۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)

Markazi Anjuman Khuddam ul Quran Lahore

1

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے ، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: The Jews were split up into seventy-one or seventy-two sects; and the Christians were split up into seventy one or seventy-two sects; and my community will be split up into seventy-three sects.


10

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لاَ نَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ ‏”‏ ‏.‏

ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے : یہ ہم نہیں جانتے ، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے ۱؎ “ ۔

Narrated AbuRafi’:

The Prophet (ﷺ) said: Let me not find one of you reclining on his couch when he hears something regarding me which I have commanded or forbidden and saying: We do not know. What we found in Allah’s Book we have followed.


100

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلاَءِ فِي الْقَدَرِ ‏.‏ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلاً فِي الْمَسْجِدِ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلاَمَ إِلَىَّ فَقُلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لاَ قَدَرَ وَالأَمْرُ أُنُفٌ ‏.‏ فَقَالَ إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ثُمَّ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ نَعْرِفُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلاَمِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ‏”‏ ‏.‏ قَالَ صَدَقْتَ ‏.‏ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ صَدَقْتَ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ ‏”‏ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ‏”‏ ‏.‏

یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہبصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا ، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے ، تو ہم نے دل میں کہا : اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے ، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی ، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا ، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں ، کہتے ہیں : تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎ ، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں ، تو آپ نے عرض کیا : جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں ، اور وہ مجھ سے بری ہیں ( میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ) ، اس ہستی کی قسم ، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے ، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا ، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے ، پھر آپ نے کہا : مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے ، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے ، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے ، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا ، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے ، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا : محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو ، زکاۃ دو ، رمضان کے روز ے رکھو ، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو “ وہ بولا : آپ نے سچ کہا ، عمر بن خطاب کہتے ہیں : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پر اور تقدیر ۲؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ “ اس نے کہا : آپ نے سچ کہا ۔ پھر پوچھا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو ( یہ تصور رکھو کہ ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے “ اس نے کہا : مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس سے پوچھا جا رہا ہے ، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا “ ۳؎ ۔ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎ ، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن ، محتاج ، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے “ پھر وہ چلا گیا ، پھر میں تین ۵؎ ( ساعت ) تک ٹھہرا رہا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے عمر ! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ “ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جبرائیل تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے “ ۔

Yahya b. Ya`mur said :The first to speak on Divine decree in al-Basrah was Ma`bad al Juhani. I and Humaid b. `Abd al-Rahman al-Himyari proceeded to perform Hajj or `Umrah. We said : would that we meet any of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) so that we could ask him about what they say with regard to divine decree. So Allah helped us to meet `Abd Allah b. `Umar who was entering the mosque. So I and my companion surrounded him, and I thought that my companion would entrust me the task of speaking to him. Then I said : Abu ‘Abd al-Rahman, there appeared on our side some people who recite the Qur’an and are engaged in the hair-splitting of knowledge. They conceive that there is no Divine decree and everything happens freely without predestination. He said : When you meet those people, tell them that I am free from them, and they are free from me. By Him by Whom swears ‘Abd Allah b. ‘Umar, if one of them has gold equivalent to Uhud and he spends it, Allah will not accept it from him until he believes in Divine decree. He then said : ‘Umar b. Khattab transmitted to me a tradition, saying : One day when we were with the Messenger of Allah (ﷺ) a man with very white clothing and very black hair came up to us. No mark of travel was visible on him, and we did not recognize him. Sitting down beside the Messenger of Allah (ﷺ), leaning his knees against his and placing his hands on his thighs, he said : tell me, Muhammad, about Islam. The Messenger of Allah (ﷺ) said : Islam means that you should testify that there is no god but Allah, and Muhammad is Allah’s Apostle, that you should observe prayer, pay Zakat, fast during Ramadan, and perform Hajj to the house (i.e., Ka`bah), If you have the means to go. He said : You have spoken the truth. We were surprised at his questioning him and then declaring that he spoke the truth. He said : Now tell me about faith. He replied : It means that you should believe in Allah, his angels, his Books, his Apostles and the last day, and that you should believe in the decreeing both of good and evil. He said : You have spoken the truth. He said : now tell me about doing good (ihsan). He replied: It means that you should worship Allah as though you are seeing him; if you are not seeing him, he is seeing you. He said: Now tell me about the hour. He replied : The one who is asked about it is no better informed than the one who is asking. He said : Then tell me about its signs. He replied : That a maidservant should beget her mistress, and that you should see barefooted, naked, poor men and shepherds exalting themselves in buildings. ‘Umar said : He then went away, and I waited for three days, then he said : Do you know who the questioner was, `Umar? I replied : Allah and his Apostle know best. He said : He was Gabriel who came to you to teach you your religion.


101

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ زَادَ قَالَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَىْءٍ قَدْ خَلاَ أَوْ مَضَى أَوْ شَىْءٍ يُسْتَأْنَفُ الآنَ قَالَ ‏”‏ فِي شَىْءٍ قَدْ خَلاَ وَمَضَى ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ فَفِيمَ الْعَمَلُ قَالَ ‏”‏ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ ‏”‏ ‏.‏

یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا ۔ پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! پھر ہم کیا جان کر عمل کریں ؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے ، یا یہ جان کر کہ ( پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے ) نئے سرے سے ہونا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جا چکا ہے “ پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا : تو آخر یہ عمل کس لیے ہے ؟ ۲؎ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اہل جنت کے لیے اہل جنت والے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں “ ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Yahya b. Yamur and Humaid b. ‘Abd al-Rahman through a different chain of narrators. This version has :we met ‘Abd Allah b. ‘Umar. We told him about divine decree and what they said about it. He then mentioned something similar to it. He added : A man of Muzainah or juhainah asked : What is the good in doing anything, Messenger of Allah ? should we think that a thing has passed and gone or a thing that has happened now (without predestination)? He replied : About a thing that has passed and gone (i.e. predestined). A man or some people asked: Then, why action? He replied: Those who are among the number of those who go to Paradise will be helped to do the deeds of the people who will go to Paradise, and those who are among the number of those who go to Hell will be helped to do the deeds of those who will go to Hell.


102

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ قَالَ فَمَا الإِسْلاَمُ قَالَ ‏ “‏ إِقَامُ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ وَالاِغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ ‏.‏

یحییٰ بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہےاس نے پوچھا : اسلام کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نماز کی اقامت ، زکاۃ کی ادائیگی ، بیت اللہ کا حج ، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : علقمہ مرجئی ہیں ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn Ya’mur, with additions and omissions, through a different chain of narrators. This version adds; He asked :What is Islam? He replied : It means saying prayer, payment of zakat, performing HAJJ, fasting during RAMADAN, and taking a bath on account of sexual defilement.

Abu Dawud said: ‘Alqamah was a Murji’i.


103

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي، هُرَيْرَةَ قَالاَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَىْ أَصْحَابِهِ فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ فَلاَ يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ – قَالَ – فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرْفِ السِّمَاطِ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ ‏.‏ قَالَ فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا ، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لیے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : چنانچہ ہم نے آپ کے لیے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے ، آگے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی ، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا ، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی ، یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا : السلام علیک یا محمد ! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا ۔

Narrated AbuDharr and AbuHurayrah:

The Messenger of Allah (ﷺ) used to sit among his Companions. A stranger would come and not recognize him (the Prophet) until he asked (about him). So we asked the Messenger of Allah (ﷺ) to make a place where he might take his seat so that when a stranger came, he might recognise him. So we built a terrace of soil on which he would take his seat, and we would sit beside him. He then mentioned something similar to this Hadith saying: A man came, and he described his appearance. He saluted from the side of the assembly, saying: Peace be upon you, Muhammad. The Prophet (ﷺ) then responded to him.


104

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ أَتَيْتُ أُبَىَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَىْءٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَىْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي ‏.‏ فَقَالَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ – قَالَ – ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ – قَالَ – ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَ ذَلِكَ ‏.‏

ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہمیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا : میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے ، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا ، فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے ، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہو گا ، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے ، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا ، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا ، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے ۔ ابن دیلمی کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی ، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی ، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مرفوع روایت بیان کی ۔

Ibn al-Dailami said :I went to Ubayy b. Ka’b and said him : I am confused about Divine decree, so tell me something by means of which Allah may remove the confusion from my mind. He replied : were Allah to punish everyone in the heavens and in the earth. He would do so without being unjust to them, and were he to show mercy to them his mercy would be much better than their actions merited. Were you to spend in support of Allah’s cause an amount of gold equivalent to Uhud, Allah would not accept it from you till you believed in divine decree and knew that what has come to you could not miss you and that what has missed you could not come to you. Were you to die believing anything else you would enter Hell. He said : I then went to ‘Abd Allah b. MAs’ud and he said something to the same effect. I next went to Hudhaifah b. al-Yaman and he said something to the same effect. I next went to Zaid b. Thabit who told me something from the Prophet (May peace be upon him) to the same effect.


105

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لاِبْنِهِ يَا بُنَىَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ اكْتُبْ ‏.‏ قَالَ رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ قَالَ اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَىْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ‏”‏ ‏.‏ يَا بُنَىَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي ‏”‏ ‏.‏

ابوحفصہ کہتے ہیں کہعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا : اے میرے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ، قلم ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : لکھ ، قلم نے کہا : اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے کہا : قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ “ اے میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” جو اس کے علاوہ ( کسی اور عقیدے ) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں “ ۔

Ubadah b. al Samit said to his son :Son! You will not get the taste of the reality of faith until you know that what has come to you could not miss you, and that what has missed you could not come to you. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: The first thing Allah created was the pen. He said to it: Write. It asked: What should I write, my Lord? He said: Write what was decreed about everything till the Last Hour comes. Son! I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say : He who dies on something other than this does not belong to me.


106

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، – الْمَعْنَى – قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى فَقَالَ مُوسَى يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ ‏.‏ فَقَالَ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلاَمِهِ وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا : اے آدم ! آپ ہمارے باپ ہیں ، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا ، اور ہمیں جنت سے نکلوایا ، آدم نے کہا : تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لیے چن لیا ، اور تمہارے لیے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا ، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لیے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا ، پس آدم موسیٰ پر غالب آ گئے “ ۱؎ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Adam and Moses held a disputation. Moses said : Adam you are our father. You deprived us and caused us to come out from Paradise. Adam said : You are Moses Allah chose you for his speech and wrote the Torah for you with his hand. Do you blame me for doing a deed which Allah had decreed that I should do forty year before he created me? So Adam got the better of Moses in argument.

Ahmad b. Salih said from ‘Amr from Tawus who heard Abu Hurairah.


107

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ مُوسَى قَالَ يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ فَقَالَ أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَقَالَ لَهُ آدَمُ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ وَمَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَى ‏.‏ قَالَ أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولاً مِنْ خَلْقِهِ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ فَفِيمَ تَلُومُنِي فِي شَىْءٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ ذَلِكَ ‏”‏ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ‏”‏ ‏.‏

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” موسیٰ ( علیہ السلام ) نے کہا : اے میرے رب ! ہمیں آدم علیہ السلام کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا ، تو اللہ نے انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا : آپ ہمارے باپ آدم ہیں ؟ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا : ہاں ، انہوں نے کہا : آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی ، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، انہوں نے کہا : تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا ؟ تو آدم نے ان سے کہا : اور تم کون ہو ؟ وہ بولے : میں موسیٰ ہوں ، انہوں نے کہا : تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا ؟ کہا : ہاں ، آدم علیہ السلام نے کہا : تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ ( جنت سے نکالا جانا ) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا ؟ کہا : ہاں معلوم ہے ، انہوں نے کہا : پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو ؟ “ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو آدم ، موسیٰ پر غالب آ گئے ، تو آدم موسیٰ پر غالب آ گئے “ ۔

‘Umar b. al-Khattab reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Moses said : My lord, show us Adam who caused us and himself to come out from Paradise. So Allah showed him Adam. He asked : Are you our father, Adam? Adam said to him : Yes. He said : Are you the one into whom Allah breathed of his spirit, taught you all the names, and commanded angels (to prostrate) and they prostrated to you? He replied : Yes. He asked : Then what moved you to cause us and yourself to come out from paradise? Adam asked him : And who are you? He said : Yes. He asked : Did you not find that was decreed in the book (records) of Allah before I was created? He replied : Yes. He asked : Then why do you blame me about a thing for which Divine decree had already passed before me ? The Messenger of Allah (May peace be upon him) said : So Adam got the better of Moses in argument (peace be upon him).


108

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَخْبَرَهُ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ، ‏{‏ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ‏}‏ قَالَ قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الآيَةَ ‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُئِلَ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلاَءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلاَءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ ‏”‏ ‏.‏

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم» کے متعلق پوچھا گیا ۱؎ ۔ ( حدیث بیان کرتے وقت ) قعنبی نے آیت پڑھی تو آپ نے کہا : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا ، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا ، اس سے اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے ، اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے ، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا : میں نے انہیں جہنمیوں کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے “ تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! پھر عمل سے کیا فائدہ ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے ، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے ، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے ، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے “ ۔

Narrated Umar ibn al-Khattab:

Muslim ibn Yasar al-Juhani said: When Umar ibn al-Khattab was asked about the verse “When your Lord took their offspring from the backs of the children of Adam” – al-Qa’nabi recited the verse–he said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say when he was questioned about it: Allah created Adam, then passed His right hand over his back, and brought forth from it his offspring, saying: I have these for Paradise and these will do the deeds of those who go to Paradise. He then passed His hand over his back and brought forth from it his offspring, saying: I have created these for Hell, and they will do the deeds of those who go to Hell.

A man asked: What is the good of doing anything, Messenger of Allah? The Messenger of Allah (ﷺ) said: When Allah creates a servant for Paradise, He employs him in doing the deeds of those who will go to Paradise, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Paradise, for which He will bring him into Paradise. But when He creates a servant for Hell, He employs him in doing the deeds of those who will go to Hell, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Hell, for which He will bring him into Hell.


109

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ جُعْثُمَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ ‏.‏

نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہمیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ، پھر انہوں نے یہی حدیث روایت کی ، مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۔

Nu’aim b. Rabl’ah said :I was with ‘Umar b. al-Khattab when he transmitted this tradition. The tradition of Malik is more perfect.


11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ عِيسَى قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ صَنَعَ أَمْرًا عَلَى غَيْرِ أَمْرِنَا فَهُوَ رَدٌّ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے “ ۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے “ ۔

`A’ishah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:If any one introduces into this affair of ours anything which does not belong to it, it is rejected. Ibn `Isa said: The Prophet (ﷺ) said: If anyone practices any action in a way other than our practice, it is rejected.


110

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الْغُلاَمُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا وَلَوْ عَاشَ لأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ‏”‏ ‏.‏

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ لڑکا جسے خضر ( علیہ السلام ) نے قتل کر دیا تھا طبعی طور پر کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دیتا “ ۔

Ubayy b. Ka’b said :The boy whom al-Khidr had killed was created an infidel. Had he lived, he would have moved his parents to rebellion and unbelief.


111

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِي قَوْلِهِ ‏{‏ وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ ‏}‏ ‏”‏ وَكَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا ‏”‏ ‏.‏

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأما الغلام فكان أبواه مؤمنين» ” اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے “ ( سورۃ الکہف : ۸۰ ) کے بارے میں فرماتے سنا کہ وہ پیدائش کے دن ہی کافر پیدا ہوا تھا ۔

Ubayy b. Ka’b said :I heard the Messenger of Allah (May peace be upon him) explaining the verse “As for the youth his parents were people of Faith,” he was created infidel the day when he was created.


112

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلاَمًا يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَتَنَاوَلَ رَأْسَهُ فَقَلَعَهُ فَقَالَ مُوسَى ‏{‏ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً ‏}‏ ‏”‏ ‏.‏ الآيَةَ ‏.‏

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خضر ( علیہ السلام ) نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سر پکڑا ، اور اسے اکھاڑ لیا ، تو موسیٰ ( علیہ السلام ) نے کہا : کیا تم نے بےگناہ نفس کو مار ڈالا ؟ “ ۔

Ibn ‘Abbas said :Ubayy b. Ka’b told me that the Messenger of Allah (May peace be upon him) said : Al-khidr saw a youth playing with boys. He took him by his head and uprooted it. Moses then said : Hast thou slain an innocent person who had slain none.


113

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، – الْمَعْنَى وَاحِدٌ وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ – عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ ‏ “‏ إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ رِزْقُهُ وَأَجَلُهُ وَعَمَلُهُ ثُمَّ يُكْتَبُ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیںہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے ) بیان فرمایا : ” تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے ، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے ، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے : تو وہ اس کا رزق ، اس کی عمر ، اس کا عمل لکھتا ہے ، پھر لکھتا ہے : آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت ، پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے ، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس ( شخص ) کے اور اس ( جنت ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب ( تقدیر ) اس پر سبقت کر جاتی ہے اور وہ جہنمیوں کے کام کر بیٹھتا ہے تو وہ داخل جہنم ہو جاتا ہے ، اور تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس ( شخص ) کے اور اس ( جہنم ) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب ( تقدیر ) اس پر سبقت کر جاتی ہے ، اب وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے تو داخل جنت ہو جاتا ہے “ ۔

‘Abd Allah b. Mas’ud said :The Messenger of Allah (May peace be upon him) who spoke the truth and whose word was belief told us the following : The constituents of one of you are collected for forty days in his mother’s womb, then they become a piece of congealed blood for a similar period, then they become a lump of flesh for a similar period. Then Allah sends to him an angel with four words who records his provision the period of his life, his deeds, and whether he will be miserable or blessed ; thereafter he breathes the spirit into him. One of you will do the deeds of those who go to Paradise so that there will be only a cubit between him and it or will be within a cubit, then what is decreed will overcome him so that he will do the deeds of those who go to Hell and will enter it; and one of you will do the deeds of those who go to hell, so that there will be only a cubit between him and it or will be within a cubit, then what is decreed will overcome him, so that he will do the deeds of those who go to Paradise and will enter it.


114

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ قَالَ ‏”‏ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ اس نے کہا : پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے “ ۔

‘Imran b. Husain said :The Messenger of Allah (May peace be upon him) was asked : Is it known who are those who will go to paradise and those who will go to hell? He said : Yes. He asked : Then what is the good of doing anything by those who act? He replied : Everyone is helped to do for which he has been created.


115

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلاَ تُفَاتِحُوهُمْ ‏”‏ ‏.‏

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے سلام و کلام کی ابتداء کرو “ ۔

‘Umar reported the Prophet (May peace be upon him) was asked :Do not sit which those who believe in free will and do not address them before they address you.


116

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سُئِلَ عَنْ أَوْلاَدِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ ‏ “‏ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے فرمایا : ” اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو کیا عمل کرتے “ ۔

Ibn ‘Abbas reported that when the Prophet (May peace be upon him) was questioned about the offspring of polytheists, he said :Allah knows best about what they were doing.


117

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمَذْحِجِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، – الْمَعْنَى – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ ‏”‏ هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِلاَ عَمَلٍ قَالَ ‏”‏ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَرَارِيُّ الْمُشْرِكِينَ قَالَ ‏”‏ مِنْ آبَائِهِمْ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ بِلاَ عَمَلٍ قَالَ ‏”‏ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہمیں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بغیر کسی عمل کے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور مشرکین کے بچے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے “ میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے “ ۱؎ ۔

‘A’ishah said :I said : Messenger of Allah (May peace be upon him) what happens to the offspring of believers ? He replied : They are joined to their parents. I asked : Messenger of Allah! Although they have done nothing ? He replied : Allah knows best what they were doing. I asked : what happens to the offspring of polytheists, Messenger of Allah ? he replied! They are joined to their parents. I asked : Although they have done nothing? He replied : Allah knows best what they were doing.


118

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِصَبِيٍّ مِنَ الأَنْصَارِ يُصَلِّي عَلَيْهِ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ طُوبَى لِهَذَا لَمْ يَعْمَلْ شَرًّا وَلَمْ يَدْرِ بِهِ ‏.‏ فَقَالَ ‏ “‏ أَوَغَيْرَ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلاً وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلاَبِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلاً وَخَلَقَهَا لَهُمْ وَهُمْ فِي أَصْلاَبِ آبَائِهِمْ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کا ایک بچہ نماز پڑھنے کے لیے لایا گیا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! زندگی کے مزے تو اس بچے کے لیے ہیں ، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی وہ اسے ( گناہ کو ) سمجھتا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عائشہ ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے اور جنت کو ان لوگوں کے لیے جب بنایا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے ، اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے گئے اور جہنم کو ان لوگوں کے لیے پیدا کیا جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے “ ۱؎ ۔

‘A’ishah, mother of the believers, said :The Prophet (May peace be upon him) was invited to the funeral of a boy who belonged to the ANSAR and I said; Messenger of Allah! This one is blessed, for he has done no evil, nor has he known it. He replied : It may be otherwise, ‘A’ishah, for Allah created Paradise and created those who will go to it, and He created it for them when they were still in their father’s loins; and he created hell and created those who will go to it, and created it for them when they were still in their father’s loins.


119

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ كَمَا تَنَاتَجُ الإِبِلُ مِنْ بَهِيمَةٍ جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّ مِنْ جَدْعَاءَ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ قَالَ ‏”‏ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں ، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مر جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Every child is born on Islam, but his parents make him a Jew and a Christian, just as a beast is born whole. Do you find some among them (born) maimed? The people asked : Messenger of Allah! What do you think about the one who died while he was young? He replied : Allah knows best what he was going to do.


12

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ ‏{‏ وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ‏}‏ فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ ‏.‏ فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ ‏”‏ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏”‏ ‏.‏

عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه» ۱؎ نازل ہوئی ، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا : ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے ، آپ کی عیادت کرنے ، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں ، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۲؎ “ ۔

Narrated Irbad ibn Sariyah:

AbdurRahman ibn Amr as-Sulami and Hujr ibn Hujr said: We came to Irbad ibn Sariyah who was among those about whom the following verse was revealed: “Nor (is there blame) on those who come to thee to be provided with mounts, and when thou saidst: “I can find no mounts for you.”

We greeted him and said: We have come to see you to give healing and obtain benefit from you.

Al-Irbad said: One day the Messenger of Allah (ﷺ) led us in prayer, then faced us and gave us a lengthy exhortation at which the eyes shed tears and the hearts were afraid.

