from them (the Jews) and he should be entrusted (to him) with his rope (in his neck). They said: It is a matter which we did not see. How can we take oaths ? He said: The Jews exonerate themselves by the oaths of fifty of them. They said: Messenger of Allah! they are a people who are infidels. So the Messenger of Allah (ﷺ) paid them bloodwit himself. Sahl said: Once I entered the resting place of their camels, and the she-camel struck me with her lef. Hammad said this or (something) similar to it.

Abu Dawud said: Another version transmitted by Yahya b. Sa’id has: Would you swear fifty oaths and make you claim regarding your friend or your slain man ? Bishr, the transmitter, did mention blood. ‘Abdah transmitted it from Yahya as transmitted by Hammad. Ibn ‘Uyainah has also transmitted it from Yahya, and began with his words: The Jew will exonerate themselves by fifty oaths which they will swear. He did not mention the claim.

Abu Dawud said: This is a misunderstanding on the part of Ibn ‘Uyainah.


28

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ هُوَ، وَرِجَالٌ، مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ ‏.‏ قَالُوا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ ‏.‏ فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ ذَلِكَ ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ – وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ – وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كَبِّرْ كَبِّرْ ‏”‏ ‏.‏ يُرِيدُ السِّنَّ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ ‏”‏ ‏.‏ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِذَلِكَ فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ‏”‏ أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لَيْسُوا مُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ ‏.‏ قَالَ سَهْلٌ لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ ‏.‏

سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں سے روایت ہے کہعبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما کسی پریشانی کی وجہ سے جس سے وہ دو چار ہوئے خیبر کی طرف نکلے پھر کسی نے آ کر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ بن سہل مار ڈالے گئے اور انہیں کسی کنویں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ، وہ ( محیصہ ) یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے : قسم اللہ کی ! تم نے ہی انہیں قتل کیا ہے ، وہ بولے : اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے ، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا ، پھر وہ ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل تینوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) آئے ، محیصہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کیونکہ وہی خیبر میں ساتھ تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بڑوں کو بڑائی دو “ آپ کی مراد عمر میں بڑائی سے تھی چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی ، پھر محیصہ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یا تو یہ لوگ تمہارے آدمی کی دیت دیں ، یا لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں “ پھر آپ نے اس سلسلے میں انہیں خط لکھا تو انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ اللہ کی قسم ! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے ، تو آپ نے حویصہ ، محیصہ اور عبدالرحمٰن سے پوچھا : ” کیا تم قسم کھاؤ گے کہ اپنے بھائی کے خون کا مستحق بن سکو ؟ “ انہوں نے کہا : نہیں ، اس پر آپ نے فرمایا : ” تو پھر یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے “ اس پر وہ کہنے لگے : وہ تو مسلمان نہیں ہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کر دی ، اور سو اونٹ بھیج دیے گئے یہاں تک کہ وہ ان کے مکان میں داخل کر دیے گئے ، سہل کہتے ہیں : انہیں میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری ہے ۔

Sahl b. Abi Hathmah and some senior men of the tribe told that ‘Abd Allah b. Abi Sahl and Muhayyasah came to Khaibar on account of the calamity (i.e. famine) that befall them. Muhayyasah came and told the ‘Abd Allah b. Sahl had been killed and thrown in a well or stream. He hen came to the Jews and said:I swear by Allah, you have killed him. They said: We swear by Allah, we have not killed him. He then proceeded and came to his tribe and mentioned this to them. Then he, his brother Huwayyasah, who was older to him, and ‘Abd al-Rahman b. Sahl came forward (to the Prophet). Muhayyasah began to speak. It was he who was at Khaibar. The Messenger of Allah (ﷺ) then said to him: Let the eldest (speak), let the eldest (speak), meaning age. So Huwayyasah spoke, and after him Muhayyasah spoke. The Messenger of Allah (ﷺ) then said: They should either pay the bloodwit for you friend or they should be prepared for war. So the Messenger of Allah (ﷺ) wrote to them about it. They wrote (in reply): We swear by Allah, we have not killed him. The Messenger of Allah (ﷺ) then said to Huwayyasah, Muhayyasah and ‘Abd al-Rahman: Will you take an oath and thus have the claim to the blood of your friend ? They said: No. He (the Prophet) said: The Jews will then take an oath. They said: They are not Muslims. Then the Messenger of Allah (ﷺ) himself paid the bloodwit. The Messenger of Allah (ﷺ) then sent on one hundred she-camels and they were entered in their house. Sahl said: A red she-camel of them gave me a kick.


29

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا ح، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَتَلَ بِالْقَسَامَةِ رَجُلاً مِنْ بَنِي نَصْرِ بْنِ مَالِكٍ بِبَحْرَةِ الرُّغَاءِ عَلَى شَطِّ لِيَّةِ الْبَحْرَةِ قَالَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ مِنْهُمْ ‏.‏ وَهَذَا لَفْظُ مَحْمُودٍ بِبَحْرَةٍ أَقَامَهُ مَحْمُودٌ وَحْدَهُ عَلَى شَطِّ لِيَّةِ الْبَحْرَةِ ‏.‏

عمرو بن شعیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہآپ نے قسامہ سے بنی نصر بن مالک کے ایک آدمی کو بحرۃالرغاء ۱؎ میں لیۃالبحرہ ۲؎ کے کنارے پر قتل کیا ، راوی کہتے ہیں : قاتل اور مقتول دونوں بنی نصر کے تھے ، «ببحرة الرغاء على شطر لية البحر» کے یہ الفاظ محمود کے ہیں اور محمود اس حدیث کے سلسلہ میں سب سے زیادہ درست آدمی ہیں ۔

Narrated ‘Amr b. Shu’aib:

The Messenger of Allah (ﷺ) killed a man of Banu Nadr ibn Malik at Harrah ar-Righa’ at the bank of Layyat al-Bahrah. The transmitter Mahmud (ibn Khalid) also mentioned the words along with the words “at Bahrah” “the slayer and the slain were from among them”. Mahmud alone transmitted in this tradition the words “at the bank of Layyah”.


3

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَى ثَلاَثٍ إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ وَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص کو ( اپنے کسی رشتہ دار کے ) قتل ہونے ، یا زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی ہو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہو گا : یا تو قصاص لے لے ، یا معاف کر دے ، یا دیت لے لے ، اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو ، اور جس نے ان ( اختیارات ) میں زیادتی کی تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے “ ۔

Narrated AbuShurayh al-Khuza’i:

The Prophet (ﷺ) said: If a relative of anyone is killed, or if he suffers khabl, which means a wound, he may choose one of the three things: he may retaliate, or forgive, or receive compensation. But if he wishes a fourth (i.e. something more), hold his hands. After this whoever exceeds the limits shall be in grave penalty.


30

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلاً فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا فَقَالُوا مَا قَتَلْنَاهُ وَلاَ عَلِمْنَا قَاتِلاً ‏.‏ فَانْطَلَقْنَا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَقَالَ لَهُمْ ‏”‏ تَأْتُونِي بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ هَذَا ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا مَا لَنَا بَيِّنَةٌ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ ‏.‏ فَكَرِهَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُبْطِلَ دَمَهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ ‏.‏

بشیر بن یسار سے روایت ہے کہسہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے چند آدمی خیبر گئے ، وہاں پہنچ کر وہ جدا ہو گئے ، پھر اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا تو جن کے پاس اسے پایا ان سے ان لوگوں نے کہا : تم لوگوں نے ہی ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے ، وہ کہنے لگے : ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کا پتا ہے چنانچہ ہم لوگ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ، تو آپ نے ان سے فرمایا : ” تم اس پر گواہ لے کر آؤ کہ کس نے اسے مارا ہے ؟ “ انہوں نے کہا : ہمارے پاس گواہ نہیں ہے ، اس پر آپ نے فرمایا : ” پھر وہ یعنی یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے “ وہ کہنے لگے : ہم یہودیوں کی قسموں پر راضی نہیں ہوں گے ، پھر آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اس کا خون ضائع ہو جائے چنانچہ آپ نے اس کی دیت زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ خود دے دی ۔

Narrated Bashir b. Yasar:That a man of the Ansar called Sahl b. Abi Hathmah told him that some people of his tribe went to Khaibar and separated there. They found one of them slain. They said to those with whom they had found him: You have killed our friend. They replied: We did not kill him, nor do we know the slayer. We (the people of the slain) then went to the Prophet of Allah (ﷺ). He said to them: Bring proof against the one who has slain him. They replied: We have no proof. He said: Then they will take an oath for you. They said: We do not accept the oaths of the Jews. The Messenger of Allah (ﷺ) did not like no responsibility should be fixed for his blood. So he himself paid his bloodwit consisting of one hundred camels of sadaqah (i.e. camels sent to the Prophet as zakat).


31

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَاشِدٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنَا عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ أَصْبَحَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مَقْتُولاً بِخَيْبَرَ فَانْطَلَقَ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ‏”‏ لَكُمْ شَاهِدَانِ يَشْهَدَانِ عَلَى قَتْلِ صَاحِبِكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ ثَمَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّمَا هُمْ يَهُودُ وَقَدْ يَجْتَرِئُونَ عَلَى أَعْظَمَ مِنْ هَذَا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَاخْتَارُوا مِنْهُمْ خَمْسِينَ فَاسْتَحْلِفُوهُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَأَبَوْا فَوَدَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ عِنْدِهِ ‏.‏

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہانصار کا ایک آدمی خیبر میں قتل کر دیا گیا ، تو اس کے وارثین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا ، آپ نے پوچھا : ” کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے ساتھی کے مقتول ہو جانے کی گواہی دیں ؟ “ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہاں پر تو مسلمانوں میں سے کوئی نہیں تھا ، وہ تو سب کے سب یہودی ہیں اور وہ اس سے بڑے جرم کی بھی جرات کر لیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو ان میں پچاس افراد منتخب کر کے ان سے قسم لے لو “ لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے ، تو آپ نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی ۔

Narrated Rafi’ ibn Khadij:

A man of the Ansar was killed at Khaybar and his relatives went to the Prophet (ﷺ) and mentioned that to him. He asked: Have you two witnesses who can testify to the murderer of your friend? They replied: Messenger of Allah! there was not a single Muslim present, but only Jews who sometimes have the audacity to do even greater crimes than this. He said: Then choose fifty of them and demand that they take an oath; but they refused and the Prophet (ﷺ) paid the blood-wit himself.


32

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، قَالَ إِنَّ سَهْلاً وَاللَّهِ أَوْهَمَ الْحَدِيثَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَتَبَ إِلَى يَهُودَ ‏ “‏ أَنَّهُ قَدْ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ قَتِيلٌ فَدُوهُ ‏”‏ ‏.‏ فَكَتَبُوا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ خَمْسِينَ يَمِينًا مَا قَتَلْنَاهُ وَلاَ عَلِمْنَا قَاتِلاً ‏.‏ قَالَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ عِنْدِهِ مِائَةَ نَاقَةٍ ‏.‏

عبدالرحمٰن بن بجید کہتے ہیں کہاللہ کی قسم ، سہل کو اس حدیث میں وہم ہو گیا ہے ، واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو لکھا کہ تمہارے بیچ ایک مقتول ملا ہے تو تم اس کی دیت ادا کرو ، تو انہوں نے جواب میں لکھا : ہم اللہ کی پچاس قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا ، اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا پتا ہے ، وہ کہتے ہیں : اس پر اس کی دیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے سو اونٹ ( خود ) ادا کی ۔

Narrated ‘Abd al-Rahman b. Bujaid:I swear by Allah, Sahl had a misunderstanding about this tradition. The Messenger of Allah (ﷺ) wrote to the Jews: A slain man has been found amongnst you, so pay his bloodwit. They wrote (to him): Swearing by Allah fifty oaths, we neither killed him nor do we know his slayer. He said: Then the Messenger of Allah (ﷺ) himself paid his bloodwit which consisted of one hundred she-camels.


