حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ بِالنَّاسِ لِيَسْتَسْقِيَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيهِمَا وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا وَاسْتَسْقَى وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ .
عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ نماز استسقا کے لیے نکلے ، تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھائی ، جن میں بلند آواز سے قرأت کی اور اپنی چادر پلٹی اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَىْءٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلاَّ فِي الاِسْتِسْقَاءِ فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ .
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں ( اتنا ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( اس موقعہ پر ) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا يَعْنِي وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ .
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنِي مَنْ، رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَدْعُو عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ بَاسِطًا كَفَّيْهِ .
محمد بن ابراہیم ( تیمی ) کہتے ہیںمجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ احجار زیت کے پاس اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلائے دعا فرما رہے تھے ۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، – رضى الله عنها – قَالَتْ شَكَى النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُحُوطَ الْمَطَرِ فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَبَّرَ صلى الله عليه وسلم وَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ قَالَ ” إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ ” . ثُمَّ قَالَ ” { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ } لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلاَغًا إِلَى حِينٍ ” . ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرَّفْعِ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبْطَيْهِ ثُمَّ حَوَّلَ عَلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَقَلَّبَ أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ ضَحِكَ صلى الله عليه وسلم حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فَقَالَ ” أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ” . قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقْرَءُونَ { مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ } وَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ حُجَّةٌ لَهُمْ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہلوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر ( رکھنے ) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لیے عید گاہ میں لا کر رکھا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرہ سے ) اس وقت نکلے جب کہ آفتاب کا کنارہ ظاہر ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید کی پھر فرمایا : ” تم لوگوں نے بارش میں تاخیر کی وجہ سے اپنی آبادیوں میں قحط سالی کی شکایت کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ( اگر تم اسے پکارو گے ) تو وہ تمہاری دعا قبول کرے گا “ ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی : «الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين ، لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم أنت الله لا إله إلا أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث واجعل ما أنزلت لنا قوة وبلاغا إلى حين» یعنی ” تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو رحمن و رحیم ہے اور روز جزا کا مالک ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ، اے اللہ ! تو ہی معبود حقیقی ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں ، تو ہم پر باران رحمت نازل فرما اور جو تو نازل فرما اسے ہمارے لیے قوت ( رزق ) بنا دے اور ایک مدت تک اس سے فائدہ پہنچا “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی ، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا ، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی ، اسی وقت ( اللہ کے حکم سے ) آسمان سے بادل اٹھے ، جن میں گرج اور چمک تھی ، پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد نہیں آ سکے تھے کہ بارش کی کثرت سے نالے بہنے لگے ، جب آپ نے لوگوں کو سائبانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور فرمایا : ” میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند جید ( عمدہ ) ہے ، اہل مدینہ «ملك يوم الدين» پڑھتے ہیں اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے ۔
Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:
The people complained to the Messenger of Allah (ﷺ) of the lack of rain, so he gave an order for a pulpit. It was then set up for him in the place of prayer. He fixed a day for the people on which they should come out.
Aisha said: The Messenger of Allah (ﷺ), when the rim of the sun appeared, sat down on the pulpit, and having pronounced the greatness of Allah and expressed His praise, he said: You have complained of drought in your homes, and of the delay in receiving rain at the beginning of its season. Allah has ordered you to supplicate Him has and promised that He will answer your prayer.
Then he said: Praise be to Allah, the Lord of the Universe, the Compassionate, the Merciful, the Master of the Day of Judgment. There is no god but Allah Who does what He wishes. O Allah, Thou art Allah, there is no deity but Thou, the Rich, while we are the poor. Send down the rain upon us and make what Thou sendest down a strength and satisfaction for a time.
He then raised his hands, and kept raising them till the whiteness under his armpits was visible. He then turned his back to the people and inverted or turned round his cloak while keeping his hands aloft. He then faced the people, descended and prayed two rak’ahs.
Allah then produced a cloud, and the storm of thunder and lightning came on. Then the rain fell by Allah’s permission, and before he reached his mosque streams were flowing. When he saw the speed with which the people were seeking shelter, he (ﷺ) laughed till his back teeth were visible.