A man said: Messenger of Allah! It seems as if it were a farewell exhortation, so what injunction do you give us?

He then said: I enjoin you to fear Allah, and to hear and obey even if it be an Abyssinian slave, for those of you who live after me will see great disagreement. You must then follow my sunnah and that of the rightly-guided caliphs. Hold to it and stick fast to it. Avoid novelties, for every novelty is an innovation, and every innovation is an error.


120

قَالَ أَبُو دَاوُدَ قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، أَخْبَرَكَ يُوسُفُ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ مَالِكًا، قِيلَ لَهُ إِنَّ أَهْلَ الأَهْوَاءِ يَحْتَجُّونَ عَلَيْنَا بِهَذَا الْحَدِيثِ ‏.‏ قَالَ مَالِكٌ احْتَجَّ عَلَيْهِمْ بِآخِرِهِ ‏.‏ قَالُوا أَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ قَالَ ‏ “‏ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ ‏”‏ ‏.‏

ابن وہب کہتے ہیں کہمیں نے مالک کو کہتے سنا ، ان سے پوچھا گیا : اہل بدعت ( قدریہ ) اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں ؟ مالک نے کہا : تم حدیث کے آخری ٹکڑے سے ان کے خلاف استدلال کرو ، اس لیے کہ اس میں ہے : صحابہ نے پوچھا کہ بچپن میں مرنے والے کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے “ ۔

Abu Dawud said :Malik was asked : The heretics argue from this tradition against us. Malik said : Argue against them from its last part which goes. The people asked : What do you think about the one who died while he was young? He replied : Allah knows best what he was going to do.


121

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يُفَسِّرُ حَدِيثَ ‏”‏ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا عِنْدَنَا حَيْثُ أَخَذَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْعَهْدَ فِي أَصْلاَبِ آبَائِهِمْ حَيْثُ قَالَ ‏{‏ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى ‏}‏ ‏.‏

حجاج بن منہال کہتے کہمیں نے حماد بن سلمہ کو «كل مولود يولد على الفطرة» ” ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے “ ۱؎ کی تفسیر کرتے سنا ، آپ نے کہا : ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے ان سے اسی وقت لے لیا تھا ، جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے ، اللہ نے ان سے پوچھا تھا : «ألست بربكم قالوا بلى» ” کیا میں تمہارا رب ( معبود ) نہیں ہوں ؟ “ تو انہوں نے کہا تھا : کیوں نہیں ، ضرور ہیں ۔

Explaining the tradition “Every child is a born on Islam”, Hammad b. Salamah said :In our opinion it means that covenant which Allah had taken in the loins of their fathers when He said : “Am I not your Lord? They said: Yes.


122

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ أَبِي فَحَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُ بِذَلِكَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

عامر شعبی کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «وائدہ» ( زندہ درگور کرنے والی ) اور «مؤودہ» ( زندہ درگور کی گئی دونوں ) جہنم میں ہیں “ ۱؎ ۔ یحییٰ بن زکریا کہتے ہیں : میرے والد نے کہا : مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا ہے کہ عامر شعبی نے ان سے اسے بیان کیا ہے ، وہ علقمہ سے اور علقمہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور ابن مسعود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔

‘Amir reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :The woman who buries alive her new-born girl and the girl who is buried alive both will go to Hell. This tradition has also been transmitted by Ibn Mas’ud from the Prophet (May peace be upon him) to the same effect through a different chain of narrators.


123

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلاً، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَبِي قَالَ ‏”‏ أَبُوكَ فِي النَّارِ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا قَفَّى قَالَ ‏”‏ إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ ‏”‏ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد کہاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے والد جہنم میں ہیں “ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں “ ۱؎ ۔

Anas said :A man asked : where is my father, Messenger of Allah? He replied! Your father is in Hell. When he turned his back, he said : My father and your father are in Hell.


124

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شیطان ابن آدم ( انسان ) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے “ ۔

Anas b. Malik reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :The devil flows in a man like his blood.


125

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلاَ تُفَاتِحُوهُمُ الْحَدِيثَ ‏”‏ ‏.‏

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے بات چیت میں پہل کرو ۱؎ “ ۔

‘Umar b. al-Khattab reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Do not sit with those who believe in free will and do not address them before they address you.


126

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا ، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے : میں اللہ پر ایمان لایا “ ۱؎ ۔

Abu Hurairah reported to the Messenger of Allah( may peace be upon him) as sayings:People will continue to ask one another(questions) till this is pronounced: Allah created all things, but who created Allah ? Whoever comes across anything of that, he should say: I believe in Allah.


127

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، – يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ – قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ – قَالَ حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، مَوْلَى بَنِي تَيْمٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فَذَكَرَ نَحْوَهُ قَالَ ‏”‏ فَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ فَقُولُوا ‏{‏ اللَّهُ أَحَدٌ * اللَّهُ الصَّمَدُ * لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ * وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‏}‏ ثُمَّ لْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاَثًا وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ، پھر اس جیسی روایت ذکر کی ، البتہ اس میں ہے ، آپ نے فرمایا : ” جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو : «الله أحد * الله الصمد * لم يلد ولم يولد * ولم يكن له كفوا أحد» ” اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے ۱؎ ، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے “ پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: He then mentioned a tradition like it. This version adds: When they propound that, say: “Say Allah is one. Allah is He to Whom men repair. He has not begotten and He has not been begotten, and no one is equal to Him.” Then one should spit three times on his left side and seek refuge in Allah from Satan.


128

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ كُنْتُ فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَرَّتْ بِهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهَا فَقَالَ ‏”‏ مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا السَّحَابَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ وَالْمُزْنَ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا وَالْمُزْنَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ وَالْعَنَانَ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا وَالْعَنَانَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ لَمْ أُتْقِنِ الْعَنَانَ جَيِّدًا قَالَ ‏”‏ هَلْ تَدْرُونَ مَا بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ نَدْرِي ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ أَوِ اثْنَتَانِ أَوْ ثَلاَثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً ثُمَّ السَّمَاءُ فَوْقَهَا كَذَلِكَ ‏”‏ ‏.‏ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ ‏”‏ ثُمَّ فَوْقَ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاَهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلاَفِهِمْ وَرُكَبِهِمْ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِمُ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاَهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ ‏”‏ ‏.‏

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں بطحاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے ، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا ان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا : ” تم اسے کیا نام دیتے ہو ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : «سحاب» ( بادل ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور «مزن» بھی “ لوگوں نے کہا : ہاں «مزن» بھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور «عنان» بھی “ لوگوں نے عرض کیا : اور «عنان» بھی ، ( ابوداؤد کہتے ہیں : «عنان» کو میں اچھی طرح ضبط نہ کر سکا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : ہمیں نہیں معلوم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے ، پھر اسی طرح اس کے اوپر آسمان ہے “ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آسمان گنائے ” پھر ساتویں کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی سطح اور تہہ میں اتنی دوری ہے جتنی کہ ایک آسمان اور دوسرے آسمان کے درمیان ہے ، پھر اس کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے ہیں جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی لمبائی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری ہے ، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے ، جس کے نچلے حصہ اور اوپری حصہ کے درمیان کی مسافت اتنی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی ، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے “ ۔

Narrated Al-Abbas ibn AbdulMuttalib:

I was sitting in al-Batha with a company among whom the Messenger of Allah (ﷺ) was sitting, when a cloud passed above them.

The Messenger of Allah (ﷺ) looked at it and said: What do you call this? They said: Sahab.

He said: And muzn? They said: And muzn. He said: And anan? They said: And anan. AbuDawud said: I am not quite confident about the word anan. He asked: Do you know the distance between Heaven and Earth? They replied: We do not know. He then said: The distance between them is seventy-one, seventy-two, or seventy-three years. The heaven which is above it is at a similar distance (going on till he counted seven heavens). Above the seventh heaven there is a sea, the distance between whose surface and bottom is like that between one heaven and the next. Above that there are eight mountain goats the distance between whose hoofs and haunches is like the distance between one heaven and the next. Then Allah, the Blessed and the Exalted, is above that.


129

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھی سماکسے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Simak through a different chain of narrators to the same effect.


13

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، – يَعْنِي ابْنَ عَتِيقٍ – عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أَلاَ هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ ‏”‏ ‏.‏ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا : ” سنو ، بہت زیادہ بحث و تکرار کرنے اور جھگڑنے والے ہلاک ہو گئے ۱؎ “ ۔

‘Abd Allah b. Mas’ud reported the Prophet (ﷺ) as saying:”Beware! The extremists perished,” saying it three times.


130

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ ‏.‏

اس سند سے بھی سماکسے اسی لمبی حدیث کا مفہوم مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has again been transmitted by Simak through a different chain of narrators and to the same effect as this lengthy tradition.


131

حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، قَالُوا حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، – قَالَ أَحْمَدُ كَتَبْنَاهُ مِنْ نُسْخَتِهِ وَهَذَا لَفْظُهُ – قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ جُهِدَتِ الأَنْفُسُ وَضَاعَتِ الْعِيَالُ وَنُهِكَتِ الأَمْوَالُ وَهَلَكَتِ الأَنْعَامُ فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِكَ عَلَى اللَّهِ وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَيْحَكَ أَتَدْرِي مَا تَقُولُ ‏”‏ وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَا زَالَ يُسَبِّحُ حَتَّى عُرِفَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِ أَصْحَابِهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ وَيْحَكَ إِنَّهُ لاَ يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَيْحَكَ أَتَدْرِي مَا اللَّهُ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَوَاتِهِ لَهَكَذَا ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ ‏”‏ وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَوَاتِهِ ‏”‏ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَقَالَ عَبْدُ الأَعْلَى وَابْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ وَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَرَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ كَمَا قَالَ أَحْمَدُ أَيْضًا وَكَانَ سَمَاعُ عَبْدِ الأَعْلَى وَابْنِ الْمُثَنَّى وَابْنِ بَشَّارٍ مِنْ نُسْخَةٍ وَاحِدَةٍ فِيمَا بَلَغَنِي ‏.‏

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا : اللہ کے رسول ! لوگ مصیبت میں پڑ گئے ، گھربار تباہ ہو گئے ، مال گھٹ گئے ، جانور ہلاک ہو گئے ، لہٰذا آپ ہمارے لیے بارش کی دعا کیجئے ، ہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں اللہ کے دربار میں ، اور اللہ کو سفارشی بناتے ہیں آپ کے دربار میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارا برا ہو ، سمجھتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو ؟ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ کہنے لگے ، اور برابر کہتے رہے یہاں تک کہ اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں پر دیکھا گیا ، پھر فرمایا : ” تمہارا برا ہو اللہ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے دربار میں سفارشی نہیں بنایا جا سکتا ، اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے ، تمہارا برا ہو ! کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے ، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے ( آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا ) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے ، ( ابن بشار کی حدیث میں ہے ) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے ، اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے “ اور پھر پوری حدیث ذکر کی ۔ عبدالاعلی ، ابن مثنی اور ابن بشار تینوں نے یعقوب بن عتبہ اور جبیر بن محمد بن جبیر سے ان دونوں نے محمد بن جبیر سے اور محمد بن جبیر نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے ۔ البتہ احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے ، اس پر ان کی موافقت ایک جماعت نے کی ہے ، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے جیسا کہ احمد بن سعید نے بھی کہا ہے ، اور عبدالاعلی ، ابن مثنی اور ابن بشار کا سماع جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ، ایک ہی نسخے سے ہے ۔

Muhammad b. Jubair b. Mut’im said from his father on the authority of his grandfather:An A’rab(a nomadic Arab) came to the Messenger of Allah(ﷺ) and said: People suffering distress, the children are hungry, the crops are withered, and the animals are perished, so ask Allah to grant us rain, for we seek you as our intercessor with Allah, and Allah as intercessor with you. The Messenger of Allah(ﷺ) said: Woe to you: Do you know what you are saying? Then the Messenger of Allah(ﷺ) declared Allah’s glory and he continued declaring His glory till the effect of that was apparent in the faces of his Companions. He then said: Woe to you: Allah is not to be sought as intercessor with anyone. Allah’s state is greater than that. Woe to you! Do you know how great Allah is? His throne is above the heavens thus(indicating with his fingers like a dome over him), and it groans on account of Him as a saddle does because of the rider.

Ibn Bashshar said in his version: Allah is above the throne, and the throne is above the heavens. He then mentioned the rest of the tradition. ‘Abd al-A’la, Ibn al- Muthana and Ibn Bashshar transmitted it from Ya’qub b. ‘Utbah and Jubair b. Muhammad b. Jubair from his father on the authority of his grandfather.

Abu Dawud said: This tradition with the chain of Ahmad b. Sa’ad is sound. It has been approved by the body (of traditionists) , which includes Yahya b. Ma’in and ‘Ali b. al-Madani, and a group has transmitted it from Ibn Ishaq, as Ahmad also said. And so far as I have been informed ‘Abd al-A’la, Ibn al-Muthanna, and Ibn Bashshar had heard from the same copy(of the collection of tradition).


132

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلاَئِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِمِائَةِ عَامٍ ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے ۱؎ “ ۔

Jabir b. ‘Abd Allah reported the Prophet (May peace be upon him) as saying :I have been permitted to tell about one of Allah’s angels who bears the throne that the distance between the lobe of his ear and his shoulder is a journey of seven hundred years.


133

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، – يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ – حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ، سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏ سَمِيعًا بَصِيرًا ‏}‏ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ‏.‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ قَالَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ الْمُقْرِئُ يَعْنِي ‏{‏ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ‏}‏ يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو یونس سلیم بن جبیر کہتے ہیں کہمیں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آیت کریمہ «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها *** إلى قوله تعالى *** سميعا بصيرا» ” اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو ۔ ۔ ۔ اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے “ ( سورۃ النساء : ۵۸ ) تک پڑھتے سنا ، وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے ، ( یعنی شہادت کی انگلی کو ) ، ابوہریرہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا ۔ ابن یونس کہتے ہیں : عبداللہ بن یزید مقری نے کہا : یعنی «إن الله سميع بصير‏» پر انگلی رکھتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کان اور آنکھ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ جہمیہ کا رد ہے ۱؎ ۔

Abu Yunus Sulaim b. Jubair, client of Abu Hurairah, said :I heard Abu Hurairah recite this verse : “Allah doth command you to render back your trusts to those to whom they are due” up to “For Allah is he who heareth and seeth all things”. He said : I saw the Messenger of Allah (May peace be upon him) putting his thumb on his ear and finger on his eye.

Abu Hurairah said : I saw the Messenger of Allah (May peace be upon him) reciting this verse and putting his fingers. Ibn Yunus said that al-Muqri said. “Allah hears and sees” means that Allah has the power of hearing and seeing.

Abu Dawud said: This is a refutation of the Jahmiyyah.


134

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَوَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جُلُوسًا فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْلَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَقَالَ ‏”‏ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ‏}‏

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا ، اور فرمایا : ” تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے ، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی ، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو “ پھر آپ نے یہ آیت «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» ” اور اپنے رب کی تسبیح کرو ، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے “ ( سورۃ طہٰ : ۱۳۰ ) پڑھی ۱؎ ۔

Jarir b. ‘Abd Allah said :When we are were sitting with the Messenger of Allah (May peace be upon him) he looked at the moon on the night when it was full, that is, fourteenth, and said : You will see your Lord as you see this (moon) and have no doubts about seeing him. If, therefore, you can keep from being prevented from prayer before the sun rises and before it sets, do so. He then recited :”Celebrate the praise of your Lord before the rising of the sun and before its setting”.


135

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ نَاسٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ ‏”‏ هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا لاَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ إِلاَّ كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہکچھ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تمہیں دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو ، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدار میں کوئی دقت نہ ہو گی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں ہوتی ہے ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah said :The people asked : Messenger of Allah! Shall we see our lord, the Exalted, on the Day of resurrection? He replied : Do you feel any trouble in seeing the sun at noon when it is not in the cloud? They said: No. He asked : Do you feel any trouble in seeing the moon on the night when it is full and not in the cloud? They replied: No. He said: By him in whose hand my soul is, you will not feel any trouble in seeing him except as much as you feel in seeing any of them.


136

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ح وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، – الْمَعْنَى – عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ وَكِيعٍ، – قَالَ مُوسَى – ابْنُ عُدُسٍ عَنْ أَبِي رَزِينٍ، – قَالَ مُوسَى الْعُقَيْلِيُّ – قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكُلُّنَا يَرَى رَبَّهُ قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ مُخْلِيًا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ قَالَ ‏”‏ يَا أَبَا رَزِينٍ أَلَيْسَ كُلُّكُمْ يَرَى الْقَمَرَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ ‏”‏ لَيْلَةَ الْبَدْرِ مُخْلِيًا بِهِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقَا قُلْتُ بَلَى ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَاللَّهُ أَعْظَمُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ قَالَ ‏”‏ فَإِنَّمَا هُوَ خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ فَاللَّهُ أَجَلُّ وَأَعْظَمُ ‏”‏ ‏.‏

ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو ( قیامت کے دن ) بلا رکاوٹ دیکھے گا ؟ اور اس کی مخلوق میں اس کی مثال کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے ابورزین ! کیا تم سب چودہویں کا چاند بلا رکاوٹ نہیں دیکھتے ؟ “ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو اللہ تو اور بھی بڑا ہے “ ابن معاذ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تو اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے ، اللہ تو اس سے بہت بڑا اور عظیم ہے ۱؎ “ ۔

Narrated AbuRazin al-Uqayli:

I asked: Messenger of Allah! will each one of us see his Lord? Ibn Mu’adh’s version has: “being alone with Him, on the Day of Resurrection? And what sign is there is His creation?” He replied: AbuRazin! does each one of you not see the moon? Ibn Mu’adh’s version has: “on the night when it is full, being alone with it?” Then the agreed version goes: I said: Yes. He said: Allah is more great. Ibn Mu’adh’s version has: It is only part of Allah’s creation, but Allah is more glorious and greater.


137

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، أَنَّ أَبَا أُسَامَةَ، أَخْبَرَهُمْ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ قَالَ سَالِمٌ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَطْوِي اللَّهُ السَّمَوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ ثُمَّ يَطْوِي الأَرَضِينَ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ الْعَلاَءِ ‏”‏ بِيَدِهِ الأُخْرَى ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا ، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا ، اور کہے گا : میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے ؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے ؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا ، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا ، پھر کہے گا : میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے ؟ کہاں ہیں اترانے والے ؟ “ ۔

‘Abd Allah b. ‘Umar reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying:Allah will fold the heavens an the day of Resurrection, then seizing them in His right hand he will say: I am the king. Where are the mighty men? Where are the proud men? He will then fold the earths and take them in his other hand (According to the version of Ibn al-Ala), and then say ; I am the King. Where are the mighty men? Where are the proud men?


138

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرِ فَيَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے ، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے ، میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Prophet (May peace be upon him) as saying; Our lord gets down every night to the heaven of this world when a third night remains and says :(Is there anyone) who prays to Me so that I may accept his prayer? (Is there anyone) who asks of Me so that I may give him? (Is there anyone) who asks for my forgiveness so that I may forgive him?


139

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ فَقَالَ ‏ “‏ أَلاَ رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلاَمَ رَبِّي ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو موقف ( عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے : ” کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے ، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Messenger of Allah (ﷺ) presented himself to the people at Arafat, saying: Is there any man who takes me to his people? The Quraysh have prevented me from preaching the word of my Lord.


14

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، – يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ – قَالَ أَخْبَرَنِي الْعَلاَءُ، – يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ – عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلاَلَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص دوسروں کو نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت سے جتنے لوگ ان نیک باتوں پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے ، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جاتی ، اور جو کسی گمراہی و ضلالت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے اس پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس کو گناہ ہوتا ہے اور ان کے گناہوں میں ( بھی ) کوئی کمی نہیں ہوتی “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:If anyone summons other to follow right guidance, his reward will be equivalent to that of the people who follow him, without their rewards being diminished in any respect on that account; and if anyone summons others to follow error the sin of which sins being diminished in any respect on that account.


140

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً، مِنَ الْحَدِيثِ قَالَتْ وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںمیرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ۱؎ ۔

‘A’ishah said:I thought in my mind that my affair was far inferior to the speaking of Allah about me with a command that will be recited.


141

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، – يَعْنِي الشَّعْبِيَّ – عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ، قَالَ ‏:‏ كُنْتُ عِنْدَ النَّجَاشِيِّ فَقَرَأَ ابْنٌ لَهُ آيَةً مِنَ الإِنْجِيلِ فَضَحِكْتُ فَقَالَ ‏:‏ أَتَضْحَكُ مِنْ كَلاَمِ اللَّهِ

عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نجاشی کے پاس تھا کہ ان کے ایک لڑکے نے انجیل کی ایک آیت پڑھی ، تو میں ہنس پڑا انہوں نے کہا : کیا تم اللہ کے کلام پر ہنستے ہو ؟

‘Amir b. Shahr said :I was with the Negus when his son recited a verse of the Gospel. So I laughed. Thereupon he said : Do you laugh at the word of Allah, the Exalted?


142

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ ‏:‏ ‏”‏ أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ ‏:‏ ‏”‏ كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ لَيْسَ بِمَخْلُوقٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے ( ان الفاظ میں ) اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة» ” میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ ، ہر شیطان سے ، ہر زہریلے کیڑے ( سانپ بچھو وغیرہ ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے “ پھر فرماتے : ” تمہارے باپ ( ابراہیم ) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے ۔

Ibn ‘abbas said :The Prophet (May peace be upon him) used to seek refuge in Allah for al-Hasan and al-husain, saying ; I seek refuge for both of you in the perfect words of Allah from every devil and every poisonous thing and from the evil eye which influences. He would then say; your father sought refuge in Allah by them for Ismail and Ishaq.

Abu Dawud said; this is a proof of the fact that the Quran is not created.