33

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ، مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِلْيَهُودِ وَبَدَأَ بِهِمْ ‏”‏ يَحْلِفُ مِنْكُمْ خَمْسُونَ رَجُلاً ‏”‏ ‏.‏ فَأَبَوْا فَقَالَ لِلأَنْصَارِ ‏”‏ اسْتَحِقُّوا ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا نَحْلِفُ عَلَى الْغَيْبِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَجَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دِيَةً عَلَى يَهُودَ لأَنَّهُ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ ‏.‏

انصار کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہود سے کہا : ” تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں “ تو انہوں نے انکار کیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے کہا : ” تم اپنا حق ثابت کرو “ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم ایسی بات پر قسم کھائیں جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے ؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت یہود سے دلوائی اس لیے کہ وہ انہیں کے درمیان پایا گیا تھا ۔

Narrated ‘Abu Salamah b. ‘Abd al-Rahman and Sulaiman b. Yasar:

On the authority of some men of the Ansar : The Prophet (ﷺ) said to the Jews and started with them: Fifty of you should take the oaths. But they refused (to take the oaths). He then said to the Ansar: Prove your claim. They said: Do we take the oaths without seeing, Messenger of Allah? The Messenger of Allah (ﷺ) then imposed the blood-wit on the Jews because he (the slain) was found among them.


34

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ جَارِيَةً، وُجِدَتْ، قَدْ رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ فَقِيلَ لَهَا مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا أَفُلاَنٌ أَفُلاَنٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک لونڈی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا ، اس سے پوچھا گیا : کس نے تیرے ساتھ یہ کیا ہے ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں ، اس پر اس یہودی کو پکڑا گیا ، تو اس نے اعتراف کیا ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا جائے ۔

Narrated Anas:A girl was found with her head crushed between two stones. She was asked: Who has done this to you ? Is it so and so ? Is it so and so, until a Jew was named, and she gave a sign with her head. The Jew was caught ad he admitted. So the Prophet (ﷺ) gave command that his head should be crushed with stones.


35

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ يَهُودِيًّا، قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي قَلِيبٍ وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ فَأُخِذَ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَيُّوبَ نَحْوَهُ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کر دیا ، پھر اسے ایک کنوئیں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا ، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے تو اسے رجم کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے ایوب سے اسی طرح روایت کیا ہے ۔

Narrated Anas:

A Jew killed a girl of the Ansar for her ornaments. He then threw her in a well, and crushed her head with stones. He was then arrested and brought to the Prophet (ﷺ). He ordered regarding him that he should be stoned to death. He was then stoned till he died.

Abu Dawud said: It has been transmitted by Ibn Juraij from Ayyub in a similar way.


36

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَسٍ أَنَّ جَارِيَةً، كَانَ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ لَهَا فَرَضَخَ رَأْسَهَا يَهُودِيٌّ بِحَجَرٍ فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ لَهَا ‏”‏ مَنْ قَتَلَكِ فُلاَنٌ قَتَلَكِ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَتْ لاَ ‏.‏ بِرَأْسِهَا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ مَنْ قَتَلَكِ فُلاَنٌ قَتَلَكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ لاَ ‏.‏ بِرَأْسِهَا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فُلاَنٌ قَتَلَكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ نَعَمْ ‏.‏ بِرَأْسِهَا فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُتِلَ بَيْنَ حَجَرَيْنِ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے ، ابھی اس میں جان باقی تھی ، آپ نے اس سے پوچھا : ” تجھے کس نے قتل کیا ہے ؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے ؟ “ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : ” تجھے کس نے قتل کیا ؟ فلاں نے قتل کیا ہے ؟ “ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : ” کیا فلاں نے کیا ہے ؟ “ اس نے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ، تو اسے دو پتھروں کے درمیان ( کچل کر ) مار ڈالا گیا ۔

Narrated Anas:A girl was wearing silver ornaments. A Jew crushed her head with a stone. The Messenger of Allah (ﷺ) entered upon her when she had some breath. He said to her: Who has killed you ? Had so and so killed you ? She replied: No, making a sign with her head. He again asked: Who has killed you ? Has so and so killed you ? She replied: No, making a sign with her head. He again asked: Has so and so killed you ? She said: Yes, making sign with her head. The Messenger of Allah (ﷺ) commanded regarding him, and he was killed between two stones.


37

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَالأَشْتَرُ، إِلَى عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقُلْنَا هَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً قَالَ لاَ إِلاَّ مَا فِي كِتَابِي هَذَا – قَالَ مُسَدَّدٌ قَالَ – فَأَخْرَجَ كِتَابًا – وَقَالَ أَحْمَدُ كِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَيْفِهِ – فَإِذَا فِيهِ ‏ “‏ الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ أَلاَ لاَ يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلاَ ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مُسَدَّدٌ عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ فَأَخْرَجَ كِتَابًا ‏.‏

قیس بن عباد سے کہتے ہیں کہمیں اور اشتر دونوں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ہم نے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو عام لوگوں کو نہ بتائی ہو ؟ وہ بولے : نہیں ، سوائے اس چیز کے جو میری اس کتاب میں ہے ۔ مسدد کہتے ہیں : پھر انہوں نے ایک کتاب نکالی ، احمد کے الفاظ یوں ہیں اپنی تلوار کے غلاف سے ایک کتاب ( نکالی ) اس میں یہ لکھا تھا : سب مسلمانوں کا خون برابر ہے اور وہ غیروں کے مقابل ( باہمی نصرت و معاونت میں ) گویا ایک ہاتھ ہیں ، اور ان میں کا ایک ادنی بھی ان کے امان کا پاس و لحاظ رکھے گا ۱؎ ، آگاہ رہو ! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا ، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمے داری اسی کے اوپر ہو گی ، اور جو نئی بات نکالے گا ، یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص ( بدعتی ) کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ مسدد کہتے ہیں : ابن ابی عروبہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک کتاب نکالی ۔

Narrated Qays ibn Abbad :

I and Ashtar went to Ali and said to him: Did the Messenger of Allah (ﷺ) give you any instruction about anything for which he did not give any instruction to the people in general?

He said: No, except what is contained in this document of mine. Musaddad said: He then took out a document. Ahmad said: A document from the sheath of his sword.

It contained: The lives of all Muslims are equal; they are one hand against others; the lowliest of them can guarantee their protection. Beware, a Muslim must not be killed for an infidel, nor must one who has been given a covenant be killed while his covenant holds. If anyone introduces an innovation, he will be responsible for it. If anyone introduces an innovation or gives shelter to a man who introduces an innovation (in religion), he is cursed by Allah, by His angels, and by all the people.

Musaddad said: Ibn AbuUrubah’s version has: He took out a document.


38

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَلِيٍّ زَادَ فِيهِ ‏ “‏ وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَيَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : … پھر راوی نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح ذکر کیا البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں ، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported the Messenger of Allah (ﷺ) said, mentioning the tradition similar to the one transmitted by Ali. This version adds: The most distant of them gives protection as from all, those who are strong among them send back (spoil) to those who are weak among them, and their expeditions sending it back to those who are at home.


39

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، – الْمَعْنَى وَاحِدٌ – قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ سَعْدٌ بَلَى وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ ‏”‏ إِلَى مَا يَقُولُ سَعْدٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ سعد نے کہا : کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت دی ( میں تو اسے قتل کر دوں گا ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! جو تمہارے سردار کہہ رہے ہیں “ ( عبدالوہاب کے الفاظ ہیں ، ( سنو ) جو سعد کہہ رہے ہیں ) ۔

Narrated Abu Hurairah:That Sa’d b. ‘Ubadah said: Messenger of Allah! If a man finds a man with his wife, should he kill him ? The Messenger of Allah (ﷺ) said: No. Sa’d : Why not, by Him who has honoured you with truth ? The Prophet (ﷺ) said: Listen to what your chief is saying. The narrator ‘Abd al-Wahhab said: (Listen) to what Sa’d is saying.


4

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رُفِعَ إِلَيْهِ شَىْءٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلاَّ أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ ( پہلے ) آپ اس میں معاف کر دینے کا حکم دیتے ۔

Narrated Anas ibn Malik:

I never saw the Messenger of Allah (ﷺ) that some dispute which involved retaliation was brought to him but he commanded regarding it for remission.


40

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرَأَيْتَ لَوْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلاً أُمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ۔

Narrated Abu Hurairah:That Sa’d b. ‘Ubadah said to the Messenger of Allah (ﷺ) : What do you think if I find with my wife a man ; should I give him some time until I bring four witnesses ?” He said: “Yes”.


41

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلاَجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ‏”‏ ‏.‏ فَلَمْ يَرْضَوْا فَقَالَ ‏”‏ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ‏”‏ ‏.‏ فَلَمْ يَرْضَوْا فَقَالَ ‏”‏ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ‏”‏ ‏.‏ فَرَضُوا ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنِّي خَاطِبٌ الْعَشِيَّةَ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا نَعَمْ ‏.‏ فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ إِنَّ هَؤُلاَءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا أَرَضِيتُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ ‏.‏ فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَكُفُّوا عَنْهُمْ فَكَفُّوا ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ فَقَالَ ‏”‏ أَرَضِيتُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا نَعَمْ ‏.‏ فَخَطَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ أَرَضِيتُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا نَعَمْ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا ، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا ، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! قصاص دلوائیے ، اس پر آپ نے ان سے فرمایا : ” تم اتنا اور اتنا لے لو “ لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے ، تو آپ نے فرمایا : ” اچھا اتنا اور اتنا لے لو “ وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا : ” اچھا اتنا اور اتنا لے لو “ اس پر وہ رضامند ہو گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آج شام کو میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی خبر دوں گا “ لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ، اور فرمایا : ” قبیلہ لیث کے یہ لوگ قصاص کے ارادے سے میرے پاس آئے ہیں تو میں نے ان کو اتنا اور اتنا مال پیش کیا اس پر یہ راضی ہو گئے ہیں ( پھر آپ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا : ) بتاؤ کیا تم لوگ راضی ہو ؟ “ انہوں نے کہا : نہیں ، تو مہاجرین ان پر جھپٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان سے باز رہنے کا حکم دیا ، چنانچہ وہ رک گئے ، پھر آپ نے انہیں بلایا ، اور کچھ اضافہ کیا پھر پوچھا : ” کیا اب تم راضی ہو ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں ، آپ نے فرمایا : ” میں لوگوں کو خطاب کروں گا ، اور انہیں تمہاری رضا مندی کے بارے میں بتاؤں گا “ لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے ، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا ، اور پوچھا : ” کیا تم راضی ہو ؟ “ وہ بولے : ہاں ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

The Prophet (ﷺ) sent AbuJahm ibn Hudhayfah as a collector of zakat. A man quarrelled with him about his sadaqah (i.e. zakat), and AbuJahm struck him and wounded his head. His people came to the Prophet (ﷺ) and said: Revenge, Messenger of Allah!

The Prophet (ﷺ) said: You may have so much and so much. But they did not agree. He again said: You may have so much and so much. But they did not agree. He again said: You may have so much and so much. So they agreed.

The Prophet (ﷺ) said: I am going to address the people in the afternoon and tell them about your consent.

They said: Yes. Addressing (the people), the Messenger of Allah (ﷺ) said: These people of faith came to me asking for revenge. I presented them with so much and so much and they agreed. Do you agree?

They said: No. The immigrants (muhajirun) intended (to take revenge) on them. But the Messenger of Allah (ﷺ) commanded them to refrain and they refrained.

He then called them and increased (the amount), and asked: Do you agree? They replied: Yes. He said: I am going to address the people and tell them about your consent. They said: Yes. The Prophet (ﷺ) addressed and said: Do you agree? They said: Yes.


