۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

Jihad (Kitab Al-Jihad)

Markazi Anjuman Khuddam ul Quran Lahore

1

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، – يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ – عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، سَأَلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْهِجْرَةِ فَقَالَ ‏”‏ وَيْحَكَ إِنَّ شَأْنَ الْهِجْرَةِ شَدِيدٌ فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَهَلْ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا ‏”‏ ‏.‏

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک اعرابی ( دیہاتی ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے اوپر افسوس ہے ! ۱؎ ہجرت کا معاملہ سخت ہے ، کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ “ اس نے کہا : ہاں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم ان کی زکاۃ دیتے ہو ؟ “ اس نے کہا : ہاں ( دیتے ہیں ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو ، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا ۲؎ “ ۔

Abu Sa’id Al Khudri said “A Bedouin asked the Prophet (ﷺ) about emigration. He replied “Woe to you! The matter of emigration is severe. Have you a Camel? He said, Yes. He asked “Do you pay its zakat? He said, Yes. He said, Then work (anywhere) beyond the seas. Allaah will not reduce anything from (the reward of) your work.


10

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلاَءُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلاً، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِي السِّيَاحَةِ ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏”‏ ‏.‏

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئیے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری امت کی سیاحت اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ہے “ ۔

Narrated AbuUmamah:

A man said: Messenger of Allah, allow tourism for me. The Prophet (ﷺ) said: The tourism of my people is striving in the path of Allah, the Exalted.


100

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُضَمِّرُ الْخَيْلَ يُسَابِقُ بِهَا ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہاللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں ( کو چھریرا ) پھرتیلا بناتے تھے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Prophet (ﷺ) used to make lean by training horses which he employed in the race.


101

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَبَّقَ بَيْنَ الْخَيْلِ وَفَضَّلَ الْقُرَّحَ فِي الْغَايَةِ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کرایا اور پانچویں برس میں داخل ہونے والے گھوڑوں کی منزل دور مقرر کی ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Prophet (ﷺ) used to hold a race between horses and kept the one in the fifth year at a long distance.


102

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، – يَعْنِي الْفَزَارِيَّ – عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي سَفَرٍ قَالَتْ فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَىَّ فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي فَقَالَ ‏ “‏ هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھیں ، کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی ، پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے ( دوبارہ ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے “ ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

while she was on a journey along with the Messenger of Allah (ﷺ): I had a race with him (the Prophet) and I outstripped him on my feet. When I became fleshy, (again) I had a race with him (the Prophet) and he outstripped me. He said: This is for that outstripping.


103

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، – الْمَعْنَى – عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ مَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ ‏”‏ ‏.‏ يَعْنِي وَهُوَ لاَ يُؤْمَنُ أَنْ يُسْبَقَ ‏”‏ فَلَيْسَ بِقِمَارٍ وَمَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ وَقَدْ أَمِنَ أَنْ يُسْبَقَ فَهُوَ قِمَارٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان ایک گھوڑا داخل کر دے اور گھوڑا ایسا ہو کہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین نہ ہو تو وہ جوا نہیں ، اور جو شخص ایک گھوڑے کو دو گھوڑوں کے درمیان داخل کرے اور وہ اس کے آگے بڑھ جانے کا یقین رکھتا ہو تو وہ جوا ہے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: If one enters a horse with two others when he is not certain that it cannot be beaten, it is not gambling; but when one enters a horse with two others when he is certain it cannot be beaten, it is gambling.


104

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِ عَبَّادٍ وَمَعْنَاهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ مَعْمَرٌ وَشُعَيْبٌ وَعَقِيلٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ رِجَالٍ، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَنَا ‏.‏

اس سند سے بھی زہری سے عباد والے طریق ہی سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہےابوداؤد کہتے ہیں : اسے معمر ، شعیب اور عقیل نے زہری سے اور زہری نے اہل علم کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Al Zuhri with the chain of ‘Abbad and to the same affect.

Abu Dawud said “This tradition has also been narrated by Ma’mar, Shu’aib and ‘Aqil on the authority of Al Zuhri from a number of scholars and this is the soundest one in our opinion.


105

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، جَمِيعًا عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ جَلَبَ وَلاَ جَنَبَ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ ‏”‏ فِي الرِّهَانِ ‏”‏ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «جلب» اور «جنب» نہیں ہے “ ۔ یحییٰ نے اپنی حدیث میں «في الرهان» ( گھوڑ دوڑ کے مقابلہ میں ) کا اضافہ کیا ہے ۔

Narrated Imran ibn Husayn:

The Prophet (ﷺ) said: There must be no shouting or leading another horse at one’s side. Yahya added in his tradition: When racing for a wager.


106

حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ الْجَلَبُ وَالْجَنَبُ فِي الرِّهَانِ ‏.‏

قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا«جلب» اور «جنب» ۱؎ گھوڑ دوڑ کے مقابلہ میں ہوتا ہے ۔

Qatadah said “Taking another horse behind one’s horse to urge it on and taking another horse at one’s side are (done) in a horse race.


107

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِضَّةً ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے قبضہ کی خول چاندی کی تھی ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The pommel of the sword of the Messenger of Allah (ﷺ) was of silver.


108

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِضَّةً ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ وَمَا عَلِمْتُ أَحَدًا تَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ ‏.‏

( حسن بصری کے بھائی ) سعید بن ابوالحسن کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے دستہ کی خول چاندی کی تھی ۔ قتادہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ اس پر ان کی متابعت کسی اور شخص نے کی ہے ۔

Narrated Sa’id ibn AbulHasan:

The pommel of the sword of the Messenger of Allah (ﷺ) was of silver.

Qatadah said: I do not know that anyone has supported him for that (for the tradition narrated by Sa’id b. Abu al-Hasan).


109

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَتْ ‏.‏ فَذَكَرَ مِثْلَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَقْوَى هَذِهِ الأَحَادِيثِ حَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ وَالْبَاقِيَةُ ضِعَافٌ ‏.‏

اس سند سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سابقہ حدیث مروی ہےابوداؤد کہتے ہیں : ان احادیث میں سب سے زیادہ قوی سعید بن ابوالحسن کی حدیث ہے اور باقی ضعیف ہیں ۔

The tradition mentioned above has also been narrated by Anas bin Malik through a different chain of narrators. He mentioned similar words.

Abu Dawud said “the strongest of these traditions is the one of Sa’id bin Abu Al Hasan. The rest are weak.


11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنِ ابْنِ شُفَىٍّ، عَنْ شُفَىِّ بْنِ مَاتِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، – هُوَ ابْنُ عَمْرٍو – عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ قَفْلَةٌ كَغَزْوَةٍ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد سے لوٹنا ( ثواب میں ) جہاد ہی کی طرح ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: Returning home is like going on an expedition.


110

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلاً كَانَ يَتَصَدَّقُ بِالنَّبْلِ فِي الْمَسْجِدِ أَنْ لاَ يَمُرَّ بِهَا إِلاَّ وَهُوَ آخِذٌ بِنُصُولِهَا ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا جو مسجد میں تیر بانٹ رہا تھا کہ جب وہ ان تیروں کو لے کر نکلے تو ان کی پیکان پکڑے ہو ۔

Jabir said “The Apostle of Allaah(ﷺ) ordered a man who was distributing arrows not to pass the mosque with them except that he is holding their heads.


111

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلٌ فَلْيُمْسِكْ عَلَى نِصَالِهَا ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ فَلْيَقْبِضْ كَفَّهُ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ فَلْيَقْبِضْ بِكَفِّهِ أَنْ يُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‏”‏ ‏.‏

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کوئی شخص ہماری مسجد یا ہمارے بازار سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہو تو اس کی نوک کو پکڑ لے “ یا فرمایا : ” مٹھی میں دبائے رہے “ ، یا یوں کہا کہ : ” اسے اپنی مٹھی سے دبائے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کسی کو لگ جائے “ ۔

Abu Musa reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “ When one of you passes our Masjid or our market with an arrow, he should hold its head or hold it with its hand (the narrator is doubtful) so that no harm may be done to any Muslim.”


112

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولاً ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار ( کسی کو ) تھمانے سے منع فرمایا ۱؎ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Prophet (ﷺ) prohibited to hand the drawn sword.


113

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى أَنْ يُقَدَّ السَّيْرُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر کاٹنے سے منع فرمایا ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

The Messenger of Allah (ﷺ) prohibited to cut a piece of leather between two fingers.


114

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَسِبْتُ أَنِّي سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ خُصَيْفَةَ، يَذْكُرُ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَجُلٍ، قَدْ سَمَّاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ظَاهَرَ يَوْمَ أُحُدٍ بَيْنَ دِرْعَيْنِ أَوْ لَبِسَ دِرْعَيْنِ ‏.‏

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ ایک ایسے آدمی سے روایت کرتے ہیںجس کا انہوں نے نام لیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے دن دو زرہیں اوپر تلے پہنے شریک غزوہ ہوئے ۔

Narrated As-Sa’ib ibn Yazid:

As-Sa’ib reported on the authority of a man whom he named: The Messenger of Allah (ﷺ) put on two coats of mail during the battle of Uhud as a double protection. (The narrator is doubtful about the word zahara or labisa.)


115

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، – رَجُلٌ مِنْ ثَقِيفٍ مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ – قَالَ بَعَثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ إِلَى الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ يَسْأَلُهُ عَنْ رَايَةِ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا كَانَتْ فَقَالَ كَانَتْ سَوْدَاءَ مُرَبَّعَةً مِنْ نَمِرَةٍ ‏.‏

محمد بن قاسم کے غلام یونس بن عبید کہتے ہیں کہمحمد بن قاسم نے مجھے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے متعلق پوچھوں کہ وہ کیسا تھا ، تو انہوں نے کہا : وہ سیاہ چوکور دھاری دار اونی کپڑے کا تھا ۔

Narrated Al-Bara’ ibn Azib:

Yunus ibn Ubayd, client of Muhammad ibn al-Qasim, said that Muhammad ibn al-Qasim sent to al-Bara’ ibn Azib to ask him about the standard of the Messenger of Allah (ﷺ). He said: It was black and square, being made of a woollen rug.


116

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ، – وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ – حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ كَانَ لِوَاؤُهُ يَوْمَ دَخَلَ مَكَّةَ أَبْيَضَ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مکہ میں داخل ہوئے آپ کا پرچم سفید تھا ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

When the Prophet (ﷺ) entered Mecca his banner was white.


117

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ الشَّعِيرِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ قَوْمِهِ عَنْ آخَرَ، مِنْهُمْ قَالَ رَأَيْتُ رَايَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَفْرَاءَ ‏.‏

سماک اپنی قوم کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور اس نے انہیں میں سے ایک دوسرے شخص سے روایت کیا ، وہ کہتے ہیںمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم زرد دیکھا ۔

Narrated Simak ibn Harb:

Simak reported on the authority of a man from his people, on the authority of another man from them: I saw that the standard of the Messenger of Allah (ﷺ) was yellow.


118

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ ابْغُونِي الضُّعَفَاءَ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ أَخُو عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ ‏.‏

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” میرے لیے ضعیف اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈو ، کیونکہ تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے اور مدد کئے جاتے ہو “ ۔

Narrated AbudDarda’:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Seek for me weak persons, for you are provided means of subsistence and helped through your weaklings.

Abu Dawud said: Zaid b. Artat is the brother of ‘Adi b. Artat.


119

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ كَانَ شِعَارُ الْمُهَاجِرِينَ عَبْدُ اللَّهِ وَشِعَارُ الأَنْصَارِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمہاجرین کا شعار ( کوڈ ) ۱؎ ” عبداللہ “ اور انصار کا شعار ” عبدالرحمٰن “ تھا ۔

Samurah bin Jundub said “The war-cry of the Emigrants was ‘Abd Allah and that of the helpers ‘Abd Al Rahman.”


12

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلاَّمٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلاَّدٍ وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ فَقَالَتْ إِنْ أُرْزَإِ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ لأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ ‏”‏ ‏.‏

قیس بن شماس کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی جس کو ام خلاد کہا جاتا تھا وہ نقاب پوش تھی ، وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی ، ایک صحابی نے اس سے کہا : تو اپنے بیٹے کو پوچھنے چلی ہے اور نقاب پہنے ہوئی ہے ؟ اس نے کہا : اگر میں اپنے لڑکے کی جانب سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیاء کو مصیبت نہیں لاحق ہوئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے “ ، وہ کہنے لگی : ایسا کیوں ؟ اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس وجہ سے کہ اس کو اہل کتاب نے مارا ہے “ ۔

Narrated Thabit ibn Qays:

A woman called Umm Khallad came to the Prophet (ﷺ) while she was veiled. She was searching for her son who had been killed (in the battle) Some of the Companions of the Prophet (ﷺ) said to her: You have come here asking for your son while veiling your face? She said: If I am afflicted with the loss of my son, I shall not suffer the loss of my modesty. The Messenger of Allah (ﷺ) said: You will get the reward of two martyrs for your son. She asked: Why is that so, Messenger of Allah? He replied: Because the people of the Book have killed him.


120

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ – رضى الله عنه – زَمَنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَكَانَ شِعَارُنَا أَمِتْ أَمِتْ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ کیا تو ہمارا شعار «أمت أمت» ۱؎ تھا ۔

Ilyas bin Salamah(bin Al Akwa’) said on the authority of his father “We went on an expedition with Abu Bakr (Allaah be pleased with him) in the time of the Apostle of Allaah(ﷺ) and our war cry was “Put to death” “Put to death”.”


121

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ، قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ، سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ إِنْ بُيِّتُّمْ فَلْيَكُنْ شِعَارُكُمْ حم لاَ يُنْصَرُونَ ‏”‏ ‏.‏

مہلب بن ابی صفرہ کہتے ہیں کہمجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” اگر دشمن تمہارے اوپر شب خون ماریں تو تمہارا شعار ( کوڈ ) «حم لا ينصرون» ۱؎ ہونا چاہیئے “ ۔

Narrated A man who heard the Prophet:

Al-Muhallab ibn AbuSufrah said: A man who heard the Prophet (ﷺ) say: If the enemy attacks you at night, let your war cry be Ha-Mim. They will not be helped.


122

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا سَافَرَ قَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الأَرْضَ وَهَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب وسوء المنظر في الأهل والمال اللهم اطو لنا الأرض وهون علينا السفر» ” اے اللہ ! تو ( میرے ) سفر کا رفیق اور گھر والوں کے لیے میرا قائم مقام ہے ، اے اللہ ! میں تجھ سے سفر کی پریشانیوں سے اور غمگین و ناکام ہو کر لوٹنے سے اور لوٹ کر اہل اور مال میں برے منظر ( دیکھنے سے ) سے پناہ مانگتا ہوں ، اے اللہ ! ہمارے لیے زمین کو لپیٹ دے اور ہم پر سفر آسان کر دے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

When the Messenger of Allah (ﷺ) proceeded on journey, he would say: O Allah, Thou art the Companion in the journey, and the One Who looks after the family; O Allah, I seek refuge in Thee from the difficulty of travelling, finding harm when I return, and unhappiness in what I see coming to my family and property. O Allah, make the length of his journey short for us, and the journey easy for us.


123

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَلِيًّا الأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ كَبَّرَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ ‏”‏ ‏{‏ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ * وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ‏}‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الْبُعْدَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ ‏”‏ ‏.‏ وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ ‏”‏ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ‏”‏ ‏.‏ وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَجُيُوشُهُ إِذَا عَلَوُا الثَّنَايَا كَبَّرُوا وَإِذَا هَبَطُوا سَبَّحُوا فَوُضِعَتِ الصَّلاَةُ عَلَى ذَلِكَ ‏.‏

علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سکھایا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سیدھے بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے ، پھر یہ دعا پڑھتے : « {‏ سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون ‏}‏ اللهم إني أسألك في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا سفرنا هذا اللهم اطو لنا البعد اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل والمال» ” پاک ہے وہ اللہ جس نے اس ( سواری ) کو ہمارے تابع کر دیا جب کہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہیں تھے ، اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، اے اللہ ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور پسندیدہ اعمال کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ ! ہمارے اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے ، اے اللہ ! ہمارے لیے مسافت کو لپیٹ دے ، اے اللہ ! تو ہی رفیق سفر ہے ، اور تو ہی اہل و عیال اور مال میں میرا قائم مقام ہے “ ، اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے : «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون» ” ہم امن و سلامتی کے ساتھ سفر سے لوٹنے والے ، اپنے رب سے توبہ کرنے والے ، اس کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ہیں “ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کے لوگ جب چڑھائیوں پر چڑھتے تو ” اللہ اکبر “ کہتے ، اور جب نیچے اترتے تو ” سبحان اللہ “ کہتے ، پھر نماز بھی اسی قاعدہ پر رکھی گئی ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

When the Messenger of Allah (ﷺ) sat on his camel to go out on a journey, he said: “Allah is Most Great” three times. Then he said: “Glory be to Him Who has made subservient to us, for we had not the strength for it, and to our Lord do we return. O Allah, we ask Thee in this journey of ours, uprightness, piety and such deeds as are pleasing to Thee. O Allah, make easy for us this journey of ours and make its length short for us. O Allah, Thou art the Companion in the journey, and the One Who looks after the family and property in our absence.” When he returned, he said these words adding: “Returning, repentant, serving and praising our Lord.” The Prophet (ﷺ) and his armies said: “Allah is Most Great” when they went up to high ground; and when armies said: “Allah is most Great” when they went up to high ground; and when they descended, they said: “Glory be to Allah.” So the prayer was patterned on that.


124

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ قَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ هَلُمَّ أُوَدِّعْكَ كَمَا وَدَّعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ ‏”‏ ‏.‏

قزعہ کہتے ہیں کہمجھ سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : آؤ میں تمہیں اسی طرح رخصت کروں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رخصت کیا تھا : «أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك» ” میں تمہارے دین ، تمہاری امانت اور تمہارے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں “ ۔

Qaza’ah said Ibn ‘Umar told me “Come, I see off you as the Apostle of Allaah(ﷺ) saw me off. I entrust to Allaah your religion what you are responsible for and your final deeds.”


125

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السَّيْلَحِينِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْخَطْمِيِّ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْتَوْدِعَ الْجَيْشَ قَالَ ‏ “‏ أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وَأَمَانَتَكُمْ وَخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُمْ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ خطمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کو رخصت کرنے کا ارادہ کرتے تو فرماتے : «أستودع الله دينكم وأمانتكم وخواتيم أعمالكم» ” میں تمہارے دین ، تمہاری امانت اور تمہارے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں “ ۔

Narrated Abdullah al-Khutami:

When the Prophet (ﷺ) wanted to say farewell to an army, he would say: I entrust to Allah your religion, what you are responsible for, and your final deeds.


126

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ شَهِدْتُ عَلِيًّا – رضى الله عنه – وَأُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ قَالَ بِسْمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ قَالَ ‏{‏ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ * وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ‏}‏ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ‏.‏ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ ‏.‏ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ‏.‏ ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَىِّ شَىْءٍ ضَحِكْتَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَىِّ شَىْءٍ ضَحِكْتَ قَالَ ‏”‏ إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي ‏”‏ ‏.‏

علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا ، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں ، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا ، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا ، اور «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون» کہا ، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا ، پھر تین مرتبہ «الله اكبر» کہا ، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا ، پھر ہنسے ، پوچھا گیا : امیر المؤمنین ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے : میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے “ ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

Ali ibn Rabi’ah said: I was present with Ali while a beast was brought to him to ride. When he put his foot in the stirrup, he said: “In the name of Allah.” Then when he sat on its back, he said: “Praise be to Allah.” He then said: “Glory be to Him Who has made this subservient to us, for we had not the strength, and to our Lord do we return.” He then said: “Praise be to Allah (thrice); Allah is Most Great (thrice): glory be to Thee, I have wronged myself, so forgive me, for only Thou forgivest sins.” He then laughed. He was asked: At what did you laugh? He replied: I saw the Messenger of Allah (ﷺ) do as I have done, and laugh after that. I asked: Messenger of Allah , at what are you laughing? He replied: Your Lord, Most High, is pleased with His servant when he says: “Forgive me my sins.” He know that no one forgives sins except Him.