143

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ الرَّازِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالْوَحْىِ سَمِعَ أَهْلُ السَّمَاءِ لِلسَّمَاءِ صَلْصَلَةً كَجَرِّ السِّلْسِلَةِ عَلَى الصَّفَا فَيُصْعَقُونَ، فَلاَ يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ جِبْرِيلُ حَتَّى إِذَا جَاءَهُمْ جِبْرِيلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَيَقُولُونَ ‏:‏ يَا جِبْرِيلُ مَاذَا قَالَ رَبُّكَ فَيَقُولُ ‏:‏ الْحَقَّ فَيَقُولُونَ ‏:‏ الْحَقَّ الْحَقَّ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ وحی کے لیے کلام کرتا ہے تو سبھی آسمان والے آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو ، پھر وہ بیہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں ، جب جبرائیل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کی غشی جاتی رہتی ہے ، پھر وہ کہتے ہیں : اے جبرائیل ! تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : حق ( فرمایا ) تو وہ سب کہتے ہیں حق ( فرمایا ) حق ( فرمایا ) “ ۔

‘Abd Allah (b. Mas’ud) reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:”When Allah, the exalted, speaks to send revelation, the inhabitants of heaven hear the clanging of a bell from the heavens like a chain being dragged across a rock, and they swoon. They continue to remain like that until Jibril comes to them. When he comes to them, they recover and say: ‘O Jibril, what did your Lord say?’ He would say: ‘The truth,’ and they would say: ‘The truth, the truth.'”


144

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا بِسْطَامُ بْنُ حُرَيْثٍ، عَنْ أَشْعَثَ الْحُدَّانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ شَفَاعَتِي لأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری شفاعت ۱؎ میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے ۲؎ “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: My intercession will be for those of my people who have committed major sins.


145

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَيُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ ‏”‏ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کچھ لوگ جہنم سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سفارش پر نکالے جائیں گے ، وہ جنت میں داخل ہوں گے ، اور وہ «جهنميين» جہنمی کہہ کر پکارے جائیں گے “ ۔

‘Imran b. Husain reported the Prophet(ﷺ) as saying:People will come forth from Hell by Muhammad’s intercession, will enter paradise and be named Jahannamis.


146

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونَ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” جنت والے اس میں کھائیں گے پیئیں گے ۱؎ “ ۔

Jabir said:I heard the Prophet(ﷺ) say: Those who go to Paradise will eat in it and drink.


147

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ، حَدَّثَنَا أَسْلَمُ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ الصُّورُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «صور» ایک سنکھ ہے ، جس میں پھونک ماری جائے گی “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: The trumpet (sur) which will be blown.


148

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ كُلَّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُ الأَرْضُ إِلاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ، مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يُرَكَّبُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” زمین ابن آدم ( انسان ) کے تمام اعضاء ( جسم ) کو بجز ریڑھ کی نچلی ہڈی کے کھا جاتی ہے اس لیے کہ وہ اسی سے پیدا ہوا ہے ۱؎ ، اور اسی سے اسے دوبارہ جوڑ کر اٹھایا جائے گا “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of AllSah(ﷺ) as saying:Every son of Adam will be devoured by the earth with the exception of the tail-bone from which he was created and from which he will be reconstituted.


149

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ لِجِبْرِيلَ ‏:‏ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا ‏.‏ فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ ‏:‏ أَىْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لاَ يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلاَّ دَخَلَهَا ثُمَّ حَفَّهَا بِالْمَكَارِهِ ثُمَّ قَالَ ‏:‏ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ ‏:‏ أَىْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لاَ يَدْخُلَهَا أَحَدٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ قَالَ ‏:‏ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا ‏.‏ فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ ‏:‏ أَىْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لاَ يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلُهَا فَحَفَّهَا بِالشَّهَوَاتِ ثُمَّ قَالَ ‏:‏ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا ‏.‏ فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ ‏:‏ أَىْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لاَ يَبْقَى أَحَدٌ إِلاَّ دَخَلَهَا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو جبرائیل سے فرمایا : جاؤ اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا ، پھر واپس آئے ، اور کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ، اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا وہ اس میں ضرور داخل ہو گا ، پھر ( اللہ نے ) اسے مکروہات ( ناپسندیدہ ) ( چیزوں ) سے گھیر دیا ، پھر فرمایا : اے جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا ، پھر لوٹ کر آئے تو بولے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا ، جب اللہ نے جہنم کو پیدا کیا تو فرمایا : اے جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا ، پھر واپس آئے اور کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! جو اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل نہ ہو گا ، تو اللہ نے اسے مرغوب اور پسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا ، پھر فرمایا : جبرائیل ! جاؤ اور اسے دیکھو ، وہ گئے ، جہنم کو دیکھا پھر واپس آئے اور عرض کیا : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں بچے گا جو اس میں داخل نہ ہو ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: When Allah created Paradise, He said to Gabriel: Go and look at it. He went and looked at it, then came and said: O my Lord! By Thy might, no one who hears of it will fail to enter it.

He then surrounded it with disagreeable things, and said: Go and look at it, Gabriel. He went and looked at it, then came and said: O my Lord! By Thy might, I am afraid that no one will enter it.

When Allah created Hell, He said: Go and look at it, Gabriel. He went and looked at it, then came and said: O my Lord! By Thy might, no one who hears of it will enter it.

He then surrounded it with desirable things and said: Go and look at it, Gabriel. He went, looked at it, then came and said: O my Lord! By Thy might and power, I am afraid that no one will remain who does not enter it.


15

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ‏”‏ ‏.‏

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎ “ ۔

‘Amir b. sa’id on his father’s authority reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:The Muslim who offends most against the Muslims is he who enquires about something which has not been forbidden to men, and it is declared forbidden because of his enquiry.


150

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ إِنَّ أَمَامَكُمْ حَوْضًا مَا بَيْنَ نَاحِيَتَيْهِ كَمَا بَيْنَ جَرْبَاءَ وَأَذْرُحَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے سامنے ( قیامت کے دن ) ایک حوض ہو گا ، جس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا «جرباء» اور «اذرح» ۱؎ کے درمیان ہے ۲؎ “ ۔

Ibn ‘Umar reported the Messenger of Allah(ﷺ) as saying:Before you there will be a pond the distance between whose sides is like that between Jarbah and Adhruh.


151

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ ‏:‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَا أَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَىَّ الْحَوْضَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ ‏:‏ كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ ‏:‏ سَبْعَمِائَةٍ أَوْ ثَمَانَمِائَةٍ ‏.‏

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو آپ نے فرمایا : ” تم لوگ ان لوگوں کے ایک لاکھ حصوں میں کا ایک حصہ بھی نہیں ہو جو لوگ حشر میں حوض کوثر پر آئیں گے “ ۔ راوی ( ابوحمزہ ) کہتے ہیں : میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا : اس دن آپ لوگ کتنے تھے ؟ کہا : سات سویا آٹھ سو ۔

Narrated Zayd ibn Arqam:

We were with the Messenger of Allah (ﷺ). He said when we arrived at a halting place: You are not a hundred thousandth part of those who will come down to me at the pond. I (the narrator AbuHamzah) asked: What was your number that day? He replied: Seven or eight hundred.


152

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ ‏:‏ أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِغْفَاءَةً فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَإِمَّا قَالَ لَهُمْ وَإِمَّا قَالُوا لَهُ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ ضَحِكْتَ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّهُ أُنْزِلَتْ عَلَىَّ آنِفًا سُورَةٌ ‏”‏ ‏.‏ فَقَرَأَ ‏‏ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} ‏‏ حَتَّى خَتَمَهَا فَلَمَّا قَرَأَهَا قَالَ ‏:‏ ‏”‏ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ ‏”‏ ‏.‏

مختار بن فلفل کہتے ہیں کہمیں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا : ( ایک بار ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہلکی اونگھ طاری ہوئی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا ، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا ، یا لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابھی میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا : «بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ سورت ختم کر لی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے ، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت ( پینے ) آئے گی ، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے “ ۔

Anas b. Malik said:The Messenger of Allah(ﷺ) dozed for a short while and raised his smiling. He either said to them(people) or they said to him: Messenger of Allah! Why did you laugh? He said: A surah has been revealed to me just now, and then he recited: “In the name of Allah, Most Gracious. Most Merciful. To thee We have granted the fount (of abundance)” up to the end. When he recited, he asked: Do you know what al-kauthar is? They replied: Allah and his Apostle know best. He said: It is a river which my Lord, the Exalted, has promised me( to grant) in Paradise: there is abundance of good and upon it there is a pond which my people will approach on the Day of Resurrection. There are vessels as numerous as stars(in the sky).


153

حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ ‏:‏ لَمَّا عُرِجَ بِنَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْجَنَّةِ – أَوْ كَمَا قَالَ – عُرِضَ لَهُ نَهْرٌ حَافَتَاهُ الْيَاقُوتُ الْمُجَيَّبُ أَوْ قَالَ الْمُجَوَّفُ، فَضَرَبَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعَهُ يَدَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا فَقَالَ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم لِلْمَلَكِ الَّذِي مَعَهُ ‏:‏ ‏ “‏ مَا هَذَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیںجب اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں جنت میں لے جایا گیا تو آپ کے سامنے ایک نہر لائی گئی ، جس کے دونوں کنارے «مجیّب» یا کہا «مجوّف» ( خول دار ) یاقوت کے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو فرشتہ تھا اس نے اپنا ہاتھ مارا اور اندر سے مشک نکالی ، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والے فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : یہی کوثر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے ۔

Narrated Anas ibn Malik:

When the Prophet of Allah (ﷺ) was lifted to the heavens (for travelling) in Paradise, or as he said, a river whose banks were of transparent or hollowed pearls was presented to him. The angel who was with him struck it with his hand and took out musk. Muhammad (ﷺ) then asked the angel who was with him: What is this? He replied: It is al-Kawthar which Allah has given you.


154

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ أَبُو طَالُوتَ، قَالَ شَهِدْتُ أَبَا بَرْزَةَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ فَحَدَّثَنِي فُلاَنٌ، سَمَّاهُ مُسْلِمٌ وَكَانَ فِي السِّمَاطِ فَلَمَّا رَآهُ عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ ‏:‏ إِنَّ مُحَمَّدِيَّكُمْ هَذَا الدَّحْدَاحُ، فَفَهِمَهَا الشَّيْخُ فَقَالَ مَا كُنْتُ أَحْسِبُ أَنِّي أَبْقَى فِي قَوْمٍ يُعَيِّرُونِي بِصُحْبَةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ إِنَّ صُحْبَةَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم لَكَ زَيْنٌ غَيْرُ شَيْنٍ ثُمَّ قَالَ ‏:‏ إِنَّمَا بُعِثْتُ إِلَيْكَ لأَسْأَلَكَ عَنِ الْحَوْضِ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ فِيهِ شَيْئًا فَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ ‏:‏ نَعَمْ لاَ مَرَّةً وَلاَ ثِنْتَيْنِ وَلاَ ثَلاَثًا وَلاَ أَرْبَعًا وَلاَ خَمْسًا، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ فَلاَ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْهُ ثُمَّ خَرَجَ مُغْضَبًا ‏.‏

عبدالسلام بن ابی حازم ابوطالوت بیان کرتے ہیں کہمیں نے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاں گئے ، پھر مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا جو ان کی جماعت میں شریک تھا ، ( مسلم نے اس کا نام ذکر کیا ہے ) جب انہیں عبیداللہ نے دیکھا تو بولا : دیکھو تمہارا یہ محمدی موٹا ٹھگنا ہے ، تو شیخ ( ابوبرزہ ) اس کے اس طعنہ اور توہین کو سمجھ گئے اور بولے : مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں ایسے لوگوں میں باقی رہ جاؤں گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا مجھے طعنہ دیں گے ، تو عبیداللہ نے ان سے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو آپ کے لیے فخر کی بات ہے ، نہ کہ عیب کی ، پھر کہنے لگا : میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ سے حوض کوثر کے بارے میں معلوم کروں ، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ ذکر فرماتے سنا ہے ؟ تو ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں ایک بار نہیں ، دو بار نہیں ، تین بار نہیں ، چار بار نہیں ، پانچ بار نہیں ( یعنی بہت بار سنا ہے ) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے ، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے ۔

AbdusSalam ibn AbuHazim AbuTalut said:I saw AbuBarzah who came to visit Ubaydullah ibn Ziyad. Then a man named Muslim who was there in the company mentioned it to me. When Ubaydullah saw him, he said: This Muhammadan [i.e. Companion of Muhammad (ﷺ)] of yours is short and fat. The old man (i.e. AbuBarzah) understood it. So he said: I did not think I would remain amongst a people who would criticize me for having had the company of Muhammad (ﷺ). Thereupon Ubaydullah said to him: The company of Muhammad (ﷺ) is a honour for you, not a disgrace. He added: I called for you to ask about the Haud (reservoir or cistern). Did you hear the Messenger of Allah (ﷺ) say anything about it? AbuBarzah said: Yes, not once, twice, thrice, four times or five times. Whoever disbelieves in it, may Allah not supply him with water from it. He then went away angrily.


155

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ فَشَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ‏}‏ ‏.‏

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں “ ۔ تو یہی مراد ہے اللہ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» ” اللہ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط کرتا ہے “ ( سورۃ ابراہیم : ۲۷ ) سے ۔

Al-Bara’ b. ‘Azib reported the Messenger of Allah(ﷺ) as saying:When a Muslim is questioned in the grave he testifies that there is no god but Allah and that Muhammad is Allah’s Apostle. That is verified by Allah’s words: “Allah establishes those who believe with the word that stands firm.”


156

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ أَبُو نَصْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ ‏:‏ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ نَخْلاً لِبَنِي النَّجَّارِ فَسَمِعَ صَوْتًا فَفَزِعَ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَقُولُ لَهُ ‏:‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ قَالَ ‏:‏ كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُ ‏:‏ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ ‏:‏ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَىْءٍ غَيْرَهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ ‏:‏ هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ وَرَحِمَكَ فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ ‏:‏ دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُ ‏:‏ اسْكُنْ ‏.‏ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَنْتَهِرُهُ فَيَقُولُ لَهُ ‏:‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ فَيَقُولُ ‏:‏ لاَ أَدْرِي ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُ ‏:‏ لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُ ‏:‏ فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ ‏:‏ كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ ‏.‏ فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہاللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے ، تو ایک آواز سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھے ، فرمایا : ” یہ قبریں کس کی ہیں ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو “ لوگوں نے عرض کیا : ایسا کیوں ؟ اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے ، اور اس سے کہتا ہے : تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : میں اللہ کی عبادت کرتا تھا ؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے ، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے ؟ ۱؎ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا ، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے ، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے : یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا ، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا ، تو وہ کہتا ہے : مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں ، لیکن اس سے کہا جاتا ہے ، ٹھہرا رہ ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے ، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے : تو کس کی عبادت کرتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ، تو اس سے کہا جاتا ہے : نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی ( یعنی قرآن ) ، پھر اس سے کہا جاتا ہے : تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے ، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے ، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے “ ۔

Anas b. Malik said:The Messenger of Allah(ﷺ) entered the garden of the palm trees of Banu al-Najjar. He heard a voice and was terrified. He asked: Who are the people buried in these graves? The people replied: Messenger of Allah! These are some people who died in the pre-Islamic times. He said: Seek refuge in Allah from the punishment of the fire, and the trail of Antichrist. They asked: Why is it that, Messenger of Allah? He said: When a man is placed in his grave, an angel comes to him and says to him: Whom did you worship? Allah then guides him and he says: I worshiped Allah. He is then asked: What was your opinion of this man? He replies: He is Allah’s servant and His Apostle. He will not then be asked about anything else. He will then be taken to his abode in Hell and will be told: This was your abode in Hell, but Allah protected you and had mercy on you substituted for you an abode in Paradise for it. He will say: Leave me so that I may go and give glad tidings to my family. He will be told: Dwell. When an infidel is placed in his grave, an angel comes to him, reprimands him and asks him: Whom did you worship? He replies: I do not know. He will be told: You neither knew nor did you follow(the believers). He is then asked: What was your opinion on this man? He replies: I held the opinion that the other people held. He will then give him a blow between his ears with an iron hammer and will utter a shout which will be heard by all the creatures(near him) with the exception of men and jinn.


157

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، بِمِثْلِ هَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ قَرِيبًا مِنْ حَدِيثِ الأَوَّلِ قَالَ فِيهِ ‏:‏ ‏”‏ وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ ‏:‏ ‏”‏ الْمُنَافِقُ ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ ‏”‏ ‏.‏

عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہےاس میں ہے : ” جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے ، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے ، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا ، اور اس میں اس طرح ہے : رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں “ راوی نے ” منافق “ کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ہے : ” اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے ، سوائے آدمی اور جن کے ۱؎ “ ۔

The tradition mentioned above has also transmitted by ‘Abd al-Wahhab through a different chain of narrators in a similar manner. This version has :When a man is placed in his grave and his friends leave him, he hears the beat of their sandals. Then two angles come and speak to him. He then mentioned the rest of the tradition nearly similar to the previous one. It goes : As for the infidel and hypocrite they say to them. This version adds the word “hypocrite”. And he said : those who are near him will hear (his shout) with the exception of men and jinn.


158

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ح وَحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، – وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ – عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ ‏:‏ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ‏”‏ ‏.‏ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا – زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَا هُنَا – وَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ ‏:‏ يَا هَذَا مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ وَمَنْ نَبِيُّكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ هَنَّادٌ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏:‏ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ ‏:‏ رَبِّيَ اللَّهُ ‏.‏ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏:‏ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ‏:‏ دِينِي الإِسْلاَمُ ‏.‏ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏:‏ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ قَالَ فَيَقُولُ ‏:‏ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَيَقُولاَنِ ‏:‏ وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ ‏:‏ قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ ‏:‏ ‏”‏ فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا ‏}‏ ‏”‏ ‏.‏ الآيَةَ ‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقَا قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ ‏:‏ أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَإِنَّ الْكَافِرَ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ مَوْتَهُ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولاَنِ ‏:‏ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ ‏:‏ هَاهْ هَاهْ هَاهْ لاَ أَدْرِي ‏.‏ فَيَقُولاَنِ لَهُ ‏:‏ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ‏:‏ هَاهْ هَاهْ لاَ أَدْرِي ‏.‏ فَيَقُولاَنِ ‏:‏ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ ‏:‏ هَاهْ هَاهْ لاَ أَدْرِي ‏.‏ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ ‏:‏ أَنْ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلاَعُهُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلاَّ الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ ‏”‏ ‏.‏

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے ، ہم قبر کے پاس پہنچے ، وہ ابھی تک تیار نہ تھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا : ” قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو “ اسے دو بار یا تین بار فرمایا ، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : اور فرمایا : ” اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں ، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے ، اے جی ! تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ اور تمہارا نبی کون ہے ؟ “ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا رب ( معبود ) کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے ، میرا رب ( معبود ) اللہ ہے ، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ، پھر پوچھتے ہیں : یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا “ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے : ” اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے “ ( پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو ، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو ، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے ، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے “ ۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : ” اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : اس نے جھوٹ کہا ، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو ، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو ، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا ( لو ) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں “ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے : ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا ( فرشتہ ) مقرر کر دیا جاتا ہے ، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے ، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے “ ۔

Narrated Al-Bara’ ibn Azib:

We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) accompanying the bier of a man of the Ansar. When we reached his grave, it was not yet dug. So the Messenger of Allah (ﷺ) sat down and we also sat down around him as if birds were over our heads. He had in his hand a stick with which he was scratching the ground.

He then raised his head and said: Seek refuge with Allah from the punishment in the grave. He said it twice or thrice.

The version of Jabir adds here: He hears the beat of their sandals when they go back, and at that moment he is asked: O so and so! Who is your Lord, what is your religion, and who is your Prophet?

Hannad’s version says: Two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord?

He will reply: My Lord is Allah. They will ask him: What is your religion? He will reply: My religion is Islam. They will ask him: What is your opinion about the man who was sent on a mission among you? He will reply: He is the Messenger of Allah (ﷺ). They will ask: Who made you aware of this? He will reply: I read Allah’s Book, believed in it, and considered it true; which is verified by Allah’s words: “Allah’s Book, believed in it, and considered it true, which is verified by Allah’s words: “Allah establishes those who believe with the word that stands firm in this world and the next.”

The agreed version reads: Then a crier will call from Heaven: My servant has spoken the truth, so spread a bed for him from Paradise, clothe him from Paradise, and open a door for him into Paradise. So some of its air and perfume will come to him, and a space will be made for him as far as the eye can see.

He also mentioned the death of the infidel, saying: His spirit will be restored to his body, two angels will come to him, make him sit up and ask him: Who is your Lord?

He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask him: What is your religion? He will reply: Alas, alas! I do not know. They will ask: Who was the man who was sent on a mission among you? He will reply: Alas, alas! I do not know. Then a crier will call from Heaven: He has lied, so spread a bed for him from Hell, clothe him from Hell, and open for him a door into Hell. Then some of its heat and pestilential wind will come to him, and his grave will be compressed, so that his ribs will be crushed together.

Jabir’s version adds: One who is blind and dumb will then be placed in charge of him, having a sledge-hammer such that if a mountain were struck with it, it would become dust. He will give him a blow with it which will be heard by everything between the east and the west except by men and jinn, and he will become dust. Then his spirit will be restored to him.


159

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا الْمِنْهَالُ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، ‏:‏ زَاذَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ ‏.‏

ابوعمر زاذان کہتے ہیں کہمیں نے براء رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے سنا ، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Al-Bara’ (b. ‘Azib) from the prophet (May peace be upon him) through a different chain of narrators is a similar way.