42

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ جَارِيَةً، وُجِدَتْ، قَدْ رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ فَقِيلَ لَهَا مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا أَفُلاَنٌ أَفُلاَنٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک لڑکی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا ، اس سے پوچھا گیا : تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا ، تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں ، چنانچہ اس یہودی کو پکڑا گیا ، اس نے اقبال جرم کر لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھر سے کچل دیا جائے ۔

Narrated Anas:A girl was found with her head crushed between two stoned. She was asked: Who did it with you ? Was it so and so ? Was it so and so ? Until the Jew was named. Thereupon she gave a sign with her head. The Jew was arrested and he admitted. So the Prophet (ﷺ) gave command that his head should be crushed with stones.


43

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو، – يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ – عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْسِمُ قَسْمًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ فَجُرِحَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ تَعَالَ فَاسْتَقِدْ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور آپ کے اوپر جھک گیا تو اس کے چہرے پر خراش آ گئی تو آپ نے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی اسے چبھو دی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : ” آؤ قصاص لے لو ۱؎ “ وہ بولا : اللہ کے رسول ! میں نے معاف کر دیا ۔

Narrated AbuSa’id al-Khudri:

When the Messenger of Allah (ﷺ) was distributing something, a man came towards him and bent down on him. The Messenger of Allah (ﷺ) struck him with a bough and his face was wounded. The Messenger of Allah (ﷺ) said to him: Come and take retaliation. He said: no, I have forgiven, Messenger of Allah!.


44

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ، قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضى الله عنه فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ عُمَّالِي لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ وَلاَ لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَىَّ أَقُصُّهُ مِنْهُ قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لَوْ أَنَّ رَجُلاً أَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ أَتَقُصُّهُ مِنْهُ قَالَ إِي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَقُصُّهُ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَقَصَّ مِنْ نَفْسِهِ ‏.‏

ابوفراس کہتے ہیں کہعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہم سے خطاب کیا اور کہا : ” میں نے اپنے گورنر اس لیے نہیں بھیجے کہ وہ تمہاری کھالوں پہ ماریں ، اور نہ اس لیے کہ وہ تمہارے مال لیں ، لہٰذا اگر کسی کے ساتھ ایسا سلوک ہو تو وہ اسے مجھ تک پہنچائے ، میں اس سے اسے قصاص دلواؤں گا “ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر کوئی شخص اپنی رعیت کو تادیباً سزا دے تو اس پر بھی آپ اس سے قصاص لیں گے ، وہ بولے : ” ہاں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اس سے قصاص لوں گا “ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ذات سے قصاص دلایا ۔

Narrated Abu Firas:

‘Umar b. al-Khattab (ra) addressed us and said: I did not send my collectors (of zakat) so that they strike your bodies and that they take your property. If that is done with someone and he appeals to me, I shall take retaliation on him. Amr ibn al-‘As said: If any man (i.e. governor) inflicts disciplinary punishment on his subjects, would you take retaliation on him too? He said: Yes, by Him in Whose hand my soul is, I shall take retaliation on him. I saw that the Messenger of Allah (ﷺ) has given retaliation on himself.


45

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ حِصْنًا، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ، يُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏”‏ عَلَى الْمُقْتَتِلِينَ أَنْ يَنْحَجِزُوا الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ وَإِنْ كَانَتِ امْرَأَةً ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ بَلَغَنِي أَنَّ عَفْوَ النِّسَاءِ فِي الْقَتْلِ جَائِزٌ إِذَا كَانَتْ إِحْدَى الأَوْلِيَاءِ وَبَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ فِي قَوْلِهِ ‏”‏ يَنْحَجِزُوا ‏”‏ ‏.‏ يَكُفُّوا عَنِ الْقَوَدِ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لڑنے والوں پر لازم ہے کہ وہ قصاص لینے سے باز رہیں ، پہلے جو سب سے قریبی ہے وہ معاف کرے ، پھر اس کے بعد والے خواہ وہ عورت ہی ہو “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ عورتوں کا قتل کے سلسلے میں قصاص معاف کر دینا جائز ہے جب وہ مقتول کے اولیاء میں سے ہوں ، اور مجھے ابو عبید کے واسطے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کے قول «ينحجزوا» کے معنی قصاص سے باز رہنے کے ہیں ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

The Prophet (ﷺ) Said: The disputants should refrain from taking retaliation. The one who is nearer should forgive first and then the one who is next to him, even if (the one who forgives) were a woman.

Abu Dawud said: I have been informed that forgiving by women in the case of murder is permissible if a woman were one of the heirs (of the slain). I have been told on the authority of Abu ‘Ubaid about the meaning of the word yanhajizu, that is, they should refrain from retaliation.


46

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، – وَهَذَا حَدِيثُهُ – عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ مَنْ قُتِلَ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّا فِي رَمْىٍ يَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحِجَارَةٍ أَوْ ضَرْبٍ بِالسِّيَاطِ أَوْ ضَرْبٍ بِعَصًا فَهُوَ خَطَأٌ وَعَقْلُهُ عَقْلُ الْخَطَإِ وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ ‏”‏ قَوَدُ يَدٍ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقَا ‏”‏ وَمَنْ حَالَ دُونَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَغَضَبُهُ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ ‏”‏ ‏.‏ وَحَدِيثُ سُفْيَانَ أَتَمُّ ‏.‏

طاؤس کہتے ہیں کہجو مارا جائے ، اور ابن عبید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کوئی کسی لڑائی یا دنگے میں جو لوگوں میں چھڑ گئی ہو غیر معروف پتھر ، کوڑے ، یا لاٹھی سے مارا جائے ۱؎ تو وہ قتل خطا ہے ، اور اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی ، اور جو قصداً مارا جائے تو اس میں قصاص ہے “ ( البتہ ابن عبید کی روایت میں ہے کہ ) اس میں ہاتھ کا قصاص ہے ، ۲؎ ( پھر دونوں کی روایت ایک ہے کہ ) جو کوئی اس کے بیچ بچاؤ میں پڑے ۳؎ تو اس پر اللہ کی لعنت ، اور اس کا غضب ہو ، اس کی نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ فدیہ ، یا اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل اور سفیان کی حدیث زیادہ کامل ہے ۔

Tawus, in his version said:If anyone is killed. Ibn ‘Ubaid in his version said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: If anyone is killed in error (blindly) when people are throwing stones, or by beating with whips, or striking with a stick, it is accidental and the compensation for accidental death is due. But if anyone is killed deliberately, retaliation is due. Ibn ‘Ubaid in his version: Retaliation of the man is due. The agreed version then goes: If anyone comes in (between the two parties) to prevent it, Allah’s curse and anger will rest on him, and neither supererogatory nor obligatory acts will be accepted from him. The version of the tradition of Sufyan is more perfect.


47

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي غَالِبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آگے راوی نے سفیان کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی ۔

Narrated Ibn ‘Abbas:The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: He then mentioned the rest of the tradition to the same effect as mentioned by Sufyan.


48

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى أَنَّ مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ ثَلاَثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَثَلاَثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ وَثَلاَثُونَ حِقَّةً وَعَشْرَةٌ بَنِي لَبُونٍ ذَكَرٍ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا : ” جو غلطی سے مارا گیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے تیس بنت مخاض ۱؎ تیس بنت لبون ۲؎ تیس حقے ۳؎ اور دس نر اونٹ جو دو برس کے ہو چکے ہوں “ ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported the Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that if anyone is killed accidentally, his blood-wit should be one hundred camels: thirty she-camels which had entered their second year, thirty she-camels which had entered their third year, thirty she-camels which had entered their fourth year, and ten male camels which had entered their third year.


49

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَمَانَمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ قَالَ فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ أَلاَ إِنَّ الإِبِلَ قَدْ غَلَتْ ‏.‏ قَالَ فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَىْ عَشَرَ أَلْفًا وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَىْ بَقَرَةٍ وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَىْ شَاةٍ وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَىْ حُلَّةٍ ‏.‏ قَالَ وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنَ الدِّيَةِ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار ، یا آٹھ ہزار درہم تھی ، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی ، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا ، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا ، اور فرمایا : سنو ، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار ، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار ( درہم ) دیت ٹھہرائی ، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں ، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں ، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی ، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی ، ان کی دیت میں ( مسلمانوں کی دیت کی طرح ) اضافہ نہیں کیا ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported that the value of the blood-money at the time of the Messenger of Allah (ﷺ) was eight hundred dinars or eight thousand dirhams, and the blood-money for the people of the Book was half of that for Muslims.

He said: This applied till Umar (Allah be pleased with him) became caliph and he made a speech in which he said: Take note! Camels have become dear. So Umar fixed the value for those who possessed gold at one thousand dinars, for those who possessed silver at twelve thousand (dirhams), for those who possessed cattle at two hundred cows, for those who possessed sheep at two thousand sheep, and for those who possessed suits of clothing at two hundred suits. He left the blood-money for dhimmis (protected people) as it was, not raising it in proportion to the increase he made in the blood-wit.


5

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ ‏.‏ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلْوَلِيِّ ‏ “‏ أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَخَلَّى سَبِيلَهُ ‏.‏ قَالَ وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قتل کر دیا گیا تو یہ مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیا ، آپ نے اس ( قاتل ) کو مقتول کے وارث کے حوالے کر دیا ، قاتل کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث سے فرمایا : ” سنو ! اگر یہ سچا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا ، تو تم جہنم میں جاؤ گے “ یہ سن کر اس نے قاتل کو چھوڑ دیا ، اس کے دونوں ہاتھ ایک تسمے سے بندھے ہوئے تھے ، وہ اپنا تسمہ گھسیٹتا ہوا نکلا ، تو اس کا نام ذوالنسعۃ یعنی تسمہ والا پڑ گیا ۔

Narrated AbuHurayrah:

A man was killed in the lifetime of the Prophet (ﷺ). The matter was brought to the Prophet (ﷺ). He entrusted him to the legal guardian of the slain. The slayer said: Messenger of Allah, I swear by Allah, I did not intend to kill him. The Messenger of Allah (ﷺ) said to the legal guardian: Now if he is true and you kill him, you will enter Hell-fire. So he let him go. His hands were tied with a strap. He came out pulling his strap. Hence he was called Dhu an-Nis’ah (possessor of strap).


50

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى فِي الدِّيَةِ عَلَى أَهْلِ الإِبِلِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَىْ بَقَرَةٍ وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَىْ شَاةٍ وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَىْ حُلَّةٍ وَعَلَى أَهْلِ الْقَمْحِ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ مُحَمَّدٌ ‏.‏

عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے سلسلے میں فیصلہ فرمایا کہ اونٹ والوں پر سو اونٹ ، گائے بیل والوں پر دو سو گائیں ، بکری والوں پر دو ہزار بکریاں ، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑے کپڑے ، اور گیہوں والوں پر بھی کچھ مقرر کیا جو محمد ( محمد بن اسحاق ) کو یاد نہیں رہا ۔

Narrated Ata’ ibn AbuRabah:

The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that blood-wit for those who possessed camels should be one hundred camels, and for those who possessed cattle two hundred cows, and for those who possessed sheep one thousand sheep, and for those who possessed suits of clothing two hundred suits, and for those who possessed wheat something which the narrator Muhammad (ibn Ishaq) did not remember.


51

قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ ذَكَرَ عَطَاءٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ مُوسَى ‏.‏ قَالَ وَعَلَى أَهْلِ الطَّعَامِ شَيْئًا لاَ أَحْفَظُهُ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا پھر راوی نے ایسے ہی ذکر کیا جیسے موسیٰ کی روایت میں ہے البتہ اس میں اس طرح ہے کہ طَعام والوں پر کچھ مقرر کیا جو کہ مجھ کو یاد نہیں رہا ۔

Abu Dawud said:I read out to Sa’id b. Ya’qub al-Taliqini who said: Abu Tumailah transmitted to us, saying: Muhammad b. Ishaq transmitted to us saying: ‘Ata reported Jabir b. ‘Abd Allah as saying: The Messenger of Allah (ﷺ) fixed; and he mentioned the tradition like that of Musa; he said: And those who possess corn food should pay something which I do not remember.