127

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا سَافَرَ فَأَقْبَلَ اللَّيْلُ قَالَ ‏ “‏ يَا أَرْضُ رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ وَشَرِّ مَا فِيكِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَدِبُّ عَلَيْكِ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ سَاكِنِ الْبَلَدِ وَمِنْ وَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو فرماتے : «يا أرض ربي وربك الله أعوذ بالله من شرك وشر ما فيك وشر ما خلق فيك ومن شر ما يدب عليك وأعوذ بالله من أسد وأسود ومن الحية والعقرب ومن ساكن البلد ومن والد وما ولد» ” اے زمین ! میرا اور تیرا رب اللہ ہے ، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور کالے ناگ سے اور سانپ اور بچھو سے اور زمین پر رہنے والے ( انسانوں اور جنوں ) کے شر سے اور جننے والے کے شر اور جس چیز کو جسے اس نے جنا ہے اس کے شر سے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr:

When the Messenger of Allah (ﷺ) was travelling and night came on, he said: O earth, my Lord and your Lord is Allah; I seek refuge in Allah from your evil, the evil of what you contain, the evil of what has been created in you, and the evil of what creeps upon you; I seek refuge in Allah from lions, from large black snakes, from other snakes, from scorpions, from the evil of jinn which inhabit a settlement, and from a parent and his offspring.


128

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَعِيثُ إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْفَوَاشِي مَا يَفْشُو مِنْ كُلِّ شَىْءٍ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب سورج ڈوب جائے تو اپنے جانوروں کو نہ چھوڑو یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے ، کیونکہ شیاطین سورج ڈوبنے کے بعد فساد مچاتے ہیں یہاں تک کہ رات کی ابتدائی سیاہی چلی جائے “ ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «فواشی» ہر شیٔ کا وہ حصہ ہے جو پھیل جائے ۔

Jabir bin ‘Abd Allaah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Do not send out your beasts when the sun has set till the darkness of the night prevails, for the devils grope about in the dark when the sun has set till the darkness of the night prevails.”


129

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ فِي سَفَرٍ إِلاَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ ‏.‏

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہبہت کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے علاوہ کسی اور دن سفر میں نکلیں ( یعنی آپ اکثر جمعرات ہی کو نکلتے تھے ) ۔

Narrated Ka’b ibn Malik:

It was rarely that the Messenger of Allah (ﷺ) set out on a journey on any day but on a Thursday.


13

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ بِشْرٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ يَرْكَبُ الْبَحْرَ إِلاَّ حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سمندر کا سفر نہ کرے مگر حج کرنے والا ، یا عمرہ کرنے والا ، یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور اس آگ کے نیچے سمندر ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: No one should sail on the sea except the one who is going to perform hajj or umrah, or the one who is fighting in Allah’s path for under the sea there is a fire, and under the fire there is a sea.


130

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا ‏”‏ ‏.‏ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ ‏.‏ وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلاً تَاجِرًا وَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهُوَ صَخْرُ بْنُ وَدَاعَةَ ‏.‏

صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «اللهم بارك لأمتي في بكورها» ” اے اللہ ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے “ اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی سریہ یا لشکر بھیجتے ، تو دن کے ابتدائی حصہ میں بھیجتے ۔ ( عمارہ کہتے ہیں ) صخر ایک تاجر آدمی تھے ، وہ اپنی تجارت صبح سویرے شروع کرتے تھے تو وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت ہو گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صخر سے مراد صخر بن وداعہ ہیں ۔

Narrated Sakhr al-Ghamidi:

The Prophet (ﷺ) said: “O Allah, bless my people in their early mornings.” When he sent out a detachment or an army, he sent them at the beginning of the day. Sakhr was a merchant, and he would send off his merchandise at the beginning of the day; and he became rich and had much wealth.

Abu Dawud said: He is Sakhr b. Wada’ah.


131

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ وَالثَّلاَثَةُ رَكْبٌ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں ، اور تین سوار قافلہ ہیں “ ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: A single rider is a devil, and a pair of riders are a pair of devils, but three are a company of riders.


132

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرِ بْنِ بَرِّيٍّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا خَرَجَ ثَلاَثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں “ ۔

Narrated AbuSa’id al-Khudri:

The Prophet (ﷺ) said: When three are on a journey, they should appoint one of them as their commander.


133

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا كَانَ ثَلاَثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ نَافِعٌ فَقُلْنَا لأَبِي سَلَمَةَ فَأَنْتَ أَمِيرُنَا ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ان میں سے کسی کو امیر بنا لیں ۱؎ “ ، نافع کہتے ہیں : تو ہم نے ابوسلمہ سے کہا : آپ ہمارے امیر ہیں ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: When three are on a journey, they should appoint one of them as their commander. Nafi’ said: We said to AbuSalamah: You are our commander.


134

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ ‏.‏ قَالَ مَالِكٌ أُرَاهُ مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ ‏.‏

نافع سے روایت ہے کہعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو دشمن کی سر زمین میں لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے ، مالک کہتے ہیں : میرا خیال ہے اس واسطے منع کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پا لے ۱؎ ۔

‘Abd Allaah bin ‘Umar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) prohibited to travel with a copy of the Qur’an to the enemy territory. The narrator Malik said “(It is) I think lest the enemy should take it.


135

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، سَمِعْتُ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُمِائَةٍ وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلاَفٍ وَلَنْ يُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ مُرْسَلٌ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو ۱؎ ، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو ، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو ، اور بارہ ہزار کی فوج قلت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی ۲؎ “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: The best number of companions is four, the best number in expeditions four hundred, and the best number in armies four thousand; and twelve thousand will not be overcome through smallness of numbers.

Abu Dawud said: What is correct is that this tradition is mursal (i.e. the link of the Companion is missing).


136

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ أَوْصَاهُ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ وَبِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا وَقَالَ ‏ “‏ إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلاَثِ خِصَالٍ أَوْ خِلاَلٍ فَأَيَّتُهَا أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمُ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَىْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ إِلاَّ أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ تَعَالَى وَقَاتِلْهُمْ وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ تَعَالَى فَلاَ تُنْزِلْهُمْ فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْرُونَ مَا يَحْكُمُ اللَّهُ فِيهِمْ وَلَكِنْ أَنْزِلُوهُمْ عَلَى حُكْمِكُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِيهِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ عَلْقَمَةُ فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ فَقَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ – قَالَ أَبُو دَاوُدَ هُوَ ابْنُ هَيْصَمٍ – عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ‏.‏

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے ، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے ، اور فرماتے : ” جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا ، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا ، ( سب سے پہلے ) انہیں اسلام کی جانب بلانا ، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کر لیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا ، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا ، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہو گی جو مہاجرین کے لیے ہو گی ، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے ، جو مہاجرین کے ہیں ، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے ، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے ، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا ، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں ، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا ، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا ، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا ، اور ان سے جہاد کرنا ، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو ، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا ، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا ، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا ، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا “ ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں : علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا : مجھ سے مسلم نے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وہ ابن ہیصم ہیں ، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور نعمان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا ۔

Sulaiman bin Buraidah reported on the authority of his father. When the Apostle of Allaah(ﷺ) appointed a Commander over an Army or a detachment, he instructed him to fear Allaah himself and consider the welfare of the Muslims who were with him. He then said “When you meet the polytheists who are your enemy, summon them tone of three things and accept whichever of them they are willing to agree to, and refrain from them. Summon them to Islam and if they agree, accept it from them and refrain from them. Then summon them to leave their territory and transfer to the abode of the Emigrants and tell them that if they do so, they will have the same rights and responsibilities as the Emigrants, but if they refuse and choose their own abode, tell them that they will be like the desert Arabs who are Muslims subject to Allaah’s jurisdiction which applies to the believers, but will have no spoil or booty unless they strive with the Muslims. If they refuse demand jizyah (poll tax) from them, if they agree accept it from them and refrain from them. But if they refuse, seek Alaah’s help and fight with them. When you invade the fortress and they (its people) offer to capitulate and have the matter referred to Allaah’s jurisdiction, do not grant this, for you do not know whether or not you will hit on Allaah’s jurisdiction regarding them. But let them capitulate and have the matter refereed to your jurisdiction and make a decision about them later on as you wish.

Sufyan (bin ‘Uyainah) said thah ‘Alqamah said “I mentioned this tradition to Muqatil bin Habban, He said “Muslim narrated it to me.” Abu Dawud said “He is Ibn Haidam narrated from Al Nu’man in Muqqarin from the Prophet (ﷺ) like the tradition of Sulaiman bin Buraidah.


137

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تُمَثِّلُوا وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا ‏”‏ ‏.‏

بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کے نام سے اور اللہ کے راستے میں غزوہ کرو اور اس شخص سے جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے ، غزوہ کرو ، بدعہدی نہ کرو ، خیانت نہ کرو ، مثلہ نہ کرو ، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرو “ ۔

Sulaiman bin Buraidah reported on his father’s authority The Prophet(ﷺ) said “Fight in the name of Allaah and in the path of Allaah and with him who disbelieves in Allaah fight and do not be treacherous and do not be dishonest about boot yand do not deface (in killing) and do not kill a child.”


138

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِرْزِ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ وَلاَ تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلاَ طِفْلاً وَلاَ صَغِيرًا وَلاَ امْرَأَةً وَلاَ تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا ‏{‏ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ‏}‏ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مجاہدین کو رخصت کرتے وقت ) فرمایا : ” تم لوگ اللہ کے نام سے ، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ ، اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا ، نہ بچوں کو ، نہ چھوٹے لڑکوں کو ، اور نہ ہی عورتوں کو ، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا ، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا ، صلح کرنا اور نیکی کرنا ، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: Go in Allah’s name, trusting in Allah, and adhering to the religion of Allah’s Apostle. Do not kill a decrepit old man, or a young infant, or a child, or a woman; do not be dishonest about booty, but collect your spoils, do right and act well, for Allah loves those who do well.


139

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا ‏}‏‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا ( یہ مقام بویرہ میں تھا ) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» ” کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے ، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا ، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا “ ( سورۃ الحشر : ۵ ) ۔

Ibn “umar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) burned the palm tree of Banu Al Nadr and cut (them) down at Al Buwairah. So, Allaah the exalted sent down “the palm trees you cut down or left.”


14

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، – يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ – عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ، أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ عِنْدَهُمْ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ ‏.‏ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَكَكَ قَالَ ‏”‏ رَأَيْتُ قَوْمًا مِمَّنْ يَرْكَبُ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنَّكِ مِنْهُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَتْ ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ ‏.‏ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَكَكَ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ ‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَغَزَا فِي الْبَحْرِ فَحَمَلَهَا مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا فَمَاتَتْ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں قیلولہ کیا ، پھر بیدار ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا : ” میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر “ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! دعا کیجئے ، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے ، فرمایا : ” تو انہیں میں سے ہے “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! دعا کیجئے ، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو پہلے لوگوں میں سے ہے “ ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے شادی کی ، پھر انہوں نے سمندر میں جہاد کیا توا نہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے ، جب لوٹے تو ایک خچر ان کی سواری کے لیے ان کے قریب لایا گیا ، تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ انتقال کر گئیں ۔

Anas bin Malik (may Allaah be pleased with him) said “Umm Haram, daughter of Milhan, sister of Umm Sulaim, narrated to me that the Apostle of Allaah(ﷺ) took a mid day nap with them. He then awoke laughing. She said “I asked the Apostle of Allaah(ﷺ), what made you laugh?” He replied “I saw some people who ere sailing in the midst of the sea like kings on thrones. She said “I said the Apostle of Allaah(ﷺ) beseech Allaah that He may put me among them. He replied “You will be among them.” She said “He then slept and awoke laughing. She said “I asked the Apostle of Allaah(ﷺ), what made you laugh? He replied as he said in the first reply. She said “I said the Apostle of Allaah(ﷺ) beseech Allaah that HE may put me amongst them. He replied “You will be among the first. Then ‘Ubadah bin Al Samit married her and sailed on the sea on an expedition and took her with him. When he returned, a riding beast was brought near her to ride, but it threw her down. Her neck was broken and she died.


140

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ فَحَدَّثَنِي أُسَامَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عَهِدَ إِلَيْهِ فَقَالَ ‏ “‏ أَغِرْ عَلَى أُبْنَى صَبَاحًا وَحَرِّقْ ‏”‏ ‏.‏

عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصیت کی تھی اور فرمایا تھا : ” ابنی ۱؎ پر صبح سویرے حملہ کرو اور اسے جلا دو “ ۔

Narrated Usamah:

The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined upon him to attack Ubna in the morning and burn the place.


141

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الْغَزِّيُّ، سَمِعْتُ أَبَا مُسْهِرٍ، قِيلَ لَهُ أُبْنَى ‏.‏ قَالَ نَحْنُ أَعْلَمُ هِيَ يُبْنَى فِلَسْطِينَ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو غزی کہتے ہیں کہابومسہر کے سامنے ابنیٰ کا تذکرہ آیا تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا : ہم جانتے ہیں یہ یُبنی ہے جو فلسطین میں ہے ۔

Abu Mishar was told about Ubna. He said “We know it better. This is Yubna of Palestine.


142

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، – يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ – عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ بَعَثَ – يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم – بُسْبَسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ دیکھیں کہ ابوسفیان کا قافلہ کیا کر رہا ہے ۔

Anas said “the Prophet(ﷺ) sent Busaisah as a spy to see what the caravan of Abu Sufyan was doing.”


143

حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ الرَّقَّامُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ عَلَى مَاشِيَةٍ فَإِنْ كَانَ فِيهَا صَاحِبُهَا فَلْيَسْتَأْذِنْهُ فَإِنْ أَذِنَ لَهُ فَلْيَحْلِبْ وَلْيَشْرَبْ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا فَلْيُصَوِّتْ ثَلاَثًا فَإِنْ أَجَابَهُ فَلْيَسْتَأْذِنْهُ وَإِلاَّ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلاَ يَحْمِلْ ‏”‏ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی کسی جانور کے پاس سے گزرے اور اس کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے ، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ دوہ کر پی لے اور اگر اس کا مالک موجود نہ ہو تو تین بار اسے آواز دے ، اگر وہ آواز کا جواب دے تو اس سے اجازت لے ، ورنہ دودھ دوہے اور پی لے ، لیکن ساتھ نہ لے جائے ۱؎ “ ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

The Prophet (ﷺ) said: When one of you comes to the cattle, he should seek permission of their master if he is there; if he permits, he should milk (the animals) and drink. If he is not there, he should call three times. If he responds, he should seek his permission; otherwise, he may milk (the animals) and drink, but should not carry (with him).


144

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ أَصَابَتْنِي سَنَةٌ فَدَخَلْتُ حَائِطًا مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ فَفَرَكْتُ سُنْبُلاً فَأَكَلْتُ وَحَمَلْتُ فِي ثَوْبِي فَجَاءَ صَاحِبُهُ فَضَرَبَنِي وَأَخَذَ ثَوْبِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ ‏”‏ مَا عَلَّمْتَ إِذْ كَانَ جَاهِلاً وَلاَ أَطْعَمْتَ إِذْ كَانَ جَائِعًا ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ سَاغِبًا ‏”‏ ‏.‏ وَأَمَرَهُ فَرَدَّ عَلَىَّ ثَوْبِي وَأَعْطَانِي وَسْقًا أَوْ نِصْفَ وَسْقٍ مِنْ طَعَامٍ ‏.‏

عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمجھے قحط نے ستایا تو میں مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ میں گیا اور کچھ بالیاں توڑیں ، انہیں مل کر کھایا ، اور ( باقی ) اپنے کپڑے میں باندھ لیا ، اتنے میں اس کا مالک آ گیا ، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ( اور آپ سے سارا ماجرا بتایا ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک سے فرمایا : ” تم نے اسے بتایا نہیں جب کہ وہ جاہل تھا اور نہ کھلایا ہی جب کہ وہ بھوکا تھا “ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا اس نے میرا کپڑا واپس کر دیا اور ایک وسق ( ساٹھ صاع ) یا نصف وسق ( تیس صاع ) غلہ مجھے دیا ۔

Narrated Abbad ibn Shurahbil:

I suffered from drought; so I entered a garden of Medina, and rubbed an ear-corn. I ate and carried in my garment. Then its master came, he beat me and took my garment. He came to the Messenger of Allah (ﷺ) who said to him: You did not teach him if he was ignorant; and you did not feed him if he was hungry. He ordered him, so he returned my garment to me, and gave me one or half a wasq (sixty or thirty sa’s) of corn.


145

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ شُرَحْبِيلَ، – رَجُلاً مِنَّا مِنْ بَنِي غُبَرَ – بِمَعْنَاهُ ‏.‏

ابوبشر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے عباد بن شرحبیل سے جو ہمیں میں سے قبیلہ بنو غبر کے ایک فرد تھے اسی مفہوم کی حدیث سنی ۔

Abu Bishr said “I heard ‘Abbad bin ‘Shurahbil a man of us from Banu Ghubar. He narrated the reast of the tradition to the same effect.”


146

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ – وَهَذَا لَفْظُ أَبِي بَكْرٍ – عَنْ مُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي حَكَمٍ الْغِفَارِيَّ، يَقُولُ حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي، عَنْ عَمِّ أَبِي رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ، قَالَ كُنْتُ غُلاَمًا أَرْمِي نَخْلَ الأَنْصَارِ فَأُتِيَ بِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ يَا غُلاَمُ لِمَ تَرْمِي النَّخْلَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ آكُلُ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَلاَ تَرْمِ النَّخْلَ وَكُلْ مِمَّا يَسْقُطُ فِي أَسْفَلِهَا ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ فَقَالَ ‏”‏ اللَّهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهُ ‏”‏ ‏.‏

ابورافع بن عمرو غفاری کے چچا کہتے ہیں کہمیں کم سن تھا اور انصار کے کھجور کے درختوں پر ڈھیلے مارا کرتا تھا ، لوگ مجھے ( پکڑ کر ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے ، آپ نے فرمایا : ” بچے ! تم کھجور کے درختوں پر کیوں پتھر مارتے ہو ؟ “ میں نے عرض کیا : ( کھجوریں ) کھانے کی غرض سے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پتھر نہ مارا کرو ، جو نیچے گرا ہو اسے کھا لیا کرو “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ، اور میرے لیے دعا کی کہ اے اللہ اس کے پیٹ کو آسودہ کر دے ۔

Narrated The uncle of AbuRafi ibn Amr al-Ghifari:

I was a boy. I used to throw stones at the palm-trees of the Ansar. So I was brought to the Prophet (ﷺ) who said: O boy, why do you throw stones at the palm-trees? I said: eat (dates). He said: Do not throw stones at the palm trees, but eat what falls beneath them. He then wiped his head and said: O Allah, fill his belly.


147

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرَبَتُهُ فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ فَيُنْتَثَلَ طَعَامُهُ فَإِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَتَهُمْ فَلاَ يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِهِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کوئی کسی کے جانور کو اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے ، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بالاخانہ میں آ کر اس کا گودام توڑ کر غلہ نکال لیا جائے ؟ اسی طرح ان جانوروں کے تھن ان کے مالکوں کے گودام ہیں تو کوئی کسی کا جانور اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے “ ۔

‘Abd Allah bin Umar reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “One should not milk the cattle of anyone without his permission. Does anyone of you like that any one approaches his corn cell and its storage is broken and then the corn scatters away? Likewise, the teats of their Cattle store their food. Therefore none of you should milk the cattle of anyone without his permission.”