16

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيَّ، عَائِذَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عُمَيْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ قَالَ كَانَ لاَ يَجْلِسُ مَجْلِسًا لِلذِّكْرِ حِينَ يَجْلِسُ إِلاَّ قَالَ اللَّهُ حَكَمٌ قِسْطٌ هَلَكَ الْمُرْتَابُونَ فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَوْمًا إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ مَا لِلنَّاسِ لاَ يَتَّبِعُونِي وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ مَا هُمْ بِمُتَّبِعِيَّ حَتَّى أَبْتَدِعَ لَهُمْ غَيْرَهُ فَإِيَّاكُمْ وَمَا ابْتُدِعَ فَإِنَّ مَا ابْتُدِعَ ضَلاَلَةٌ وَأُحَذِّرُكُمْ زَيْغَةَ الْحَكِيمِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلاَلَةِ عَلَى لِسَانِ الْحَكِيمِ وَقَدْ يَقُولُ الْمُنَافِقُ كَلِمَةَ الْحَقِّ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ لِمُعَاذٍ مَا يُدْرِينِي رَحِمَكَ اللَّهُ أَنَّ الْحَكِيمَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلاَلَةِ وَأَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الْحَقِّ قَالَ بَلَى اجْتَنِبْ مِنْ كَلاَمِ الْحَكِيمِ الْمُشْتَهِرَاتِ الَّتِي يُقَالُ لَهَا مَا هَذِهِ وَلاَ يُثْنِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ فَإِنَّهُ لَعَلَّهُ أَنْ يُرَاجِعَ وَتَلَقَّ الْحَقَّ إِذَا سَمِعْتَهُ فَإِنَّ عَلَى الْحَقِّ نُورًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا وَلاَ يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ مَكَانَ يُثْنِيَنَّكَ ‏.‏ وَقَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا الْمُشَبَّهَاتِ مَكَانَ الْمُشْتَهِرَاتِ وَقَالَ لاَ يُثْنِيَنَّكَ كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ بَلَى مَا تَشَابَهَ عَلَيْكَ مِنْ قَوْلِ الْحَكِيمِ حَتَّى تَقُولَ مَا أَرَادَ بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ ‏.‏

ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہیزید بن عمیرہ ( جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے ) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس میں وعظ کہنے کو بیٹھتے تو کہتے : اللہ بڑا حاکم اور عادل ہے ، شک کرنے والے تباہ ہو گئے تو ایک روز معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے : تمہارے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے ، ان ( دنوں ) میں مال کثرت سے ہو گا ، قرآن آسان ہو جائے گا ، یہاں تک کہ اسے مومن و منافق ، مرد و عورت ، چھوٹے بڑے ، غلام اور آزاد سبھی حاصل کر لیں گے ، تو قریب ہے کہ کہنے والا کہے : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ میری پیروی نہیں کرتے ، حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے ، وہ میری پیروی اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی نئی چیز نہ نکالوں ، لہٰذا جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو ۱؎ اس لیے کہ ہر وہ نئی چیز جو نکالی جائے گمراہی ہے ، اور میں تمہیں حکیم و دانا کی گمراہی سے ڈراتا ہوں ، اس لیے کہ بسا اوقات شیطان ، حکیم و دانا شخص کی زبانی گمراہی کی بات کہتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے ۔ میں نے معاذ سے کہا : ( اللہ آپ پر رحم کرے ) مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ حکیم و دانا گمراہی کی بات کہتا ہے ، اور منافق حق بات ؟ وہ بولے : کیوں نہیں ، حکیم و عالم کی ان مشہور باتوں سے بچو ، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو کہ وہ یوں نہیں ہے ، لیکن یہ چیز تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دے ، اس لیے کہ امکان ہے کہ وہ ( اپنی پہلی بات سے ) پھر جائے اور حق پر آ جائے ، اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو ، اس لیے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس قصے میں معمر نے زہری سے «ولا يثنينك ذلك عنه» کے بجائے «ولا ينئينك ذلك عنه» روایت کی ہے اور صالح بن کیسان نے زہری سے اس میں «المشتهرات» کے بجائے «المشبهات» روایت کی ہے اور «ولا يثنينك» ہی روایت کی ہے جیسا کہ عقیل کی روایت میں ہے ۔ ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے : کیوں نہیں ، جب کسی حکیم و عالم کا قول تم پر مشتبہ ہو جائے یہاں تک کہ تم کہنے لگو کہ اس بات سے اس کا کیا مقصد ہے ؟ ( تو سمجھ لو کہ یہ حکیم و عالم کی زبانی گمراہی کی بات ہے ) ۲؎ ۔

Yazid b. ‘Umairah, who was one of the companions of Mu’adh b. Jabal said:Whenever he (mu’adh b. jabal) sat in a meeting for preaching, he would say: Allah is a just arbiter; those who doubt would perish. One day Mu’adh b. jabal said: In the times after you there would be trails in which riches would be abundant. During these trails the Quran would be easy so much so that every believer, hypocrite, man, woman, young, grown up, slave and free man will learn it. Then a man might say: What happened with the people that they do not follow me while I read the Quran? They are not going to follow me until I introduce a novelty for them other than it. So avoid that which is innovated (in religion), for whichever is innovated is an error. I warn you of the deviation of a scholar from right guidance, for sometimes Satan utters a word of error through the tongue of a scholar; and sometimes a hypocrites may speak a word of truth. I said to Mu’adh b. jabal: I am at a loss to understand may Allah have mercy on you that a learned man sometimes may speak a word of error and a hypocrite may speak a word of truth. He replied: Yes, avoid the speech of a learned man on distract you from him (the learned), for it is possible that he may withdraw (from these well-known things), and you get the truth when you hear it, for truth has light.

Abu Dawud said: In this tradition Ma’mar on the authority of al-Zuhrl said: The words “wa la yun iyannaka” instead of “wa la yuthniyannaka,” with the same meaning: “it may not distract you” salih b. Kaisan on the authority of al-Zurhrl said in this tradition the words “al-mushtaharat” (well-know things). He also said the word “La yuthniyannaka” as ‘Uqail mentioned. Ibn ishaq, on the authority of al-Zuhri, said: Yes, if you are doubtful about the speech of a scholar until you say: WHAT did he mean by this word?


160

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، ‏:‏ أَنَّهَا ذَكَرَتِ النَّارَ فَبَكَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ مَا يُبْكِيكِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ ‏:‏ ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ، فَهَلْ تَذْكُرُونَ أَهْلِيكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ أَمَّا فِي ثَلاَثَةِ مَوَاطِنَ فَلاَ يَذْكُرُ أَحَدٌ أَحَدًا ‏:‏ عِنْدَ الْمِيزَانِ حَتَّى يَعْلَمَ أَيَخِفُّ مِيزَانُهُ أَوْ يَثْقُلُ، وَعِنْدَ الْكِتَابِ حِينَ يُقَالُ ‏{‏ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ ‏}‏ حَتَّى يَعْلَمَ أَيْنَ يَقَعُ كِتَابُهُ أَفِي يَمِينِهِ أَمْ فِي شِمَالِهِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ، وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَيْنَ ظَهْرَىْ جَهَنَّمَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَعْقُوبُ ‏:‏ عَنْ يُونُسَ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ ‏.‏

حسن بصری کہتے ہیں کہام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جہنم کا ذکر کیا تو رونے لگیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم کیوں روتی ہو ؟ “ ، وہ بولیں : مجھے جہنم یاد آ گئی تو رونے لگی ، کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین جگہوں پر تو وہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا : ایک میزان کے پاس یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا میزان ہلکا ہے یا بھاری ہے ، دوسرے کتاب کے وقت جب کہا جائے گا : آؤ پڑھو اپنی اپنی کتاب یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی کتاب کس میں دی جائے گی آیا دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں ، یا پھر پیٹھ کے پیچھے سے اور تیسرے پل صراط کے پاس جب وہ جہنم پر رکھا جائے گا “ ۔ یعقوب نے «عن يونس» کے الفاظ سے روایت کی اور یہ حدیث اسی کے الفاظ میں ہے ۔

‘A’ishah said that she thought of Hell and wept. The Messenger of Allah (May peace be upon him) asked her :What makes you weep ? She replied : I thought of Hell and wept. Will you remember your family on the 4th Day of resurrection ? the Messenger of Allah (May peace be upon him) said : There are three places where no one will remember anyone: at the scale until one knows whether his weight is light or heavy; at (the examination of) the book when one is commanded : Take and read Allah’s record, until he knows whether his book will be put into his right hand, or into his left hand, or behind his back ; and the path when it is placed across JAHANNAM.


161

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلاَّ وَقَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَهُ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ ‏”‏ ‏.‏ فَوَصَفَهُ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ لَعَلَّهُ سَيُدْرِكُهُ مَنْ قَدْ رَآنِي وَسَمِعَ كَلاَمِي ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ أَمِثْلُهَا الْيَوْمَ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَوْ خَيْرٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” نوح کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تمہیں اس سے ڈراتا ہوں “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی صفت بیان کی اور فرمایا : ” شاید اسے وہ شخص پائے جس نے مجھے دیکھا اور میری بات سنی “ لوگوں نے عرض کیا : اس دن ہمارے دل کیسے ہوں گے ؟ کیا اسی طرح جیسے آج ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سے بھی بہتر “ ( کیونکہ فتنہ و فساد کے باوجود ایمان پر قائم رہنا زیادہ مشکل ہے ) ۔

Narrated AbuUbaydah ibn al-Jarrah:

I heard the Prophet (ﷺ) say: There has been no Prophet after Noah who has not warned his people about the antichrist (Dajjal), and I warn you of him. The Messenger of Allah (ﷺ) described him to us, saying: Perhaps some who have seen me and heard my words will live till his time. The people asked: Messenger of Allah! what will be the condition of our hearts on that day? Like what we are today? He replied: Or better.


162

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ ‏:‏ قَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، فَذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ إِنِّي لأُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلاً لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ ‏:‏ إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے ، اللہ کی لائق شان حمد و ثنا بیان فرمائی ، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا : ” میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو ، نوح ( علیہ السلام ) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا ، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتا رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی : وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے “ ۔

Ibn Umar reported:The Messenger of Allah (May peace be upon him) stood among the people and praised Allah in a way which is worthy of him, and mentioned the Antichrist (Dajjal), saying : I warn you of him, and there has been no prophet who has not warned his people about him, and Noah also warned his people about him. But I tell you about him a word which no Prophet had told his people : you should know that he will be blind in one eye, and Allah is not blind is one eye.


163

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَمَنْدَلٌ عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي جَهْمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے جماعت ۲؎ سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا “ ۔

Narrated AbuDharr:

The Prophet (ﷺ) said: He who separates from the community within a span takes off the noose of Islam from his neck.


164

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ كَيْفَ أَنْتُمْ وَأَئِمَّةٌ مِنْ بَعْدِي يَسْتَأْثِرُونَ بِهَذَا الْفَىْءِ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ ‏:‏ إِذًا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعُ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، ثُمَّ أَضْرِبُ بِهِ حَتَّى أَلْقَاكَ أَوْ أَلْحَقَكَ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَوَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ تَصْبِرُ حَتَّى تَلْقَانِي ‏”‏ ‏.‏

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارا کیا حال ہو گا ۱؎ جب میرے بعد حکمراں اس مال فے کو اپنے لیے مخصوص کر لیں گے “ میں نے عرض کیا : تب تو اس ذات کی قسم ، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا ، پھر اس سے ان کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں یا آ ملوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو “ ۔

Abu Dharr reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :How will you deal with the rulers (imams) who appropriate to themselves this booty? I said : I swear by him who sent you with the truth that at that time I shall put my sword on my shoulder and smite with it till I meet you, or I join you. He said: shall I not guide you to something better than that? You must show endurance till you meet me.


165

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ، وَهِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُونَ فَمَنْ أَنْكَرَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ هِشَامٌ ‏:‏ ‏”‏ بِلِسَانِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ كَرِهَ بِقَلْبِهِ فَقَدْ سَلِمَ وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ ‏”‏ ‏.‏ فَقِيلَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ نَقْتُلُهُمْ قَالَ ابْنُ دَاوُدَ ‏:‏ ‏”‏ أَفَلاَ نُقَاتِلُهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ لاَ مَا صَلَّوْا ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف ( نیک اعمال ) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر ( خلاف شرع امور ) بھی دیکھو گے ، تو جس نے منکر کا انکار کیا ، ( ابوداؤد کہتے ہیں : ہشام کی روایت میں «بلسانہ» کا لفظ بھی ہے ( جس نے منکر کا ) اپنی زبان سے انکار کیا ) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا ، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا “ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں ؟ ( سلیمان ابن داود طیالسی ) کی روایت میں ہے : کیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ۱؎ “ ۔

Umm Salamah, wife of the Prophet (May peace be upon him) is reported to have said:The Messenger of Allah (May peace be upon him) said: You will have commanders some of whom you will approve and some of whom you will disapprove. He who expresses disapproval with his tongue (Abu Dawud said : This is Hisham’s version) is guiltless; and he who feels disapproval in his heart, is safe, but he who is pleased and follows them. He was asked; shall we not kill them, Messenger of Allah? Abu Dawud’s version has : Shall we not fight with them? He replied : No, so long as they pray.


166

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمَعْنَاهُ قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ فَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ سَلِمَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ ‏:‏ يَعْنِي مَنْ أَنْكَرَ بِقَلْبِهِ، وَمَنْ كَرِهَ بِقَلْبِهِ ‏.‏

اس سند سے بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ، البتہ اس میں یہ ہے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے ناپسند کیا تو وہ بری ہو گیا اور جس نے کھل کر انکار کر دیا تو وہ محفوظ ہو گیا “ قتادہ کہتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جس نے دل سے اس کا انکار کیا اور جس نے دل سے اسے ناپسند کیا ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Umm Salamah through a different chain of narrators to the same effect. This version has :He who disapproves is guiltless, and he who disapproves is safe. Qatadah said : it means one who feels its disapproval in his heart, and one who expresses disapproval in his heart.


167

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عَلاَقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ سَتَكُونُ فِي أُمَّتِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ ‏”‏ ‏.‏

عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے ، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو “ ۔

‘Arfajah told that he heard the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :various corruptions will arise in my community, so strike with sword the one who tries to cause separation in the matter of Muslims when they are united, whoever he be.


168

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، ‏:‏ أَنَّ عَلِيًّا، ذَكَرَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ فَقَالَ ‏:‏ فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ لَوْلاَ أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ قُلْتُ ‏:‏ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْهُ قَالَ ‏:‏ إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ ‏.‏

عبیدہ سے روایت ہے کہعلی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان ۱؎ کا ذکر کیا اور کہا : ان میں چھوٹے ہاتھ کا ایک آدمی ہے ، اگر مجھے تمہارے اترانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہیں بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کس چیز کا وعدہ کیا ہے ان لوگوں کے لیے جو ان سے جنگ کریں گے ، راوی کہتے ہیں : میں نے کہا : کیا آپ نے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں رب کعبہ کی قسم ۔

‘Ubaidah (al-salman) said :‘Ali mentioned about the people of al Nahrawan, saying: Among them there will be a man with a defective hand or with a small hand. if you were not to overjoy. I would inform you of what Allah has promised (the reward for) those who will kill them at the tongue of Muhammad (May peace be upon him). I asked : Have you heard this from him? He replied : Yes, by the lord of the Ka’bah.


169

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ ‏:‏ بَعَثَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَّمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةٍ بَيْنَ ‏:‏ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ، وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاَثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلاَبٍ قَالَ فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالأَنْصَارُ وَقَالَتْ ‏:‏ يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقٌ قَالَ ‏:‏ اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ وَلاَ تَأْمَنُونِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ – قَالَ – فَمَنَعَهُ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ قَتَلْتُهُمْ قَتْلَ عَادٍ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیںعلی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں : اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی ، عیینہ بن بدر فزاری ، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا ، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے : آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں “ اتنے میں ایک شخص آیا ( جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی ، رخسار ابھرے ہوئے اور پیشانی بلند ، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا ) اور کہنے لگا : اے محمد ! اللہ سے ڈرو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب میں ہی اس کی نافرمانی کرنے لگوں گا تو کون اس کی فرمانبرداری کرے گا ، اللہ تو زمین والوں میں مجھے امانت دار سمجھتا ہے اور تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے ؟ “ تو ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت چاہی ، میرا خیال ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ، اور جب وہ لوٹ گیا تو آپ نے فرمایا : ” اس کی نسل میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے ، وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر اس شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے جسے تیر مارا جاتا ہے ، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پوجنے والوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میں نے انہیں پایا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا ۲؎ “ ۔

Abu sa’id al-khudri said :‘Ali sent some gold-mixed dust to the prophet (May peace be upon him). He divided it among the four : al-Aqra b. Habis al-Hanzall and then al-Mujashi, uyainah b. Badr al-fazari, zaid al-khail al-Ta’l, next to one of Banu nabhan, and ‘Alqamah b. ‘Ulathat al-Amiri (in general), next to one of Banu kulaib. The Quraish and the ansar became angry and said : He is giving to the chiefs of the people of Najd and leaving us. He said : I am giving them for reconciliation of their hearts. Then a man with deep-seated eyes, high cheek-bones, a projecting brow, a thick beard and a shaven head came forward and said: For Allah, Muhammad! He said : Who will obey Allah if I disobey Him? Allah entrusts me with power over the inhabitants of the earth, but you do not. A man asked to be allowed to kill him and I think he was Khalid b. al-Walid but he prevented him. Then when the man turned away, he said: From this one’s stock there will be people who recite the Quran, but it will not pass down their throats. They will sever from Islam and leave the worshippers of Idols alone; but if I live up to their time I shall certainly kill them as ‘Ad were killed.


17

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، ح وَحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ، ح وَحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ، – وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ – قَالَ كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ فَكَتَبَ أَمَّا بَعْدُ أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالاِقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ بِإِذْنِ اللَّهِ عِصْمَةٌ ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلاَّ قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلاَفِهَا وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ مَنْ قَدْ عَلِمَ ‏.‏ مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لأَنْفُسِهِمْ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفَوْا وَلَهُمْ عَلَى كَشْفِ الأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ ‏.‏ مَا أَحْدَثَهُ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَعْتَ مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ وَلاَ ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلاَ أَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلاَءُ يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلاَمِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلاَمُ بَعْدُ إِلاَّ شِدَّةً وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلاَ حَدِيثَيْنِ وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ وَتَضْعِيفًا لأَنْفُسِهِمْ أَنْ يَكُونَ شَىْءٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ وَإِنَّهُ مَعَ ذَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ وَلَئِنْ قُلْتُمْ لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا وَلِمَ قَالَ كَذَا ‏.‏ لَقَدْ قَرَءُوْا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ وَمَا يُقَدَّرْ يَكُنْ وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ وَلاَ نَمْلِكُ لأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا ثُمَّ رَغَبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا ‏.‏

سفیان ثوری کہتے ہیں کہایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ( جواب میں ) لکھا : امابعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہو جانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے ، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہو گی ۔ پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو ، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، ( اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے ، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں ، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں ( ابن کثیر کی روایت میں «من قد علم» کا لفظ نہیں ہے ) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم ( سلف ) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے ، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے ، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی ، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے ، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے ، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کر دیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے ، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی ، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے ، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے ، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے ، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے ، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے ، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے ، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا ، اور اس کو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ، اس پر یقین کر کے ، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے ، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو ، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آ چکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو ، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے ، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔ اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی ؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں ) ؟ تو ( جان لو ) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو ، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا ، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا ۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور بر ے کاموں سے ڈرتے رہے ۱؎ ۔

Sufyan said (according to one chain), and Abu al-Salit said (according to another chain):A man wrote to ‘Umar b. ‘Abd al-Aziz asking him about Divine decree. He wrote to him: To begin with, I enjoin upon you to fear Allah, to be moderate in (obeying) His Command, to follow the sunnah (practice) of His Prophet (ﷺ) and to abandon the novelties which the innovators introduced after his Sunnah has been established and they were saved from its trouble (i.e. novelty or innovation) ; so stick to Sunnah, for it is for you, if Allah chooses, a protection ; then you should know that any innovation which the people introduced was refuted long before it on the basis of some authority or there was some lesson in it, for the Sunnah was introduced by the people who were conscious of the error, slip, foolishness, and extremism in case of (the sunnah) was opposed. So accept for yourself what the people (in the past) had accepted for themselves, for they had complete knowledge of whatever they were informed, and by penetrating insight they forbade (to do prohibited acts); they had more strength (than us) to disclose the matters (of religion), and they were far better (than us) by virtue of their merits. If right guidance is what you are following, then you outstriped them to it. And if you say whatever the novelty occurred after them was introduced by those who followed the way other then theirs and disliked them. It is they who actually outstripped, and talked about it sufficiently, and gave a satisfactory explanation for it. Below them there is no place for exhaustiveness, and above them there is no place for elaborating things. Some people shortened the matter more than they had done, and thus they turned away (from them), and some people raised the matter more than they had done, and thus they exaggerated. They were on right guidance between that. You have written (to me) asking about confession of Divine decree, you have indeed approached a person who is well informed of it, with the will of Allah. I know what whatever novelty people have brought in, and whatever innovation people have introduced are not more manifest and more established than confession of Divine decree. The ignorant people (i.e. the Arabs before Islam) in pre-Islamic times have mentioned it ; they talked about it in their speeches and in their poetry. They would console themselves for what they lost, and Islam then strengthened it (i.e. belief in Divine decree). The Messenger of Allah (ﷺ) did not mention it in one or two traditions, but the Muslims heard it from him, and they talked of it from him, and they talked of it during his lifetime and after his death. They did so out of belief and submission to their Lord and thinking themselves weak. There is nothing which is not surrounded by His knowledge, and not counted by His register and not destined by His decree. Despite that, it has been strongly mentioned in His Book: from it they have derived it, and from it they have and so ? they also read in it what you read, and they knew its interpretation of which you are ignorant. After that they said: All this is by writing and decreeing. Distress has been written down, and what has been destined will occur ; what Allah wills will surely happen, and what He does not will will not happen. We have no power to harm or benefit ourselves. Then after that they showed interest (in good works) and were afraid (of bad deeds).


170

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، وَمُبَشِّرٌ، – يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيَّ عَنْ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ – يَعْنِي الْوَلِيدَ – حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، قَالَ حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلاَفٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لاَ يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَىْءٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا سِيمَاهُمْ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ التَّحْلِيقُ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری امت میں اختلاف اور تفرقہ ہو گا ، کچھ ایسے لوگ ہوں گے ، جو باتیں اچھی کریں گے لیکن کام برے کریں گے ، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، وہ ( اپنی روش سے ) باز نہیں آئیں گے جب تک تیر سوفار ( اپنی ابتدائی جگہ ) پر الٹا نہ آ جائے ، وہ سب لوگوں اور مخلوقات میں بدترین لوگ ہیں ، بشارت ہے اس کے لیے جو انہیں قتل کرے یا جسے وہ قتل کریں ، وہ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے ، حالانکہ وہ اس کی کسی چیز سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں گے ، جو ان سے قتال کرے گا ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہو گا “ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کی نشانی کیا ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سر منڈانا “ ۔

Narrated AbuSa’id al-Khudri ; Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: Soon there will appear disagreement and dissension in my people; there will be people who will be good in speech and bad in work. They recite the Qur’an, but it does not pass their collar-bones. They will swerve from the religion as an animal goes through the animal shot at. They will not return to it till the arrow comes back to its notch. They are worst of the people and animals. Happy is the one who kills them and they kill him. They call to the book of Allah, but they have nothing to do with it. He who fights against them will be nearer to Allah than them (the rest of the people). The people asked: What is their sign? He replied: They shave the head.