52

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ خِشْفِ بْنِ مَالِكٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرُونَ حِقَّةً وَعِشْرُونَ جَذَعَةً وَعِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ وَعِشْرُونَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُرٌ ‏”‏ ‏.‏ وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قتل خطا کی دیت میں بیس حقے ، بیس جزعے ، بیس بنت مخاض ، بیس بنت لبون اور بیس ابن مخاض ہیں “ اور یہی عبداللہ بن مسعود کا قول ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

The Prophet (ﷺ) said: The blood-wit for accidental killing should be twenty she-camels which had entered their fourth year, twenty she-camels which had entered their fifth year, twenty she-camels which had entered their second year, twenty she-camels which had entered their third year, and twenty male camels which had entered their second year. It does not beyond Ibn Mas’ud.


53

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً، مِنْ بَنِي عَدِيٍّ قُتِلَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم دِيَتَهُ اثْنَىْ عَشَرَ أَلْفًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہبنی عدی کے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار ٹھہرائی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن عیینہ نے عمرو سے ، عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

A man of Banu Adi was killed. The Prophet (ﷺ) fixed his blood-wit at the rate of twelve thousand (dirhams).

Abu Dawud said: Ibn ‘Uyainah transmitted it from ‘Amr, from ‘Ikrimah, from the Prophet (ﷺ), and he did not mention Ibn ‘Abbas.


54

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ بِمَكَّةَ فَكَبَّرَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ ‏”‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ‏”‏ ‏.‏ إِلَى هَا هُنَا حَفِظْتُهُ عَنْ مُسَدَّدٍ ثُمَّ اتَّفَقَا ‏”‏ أَلاَ إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُذْكَرُ وَتُدْعَى مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تَحْتَ قَدَمَىَّ إِلاَّ مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ أَلاَ إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلاَدُهَا ‏”‏ ‏.‏ وَحَدِيثُ مُسَدَّدٍ أَتَمُّ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مسدد کی روایت کے مطابق ) فتح مکہ کے دن مکہ میں خطبہ دیا ، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا ، پھر فرمایا : «لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی مدد کی ، اور تنہا لشکروں کو شکست دی “ ( یہاں تک کہ حدیث مجھ سے صرف مسدد نے بیان کی ہے صرف انہیں کے واسطہ سے میں نے اسے یاد کیا ہے اور اس کے بعد سے اخیر حدیث تک سلیمان اور مسدد دونوں نے مجھ سے بیان کیا ہے آگے یوں ہے ) سنو ! وہ تمام فضیلتیں جو جاہلیت میں بیان کی جاتی تھیں اور خون یا مال کے جتنے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں ( یعنی لغو اور باطل ہیں ) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے ( یہ اب بھی ان کے ہی سپرد رہے گی جن کے سپر د پہلے تھی “ پھر فرمایا : ” سنو ! قتل خطا یعنی قتل شبہ عمد کوڑے یا لاٹھی سے ہونے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں “ ( اور مسدد والی روایت زیادہ کامل ہے ) ۔

Narrated Abdullah ibn Amr:

(Musaddad’s version has): The Messenger of Allah (ﷺ) made a speech on the day of the conquest of Mecca, and said: Allah is Most Great, three times. He then said: There is no god but Allah alone: He fulfilled His promise, helped His servant, and alone defeated the companies.

(The narrator said:) I have remembered from Musaddad up to this.

Then the agreed version has: Take note! All the merits mentioned in pre-Islamic times, and the claim made for blood or property are under my feet, except the supply of water to the pilgrims and the custody of the Ka’bah. He then said: The blood-money for unintentional murder which appears intentional, such as is done with a whip and a stick, is one hundred camels, forty of which are pregnant. Musaddad’s version is more accurate.


55

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ مَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھیاسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Khalid through the same chain of narrators to the same effect.


56

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمَعْنَاهُ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْفَتْحِ أَوْ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى دَرَجَةِ الْبَيْتِ أَوِ الْكَعْبَةِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَذَا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ أَيْضًا عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَوَاهُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مِثْلَ حَدِيثِ خَالِدٍ وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ يَعْقُوبَ السَّدُوسِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَقَوْلُ زَيْدٍ وَأَبِي مُوسَى مِثْلُ حَدِيثِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَحَدِيثِ عُمَرَ رضى الله عنه ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیںاس میں ہے : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے دن یا فتح مکہ کے دن بیت اللہ یا کعبہ کی سیڑھی پر خطبہ دیا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن عیینہ نے بھی اسی طرح علی بن زید سے ، علی بن زید نے قاسم بن ربیعہ سے ، قاسم نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ، اور اسے ایوب سختیانی نے قاسم بن ربیعہ سے ، قاسم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے خالد کی حدیث کے مثل روایت کی ہے ۔ نیز اسے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے ، علی بن زید نے یعقوب سدوسی سے ، سدوسی نے عبداللہ بن عمرو سے ، اور عبداللہ بن عمرو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ، اور زید اور ابوموسیٰ کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مثل ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn ‘Umar from the Prophet (ﷺ) to the same effect. This version has:The Messenger of Allah (ﷺ) addressed on the day of Conquest, or he said: On the conquest of Mecca on the ladder of the House or of the Ka’bah.

Abu Dawud said: In a similar way of Ibn ‘Uyainah also transmitted it from ‘Ali b. Zaid, from al-Qasim b. Rab’iah, from Ibn ‘Umar, from the Prophet (ﷺ) ; and Ayyub al-Sukhtiyani transmitted it from al-Qasim b. Rabi’ah from ‘Abd Allah b. ‘Amr like the tradition of Khalid. Hammad b. Salamah also transmitted it from ‘Ali b. Zaid, from Ya’qub al-Sadusi, on the authority of ‘Abd Allah b. ‘Amr from the Prophet (ﷺ). The statements of Zaid and of Abu Musa are similar to the tradition of the Prophet (ﷺ) and to the tradition of ‘Umar (Allah be pleased with him.)


57

حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَضَى عُمَرُ فِي شِبْهِ الْعَمْدِ ثَلاَثِينَ حِقَّةً وَثَلاَثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ خَلِفَةً مَا بَيْنَ ثَنِيَّةٍ إِلَى بَازِلِ عَامِهَا ‏.‏

مجاہد کہتے ہیںعمر نے قتل شبہ عمد میں تیس حقہ ، تیس جزعہ ، چالیس گابھن اونٹنیوں ( جو چھ برس سے نو برس تک کی ہوں ) کی دیت کا فیصلہ کیا ۔

Narrated Mujahid:’Umar gave judgement that bloodwit for quasi-intentional murder should be thirty she-camels in their fourth year, thirty she-camels in their fifth year, and forty pregnant she-camels in their sixth year up to the ninth


58

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رضى الله عنه أَنَّهُ قَالَ فِي شِبْهِ الْعَمْدِ أَثَلاَثٌ ثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ حِقَّةً وَثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ جَذَعَةً وَأَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ ثَنِيَّةً إِلَى بَازِلِ عَامِهَا كُلُّهَا خَلِفَةٌ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیںشبہ عمد کی دیت میں تین قسم کے اونٹ ہوں گے ، تینتیس حقہ ، تینتیس جذعہ اور چونتیس ایسی اونٹنیاں جو چھ برس سے لے کر نو برس تک کی ہوں اور سب گابھن ہوں ۔

Narrated ‘Abd Allah (b. Mas’ud):The bloodwit for unintentional murder which resembles intentional is twenty-five she camels which entered their fourth year, twenty five she-camels which had entered their fifth year, twenty five she-camels which had entered their third year, and twenty five camels which had entered their second year.


59

وَبِهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالأَسْوَدِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فِي شِبْهِ الْعَمْدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حِقَّةً وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ جَذَعَةً وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیںشبہ عمد کی دیت پچیس حقہ ، پچیس جزعہ ، پچیس بنت لبون ، اور پچیس بنت مخاض ہے ۔

Narrated ‘Ali:The bloodwit for unintentional murder is in four parts: twenty five she-camels in their fourth year, twenty five she-camels in their fifth year, twenty five she-camels in their third year, and twenty twenty five she-camels in their second year.


6

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِذْ جِيءَ بِرَجُلٍ قَاتِلٍ فِي عُنُقِهِ النِّسْعَةُ قَالَ فَدَعَا وَلِيَّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ ‏”‏ أَتَعْفُو ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَتَقْتُلُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ اذْهَبْ بِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ ‏”‏ أَتَعْفُو ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَتَقْتُلُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ اذْهَبْ بِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ قَالَ ‏”‏ أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَعَفَا عَنْهُ ‏.‏ قَالَ فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ النِّسْعَةَ ‏.‏

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا ، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا ، اور اس سے پوچھا : ” کیا تم معاف کرو گے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو کیا دیت لو گے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو کیا تم قتل کرو گے ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا لے جاؤ اسے “ چنانچہ جب وہ ( اسے لے کر ) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : ” کیا تم اسے معاف کرو گے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم دیت لو گے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم قتل کرو گے ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے لے جاؤ “ چوتھی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! اگر تم اسے معاف کر دو گے تو یہ اپنا اور مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر پر اٹھائے گا “ یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا ۔ وائل کہتے ہیں : میں نے اسے دیکھا وہ اپنے گلے میں پڑا تسمہ گھسیٹ رہا تھا ۔

Narrated Wa’il ibn Hujr:

I was with the Prophet (ﷺ) when a man who was a murderer and had a strap round his neck was brought to him.

He then called the legal guardian of the victim and asked him: Do you forgive him?

He said: No. He asked: Will you accept the blood-money? He said: No. He asked: Will you kill him? He said: Yes. He said: Take him. When he turned his back, he said: Do you forgive him? He said: No. He said: Will you accept the blood-money? He said: No. He said: Will you kill him? He said: Yes. He said: Take him. After repeating all this a fourth time, he said: If you forgive him, he will bear the burden of his own sin and the sin of the victim. He then forgave him. He (the narrator) said: I saw him pulling the strap.


60

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، قَالَ قَالَ عَلِيٌّ رضى الله عنه فِي الْخَطَإِ أَرْبَاعًا خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حِقَّةً وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ جَذَعَةً وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیںقتل خطا کی دیت میں چار قسم کے اونٹ ہوں گے : پچیس حقہ ، پچیس جزعہ ، پچیس بنت لبون ، اور پچیس بنت مخاض ۔

Narrated ‘Uthman b. ‘Affan and Zaid b. Thabit:The bloodwit for what resembled intentional murder should be forty pregnant she-camels in their fifth year, thirty she-camels in their fourth year, and thirty she-camels in their third year. The bloodwit for unintentional murder is thirty she-camels in their fourth year, thirty she-camels in their third year, and twenty she-camels in their second year.


61

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فِي الْمُغَلَّظَةِ أَرْبَعُونَ جَذَعَةً خَلِفَةً وَثَلاَثُونَ حِقَّةً وَثَلاَثُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ وَفِي الْخَطَإِ ثَلاَثُونَ حِقَّةً وَثَلاَثُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ وَعِشْرُونَ بَنُو لَبُونٍ ذُكُورٍ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ ‏.‏

عثمان بن عفان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہدیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں چالیس گابھن جزعہ ، تیس حقہ اور تیس بنت لبون ہیں ، اور دیت خطا میں تیس حقہ ، تیس بنت لبون ، بیس ابن لبون ، اور بیس بنت مخاض ہیں ۔

Narrated Zaid b. Thabit:About the bloodwit for quasi-intentional murder….. He then mentioned a similar tradition as mentioned above.