148

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ ‏{‏ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ ‏}‏ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ بَعَثَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ أَخْبَرَنِيهِ يَعْلَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیںآیت «يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم» ” اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اپنے میں سے اختیار والوں کی “ ( سورۃ النساء : ۵۹ ) عبداللہ ( عبداللہ بن حذافہ ) قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ۔

Ibn Juraij said “O ye who believe, Obey Allaah and obey the Apostle and those charged with authority amongst you.” This verse was revealed about ‘Abd Allaah bin Qais bin ‘Adi whom the Prophet (ﷺ) sent along with a detachment. Ya’la narrated it to me from Sa’id bin Jubair on the authority of Ibn ‘Abbas.


149

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، – رضى الله عنه – أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلاً وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا فَأَجَّجَ نَارًا وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَقْتَحِمُوا فِيهَا فَأَبَى قَوْمٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا وَقَالُوا إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنَ النَّارِ وَأَرَادَ قَوْمٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ لَوْ دَخَلُوهَا – أَوْ دَخَلُوا فِيهَا – لَمْ يَزَالُوا فِيهَا ‏”‏ ‏.‏ وَقَالَ ‏”‏ لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ ‏”‏ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا ، اور ایک آدمی ۱؎ کو اس کا امیر بنایا اور لشکر کو حکم دیا کہ اس کی بات سنیں ، اور اس کی اطاعت کریں ، اس آدمی نے آگ جلائی ، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس میں کود پڑیں ، لوگوں نے اس میں کودنے سے انکار کیا اور کہا : ہم تو آگ ہی سے بھاگے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس میں کود جانا چاہا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر وہ اس میں داخل ہو گئے ہوتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے “ ، اور فرمایا : ” اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو بس نیکی کے کام میں ہے ۲؎ “ ۔

‘Ali (Allaah be pleased with him) said “The Messenger of Allah(ﷺ) sent an army and appointed a man as a commander for them and he commanded them to listen to him and obey. He kindled fire and ordered them to jump into it. A group refused to enter into it and said “We escaped from the fire; a group intended to enter into it. When the Prophet (ﷺ) was informed about it, he said “Had they entered into it, they would have remained into it. There is no obedience in matters involving disobedience to Allaah. Obedience is in matters which are good and universally recognized.


15

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ – وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ – فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ ‏.‏ وَسَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَمَاتَتْ بِنْتُ مِلْحَانَ بِقُبْرُصَ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے ، یہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں ، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی جوئیں نکالنے لگیں ۱؎ ، اور آگے راوی نے یہی حدیث بیان کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بنت ملحان کا انتقال قبرص میں ہوا ۔

Anas bin Malik said “Whenever the Apostle of Allaah(ﷺ) went to Quba, he used to visit Umm Haram daughter of Milhan who was married to ‘Ubadah bin Al Samit. One day when he visited her she gave him food an sat clearing his head of lice. The narrator narrated the rest of the tradition.

Abu Dawud said “Daughter of Milhan died in Cyprus”.


150

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمان آدمی پر امیر کی بات ماننا اور سننا لازم ہے چاہے وہ پسند کرے یا ناپسند ، جب تک کہ اسے کسی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، لیکن جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے “ ۔

‘Abd Allaah bin Masud reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Listening and Obedience are binding on a Muslim whether he likes or dislikes, so long as he is not commanded for disobedience (to Allaah). If he is commanded to disobedience (to Allaah), no listening and disobedience are binding (on him).


151

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلاَلٍ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، مِنْ رَهْطِهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً فَسَلَحْتُ رَجُلاً مِنْهُمْ سَيْفًا فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ لَوْ رَأَيْتَ مَا لاَمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أَعَجَزْتُمْ إِذْ بَعَثْتُ رَجُلاً مِنْكُمْ فَلَمْ يَمْضِ لأَمْرِي أَنْ تَجْعَلُوا مَكَانَهُ مَنْ يَمْضِي لأَمْرِي ‏”‏ ‏.‏

عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ ( دستہ ) بھیجا ، میں نے ان میں سے ایک شخص کو تلوار دی ، جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا : کاش آپ وہ دیکھتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ملامت کی ہے ، آپ نے فرمایا : ” کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ جب میں نے ایک شخص کو بھیجا اور وہ میرا حکم بجا نہیں لایا تو تم اس کے بدلے کسی ایسے شخص کو مقرر کر دیتے جو میرا حکم بجا لاتا “ ۔

Narrated Uqbah ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) sent a detachment. I gave a sword to a man from among them. When he came back, he said: Would that you saw us how the Messenger of Allah (ﷺ) rebuked us, saying: When I sent out a man who does not fulfil my command, are you unable to appoint in his place one who will fulfil my command.


152

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، وَيَزِيدُ بْنُ قُبَيْسٍ، – مِنْ أَهْلِ جَبَلَةَ سَاحِلِ حِمْصٍ وَهَذَا لَفْظُ يَزِيدَ – قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلاَءِ أَنَّهُ سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ مِشْكَمٍ أَبَا عُبَيْدِ اللَّهِ يَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ قَالَ كَانَ النَّاسُ إِذَا نَزَلُوا مَنْزِلاً – قَالَ عَمْرٌو كَانَ النَّاسُ إِذَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَنْزِلاً – تَفَرَّقُوا فِي الشِّعَابِ وَالأَوْدِيَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ تَفَرُّقَكُمْ فِي هَذِهِ الشِّعَابِ وَالأَوْدِيَةِ إِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمْ يَنْزِلْ بَعْدَ ذَلِكَ مَنْزِلاً إِلاَّ انْضَمَّ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ حَتَّى يُقَالُ لَوْ بُسِطَ عَلَيْهِمْ ثَوْبٌ لَعَمَّهُمْ ‏.‏

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہلوگ جب کسی جگہ اترتے ، عمرو کی روایت میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جگہ اترتے تو لوگ گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جاتے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارا ان گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جانا شیطان کی جانب سے ہے ۱؎ “ ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ نہیں اترے مگر بعض بعض سے اس طرح سمٹ جاتا کہ یہ کہا جاتا کہ اگر ان پر کوئی کپڑا پھیلا دیا جاتا تو سب کو ڈھانپ لیتا ۔

Narrated AbuTha’labah al-Khushani:

When the people encamped, (the narrator Amr ibn Uthman al-Himsi) said: When the Messenger of Allah (ﷺ) encamped, the people scattered in the glens and wadis. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Your scattering in these glens and wadis is only of the devil. They afterwards kept close together when they encamped to such an extent that it used to be said that if a cloth were spread over them, it would cover them all.


153

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخَثْعَمِيِّ، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ مُجَاهِدٍ اللَّخْمِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ غَزَوْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَزْوَةَ كَذَا وَكَذَا فَضَيَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ وَقَطَعُوا الطَّرِيقَ فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُنَادِيًا يُنَادِي فِي النَّاسِ أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلاً أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلاَ جِهَادَ لَهُ ‏.‏

معاذ بن انس جھنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے مسدود کر دیئے ۱؎ تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کر دیں ، یا راستہ مسدود کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے ۔

Narrated Mu’adh ibn Anas al-Juhani:

I fought along with the Prophet (ﷺ) in such and such battles. The people occupied much space and encroached on the road. The Prophet (ﷺ) sent an announcer to announce among the people: Those who occupy much space or encroach on the road will not be credited with jihad.


154

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ بِمَعْنَاهُ ‏.‏

معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی ۔

Sahl bin Mu’adh reported on the authority of his father “We fought along with the Prophet of Allaah(ﷺ). The rest of the tradition is to the same effect.”


155

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ – يَعْنِي ابْنَ مَعْمَرٍ وَكَانَ كَاتِبًا لَهُ – قَالَ كَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى حِينَ خَرَجَ إِلَى الْحَرُورِيَّةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ قَالَ ‏”‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّهَ تَعَالَى الْعَافِيَةَ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِيَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ ‏”‏ ‏.‏

عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب ( سکریٹری ) سالم ابونضر کہتے ہیں کہعبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا : ” لوگو ! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو ، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے “ ، پھر فرمایا : ” اے اللہ ! کتابوں کے نازل فرمانے والے ، بادلوں کو چلانے والے ، اور جتھوں کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے ، اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما “ ۔

Salim Abu Al Nadr, client of ‘Umar bin ‘Ubaid Allaah that is Ibn Ma’mar who Salim was his (‘Umar’s) secretary reported “When ‘Abd Allah bin Abi Afwa went out to the Haruriyyah (Khawarij), he wrote to him (‘Umar bin ‘Ubaid Allaah), The Messenger of Allah(ﷺ) said on a ceratin day when he was fighting with the enemy. O people do not desire to meet the enemy, ask Allaah, Most High, for health and security. When you meet them (the enemy) have patience and endurance, you should know that paradise is under the shade of swords. He then said “O Allaah, Who sends down the Book, makes the cloud to travel and rotes the confederates, tout them and give us victory over them.”


156

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا غَزَا قَالَ ‏ “‏ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي وَنَصِيرِي بِكَ أَحُولُ وَبِكَ أَصُولُ وَبِكَ أُقَاتِلُ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ کرتے تو فرماتے : «اللهم أنت عضدي ونصيري بك أحول وبك أصول وبك أقاتل» ” اے اللہ ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے ، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں ، اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں ، اور تیری ہی مدد سے میں قتال کرتا ہوں “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

When the Messenger of Allah (ﷺ) went on an expedition, he said: O Allah, Thou art my aider and helper; by Thee I move, by Thee I attack, and by Thee I fight.


157

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ عَنْ دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ، عِنْدَ الْقِتَالِ فَكَتَبَ إِلَىَّ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ وَقَدْ أَغَارَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُهُمْ تُسْقَى عَلَى الْمَاءِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ وَسَبَى سَبْيَهُمْ وَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا حَدِيثٌ نَبِيلٌ رَوَاهُ ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ وَلَمْ يُشْرِكْهُ فِيهِ أَحَدٌ ‏.‏

ابن عون کہتے ہیں کہمیں نے نافع کے پاس لڑائی کے وقت کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا ، تو انہوں نے مجھے لکھا : یہ شروع اسلام میں تھا ( اس کے بعد ) اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو مصطلق پر حملہ کیا ، وہ غفلت میں تھے ، اور ان کے چوپائے پانی پی رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کیا ، اور باقی کو گرفتار کر لیا ۱؎ ، اور جویریہ بنت الحارث ۲؎ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن پایا ، یہ بات مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی جو خود اس لشکر میں تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ایک عمدہ حدیث ہے ، اسے ابن عون نے نافع سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ۔

Ibn ‘Awn said “I wrote to Nafi’ asking him about summoning the polytheists (to Islam) at the time of fighting. So, he wrote to me “This was in the early days of Islam. The Prophet of Allaah(ﷺ) attacked Banu Al Mustaliq while they were inattentive and their cattle were drinking water. So their fighters were killed and the survivors (i.e., women and children) were taken prisoners. On that day Juwairiyyah daughter of Al Harith was obtained. ‘Abd Allaah narrated this to me, he was in that army.”

Abu Dawud said “This is a good tradition narrtted by Ibn ‘Awn from Nafi’ and no one shared him in narrating it.”


158

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ وَكَانَ يَتَسَمَّعُ فَإِذَا سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلاَّ أَغَارَ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور غور سے ( اذان ) سننے کی کوشش کرتے تھے جب اذان سن لیتے تو رک جاتے ، ورنہ حملہ کر دیتے ۱؎ ۔

Anas said “The Prophet (ﷺ) used to attack at the time of the dawn prayer and hear. If he heard a call to prayer, he would refrain from them, otherwise would attack (them).


159

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ، عَنِ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ فَقَالَ ‏ “‏ إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَلاَ تَقْتُلُوا أَحَدًا ‏”‏ ‏.‏

عصام مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں بھیجا اور فرمایا : ” جب تم کوئی مسجد دیکھنا ، یا کسی مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سننا تو کسی کو قتل نہ کرنا “ ۔

Narrated Isam al-Muzani:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent us in a detachment and said (to us): If you see a mosque or hear a mu’adhdhin (calling to prayer), do not kill anyone.


16

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُخْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ الرُّمَيْصَاءِ، قَالَتْ نَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَيْقَظَ وَكَانَتْ تَغْسِلُ رَأْسَهَا فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَضْحَكُ مِنْ رَأْسِي قَالَ ‏ “‏ لاَ ‏”‏ ‏.‏ وَسَاقَ هَذَا الْخَبَرَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ ‏.‏

ام حرام رمیصاء ۱؎ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے پھر بیدار ہوئے ، اور وہ اپنا سر دھو رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ میرے بال دیکھ کر ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ ، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رمیصاء ام سلیم کی رضاعی بہن تھیں ۲؎ ۔

Umm Sulaim Al Rumaisa said “The Prophet(ﷺ) slept and awoke while she was washing her head.” He awoke laughing. She asked “Apostle of Allaah(ﷺ) are you laughing at my head?” He replied, No. She then narrated the rest of the tradition enlarging and reducing.

Abu Dawud said:Al-Rumaisa was the foster sister of Umm Sulaim.


160

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الْحَرْبُ خُدْعَةٌ ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ۱؎ “ ۔

Jabir reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “War is deception.”


161

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَةً وَرَّى غَيْرَهَا وَكَانَ يَقُولُ ‏”‏ الْحَرْبُ خُدْعَةٌ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلاَّ مَعْمَرٌ يُرِيدُ قَوْلَهُ ‏”‏ الْحَرْبُ خُدْعَةٌ ‏”‏ ‏.‏ بِهَذَا الإِسْنَادِ إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرٍ وَمِنْ حَدِيثِ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ‏.‏

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو جس سمت جانا ہوتا اس کے علاوہ کا توریہ ۱؎ کرتے اور فرماتے : ” جنگ دھوکہ کا نام ہے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معمر کے سوا کسی اور نے اس سند سے نہیں روایت کیا ہے ، وہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «الحرب خدعة» کو مراد لے رہے ہیں ، یہ لفظ صرف عمرو بن دینار کے واسطے سے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یا معمر کے واسطے سے ہمام بن منبہ سے مروی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔

Narrated Ka’b ibn Malik:

When the Prophet (ﷺ) intended to go on an expedition, he always pretended to be going somewhere else, and he would say: War is deception.

Abu Dawud said: Only Ma’mar has transmitted this tradition. By this he refers to his statement “War is deception” through this chain of narrators. He narrated it from the tradition of ‘Amr b. Dinar from Jabir, and from the tradition of Ma’mar from Hammam b. Munabbih on the authority of Abu Hurairah.


162

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَأَبُو عَامِرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَيْنَا أَبَا بَكْرٍ – رضى الله عنه – فَغَزَوْنَا نَاسًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَبَيَّتْنَاهُمْ نَقْتُلُهُمْ وَكَانَ شِعَارُنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ أَمِتْ أَمِتْ ‏.‏ قَالَ سَلَمَةُ فَقَتَلْتُ بِيَدِي تِلْكَ اللَّيْلَةَ سَبْعَةَ أَهْلِ أَبْيَاتٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‏.‏

سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا ، ہم نے مشرکین کے کچھ لوگوں سے جہاد کیا تو ہم نے ان پر شب خون مارا ، ہم انہیں قتل کر رہے تھے ، اور اس رات ہمارا شعار ( کوڈ ) «أمت أمت» ۱؎ تھا ، اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھروں کے مشرکوں کو قتل کیا ۲؎ ۔

Narrated Salamah ibn al-Akwa’:

The Messenger of Allah (ﷺ) appointed AbuBakr our commander and we fought with some people who were polytheists, and we attacked them at night, killing them. Our war-cry that night was “put to death; put to death.” Salamah said: I killed that night with my hand polytheists belonging to seven houses.


163

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ شَوْكَرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَهُمْ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَتَخَلَّفُ فِي الْمَسِيرِ فَيُزْجِي الضَّعِيفَ وَيُرْدِفُ وَيَدْعُو لَهُمْ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ساقہ ( لشکر کے پچھلے دستہ ) کے ساتھ رہا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمزوروں کو ساتھ لیتے ، انہیں اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا کرتے ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Messenger of Allah (ﷺ) used to keep to the rear when travelling and urge on the weak. He would take someone up behind him and make supplication for them all.


164

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہ دینے لگ جائیں ، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے ، سوائے اس کے حق کے ( یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا ) اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “ I am commanded to fight with men till they testify that there is no god but Allaah, when they do that they will keep their life and property safe from me, except what is due to them. (i.e., life and property) and their reckoning will be at Allaah’s hands.”


165

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنْ يَسْتَقْبِلُوا قِبْلَتَنَا وَأَنْ يَأْكُلُوا ذَبِيحَتَنَا وَأَنْ يُصَلُّوا صَلاَتَنَا فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ ‏”‏ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله» ” نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں “ کی گواہی دینے ، ہمارے قبلہ کا استقبال کرنے ، ہمارا ذبیحہ کھانے ، اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے نہ لگ جائیں ، تو جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کے خون اور مال ہمارے اوپر حرام ہو گئے سوائے اس کے حق کے ساتھ اور ان کے وہ سارے حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر وہ سارے حقوق عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہوتے ہیں “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: I am commanded to fight with men till they testify that there is no god but Allah, and that Muhammad is His servant and His Apostle, face our qiblah (direction of prayer), eat what we slaughter, and pray like us. When they do that, their life and property are unlawful for us except what is due to them. They will have the same rights as the Muslims have, and have the same responsibilities as the Muslims have.


166

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الْمُشْرِكِينَ ‏”‏ ‏.‏ بِمَعْنَاهُ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں “ ، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے ۔

Anas bin Malik reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “ I am commanded to fight with the polytheists. The rest of the tradition is to the same effect as mentioned above.”


167

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى، قَالاَ حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً إِلَى الْحُرَقَاتِ فَنَذِرُوا بِنَا فَهَرَبُوا فَأَدْرَكْنَا رَجُلاً فَلَمَّا غَشَيْنَاهُ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَضَرَبْنَاهُ حَتَّى قَتَلْنَاهُ فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَنْ لَكَ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا مَخَافَةَ السِّلاَحِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَالَهَا أَمْ لاَ مَنْ لَكَ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏”‏ ‏.‏ فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أُسْلِمْ إِلاَّ يَوْمَئِذٍ ‏.‏

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات ۱؎ کی طرف ایک سریہ میں بھیجا ، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہو گیا ، چنانچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے ، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا ، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو «لا إله إلا الله» کہنے لگا ( اس کے باوجود ) ہم نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا ، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا ؟ “ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ کیوں نہیں لیا کہ ۲؎ اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا ہے یا ( تلوار کے ڈر سے ) نہیں ( بلکہ اسلام کے لیے ) ؟ قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات فرماتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش کہ میں آج ہی اسلام لایا ہوتا ۔

Usamah bin Zaid said “The Messenger of Allah (ﷺ) sent us with a detachment to Al Huruqat. They learnt about us and fled away. But we found a man, when we attacked him he uttered “There is no god but Allaah, still we struck him till we killed him.” When I mentioned it to the Prophet (ﷺ) he said “Who will save you from “There is no god but Allaah” on the Day of Judgment? I said “Messenger of Allah (ﷺ), he uttered it for the fear of the weapon.” He said “Did you tear his heart so that you learnt whether he actually uttered it for this or not. Who will support you against “There is no god but Allaah”? He kept on repeating this till I wished I would have embraced Islam on that day.


168

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلاً مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَىَّ بِالسَّيْفِ ثُمَّ لاَذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ فَقَالَ أَسْلَمْتُ لِلَّهِ ‏.‏ أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ تَقْتُلْهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَطَعَ يَدِي ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ ‏”‏ ‏.‏

مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہانہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہو جائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے : میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا ، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں تم اسے قتل نہ کرو “ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے قتل نہ کرو ، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آ جائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا “ ۱؎ ۔

Al Miqdad bin Al Aswad reported that he said “Apostle of Allaah(ﷺ) tell me if I meet a man who is a disbeliever and he fights with me and cuts off one hand of mine with the sword and then takes refuge by a tree and says “I embraced Islam for Allah’s sake. Should I kill him, Apostle of Allaah(ﷺ) after he uttered it (the credo of Islam)? The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Do not kill him”. I said “Apostle of Allaah(ﷺ), he cut off my hand. The Apostle of Allaah(ﷺ) said, Do not kill him. I f you kill him, he will become like you before you kill him and you will become like him before he uttered his credo which he has uttered now.