171

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ وَالتَّسْبِيدُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ التَّسْبِيدُ اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ان کی علامت سر منڈانا اور بالوں کو جڑ سے ختم کرنا ہے ، لہٰذا جب تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دو “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «تسبید» : بال کو جڑ سے ختم کرنے کو کہتے ہیں ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Anas through a different chain of narrators in a similar manner. This version adds; Their sign is shaving the head and eliminating the hair. If you see them, kill them.

Abu Dawud said:Tasmid means uprooting the hair.


172

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ قَالَ عَلِيٌّ ‏:‏ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدِيثًا فَلأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّمَا الْحَرْبُ خُدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏”‏ ‏.‏

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہعلی رضی اللہ عنہ نے کہا : جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم سے بیان کروں تو آسمان سے میرا گر جانا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں آپ پر جھوٹ بولوں ، اور جب میں تم سے اس کے متعلق کوئی بات کروں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے تو جنگ چالاکی و فریب دہی ہوتی ہی ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے ، جو تمام مخلوقات میں بہتر شخص کی طرح باتیں کریں گے ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، ان کا ایمان ان کی گردنوں سے نیچے نہ اترے گا ، لہٰذا جہاں کہیں تم ان سے ملو تم انہیں قتل کر دو ، اس لیے کہ ان کا قتل کرنا ، قیامت کے روز اس شخص کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہو گا جو انہیں قتل کرے گا “ ۔

‘Ali said:When I mention a tradition to you from the Messenger of Allah (May peace be upon him), it is dearer to me that I fall from the heaven than I lie on him. But when I talk to you about matters between me and you, then war is a deception. I heard the Messenger of Allah (May peace be upon him) say: Towards the end of the time there will be people who are young in age and from Islam as an arrow goes through the animal aimed at, and their faith will not pass their throats. Wherever you meet them kill them, for their killing will bring a reward for him who kills them on the day of Resurrection.


173

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، ‏:‏ أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏:‏ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ شَيْئًا وَلاَ صَلاَتُكُمْ إِلَى صَلاَتِهِمْ شَيْئًا وَلاَ صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسَبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صلى الله عليه وسلم لَنَكَلُوا عَلَى الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلاً لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْىِ عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ ‏”‏ ‏.‏ أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاَءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاَءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ‏:‏ فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلاً مَنْزِلاً حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ قَالَ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ ‏:‏ أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ قَالَ ‏:‏ فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ – قَالَ – وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ رَجُلاَنِ فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏:‏ الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ فَلَمْ يَجِدُوا قَالَ ‏:‏ فَقَامَ عَلِيٌّ رضى الله عنه بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ ‏:‏ أَخْرِجُوهُمْ فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ فَكَبَّرَ وَقَالَ ‏:‏ صَدَقَ اللَّهُ وَبَلَّغَ رَسُولُهُ ‏.‏ فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ ‏:‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏:‏ إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاَثًا وَهُوَ يَحْلِفُ ‏.‏

زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہوہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی ، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی ، علی نے کہا : اے لوگو ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے ، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی ، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا ، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے ( ثواب ) ہے حالانکہ وہ ان پر ( عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کریں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لیے ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضرور اسی عمل پر بھروسہ کر لیں گے ( اور دوسرے نیک اعمال چھوڑ بیٹھیں گے ) ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہو گا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا ، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی ، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے “ تو کیا تم لوگ معاویہ اور اہل شام سے لڑنے جاؤ گے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھوڑ دو گے ( کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں ) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ) اس لیے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے ، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتایا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑنے گئے تھے ) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے ۔ وہ کہتے ہیں : جب ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردار عبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو ، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ، تلواریں کھینچ لیں ، لوگوں ( مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے ) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ان میں «مخدج» یعنی لنجے کو تلاش کرو ، لیکن وہ نہ پا سکے ، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کر کے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا : انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ، آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے : اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے ساری باتیں پہنچا دیں ۔ پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے : اے امیر المؤمنین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں ، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ ( تینوں بار ) قسم کھاتے رہے ۔

Salamah b. Kuhail said:Zaid b. Wahb al-Juhani told us that he was in the army which proceeded to (fight with) the Khawarij in the company of `Ali. `Ali then said: O people! I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: there will appear from among my community people who recite the Qur’an, and your recitation has no comparison with their recitation, and your prayer has no comparison with their prayer, and your fasts have no comparison with their fasts. They will recite the Qur’an thinking that it is beneficial for them, while it is harmful for them. Their prayer will not pass their collar-bones. They will swerve from Islam as an arrow goes through the animal shot at. If the army that is approaching them knows what (reward) has been decided for them at the tongue of their Prophet (ﷺ), they would leave (other good) activities. The sign of that is that among them there will be a man who has an upper arm, but not hand; on his upper arm there will be something like the nipple of a female breast, having white hair thereon. Will you go to Mu`awiyah and the people of Syria, and leave them behind among your children and property? I swear by Allah, I hope these are the same people, for they shed the blood unlawfully, and attacked the cattle of the people so go on in the name of Allah. Salamah b. Kuhail said: Zaid b. Wahb then informed me of all the halting places one by one, (saying): Until we passed a bridge. When we fought with each other, `Abd Allah b. Wahb al-Rasibi, who was the leader of the Khawarij, said to them: Throw away the lances and pull out the swords from their sheaths, for I am afraid they will adjure you as they had adjured on the day of Harura. So they threw away their lances and pulled out their swords, and the people pierced them with their lances. They were killed (lying one on the other). On that day only two persons of the partisans (of `Ali) were afflicted. `Ali said: Search for the man with the crippled hand. But they could not find him. Then `Ali got up himself and went to the people who had been killed and were lying on one another. He said: Take them out. They found him just near the ground. So he shouted: Allah is Most Great! He said: Allah spoke the truth, and His Apostle has conveyed. `Ubaidat al-Salmani stood up to him, saying: Commander of the Faithful! Have you heard it from the Messenger of Allah (ﷺ)? He said: Yes, by him, there is no God but He. He put to swear thrice and he swore.


174

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيءِ، قَالَ قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏:‏ اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ ‏.‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيءِ ‏:‏ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطَقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْىِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ ‏.‏

ابوالوضی کہتے ہیں کہعلی رضی اللہ عنہ نے کہا : «مخدج» ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے : لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ، گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے ، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں ۔

‘Ali said:Search for the man with crippled hand. He then mentioned the rest of the tradition. This version has: They took him out from beneath the slain in the dust. Abu al-wadi said: As if I am looking at an Abyssinian with a shirt on him. He had one of his hands like the nipple of the female breast, having hair on it like the hair on the tail of the jerboa.


175

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ ‏:‏ إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجَ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي ‏.‏ قَالَ أَبُو مَرْيَمَ ‏:‏ وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْىِ الْمَرْأَةِ عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْىِ عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ ‏.‏

ابومریم کہتے ہیں کہیہ «مخدج» ( لنجا ) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا ، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینوں کے ساتھ آ کر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا ۔ ابومریم کہتے ہیں : لوگ «مخدج» ( لنجے ) کو «نافعا ذا الثدية» ( پستان والا ) کا نام دیتے تھے ، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا ، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا ۔

Abu Maryam said:This man with the crippled hand was on that day with us in the mosque. We would sit with him by day and by night, and he was a poor man. I saw him attending the meals of ‘Ali (ra) which he took with the people, and I clothed him with a cloak of mine.

Abu Maryam said: The man with the crippled hand was called Nafi` Dhu al-Thadyah (Nafi`, man of nipple). He had in his hand something like a female breast with a nipple at it ends like the nipple of the female breast. If had some hair on it like the whiskers of cat.

Abu Dawud said: He was known among the people by the name of Harqus.


176

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَنٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي، إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کا مال لینے کا ناحق ارادہ کیا جائے اور وہ ( اپنے مال کے بچانے کے لیے ) لڑے اور مارا جائے تو وہ شہید ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: If the property of anyone is designed to be taken away without any right and he fights and is killed, he is a martyr.


177

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، – يَعْنِي أَبَا أَيُّوبَ الْهَاشِمِيَّ – عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ أَوْ دُونَ دَمِهِ أَوْ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ‏”‏ ‏.‏

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے بال بچوں کو بچانے یا اپنی جان بچانے یا اپنے دین کو بچانے میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے “ ۔

Narrated Sa’id ibn Zayd:

The Prophet (ﷺ) said: He who is killed while protecting his property is a martyr, and he who is killed while defending his family, or his blood, or his religion is a martyr.


18

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ – قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ كَانَ لاِبْنِ عُمَرَ صَدِيقٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُكَاتِبُهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَكَلَّمْتَ فِي شَىْءٍ مِنَ الْقَدَرِ فَإِيَّاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَىَّ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ ‏”‏ ‏.‏

نافع کہتے ہیں کہابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط و کتابت رکھتا تھا ، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں ( سلف کے قول کے خلاف ) کوئی بات کہی ہے ، لہٰذا اب تم مجھ سے خط و کتابت نہ رکھنا ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے “ ۔

Nafi said:Ibn ‘Umar had a friend from the people of Syria who used to correspond with him. ‘Abd Allah b. ‘Umar wrote to him: I have been informed that you have talked something about Divine decree. You should write it to me, for I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Among my community there will be people who will falsify Divine decree.


19

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ يَا أَبَا سَعِيدٍ أَخْبِرْنِي عَنْ آدَمَ، لِلسَّمَاءِ خُلِقَ أَمْ لِلأَرْضِ قَالَ لاَ بَلْ لِلأَرْضِ ‏.‏ قُلْتُ أَرَأَيْتَ لَوِ اعْتَصَمَ فَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الشَّجَرَةِ قَالَ لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْهُ بُدٌّ ‏.‏ قُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ * إِلاَّ مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ ‏}‏ قَالَ إِنَّ الشَّيَاطِينَ لاَ يَفْتِنُونَ بِضَلاَلَتِهِمْ إِلاَّ مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَحِيمَ ‏.‏

خالد الحذاء کہتے ہیں کہمیں نے حسن ( حسن بصری ) سے کہا : اے ابوسعید ! آدم کے سلسلہ میں مجھے بتائیے کہ وہ آسمان کے لیے پیدا کئے گئے ، یا زمین کے لیے ؟ آپ نے کہا : نہیں ، بلکہ زمین کے لیے ، میں نے عرض کیا : آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر وہ نافرمانی سے بچ جاتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے ، انہوں نے کہا : یہ ان کے بس میں نہ تھا ، میں نے کہا : مجھے اللہ کے فرمان «ما أنتم عليه بفاتنين * إلا من هو صال الجحيم» ” شیاطین تم میں سے کسی کو اس کے راستے سے گمراہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہو “ ( الصافات : ۱۶۳ ) کے بارے میں بتائیے ، انہوں نے کہا : ” شیاطین اپنی گمراہی کا شکار صرف اسی کو بنا سکتے ہیں جس پر اللہ نے جہنم واجب کر دی ہے “ ۔

Khalid al-Hadhdha said:I said to al-Hasan: Abu Sa’id, tell me about Adam. Was he created for the heaven or the earth? He said: No, for the earth. I said: It was unavoidable for him. I said: Tell me about the following verse of the Quran: ”can lead (any) into temptation concerning Allah, except such as are (themselves) going to blazing fire.” He said: The devils do not lead anyone astray by their temptation except the one whom Allah destined to go to Hell.


2

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، ح وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ، نَحْوَهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّهُ قَامَ فِينَا فَقَالَ أَلاَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ فِينَا فَقَالَ ‏”‏ أَلاَ إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ ابْنُ يَحْيَى وَعَمْرٌو فِي حَدِيثَيْهِمَا ‏”‏ وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ عَمْرٌو ‏”‏ الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لاَ يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلاَ مَفْصِلٌ إِلاَّ دَخَلَهُ ‏”‏ ‏.‏

ابوعامر عبداللہ بن لحی حمصی ہوزنی کہتے ہیں کہمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر کہا : سنو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : ” سنو ! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے ، بہتر ( ۷۲ ) فرقوں میں بٹ گئے ، اور یہ امت تہتر ( ۷۳ ) فرقوں میں بٹ جائے گی ، بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی «الجماعة» ہے “ ۔ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا : ” اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی ، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ۱؎ “ ۔ اور عمرو کی روایت میں «لصاحبه» کے بجائے «بصاحبه» ہے اس میں یہ بھی ہے : کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہیں رہتا جس میں اس کا اثر داخل نہ ہوا ہو ۔

Abu `Amir al-Hawdhani said:Mu`awiyah b. Abi Sufiyan stood among us and said: Beware! The Apostle of Allah (ﷺ) stood among us and said: Beware! The people of the Book before were split up into seventy two sects, and this community will be split into seventy three: seventy two of them will go to Hell and one of them will go to Paradise, and it is the majority group.

Ibn Yahya and `Amr added in their version : “ There will appear among my community people who will be dominated by desires like rabies which penetrates its patient”, `Amr’s version has: “penetrates its patient. There remains no vein and no joint but it penetrates it.”


20

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ ‏}‏ قَالَ خَلَقَ هَؤُلاَءِ لِهَذِهِ وَهَؤُلاَءِ لِهَذِهِ ‏.‏

حسن بصری سے اللہ تعالیٰ کے قول «ولذلك خلقهم» ” اور اسی کے لیے انہیں پیدا کیا “ ( سورۃ ھود : ۱۱۹ ) کے بارے میں روایت ہے ، انہوں نے کہا : انہیں پیدا کیا اس ( جنت ) کے لیے اور انہیں پیدا کیا اس ( جہنم ) کے لیے ۱؎ ۔

Khalid al-Hadhdha, asked al-Hasan about the Quranic verse:“And for this did He create them.” He said: He created these for this and those for that.


21

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ ‏{‏ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ * إِلاَّ مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ ‏}‏ قَالَ إِلاَّ مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَنَّهُ يَصْلَى الْجَحِيمَ ‏.‏

خالد الخداء کہتے ہیں کہمیں نے حسن بصری سے کہا «ما أنتم عليه بفاتنين * إلا من هو صال الجحيم» تو انہوں نے کہا : «إلا من هو صال الجحيم» کا مطلب ہے : سوائے اس کے جس کے لیے اللہ نے واجب کر دیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے ۔

Khalid al-Hadhdha asked al-Hasan about the Quranic verse:“Can lead (any) into temptation concerning Allah, except such as are (themselves) going to the blazing fire.” He said: Except the one whom Allah destined that he should go to Hell.


22

حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ، قَالَ كَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ لأَنْ يُسْقَطَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَقُولَ الأَمْرُ بِيَدِي ‏.‏

حمید کہتے ہیں کہحسن بصری کہتے تھے : آسمان سے زمین پر گر پڑنا اس بات سے مجھے زیادہ عزیز ہے کہ میں کہوں : معاملہ تو میرے ہاتھ میں ہے ۱؎ ۔

Humaid said:Al-Hasan used to say that his fall from the heaven on the earth is dearer to him than uttering: The matter is in my hand.


23

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا الْحَسَنُ مَكَّةَ فَكَلَّمَنِي فُقَهَاءُ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ أُكَلِّمَهُ فِي أَنْ يَجْلِسَ لَهُمْ يَوْمًا يَعِظُهُمْ فِيهِ ‏.‏ فَقَالَ نَعَمْ ‏.‏ فَاجْتَمَعُوا فَخَطَبَهُمْ فَمَا رَأَيْتُ أَخْطَبَ مِنْهُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَلَقَ الشَّيْطَانَ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ خَلَقَ اللَّهُ الشَّيْطَانَ وَخَلَقَ الْخَيْرَ وَخَلَقَ الشَّرَّ ‏.‏ قَالَ الرَّجُلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ كَيْفَ يَكْذِبُونَ عَلَى هَذَا الشَّيْخِ ‏.‏

حمید کہتے ہیں کہحسن ہمارے پاس مکہ تشریف لائے تو اہل مکہ کے فقہاء نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے درخواست کروں کہ وہ ان کے لیے ایک دن نشست رکھیں ، اور وعظ فرمائیں ، وہ اس کے لیے راضی ہو گئے تو لوگ اکٹھا ہوئے اور آپ نے انہیں خطاب کیا ، میں نے ان سے بڑا خطیب کسی کو نہیں دیکھا ، ایک شخص نے سوال کیا : اے ابوسعید ! شیطان کو کس نے پیدا کیا ؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ ! کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے ؟ اللہ نے شیطان کو پیدا کیا اور اسی نے خیر پیدا کیا ، اور شر پیدا کیا ، وہ شخص بولا : اللہ انہیں غارت کرے ، کس طرح یہ لوگ اس بزرگ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔

Humaid said:Al-Hasan came to us. The jurists of Mecca told me that I should speak to him that some day he should hold a meeting for them and preach to them. He said: Yes. So they gathered and he addressed them. I did not see anyone on orator greater than him. A man said: Abu Sa’id, who created Satan? He replied: Glory be to Allah! Is there any creator other than Allah? Allah created Satan, and he created good and created evil. The man said: May Allah ruin them! How do they lie to this old man.


24

حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنِ الْحَسَنِ، ‏{‏ كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ ‏}‏ قَالَ الشِّرْكُ ‏.‏

sanadحسن بصری آیت کریمہ : «كذلك نسلكه في قلوب المجرمين» ” اسی طرح سے ہم اسے مجرموں کے دل میں ڈالتے ہیں “ ( سورۃ الحجر : ۱۱۲ ) کے سلسلہ میں کہتے ہیں : اس سے مراد شرک ہے ۔

Humaid al-Tawil asked al-Hasan about the verse:“Even so do We let it creep into the hearts of the sinners.” He said: Polytheism


25

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ رَجُلٍ، قَدْ سَمَّاهُ غَيْرِ ابْنِ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدٍ الصِّيدِ، عَنِ الْحَسَنِ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ ‏}‏ قَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الإِيمَانِ ‏.‏

sanadحسن بصری آیت کریمہ : «وحيل بينهم وبين ما يشتهون» ” ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان حائل ہو گئی “ ( سورۃ سبا : ۵۴ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس کا مطلب ہے ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہو گئی ۔

Explaining the Quranic verse; “And between them and their desire is placed a barrier.” Al-Hasan said:Between them and their faith.


26

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ بِالشَّامِ فَنَادَانِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَجَاءُ بْنُ حَيْوَةَ فَقَالَ يَا أَبَا عَوْنٍ مَا هَذَا الَّذِي يَذْكُرُونَ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَى الْحَسَنِ كَثِيرًا ‏.‏

ابن عون کہتے ہیں کہمیں ملک شام میں چل رہا تھا تو ایک شخص نے پیچھے سے مجھے پکارا جب میں مڑا تو دیکھا رجاء بن حیوہ ہیں ، انہوں نے کہا : اے ابوعون ! یہ کیا ہے جو لوگ حسن کے بارے میں ذکر کرتے ہیں ؟ میں نے کہا : لوگ حسن پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔

Ibn ‘Awn said:I was a prisoner in Syria. A man called me from behind. I turned towards him and suddenly found that it was Raja b. Haiwah. He said: Abu ‘Awn, what is this that the people are telling about al-Hasan? I said: They are much lying to al-Hasan.


27

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَيُّوبَ، يَقُولُ كَذَبَ عَلَى الْحَسَنِ ضَرْبَانِ مِنَ النَّاسِ قَوْمٌ الْقَدَرُ رَأْيُهُمْ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُنَفِّقُوا بِذَلِكَ رَأْيَهُمْ وَقَوْمٌ لَهُ فِي قُلُوبِهِمْ شَنَآنٌ وَبُغْضٌ يَقُولُونَ أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا

ایوب کہتے ہیںحسن پر جھوٹ دو قسم کے لوگ باندھتے ہیں : ایک تو قدریہ ، جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے ان کے خیال و نظریہ کا لوگ اعتبار کریں گے ، اور دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں میں ان کے خلاف عداوت اور بغض ہے ، وہ کہتے ہیں : کیا یہ ان کا قول نہیں ؟ کیا یہ ان کا قول نہیں ؟ ۔

Hammad said:I heard Ayyub say: Two kinds of people have lied to al-Hasan: people who believed in free will and they intended that they publicise their belief by it; and people who had enmity with and hostility (for al-Hasan), saying: Did he not say so and so? Did he not say so and so?


28

حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، أَنَّ يَحْيَى بْنَ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيَّ، حَدَّثَهُمْ قَالَ كَانَ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ يَقُولُ لَنَا يَا فِتْيَانُ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى الْحَسَنِ فَإِنَّهُ كَانَ رَأْيُهُ السُّنَّةَ وَالصَّوَابَ ‏.‏

یحییٰ بن کثیر بن عنبری کہتے ہیں کہقرہ بن خالد ہم سے کہا کرتے تھے : اے نوجوانو ! حسن کو قدریہ مت سمجھو ، ان کی رائے سنت اور صواب تھی ۔

Yahya b. Kathir al-‘Anbari said:Qurrah b. Khalid used to tell us: O young people! Do not think that al-Hasan denied predestination, for his opinion (i.e., belief) was sunnah and sight.


29

حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ، بَشَّارٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ لَوْ عَلِمْنَا أَنَّ كَلِمَةَ، الْحَسَنِ تَبْلُغُ مَا بَلَغَتْ لَكَتَبْنَا بِرُجُوعِهِ كِتَابًا وَأَشْهَدْنَا عَلَيْهِ شُهُودًا وَلَكِنَّا قُلْنَا كَلِمَةٌ خَرَجَتْ لاَ تُحْمَلُ ‏.‏

ابن عون کہتے ہیں کہاگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ حسن کی بات ( غلط معنی کے ساتھ شہرت کے ) اس مقام کو پہنچ جائے گی جہاں وہ پہنچ گئی تو ہم لوگ ان کے اس قول کے بارے میں ان کے رجوع کی بابت ایک کتاب لکھتے اور اس پر لوگوں کو گواہ بناتے ، لیکن ہم نے سوچا کہ ایک بات ہے جو نکل گئی ہے اور اس کے خلاف معنی پر محمول نہیں کی جائے گی ۱؎ ۔

Ibn ‘Awn said:If we learnt that the remark of al-Hasan would reach the extent that it has reached, we would write a book for his withdrawal and call witnesses to him; but we said: This is a remark that surprisingly came out (from him) and it will not be transmitted to others.