Then he said: I testify that Allah is Omnipotent and that I am Allah’s servant and apostle.
Abu Dawud said: This is a ghraib (rate) tradition, but its chain is sound. The people of Medina recite “maliki” (instead of maaliki) yawm al-din” (the master of the Day of Judgement). But this tradition (in which the word maalik occurs) is an evidence for them.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَبَيْنَمَا هُوَ يَخْطُبُنَا يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْكُرَاعُ هَلَكَ الشَّاءُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ ثُمَّ أَنْشَأَتْ سَحَابَةً ثُمَّ اجْتَمَعَتْ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ يَزَلِ الْمَطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الأُخْرَى فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَالَ “ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا ” . فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ يَتَصَدَّعُ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ .
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے ، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! گھوڑے مر گئے ، بکریاں ہلاک ہو گئیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا ، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا ، پھر جب ہم ( نماز پڑھ کر ) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا ، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گھر گر گئے ، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے ، ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا : ” اے اللہ ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما “ ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے ۔
Narrated Anas ibn Malik:
The people of Medina had a drought during the time of the Prophet (ﷺ).
While he was preaching on a Friday, a man stood up and said: Messenger of Allah, the horses have perished, the goats have perished, pray to Allah to give us water. He spread his hands and prayed.
Anas said: The sky was like a mirror (there was no cloud). Then the wind rose; a cloud appeared (in the sky) and it spread : the sky poured down the water. We came out (from the mosque after the prayer) passing through the water till we reached our homes. The rain continued till the following Friday. The same or some other person stood up and said: Messenger of Allah, the houses have been demolished, pray to Allah to stop it.
The Messenger of Allah (ﷺ) smiled and said: (O Allah), the rain may fall around us but not upon us. Then I looked at the cloud which dispersed around Medina just like a crown.
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدَيْهِ بِحِذَاءِ وَجْهِهِ فَقَالَ “ اللَّهُمَّ اسْقِنَا ” . وَسَاقَ نَحْوَهُ .
شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے روایت ہے کہانہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ، پھر راوی نے عبدالعزیز کی روایت کی طرح ذکر کیا اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرہ کے بالمقابل اٹھایا اور یہ دعا کی «اللهم اسقنا» ” اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما “ اور آگے انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ ح وَحَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا اسْتَسْقَى قَالَ “ اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ وَأَحْىِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ ” . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مَالِكٍ .
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش کے لیے دعا مانگتے تو فرماتے : «اللهم اسق عبادك وبهائمك ، وانشر رحمتك ، وأحي بلدك الميت» ” اے اللہ ! تو اپنے بندوں اور چوپایوں کو سیراب کر ، اور اپنی رحمت عام کر دے ، اور اپنے مردہ شہر کو زندگی عطا فرما “ ( یہ مالک کی روایت کے الفاظ ہیں ) ۔
Narrated ‘Amr b. Suh’aib:
On his father’s authority, quoted his grandfather as saying: When the Messenger of Allah (ﷺ) prayed for rain, he said: O Allah! Provide water for Your servants and Your cattle, display Your mercy and give life to Your dead land.
This is the wording of Malik.
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَخْبَرَنِي مَنْ، أُصَدِّقُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قِيَامًا شَدِيدًا يَقُومُ بِالنَّاسِ ثُمَّ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ثَلاَثُ رَكَعَاتٍ يَرْكَعُ الثَّالِثَةَ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى إِنَّ رِجَالاً يَوْمَئِذٍ لَيُغْشَى عَلَيْهِمْ مِمَّا قَامَ بِهِمْ حَتَّى إِنَّ سِجَالَ الْمَاءِ لَتُصَبُّ عَلَيْهِمْ يَقُولُ إِذَا رَكَعَ ” اللَّهُ أَكْبَرُ ” . وَإِذَا رَفَعَ ” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ” . حَتَّى تَجَلَّتِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَالَ ” إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ فَإِذَا كُسِفَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلاَةِ ” .