169

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلُ – قَالَ – فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ ‏”‏ أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ قَالَ ‏”‏ لاَ تَرَاءَى نَارَاهُمَا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ هُشَيْمٌ وَمُعْتَمِرٌ وَخَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ وَجَمَاعَةٌ لَمْ يَذْكُرُوا جَرِيرًا ‏.‏

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت ۱؎ کا حکم دیا اور فرمایا : ” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے “ ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دونوں کی ( یعنی اسلام اور کفر کی ) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی “ ۲؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہشیم ، معمر ، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جریر کا ذکر نہیں کیا ہے ۳؎ ۔

Narrated Jarir ibn Abdullah:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent an expedition to Khath’am. Some people sought protection by having recourse to prostration, and were hastily killed. When the Prophet (ﷺ) heard that, he ordered half the blood-wit to be paid for them, saying: I am not responsible for any Muslim who stays among polytheists. They asked: Why, Messenger of Allah? He said: Their fires should not be visible to one another.

Abu Dawud said: Hushaim, Ma’mar, Khalid b. al-Wasiti and a group of narrators have also narrated it, but did not mention Jarir.


17

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الْعَيْشِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، ح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْجَوْبَرِيُّ الدِّمَشْقِيُّ، – الْمَعْنَى – قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، أَخْبَرَنَا هِلاَلُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ “‏ الْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي يُصِيبُهُ الْقَىْءُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ وَالْغَرِقُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ ‏”‏ ‏.‏

ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( جہاد یا حج کے لیے ) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے ، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے “ ۔

Umm Haram reported the Prophet(ﷺ) as saying “He who becomes sick on a stormy sea and vomits will have the reward of a martyr. And he who is drowned will have a reward of two martyrs.


170

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ نَزَلَتْ ‏{‏ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ‏}‏ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَنْ لاَ يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ ثُمَّ إِنَّهُ جَاءَ تَخْفِيفٌ فَقَالَ ‏{‏ الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ ‏}‏ قَرَأَ أَبُو تَوْبَةَ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ‏}‏ قَالَ فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خَفَّفَ عَنْهُمْ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہآیت کریمہ «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» ” اگر تم میں سے بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے “ ( سورۃ الانفال : ۶۵ ) نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا کہ ان میں کا ایک آدمی دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے ، تو یہ چیز ان پر شاق گزری ، پھر تخفیف ہوئی اور اللہ نے فرمایا : «الآن خفف الله عنكم» ” اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے تو اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے “ ( سورۃ الانفال : ۶۶ ) ۔ ابوتوبہ نے پوری آیت «يغلبوا مائتين» تک پڑھ کر سنایا اور کہا : جب اللہ نے ان سے تعداد میں تخفیف کر دی تو اس تخفیف کی مقدار میں صبر میں بھی کمی کر دی ۔

Ibn ‘Abbas said “When the verse “If there are twenty amongst you patient and persevering, they will vanquish two hundred” was revealed. It was heavy and troublesome for Muslims when Allaah prescribed for them that one (fighting Muslim) should not fly from ten (fighting Non-Muslims). Then a light commandment was revealed saying “For the present Allaah hath lightened your (task).” The narrator Abu Tawbah recited the verse to “they will vanquish two hundred.” When Allaah lightened the number, patient and perseverance also decreased according to the number lightened from them.”


171

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ، كَانَ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً فَكُنْتُ فِيمَنْ حَاصَ – قَالَ – فَلَمَّا بَرَزْنَا قُلْنَا كَيْفَ نَصْنَعُ وَقَدْ فَرَرْنَا مِنَ الزَّحْفِ وَبُؤْنَا بِالْغَضَبِ فَقُلْنَا نَدْخُلُ الْمَدِينَةَ فَنَتَثَبَّتُ فِيهَا وَنَذْهَبُ وَلاَ يَرَانَا أَحَدٌ – قَالَ – فَدَخَلْنَا فَقُلْنَا لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَإِنْ كَانَتْ لَنَا تَوْبَةٌ أَقَمْنَا وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ ذَهَبْنَا – قَالَ – فَجَلَسْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَبْلَ صَلاَةِ الْفَجْرِ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا نَحْنُ الْفَرَّارُونَ فَأَقْبَلَ إِلَيْنَا فَقَالَ ‏”‏ لاَ بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَدَنَوْنَا فَقَبَّلْنَا يَدَهُ فَقَالَ ‏”‏ أَنَا فِئَةُ الْمُسْلِمِينَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا میں سے کسی سریہ میں تھے ، وہ کہتے ہیں کہ لوگ تیزی کے ساتھ بھاگے ، بھاگنے والوں میں میں بھی تھا ، جب ہم رکے تو ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں ؟ ہم کافروں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے ، پھر ہم نے کہا : چلو ہم مدینہ چلیں اور وہاں ٹھہرے رہیں ، ( پھر جب دوسری بار جہاد ہو ) تو چل نکلیں اور ہم کو کوئی دیکھنے نہ پائے ، خیر ہم مدینہ گئے ، وہاں ہم نے اپنے دل میں کہا : کاش ! ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا ، اگر ہماری توبہ قبول ہوئی تو ہم ٹھہرے رہیں گے ورنہ ہم چلے جائیں گے ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں فجر سے پہلے بیٹھ گئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ہم کھڑے ہوئے اور آپ کے پاس جا کر ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں ، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” نہیں ، بلکہ تم لوگ «عکارون» ہو ( یعنی دوبارہ لڑائی میں واپس لوٹنے والے ہو ) “ ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ( خوش ہو کر ) ہم آپ کے نزدیک گئے اور آپ کا ہاتھ چوما تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں “ ، ( یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں میرے سوا وہ اور کہاں جائیں گے ؟ ) ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

Ibn Umar was sent with a detachment of the Messenger of Allah (ﷺ). The people wheeled round in flight. He said: I was one of those who wheeled round in flight. When we stopped, we said (i.e. thought): How should we do? We have run away from the battlefield and deserve Allah’s wrath. Then we said (thought): Let us enter Medina, stay there, and go there while no one sees us. So we entered (Medina) and thought: If we present ourselves before the Messenger of Allah (ﷺ), and if there is a change of repentance for us, we shall stay; if there is something else, we shall go away. So we sat down (waiting) for the Messenger of Allah (ﷺ) before the dawn prayer. When he came out, we stood up to him and said: We are the ones who have fled. He turned to us and said: No, you are the ones who return to fight after wheeling away. We then approached and kissed his hand, and he said; I am the main body of the Muslims.


172

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ نَزَلَتْ فِي يَوْمِ بَدْرٍ ‏{‏ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ ‏}‏ ‏.‏

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ«ومن يولهم يومئذ دبره» ۱؎ بدر کے دن نازل ہوئی ۔

Abu Sa’id said “The verse “If any do turn his back to them on such a day” was revealed on the day of the Battle of Badr.”


173

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، وَخَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا أَلاَ تَسْتَنْصِرْ لَنَا أَلاَ تَدْعُو اللَّهَ لَنَا فَجَلَسَ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ فَقَالَ ‏ “‏ قَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الأَرْضِ ثُمَّ يُؤْتَى بِالْمِنْشَارِ فَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُجْعَلُ فِرْقَتَيْنِ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ وَعَصَبٍ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَحَضْرَمَوْتَ مَا يَخَافُ إِلاَّ اللَّهَ تَعَالَى وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَعْجَلُونَ ‏”‏ ‏.‏

خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے ، ہم نے آپ سے ( کافروں کے غلبہ کی ) شکایت کی اور کہا : کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے ؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے ؟ ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا ، اور فرمایا : ” تم سے پہلے آدمی کا یہ حال ہوتا کہ وہ ایمان کی وجہ سے پکڑا جاتا تھا ، اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا تھا ، اس کے سر کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی ، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے ہڈی کے گوشت اور پٹھوں کو نوچا جاتا تھا لیکن یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی ، اللہ کی قسم ! اللہ اس دین کو پورا کر کے رہے گا ، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور سوائے اللہ کے یا اپنی بکریوں کے سلسلہ میں بھیڑئے کے کسی اور سے نہیں ڈرے گا لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو “ ۔

Khabbab said “We came to the Apostle of Allaah(ﷺ) while he was reclining on an outer garment in the shade of the Ka’bah. Complaining to him we said “Do you not ask Allaah for help for us? And do you not pray to Allaah for us? He sat aright turning red in his face and said “A man before you (i.e., in ancient times) was caught and a pit was dug for him in the earth and then a saw was brought placed on his head and it was broken into two pieces but that did not turn him away from his religion. They were combed in iron combs in flesh and sinews above the bones. Even that did not turn them away from their religion. I swear by Allaah, Allaah will accomplish this affair until a rider will travel between San’a and Hadramaut and he will not fear anyone except Allaah, Most High(nor will he fear the attack of) a wolf on his sheep, but you are making haste.


174

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، حَدَّثَهُ حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَخْبَرَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، – وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ – قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا، عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَقُولُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ ‏”‏ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَانْطَلَقْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا هَلُمِّي الْكِتَابَ ‏.‏ فَقَالَتْ مَا عِنْدِي مِنْ كِتَابٍ ‏.‏ فَقُلْتُ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ ‏.‏ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَإِذَا هُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَا هَذَا يَا حَاطِبُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لاَ تَعْجَلْ عَلَىَّ فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَإِنَّ قُرَيْشًا لَهُمْ بِهَا قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي بِهَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ بِي مِنْ كُفْرٍ وَلاَ ارْتِدَادٍ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ صَدَقَكُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ‏”‏ ‏.‏

عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے ، کہتے ہیں : میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا : ” تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ۱؎ پہنچو ، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا “ ، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا ، ہم نے اس سے کہا : خط لاؤ ، اس نے کہا : میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ، میں نے کہا : خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے ، اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر دیا ، ہم اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے ، وہ حاطب بن ابوبلتعہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے کچھ مشرکوں کے نام تھا ، وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور سے آگاہ کر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” حاطب یہ کیا ہے ؟ “ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے سلسلے میں جلدی نہ کیجئے ، میں تو ایسا شخص ہوں جو قریش میں آ کر شامل ہوا ہوں یعنی ان کا حلیف ہوں ، خاص ان میں سے نہیں ہوں ، اور جو لوگ قریش کی قوم سے ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں ، مشرکین اس قرابت کے سبب مکہ میں ان کے مال اور عیال کی نگہبانی کرتے ہیں ، چونکہ میری ان سے قرابت نہیں تھی ، میں نے چاہا کہ میں ان کے حق میں کوئی ایسا کام کر دوں جس کے سبب مشرکین مکہ میرے اہل و عیال کی نگہبانی کریں ، قسم اللہ کی ! میں نے یہ کام نہ کفر کے سبب کیا اور نہ ہی ارتداد کے سبب ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس نے تم سے سچ کہا “ ، اس پر عمر رضی اللہ عنہ بولے : مجھے چھوڑئیے ، میں اس منافق کی گردن مار دوں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ جنگ بدر میں شریک رہے ہیں ، اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو جھانک کر نظر رحمت سے دیکھا ، اور فرمایا : تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں “ ۔

‘Ali said “The Apostle of Allaah(ﷺ) sent me Al Zubair and Al Miqdad and said “Go till you come to the meadow of Khakh for there Is a woman there travelling on a Camel who has a letter which you must take from her. We went off racing one another on our horses till we came to the meadow and when we found the woman, we aid “Bring out the letter. She said “I have no letter”. I said “You must bring out the letter else we strip off your clothes”. She then brought it out from the tresses and we took it to the Prophet(ﷺ). It was addressed from Hatib bin Abi Balta’ah to some of the polytheists(in Makkah) giving them some information about the Apostle of Allaah(ﷺ). He asked “What is this, Hatib? He replied, Apostle of Allaah(ﷺ) do not be hasty with me. I have been a man attached as an ally to the Quraish and am not one of them while those of the Quraish (i.e. the emigrants) have relationship with them by which they guarded their family in Makkah. As I did not have that advantage I wanted to give them some help for which they might guard my relations. I swear by Allaah I am not guilty of unbelief or apostasy (from my religion). The Apostle of Allaah(ﷺ) said “he has told you the truth. ‘Umar said “Let me cut off this hypocrite’s head. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “He was present at Badr and what do you know, perhaps Allaah might look with pity on those who were present at Badr? And said “Do what you wish, I have forgiven you.”


175

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ انْطَلَقَ حَاطِبٌ فَكَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم قَدْ سَارَ إِلَيْكُمْ وَقَالَ فِيهِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ ‏.‏ فَانْتَحَيْنَاهَا فَمَا وَجَدْنَا مَعَهَا كِتَابًا فَقَالَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لأَقْتُلَنَّكِ أَوْ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ ‏.‏

اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے ، اس میں ہے کہحاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو لکھ بھیجا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اوپر حملہ کرنے والے ہیں ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت بولی : ” میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے “ ، ہم نے اس کا اونٹ بٹھا کر دیکھا تو اس کے پاس ہمیں کوئی خط نہیں ملا ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے ! میں تجھے قتل کر ڈالوں گا ، ورنہ خط مجھے نکال کر دے ، پھر پوری حدیث ذکر کی ۔

‘Ali said “Hatib went and wrote to the people of Makkah that Muhammad (ﷺ) is going to proceed to them. This version has “She said “I have no letter. We made her Camel kneel down, but we did not find any letter with her. ’Ali said “By Him in Whose name oath is taken, I shall kill you or you should bring out the letter. He then narrated the rest of the tradition.


176

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُحَبَّبٍ أَبُو هَمَّامٍ الدَّلاَّلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَيَّانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِقَتْلِهِ وَكَانَ عَيْنًا لأَبِي سُفْيَانَ وَكَانَ حَلِيفًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَمَرَّ بِحَلْقَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ إِنِّي مُسْلِمٌ ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَقُولُ إِنِّي مُسْلِمٌ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالاً نَكِلُهُمْ إِلَى إِيمَانِهِمْ مِنْهُمْ فُرَاتُ بْنُ حَيَّانَ ‏”‏ ‏.‏

فرات بن حیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا ، یہ ابوسفیان کے جاسوس اور ایک انصاری کے حلیف تھے ۱؎ ، ان کا گزر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے کچھ انصار کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں ، ایک انصاری نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہم انہیں ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں ، ان ہی میں سے فرات بن حیان بھی ہیں “ ۔

Narrated Furat ibn Hayyan:

The Messenger of Allah (ﷺ) commanded to kill him: he was a spy of AbuSufyan and an ally of a man of the Ansar. He passed a circle of the Ansar and said: I am a Muslim. A man from the Ansar said, Messenger of Allah, he is saying that he is a Muslim. The Messenger of Allah (ﷺ) said: There are people among you in whose faith we trust. Furat ibn Hayyan is one of them.


177

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنِ ابْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَيْنٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ – وَهُوَ فِي سَفَرٍ – فَجَلَسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ ثُمَّ انْسَلَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اطْلُبُوهُ فَاقْتُلُوهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَسَبَقْتُهُمْ إِلَيْهِ فَقَتَلْتُهُ وَأَخَذْتُ سَلَبَهُ فَنَفَّلَنِي إِيَّاهُ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرکوں میں سے ایک جاسوس آیا ، آپ سفر میں تھے ، وہ آپ کے اصحاب کے پاس بیٹھا رہا ، پھر چپکے سے فرار ہو گیا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کو تلاش کر کے قتل کر ڈالو “ ، سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : سب سے پہلے میں اس کے پاس پہنچا اور جا کر اسے قتل کر دیا اور اس کا مال لے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور نفل ( انعام ) مجھے دیدیا ۔

Ibn Salamah bin Al Akwa’ repoted on the authority of his father. A spy of the polytheists came to the Prophet(ﷺ) when he was on a journey. He sat near his Companions and then slipped away. The Prophet(ﷺ) said “look for him and kill him”. He said “I raced to him and killed him. I took his belongings which he (the Prophet) gave me.


178

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ هَاشِمَ بْنَ الْقَاسِمِ، وَهِشَامًا، حَدَّثَاهُمْ قَالاَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَوَازِنَ – قَالَ – فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَتَضَحَّى وَعَامَّتُنَا مُشَاةٌ وَفِينَا ضَعَفَةٌ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ فَانْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حِقْوِ الْبَعِيرِ فَقَيَّدَ بِهِ جَمَلَهُ ثُمَّ جَاءَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ فَلَمَّا رَأَى ضَعَفَتَهُمْ وَرِقَّةَ ظَهْرِهِمْ خَرَجَ يَعْدُو إِلَى جَمَلِهِ فَأَطْلَقَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ فَقَعَدَ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ يَرْكُضُهُ وَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ هِيَ أَمْثَلُ ظَهْرِ الْقَوْمِ – قَالَ – فَخَرَجْتُ أَعْدُو فَأَدْرَكْتُهُ وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ وَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَأَنَخْتُهُ فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ بِالأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي فَأَضْرِبَ رَأْسَهُ فَنَدَرَ فَجِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ وَمَا عَلَيْهَا أَقُودُهَا فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّاسِ مُقْبِلاً فَقَالَ ‏”‏ مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا سَلَمَةُ بْنُ الأَكْوَعِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ هَارُونُ هَذَا لَفْظُ هَاشِمٍ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا ، وہ کہتے ہیں : ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے ، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے ، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا ، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا ، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا ، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا ، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے ہوئے تیزی کے ساتھ چل پڑا ( جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جاسوس ہے ) تو قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی خاکستری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا اور یہ لوگوں کی سواریوں میں سب سے بہتر تھی ، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا اور حال یہ تھا کہ اونٹنی کا سر اونٹ کے پٹھے کے پاس اور میں اونٹنی کے پٹھے پر تھا ، پھر میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں اونٹ کے پٹھے کے پاس پہنچ گیا ، پھر آگے بڑھ کر میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھایا ، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا تو میں نے تلوار میان سے نکال کر اس کے سر پر ماری تو اس کا سر اڑ گیا ، میں اس کا اونٹ مع ساز و سامان کے کھینچتے ہوئے لایا تو لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا : ” اس شخص کو کس نے مارا ؟ “ لوگوں نے بتایا : سلمہ بن اکوع نے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کا سارا سامان انہی کو ملے گا ۱؎ “ ۔

Salamh (bin Al Akwa’) said “I went on an expedition with the Apostle of Allaah(ﷺ) against Hawazin and while we were having a meal in the forenoon and most of our people were on foot and some of us were weak, a man came on a red Camel. He took out a rope from the lion of the Camel and tied his Camel with it and began to take meal with the people. When he saw the weak condition of their people and lack of mounts he went out in a hurry to his Camel, untied it made it kneel down and sat on it and went off galloping it. A man of the tribe of Aslam followed him on a brown she Camel which was best of those of the people. I hastened out and I found him while the head of the she Camel was near the paddock of the she Camel. I then went ahead till I reached near the paddock of the Camel. I then went ahead till I caught the Camel’s nose string. I made it kneel. When it placed its knee on the ground, I drew my sword and struck the man on his head and it fell down. I then brought the Camel leading it with (its equipment) on it. The Apostle of Allaah(ﷺ) came forward facing me and asked “Who killed the man? They (the people) said “Salamah bin Akwa’. He said “he gets all his spoil.”

Harun said “This is Hashim’s version.