62

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فِي الدِّيَةِ الْمُغَلَّظَةِ فَذَكَرَ مِثْلَهُ سَوَاءً ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِذَا دَخَلَتِ النَّاقَةُ فِي السَّنَةِ الرَّابِعَةِ فَهُوَ حِقٌّ وَالأُنْثَى حِقَّةٌ لأَنَّهُ يَسْتَحِقُّ أَنْ يُحْمَلَ عَلَيْهِ وَيُرْكَبَ فَإِذَا دَخَلَ فِي الْخَامِسَةِ فَهُوَ جَذَعٌ وَجَذَعَةٌ فَإِذَا دَخَلَ فِي السَّادِسَةِ وَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ وَثَنِيَّةٌ فَإِذَا دَخَلَ فِي السَّابِعَةِ فَهُوَ رَبَاعٌ وَرَبَاعِيَةٌ فَإِذَا دَخَلَ فِي الثَّامِنَةِ وَأَلْقَى السِّنَّ الَّذِي بَعْدَ الرَّبَاعِيَةِ فَهُوَ سَدِيسٌ وَسَدَسٌ فَإِذَا دَخَلَ فِي التَّاسِعَةِ وَفَطَرَ نَابُهُ وَطَلَعَ فَهُوَ بَازِلٌ فَإِذَا دَخَلَ فِي الْعَاشِرَةِ فَهُوَ مُخْلِفٌ ثُمَّ لَيْسَ لَهُ اسْمٌ وَلَكِنْ يُقَالُ بَازِلُ عَامٍ وَبَازِلُ عَامَيْنِ وَمُخْلِفُ عَامٍ وَمُخْلِفُ عَامَيْنِ إِلَى مَا زَادَ ‏.‏ وَقَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ بِنْتُ مَخَاضٍ لِسَنَةٍ وَبِنْتُ لَبُونٍ لِسَنَتَيْنِ وَحِقَّةٌ لِثَلاَثٍ وَجَذَعَةٌ لأَرْبَعٍ وَالثَّنِيُّ لِخَمْسٍ وَرَبَاعٌ لِسِتٍّ وَسَدِيسٌ لِسَبْعٍ وَبَازِلٌ لِثَمَانٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَبُو حَاتِمٍ وَالأَصْمَعِيُّ وَالْجَذُوعَةُ وَقْتٌ وَلَيْسَ بِسِنٍّ ‏.‏ قَالَ أَبُو حَاتِمٍ قَالَ بَعْضُهُمْ فَإِذَا أَلْقَى رَبَاعِيَتَهُ فَهُوَ رَبَاعٌ وَإِذَا أَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ إِذَا أُلْقِحَتْ فَهِيَ خَلِفَةٌ فَلاَ تَزَالُ خَلِفَةً إِلَى عَشْرَةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا بَلَغَتْ عَشْرَةَ أَشْهُرٍ فَهِيَ عُشَرَاءُ ‏.‏ قَالَ أَبُو حَاتِمٍ إِذَا أَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ وَإِذَا أَلْقَى رَبَاعِيَتَهُ فَهُوَ رَبَاعٌ ‏.‏

زید بن ثابت سے دیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں مروی ہےپھر راوی نے ہو بہو اسی کے مثل ذکر کیا جیسے اوپر گزرا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں ابو عبید اور دوسرے بہت سے لوگوں نے کہا : اونٹ جب چوتھے سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «حق» اور مادہ کو «حقة» کہتے ہیں ، اس لیے کہ اب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس پر بار لادا جائے ، اور سواری کی جائے اور جب وہ پانچویں سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «جذع» اور مادہ کو «جذعة» کہتے ہیں ، اور جب چھٹے سال میں داخل ہو جائے ، اور سامنے کے دانت نکال دے تو نر کو «ثني» اور مادہ کو «ثنية» کہتے ہیں ، اور جب ساتویں سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «رباع» اور مادہ کو «رباعية» کہتے ہیں ، اور جب آٹھویں سال میں داخل ہو جائے ، اور وہ دانت نکال دے جو «رباعية» کے بعد ہے تو نر کو «سديس» اور مادہ کو «سدس» کہتے ہیں : اور جب نویں سال میں داخل ہو جائے اور اس کی کچلیاں نکل آئیں تو اسے «بازل» کہتے ہیں ، اور جب دسویں سال میں داخل ہو جائے تو وہ «مخلف» ہے ، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں ہوتا ، البتہ یوں کہا جاتا ہے ایک سال کا ب«بازل» ، دو سال کا «بازل» ایک سال کا «مخلف» ، دو سال کا «مخلف» اسی طرح جتنا بڑھتا جائے ۔ نضر بن شمیل کہتے ہیں : ایک سال کی «بنت مخاض» ہے ، دو سال کی «بنت لبون» ، تین سال کی «حقة» ، چار سال کی «جذعة» پانچ سال کا «ثني» چھ سال کا «رباع» ، سات سال کا «سديس» ، آٹھ سال کا «بازل» ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوحاتم اور اصمعی نے کہا : «جذوعة» ایک وقت ہے ناکہ کسی مخصوص سن کا نام ۔ ابوحاتم کہتے ہیں : جب اونٹ اپنے «رباعیہ» ڈال دے تو وہ «رباع» اور جب «ثنیہ» ڈال دے تو «ثني» ہے ۔ ابو عبید کہتے ہیں : جب وہ حاملہ ہو جائے تو اسے «خلفہ» کہتے ہیں اور وہ دس ماہ تک «خلفة» کہلاتا ہے ، جب دس ماہ کا ہو جائے تو اسے «عشراء» کہتے ہیں ۔ ابوحاتم نے کہا : جب وہ «ثنیہ» ڈال دے تو «ثني» ہے اور «رباعیہ» ڈال دے تو «رباع» ہے ۔

Narrated Abu Dawud:

Abu Dawud and others have said: When a she-camel enters fourth year, the female is called hiqqah, and the male is called hiqq, for it deserves that it should be loaded and ridden. When a camel enters its fifth year, the male is called Jadha’ and the female is called Jadha’ah. When it enters its sixth year, and sheds its front teeth, it is called thani (male) and thaniyyah (female). When it enters its seventh year, it is called raba’ and raba’iyyah. When it enters its ninth year and cuts its canine teeth, it is called bazil. When it enters its tenth year, it is called mukhlif. Then there is no name for it, but is called bazil’am and bazil’amain, and mukhlif’am and mukhlif’amain, upto any year it increases. Nad d. Shumail said: Bint makhad is a she-camel of one year, and bin labun is s she-camel of two years, hiqqah is a she-camel of three years, jadha’ah is a she-camel of four years, thani is a camel of five years, raba’ is a camel of six years, sadis is a camel of seven years, and bazil is a camel of eight years.

Abu Dawud said: Abu Hatim and al-Asma’i said: Al-Jadhu’ah is a time when no tooth is growing. Abu Hatim said: Some of them said: When it sheds its teeth between front and canine teeth, it is called raba’ and when it sheds its front teeth, it is called thani. Abu ‘Ubaid said: When it becomes pregnant, it is called khalifah, and it remains khalifah for ten months; when it reaches ten months, it is called ‘ushara’, Abu Hatim said: When it shed its front teeth, it is called thani and when it sheds its teeth between front and canine teeth it is called raba’.


63

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، – يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ – حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الأَصَابِعُ سَوَاءٌ عَشْرٌ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ ‏”‏ ‏.‏

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انگلیاں سب برابر ہیں ، ان کی دیت دس دس اونٹ ہیں “ ۔

Narrated AbuMusa:

The Prophet (ﷺ) said: The fingers are equal: ten camels for each finger.


64

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ الأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ الأَصَابِعُ سَوَاءٌ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ عَشْرٌ عَشْرٌ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ غَالِبٍ قَالَ سَمِعْتُ مَسْرُوقَ بْنَ أَوْسٍ وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي غَالِبٌ التَّمَّارُ بِإِسْنَادِ أَبِي الْوَلِيدِ وَرَوَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ عَنْ غَالِبٍ بِإِسْنَادِ إِسْمَاعِيلَ ‏.‏

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انگلیاں تمام برابر ہیں “ میں نے عرض کیا ، کیا ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ۔

Narrated AbuMusa al-Ash’ari:

The Prophet (ﷺ) said: The fingers are equal. I asked: Ten camels for each? He replied: Yes.

Abu Dawud said: Muhammad b. Ja’far transmitted it from Shu’bah, from Ghalib, saying: I heard Masruq b. Aws ; and Isma’il transmitted it, saying: Ghalib al-Tammar transmitted it to me through the chain of Abu al-Walid ; and Hanzlah b. Abi Safiyyah transmitted it from Ghalib through the chain of Isma’il.


65

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، كُلُّهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَعْنِي الإِبْهَامَ وَالْخِنْصَرَ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ اور یہ برابر ہیں “ یعنی انگوٹھا اور چھنگلی ( کانی انگلی ) ۔

Narrated Ibn ‘Abbas:The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: This and that are equal, that is, the thumb and the little finger.


66

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الأَصَابِعُ سَوَاءٌ وَالأَسْنَانُ سَوَاءٌ الثَّنِيَّةُ وَالضِّرْسُ سَوَاءٌ هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ شُعْبَةَ بِمَعْنَى عَبْدِ الصَّمَدِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَاهُ الدَّارِمِيُّ عَنِ النَّضْرِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انگلیاں سب برابر ہیں ، دانت سب برابر ہیں ، سامنے کے دانت ہوں ، یا ڈاڑھ کے سب برابر ہیں ، یہ بھی برابر اور وہ بھی برابر “ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: The fingers are equal and the teeth are equal. The front tooth and the molar tooth are equal, this and that are equal.

Abu Dawud said: Nadr b. Shumail transmitted it from Shu’bah to the same effect as mentioned by ‘Abd al-Samad. Abu Dawud said: al-Darimi narrated it to me from al-Nadr.


67

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الأَسْنَانُ سَوَاءٌ وَالأَصَابِعُ سَوَاءٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دانت سب برابر ہیں اور انگلیاں سب برابر ہیں “ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: The teeth are equal, and the fingers are equal.


68

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَصَابِعَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءً ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کی انگلیوں کو برابر قرار دیا ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) treated the fingers and toes as equal.


69

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي خُطْبَتِهِ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ ‏ “‏ فِي الأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جبکہ آپ اپنی پیٹھ کعبہ سے ٹیکے ہوئے تھے فرمایا : ” انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں “ ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather said: The Prophet (ﷺ) said in his address while he was leaning against the Ka’bah: (The blood-wit) for each finger is ten camels.


7

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھیعلقمہ بن وائل سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Alqamah b. Wa’il through a different chain of narrators and to the same effect.


70

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ فِي الأَسْنَانِ خَمْسٌ خَمْسٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دانتوں میں پانچ پانچ ( اونٹ ) ہیں “ ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather said: The Prophet (ﷺ) said: For each tooth are ten camels.


71

قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ شَيْبَانَ، – وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ – فَحَدَّثْنَاهُ أَبُو بَكْرٍ، – صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ – قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ – عَنْ سُلَيْمَانَ، – يَعْنِي ابْنَ مُوسَى – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ يُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الإِبِلِ فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا بَيْنَ أَرْبَعِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَىْ بَقَرَةٍ وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَىْ شَاةٍ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً وَإِنْ جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنَ الإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ مِنَ الإِبِلِ وَثُلْثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ وَفِي الأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ وَفِي الأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لاَ يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلاَّ مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا فَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَىْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلاَ يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنَ الْقَتْلِ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار ، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے ، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے ، جب وہ مہنگے ہو جاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے ، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی ، اور اسی کے برابر چاندی سے ( دیت کی قیمت ) آٹھ ہزار درہم پہنچی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے بیل والوں پر ( دیت میں ) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا ، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا ، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہو گی ۔ اور اگر اس کا بانسہ ( دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی ) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہو گی ، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی ، یا سو گائیں ، یا ایک ہزار بکریاں ۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہو گی ، پیر میں بھی آدھی دیت ہو گی ۔ اور مامومہ ۱؎ میں ایک تہائی دیت ہو گی ، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا ، چاندی ، گائے یا بکری اور جائفہ ۲؎ میں بھی یہی دیت ہے ۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا : ” عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہو گی ( یعنی عورت اگر کوئی جنایت کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا ) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں ( جیسے بیٹا ، چچا ، باپ ، بھائی وغیرہ ) اور اگر وہ قتل کر دی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی ( نہ کہ عصبات میں ) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے ( اگر قصاص لینا ہو ) “ ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں ، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا “ ۔

Narrated Abu Dawud:

I found in my notebook from Shaiban and I did not hear from him ; Abu Bakr, a reliable friend of ours, said: Shaiban – Muhammad b. Rashid – Sulaiman b. Musad – ‘Amr b. Suh’aib, On his father’s authority, said that his grandfather said: The Messenger of Allah (ﷺ) would fix the blood-money for accidental killing at the rate of four hundred dinars or their equivalent in silver for townsmen, and he would fix it according to the price of camels. So when they were dear, he increased the amount to be paid, and when cheap prices prevailed he reduced the amount to be paid. In the time of the Messenger of Allah (ﷺ) they reached between four hundred and eight hundred dinars, their equivalent in silver being eight thousand dirhams.