3

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها قَالَتْ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ ‏}‏ إِلَى ‏{‏ أُولُو الأَلْبَابِ ‏}‏ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے لے کر «أولو الألباب» ۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا : ” جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ۲؎ “ ۔

‘A’ishah said:The Messenger of Allah (ﷺ) recited this verse: “He it is who has sent down to thee the Book: in it are verses basic or fundamental . . . .” Up to “men of understanding”. She said: The Messenger of Allah (ﷺ) then said: When you see those people who follow that which is allegorical in the Quran, those are the people whom Allah has named (in the Quran). So avoid them.


30

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ قَالَ لِيَ الْحَسَنُ مَا أَنَا بِعَائِدٍ، إِلَى شَىْءٍ مِنْهُ أَبَدًا ‏.‏

ایوب کہتے ہیں کہمجھ سے حسن بصری نے کہا : میں اب دوبارہ کبھی اس میں سے کوئی بات نہیں کہوں گا ، ( جس سے تقدیر کی نفی کا گمان ہوتا ) ۔

Ayyub said:Al-Hasan said: I will never return to it.


31

حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، قَالَ مَا فَسَّرَ الْحَسَنُ آيَةً قَطُّ إِلاَّ عَلَى الإِثْبَاتِ ‏.‏

عثمان کہتے ہیں کہحسن نے جب بھی کسی آیت کی تفسیر کی تو تقدیر کا اثبات کیا ۔

‘Uthman al-Batti said:Al-Hasan never interpreted any Quranic verse but to establish (Divine decree).


32

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ كُنَّا نَقُولُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لاَ نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لاَ تَفَاضُلَ بَيْنَهُمْ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے : ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں جانتے ، پھر عمر رضی اللہ عنہ کے ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو چھوڑ دیتے ، ان میں کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتے ۔

Ibn ‘Umar said:We used to say in the times of the Prophet (ﷺ): We do not compare anyone with Abu Bakr. ’Umar came next and then ‘Uthman. We then would leave (rest of) the companions of the Prophet (ﷺ) without treating any as superior to other.


33

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَىٌّ أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ رضى الله عنهم أَجْمَعِينَ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر ، پھر عثمان ہیں ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔

Ibn ‘Umar said:When the Messenger of Allah (ﷺ) was alive, we used to say: The most excellent member of the community of the Prophet (ﷺ) after himself is Abu Bakr, then ‘Umar, then ‘Uthman.


34

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ قُلْتُ لأَبِي أَىُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ أَبُو بَكْرٍ ‏.‏ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ خَشِيتُ أَنْ أَقُولَ ثُمَّ مَنْ فَيَقُولَ عُثْمَانُ فَقُلْتُ ثُمَّ أَنْتَ يَا أَبَةِ قَالَ مَا أَنَا إِلاَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‏.‏

محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہمیں نے اپنے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون تھا ؟ انہوں نے کہا : ابوبکر رضی اللہ عنہ ، میں نے کہا : پھر کون ؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر مجھے اس بات سے ڈر ہوا کہ میں کہوں پھر کون ؟ اور وہ کہیں عثمان رضی اللہ عنہ ، چنانچہ میں نے کہا : پھر آپ ؟ اے ابا جان ! وہ بولے : میں تو مسلمانوں میں کا صرف ایک فرد ہوں ۱؎ ۔

Muhammad b. al-Hanafiyyah said:I said to my father: Which of the people after the Messenger of Allah (ﷺ) is best? He replied: Abu Bakr. I then asked: Who comes next? He said: ‘Umar. I was then afraid of asking him who came next, and he might mention ‘Uthman, so I said: You came next, O my father? He said: I am only a man among the Muslims.


35

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي الْفِرْيَابِيَّ – قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيًّا، عَلَيْهِ السَّلاَمُ كَانَ أَحَقَّ بِالْوِلاَيَةِ مِنْهُمَا فَقَدْ خَطَّأَ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارَ وَمَا أُرَاهُ يَرْتَفِعُ لَهُ مَعَ هَذَا عَمَلٌ إِلَى السَّمَاءِ ‏.‏

سفیان کہتے تھے : جو یہ کہے کہعلی رضی اللہ عنہ ان دونوں ( ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ) سے خلافت کے زیادہ حقدار تھے تو اس نے ابوبکر ، عمر ، مہاجرین اور انصار کو خطاکار ٹھہرایا ، اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے اس عقیدے کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی عمل آسمان کو اٹھ کر جائے گا ۔

Muhammad al-Firyabl said:I heard Sufyan say: If anyone thinks that ‘All (Allah be pleased with him) was more deserving for the Caliphate than both of them, he imputed error to Abu Bakr, ‘Umar, the Muhajirun (Immigrants), and the Ansar (Helpers) Allah be pleased with all of them. I think that with this (belief) none of his action will rise to the heaven.


36

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ السَّمَّاكُ، قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، يَقُولُ الْخُلَفَاءُ خَمْسَةٌ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رضى الله عنهم ‏.‏

سفیان ثوری کہا کرتے تھےخلفاء پانچ ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ۔

Sufyan al-Thawri said:The Caliphs are five: Abu Bakr, ‘Umar, ‘Uthman, ‘All and ‘Umar b. ‘Abd al-Aziz.


37

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – قَالَ مُحَمَّدٌ كَتَبْتُهُ مِنْ كِتَابِهِ – قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلاً أَتَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ بِأَيْدِيهِمْ فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلاً مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلاَ بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلاَ بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ ثُمَّ وُصِلَ فَعَلاَ بِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ بِأَبِي وَأُمِّي لَتَدَعَنِّي فَلأَعْبُرَنَّهَا ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ اعْبُرْهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الإِسْلاَمِ وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلاَوَتُهُ وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ أَىْ رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ تُقْسِمْ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا ، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا ، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں ، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم ، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول ! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے ، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا ، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا ، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹوٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا ، تو وہ بھی اوپر چلا گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی تعبیر بیان کرو “ وہ بولے : بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے ، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت ( شیرینی ) اور نرمی مراد ہے ، کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کو کم یا زیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں ، آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں ، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ آپ کو اٹھا لے گا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا ، پھر ایک اور شخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا ، پھر اسے ایک اور شخص پکڑے گا ، تو وہ ٹوٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا ، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا ، اللہ کے رسول ! آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط “ کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قسم نہ دلاؤ “ ۔

Ibn ‘Abbas said:Abu Hurairah said that a man came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: I saw (in my dream) a piece of cloud from which ghee and honey were dropping. I saw the people spreading their hands. Some of them took much and some a little. I also saw a rope hanging from Heaven to Earth. I saw, Messenger of Allah, that you caught hold of it and ascended by it. Then another man caught hold of it and ascended it. Then another man caught hold of it and ascended it. Then another man caught hold of it, but it broke, and then it was joined and he ascended it.

AbuBakr said: May my parents be sacrificed for you, if you allow, I shall interpret it.

He said: Interpret it. He said: The piece of cloud is the cloud of Islam; the ghee and honey that were dropping from it are the Qur’an, which contains softness and sweetness. Those who received much or little of it are those who learn much or little of the Qur’an. The rope hanging from Heaven to Earth is the truth which you are following. You catch hold of it and then Allah will raise you to Him. Then another man will catch hold of it and ascend it, Then another man will catch hold of it and it will break. But it will be joined and he will ascend it. Tell me. Messenger of Allah, whether I am right or wrong.

He said: You are partly right and partly wrong. He said: I adjure you by Allah, you should tell me where I am wrong.

The Prophet (ﷺ) said: Do not take an oath.


38

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ فَأَبَى أَنْ يُخْبِرَهُ ‏.‏

اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہےلیکن اس میں یہ ہے کہ آپ نے ان کو بتانے سے انکار کر دیا ، ( کہ انہوں نے کیا غلطی کی ہے ) ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn ‘abbas through a different chain of narrators. This version adds:He refused to tell him (his mistake).


39

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ ‏ “‏ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرُجِحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرُجِحَ أَبُو بَكْرٍ وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرُجِحَ عُمَرُ ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ فَرَأَيْنَا الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا : ” تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ “ ایک شخص بولا : میں نے دیکھا : گویا ایک ترازو آسمان سے اترا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابوبکر کو تولا گیا ، تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے ، پھر عمر اور ابوبکر کو تولا گیا تو ابوبکر بھاری نکلے ، پھر عمر اور عثمان کو تولا گیا تو عمر بھاری نکلے ، پھر ترازو اٹھا لیا گیا ، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں ناپسندیدگی دیکھی ۔

Narrated AbuBakrah:

One day the Prophet (ﷺ) said: Which of you had dream? A man said: It is I. I saw as though a scale descended from the sky. You and AbuBakr were weighed and you were heavier; AbuBakr and Umar were weighed and AbuBakr was heavier: Umar and Uthman were weighed and Umar was heavier; than the scale was taken up. we saw signs of dislike on the face of the Messenger of Allah (ﷺ).


4

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَفْضَلُ الأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سب سے افضل عمل اللہ کے واسطے محبت کرنا اور اللہ ہی کے واسطے دشمنی رکھنا ہے “ ۔

Narrated AbuDharr:

The Prophet (ﷺ) said: The best of the actions is to love for the sake of Allah and to hate for the sake of Allah.


40

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ ‏”‏ أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ وَلَمْ يَذْكُرِ الْكَرَاهِيَةَ ‏.‏ قَالَ فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعْنِي فَسَاءَهُ ذَلِكَ فَقَالَ ‏”‏ خِلاَفَةُ نُبُوَّةٍ ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ ‏”‏ ‏.‏

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا : ” تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ “ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اور چہرے پر ناگواری دیکھنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ یوں کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ( خواب ) برا لگا ، اور فرمایا : ” وہ نبوت کی خلافت ہے ، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا سلطنت عطا کرے گا “ ۔

Abu Bakrah said:One day the Prophet (ﷺ) asked: Which of you had a dream? He then mentioned the rest of the tradition to the same effect, but he did not mention the word “disliked”. Instead, he said: The Messenger of Allah (ﷺ) was grieved about that. He then said: There will be a caliphate on the model of prophecy, then Allah will give the kingdom to whom he wills.


41

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ نِيطَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَنِيطَ عُمَرُ بِأَبِي بَكْرٍ وَنِيطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ جَابِرٌ فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُلْنَا أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ فَهُمْ وُلاَةُ هَذَا الأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَاهُ يُونُسُ وَشُعَيْبٌ لَمْ يَذْكُرَا عَمْرًا ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابوبکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ دیا گیا ہے ، اور عمر کو ابوبکر سے اور عثمان کو عمر سے “ ۔ جابر کہتے ہیں : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا : مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر ( دین ) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یونس اور شعیب نے بھی روایت کیا ہے ، لیکن ان دونوں نے عمرو بن ابان کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

Jabir b. ‘Abd Allah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:Last night a good man had a vision in which Abu Bakr seemed to be joined to the Messenger of Allah (ﷺ). ‘Umar to Abu Bakr, and ‘Uthman to ‘Umar. Jabir said: When we got up and left the Messenger of Allah (ﷺ), we said: The good man is the Messenger of Allah (ﷺ), and that their being joined together means that they are the rulers over this matter with which Allah has sent His Prophet (ﷺ).

Abu Dawud said: It has been transmitted by Yunus and Shu’aib, but they did not mention ‘Amr b. Aban.


42

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنِي عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ رَجُلاً، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيفًا ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَىْءٌ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا پہلے ابوبکر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا ، پھر عمر آئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا ، پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا ، پھر علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں ، تو وہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا ۔

Samurah b. Jundub told that a man said:Messenger of Allah (ﷺ)! I saw (in a dream) that a bucket was hung from the sky. Abu Bakr came, caught hold of both ends of its wooden handle, and drank a little of it. Next came ‘Umar who caught hold of both ends of its wooden handle and drank of it to his fill. Next came ‘Uthman who caught hold of both ends of its handle and drank of it to his fill. Next came ‘All. He caught hold of both ends of its handle, but it became upset and some (water) from it was sprinkled on him.


43

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ لَتَمْخُرَنَّ الرُّومُ الشَّامَ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا لاَ يَمْتَنِعُ مِنْهَا إِلاَّ دِمَشْقُ وَعَمَّانُ ‏.‏

مکحول نے کہارومی شام میں چالیس دن تک لوٹ کھسوٹ کرتے رہیں گے اور سوائے دمشق اور عمان کے کوئی شہر بھی ان سے نہ بچے گا ۔

Makhul said:The Romans will enter Syria and stay there for forty days, and no place will be saved from them but Damascus and ‘Uman.


44

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلاَءِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الأَعْيَسِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَلْمَانَ، يَقُولُ سَيَأْتِي مَلِكٌ مِنْ مُلُوكِ الْعَجَمِ يَظْهَرُ عَلَى الْمَدَائِنِ كُلِّهَا إِلاَّ دِمَشْقَ ‏.‏

عبدالعزیز بن علاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو الأ عیس عبدالرحمٰن بن سلمان کو کہتے سنا کہعجم کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تمام شہروں پر غالب آ جائے گا سوائے دمشق کے ۔

Abu al-A’yas ‘Abd al-Rahman b. Salam said:A king of the foreigners will come and prevail over all the cities except Damascus.


45

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلاَءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلاَحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ ‏”‏ ‏.‏

مکحول کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمانوں کا خیمہ لڑائیوں کے وقت ایک ایسی سر زمین میں ہو گا جسے غوطہٰ ۱؎ کہا جاتا ہے “ ۔

Makhul reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:The place of the assembly of Muslims at the time of war will be in a land called al-Ghutah.


46

حَدَّثَنَا أَبُو ظَفَرٍ عَبْدُ السَّلاَمِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ، يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ مَثَلَ عُثْمَانَ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ يَقْرَؤُهَا وَيَفُسِّرُهَا ‏{‏ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ‏}‏ يُشِيرُ إِلَيْنَا بِيَدِهِ وَإِلَى أَهْلِ الشَّامِ ‏.‏

عوف الا عرابی کہتے ہیں کہمیں نے حجاج کو خطبہ میں یہ کہتے سنا : عثمان کی مثال اللہ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم کی طرح ہے ، پھر انہوں نے آیت کریمہ «إذ قال الله يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلى ومطهرك من الذين كفروا» ” جب اللہ نے کہا کہ : اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں ، اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں ، اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں “ ( سورۃ آل عمران : ۵۵ ) پڑھی اور اپنے ہاتھ سے ہماری اور اہل شام کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۱؎ ۔

‘Awf said:I heard al-Hajjaj addressing the people say: The similitude of ‘Uthman with Allah is like the similitude of Jesus son of Mary. He then recited the following verse and explained it: “Behold! Allah said: O Jesus! I will take thee and raise thee to Myself and clear thee (of the falsehood) of those who blaspheme.” He was making a sign with his hand to us and to the people of Syria.


47

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ح وَحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ، يَخْطُبُ فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ رَسُولُ أَحَدِكُمْ فِي حَاجَتِهِ أَكْرَمُ عَلَيْهِ أَمْ خَلِيفَتُهُ فِي أَهْلِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لِلَّهِ عَلَىَّ أَلاَّ أُصَلِّيَ خَلْفَكَ صَلاَةً أَبَدًا وَإِنْ وَجَدْتُ قَوْمًا يُجَاهِدُونَكَ لأُجَاهِدَنَّكَ مَعَهُمْ ‏.‏ زَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ قَالَ فَقَاتَلَ فِي الْجَمَاجِمِ حَتَّى قُتِلَ ‏.‏

ربیع بن خالد ضبی کہتے ہیں کہمیں نے حجاج کو خطبہ دیتے سنا ، اس نے اپنے خطبے میں کہا : تم میں سے کسی کا پیغام بر جو اس کی ضرورت سے ( پیغام لے جا رہا ) ہو زیادہ درجے والا ہے ، یا وہ جو اس کے گھربار میں اس کا قائم مقام اور خلیفہ ہو ؟ تو میں نے اپنے دل میں کہا : اللہ کا میرے اوپر حق ہے کہ میں تیرے پیچھے کبھی نماز نہ پڑھوں ، اور اگر مجھے ایسے لوگ ملے جو تجھ سے جہاد کریں تو میں ضرور ان کے ساتھ تجھ سے جہاد کروں گا ۔ اسحاق نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : چنانچہ انہوں نے جماجم میں جنگ کی یہاں تک کہ مارے گئے ۔

Al-Rabi’ b. Khalid al-Dabbi said:I heard al-Hajjaj say in his address: Is the messenger of one of you sent for some need is more respectable with him or his successor among his people? I thought in my mind: I make a vow for Allah that I shall never pray behind you. If I find people who fight against you, I shall fight against you along with them. Ishaq added in his version: He fought in the battle of al-Jamajim until he was killed.


48

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ اتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ لأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ الْمَلِكِ وَاللَّهِ لَوْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنْ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَخَرَجُوا مِنْ بَابٍ آخَرَ لَحَلَّتْ لِي دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ وَاللَّهِ لَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ لَكَانَ ذَلِكَ لِي مِنَ اللَّهِ حَلاَلاً وَيَا عَذِيرِي مِنْ عَبْدِ هُذَيْلٍ يَزْعُمُ أَنَّ قِرَاءَتَهُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا هِيَ إِلاَّ رَجَزٌ مِنْ رَجَزِ الأَعْرَابِ مَا أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَعَذِيرِي مِنْ هَذِهِ الْحَمْرَاءِ يَزْعُمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَرْمِي بِالْحَجَرِ فَيَقُولُ إِلَى أَنْ يَقَعَ الْحَجَرُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ فَوَاللَّهِ لأَدَعَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الدَّابِرِ ‏.‏ قَالَ فَذَكَرْتُهُ لِلأَعْمَشِ فَقَالَ أَنَا وَاللَّهِ سَمِعْتُهُ مِنْهُ ‏.‏

عاصم کہتے ہیں کہمیں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو ، اس میں کوئی شرط یا استثناء نہیں ہے ، امیر المؤمنین عبدالملک کی بات سنو اور مانو ، اس میں بھی کوئی شرط اور استثناء نہیں ہے ، اللہ کی قسم ، اگر میں نے لوگوں کو مسجد کے ایک دروازے سے نکلنے کا حکم دیا پھر وہ لوگ کسی دوسرے دروازے سے نکلے تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لیے حلال ہو جائیں گے ، اللہ کی قسم ! اگر مضر کے قصور پر میں ربیعہ کو پکڑ لوں ، تو یہ میرے لیے اللہ کی جانب سے حلال ہے ، اور کون مجھے عبدہذیل ( عبداللہ بن مسعود ہذلی ) کے سلسلہ میں معذور سمجھے گا جو کہتے ہیں کہ ان کی قرآت اللہ کی طرف سے ہے قسم اللہ کی ، وہ سوائے اعرابیوں کے رجز کے کچھ نہیں ، اللہ نے اس قرآت کو اپنے نبی علیہ السلام پر نہیں نازل فرمایا ، اور کون ان عجمیوں کے سلسلہ میں مجھے معذور سمجھے گا جن میں سے کوئی کہتا ہے کہ وہ پتھر پھینک رہا ہے ، پھر کہتا ہے ، دیکھو پتھر کہاں گرتا ہے ؟ ( فساد کی بات کہہ کر دیکھتا ہے کہ دیکھوں اس کا کہاں اثر ہوتا ہے ) اور کچھ نئی بات پیش آئی ہے ، اللہ کی قسم ، میں انہیں اسی طرح نیست و نابود کر دوں گا ، جیسے گزشتہ کل ختم ہو گیا ( جو اب کبھی نہیں آنے والا ) ۔ عاصم کہتے ہیں : میں نے اس کا تذکرہ اعمش سے کیا تو وہ بولے : اللہ کی قسم میں نے بھی اسے ، اس سے سنا ہے ۔

‘Asim said:I heard al-Hajjaj say on the pulpit: Fear Allah as much as possible; there is no exception in it. Hear and obey the Commander of the Faithful ‘Abd al-Malik; there is no exception in it. I swear by Allah, if order people to come but from a certain gate of the mosque, and they come out from another gate, their blood and their properties will be lawful for me. I swear by Allah, if I seize the tribe of Rabi’ah for the tribe of Mudar, it is lawful for me from Allah. Who will apologies to me for the slave of Hudhail (i.e. ‘Abd Allah b. Mas’ud) who thinks that his reading of the Quran is from Allah. I swear by Allah, it is a rhymed prose of the Bedouins. Allah did not reveal it to his Prophet (ﷺ). Who will apologies to me for these clients (non-Arab). One of them thinks that he will throw a stone and when it falls (on the ground) he says: Something new has happened. I swear by Allah, I shall leave them (ruined and perished) like the day that passes away.

He said: I mentioned it to al-A’mash. He said: I swear by Allah, I heard it from him.


49

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ هَذِهِ الْحَمْرَاءُ هَبْرٌ هَبْرٌ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ قَرَعْتُ عَصًا بِعَصًا لأَذَرَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الذَّاهِبِ يَعْنِي الْمَوَالِي ‏.‏

اعمش کہتے ہیں کہمیں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : یہ گورے ( عجمی ) قیمہ بنائے جانے کے قابل ہیں قیمہ ، موالی ( غلامو ) سنو ، اللہ کی قسم ، اگر میں لکڑی پر لکڑی ماروں تو انہیں اسی طرح برباد کر کے رکھ دوں جس طرح گزرا ہوا کل ختم ہو گیا ، یعنی عجمیوں کو ۔

Al-A’mash said:These clients (i.e., non-Arabs) are to be struck and cut off. I swear by Allah, if I strike a stick with a stick, I would annihilate them like the day that passed away. Al-hamra means clients or non-Arabs.