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہمجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں ( عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام کیا ، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے ، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو ( کھڑے کھڑے ) غشی طاری ہو گئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو «الله أكبر» کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں ، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے تو تم نماز کی طرف دوڑو “ ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ ذَلِكَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا كُسِفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ ابْنِهِ صلى الله عليه وسلم فَقَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ كَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الأُولَى ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الثَّالِثَةَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَانْحَدَرَ لِلسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَلاَثَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلاَّ الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا إِلاَّ أَنَّ رُكُوعَهُ نَحْوٌ مِنْ قِيَامِهِ قَالَ ثُمَّ تَأَخَّرَ فِي صَلاَتِهِ فَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ مَعَهُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَامَ فِي مَقَامِهِ وَتَقَدَّمَتِ الصُّفُوفُ فَقَضَى الصَّلاَةَ وَقَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ “ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ ” . وَسَاقَ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا ، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی ، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز ( کسوف ) پڑھائی ، چار سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎ ، اللہ اکبر کہا ، پھر قرآت کی اور دیر تک قرآت کرتے رہے ، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا ، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور پہلی قرآت کی بہ نسبت مختصر قرآت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا ، پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر تیسری قرآت کی جو دوسری قرآت کے بہ نسبت مختصر تھی اور اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا ، پھر رکوع سے سر اٹھایا ، اس کے بعد سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے کئے ، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیے ، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا ، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیچھے ہٹے تو صفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں ، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج ( صاف ہو کر ) نکل چکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو ! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا ، لہٰذا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو نماز میں مشغول ہو جاؤ ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے “ ، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی ۔
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِأَصْحَابِهِ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ فَكَانَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ . وَسَاقَ الْحَدِيثَ .
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز کسوف پڑھائی ، ( اس میں ) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا ( رکوع ) کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا ، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا ، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا ( قیام ) کیا ، پھر دو سجدے کئے پھر ( دوسری رکعت کے لیے ) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا ، اس طرح ( دو رکعت میں ) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالاَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَيُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبَّادُ بْنُ تَمِيمٍ الْمَازِنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَمَّهُ، – وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا يَسْتَسْقِي فَحَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ يَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ – قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ – قَالَ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ – وَقَرَأَ فِيهِمَا زَادَ ابْنُ السَّرْحِ يُرِيدُ الْجَهْرَ .
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہمجھے عباد بن تمیم مازنی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنے چچا ( عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ ) سے ( جو صحابی رسول تھے ) سنا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ساتھ لے کر نماز استسقا کے لیے نکلے اور لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ کر کے اللہ عزوجل سے دعا کرتے رہے ۔ سلیمان بن داود کی روایت میں ہے کہ آپ نے قبلہ کا استقبال کیا اور اپنی چادر پلٹی پھر دو رکعتیں پڑھیں ۔ اور ابن ابی ذئب کی روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں میں قرآت کی ۔ ابن سرح نے یہ اضافہ کیا ہے کہ قرآت سے ان کی مراد جہری قرآت ہے ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ خُسِفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَامَ فَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلاً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ ” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ” . ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلاً هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ ” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ” . ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرات کی پھر «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا ، پھر اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا ، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرآت کی ، اور یہ پہلی قرآت سے کچھ مختصر تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا ، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا ، ( پھر رکوع سے سر اٹھایا ) اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا ، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس طرح ( دو رکعت میں ) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے ، اور آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے سورج روشن ہو گیا ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ كَانَ كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ مِثْلَ حَدِيثِ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ رَكْعَتَيْنِ .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھی ، جیسے عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے دو رکعت پڑھی اور ہر رکعت میں دو رکوع کیا ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ بْنِ خَالِدٍ أَبُو مَسْعُودٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحُدِّثْتُ عَنْ عُمَرَ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، – وَهَذَا لَفْظُهُ وَهُوَ أَتَمُّ – عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى بِهِمْ فَقَرَأَ بِسُورَةٍ مِنَ الطُّوَلِ وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ الثَّانِيَةَ فَقَرَأَ سُورَةً مِنَ الطُّوَلِ وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ كَمَا هُوَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ يَدْعُو حَتَّى انْجَلَى كُسُوفُهَا .