He said: The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that those who possessed cattle should pay two hundred cows, and those who possessed sheep two thousand sheep.

He said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: The blood-money is to be treated as something to be inherited by the heirs of the one who has been killed, and the remainder should be divided among the agnates.

He said: The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that for cutting off a nose completely there was full blood-money, one hundred (camels) were to be paid. If the tip of the nose was cut off, half of the blood-money,i.e. fifty camels were to be paid, or their equivalent in gold or in silver, or a hundred cows, or one thousand sheep. For the hand, when it was cut of,f half of the blood-money was to be paid; for one foot of half, the blood-money was to be paid. For a wound in the head, a third of the blood-money was due, i.e. thirty-three camels and a third of the blood-money, or their equivalent in gold, silver, cows or sheep. For a head thrust which reaches the body, the same blood-money was to be paid. Ten camels were to be paid for every finger, and five camels for every tooth.

The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that the blood-money for a woman should be divided among her relatives on her father’s side, who did not inherit anything from her except the residence of her heirs. If she was killed, her blood-money should be distributed among her heirs, and they would have the right of taking revenge on the murderer.

The Messenger of Allah (ﷺ) said: There is nothing for the murderer; and if he (the victim) has no heir, his heir will be the one who is nearest to him among the people, but the murderer should not inherit anything.

Muhammad said: All this has been transmitted to me by Sulayman ibn Musa on the authority of Amr ibn Shu’aib who, on his father’s authority, said that his grandfather heard it from the Prophet (ﷺ).

Abu Dawud said: Muhammad b. Rashid, an inhabitant of Damascus, fled from Basrah escaping murder.


72

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلاَلٍ الْعَامِلِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ – عَنْ سُلَيْمَانَ، – يَعْنِي ابْنَ مُوسَى – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلاَ يُقْتَلُ صَاحِبُهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَزَادَنَا خَلِيلٌ عَنِ ابْنِ رَاشِدٍ ‏”‏ وَذَلِكَ أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ فَتَكُونَ دِمَاءٌ فِي عِمِّيَّا فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلاَ حَمْلِ سِلاَحٍ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شبہ عمد کی دیت عمد کی دیت کی طرح سخت ہے ، البتہ اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا “ ۔ خلیل کی محمد بن راشد سے روایت میں یہ اضافہ ہے ” یہ ( قتل شبہ عمد ) لوگوں کے درمیان ایک شیطانی فساد ہے کہ بلا کسی کینے اور بغیر ہتھیار اٹھائے خون ہو جاتا ہے اور قاتل کا پتا نہیں چلتا “ ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported the Prophet (ﷺ) said: Blood-wit for what resembles intentional murder is to be made as severe as that for intentional murder, but the culprit is not to be killed. Khalid gave us some additional information on the authority of Ibn Rashid: That (unintentional murder which resembles intentional murder) means that Satan jumps among the people and then the blood is shed blindly without any malice and weapon.


73

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ، – يَعْنِي الْمُعَلِّمَ – عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ فِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «مواضح» ۱؎ میں دیت پانچ اونٹ ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: Blood-wit for every wound which lays bare a bone is five camels.


74

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، – يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ – حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي الْعَلاَءُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْعَيْنِ الْقَائِمَةِ السَّادَّةِ لِمَكَانِهَا بِثُلُثِ الدِّيَةِ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آنکھ میں جو اپنی جگہ باقی رہے لیکن بینائی جاتی رہے ، تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather said: The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that a third of the blood-wit should be paid for an eye fixed in its place.


75

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ، كَانَتَا تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِعَمُودٍ فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ كَيْفَ نَدِي مَنْ لاَ صَاحَ وَلاَ أَكَلَ وَلاَ شَرِبَ وَلاَ اسْتَهَلَّ ‏.‏ فَقَالَ ‏ “‏ أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الأَعْرَابِ ‏”‏ ‏.‏ وَقَضَى فِيهِ بِغُرَّةٍ وَجَعَلَهُ عَلَى عَاقِلَةِ الْمَرْأَةِ ‏.‏

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہقبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کر دیا ، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا ، نہ کھایا ، نہ پیا ، اور نہ ہی چلایا ، ( اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو ؟ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غرہ ( لونڈی یا غلام ) کی دیت کا فیصلہ کیا ، اور اسے عورت کے عاقلہ ( وارثین ) کے ذمہ ٹھہرایا ۔

Narrated Al-Mughirah b. Shu’bah:A man of Hudhail has two wives. One of them struck her fellow-wife with a tent-pole and killed her and her unborn child. They brought the dispute to the Prophet (ﷺ). One of two men said: How can we pay bloodwit for the one who did not make a noise, or ate, nor drank, nor raised his voice ? He (the Prophet) asked: Is it rhymed prose like that of bedouin? He gave judgement that a male or female slave of the best quality should be paid in compensation, and he fixed it to be paid by woman’s relatives on her father’s side.


76

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ ‏.‏ وَزَادَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ وَغُرَّةً لِمَا فِي بَطْنِهَا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الْحَكَمُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ ‏.‏

اس سند سے منصور سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے ، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول عورت کی دیت قاتل عورت کے عصبات پر ٹھہرائی ، اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک غرہ ( غلام یا لونڈی ) ٹھہرایا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسی طرح حکم نے مجاہد سے مجاہد نے مغیرہ سے روایت کیا ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Mansur through a different chain of narrators and to the same effect. This version adds:The Prophet (ﷺ) fixed the bloodwit for the slain woman to be paid by the relatives of the woman who had slain her, on the father’s side.

Abu Dawud said: In a similar way it has been transmitted by al-Hakam from Mujahid from al-Mughirah.


77

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ الأَزْدِيُّ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّ عُمَرَ، اسْتَشَارَ النَّاسَ فِي إِمْلاَصِ الْمَرْأَةِ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى فِيهَا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ ‏.‏ فَقَالَ ائْتِنِي بِمَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ ‏.‏ فَأَتَاهُ بِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ – زَادَ هَارُونُ – فَشَهِدَ لَهُ يَعْنِي ضَرَبَ الرَّجُلُ بَطْنَ امْرَأَتِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ إِنَّمَا سُمِّيَ إِمْلاَصًا لأَنَّ الْمَرْأَةَ تَزْلِقُهُ قَبْلَ وَقْتِ الْوِلاَدَةِ وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا زَلَقَ مِنَ الْيَدِ وَغَيْرِهِ فَقَدْ مَلِصَ ‏.‏

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہعمر رضی اللہ عنہ نے عورت کے املاص کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے ، تو عمر نے کہا : میرے پاس اپنے ساتھ اس شخص کو لاؤ جو اس کی گواہی دے ، تو وہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو لے کر ان کے پاس آئے ۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے تو انہوں نے اس کی گواہی دی یعنی اس بات کی کہ کوئی آدمی عورت کے پیٹ میں مارے جو اسقاط حمل کا سبب بن جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے ابو عبید سے معلوم ہوا اسقاط حمل کو املاص اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازلاق یعنی پھسلانے کے ہیں گویا عورت ولادت سے قبل ہی مار کی وجہ سے حمل کو پھسلا دیتی ہے اسی طرح ہاتھ یا کسی اور چیز سے جو چیز پھسل کر گر جائے تو اس کی تعبیر «مَلِصَ» سے کی جاتی ہے یعنی وہ پھسل گیا ۔

Narrated Al-Miswar b. Makhramah:

‘Umar consulted the people about the compensation of abortion of woman. Al-Mughirah b. Shu’bah said: I was present with the Messenger of Allah (ﷺ) when he gave judgement that a male or female slave should testify you. So he brought Muhammad b. Maslamah to him. Harun added: He then testified him.

Imlas means a man striking the belly of his wife.

Abu Dawud said: I have been informed that Abu ‘Ubaid said: It (abortion) is called imlas because the woman causes it to slip before the time of delivery. Similarly, anything which slips from the hand or from some other thing is called malasa (slipped).


78

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنَ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُمَرَ، بِمَعْنَاهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ ‏.‏

عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہےابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن زید اور حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے ، عروہ نے اپنے باپ زبیر سے روایت کیا ہے کہ عمر نے کہا ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Umar through a different chain of narrators to the same effect.

Abu Dawud said:Hammad b. Zaid and Hammad b. Salamah transmitted it from Hisham b. ‘Arubah on his father’s authority who said that ‘Umar said…


79

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَنْ قَضِيَّةِ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فِي ذَلِكَ فَقَامَ إِلَيْهِ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ فَقَالَ كُنْتُ بَيْنَ امْرَأَتَيْنِ فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِمِسْطَحٍ فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي جَنِينِهَا بِغُرَّةٍ وَأَنْ تُقْتَلَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْمِسْطَحُ هُوَ الصَّوْبَجُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ الْمِسْطَحُ عُودٌ مِنْ أَعْوَادِ الْخِبَاءِ ‏.‏

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو حمل بن مالک بن نابغہ کھڑے ہوئے ، اور بولے : میں دونوں عورتوں کے بیچ میں تھا ، ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مارا تو وہ مر گئی اور اس کا جنین بھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنین کے سلسلے میں ایک غلام یا لونڈی کی دیت کا ، اور قاتلہ کو قتل کر دیئے جانے کا حکم دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضر بن شمیل نے کہا : «مسطح» چوپ یعنی ( روٹی پکانے کی لکڑی ) ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابو عبید نے کہا : «مسطح» خیمہ کی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی ہے ۔

Narrated Ibn ‘Abbas:

‘Umar asked about the decision of the Prophet (ﷺ) about that (i.e. abortion). Haml b. Malik b. al-Nabhigah got up and said: I was between two women. One of them struck another with a rolling-pin killing both her and what was in her womb. So the Messenger of Allah (ﷺ) gave judgement that the bloodwit for the unborn child should be a male or a female slave of the best quality and the she should be killed.

Abu Dawud said: Al-Nadr b. Shumail said: Mistah means a rolling-pin.

Abu Dawud said: Abu ‘Ubaid said: Mistah means a pole from the tent-poles.