179

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ النُّعْمَانَ، – يَعْنِي ابْنَ مُقَرِّنٍ – قَالَ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَخَّرَ الْقِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ وَتَهُبَّ الرِّيَاحُ وَيَنْزِلَ النَّصْرُ ‏.‏

نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( لڑائی میں ) شریک رہا آپ جب صبح کے وقت جنگ نہ کرتے تو قتال ( لڑائی ) میں دیر کرتے یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جاتا ، ہوا چلنے لگتی اور مدد نازل ہونے لگتی ۔

Narrated An-Nu’man ibn Muqarrin:

I was present at fighting along with the Messenger of Allah (ﷺ), and when he did not fight at the beginning of the day, he waited till the sun had passed the meridian, the winds blew, and help came down.


18

حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ عَتِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ سَمَاعَةَ – حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ ثَلاَثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلاَمٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏”‏ ‏.‏

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے : ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے ، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا ، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا ، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا ، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا ، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا ، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا ، اللہ اس کا بھی ضامن ہے “ ۔

Abu Umamat Al Bahili reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “There are three persons who are in the security of Allaah, the Exalted.” “A man who goes out on an expedition to fight in the path of Allaah, the Exalted, is in the security of Allaah, until He takes him unto Him(i.e., he dies) and brings him into Paradise or brings him(alive) with reward and booty he obtains and a man who goes to the mosque is in the security of Allaah, until he takes him unto Him(i.e., he dies), and he brings him into Paradise or brings him with reward and spoils he obtains; and a man who enters his house after giving salutation is in the security of Allaah, the Exalted.”


180

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ح وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَكْرَهُونَ الصَّوْتَ عِنْدَ الْقِتَالِ ‏.‏

قیس بن عباد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہصحابہ کرام رضی اللہ عنہم قتال کے وقت آواز ۱؎ ناپسند کرتے تھے ۔

Narrated Qays ibn Abbad:

The Companions of the Prophet (ﷺ), disliked shouting while fighting.


181

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنِي مَطَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمِثْلِ ذَلِكَ ‏.‏

ابوبردہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ( ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) سےاور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں ۔

A similar tradition has also been transmitted by Abu Bardah on the authority of his father from the Prophet (ﷺ).


182

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ لَمَّا لَقِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَانْكَشَفُوا نَزَلَ عَنْ بَغْلَتِهِ فَتَرَجَّلَ ‏.‏

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حنین کے دن مشرکوں سے مڈبھیڑ ہوئی تو وہ چھٹ گئے ( یعنی شکست کھا کر ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوئے ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر کر پیدل چلنے لگے ۔

Al Bara’ said “When the Prophet (ﷺ) fought the polytheists in the battle of Hunain, they (the Muslims) retreated, he (the Prophet) came down from his mule and walked on foot.


183

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، – الْمَعْنَى وَاحِدٌ – قَالاَ حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ ‏”‏ مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ فَأَمَّا الَّتِي يُحِبُّهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ وَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ وَإِنَّ مِنَ الْخُيَلاَءِ مَا يُبْغِضُ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُحِبُّ اللَّهُ فَأَمَّا الْخُيَلاَءُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّهُ فَاخْتِيَالُ الرَّجُلِ نَفْسَهُ عِنْدَ الْقِتَالِ وَاخْتِيَالُهُ عِنْدَ الصَّدَقَةِ وَأَمَّا الَّتِي يُبْغِضُ اللَّهُ فَاخْتِيَالُهُ فِي الْبَغْىِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مُوسَى ‏”‏ وَالْفَخْرِ ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ” ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے ، اور دوسری غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے ، رہی وہ غیرت جسے اللہ پسند کرتا ہے تو وہ شک کے مقامات میں غیرت کرنا ہے ، رہی وہ غیرت جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ شک کے علاوہ میں غیرت کرنا ہے ، اور تکبر میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور دوسرا وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے ، پس وہ تکبر جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے دوران آدمی کا کافروں سے جہاد کرتے وقت تکبر کرنا اور اترانا ہے ، اور صدقہ دیتے وقت اس کا خوشی سے اترانا ہے ، اور وہ تکبر جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم میں تکبر کرنا ہے “ ، اور موسیٰ کی روایت میں ہے : ” فخر و مباہات میں تکبر کرنا ہے “ ۔

Narrated Jabir ibn Atik:

The Prophet (ﷺ) said: There is jealousy which Allah loves and jealousy which Allah hates. That which Allah loves is jealousy regarding a matter of doubt, and that which Allah hates is jealousy regarding something which is not doubtful. There is pride which Allah hates and pride which Allah loves. That which Allah loves is a man’s pride when fighting and when giving sadaqah and that which Allah hates is pride shown by oppression. The narrator Musa said: “by boasting.”


184

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، – يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ – أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ، – حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ – عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَشَرَةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ فَنَفَرُوا لَهُمْ هُذَيْلٌ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ لَجَئُوا إِلَى قَرْدَدٍ فَقَالُوا لَهُمُ انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لاَ نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا فَقَالَ عَاصِمٌ أَمَّا أَنَا فَلاَ أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ ‏.‏ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةِ نَفَرٍ وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لاَ أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلاَءِ لأُسْوَةً ‏.‏ فَجَرُّوهُ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَقَتَلُوهُ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ فَاسْتَعَارَ مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ لِيَقْتُلُوهُ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ دَعُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ لَوْلاَ أَنْ تَحْسِبُوا مَا بِي جَزَعًا لَزِدْتُ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے بھیجا ، اور ان کا امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا ، ان سے لڑنے کے لیے ہذیل کے تقریباً سو تیر انداز نکلے ، جب عاصم رضی اللہ عنہ نے ان کے آنے کو محسوس کیا تو ان لوگوں نے ایک ٹیلے کی آڑ میں پناہ لی ، کافروں نے ان سے کہا : اترو اور اپنے آپ کو سونپ دو ، ہم تم سے عہد کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے ، عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا : رہی میری بات تو میں کافر کی امان میں اترنا پسند نہیں کرتا ، اس پر کافروں نے انہیں تیروں سے مارا اور ان کے سات ساتھیوں کو قتل کر دیا جن میں عاصم رضی اللہ عنہ بھی تھے اور تین آدمی کافروں کے عہد اور اقرار پر اعتبار کر کے اتر آئے ، ان میں ایک خبیب ، دوسرے زید بن دثنہ ، اور تیسرے ایک اور آدمی تھے رضی اللہ عنہم ، جب یہ لوگ کفار کی گرفت میں آ گئے تو کفار نے اپنی کمانوں کے تانت کھول کر ان کو باندھا ، تیسرے شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ پہلی بدعہدی ہے ، اللہ کی قسم ! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا ، میرے لیے میرے ان ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے ، کافروں نے ان کو کھینچا ، انہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کیا ، تو انہیں قتل کر دیا ، اور خبیب رضی اللہ عنہ ان کے ہاتھ میں قیدی ہی رہے ، یہاں تک کہ انہوں نے خبیب کے بھی قتل کرنے کا ارادہ کر لیا ، تو آپ نے زیر ناف کے بال مونڈنے کے لیے استرا مانگا ۱؎ ، پھر جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : مجھے چھوڑو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں ، پھر کہا : اللہ کی قسم ! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ مجھے مارے جانے کے خوف سے گھبراہٹ ہے تو میں اور دیر تک پڑھتا ۔

Abu Hurairah said “The Prophet (ﷺ) sent ten persons (on an expedition) and appointed ‘Asim bin Thabit their commander. About one hundred men of Hudhail who were archers came out to (attack) them. When ‘Asim felt their presence, they took cover in a hillock. They aid to them “Come down and surrender and we make a covenant and pact with you that we shall not kill any of you”. ‘Asim said “I do not come to the protection of a disbeliever. Then they shot them with arrows and killed ‘Asim in a company of seven persons. The other three persons came down to their covenant and pact. They were Khubaib, Zaid bin Al Lathnah and another man. When they overpowered them, they untied their bow strings and tied them with them”. The third person said “This is the first treachery. I swear by Allaah, I shall not accompany you. In them (my companions) is an example for me. They pulled him, but he refused to accompany them, so they killed him. Khubaib remained their captive until they agreed to kill him. He asked for a razor to shave his pubes. When they brought him outside to kill him. Khubaib said to them “Let me offer two rak’ahs of prayer”. He then said “I swear by Allaah, if you did not think that I did this out of fear. I would have increased (the number of rak’ahs).


185

حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ، – وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ – وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ‏.‏

زہری سے روایت ہے کہمجھے عمرو بن ابوسفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ( وہ بنو زہرہ کے حلیف اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے ) ، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی ۔

Al Zuhri said “This tradition has been transmitted to me by ‘Amr bin Abu Sufyan bin Usaid bin Jariyat Al Thaqafi who was an ally of Banu Zuhrah and a companion of Abu Hurairah. He then narrated the tradition.”


186

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يُحَدِّثُ قَالَ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرُّمَاةِ يَوْمَ أُحُدٍ – وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلاً – عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ وَقَالَ ‏ “‏ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخَطَّفُنَا الطَّيْرُ فَلاَ تَبْرَحُوا مِنْ مَكَانِكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ ‏.‏ قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ عَلَى الْجَبَلِ فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ أَىْ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَأَتَوْهُمْ فَصُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ ‏.‏

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا : ” اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے ، انہیں روند ڈالا ہے ، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا ، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں “ ، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں ، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے : لوگو ! غنیمت ، غنیمت ، تمہارے ساتھی غالب آ گئے تو اب تمہیں کس چیز کا انتظار ہے ؟ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا تم وہ بات بھول گئے جو تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے ؟ تو ان لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم ضرور مشرکین کے پاس جائیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے ، چنانچہ وہ ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے منہ پھیر دئیے اور وہ شکست کھا کر واپس آئے ۔

Al bara’ bin Azib said “On the day of the battle of Uhud the Apostle of Allaah(ﷺ) appointed ‘Abd Allaah bin Jubair commander of the archers who were fifty(in number). He said “If you see that the birds are snatching at us, do not move from this place of yours until I send for you and if you see that we defeated the people (the enemy) and trod them down, do not move until I send for you. Allaah then defeated them. He (narrator) said “I swear by Allaah, I saw women ascending the mountain. The companions of ‘Abd Allaah bin Jubair said “Booty, O People, booty! Your companions vanquished, for what are you waiting?” ‘Ad Allaah bin Jubair said “Have you forgotten what the Apostle of Allaah(ﷺ) had told you?” They said “We swear by Allaah. We shall come to the people and get the booty. So they came to them. Their faces were turned and they came defeated.”


187

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْغَسِيلِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ اصْطَفَفْنَا يَوْمَ بَدْرٍ ‏ “‏ إِذَا أَكْثَبُوكُمْ – يَعْنِي إِذَا غَشُوكُمْ – فَارْمُوهُمْ بِالنَّبْلِ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَكُمْ ‏”‏ ‏.‏

ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب ہم نے بدر کے دن صف بندی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کافر تمہارے قریب پہنچ جائیں ۱؎ تب تم انہیں نیزوں سے مارنا ، اور اپنے تیر بچا کر رکھنا “ ۔

Abu Usaid reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying to us at the battle of Badr when he drew up in rows. When they came near you, shoot arrows at them, but do not use all your arrows.


188

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَجِيحٍ، – وَلَيْسَ بِالْمَلْطِيِّ – عَنْ مَالِكِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ ‏ “‏ إِذَا أَكْثَبُوكُمْ فَارْمُوهُمْ بِالنَّبْلِ وَلاَ تَسُلُّوا السُّيُوفَ حَتَّى يَغْشَوْكُمْ ‏”‏ ‏.‏

ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا : ” جب وہ ( دشمن ) تم سے قریب ہو جائیں تب تم انہیں تیروں سے مارنا ، اور جب تک وہ تمہیں ڈھانپ نہ لیں ۱؎ تلوار نہ سونتنا “ ۔

Narrated AbuUsayd as-Sa’idi:

The Prophet (ﷺ) said at the battle of Badr: When they come near you shoot arrows at them; and do not draw swords at them until they come near you.


189

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ تَقَدَّمَ – يَعْنِي عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ – وَتَبِعَهُ ابْنُهُ وَأَخُوهُ فَنَادَى مَنْ يُبَارِزُ فَانْتَدَبَ لَهُ شَبَابٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ مَنْ أَنْتُمْ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ لاَ حَاجَةَ لَنَا فِيكُمْ إِنَّمَا أَرَدْنَا بَنِي عَمِّنَا ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ قُمْ يَا حَمْزَةُ قُمْ يَا عَلِيُّ قُمْ يَا عُبَيْدَةُ بْنَ الْحَارِثِ ‏”‏ ‏.‏ فَأَقْبَلَ حَمْزَةُ إِلَى عُتْبَةَ وَأَقْبَلْتُ إِلَى شَيْبَةَ وَاخْتُلِفَ بَيْنَ عُبَيْدَةَ وَالْوَلِيدِ ضَرْبَتَانِ فَأَثْخَنَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ ثُمَّ مِلْنَا عَلَى الْوَلِيدِ فَقَتَلْنَاهُ وَاحْتَمَلْنَا عُبَيْدَةَ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہعتبہ بن ربیعہ آگے آیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا ( ولید ) اور اس کا بھائی اس کے پیچھے آئے ، پھر عتبہ نے آواز دی : کون میرے مقابلے میں آئے گا ؟ تو انصار کے کچھ جوانوں نے اس کا جواب دیا ، اس نے پوچھا : تم کون ہو ؟ انہوں نے اسے بتایا ( کہ ہم انصار کے لوگ ہیں ) اس نے ( سن کر ) کہا : ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ، ہم اپنے چچا زادوں کو ( مقابلہ کے لیے ) چاہتے ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” حمزہ ! تم کھڑے ہو ، علی ! تم کھڑے ہو ، عبیدہ بن حارث ! تم کھڑے ہو “ ، تو حمزہ رضی اللہ عنہ عتبہ کی طرف بڑھے ، اور میں شیبہ کی طرف بڑھا ، اور عبیدہ اور ولید ( آپس میں بھڑے تو دونوں ) کو دو دو زخم لگے ، دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو نڈھال کر دیا ، پھر ہم ولید کی طرف مائل ہوئے اور اسے قتل کر دیا ، اور عبیدہ کو اٹھا کر لے آئے ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

(At the battle of Badr) Utbah ibn Rabi’ah came forward followed by his son and his brother and cried out: Who will be engaged in single combat? Some young men of the Helpers responded to his call. He asked: Who are you? They told him. He said: We do not want you; we, in fact, want only our cousins. The Prophet (ﷺ) said: Get up Hamzah get up Ali; get up Ubaydah ibn al-Harith. Hamzah went forward to Utbah, I went forward to Shaybah; and after two blows had been exchanged between Ubaydah and al-Walid, they wounded one another severely; so we turned against al-Walid and killed him, and we carried Ubaydah away.


19

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، – يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ – عَنِ الْعَلاَءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ يَجْتَمِعُ فِي النَّارِ كَافِرٌ وَقَاتِلُهُ أَبَدًا ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کافر اور اس کو قتل کرنے والا مسلمان دونوں جہنم میں کبھی بھی اکٹھا نہ ہوں گے ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “An infidel and the one who killed him will never be brought together in Hell.”


190

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالاَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُنَىِّ بْنِ نُوَيْرَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَعَفُّ النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلُ الإِيمَانِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگوں میں سب سے بہتر قتل کرنے والے صاحب ایمان لوگ ہیں ۱؎ “ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

The Prophet (ﷺ) said: The most merciful of the people in respect of killing are believers (in Allah).


191

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْهَيَّاجِ بْنِ عِمْرَانَ، أَنَّ عِمْرَانَ، أَبَقَ لَهُ غُلاَمٌ فَجَعَلَ لِلَّهِ عَلَيْهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيْهِ لَيَقْطَعَنَّ يَدَهُ فَأَرْسَلَنِي لأَسْأَلَ لَهُ فَأَتَيْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدَبٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَحُثُّنَا عَلَى الصَّدَقَةِ وَيَنْهَانَا عَنِ الْمُثْلَةِ فَأَتَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَحُثُّنَا عَلَى الصَّدَقَةِ وَيَنْهَانَا عَنِ الْمُثْلَةِ ‏.‏

ہیاج بن عمران برجمی سے روایت ہے کہعمران ( یعنی : ہیاج کے والد ) کا ایک غلام بھاگ گیا تو انہوں نے اللہ کے لیے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ اگر وہ اس پر قادر ہوئے تو ضرور بالضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے ، پھر انہوں نے مجھے اس کے متعلق مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا ، میں نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر ان سے پوچھا ، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ ۱؎ سے روکتے تھے ، پھر میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے ( بھی ) پوچھا : تو انہوں نے ( بھی ) کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ سے روکتے تھے ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

Al-Hayyaj ibn Imran ibn Husayn reported that a slave of Imran ran away. He took a vow to Allah that if he overpowers him, he will cut off his head. He then sent me (to Samurah ibn Jundub) to ask him about this question for him. I came to Samurah ibn Jundub and asked him. He said: The Messenger of Allah (ﷺ) used to exhort us to give alms (sadaqah) and forbid us to mutilate (a slain). I then came to Imran ibn Husayn and asked him. He said: The Messenger of Allah (ﷺ) used to exhort us to give alms (sadaqah) and forbid us to mutilate (a slain).


192

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ، – يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ – قَالاَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ امْرَأَةً، وُجِدَتْ، فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقْتُولَةً فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَتْلَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل پر نکیر فرمائی ۔

‘Abd Allaah bin (mas’ud) said “A woman was found slain in one of the battles of the Apostle of Allaah(ﷺ). The Apostle of Allaah(ﷺ) forbade to kill women and children.


193

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْمُرَقِّعِ بْنِ صَيْفِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ، رَبَاحِ بْنِ رَبِيعٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةٍ فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَىْءٍ فَبَعَثَ رَجُلاً فَقَالَ ‏”‏ انْظُرْ عَلاَمَ اجْتَمَعَ هَؤُلاَءِ ‏”‏ فَجَاءَ فَقَالَ عَلَى امْرَأَةٍ قَتِيلٍ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَبَعَثَ رَجُلاً فَقَالَ ‏”‏ قُلْ لِخَالِدٍ لاَ يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلاَ عَسِيفًا ‏”‏ ‏.‏

رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز کے پاس اکٹھا ہیں تو ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا : ” جاؤ ، دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس اکٹھا ہیں “ ، وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس اکٹھا ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تو ایسی نہیں تھی کہ قتال کرے “ ۱؎ ، مقدمۃ الجیش ( فوج کے اگلے حصہ ) پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مقرر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ ہرگز کسی عورت کو نہ ماریں اور نہ کسی مزدور کو ۲؎ ۔

Narrated Rabah ibn Rabi’:

When we were with the Messenger of Allah (ﷺ) on an expedition, he saw some people collected together over something and sent a man and said: See, what are these people collected around? He then came and said: They are round a woman who has been killed. He said: This is not one with whom fighting should have taken place. Khalid ibn al-Walid was in charge of the van; so he sent a man and said: Tell Khalid not to kill a woman or a hired servant.


194

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اقْتُلُوا شُيُوخَ الْمُشْرِكِينَ وَاسْتَبْقُوا شَرْخَهُمْ ‏”‏ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مشرکین کے بوڑھوں ۱؎ کو ( جو لڑنے کے قابل ہوں ) قتل کرو ، اور کم سنوں کو باقی رکھو “ ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

The Prophet (ﷺ) said: Kill the old men who are polytheists, but spare their children.