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( دو رکعت ) پڑھائی تو آپ نے لمبی سورتوں میں سے ایک سورۃ کی قرآت کی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے ، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو اس میں بھی لمبی سورتوں میں سے ایک سورت کی قرآت فرمائی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے ، پھر قبلہ رخ بیٹھے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن چھٹ گیا ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ وَالأُخْرَى مِثْلُهَا .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہآپ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو قرآت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر قرآت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر قرآت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر قرآت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر سجدہ کیا ، اور دوسری ( رکعت ) بھی اسی طرح پڑھی ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ سَمُرَةُ بَيْنَمَا أَنَا وَغُلاَمٌ مِنَ الأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا قَالَ فَدَفَعْنَا فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلاَةٍ قَطُّ لاَ نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا قَالَ ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلاَةٍ قَطُّ لاَ نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلاَةٍ قَطُّ لاَ نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا . ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسِ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ قَالَ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَشَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ سَاقَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم .
اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی ( جو اہل بصرہ میں سے ہیں ) نے بیان کیا ہے کہوہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر رہے ، سمرہ رضی اللہ عنہ نے ( خطبہ میں ) کہا : میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہو گیا پھر گویا وہ تنومہ ۱؎ ہو گیا ، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا ، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ۲؎ ہے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی ، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی نماز میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا ، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی نماز میں نہیں کیا تھا ، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۳؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی نماز میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا ۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دوسری رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہو گیا ، پھر آپ نے سلام پھیرا ، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور گواہی دی کہ ” اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں “ ، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خطبہ بیان کیا ۔
Narrated Samurah ibn Jundub:
When, a boy from the Ansar and I were shooting (arrows) towards two of our targets, the sun was sighted by the people at the height of two or three lances above the horizon. It became black like the black herb called tannumah.
One of us said to his companion: Let us go to the mosque; by Allah, this incident of the sun will surely bring something new in the community of the Messenger of Allah (ﷺ).
As we reached it, we suddenly saw that he (the Prophet) had already come out (of his house). He stepped forward for a long time as much as he could do so in the prayer. But we did not hear his voice. He then performed a bowing and prolonged it as much as he could do in the prayer. But we did not hear his voice. He then prostrated himself with us and prolonged it which he never did in the prayer before. But we did not hear his voice. He then did similarly in the second rak’ah. The sun became bright when he sat after the second rak’ah. Then he uttered the salutation. He then stood up, praised Allah, and extolled Him, and testified that there was no god but Allah and testified that he was His servant and apostle. Ahmad ibn Yunus then narrated the address of the Prophet (ﷺ).
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ الْهِلاَلِيِّ، قَالَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَخَرَجَ فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَانْجَلَتْ فَقَالَ “ إِنَّمَا هَذِهِ الآيَاتُ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاَةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ ” .
قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے اس دن میں آپ کے ساتھ مدینہ ہی میں تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ان میں لمبا قیام فرمایا ، پھر نماز سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہو گیا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بیشک یہ نشانیاں ہیں ، جن کے ذریعہ اللہ ( بندوں کو ) ڈراتا ہے لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو جیسے تم نے قریب کی فرض نماز پڑھی ہو ۱؎ “ ۔
Narrated Qabisah al-Hilali:
There was an eclipse of the sun in the time of the Messenger of Allah (ﷺ). He came out bewildered pulling his garment, and I was in his company at Medina. He prayed two rak’ahs and stood for a long time in them. He then departed and the sun became bright. He then said: There are the signs by means of which Allah, the Exalted, produces dread (in His servants). When you see anything of this nature, then pray as you are praying a fresh obligatory prayer.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ قَبِيصَةَ الْهِلاَلِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّ الشَّمْسَ كُسِفَتْ بِمَعْنَى حَدِيثِ مُوسَى قَالَ حَتَّى بَدَتِ النُّجُومُ .
ہلال بن عامر سے روایت ہے کہقبیصہ ہلالی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا ، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی ، اس میں ہے : یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے ۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، كُلُّهُمْ قَدْ حَدَّثَنِي عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ – وَسَاقَ الْحَدِيثَ – ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورۃ البقرہ کی قرآت کی ہے ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی ، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورۃ آل عمران کی قرآت کی ہے ۔