8

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِحَبَشِيٍّ فَقَالَ إِنَّ هَذَا قَتَلَ ابْنَ أَخِي ‏.‏ قَالَ ‏”‏ كَيْفَ قَتَلْتَهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ضَرَبْتُ رَأْسَهُ بِالْفَأْسِ وَلَمْ أُرِدْ قَتْلَهُ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ هَلْ لَكَ مَالٌ تُؤَدِّي دِيَتَهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَرْسَلْتُكَ تَسْأَلُ النَّاسَ تَجْمَعُ دِيَتَهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَمَوَالِيكَ يُعْطُونَكَ دِيَتَهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَ لِلرَّجُلِ ‏”‏ خُذْهُ ‏”‏ ‏.‏ فَخَرَجَ بِهِ لِيَقْتُلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَا إِنَّهُ إِنْ قَتَلَهُ كَانَ مِثْلَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَبَلَغَ بِهِ الرَّجُلُ حَيْثُ يَسْمَعُ قَوْلَهُ فَقَالَ هُوَ ذَا فَمُرْ فِيهِ مَا شِئْتَ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَرْسِلْهُ – وَقَالَ مَرَّةً دَعْهُ – يَبُوءُ بِإِثْمِ صَاحِبِهِ وَإِثْمِهِ فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَأَرْسَلَهُ ‏.‏

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص ایک حبشی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور کہنے لگا : اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے ، آپ نے اس سے پوچھا : ” تم نے اسے کیسے قتل کر دیا ؟ “ وہ بولا : میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور وہ مر گیا ، میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا ، آپ نے پوچھا : ” کیا تمہارے پاس مال ہے کہ تم اس کی دیت ادا کر سکو “ اس نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا : ” بتاؤ اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم لوگوں سے مانگ کر اس کی دیت اکٹھی کر سکتے ہو ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا : ” کیا تمہارے مالکان اس کی دیت ادا کر دیں گے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، تب آپ نے اس شخص ( مقتول کے وارث ) سے فرمایا : ” اسے لے جاؤ “ جب وہ اسے قتل کرنے کے لیے لے کر چلا تو آپ نے فرمایا : ” اگر یہ اس کو قتل کر دے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا “ وہ آپ کی بات سن رہا تھا جب اس کے کان میں یہ بات پہنچی تو اس نے کہا : وہ یہ ہے ، آپ جو چاہیں اس کے سلسلے میں حکم فرمائیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے چھوڑ دو ، وہ اپنا اور تمہارے بھتیجے کا گناہ لے کر لوٹے گا اور جہنمیوں میں سے ہو گا “ چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا ۔

Narrated Wa’il (b. Hujr):A man brought an Abyssinian to the Prophet (ﷺ) and said: This man has killed my nephew. He asked: How did you kill him? He replied: I struck his head with axe but I did not intend to kill him. He asked: Have you some money so that you pay his blood-wit? He said: No. He said: What is your opinion if I send you so that you ask the people (for money) and thus collect your blood-wit? He said: No. He asked : Will your masters give you his blood-wit (to pay his relatives)? He said: No. He said to the man. Take him. So he brought him out to kill him. The Messenger of Allah (ﷺ) said: If he kill him, he will be like him. This (statement) reached the man where he was listening to his statement. He said: He is here, order regarding him as you like. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Leave him alone. And he once said: He will bear the burden of the sin of the slain and that of his own and thus he will become one of the Companions of Hell. So he let him go.


80

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ قَامَ عُمَرُ رضى الله عنه عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ لَمْ يَذْكُرْ وَأَنْ تُقْتَلَ ‏.‏ زَادَ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ ‏.‏ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ لَمْ أَسْمَعْ بِهَذَا لَقَضَيْنَا بِغَيْرِ هَذَا ‏.‏

طاؤس کہتے ہیں کہعمر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے ، آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی البتہ اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ قتل کی جائے ، اور انہوں نے «بغرة عبد أو أمة» کا اضافہ کیا ہے ، راوی کہتے ہیں : اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اکبر ! اگر ہم یہ حکم نہ سنے ہوتے تو اس کے خلاف فیصلہ دیتے ۔

Narrated Tawus:

Umar stood on the pulpit. He then mentioned the rest of the tradition to the same effect as mentioned before. He did not mention “that she should be killed”. This version adds: “a male or a female slave”. Umar then said: Allah is Most Great. Had I not heard it, we would have decided about it something else.


81

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّمَّارُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ طَلْحَةَ، حَدَّثَهُمْ قَالَ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قِصَّةِ حَمَلِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ فَأَسْقَطَتْ غُلاَمًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ مَيِّتًا وَمَاتَتِ الْمَرْأَةُ فَقَضَى عَلَى الْعَاقِلَةِ الدِّيَةَ ‏.‏ فَقَالَ عَمُّهَا إِنَّهَا قَدْ أَسْقَطَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ غُلاَمًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو الْقَاتِلَةِ إِنَّهُ كَاذِبٌ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا اسْتَهَلَّ وَلاَ شَرِبَ وَلاَ أَكَلَ فَمِثْلُهُ يُطَلُّ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَسَجْعَ الْجَاهِلِيَّةِ وَكَهَانَتَهَا أَدِّ فِي الصَّبِيِّ غُرَّةً ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَانَ اسْمُ إِحْدَاهُمَا مُلَيْكَةَ وَالأُخْرَى أُمَّ غُطَيْفٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حمل بن مالک کے قصے میں روایت ہے ، وہ کہتے ہیںتو اس نے بچہ کو جسے بال اگے ہوئے تھے ساقط کر دیا ، وہ مرا ہوا تھا اور عورت بھی مر گئی ، تو آپ نے وارثوں پر دیت کا فیصلہ کیا ، اس پر اس کے چچا نے کہا : اللہ کے نبی ! اس نے تو ایک ایسا بچہ ساقط کیا ہے جس کے بال اگ آئے تھے ، تو قاتل عورت کے باپ نے کہا : یہ جھوٹا ہے ، اللہ کی قسم ! نہ تو وہ چیخا ، نہ پیا ، اور نہ کھایا ، اس جیسے کا خون تو معاف ( رائیگاں ) قرار دے دیا جاتا ہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا جاہلیت جیسی مسجع عبارت بولتے ہو جیسے کاہن بولتے ہیں ، بچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی کی دینی ہو گی “ ۔ ابن عباس کہتے ہیں : ان میں سے ایک کا نام ملیکہ اور دوسری کا ام غطیف تھا ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

About the story of Haml ibn Malik, Ibn Abbas said: She aborted a child who had grown hair and was dead, and the woman also died. He (the Prophet) gave judgment that the blood-wit was to be paid by the woman’s relatives on the father’s side. Her uncle said: Messenger of Allah! She has aborted a child who had grown hair. The father of the woman who had slain said: He is a liar: I swear by Allah, he did not raise his voice, or drink or eat. No compensation is to be paid for an offence like this. The Prophet (ﷺ) said: is it a rhymed prose of pre-Islamic Arabia and its soothsaying? Pay a male or female slave of the best quality in compensation for the child.

Ibn ‘Abbas said: The name of one of them was Mulaikah, and the name of the other was Umm Ghutaif.


82

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ، مِنْ هُذَيْلٍ قَتَلَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا زَوْجٌ وَوَلَدٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَاقِلَةِ الْقَاتِلَةِ وَبَرَّأَ زَوْجَهَا وَوَلَدَهَا ‏.‏ قَالَ فَقَالَ عَاقِلَةُ الْمَقْتُولَةِ مِيرَاثُهَا لَنَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ مِيرَاثُهَا لِزَوْجِهَا وَوَلَدِهَا ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہقبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا ، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا ، اور اولاد بھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا ، مقتولہ کے عصبات نے کہا : کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہو گی “ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

One of the two women of Hudhayl killed the other, Each of them had husband and sons. The Messenger of Allah (ﷺ) fixed the blood-wit for the slain woman to be paid by the woman’s relatives on the father’s side. He declared her husband and the child innocent. The relatives of the woman who killed said: We shall inherit from her. The Messenger of Allah (ﷺ) said: No, her sons and her husband should inherit from her.


83

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ فَقَتَلَتْهَا فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ فَقَالَ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَغْرَمُ دِيَةَ مَنْ لاَ شَرِبَ وَلاَ أَكَلَ وَلاَ نَطَقَ وَلاَ اسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ ‏”‏ ‏.‏ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہقبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں جھگڑا ہوا ، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا تو اسے قتل ہی کر ڈالا ، تو لوگ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا : ” جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے ، اور عورت کی دیت کا فیصلہ کیا کہ یہ اس کے عصبہ پر ہو گی “ اور اس دیت کا وارث مقتولہ کی اولاد کو اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو قرار دیا ۔ حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسی جان کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ پیا ، نہ کھایا ، نہ بولا ، اور نہ چیخا ، ایسے کا خون تو لغو قرار دے دیا جاتا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے “ آپ نے یہ بات اس کی اس «سجع» تعبیر کی وجہ سے کہی جو اس نے کی تھی ۔

Narrated Abu Hurairah:Two women of Hudhail fought together and one of them threw a stone at the other and killed her. They brought their dispute to the Messenger of Allah (ﷺ) who gave judgement that a male or female slave of the best quality should be given as compensation for her unborn child, and he fixed it to be paid by the woman’s relatives on the father’s side. He made her sons and those who were with them her heirs. Hamal b. Malik b. al-Nabighah al-Hudhali said: Messenger of Allah ! how should I be fined for one who has not drunk, or eaten or spoken, or raised his voice? – adding that compensation is not to be paid for such (an offense). The Messenger of Allah (ﷺ) said: This man simply belong to the soothsayers on account of his rhymed prose which he has used.


84

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِأَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قصے میں روایت ہے ، وہ کہتے ہیںپھر وہ عورت ، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی یا غلام کا فیصلہ کیا تھا ، مر گئی ، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں کی ہے ، اور دیت قاتلہ کے عصبہ پر ہو گی ۔

Narrated Abu Hurairah:About this story: Then the woman, against whom he decided that a male or female should be paid for her, died. The Messenger of Allah (ﷺ) then gave judgement that her sons will inherit from her, and the bloodwit should be paid by her relatives on the father’s side.


85

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً، حَذَفَتِ امْرَأَةً فَأَسْقَطَتْ فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلَ فِي وَلَدِهَا خَمْسَمِائَةِ شَاةٍ وَنَهَى يَوْمَئِذٍ عَنِ الْحَذْفِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَذَا الْحَدِيثُ خَمْسَمِائَةِ شَاةٍ ‏.‏ وَالصَّوَابُ مِائَةُ شَاةٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَكَذَا قَالَ عَبَّاسٌ وَهُوَ وَهَمٌ ‏.‏

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مارا تو اس کا حمل گر گیا ، یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے اس بچہ کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی ، اور لوگوں کو پتھر مارنے سے اسی دن سے منع فرما دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : روایت اسی طرح ہے ” پانچ سو بکریوں کی “ لیکن صحیح ” سو بکریاں “ ہے ، اسی طرح عباس نے کہا ہے حالانکہ یہ وہم ہے ۔

Narrated Buraydah ibn al-Hasib:

A woman threw a stone at another woman and she aborted. The dispute was brought to the Messenger of Allah (ﷺ). He gave judgment that five hundred sheep should be paid for her (unborn) child, and forbade throwing stones.

Abu Dawud said: The version of this tradition goes in this way, i.e. five hundred sheep. What is correct is one hundred sheep. Abu Dawud said: ‘Abbas transmitted this tradition this way, but it is misunderstanding.


86

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدٍ، – يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو – عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ أَوْ فَرَسٍ أَوْ بَغْلٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو لَمْ يَذْكُرَا أَوْ فَرَسٍ أَوْ بَغْلٍ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچے میں ایک غلام یا ایک لونڈی یا ایک گھوڑے یا ایک خچر کی دیت کا فیصلہ کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ اور خالد بن عبداللہ نے محمد بن عمرو سے روایت کیا ہے البتہ ان دونوں نے «أو فرس أو بغل» کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment that a male or a female slave, or a horse or a mule should be paid for a miscarriage.

Abu Dawud said: Hammad b. Salamah and Khalid b. ‘Abd Allah transmitted this tradition from Muhammad b. ‘Amr, but they did not mention “or a horse or a mule”


87

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْعَوَقِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَجَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ الْغُرَّةُ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ رَبِيعَةُ الْغُرَّةُ خَمْسُونَ دِينَارًا ‏.‏

شعبی کہتے ہیں کہغرہ ( غلام یا لونڈی ) کی قیمت پانچ سو درہم ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ربیعہ نے کہا : غرہ ( غلام یا لونڈی ) پچاس دینار کا ہوتا ہے ۔

Narrated Al-Sha’bi:

The price of a male or a female slave is five hundred dirhams.

Abu Dawud said: Rabi’ah said: The price of a male or a female slave is fifty dinars.