5

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، – وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ – قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، – وَذَكَرَ ابْنُ السَّرْحِ قِصَّةَ تَخَلُّفِهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ – قَالَ وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَىَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَىَّ السَّلاَمَ ‏.‏ ثُمَّ سَاقَ خَبَرَ تَنْزِيلِ تَوْبَتِهِ ‏.‏

عبداللہ بن کعب سے روایت ہے( جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں عبداللہ آپ کے قائد تھے ) وہ کہتے ہیں : میں نے کعب بن مالک سے سنا ( ابن السرح ان کے غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ ذکر کر کے کہتے ہیں کہ کعب نے کہا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ جب لمبا عرصہ ہو گیا تو میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار کود کر ان کے پاس گیا ، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا تو قسم اللہ کی ! انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا ، پھر راوی نے ان کی توبہ کے نازل ہونے کا قصہ بیان کیا ۱؎ ۔

‘Abd Allah b. Ka`b b. Malik who used to lead his father from among his sons when he became blind, said:I heard Ka`b b. Malik – the transmitter Ibn al-Sarh then narrated the story of his remaining behind from the Prophet (ﷺ) during the campaign of Tabuk – say: The Messenger of Allah (ﷺ) forbade the Muslims to speak to any of us three. When (in this state) abundant time passed on me, I ascended the wall of the garden of Abu Qatadah who was my cousin. I saluted him, but, I swear by Allah, he did not return salute to me. He then narrated the story of the revelation of the Qur’anic verses relating to his repentance.


50

حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، قَالَ جَمَّعْتُ مَعَ الْحَجَّاجِ فَخَطَبَ فَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ قَالَ فِيهَا فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِخَلِيفَةِ اللَّهِ وَصَفِيِّهِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ وَلَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ وَلَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْحَمْرَاءِ ‏.‏

سلیمان الاعمش کہتے ہیںمیں نے حجاج کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی ، اس نے خطبہ دیا ، پھر راوی ابوبکر بن عیاش والی روایت ( ۴۶۴۳ ) ذکر کی ، اس میں ہے کہ اس نے کہا : سنو اور اللہ کے خلیفہ اور اس کے منتخب عبدالملک بن مروان کی اطاعت کرو ، اس کے بعد آگے کی حدیث بیان کی اور کہا : اگر میں مضر کے جرم میں ربیعہ کو پکڑوں ( تو یہ غلط نہ ہو گا ) اور عجمیوں والی بات کا ذکر نہیں کیا ۔

Sulaiman al-A’mash said:I prayed the Friday prayer with al-Hajjaj and he addressed. He then transmitted the tradition of Abu Bakr b. ‘Ayyash. He said in it: Hear and obey the caliph of Allah and his select ‘Abd al-Malik bin Marwan. He then transmitted the rest of the tradition, and said: If I seized Rabi’ah for Mudar. But he did not mention the story of the clients (i.e. non Arabs).


51

حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ خِلاَفَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاَثُونَ سَنَةً ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ – أَوْ مُلْكَهُ – مَنْ يَشَاءُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ سَعِيدٌ قَالَ لِي سَفِينَةُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ وَعُمَرَ عَشْرًا وَعُثْمَانَ اثْنَتَىْ عَشْرَةَ وَعَلِيٌّ كَذَا ‏.‏ قَالَ سَعِيدٌ قُلْتُ لِسَفِينَةَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ ‏.‏ قَالَ كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ ‏.‏

سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خلافت علی منہاج النبوۃ ( نبوت کی خلافت ) تیس سال رہے گی ۱؎ ، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا “ سعید کہتے ہیں : سفینہ نے مجھ سے کہا : اب تم شمار کر لو : ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال ، عمر رضی اللہ عنہ دس سال ، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال ، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال ۔ سعید کہتے ہیں : میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا : یہ لوگ ( مروانی ) کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں تھے ، انہوں نے کہا : بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ۲؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں ۔

Narrated Safinah:

The Prophet (ﷺ) said: The Caliphate of Prophecy will last thirty years; then Allah will give the Kingdom of His Kingdom to anyone He wills.

Sa’id told that Safinah said to him: Calculate Abu Bakr’s caliphate as two years, ‘Umar’s as ten, ‘Uthman’s as twelve and ‘Ali so and so. Sa’id said: I said to Safinah: They conceive that ‘Ali was not a caliph. He replied: The buttocks of Marwan told a lie.


52

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ خِلاَفَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاَثُونَ سَنَةً ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ – أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ – ‏”‏ ‏.‏

سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خلافت علی منہاج النبوۃ ( نبوت کی خلافت ) تیس سال ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت جسے چاہے گا یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا ، دے گا “ ۔

Safinah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:The caliphate of Prophecy will last thirty years; then Allah will give the Kingdom to whom he wishes; or his kingdom to whom he wishes.


53

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلاً فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ فُلاَنٌ الْكُوفَةَ أَقَامَ فُلاَنٌ خَطِيبًا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ أَلاَ تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ – قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ وَالْعَرَبُ تَقُولُ آثَمْ – قُلْتُ وَمَنِ التِّسْعَةُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ ‏ “‏ اثْبُتْ حِرَاءُ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ وَمَنِ التِّسْعَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ ‏.‏ قُلْتُ وَمَنِ الْعَاشِرُ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ أَنَا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلاَلِ بْنِ يِسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ ‏.‏

عبداللہ بن ظالم مازنی کہتے ہیں کہمیں نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا : جب فلاں شخص کوفہ میں آیا تو فلاں شخص خطبہ کے لیے کھڑا ہوا ۱؎ ، سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ۲؎ کیا تم اس ظالم ۳؎ کو نہیں دیکھتے ۴؎ پھر انہوں نے نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دی کہ وہ جنت میں ہیں ، اور کہا : اگر میں دسویں شخص ( کے جنت میں داخل ہونے ) کی گواہی دوں تو گنہگار نہ ہوں گا ، ( ابن ادریس کہتے ہیں : عرب لوگ ( «إیثم» کے بجائے ) «آثم» کہتے ہیں ) ، میں نے پوچھا : اور وہ نو کون ہیں ؟ کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس وقت آپ حراء ( پہاڑی ) پر تھے : ” حراء ٹھہر جا ( مت ہل ) اس لیے کہ تیرے اوپر نبی ہے یا صدیق ہے یا پھر شہید “ میں نے عرض کیا : اور نو کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ، میں نے عرض کیا : اور دسواں آدمی کون ہے ؟ تو تھوڑا ہچکچائے پھر کہا : میں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اشجعی نے سفیان سے ، سفیان نے منصور سے ، منصور نے ہلال بن یساف سے ، ہلال نے ابن حیان سے اور ابن حیان نے عبداللہ بن ظالم سے اسی سند سے روایت کیا ہے ۔

Narrated Sa’id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl:

Abdullah ibn Zalim al-Mazini said: I heard Sa’id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl say: When so and so came to Kufah, and made so and so stand to address the people, Sa’id ibn Zayd caught hold of my hand and said: Are you seeing this tyrant? I bear witness to the nine people that they will go to Paradise. If I testify to the tenth too, I shall not be sinful.

I asked: Who are the nine? He said: The Messenger of Allah (ﷺ) said when he was on Hira’: Be still, Hira’, for only a Prophet, or an ever-truthful, or a martyr is on you. I asked: Who are those nine? He said: The Messenger of Allah, AbuBakr, Umar, Uthman, Ali, Talhah, az-Zubayr, Sa’d ibn AbuWaqqas and AbdurRahman ibn Awf. I asked: Who is the tenth? He paused a moment and said: it is I.

Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by al-Ashja’i, from Sufyan, from Mansur, from Hilal b. Yasaf, from Ibn Hayyan on the authority of ‘Abd Allah b. Zalim through his different chain of narrators in a a similar manner.


54

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ ‏ “‏ عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ ‏”‏ ‏.‏ وَلَوْ شِئْتَ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ ‏.‏ قَالَ فَقَالُوا مَنْ هُوَ فَسَكَتَ قَالَ فَقَالُوا مَنْ هُوَ فَقَالَ هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ‏.‏

عبدالرحمٰن بن اخنس سے روایت ہے کہوہ مسجد میں تھے ، ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ کا ( برائی کے ساتھ ) تذکرہ کیا ، تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا : ” دس لوگ جنتی ہیں : ابوبکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں ، عثمان جنتی ہیں ، علی جنتی ہیں ، طلحہ جنتی ہیں ، زبیر بن عوام جنتی ہیں ، سعد بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں “ اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا ، وہ کہتے ہیں : لوگوں نے عرض کیا : وہ کون ہیں ؟ تو وہ خاموش رہے ، لوگوں نے پھر پوچھا : وہ کون ہیں ؟ تو کہا : وہ سعید بن زید ہیں ۔

Narrated Sa’id ibn Zayd:

AbdurRahman ibn al-Akhnas said that when he was in the mosque, a man mentioned Ali (may Allah be pleased with him). So Sa’id ibn Zayd got up and said: I bear witness to the Messenger of Allah (ﷺ) that I heard him say: Ten persons will go to Paradise: The Prophet (ﷺ) will go to Paradise, AbuBakr will go to Paradise, Umar will go to Paradise, Uthman will go to Paradise, Ali will go to Paradise, Talhah will go to Paradise: az-Zubayr ibn al-Awwam will go to paradise, Sa’d ibn Malik will go to Paradise, and AbdurRahman ibn Awf will go to Paradise. If I wish, I can mention the tenth. The People asked: Who is he: So he kept silence. The again asked: Who is he: He replied: He is Sa’id ibn Zayd.


55

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي، رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ قَالَ كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلاَنٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ فَقَالَ سَعِيدٌ مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ قَالَ يَسُبُّ عَلِيًّا ‏.‏ قَالَ أَلاَ أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُسَبُّونَ عِنْدَكَ ثُمَّ لاَ تُنْكِرُ وَلاَ تُغَيِّرُ أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ فَيَسْأَلُنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ ‏ “‏ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ ‏”‏ ‏.‏ وَسَاقَ مَعْنَاهُ ثُمَّ قَالَ لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمْرَ نُوحٍ ‏.‏

ریاح بن حارث کہتے ہیںمیں کوفہ کی مسجد میں فلاں شخص ۱؎ کے پاس بیٹھا تھا ، ان کے پاس کوفہ کے لوگ جمع تھے ، اتنے میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ آئے ، تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا ، اور دعا دی ، اور اپنے پاؤں کے پاس انہیں تخت پر بٹھایا ، پھر اہل کوفہ میں سے قیس بن علقمہ نامی ایک شخص آیا ، تو انہوں نے اس کا استقبال کیا ، لیکن اس نے برا بھلا کہا اور سب وشتم کیا ، سعید بولے : یہ شخص کسے برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ انہوں نے کہا : علی رضی اللہ عنہ کو کہہ رہا ہے ، وہ بولے : کیا میں دیکھ نہیں رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تمہارے پاس برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن تم نہ منع کرتے ہو نہ اس سے روکتے ہو ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے اور مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی بات کہوں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ کل جب میں آپ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کریں : ” ابوبکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں “ پھر اوپر جیسی حدیث بیان فرمایا ، پھر ان ( صحابہ ) میں سے کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت جس میں اس چہرہ غبار آلود ہو جائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کی عمر نوح کی عمر ہو ۲؎ ۔

Rabah ibn al-Harith said:I was sitting with someone in the mosque of Kufah while the people of Kufah were with him. Then Sa’id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl came and he welcomed him, greeted him, and seated him near his foot on the throne. Then a man of the inhabitants of Kufah, called Qays ibn Alqamah, came. He received him and began to abuse him.

Sa’id asked: Whom is this man abusing? He replied: He is abusing Ali. He said: Don’t I see that the companions of the Messenger of Allah (ﷺ) are being abused, but you neither stop it nor do anything about it? I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say–and I need not say for him anything which he did not say, and then he would ask me tomorrow when I see him –AbuBakr will go to Paradise and Umar will go to Paradise. He then mentioned the rest of the tradition to the same effect (as in No. 4632).

He then said: The company of one of their man whose face has been covered with dust by the Messenger of Allah (ﷺ) is better than the actions of one of you for a whole life time even if he is granted the life-span of Noah.


56

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُمْ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَعِدَ أُحُدًا فَتَبِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِرِجْلِهِ وَقَالَ ‏ “‏ اثْبُتْ أُحُدُ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے پھر آپ کے پیچھے ابوبکر ، عمر ، عثمان رضی اللہ عنہم بھی چڑھے ، تو وہ ان کے ساتھ ہلنے لگا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا اور فرمایا : ” ٹھہر جا اے احد ! ( تیرے اوپر ) ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۱؎ “ ۔

Anas b. malik said:The prophet of Allah (ﷺ) ascended Uhud, and Abu Bakr, ’Umar and ‘Uthman followed him. It began to shake with them. The prophet of Allah (ﷺ) struck it with his foot and said: Be still, for only a prophet, an ever-truthful and two martyrs are on you.


57

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ عَبْدِ السَّلاَمِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالاَنِيِّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ، مَوْلَى آلِ جَعْدَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَرَانِي بَابَ الْجَنَّةِ الَّذِي تَدْخُلُ مِنْهُ أُمَّتِي ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَكَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَيْهِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے پاس جبرائیل آئے ، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ، اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی “ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میری خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ میں بھی ہوتا تاکہ میں اسے دیکھتا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو اے ابوبکر ! میری امت میں سے تم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Gabriel came and taking me by the hand showed the gate of Paradise by which my people will enter. AbuBakr then said: Messenger of Allah! I wish I had been with you so that I might have looked at it. The Messenger of Allah (ﷺ) then said: You, AbuBakr, will be the first of my people to enter Paradise.


58

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، أَنَّ اللَّيْثَ، حَدَّثَهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ لاَ يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہنم میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی داخل نہیں ہو گا ، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ( یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان میں شریک رہے ) “ ۔

Jabir reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:No one of those who took the oath of allegiance under the tree will go to hell.


59

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مُوسَى ‏”‏ فَلَعَلَّ اللَّهَ ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ سِنَانٍ ‏”‏ اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( موسیٰ کی روایت میں «فلعل الله» کا لفظ ہے ، اور ابن سنان کی روایت میں «اطلع الله» ہے ) ” اللہ تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظر رحمت و مغفرت سے دیکھا تو فرمایا : جو عمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying – will be according to the version of Musa :Perhaps Allah, and Ibn Sinan’s version has : Allah looked at the participants of the battle of Badr (with mercy) and said : Do whatever you wish ; I have forgiven you.


6

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ قَدِمْتُ عَلَى أَهْلِي وَقَدْ تَشَقَّقَتْ يَدَاىَ فَخَلَّقُونِي بِزَعْفَرَانٍ فَغَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَىَّ وَقَالَ ‏ “‏ اذْهَبْ فَاغْسِلْ هَذَا عَنْكَ ‏”‏ ‏.‏

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمیں اپنے گھر والوں کے پاس آیا ، میرے دونوں ہاتھ پھٹ گئے تھے ، تو انہوں نے میرے ( ہاتھوں پر ) زعفران مل دیا ، صبح کو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا اور فرمایا : ” جاؤ اسے دھو ڈالو “ ۔

‘Ammar b. Yasir said:I came to my family when my hands had cracks. They dyed me with saffron. I then went to Prophet (ﷺ) and saluted him, but he did not return me salutation. He said: Go and wash it away from you.


60

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ، حَدَّثَهُمْ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ‏.‏ قَالَ فَأَتَاهُ – يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ – فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ ‏.‏ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ‏.‏

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے ، پھر راوی نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا ، جب وہ آپ سے بات کرتا ، تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود ، انہوں نے تلوار کے پر تلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا : اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہیں ۔

Al-Miswar b. Makhramah said :The prophet (ﷺ) went out during the time of (treaty of) al-Hudaibiyyah. He then mentioned the rest of the tradition. He said : ‘Urwah b. Mas’ud then came to him and began to speak to the Prophet (ﷺ). Whenever he talk to him, he caught his beard ; and al-Mughirah b. Shu’bah was standing near the head of the Prophet (ﷺ) with a sword with him and a helmet on him. He then struck his hand with the handle of the sword, saying : Keep away your hand from his beard. ‘Urwah then raised his head and said : Who is this ? The prophet said : Al-Mughirah b. Shu’bah.


61

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ، أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنِ الأَقْرَعِ، مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الأُسْقُفِّ فَدَعَوْتُهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ كَيْفَ تَجِدُنِي قَالَ أَجِدُكَ قَرْنًا ‏.‏ فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ فَقَالَ قَرْنُ مَهْ فَقَالَ قَرْنٌ حَدِيدٌ أَمِينٌ شَدِيدٌ ‏.‏ قَالَ كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيءُ مِنْ بَعْدِي فَقَالَ أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ ‏.‏ قَالَ عُمَرُ يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ ثَلاَثًا فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ قَالَ أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ يَا دَفْرَاهُ يَا دَفْرَاهُ ‏.‏ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الدَّفْرُ النَّتْنُ ‏.‏

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن اقرع کہتے ہیںمجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلانے کے لیے بھیجا ، میں اسے بلا لایا ، تو عمر نے اس سے کہا : کیا تم کتاب میں مجھے ( میرا حال ) پاتے ہو ؟ وہ بولا : ہاں ، انہوں نے کہا : کیسا پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں آپ کو قرن پاتا ہوں ، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا : قرن کیا ہے ؟ وہ بولا : لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار ، انہوں نے کہا : جو میرے بعد آئے گا تم اسے کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں ، سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا ، عمر نے کہا : اللہ عثمان پر رحم کرے ، ( تین مرتبہ ) پھر کہا : ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا : وہ تو لوہے کا میل ہے ( یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کا بدن اور ہاتھ گویا دونوں ہی زنگ آلود ہو جائیں گے ) عمر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا ، اور فرمایا : اے گندے ! بدبودار ( تو یہ کیا کہتا ہے ) اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہو گی ، خون بہہ رہا ہو گا ، ( یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہو گی ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «الدفر» کے معنی «نتن» یعنی بدبو کے ہیں ۔

Narrated Umar ibn al-Khattab:

Al-Aqra’, the mu’adhdhin (announcer) of Umar ibn al-Khattab said: Umar sent me to a bishop and I called him.

Umar said to him: Do you find me in the Book? He said: Yes. He asked: How do you find me? He said: I find you (like a) castle. Then he raised a whip to him, saying: What do you mean by castle? He replied: An iron castle and severely trustworthy. He asked: How do you find the one who will come after me? He said: I find him a pious caliph, except that he will prefer his relatives. Umar said: May Allah have mercy on Uthman: He said it three times. He then asked: How do you find the one who will come after him?

He replied: I find him like rusty iron. Umar then put his hand on his head, and said: O filthy! O filthy! He said: Commander of the Faithful! He is a pious caliph, but when he is made caliph, the sword will be unsheathed and blood will be shed.

Abu Dawud said: Al-dafr means filth or evil smell.


62

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا ح، وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ‏”‏ ‏.‏ وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لاَ ‏”‏ ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يُوفُونَ وَيَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ وَيَفْشُو فِيهِمُ السِّمَنُ ‏”‏ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا ، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں ، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں “ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں ، ” پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے ، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے ، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا ، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎ “ ۔

‘Imran b. Husain reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying :the best of my people is the generation in which I have been sent, then their immediate followers, then their immediate followers. Allah knows best whether he mentioned the third or not. After them will be people who will give testimony without being asked, who will make vows which they do not fulfill, who will be treacherous and not to be trusted, among whom fatness will appear.


63

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم میں سے کوئی احد ( پہاڑ ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہو گا ۱؎ “ ۔

Abu Sa’id (al-Khudri) reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Do not revile my Companions; by him in whose hand my soul is, if one of you contributed the amount of gold equivalent to Uhud, it would not amount to as much as the mudd of one of them, or half of it.


64

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ فَيَقُولُ سَلْمَانُ حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ فَيَقُولُونَ لَهُ قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلاَ كَذَّبَكَ ‏.‏ فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ فَقَالَ يَا سَلْمَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ سَلْمَانُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالاً حُبَّ رِجَالٍ وَرِجَالاً بُغْضَ رِجَالٍ وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلاَفًا وَفُرْقَةً وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَطَبَ فَقَالَ ‏ “‏ أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي – فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ – فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلاَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏”‏ ‏.‏ وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ ‏.‏

عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہحذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں ، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے : حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں ، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے : ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب ، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے ، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے : اے سلمان ! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں ؟ تو سلمان نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے ، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں ، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ” میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں ، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے ، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو ( اے اللہ ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے “ اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب ( امیر المؤمنین ) کو لکھ بھیجوں گا ۔

‘Amr b. Abl Qurrah said :Hudhaifah was in al-Mada’in. He used to mention things which the Messenger of Allah (May peace be upon him) said to some people from among his Companions in anger. The people who heard from Hudhaifah would go to Salman and tell him what Hudhaifah said. Salman would say: Hudhaifah knows best what he says. Then they would come to Hudhaifah and tell him: We mentioned Salman what you said, but he neither testified you nor falsified you. So Hudhaifah came to salman who was in his vegetable farm, and said : Salman, what prevents you from testifying me of what I heard from the Messenger of Allah (May peace be upon him) ? Salman said: The Messenger of Allah (May peace be upon him) sometimes would be angry, and said in anger something to some of his Companions; he would be sometimes pleased and said in pleasure something to some of his Companions. Would you not stop until you create love of some people in the hearts of some people, and hatred of some people in the hearts of some people, and until you generate disagreement and dissension? You know that the Messenger of Allah (May peace be upon him) addressed, saying : If I abused any person of my people, or cursed him in my anger. I am one of the children of Adam : I become angry as they become angry. He (Allah) has sent me as a mercy for all worlds. (O Allah!) make them (Abuse or curse) blessing for them on the day of judgment! I swear by Allah. You should stop (mentioning these traditions), otherwise I shall writ to ‘Umar.