195

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمْ يُقْتَلْ مِنْ نِسَائِهِمْ – تَعْنِي بَنِي قُرَيْظَةَ – إِلاَّ امْرَأَةً إِنَّهَا لَعِنْدِي تُحَدِّثُ تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّيُوفِ إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا أَيْنَ فُلاَنَةُ قَالَتْ أَنَا ‏.‏ قُلْتُ وَمَا شَأْنُكِ قَالَتْ حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ ‏.‏ قَالَتْ فَانْطَلَقَ بِهَا فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا فَمَا أَنْسَى عَجَبًا مِنْهَا أَنَّهَا تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَقَدْ عَلِمَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہبنی قریظہ کی عورتوں میں سے کوئی بھی عورت نہیں قتل کی گئی سوائے ایک عورت کے جو میرے پاس بیٹھ کر اس طرح باتیں کر رہی تھی اور ہنس رہی تھی کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ جا رہے تھے ، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مردوں کو تلوار سے قتل کر رہے تھے ، یہاں تک کہ ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا : فلاں عورت کہاں ہے ؟ وہ بولی : میں ہوں ، میں نے پوچھا : تجھ کو کیا ہوا کہ تیرا نام پکارا جا رہا ہے ، وہ بولی : میں نے ایک نیا کام کیا ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر وہ پکارنے والا اس عورت کو لے گیا اور اس کی گردن مار دی گئی ، اور میں اس تعجب کو اب تک نہیں بھولی جو مجھے اس کے اس طرح ہنسنے پر ہو رہا تھا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ پڑ جا رہے تھے ، حالانکہ اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ قتل کر دی جائے گی ۱؎ ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

No woman of Banu Qurayzah was killed except one. She was with me, talking and laughing on her back and belly (extremely), while the Messenger of Allah (ﷺ) was killing her people with the swords. Suddenly a man called her name: Where is so-and-so? She said: I I asked: What is the matter with you? She said: I did a new act. She said: The man took her and beheaded her. She said: I will not forget that she was laughing extremely although she knew that she would be killed.


196

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، – يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ – عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُبَيَّتُونَ فَيُصَابُ مِنْ ذَرَارِيِّهِمْ وَنِسَائِهِمْ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ هُمْ مِنْهُمْ ‏”‏ ‏.‏ وَكَانَ عَمْرٌو – يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ – يَقُولُ هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ ‏.‏ قَالَ الزُّهْرِيُّ ثُمَّ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ ‏.‏

صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے گھروں کے بارے میں پوچھا کہ اگر ان پر شب خون مارا جائے اور ان کے بچے اور بیوی زخمی ہوں ( تو کیا حکم ہے ؟ ) ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ بھی انہیں میں سے ہیں “ اور عمرو بن دینار کہتے تھے : ” وہ اپنے آباء ہی میں سے ہیں “ ۔ زہری کہتے ہیں : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ۔

Al Sa’b bin Jaththamah said that he asked the Apostle of Allaah(ﷺ) about the polytheists whose settlemnst were attacked at night when some of their offspring and women were smitten. The Prophet(ﷺ) “They are of them. ‘Amr bin Dinar used to say “they are regarded in the same way as their parents.”

Al-Zuhri said:Thereafter the Messenger of Allah (ﷺ) prohibited to kill women and children.


197

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَةَ الأَسْلَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ فَخَرَجْتُ فِيهَا وَقَالَ ‏”‏ إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا فَاحْرِقُوهُ بِالنَّارِ ‏”‏ ‏.‏ فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ ‏”‏ إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا فَاقْتُلُوهُ وَلاَ تُحْرِقُوهُ فَإِنَّهُ لاَ يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ ‏”‏ ‏.‏

حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک سریہ کا امیر بنایا ، میں اس سریہ میں نکلا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر فلاں کافر کو پانا تو اسے آگ میں جلا دینا “ ، جب میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا ، میں لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اس کو پانا تو مار ڈالنا ، جلانا نہیں ، کیونکہ آگ کا عذاب صرف آگ کے رب کو سزاوار ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Hamzah al-Aslami:

The Messenger of Allah (ﷺ) appointed him commander over a detachment. He said: I went out along with it. He (the Prophet) said: If you find so-and-so, burn him with the fire. I then turned away, and he called me. So I returned to him, and he said: If you find so-and-so, kill him, and do not burn him, for no one punishes with fire except the Lord of the fire.


198

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ، وَقُتَيْبَةُ، أَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ، حَدَّثَهُمْ عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْثٍ فَقَالَ ‏ “‏ إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک جنگ میں بھیجا اور فرمایا : ” اگر تم فلاں اور فلاں کو پانا “ ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ۔

Abu Hurairah said:The Messenger of Allah (ﷺ) sent us along with a contingent, and said: If you find so-and-so. He then narrated the rest of the tradition to the same effect.


199

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ سَعْدٍ، – قَالَ غَيْرُ أَبِي صَالِحٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، – عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا ‏”‏ ‏.‏ وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ ‏”‏ مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ ‏”‏ ‏.‏ قُلْنَا نَحْنُ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے ، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے ، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا ، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی ، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ، اور ( یہ دیکھ کر ) فرمایا : ” اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے ؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو “ ، اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو پوچھا : ” اس کو کس نے جلایا ہے ؟ “ ہم لوگوں نے کہا : ہم نے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

We were with the Messenger of Allah (ﷺ) during a journey. He went to ease himself. We saw a bird with her two young ones and we captured her young ones. The bird came and began to spread its wings. The Messenger of Allah (ﷺ) came and said: Who grieved this for its young ones? Return its young ones to it. He also saw an ant village that we had burnt. He asked: Who has burnt this? We replied: We. He said: It is not proper to punish with fire except the Lord of fire.


2

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُثْمَانُ، ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ قَالاَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – عَنِ الْبَدَاوَةِ، فَقَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَبْدُو إِلَى هَذِهِ التِّلاَعِ وَإِنَّهُ أَرَادَ الْبَدَاوَةَ مَرَّةً فَأَرْسَلَ إِلَىَّ نَاقَةً مُحَرَّمَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ فَقَالَ لِي ‏ “‏ يَا عَائِشَةُ ارْفُقِي فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُنْ فِي شَىْءٍ قَطُّ إِلاَّ زَانَهُ وَلاَ نُزِعَ مِنْ شَىْءٍ قَطُّ إِلاَّ شَانَهُ ‏”‏ ‏.‏

شریح کہتے ہیں کہمیں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء و بیابان ( میں زندگی گزارنے ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے ، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی ، اور مجھ سے فرمایا : ” عائشہ ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے ، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے “ ۔

Miqdan bin Shuraih reported on the authority of his father. I asked A’ishah about settling in the desert (to worship Allaah in loneliness). She said “The Apostle of Allaah(ﷺ) would go out (from Madina) to these torrential streams. Once he intended to go out to the desert (for worshipping Allaah). He sent me a She-Camel from the Camels of sadaqah that was not used as a mount. He said to me “A’ishah be lenient, for leniency makes a thing decorated and when it is removed from a thing it makes it defective.


20

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَعْنَبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلاً مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ إِلاَّ نُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقِيلَ لَهُ هَذَا قَدْ خَلَفَكَ فِي أَهْلِكَ فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ ‏”‏ ‏.‏ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَا ظَنُّكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَانَ قَعْنَبٌ رَجُلاً صَالِحًا وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى أَرَادَ قَعْنَبًا عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَنَا أُرِيدُ الْحَاجَةَ بِدِرْهَمٍ فَأَسْتَعِينُ عَلَيْهَا بِرَجُلٍ ‏.‏ قَالَ وَأَيُّنَا لاَ يَسْتَعِينُ فِي حَاجَتِهِ قَالَ أَخْرِجُونِي حَتَّى أَنْظُرَ فَأُخْرِجَ فَتَوَارَى ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَارٍ إِذْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْبَيْتُ فَمَاتَ ‏.‏

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے ، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے ، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا : اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے “ ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” پھر تم کیا سمجھتے ہو ۱؎ ؟ “ ابوداؤد کہتے ہیں : قعنب ایک نیک آدمی تھے ، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا ، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں ، پھر کہا : کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا ، پھر عرض کیا : تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں ( کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے ) تو انہیں نکال دیا گیا ، پھر وہ ( ایک مکان میں ) چھپ گئے ، سفیان کہتے ہیں : اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گر پڑا اور وہ مر گئے ۔

Buraidah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Respect to be shown by those who stay at home to the women of those who are engaged in jihad is t be like that shown to their mothers. If any man among those who stay at home is entrusted with the oversight of one’s family who is engaged in jihad and betrays him, he will be setup for him on the Day of Resurrection and he (the mujahid) will be told “This (man) was entrusted with the oversight of your family, so take what you want from his good deeds. The Apostle of Allaah(ﷺ) turned towards us and said “So what do you think.”

Abu Dawud said “Qa’nab (a narrator of this tradition) was a pious man. Ibn Abi Laila intended to appoint him a judge, but he refused and said “If I intend to fulfill my need of a dirham, I seek the help of a person for it. He said “Which of us does not seek the help in his need? He said “Bring me out so that I may see. So he was brought out, and he concealed himself. Sufyan said “While he was concealing himself.” Sufyan said “While he was concealing himself the house suddenly fell on him and he died.”


200

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو زُرْعَةَ، يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ نَادَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَخَرَجْتُ إِلَى أَهْلِي فَأَقْبَلْتُ وَقَدْ خَرَجَ أَوَّلُ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَطَفِقْتُ فِي الْمَدِينَةِ أُنَادِي أَلاَ مَنْ يَحْمِلُ رَجُلاً لَهُ سَهْمُهُ فَنَادَى شَيْخٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ لَنَا سَهْمُهُ عَلَى أَنْ نَحْمِلَهُ عَقَبَةً وَطَعَامُهُ مَعَنَا قُلْتُ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ تَعَالَى ‏.‏ قَالَ فَخَرَجْتُ مَعَ خَيْرِ صَاحِبٍ حَتَّى أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْنَا فَأَصَابَنِي قَلاَئِصُ فَسُقْتُهُنَّ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَخَرَجَ فَقَعَدَ عَلَى حَقِيبَةٍ مِنْ حَقَائِبِ إِبِلِهِ ثُمَّ قَالَ سُقْهُنَّ مُدْبِرَاتٍ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ سُقْهُنَّ مُقْبِلاَتٍ ‏.‏ فَقَالَ مَا أَرَى قَلاَئِصَكَ إِلاَّ كِرَامًا – قَالَ – إِنَّمَا هِيَ غَنِيمَتُكَ الَّتِي شَرَطْتُ لَكَ ‏.‏ قَالَ خُذْ قَلاَئِصَكَ يَا ابْنَ أَخِي فَغَيْرَ سَهْمِكَ أَرَدْنَا ‏.‏

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منادی کرائی ، میں اپنے اہل کے پاس گیا اور وہاں سے ہو کر آیا تو صحابہ کرام نکل چکے تھے ، تو میں شہر میں پکار لگانے لگا کہ کوئی ایسا ہے جو ایک آدمی کو سوار کر لے ، اور جو حصہ مال غنیمت سے ملے اسے لے لے ، ایک بوڑھے انصاری بولے : اچھا ہم اس کا حصہ لے لیں گے ، اور اس کو اپنے ساتھ بٹھا لیں گے ، اور ساتھ کھانا کھلائیں گے ، میں نے کہا : ہاں قبول ہے ، انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ، اللہ کی برکت پر بھروسہ کر کے چلو ، میں بہت ہی اچھے ساتھی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنیمت کا مال دیا ، میرے حصہ میں چند تیز رو اونٹنیاں آئیں ، میں ان کو ہنکا کر اپنے ساتھی کے پاس لایا ، وہ نکلے اور اپنے اونٹ کے پچھلے حصہ ( حقیبہ ) پر بیٹھے ، پھر کہا : ان کی پیٹھ میری طرف کر کے ہانکو ، پھر بولے : ان کا منہ میری طرف کر کے ہانکو ، اس کے بعد کہا : تیری اونٹنیاں میرے نزدیک عمدہ ہیں ، میں نے کہا : یہ تو آپ کا وہی مال ہے جس کی میں نے شرط رکھی تھی ، انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! تو اپنی اونٹنیاں لے لے ، میرا ارادہ تیرا حصہ لینے کا نہ تھا ۔

Narrated Wathilah ibn al-Asqa:

The Messenger of Allah (ﷺ) announced to go on expedition for Tabuk. I went to my family and then proceeded (on journey). The vanguard of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) had already proceeded. So I began to announce loudly in Medina: Is there anyone who takes a man on his ride, and he will get his share (from the booty? An old man from the Ansar (Helpers) spoke loudly: We shall have his share if we take him with us on our mount by turns, and he will have his meal with us. I said: Yes. He said: So go on journey with Allah’s blessing. I then proceeded along with my best companion and Allah gave us booty. Some she-camels were given to me as my share of booty. I drove them till I reached him. He came out and sat on the rear part of the saddle of his camel. He then said: Drive them backward. He again said: Drive them forward. He then said: I find your she-camels very gentle. He said: This is your booty which I stipulated for you. He replied: Take your she-camels, my nephew; we did not intend (to get) your portion.


201

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لَقَدْ عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ قَوْمٍ يُقَادُونَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي السَّلاَسِلِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” ہمارا رب ایسے لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو بیڑیوں میں جکڑ کر جنت میں لے جائے جاتے ہیں ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Our Lord Most High is charmed with people who will be led to Paradise in chains.”


202

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ مَكِيثٍ، قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَبْدَ اللَّهِ بْنَ غَالِبٍ اللَّيْثِيَّ فِي سَرِيَّةٍ وَكُنْتُ فِيهِمْ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشُنُّوا الْغَارَةَ عَلَى بَنِي الْمُلَوِّحِ بِالْكَدِيدِ فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ لَقِينَا الْحَارِثَ بْنَ الْبَرْصَاءِ اللَّيْثِيَّ فَأَخَذْنَاهُ فَقَالَ إِنَّمَا جِئْتُ أُرِيدُ الإِسْلاَمَ وَإِنَّمَا خَرَجْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْنَا إِنْ تَكُنْ مُسْلِمًا لَمْ يَضُرَّكَ رِبَاطُنَا يَوْمًا وَلَيْلَةً وَإِنْ تَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ نَسْتَوْثِقْ مِنْكَ فَشَدَدْنَاهُ وِثَاقًا ‏.‏

جندب بن مکیث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن غالب لیثی رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ میں بھیجا ، میں بھی انہیں میں تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ بنو الملوح پر کدید میں کئی طرف سے حملہ کریں ، چنانچہ ہم لوگ نکلے جب کدید میں پہنچے تو ہم حارث بن برصاء لیثی سے ملے ، ہم نے اسے پکڑ لیا ، وہ کہنے لگا : میں تو مسلمان ہونے کے لیے آیا ہوں ، میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف جا رہا تھا ، ہم نے کہا : اگر تو مسلمان ہے تو ایک دن ایک رات کا ہمارا باندھنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر تم مسلمان نہیں ہو تو ہم تمہیں مضبوطی سے باندھیں گے ، پھر ہم نے اس کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔

Narrated Jundub ibn Makith:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent Abdullah ibn Ghalib al-Laythi along with a detachment and I was also with them. He ordered them to attach Banu al-Mulawwih from all sides at al-Kadid. So we went out and when we reached al-Kadid we met al-Harith ibn al-Barsa al-Laythi, and seized him. He said: I came with the intention of embracing Islam, and I came out to go to the Messenger of Allah (ﷺ). We said: If you are a Muslim, there is no harm if we keep you in chains for a day and night; and if you are not, we shall tie you with chains. So we tied him with chains.


203

حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْلاً قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ ‏.‏ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ ‏”‏ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ‏”‏ ‏.‏ فَأَعَادَ مِثْلَ هَذَا الْكَلاَمِ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَذَكَرَ مِثْلَ هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ ‏”‏ ‏.‏ فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ فِيهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ ‏.‏ قَالَ عِيسَى أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ وَقَالَ ذَا ذِمٍّ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی جانب بھیجا وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو گرفتار کر کے لائے ، وہ اہل یمامہ کے سردار تھے ، ان کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور پوچھا : ” ثمامہ ! تمہارے پاس کیا ہے ؟ “ کہا : اے محمد ! میرے پاس خیر ہے ، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک مستحق شخص کو قتل کریں گے ، اور اگر احسان کریں گے ، تو ایک قدرداں پر احسان کریں گے ، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہئے جتنا چاہیں گے دیا جائے گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ کر واپس آ گئے ، یہاں تک کہ جب دوسرا دن ہوا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : ” ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ “ تو انہوں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا ، پھر جب تیسرا دن ہوا تو پھر وہی بات ہوئی ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ثمامہ کو آزاد کر دو ، چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک باغ میں گئے ، غسل کیا ، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله» پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کیا ۔ عیسیٰ کہتے ہیں : مجھ سے لیث نے «ذَاْ دَمٍ» کے بجائے «ذَا ذِمٍّ» ( یعنی ایک عزت دار کو قتل کرو گے ) روایت کی ہے ۔

Abu Hurairah said “ The Apostle of Allaah(ﷺ) sent some horsemen to Najd and they brought a man of the Banu Hanifah called Thumamah bint Uthal who was the chief of the people of Al Yamamah and bound him to one of the pillars of the mosque. The Apostle of Allaah(ﷺ) came out to him and said “What are you expecting, Thumamah?”. He replied “I expect good, Muhammad. If you kill (me), you will kill one whose blood will be avenged, if you show favor, you will show it to one who is grateful and if you want property and ask you will be given as much of it as you wish. The Apostle of Allaah(ﷺ) left him till the following day and asked him ”What are you expecting, Thumamah?” He repeated the same words (in reply). The Apostle of Allaah(ﷺ)left him till the day after the following one and he mentioned the same words. The Apostle of Allaah(ﷺ) then said “Set Thumamah free.” He went off to some palm trees near the mosque. He took a bath there and entered the mosque and said “I testify that there is no god but Allaah and I testify that Muhammd is His servant and His apostle. He then narrated the rest of the tradition. The narrator ‘Isa said “Al Laith narrated to us”. He said “a man of respect and reverence.”


204

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، – يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ – عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ قُدِمَ بِالأُسَارَى حِينَ قُدِمَ بِهِمْ وَسَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ عِنْدَ آلِ عَفْرَاءَ فِي مُنَاخِهِمْ عَلَى عَوْفٍ وَمُعَوِّذٍ ابْنَىْ عَفْرَاءَ قَالَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ عَلَيْهِنَّ الْحِجَابُ قَالَ تَقُولُ سَوْدَةُ وَاللَّهِ إِنِّي لَعِنْدَهُمْ إِذْ أَتَيْتُ فَقِيلَ هَؤُلاَءِ الأُسَارَى قَدْ أُتِيَ بِهِمْ ‏.‏ فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهِ وَإِذَا أَبُو يَزِيدَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي نَاحِيَةِ الْحُجْرَةِ مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ بِحَبْلٍ ‏.‏ ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهُمَا قَتَلاَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَكَانَا انْتَدَبَا لَهُ وَلَمْ يَعْرِفَاهُ وَقُتِلاَ يَوْمَ بَدْرٍ ‏.‏

یحییٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہقیدیوں کو لایا گیا جس وقت انہیں لایا گیا ، اور سودہ بنت زمعہ ( ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ) آل عفراء یعنی عوف بن عفراء اور معوذ بن عفراء کے پاس اس جگہ تھیں جہاں ان کے اونٹ بٹھائے جاتے تھے ، اور یہ معاملہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے کا ہے ، سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : قسم اللہ کی ! میں انہیں کے پاس تھی ، یکایک آئی تو کہا گیا یہ قیدی ہیں پکڑ کر لائے گئے ہیں ، تو میں اپنے گھر واپس آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تھے اور ابویزید سہیل بن عمرو حجرے کے ایک کونے میں تھا ، اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے ایک رسی سے بندھے ہوئے تھے ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انہیں دونوں ( عوف و معوذ ) نے ابوجہل بن ہشام کو قتل کیا ، اور یہی دونوں اس کے آگے آئے حالانکہ اسے پہچانتے نہ تھے ، یہ دونوں بدر کے دن مارے گئے ۔

Narrated Sawdah daughter of Zam’ah:

Yahya ibn Abdullah said: When the captives (of the battle of Badr) were brought, Sawdah daughter of Zam’ah was present with the children of Afra’ at the halting place of their camels, that is, Awf and Mu’awwidh sons of Afra’.