88

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ هِشَامٍ، وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي دِيَةِ الْمُكَاتَبِ يُقْتَلُ يُودَى مَا أَدَّى مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِيَةَ الْحُرِّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ الْمَمْلُوكِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکاتب غلام جسے قتل کر دیا جائے کی دیت میں فیصلہ فرمایا کہ قتل کے وقت جس قدر وہ بدل کتابت ادا کر چکا ہے اتنے حصہ کی دیت آزاد کی دیت کے مثل ہو گی اور جس قدر ادائیگی باقی ہے اتنے حصے کی دیت غلام کی دیت کے مثل ہو گی ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgment about the slave who had made an agreement to purchase his freedom (mukatab) and he had been killed that blood-wit is paid for him at the rate paid for a free man so far as he has paid the purchase money, and at the rate paid for a slave as the remainder is concerned.


89

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا أَوْ وَرِثَ مِيرَاثًا يَرِثُ عَلَى قَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ وُهَيْبٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَرْسَلَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَإِسْمَاعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَجَعَلَهُ إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ قَوْلَ عِكْرِمَةَ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب مکاتب کوئی حد کا کام کرے یا ترکے کا وارث ہو تو جس قدر آزاد ہوا ہے وہ اسی قدر وارث ہو گا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وہیب نے ایوب سے ، ایوب نے عکرمہ سے ، عکرمہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے ایوب سے ، ایوب نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے ۔ اور اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول قرار دیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: When a mukatab (a slave who has made an agreement to purchase his freedom) gifts blood-money or an inheritance, he can inherit in accordance with the extent to which he has been emancipated.

Abu Dawud said: Wuhaib transmitted it from Ayyub, from ‘Ikrimah, on the authority of ‘Ali, from the Prophet (ﷺ): and Hammad b. Zaid and Isma’il have transmitted it in a mursal form (i.e the link of the Companion being missing) from Ayyub, from ‘Ikrimah, from the Prophet (ﷺ). Isma’il b. ‘Ulayyah has treated it as a statement of ‘Ikrimah.


9

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلاَمَ مَنْ عَلَى الْبَلاَطِ فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا ‏.‏ قُلْنَا يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ‏.‏ قَالَ وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلاَمٍ أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ ‏”‏ ‏.‏ فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلاَ إِسْلاَمٍ قَطُّ وَلاَ أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلاً مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ وَلاَ قَتَلْتُ نَفْسًا فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي قَالَ أَبُو دَاوُدَ عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ رضى الله عنهما تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ‏.‏

ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ، آپ گھر میں محصور تھے ، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا ، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا ، کہنے لگے : ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ، تو ہم نے عرض کیا : امیر المؤمنین ! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے ، اس پر انہوں نے کہا : آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں : ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے ، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے ، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے “ تو اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو جاہلیت میں ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا ، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو ، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے ، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے ؟ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان اور ابوبکر رضی اللہ عنہما نے تو جاہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی ۔

Narrated AbuUmamah ibn Sahl:

We were with Uthman when he was besieged in the house. There was an entrance to the house. He who entered it heard the speech of those who were in the Bilat. Uthman then entered it. He came out to us, looking pale.

He said: They are threatening to kill me now. We said: Allah will be sufficient for you against them, Commander of the Faithful! He asked: Why kill me? I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: It is not lawful to kill a man who is a Muslim except for one of the three reasons: Kufr (disbelief) after accepting Islam, fornication after marriage, or wrongfully killing someone, for which he may be killed.

I swear by Allah, I have not committed fornication before or after the coming of Islam, nor did I ever want another religion for me instead of my religion since Allah gave guidance to me, nor have I killed anyone. So for what reason do you want to kill me?

Abu Dawud said: ‘Uthman and Abu Bakr (Allah be pleased with them) abandoned drinking wine in pre-Islamic times.


90

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ دِيَةُ الْمُعَاهِدِ نِصْفُ دِيَةِ الْحُرِّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مِثْلَهُ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ذمی معاہد کی دیت آزاد کی دیت کی آدھی ہے ۱؎ “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسامہ بن زید لیثی اور عبدالرحمٰن بن حارث نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported the Messenger of Allah (ﷺ) said: The blood-wit for a man who makes a covenant is half of the blood-wit for a free man.

Abu Dawud said: It has been transmitted by Usamah b. Zaid al-Laithi and ‘Abd al-Rahman b. al-Harith on the authority of ‘Amr b. Suh’aib in similar manner.


91

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَاتَلَ أَجِيرٌ لِي رَجُلاً فَعَضَّ يَدَهُ فَانْتَزَعَهَا فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَهْدَرَهَا وَقَالَ ‏ “‏ أَتُرِيدُ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَالْفَحْلِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَهْدَرَهَا وَقَالَ بَعُدَتْ سِنُّهُ ‏.‏

یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا ، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا ، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، تو آپ نے اسے لغو کر دیا ، اور فرمایا : ” کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے ، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو “ ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا : ( اللہ کرے ) اس کا دانت نہ رہے ۔

Narrated Safwan b. Ya’la:On this father’s authority, said: A servant of mine fought with a man and bit his hand and he drew away his hand. (One of) his front teeth fell out. So he came to the Prophet (ﷺ) who imposed no retaliation for his tooth, saying: Do you intend that he leaves his hand in your mouth so that you crunch it like a male camel ? He said: Ibn Abi Mulaikah told me on the authority of his grandfather that Abu Bakr (ra) imposed no retaliation on him for it, saying: May his tooth go away!


92

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، بِهَذَا زَادَ ثُمَّ قَالَ يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لِلْعَاضِّ ‏ “‏ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُمَكِّنَهُ مِنْ يَدِكَ فَيَعَضَّهَا ثُمَّ تَنْزِعَهَا مِنْ فِيهِ ‏”‏ ‏.‏ وَأَبْطَلَ دِيَةَ أَسْنَانِهِ ‏.‏

اس سند سے بھی یعلیٰ بن امیہ سے یہی حدیث مروی ہےالبتہ اتنا اضافہ ہے ” پھر آپ نے ( یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ) دانت کاٹنے والے سے فرمایا : ” اگر تم چاہو تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم بھی اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے دو وہ اسے کاٹے پھر تم اسے اس کے منہ سے کھینچ لو “ اور اس کے دانتوں کی دیت باطل قرار دے دی ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ya’la b. Umayyah through a different chain of narrators. This version has:The Prophet (ﷺ) said to the man bit him: If you wish that you give him control over your hand and he bites it, and then you drive it away from his mouth (you may do it). He imposed no retaliation for his teeth.


93

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاكِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ تَطَبَّبَ وَلاَ يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ فَهُوَ ضَامِنٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَصْرٌ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا لَمْ يَرْوِهِ إِلاَّ الْوَلِيدُ لاَ نَدْرِي هُوَ صَحِيحٌ أَمْ لاَ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ ( مریض کا ) ضامن ہو گا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں ۔

Narrated ‘Amr b. Suh’aib:

On his father’s authority, said that his grandfather reported the Messenger of Allah (ﷺ) said: Anyone who practises medicine when he is not known as a practitioner will be held responsible.

Abu Dawud said: This has been transmitted by al-Walid alone. We do not know whether it is sound or not.


94

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي بَعْضُ الْوَفْدِ الَّذِينَ، قَدِمُوا عَلَى أَبِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَيُّمَا طَبِيبٍ تَطَبَّبَ عَلَى قَوْمٍ لاَ يُعْرَفُ لَهُ تَطَبُّبٌ قَبْلَ ذَلِكَ فَأَعْنَتَ فَهُوَ ضَامِنٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ بِالنَّعْتِ إِنَّمَا هُوَ قَطْعُ الْعُرُوقِ وَالْبَطُّ وَالْكَىُّ ‏.‏

عبدالعزیزبن عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیںمیرے والد کے پاس آنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کسی قوم میں طبیب بن بیٹھے ، حالانکہ اس سے پہلے اس کی طب دانی معروف نہ ہو اور مریض کا مرض بگڑ جائے اور اس کو نقصان لاحق ہو جائے تو وہ اس کا ضامن ہو گا “ ۔ عبدالعزیز کہتے ہیں : «اعنت نعت» سے نہیں ( بلکہ «عنت» سے ہے جس کے معنی ) رگ کاٹنے ، زخم چیرنے یا داغنے کے ہیں ۔

Narrated AbdulAziz ibn Umar ibn AbdulAziz:

Some people of the deputation which came to my father reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: Any physician who practises medicine when he was not known as a practitioner before that and he harms (the patients) he will be held responsible. AbdulAziz said: Here physician does not refer to a man by qualification. it means opening a vein, incision and cauterisation.


95

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم – قَالَ مُسَدَّدٌ – خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ – ثُمَّ اتَّفَقَا – فَقَالَ ‏”‏ أَلاَ إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تُذْكَرُ وَتُدْعَى تَحْتَ قَدَمَىَّ إِلاَّ مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ أَلاَ إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلاَدُهَا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا آپ نے فرمایا : ” سنو ! جاہلیت کے خون یا مال کی جتنی فضیلتیں بھی تھیں جن کا ذکر کیا جاتا تھا یا جن کے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے قدموں تلے ہیں ، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی دیکھ ریکھ کے “ پھر فرمایا : ” سنو ! قتل خطا جو کوڑے یا لاٹھی سے ہوا ہو شبہ عمد ہے ، اس کی دیت سو اونٹ ہے ، جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں گے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: Musaddad’s version has: He addressed on the day of Conquest. The agreed version then goes: Beware! Every object of pride of pre-Islamic times, whether it is blood-vengeance or property, mentioned or claimed, has been put under my feet except supply of water to the pilgrims and custody of the House (the Ka’bah). He then said: Beware! The blood-wit for unintentional murder, such as is done with a whip and stick, is one hundred camels, forty of which are pregnant.


96

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ مَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھی خالدسے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Khalid with a different chain of narrators to the same effect.


97

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ غُلاَمًا، لأُنَاسٍ فُقَرَاءَ قَطَعَ أُذُنَ غُلاَمٍ لأُنَاسٍ أَغْنِيَاءَ فَأَتَى أَهْلُهُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أُنَاسٌ فُقَرَاءُ ‏.‏ فَلَمْ يَجْعَلْ عَلَيْهِ شَيْئًا ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہفقیر لوگوں کے ایک غلام نے کچھ مالدار لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا ، تو جس غلام نے کان کاٹا تھا اس کے مالکان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! ہم فقیر لوگ ہیں ، تو آپ نے ان پر کوئی دیت نہیں ٹھہرائی ۔

Narrated Imran ibn Husayn:

A servant of some poor people cut off the ear of the servant of some rich people. His people came to the Prophet (ﷺ) and said: Messenger of Allah! we are poor people. So he imposed no compensation on them.


98

قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَنْ قُتِلَ فِي عِمَّيَّا أَوْ رَمْيًا يَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحَجَرٍ أَوْ بِسَوْطٍ فَعَقْلُهُ عَقْلُ خَطَإٍ وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَقَوْدُ يَدَيْهِ فَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اندھا دھند مارا جائے یا کسی دنگے فساد میں جو ان میں چھڑ گیا ہو ، یا کسی پتھر یا کوڑے سے مارا جائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی ، اور جو جان بوجھ کر عمداً کسی کو قتل کرے تو وہ موجب قصاص ہے ، اب اگر کوئی ان دونوں کے بیچ میں پڑ کر ( قاتل کو بچانا چاہے ) تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: If anyone is killed blindly or, when people are throwing stones, by a stone or a whip, his blood-wit is the blood-wit for an accidental murder. But if anyone is killed intentionally, retaliation is due. If anyone tries to prevent it, the curse of Allah, of angels, and of all the people will rest on him.


99

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الرِّجْلُ جُبَارٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الدَّابَّةُ تَضْرِبُ بِرِجْلِهَا وَهُوَ رَاكِبٌ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( جانور کا ) پاؤں باطل و رائیگاں ہے اس کی کوئی دیت نہیں ہو گی “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جانور پیر سے مار دے جب کہ وہ اس پہ سوار ہو تو اس کی کوئی دیت نہیں ۔

Narrated Abu Hurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: No recompense is to be demanded if one is kicked by an animal.

Abu Dawud said: An animal kicks someone with its leg while one is riding on it.


Scroll to Top
Skip to content