65

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ دَعَاهُ بِلاَلٌ إِلَى الصَّلاَةِ فَقَالَ مُرُوا مَنْ يُصَلِّي لِلنَّاسِ ‏.‏ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمَعَةَ فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا فَقُلْتُ يَا عُمَرُ قُمْ فَصَلِّ بِالنَّاسِ فَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَوْتَهُ وَكَانَ عُمَرُ رَجُلاً مُجْهِرًا قَالَ ‏ “‏ فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ ‏”‏ ‏.‏ فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلاَةَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ ‏.‏

حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے بلایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے “ عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے ، میں نے کہا : اے عمر ! اٹھیے نماز پڑھائیے ، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا ، وہ بلند آواز شخص تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا : ” ابوبکر کہاں ہیں ؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی ، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی “ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا ، وہ عمر کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو ( پھر سے ) نماز پڑھائی ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Zam’ah:

When the illness of the Messenger of Allah (ﷺ) became serious while I was with him among a group of people, Bilal called him for prayer. He said: Ask someone to lead the people in prayer. So Abdullah ibn Zam’ah went out and found that Umar was present among the people and AbuBakr was not there. I said: Umar, get up and lead the people in prayer. So he came forward and uttered “Allah is Most Great”. When the Messenger of Allah (ﷺ) heard his voice, as Umar had a loud voice, he said: Where is AbuBakr? Allah does not allow that, and the Muslims too; Allah does not allow that, and the Muslims too. So he sent for AbuBakr. He came after Umar had led the people in that prayer. He then led the people in prayer.


66

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَمْعَةَ، أَخْبَرَهُ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ لَمَّا سَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَوْتَ عُمَرَ قَالَ ابْنُ زَمَعَةَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أَطْلَعَ رَأْسَهُ مِنْ حُجْرَتِهِ ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ لاَ لاَ لاَ لِيُصَلِّ لِلنَّاسِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ‏”‏ ‏.‏ يَقُولُ ذَلِكَ مُغْضَبًا ‏.‏

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہعبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا ، پھر فرمایا : ” نہیں ، نہیں ، نہیں ، ابن ابی قحافہ ( یعنی ابوبکر ) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غصے میں فرما رہے تھے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Abd Allah b. Zam’ah through a different chain. He said:When the Prophet (May peace be upon him) heard ‘Umar’s voice, Ibn Zam’ah said: The Prophet (May peace be upon him) came out until he took out his head of his apartment. He then said : No, no, no; the son of Abu Quhafah should lead the people in prayer. He said it angrily.


67

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ‏”‏ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُصْلِحَ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ أُمَّتِي ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ ‏”‏ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَظِيمَتَيْنِ ‏”‏ ‏.‏

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا : ” میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا “ ۔ حماد کی روایت میں ہے : ” شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎ “ ۔

Narrated AbuBakrah:

The Messenger of Allah (ﷺ) said to al-Hasan ibn Ali. This son of mine is a Sayyid (chief), and I hope Allah may reconcile two parties of my community by means of him. Hammad’s version has: And perhaps Allah may reconcile two large parties of Muslims by means of him.


68

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ قَالَ حُذَيْفَةُ مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ تُدْرِكُهُ الْفِتْنَةُ إِلاَّ أَنَا أَخَافُهَا عَلَيْهِ إِلاَّ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ ‏”‏ ‏.‏

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کو فتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کا خوف نہ ہو ، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا “ ۔

Narrated Hudhayfah:

There is no one who will be overtaken by trial regarding whom I do not fear except Muhammad ibn Maslamah, for I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Trial will not harm you.


69

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ ضُبَيْعَةَ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ فَقَالَ إِنِّي لأَعْرِفُ رَجُلاً لاَ تَضُرُّهُ الْفِتَنُ شَيْئًا ‏.‏ قَالَ فَخَرَجْنَا فَإِذَا فُسْطَاطٌ مَضْرُوبٌ فَدَخَلْنَا فَإِذَا فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ مَا أُرِيدُ أَنْ يَشْتَمِلَ عَلَىَّ شَىْءٌ مِنْ أَمْصَارِكُمْ حَتَّى تَنْجَلِيَ عَمَّا انْجَلَتْ ‏.‏

ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ نے کہا : میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے ، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے ، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملے ، ہم نے ان سے پوچھا ( کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں ؟ ) تو فرمایا : میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے ، اس لیے جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور معاملہ واضح اور صاف نہ ہو جائے شہر کو نہیں جاؤں گا ۔

Tha’labah b. Dubai’ah said:We entered upon Hudhaifah. He said: I know a man whom the trails will not harm. We came out and found that a tent was pitched. We entered and found in it Muhammad b. Maslamah. We asked him about it. He said : I do not intent that any place of your towns should occupy me until that which is prevailing is removed.


7

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ سُمَيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها أَنَّهُ اعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَىٍّ وَعِنْدَ زَيْنَبَ فَضْلُ ظَهْرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِزَيْنَبَ ‏ “‏ أَعْطِيهَا بَعِيرًا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَتْ أَنَا أُعْطِي تِلْكَ الْيَهُودِيَّةَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَهَجَرَهَا ذَا الْحِجَّةَ وَالْمُحَرَّمَ وَبَعْضَ صَفَرٍ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا ایک اونٹ بیمار ہو گیا اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فاضل سواری تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے فرمایا : ” تم اسے ایک اونٹ دے دو “ وہ بولیں : میں اس یہودن کو دے دوں ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور ذی الحجہ ، محرم اور صفر کے چند دنوں تک ان سے بات چیت ترک رکھی ۔

‘A’ishah said:The camel of Safiyyah daughter of Huyayy was fatigued, and Zainab had a surplus mount. The Messenger of Allah (ﷺ) said to Zainab : Give her the camel. She said: Should I give to that Jewess? Thereupon the Messenger of Allah (ﷺ) became angry and kept away from her during Dhu al-Hijjah, Muharram, and a part of Safar.


70

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ضُبَيْعَةَ بْنِ حُصَيْنٍ الثَّعْلَبِيِّ، بِمَعْنَاهُ ‏.‏

ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھیاسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Dubai’ah b. Husain al-Tha’labi through a different chain of narrators to the same effect.


71

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ قُلْتُ لِعَلِيٍّ رضى الله عنه أَخْبِرْنَا عَنْ مَسِيرِكَ هَذَا أَعَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمْ رَأْىٌ رَأَيْتَهُ فَقَالَ مَا عَهِدَ إِلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِشَىْءٍ وَلَكِنَّهُ رَأْىٌ رَأَيْتُهُ ‏.‏

قیس بن عباد کہتے ہیں کہمیں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا : ہمیں آپ ( معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے لیے ) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں ، وہ بولے : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے ۔

Qais b. ‘Abbad said :I said to ‘All (Allah be pleased with him) : Tell me about this march of yours. Is this an order that the Messenger of Allah (May peace be upon him) had given you, or is this your opinion that you have? He said: The Messenger of Allah (May peace be upon him) did not give me any order; but this is an opinion that I have.


72

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہو گا قتل کرے گا “ ۔

Abu Sa’id reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying:In the event of the dissension among Muslims an emerging sect will emerge ; one of the two parties that is nearer to the truth will kill it.


73

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، – يَعْنِي ابْنَ يَحْيَى – عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تُخَيِّرُوا بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو ۱؎ “ ۔

Abu Sa’id al-Khudri reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Do not distinguish between the Prophets.


74

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی بندے کے لیے درست نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۱؎ “ ۔

Ibn ‘Abbas reported the Prophet (May peace be upon him) as saying :It is not fitting for a servent to say that I (The Prophet) is better than Jonah son of Matta.


75

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ مَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ” کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں “ ۔

‘Abd Allah b. Ja’far reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying:It is not fitting for a prophet to say : I am better than Jonah son of matta.


76

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى ‏.‏ فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ يَدَهُ فَلَطَمَ وَجْهَ الْيَهُودِيِّ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى فَإِنَّ النَّاسَ يُصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ فِي جَانِبِ الْعَرْشِ فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ مِمَّنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدِيثُ ابْنِ يَحْيَى أَتَمُّ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہیہود کے ایک شخص نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو چن لیا ، یہ سن کر مسلمان نے یہودی کے چہرہ پر طمانچہ رسید کر دیا ، یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : ” مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ، ( پہلا صور پھونکنے سے ) سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا ، اس وقت موسیٰ علیہ السلام عرش کا ایک کنارا مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں گے ، تو مجھے نہیں معلوم کہ آیا وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیہوش ہو گئے تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ، یا ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے بیہوش ہونے سے محفوظ رکھا ۱؎ “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن یحییٰ کی حدیث زیادہ کامل ہے ۔

‘Abu Hurairah said :A man from among the Jews said : By him who chose Moses above the universe. So a Muslim raised his hand and slapped the Jew on his face. The Jew went to the Messenger of Allah (May peace be upon him) and informed him. The Prophet (May peace be upon him) said: Do not make me superior to Moses, for mankind (on the Day of Resurrection) will swoon and I will be the know whether he was among those who swooned and had recovered before me, or he was among those of whom Allah had made an exception.

Abu Dawud said : The tradition of Ibn yahya is more perfect.


77

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، يَذْكُرُ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ ‏”‏ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا : اے مخلوق میں سے سب سے بہتر ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ شان تو ابراہیم علیہ السلام کی ہے ۱؎ “ ۔

Anas said:A man said to the Messenger of Allah (May peace be upon him): O best of all creatures! The Messenger of Allah (May peace be upon him) said : That was Abraham (peace be upon him).


78

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ فَرُّوخَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں ، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں جو اپنی قبر سے باہر آئے گا ، سب سے پہلے سفارش کرنے والا ہوں اور میری ہی سفارش سب سے پہلے قبول ہو گی “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :I shall be pre-eminent among the descendants of Adam, the first from whom the earth will be cleft open the first intercessor, and the first whose intercession will be accepted.


79

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلاَنِيُّ، وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينٌ هُوَ أَمْ لاَ وَمَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لاَ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے نہیں معلوم کہ تبع قابل ملامت ہے یا نہیں ، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :I do not know whether Tubba was accursed or not, and ‘Uzair (Azra was a prophet or not).


8

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، – يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الْمِرَاءُ فِي الْقُرْآنِ كُفْرٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Controverting about the Qur’an is disbelief.


80

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ الأَنْبِيَاءُ أَوْلاَدُ عَلاَّتٍ وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں ، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں ، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah said :I heard the Messenger of Allah (May peace be upon him) say : I am the nearest of kin among the people to (Jesus) son of Mary. The Prophet are brothers, sons of one father by co-wives. There is no Prophet between me and him.


81

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْعَظْمِ عَنِ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں ، ان میں سب سے افضل ” لا إله إلا الله “ کہنا ، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎ ، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Faith has over seventy branches, the most excellent of which is the declaration that there is no god but Allah, and the humblest of which is the removal of a bone from the road. And modesty is a branch of faith.


82

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ قَالَ ‏”‏ أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ‏”‏ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامُ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہعبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا : ” کیا تم جانتے ہو : ایمان باللہ کیا ہے ؟ “ وہ بولے : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز کی اقامت ، زکاۃ کی ادائیگی ، رمضان کے روزے رکھنا ، اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو “ ۔

Ibn ‘Abbas said :When the deputation of ‘Abd al-Qais came to the Messenger of Allah (May peace be upon him), he commanded them to believe in Allah. He asked : Do you know what faith in Allah is? They replied : Allah and his Apostle know best. He said: It includes the testimony that there is no god but Allah, and that Muhammad is Allah’s Apostle, the observance of the prayer, the payment of zakat, the fasts of Ramadan, and your giving a fifth of the booty.


83

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ۱؎ “ ۔

Jabir reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Between a servant and unbelief there is the abandonment of prayer.


84

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَلاَ دِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ قَالَ ‏”‏ أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَأَمَّا نُقْصَانُ الدِّينِ فَإِنَّ إِحْدَاكُنَّ تُفْطِرُ رَمَضَانَ وَتُقِيمُ أَيَّامًا لاَ تُصَلِّي ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا “ ( ایک عورت ) نے کہا : عقل اور دین میں کیا نقص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے ، اور دین کا نقص یہ ہے کہ ( حیض و نفاس میں ) تم میں کوئی نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے ۱؎ “ ۔

‘Abd Allah b. ‘Umar reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:I did not see more defective in respect of reason and religion than the wise of you (women). A woman asked: What is the defect of reason and religion ? He replied: The defect of reason is the testimony of two women for one man, and the defect of faith is that one of you does not fast during Ramadan (when one is menstruating), and keep away from prayer for some days.


85

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ لَمَّا تَوَجَّهَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْكَعْبَةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ‏}‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہجب ( نماز میں ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ان لوگوں کا کیا ہو گا جو مر گئے ، اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وما كان الله ليضيع إيمانكم» ” ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی نماز ضائع فرما دے “ ( البقرہ : ۱۴۳ ) ۱؎ ۔

Ibn ‘Abbas said:when the Prophet (May peace be upon him) turned towards the Ka’bah (in prayer), the people asked : Messenger of Allah (May peace be upon him)! what will happen with those who died while they prayed with their faces towards Jerusalem ? Allah the Exalted, then revealed : “And never would Allah make your faith of no effect.”


86

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ ‏”‏ ‏.‏

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی ، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی ، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا ، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۱؎ “ ۔

Narrated AbuUmamah:

The Prophet (ﷺ) said: If anyone loves for Allah’s sake, hates for Allah’s sake, gives for Allah’s sake and withholds for Allah’s sake, he will have perfect faith.


87

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے بہتر اخلاق والا ہے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: The most perfect believer in respect of faith is he who is best of them in manners.


88

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ وَأَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رِجَالاً وَلَمْ يُعْطِ رَجُلاً مِنْهُمْ شَيْئًا فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطَيْتَ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَلَمْ تُعْطِ فُلاَنًا شَيْئًا وَهُوَ مُؤْمِنٌ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَوْ مُسْلِمٌ ‏”‏ ‏.‏ حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلاَثًا وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏”‏ أَوْ مُسْلِمٌ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنِّي أُعْطِي رِجَالاً وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْهُمْ لاَ أُعْطِيهِ شَيْئًا مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ‏”‏ ‏.‏

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یا مسلم ہے “ سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے : ” یا مسلم ہے “ پھر آپ نے فرمایا : ” میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں ، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا ، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ ڈال دیئے جائیں ۱؎ “ ۔

Sa’d b. Abi Waqqas said :The Prophet (May peace be upon him) gave some people and did not give anything to a man of them. Sa’d said : Messenger of Allah! You gave so and so, so and so, but did not give anything to so and so while he is a believer. The Prophet (May peace be upon him) said : Or he is a Muslim. Sa’d repeated it thrice and the Prophet (May peace be upon him) then said : I give some people and leave him who is dearer to me than them. I do not give him anything fearing lest he should fall into Hell on his face.


89

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ ‏{‏ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا ‏}‏ قَالَ نَرَى أَنَّ الإِسْلاَمَ الْكَلِمَةُ وَالإِيمَانَ الْعَمَلُ ‏.‏

sanadابن شہاب زہری آیت کریمہ «قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا» ” آپ کہہ دیجئیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ مسلمان ہوئے “ ( سورۃ الحجرات : ۱۴ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں : ہم سمجھتے ہیں کہ ( اس آیت میں ) اسلام سے مراد زبان سے کلمے کی ادائیگی اور ایمان سے مراد عمل ہے ۔

Explaining the verse, “say ; You have no faith, but you only say :We have submitted our wills to Allah”, Al-Zuhri said : We think that ISLAM is a word, and faith is an action.


9

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ أَلاَ إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلاَ يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ أَلاَ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ وَلاَ كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلاَ لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلاَّ أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ ‏”‏ ‏.‏

مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ، مجھے کتاب ( قرآن ) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی ( یعنی سنت ) ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ۱؎ : اس قرآن کو لازم پکڑو ، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو ، اور جو اس میں حرام پاؤ ، اسی کو حرام سمجھو ، سنو ! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں ، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا ، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے ، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے ، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے ۲؎ “ ۔

Narrated Al-Miqdam ibn Ma’dikarib:

The Prophet (ﷺ) said: Beware! I have been given the Qur’an and something like it, yet the time is coming when a man replete on his couch will say: Keep to the Qur’an; what you find in it to be permissible treat as permissible, and what you find in it to be prohibited treat as prohibited. Beware! The domestic ass, beasts of prey with fangs, a find belonging to confederate, unless its owner does not want it, are not permissible to you If anyone comes to some people, they must entertain him, but if they do not, he has a right to mulct them to an amount equivalent to his entertainment.


90

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ح وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَسَّمَ بَيْنَ النَّاسِ قَسْمًا فَقُلْتُ أَعْطِ فُلاَنًا فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ أَوْ مُسْلِمٌ إِنِّي لأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْهُ مَخَافَةَ أَنْ يُكَبَّ عَلَى وَجْهِهِ ‏”‏ ‏.‏

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں کچھ تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا : فلاں کو بھی دیجئیے ، وہ بھی مومن ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یا مسلم ہے ، میں ایک شخص کو کچھ عطا کرتا ہوں حالانکہ اس کے علاوہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے ( جس کو نہیں دیتا ) اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کو نہ دوں تو وہ اوندھے منہ ( جہنم میں ) ڈال دیا جائے “ ۔

Sa’d said :The Prophet (May peace be upon him) distributed (spoils) among the people I said to him : Give so and so for he is a believer. He said : Or he is a Muslim. I give a man something while another man is dearer to me than him, fearing that he may fall into Hell on his face.


91

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎ “ ۔

Ibn ‘Umar reported the Prophet (May peace be upon him) as saying :Do not turn unbelievers after me ; one of you may strike the neck of the other.


92

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَكْفَرَ رَجُلاً مُسْلِمًا فَإِنْ كَانَ كَافِرًا وَإِلاَّ كَانَ هُوَ الْكَافِرَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے ( تو کوئی بات نہیں ) ورنہ وہ ( قائل ) خود کافر ہو جائے گا “ ۔

Ibn ‘Umar reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :If any believing man calls another believing man an unbeliever, if he is actually an infidel, it is all right ; if not, he will become an infidel.


93

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ خَالِصٌ وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ كَانَ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے : جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے ، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے “ ۔

‘Abd Allah b. ‘Amr reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying:Four characteristics constitute anyone who possesses them a sheer hypocrite, and anyone who possesses one of them possesses a characteristics of hypocrisy till he abandons it : when he talks he lies, when he makes a promise he violates it, when he makes a covenant he acts treacherously, and when he quarrels, he deviates from the Truth.


94

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلاَ يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلاَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا ، چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا ، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا ( یعنی ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر بعد میں واپس آ جاتا ہے ) توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے “ ( یعنی اگر توبہ کر لے تو توبہ قبول ہو جائے گی اللہ بخشنے والا ہے ) ۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :When one commits fornication, one is not a believer ; when one steals, one is not a believer ; when one drinks, one is not a believer ; and repentance is placed before him.


95

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، – يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ – قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الإِيمَانُ كَانَ عَلَيْهِ كَالظُّلَّةِ فَإِذَا انْقَطَعَ رَجَعَ إِلَيْهِ الإِيمَانُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور بادل کے ٹکڑے کی طرح اس کے اوپر لٹکا رہتا ہے ، پھر جب زنا سے الگ ہوتا ہے تو دوبارہ ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: When a man commits fornication, faith departs from him and there is something like a canvas roof over his head; and when he quits that action, faith returns to him.


96

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ حَدَّثَنِي بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلاَ تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلاَ تَشْهَدُوهُمْ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قدریہ ( منکرین تقدیر ) اس امت ( محمدیہ ) کے مجوس ہیں ، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو ، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎ “ ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Prophet (ﷺ) said: The Qadariyyah are the Magians of this community. If they are ill, do not pay a sick visit to them, and if they die, do not attend their funerals.


97

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ، مَوْلَى غُفْرَةَ عَنْ رَجُلٍ، مِنَ الأَنْصَارِ عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ وَمَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لاَ قَدَرَ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلاَ تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلاَ تَعُودُوهُمْ وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ ‏”‏ ‏.‏

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں ، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں ، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو ، اور اگر کوئی بیمار پڑے ، تو اس کی عیادت نہ کرو ، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں ، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا “ ۔

Hudhaifah reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying:Every people have Magians, and the Magians of this community are those who declare that there is no destination by Allah. If any one of them dies, do not attend his funeral, and if any one of them is ill, do not pay a sick visit to him. They are the partisans of the Antichrist (Dajjal), and Allah will surely join them with the Antichrist.


98

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ، وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، حَدَّثَاهُمْ قَالاَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْيَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى ‏”‏ وَبَيْنَ ذَلِكَ ‏”‏ ‏.‏ وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ ‏.‏

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا ، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے ، کوئی سفید ، کوئی سرخ ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان ، کوئی نرم خو ، تو کوئی درشت خو ، سخت گیر ، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز “ ۔

Abu Musa al-Ash’ari reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying :Allah created Adam from a handful which he took from the whole of the earth ; so the children of Adam are in accordance with the earth : some red, some white, some black, some a mixture, also smooth and rough, bad and good.


99

حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ، يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ ‏”‏ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلاَّ قَدْ كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلاَّ قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلاَ نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ قَالَ ‏”‏ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ ‏”‏ ‏{‏ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى * وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى * فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى * وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى * وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى * ‏.‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى ‏}‏ ‏”‏ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ، آپ آئے اور بیٹھ گئے ، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی ، چھڑی سے زمین کریدنے لگے ، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے ، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت “ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عمل کرو ، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے ، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں “ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا : ” جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے ، اللہ سے ڈرے ، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کر دیں گے ، اور جو شخص بخل کرے ، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کر دیں گے “ ۱؎ ۔

‘Ali said:We attended a funeral at Baql’ al-Gharqad which was also attended by the Messenger of Allah (May peace be upon him). The Messenger of Allah (May peace be upon him) came and sat down. He had a stick (in his hand) by which he began to scratch up the ground. He then raised his head and said : The place which every one of you and every soul of you will occupy in Hell or in Paradise has been recorded, and destined wicked or blesses. A man from among the people asked : Prophet of Allah! Should we not then trust simply in what has been recorded for us and abandon (doing good) deeds? Those who are among the number of the blessed will be inclined to blessing, and those of us who are among the number of the wicked will be inclined to wickedness. He replied : Go on doing good actions, for everyone is helped to do that for which he was created. Those who are among the number of wicked will be helped to do wicked deeds. The Prophet of Allah (May peace be upon him) then recited: “So he who gives (in charity) and fears (Allah), and in all sincerity testifies to the best, we will indeed make smooth for him the path to bliss. But he who is a greedy miser and thinks himself self-sufficient, and gives the lie to the best, We will indeed make smooth for him the path of misery.”


Scroll to Top
Skip to content