This happened before the prescription of veil for them. Sawdah said: I swear by Allah, I was with them when I came (from there to the people) and I was told: These are captives recently brought (here). I returned to my house, and the Messenger of Allah (ﷺ) was there, and AbuZayd Suhayl ibn Amr was in the corner of the apartment and his hands were tied up on his neck with a rope. He then narrated the rest of the tradition.

Abu Dawud said: They (the sons of ‘Afra’) killed Abu Jahl b. Hisham. They were deputed for him though they did not realize him: and they were killed in the battle of Badr.


205

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَدَبَ أَصْحَابَهُ فَانْطَلَقُوا إِلَى بَدْرٍ فَإِذَا هُمْ بِرَوَايَا قُرَيْشٍ فِيهَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ أَيْنَ أَبُو سُفْيَانَ فَيَقُولُ وَاللَّهِ مَا لِي بِشَىْءٍ مِنْ أَمْرِهِ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَاءَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ ‏.‏ فَإِذَا قَالَ لَهُمْ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَيَقُولُ دَعُونِي دَعُونِي أُخْبِرْكُمْ ‏.‏ فَإِذَا تَرَكُوهُ قَالَ وَاللَّهِ مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ قَدْ أَقْبَلُوا ‏.‏ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي وَهُوَ يَسْمَعُ ذَلِكَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْيَانَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَنَسٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ هَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ‏”‏ ‏.‏ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ ‏”‏ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ‏”‏ ‏.‏ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ ‏”‏ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ‏”‏ ‏.‏ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأُخِذَ بِأَرْجُلِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بلایا ، وہ سب بدر کی طرف چلے ، اچانک قریش کے پانی والے اونٹ ملے ان میں بنی حجاج کا ایک کالا کلوٹا غلام تھا ، صحابہ کرام نے اسے پکڑ لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ ابوسفیان کہاں ہے ؟ وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم ! مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں ، البتہ قریش کے لوگ آئے ہیں ان میں ابوجہل ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں ، جب اس نے یہ کہا تو صحابہ کرام اسے مارنے لگے ، وہ بولا : مجھے چھوڑ دو ، مجھے چھوڑ دو ، میں تمہیں بتاتا ہوں ، جب اس کو چھوڑا تو پھر وہ یہی بات کہنے لگا : اللہ کی قسم مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں البتہ قریش آئے ہیں ان میں ابوجہل ، ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں ، ( اس وقت ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور اسے سن رہے تھے ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب وہ تم سے سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو ، ( ابوسفیان تو شام کے قافلہ کے ساتھ مال لیے ہوئے آ رہا ہے ) اور یہ قریش کے لوگ ہیں اس کو بچانے کے لیے آئے ہیں “ ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کل یہاں فلاں کی لاش گرے گی “ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ، ” کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ، ” اور کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۱؎ ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلسلہ میں حکم دیا تو ان کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے انہیں بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا ۔

Anas said “The Apostle of Allaah(ﷺ) called on his Companions and they proceeded towards Badr. Suddenly they found the watering Camels of the Quraish, there was among them a black slave of Banu Al Hajjaj. The Companions of the Apostle of Allaah(ﷺ) seized him and began to ask “Where is Abu Sufyan?” He said “I swear by Allaah, I do not know anything about him, but this is the Quraish who have come here, among them are Abu Jahl, ‘Utbah, Shaibah the two sons of Rabi’ah and Umayyah bin Khalaf. When he aid this to them, they beat him and he began to say “Leave me, leave me. I shall tell you. When they left him he said “I know nothing about Abu Sufyan, but this is the Quraish who have come (here), among them are Abu Jahl, ‘Utbah, Shaibah the two sons of Rab’iah and Umayyah bin Khalaf who have come here. The Prophet (ﷺ) was praying and hearing all that (dialogue). When he finished, he said “By Him in Whose hand my soul is, you beat him when he speaks the truth to you and you leave him when he tells a lie. This is the Quraish who have come here to defend Abu Sufyan. Anas said, The Apostle of Allaah(ﷺ) said “This will be the place of falling of so and so tomorrow and he placed his hand on the ground. This will be the place of falling of so and so tomorrow and he put his hand on the ground. And this will be the place of falling of so and so tomorrow and he put his hand on the ground. He (Ansas) said “By Him in Whose hand my soul is, no one fell beyond the place of the hand of the Apostle of Allaah(ﷺ), The Apostle of Allaah(ﷺ) ordered for them, and they were caught by their feet and dragged and thrown in a well at Badr.


206

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، – يَعْنِي السِّجِسْتَانِيَّ ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَهَذَا، لَفْظُهُ ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَكُونُ مِقْلاَتًا فَتَجْعَلُ عَلَى نَفْسِهَا إِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُهَوِّدَهُ فَلَمَّا أُجْلِيَتْ بَنُو النَّضِيرِ كَانَ فِيهِمْ مِنْ أَبْنَاءِ الأَنْصَارِ فَقَالُوا لاَ نَدَعُ أَبْنَاءَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَىِّ ‏}‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ الْمِقْلاَتُ الَّتِي لاَ يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ( کفر کے زمانہ میں ) کوئی عورت ایسی ہوتی جس کا بچہ نہ جیتا ( زندہ نہ رہتا ) تو وہ نذر مانتی کہ اگر اس کا بچہ جئیے ( زندہ رہے گا ) گا تو وہ اس کو یہودی بنائے گی ، جب بنی نضیر کو جلا وطن کرنے کا حکم ہوا تو ان میں چند لڑکے انصار کے بھی تھے ، انصار نے کہا : ہم اپنے لڑکوں کو نہ چھوڑیں گے تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «لا إكراه في الدين قد تبين الرشد من الغى» ( سورۃ البقرہ : ۲۵۶ ) ” دین میں زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : «مقلات» : اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی بچہ نہ جیتا ہو ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

When the children of a woman (in pre-Islamic days) did not survive, she took a vow on herself that if her child survives, she would convert it a Jew. When Banu an-Nadir were expelled (from Arabia), there were some children of the Ansar (Helpers) among them. They said: We shall not leave our children. So Allah the Exalted revealed; “Let there be no compulsion in religion. Truth stands out clear from error.”

Abu Dawud said: Muqlat means a woman whose children do not survive.


207

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ زَعَمَ السُّدِّيُّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ إِلاَّ أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَسَمَّاهُمْ وَابْنُ أَبِي سَرْحٍ ‏.‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ وَأَمَّا ابْنُ أَبِي سَرْحٍ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلاَثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلاَثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ ‏”‏ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا مَا نَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ أَلاَ أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ ‏”‏ إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الأَعْيُنِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ أَخَا عُثْمَانَ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَكَانَ الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ أَخَا عُثْمَانَ لأُمِّهِ وَضَرَبَهُ عُثْمَانُ الْحَدَّ إِذْ شَرِبَ الْخَمْرَ ‏.‏

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی ، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا ، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا ، اور کہا : اللہ کے نبی ! عبداللہ سے بیعت لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا ، تین بار ایسا ہی کیا ، ہر بار آپ انکار کرتے رہے ، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی ، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا ، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا ؟ “ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا ، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا ، اس نے شراب پی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر حد لگائی ۔

Narrated Sa’d:

On the day when Mecca was conquered, the Messenger of Allah (ﷺ) gave protection to the People except four men and two women and he named them. Ibn AbuSarh was one of them.

He then narrated the tradition. He said: Ibn AbuSarh hid himself with Uthman ibn Affan. When the Messenger of Allah (ﷺ) called the people to take the oath of allegiance, he brought him and made him stand before the Messenger of Allah (ﷺ). He said: Messenger of Allah, receive the oath of allegiance from him. He raised his head and looked at him thrice, denying him every time. After the third time he received his oath. He then turned to his Companions and said: Is not there any intelligent man among you who would stand to this (man) when he saw me desisting from receiving the oath of allegiance, and kill him? They replied: We do not know, Messenger of Allah, what lies in your heart; did you not give us an hint with your eye? He said: It is not proper for a Prophet to have a treacherous eye.

Abu Dawud said: ‘Abd Allah (b. Abi Sarh) was the foster brother of ‘Uthman, and Walid b. ‘Uqbah was his brother by mother, and ‘Uthman inflicted on him hadd punishment when he drank wine.


208

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ يَرْبُوعٍ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ ‏ “‏ أَرْبَعَةٌ لاَ أُؤْمِنُهُمْ فِي حِلٍّ وَلاَ حَرَمٍ ‏”‏ ‏.‏ فَسَمَّاهُمْ ‏.‏ قَالَ وَقَيْنَتَيْنِ كَانَتَا لِمِقْيَسٍ فَقُتِلَتْ إِحْدَاهُمَا وَأُفْلِتَتِ الأُخْرَى فَأَسْلَمَتْ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ لَمْ أَفْهَمْ إِسْنَادَهُ مِنِ ابْنِ الْعَلاَءِ كَمَا أُحِبُّ ‏.‏

سعید بن یربوع مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا : ” چار آدمیوں کو میں حرم اور حرم سے باہر کہیں بھی امان نہیں دیتا “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام لیے ، اور مقیس کی دو لونڈیوں کو ، ایک ان میں سے قتل کی گئی ، دوسری بھاگ گئی پھر وہ مسلمان ہو گئی ۔

Narrated Sa’id ibn Yarbu’ al-Makhzumi:

The Prophet (ﷺ) said: on the day of the conquest of Mecca: There are four persons whom I shall not give protection in the sacred and non-sacred territory. He then named them. There were two singing girls of al-Maqis; one of them was killed and the other escaped and embraced Islam.

Abu Dawud said: I could not understand its chain of narrators from Ibn al-‘Ala’ as I liked.


209

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ ‏ “‏ اقْتُلُوهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ابْنُ خَطَلٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَ أَبُو بَرْزَةَ الأَسْلَمِيُّ قَتَلَهُ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فتح مکہ کے سال داخل ہوئے ، آپ کے سر پر خود تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن خطل کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کو قتل کر دو “ ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن خطل کا نام عبداللہ تھا اور اسے ابوبرزہ اسلمی نے قتل کیا ۔

Anas bin Malik said “The Apostle of Allaah(ﷺ) entered Makkah in the year of the conquest (of Makkah) wearing a helmet on his head. When he took off it a man came to him and said “Ibn Akhtal is hanging with the curtains of the Ka’bah.” He said “Kill him”.

Abu Dawud said “The name of Ibn Akhtal is ‘Abd Allaah and Abu Barzat Al Aslami killed him.


21

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ، لَهِيعَةَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلاَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُصِيبُونَ غَنِيمَةً إِلاَّ تَعَجَّلُوا ثُلُثَىْ أَجْرِهِمْ مِنَ الآخِرَةِ وَيَبْقَى لَهُمُ الثُّلُثُ فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجاہدین کی کوئی جماعت ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتی ہو پھر مال غنیمت حاصل کرتی ہو ، مگر آخرت کا دو تہائی ثواب اسے پہلے ہی دنیا میں حاصل ہو جاتا ہے ، اور ایک تہائی ( آخرت کے لیے ) باقی رہتا ہے ، اور اگر اسے مال غنیمت نہیں ملا تو آخرت میں ان کے لیے مکمل ثواب ہو گا “ ۔

‘Abd Allah bin Amr reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “No warlike party will go out to fight in Allaah’s path and gain booty without getting beforehand two-thirds of their rewards in the next world and one-third (of their reward) will remain. And if they do not gain booty, they will get their rewards in full.


210

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الرَّقِّيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ أَرَادَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ أَنْ يَسْتَعْمِلَ، مَسْرُوقًا فَقَالَ لَهُ عُمَارَةُ بْنُ عُقْبَةَ أَتَسْتَعْمِلُ رَجُلاً مِنْ بَقَايَا قَتَلَةِ عُثْمَانَ فَقَالَ لَهُ مَسْرُوقٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ – وَكَانَ فِي أَنْفُسِنَا مَوْثُوقَ الْحَدِيثِ – أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا أَرَادَ قَتْلَ أَبِيكَ قَالَ مَنْ لِلصِّبْيَةِ قَالَ ‏ “‏ النَّارُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَدْ رَضِيتُ لَكَ مَا رَضِيَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابراہیم کہتے ہیں کہضحاک بن قیس نے مسروق کو عامل بنانا چاہا تو عمارہ بن عقبہ نے ان سے کہا : کیا آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو عامل بنا رہے ہیں ؟ تو مسروق نے ان سے کہا : مجھ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ ہم میں حدیث ( بیان کرنے ) میں قابل اعتماد تھے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے باپ ( عقبہ ۱؎ ) کے قتل کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگا : میرے لڑکوں کی خبرگیری کون کرے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آگ ۲؎ پس میں تیرے لیے اسی چیز سے راضی ہوں جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوئے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

Ibrahim said: Ad-Dahhak ibn Qays intended to appoint Masruq as governor. Thereupon Umarah ibn Uqbah said to him: Are you appointing a man from the remnants of the murderers of Uthman? Masruq said to him: Ibn Mas’ud narrated to us, and he was trustworthy in respect of traditions, that when the Prophet (ﷺ) intended to kill your father, he said: Who will look after my children? He replied: Fire. I also like for you what the Messenger of Allah (ﷺ) liked for you.


211

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنِ ابْنِ تِعْلَى، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأُتِيَ بِأَرْبَعَةِ أَعْلاَجٍ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُتِلُوا صَبْرًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ لَنَا غَيْرُ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ بِالنَّبْلِ صَبْرًا فَبَلَغَ ذَلِكَ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْهَى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَتْ دَجَاجَةٌ مَا صَبَرْتُهَا ‏.‏ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأَعْتَقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ ‏.‏

ابن تعلی کہتے ہیں کہہم نے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد کیا تو ان کے سامنے عجمی کافروں میں سے چار طاقتور اور ہٹے کٹے کافر لائے گئے انہوں نے ان کے متعلق حکم دیا تو وہ باندھ کر قتل کر دیئے گئے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے سعید بن منصور کے سوا اور لوگوں نے ابن وہب سے یہی حدیث یوں روایت کی ہے کہ پکڑ کر نشانہ بنا کر تیروں سے مار ڈالے گئے ، تو یہ خبر ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مارنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر مرغی بھی ہو تو میں اس کو اس طرح روک کر نہ ماروں ، یہ خبر عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے ( اپنی اس غلطی کی تلافی کے لیے ) چار غلام آزاد کئے ۔

Narrated Ibn Ti’li:

We fought along with AbdurRahman ibn Khalid ibn al-Walid. Four infidels from the enemy were brought to him. He commanded about them and they were killed in confinement.

Abu Dawud said: The narrators other than Sa’id reported from Ibn Wahb in this tradition: “(killed him) with arrows in confinement.” When Abu Ayyub al-Ansari was informed about it, he said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) prohibiting to kill in confinement. By Him in Whose hands my soul is, if there were a hen, I would not kill it in confinement. ‘Abd al-Rahman b. Khalid b. al-Walid was informed about it (the Prophet’s prohibition). He set four slaves free.


212

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ثَمَانِينَ، رَجُلاً مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ لِيَقْتُلُوهُمْ فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَلَمًا فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہمکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» إلى آخر الآية ( سورۃ الفتح : ۲۴ ) ” اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا “ ۔

Anas said “Eighty Meccans came down from the mountain of Al Tan’im against the Prophet(ﷺ) and his Companions at the (time of the) dawn prayer to kill them. The Apostle of Allaah(ﷺ) took them captive without fighting and the Apostle of Allaah(ﷺ) set them free. Thereupon Allaah Most High sent down “He it is Who averted their hands from you and your hands from them in the valley of Makkah,” till the end of the verse.


213

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لأُسَارَى بَدْرٍ ‏ “‏ لَوْ كَانَ مُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلاَءِ النَّتْنَى لأَطْلَقْتُهُمْ لَهُ ‏”‏ ‏.‏

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا : ” اگر مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا “ ۔

Jubair bin Mut’im reported the Prophet (ﷺ) as saying about the prisoners taken at Badr. If Mut’im bin ‘Adi had been alive and spoken to me about these filthy ones, I would have left them for him.


214

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ – يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم – الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ ‏}‏ مِنَ الْفِدَاءِ ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ اللَّهُ الْغَنَائِمَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ فَقَالَ أَيْشٍ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ اسْمٌ شَنِيعٌ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» سے «مسكم فيما أخذتم» تک ” نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان ( کافروں کا ) اچھی طرح خون نہ بہا لیں ، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے ، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی “ ( سورۃ الأنفال : ۶۷-۶۸ ) پھر اللہ نے ان کے لیے غنائم کو حلال کر دیا ۔

‘Umar bin Al Khattab said “During the battle of Badr, the Prophet (ﷺ) took ransom”. Thereupon Allaah Most High sent down “It is not fitting for an Apostle that he should have prisoners of war until he hath thoroughly subdued the land. You look on the temporal goods of this world, but Allaah looketh to the Hereafter”. And Allaah is exalted in might and Wise. Had it not been for a previous ordainment from Allaah, a severe penalty would have reached you for the (ransom) that you took. Allaah then made the spoils of war lawful.

Abu Dawud said “I heard that Ahmad bin Hanbal was asked about the name of Abu Nuh”. He said “What will you do with his name? His name is a bad one.

Abu Dawud said “the name of Abu Nuh is Qurad. What is correct is that his name is ‘Abd Al Rahman bin Ghazwan.


215

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ الْعَيْشِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَمِائَةٍ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) fixed the ransom of the people of pre-Islamic Arabia at four hundred dirhams per head on the day of the battle of Badr.


216

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلاَدَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ ‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ ‏”‏ إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا نَعَمْ ‏.‏ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخَذَ عَلَيْهِ أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ ‏”‏ كُونَا بِبَطْنِ يَأْجِجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہجب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا ، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابوالعاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو ، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو “ ، لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے ، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا ، اور فرمایا : ” تم دونوں ” بطن یأجج “ میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا ۲؎ “ ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

When the people of Mecca sent about ransoming their prisoners Zaynab sent some property to ransom Abul’As, sending among it a necklace of hers which Khadijah had had, and (which she) had given to her when she married Abul’As. When the Messenger of Allah (ﷺ) saw it, he felt great tenderness about it and said: If you consider that you should free her prisoner for her and return to her what belongs to her, (it will be well). They said: Yes. The Messenger of Allah (ﷺ) made an agreement with him that he should let Zaynab come to him, and the Messenger of Allah (ﷺ) sent Zayd ibn Harithah and a man of the Ansar (the Helpers) and said: Wait in the valley of Yajij till Zaynab passes you, then you should accompany her and bring her back.


217

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، – يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ – قَالَ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ وَذَكَرَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَىَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِمَّا السَّبْىَ وَإِمَّا الْمَالَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاَءِ جَاءُوا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ فَأَخْبَرُوهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا ‏.‏

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہجس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو ، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں ( کی واپسی ) اختیار کر لو یا مال “ ، انہوں نے کہا : ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا : ” تمہارے یہ بھائی ( شرک سے ) توبہ کر کے آئے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں ، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے ، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پر مصر ہے تو پہلا مال غنیمت جو اللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے “ ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ، اور کس نے نہیں دی ؟ لہٰذا تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں “ ، لوگ لوٹ گئے ، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے ۔

Marwan and Al Miswar bin Makhramah told that when the deputation of the Hawazin came to the Muslims and asked the Apostle of Allaah(ﷺ) to return to them their property, the Apostle of Allaah(ﷺ) said to them “with me are those whom you see”. The speech dearest to me is the one which is true, so choose (one of the two) either the captives or the property. They said “We choose our captives. The Apostle of Allaah(ﷺ) stood up, extolled Allaah and then said “To proceed, your brethren have come repentant I have considered that I should return their captives to them, so let those of you who are willing to release the captives act accordingly, but those who wish to hold on to what they have till we give them some of the first booty Allaah gives us may do so. The people said “We are willing for that (to release their captives), Apostle of Allaah. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “We cannot distinguish between those of you who have granted that and those who have not , so return till your headmen may tell us about your affair. The people then returned and their headmen spoke to them, then they informed that they were agreeable and had given their permission.


218

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ مَسَكَ بِشَىْءٍ مِنْ هَذَا الْفَىْءِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَىْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ دَنَا – يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم – مِنْ بَعِيرٍ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنَ الْفَىْءِ شَىْءٌ وَلاَ هَذَا ‏”‏ ‏.‏ وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ ‏”‏ إِلاَّ الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ أَخَذْتُ هَذِهِ لأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلاَ أَرَبَ لِي فِيهَا ‏.‏ وَنَبَذَهَا ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو ، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا : ” لوگو ! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے “ ، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا : ” یہاں تک کہ یہ ( بال ) بھی حلال نہیں سوائے خمس ( پانچواں حصہ ) کے ، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے ، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو “ ( یعنی بیت المال میں جمع کر دو ) ، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا ، اس نے کہا : میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے “ ، تو اس نے کہا : جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اور اس نے اسے ( غنیمت کے مال میں ) پھینک دیا ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Messenger of Allah (ﷺ) then said: Return to them (Hawazin) their women and their sons. If any of you withholds anything from this booty, we have six camels for him from the first booty which Allah gives us. The Prophet (ﷺ) then approached a camel, and taking a hair from its hump said: O people, I get nothing of this booty, not even this (meanwhile raising his two fingers) but the fifth, and the fifth is returned to you, so hand over threads and needles. A man got up with a ball of hair in his hand and said: I took this to repair the cloth under a pack-saddle. The Messenger of Allah (ﷺ) said: You can have what belongs to me and to the Banu al-Muttalib. He said: If it produces the result that I now realise, I have no desire for it.


219

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا غَلَبَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلاَثًا ‏.‏ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى إِذَا غَلَبَ قَوْمًا أَحَبَّ أَنْ يُقِيمَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلاَثًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَطْعَنُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ لأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَدِيمِ حَدِيثِ سَعِيدٍ لأَنَّهُ تَغَيَّرَ سَنَةَ خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ وَلَمْ يُخْرِجْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ بِأَخَرَةٍ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ يُقَالُ إِنَّ وَكِيعًا حَمَلَ عَنْهُ فِي تَغَيُّرِهِ ‏.‏

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے ۔ ابن مثنیٰ کا بیان ہے : جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جو ان کی سر زمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید ( سعید ابن ابی عروبہ ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے ، اس لیے کہ ۱۴۵ ہجری میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا ، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ تغیر میں ہی حدیث حاصل کی ہے ۱؎ ۔

Abu Talhah said “When the Apostle of Allaah(ﷺ) prevailed on any people, he stayed three nights in the field. Ibn Al Muthanna said “When he prevailed over people, he liked to stay three nights in the field.”

Abu Dawud said “Yahya bin Sa’id used to object to this tradition for this is not from his early traditions because his memory was spoiled at the age of forty five. He narrated this tradition in the last days of his age.”

Abu Dawud said “ It is said that Waki ‘ recived this tradition from him when his memory was spoiled.”


22

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ الصَّلاَةَ وَالصِّيَامَ وَالذِّكْرَ تُضَاعَفُ عَلَى النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ ‏”‏ ‏.‏

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( دوران جہاد ) نماز ، روزہ اور ذکر الٰہی ( کا ثواب ) جہاد میں خرچ کے ثواب پر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے “ ۔

Narrated Mu’adh ibn Anas al-Juhani:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: (The reward of) prayer, fasting and remembrance of Allah is enhanced seven hundred times over (the reward of) spending in Allah’s path.


220

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ جَارِيَةٍ وَوَلَدِهَا فَنَهَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ وَرَدَّ الْبَيْعَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَمَيْمُونٌ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا قُتِلَ بِالْجَمَاجِمِ وَالْجَمَاجِمُ سَنَةُ ثَلاَثٍ وَثَمَانِينَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَالْحَرَّةُ سَنَةُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ وَقُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرا دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ، اور بیع کو رد کر دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میمون نے علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے ، میمون جنگ جماجم میں قتل کئے گئے ، اور جماجم ۸۳ ہجری میں ہوئی ہے ، نیز واقعہ حرہ ( ۶۳ ہجری ) میں پیش آیا ، اور ابن زبیر ( ۷۳ ہجری ) میں قتل ہوئے ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

Ali separated between a slave-girl and her child. The Prophet (ﷺ) prohibited it and made the sale transactions withdrawn.

Abu Dawud said: The narrator Maimun (b. Abi Shaib) did not meet ‘Ali. He (Maimun) was killed in the battle of Jamajim in 83 A.H.

Abu Dawud said: The battle of Harrah took place in 63 A.H., and Ibn al-Zubair was killed in 73 A.H.


221

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، خَرَجْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ وَأَمَّرَهُ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَغَزَوْنَا فَزَارَةَ فَشَنَنَّا الْغَارَةَ ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِ الذُّرِّيَّةُ وَالنِّسَاءُ فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ فَقَامُوا فَجِئْتُ بِهِمْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فِيهِمُ امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ وَعَلَيْهَا قِشْعٌ مِنْ أَدَمٍ مَعَهَا بِنْتٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لِي ‏”‏ يَا سَلَمَةُ هَبْ لِيَ الْمَرْأَةَ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا ‏.‏ فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي السُّوقِ فَقَالَ ‏”‏ يَا سَلَمَةُ هَبْ لِيَ الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا وَهِيَ لَكَ ‏.‏ فَبَعَثَ بِهَا إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ وَفِي أَيْدِيهِمْ أَسْرَى فَفَادَاهُمْ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا ، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی ، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا ، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں ، تو میں نے ایک تیر چلائی ، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہو گئے ، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی ، وہ کھال پہنے ہوئی تھی ، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعام دے دیا ، میں مدینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” سلمہ ! اس عورت کو مجھے ہبہ کر دو “ ، میں نے کہا : اللہ کی قسم وہ لڑکی مجھے پسند آئی ہے ، اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے ، آپ خاموش ہو گئے ، جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مجھے بازار میں ملے اور فرمایا : ” سلمہ ! اس عورت کو مجھے ہبہ کر دو ، قسم ہے اللہ کی “ ۱؎ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں ہٹایا ہے ، اور وہ آپ کے لیے ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ والوں کے پاس بھیج دیا ، اور اس کے بدلے میں ان کے پاس جو مسلمان قیدی تھے انہیں چھڑا لیا ۔

Salamah said “We went out (on an expedition) with Abu Bakr. The Apostle of Allaah(ﷺ) appointed him commander over us. We attacked Fazarah and took them from all sides. I then saw a group of people which contained children and women. I shot an arrow towards them, but it fell between them and the mountain. They stood; I brought them to Abu Bakr. There was among them a woman of Fazarah. She wore a skin over her and her daughter who was the most beautiful of the Arabs was with her. Abu Bakr gave her daughter to me as a reward. I came back to Madeenah. The Apostle of Allaah(ﷺ) met me and said to me “Give me the woman, Salamah. I said to him, I swear by Allaah, she is to my liking and I have not yet untied he garment. He kept silence, and when the next day came the Apostle of Allaah(ﷺ) met me in the market and said to me “Give me the woman, Salamah, by Allaah, your father. I said the Apostle of Allaah, I have not yet untied her garment. I swear by Allaah, she is now yours. He sent her to the people of Makkah who had (some Muslims) prisoners in their hands. They released them for this woman.


222

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ سُهَيْلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي زَائِدَةَ – عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ غُلاَمًا، لاِبْنِ عُمَرَ أَبَقَ إِلَى الْعَدُوِّ فَظَهَرَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ فَرَدَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى ابْنِ عُمَرَ وَلَمْ يُقْسَمْ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ غَيْرُهُ رَدَّهُ عَلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہان کا ایک غلام دشمنوں کی جانب بھاگ گیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غلام عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو واپس دے دیا ، اسے مال غنیمت میں تقسیم نہیں کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : دوسروں کی روایت میں ہے خالد بن ولید نے اسے انہیں لوٹا دیا ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

Nafi’ said that a slave of Ibn Umar ran away to the enemy, and then the Muslims overpowered them. The Messenger of Allah (ﷺ) returned him to Ibn Umar and that was not distributed (as a part of booty).

Abu Dawud said: The other narrators said: Khalid b. al-Walid returned him to him (Ibd ‘Umar).


223

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ ذَهَبَ فَرَسٌ لَهُ فَأَخَذَهَا الْعَدُوُّ فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ فَرُدَّ عَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ وَأَبَقَ عَبْدٌ لَهُ فَلَحِقَ بِأَرْضِ الرُّومِ فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ فَرَدَّهُ عَلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا ، اور اسے دشمن نے پکڑ لیا پھر مسلمان دشمن پر غالب آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو واپس لوٹا دیا گیا ، اور ان کا ایک غلام بھاگ کر روم چلا گیا ، پھر رومیوں پر مسلمان غالب آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ( بھی ) انہیں غلام واپس لوٹا دیا ۔

Nafi said that a horse of Ibn ‘Umar went away and the enemy seized it. The Muslims overpowered them. Khalid bin Walid returned it to him after the Prophet (ﷺ).


224

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ خَرَجَ عِبْدَانٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم – يَعْنِي يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ – قَبْلَ الصُّلْحِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَوَالِيهِمْ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا خَرَجُوا إِلَيْكَ رَغْبَةً فِي دِينِكَ وَإِنَّمَا خَرَجُوا هَرَبًا مِنَ الرِّقِّ فَقَالَ نَاسٌ صَدَقُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رُدَّهُمْ إِلَيْهِمْ ‏.‏ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏”‏ مَا أُرَاكُمْ تَنْتَهُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ عَلَى هَذَا ‏”‏ ‏.‏ وَأَبَى أَنْ يَرُدَّهُمْ وَقَالَ ‏”‏ هُمْ عُتَقَاءُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏”‏ ‏.‏

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہغزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام ( بھاگ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے ، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا : اے محمد ! اللہ کی قسم ! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں ، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں ، تو کچھ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان لوگوں نے سچ کہا : انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے ۱؎ اور فرمایا : ” قریش کے لوگو ، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ۲؎ تمہاری گردنیں مارے “ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا : ” یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں “ ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

Some slaves (of the unbelievers) went out to the Messenger of Allah (ﷺ) on the day of al-Hudaybiyyah before treaty. Their masters wrote to him saying: O Muhammad, they have not gone out to you with an interest in your religion, but they have gone out to escape from slavery. Some people said: They have spoken the truth, Messenger of Allah, send them back to them. The Messenger of Allah (ﷺ) became angry and said: I do not see your restraining yourself from this action), group of Quraysh, but that Allah send someone to you who strike your necks. He then refused to return them, and said: They are emancipated (slaves) of Allah, the Exalted.


225

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ جَيْشًا، غَنِمُوا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَعَامًا وَعَسَلاً فَلَمْ يُؤْخَذْ مِنْهُمُ الْخُمُسُ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہایک لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ( دوران جنگ ) غلہ اور شہد غنیمت میں لایا تو اس میں سے خمس نہیں لیا گیا ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

In the time of the Messenger of Allah (ﷺ) an army got food and honey and a fifth was not taken from them.


226

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَالْقَعْنَبِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ، – يَعْنِي ابْنَ هِلاَلٍ – عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ دُلِّيَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ – قَالَ – فَأَتَيْتُهُ فَالْتَزَمْتُهُ – قَالَ – ثُمَّ قُلْتُ لاَ أُعْطِي مِنْ هَذَا أَحَدًا الْيَوْمَ شَيْئًا – قَالَ – فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَتَبَسَّمُ إِلَىَّ ‏.‏

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہخیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا ، پھر میں نے کہا : آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا ، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔

‘Abd Allaah bin Mughaffal said “On the day of Khaibar a skin of fat was hanging. I came to it and clung to it. I then said (i.e., thought) I shall not give any one any of it today. I then turned round and saw the Apostle of Allaah(ﷺ) smiling at me.


227

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، – يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ – عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي لُبَيْدٍ، قَالَ كُنَّا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ بِكَابُلَ فَأَصَابَ النَّاسُ غَنِيمَةً فَانْتَهَبُوهَا فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْهَى عَنِ النُّهْبَى ‏.‏ فَرَدُّوا مَا أَخَذُوا فَقَسَمَهُ بَيْنَهُمْ ‏.‏

ابو لبید کہتے ہیں کہہم عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ملا تو انہوں نے اسے لوٹ لیا ، عبدالرحمٰن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ لوٹنے سے منع فرماتے تھے ، تو لوگوں نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دیا ، پھر انہوں نے اسے ان میں تقسیم کر دیا ۔

Narrated AbdurRahman ibn Samurah ibn Kabul:

AbuLabid said: We were with AbdurRahman ibn Samurah ibn Kabul. The people got booty and plundered it. He stood and addressed (the people): I heard the Messenger of Allah (ﷺ) prohibiting getting property from the booty before its distribution. Therefore, they returned what they had taken, He then distributed it among them.


228

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُجَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ قُلْتُ هَلْ كُنْتُمْ تُخَمِّسُونَ – يَعْنِي الطَّعَامَ – فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَصَبْنَا طَعَامًا يَوْمَ خَيْبَرَ فَكَانَ الرَّجُلُ يَجِيءُ فَيَأْخُذُ مِنْهُ مِقْدَارَ مَا يَكْفِيهِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ ‏.‏

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے پوچھا : کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ کا پانچواں حصہ نکالا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں خیبر کے دن غلہ ملا تو آدمی آتا اور اس میں سے کھانے کی مقدار میں لے لیتا پھر واپس چلا جاتا ۔

Narrated Abdullah ibn AbuAwfa:

Muhammad ibn AbulMujahid reported Abdullah ibn AbuAwfa as saying: I asked: Did you set aside the fifth of the food in the time of the Messenger of Allah (ﷺ)? He replied: On the day of Khaybar we captured food and a man would come and take as much food of it as needed and then go away.


229

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمٍ، – يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ – عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ، مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ النَّاسَ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَجَهْدٌ وَأَصَابُوا غَنَمًا فَانْتَهَبُوهَا فَإِنَّ قُدُورَنَا لَتَغْلِي إِذْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْشِي عَلَى قَوْسِهِ فَأَكْفَأَ قُدُورَنَا بِقَوْسِهِ ثُمَّ جَعَلَ يُرَمِّلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ ‏”‏ إِنَّ الْمَيْتَةَ لَيْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ النُّهْبَةِ ‏”‏ ‏.‏ الشَّكُّ مِنْ هَنَّادٍ ‏.‏

ایک انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ، لوگوں کو اس سفر میں بڑی احتیاج اور سخت پریشانی ہوئی پھر انہیں کچھ بکریاں ملیں ، تو لوگوں نے انہیں لوٹ لیا ، ہماری ہانڈیاں ابل رہی تھیں ، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تشریف لائے ، پھر آپ نے اپنے کمان سے ہماری ہانڈیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لت پت کرنے لگے ، اور فرمایا : ” لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں “ ، یا فرمایا : ” مردار لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں “ ، یہ شک ہناد راوی کی جانب سے ہے ۱؎ ۔

Narrated A man of the Ansar:

Kulayb reported from a man of the Ansar. He said: We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey. The people suffered from intense need and strain. They gained booty and then plundered it. While our pots were boiling the Messenger of Allah (ﷺ) came walking with his bow touching the ground. He turned over our pots with his bow and smeared the meat with the soil, and said: “Plunder is more unlawful than carrion,” or he said: “Carrion is more unlawful than plunder.” The narrator Hannad was doubtful.


23

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، يَرُدُّ إِلَى مَكْحُولٍ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ الأَشْعَرِيِّ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الأَشْعَرِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ مَنْ فَصَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَاتَ أَوْ قُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ أَوْ وَقَصَهُ فَرَسُهُ أَوْ بَعِيرُهُ أَوْ لَدَغَتْهُ هَامَّةٌ أَوْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ أَوْ بِأَىِّ حَتْفٍ شَاءَ اللَّهُ فَإِنَّهُ شَهِيدٌ وَإِنَّ لَهُ الْجَنَّةَ ‏”‏ ‏.‏

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا پھر وہ مر گیا ، یا مار ڈالا گیا تو وہ شہید ہے ، یا اس کے گھوڑے یا اونٹ نے اسے روند دیا ، یا کسی سانپ اور بچھو نے ڈنک مار دیا ، یا اپنے بستر پہ ، یا موت کے کسی بھی سبب سے جسے اللہ نے چاہا مر گیا ، تو وہ شہید ہے ، اور اس کے لیے جنت ہے “ ۔

Narrated AbuMalik al-Ash’ari:

AbuMalik heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: He who goes forth in Allah’s path and dies or is killed is a martyr, or has his neck broken through being thrown by his horse or by his camel, or is stung by a poisonous creature, or dies on his bed by any kind of death Allah wishes is a martyr and will go to Paradise.


230

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ حَرْشَفٍ الأَزْدِيَّ، حَدَّثَهُ عَنِ الْقَاسِمِ، مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ بَعْضِ، أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ كُنَّا نَأْكُلُ الْجَزْرَ فِي الْغَزْوِ وَلاَ نَقْسِمُهُ حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَرْجِعُ إِلَى رِحَالِنَا وَأَخْرِجَتُنَا مِنْهُ مُمْلاَةٌ ‏.‏

بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوات میں گاجر کھاتے تھے ، ہم اسے تقسیم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ہم اپنے مکانوں کی طرف لوٹتے اور ہمارے برتن اس سے بھرے ہوتے تھے ۔

Narrated One of the Companion:

Al-Qasim, the client of AbdurRahman, quoted one of the Companion of the Prophet (ﷺ) as saying: We would eat a camel on an expedition without dividing it, and when we returned to our dwellings our saddle-bags would be full with its flesh.


231

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الْعَزِيزِ، – شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الأُرْدُنِّ – عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَىٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، قَالَ رَابَطْنَا مَدِينَةَ قِنَّسْرِينَ مَعَ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ فَلَمَّا فَتَحَهَا أَصَابَ فِيهَا غَنَمًا وَبَقَرًا فَقَسَمَ فِينَا طَائِفَةً مِنْهَا وَجَعَلَ بَقِيَّتَهَا فِي الْمَغْنَمِ فَلَقِيتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ مُعَاذٌ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ فَأَصَبْنَا فِيهَا غَنَمًا فَقَسَمَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَائِفَةً وَجَعَلَ بَقِيَّتَهَا فِي الْمَغْنَمِ ‏.‏

عبدالرحمٰن بن غنم کہتے ہیں کہہم نے شرحبیل بن سمط کے ساتھ شہر قنسرین کا محاصرہ کیا ، جب آپ نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں بکریاں اور گائیں ملیں تو ان میں سے کچھ تو ہم میں تقسیم کر دیں اور کچھ مال غنیمت میں شامل کر لیں ، پھر میری ملاقات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، میں نے ان سے بیان کیا ، تو آپ نے کہا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر کیا تو ہمیں اس میں بکریاں ملیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حصہ ہم میں تقسیم کر دیا اور بقیہ حصہ مال غنیمت میں شامل کر دیا ۱؎ ۔

Narrated Mu’adh ibn Jabal:

AbdurRahman ibn Ghanam said: We were stationed at the frontiers of the city of Qinnisrin with Shurahbil ibn as-Simt. When he conquered it, he got sheep and cows there. He distributed some of them amongst us, and deposited the rest of them in the spoils of war. I met Mu’adh ibn Jabal and mentioned it to him. Mu’adh said: we went on an expedition of Khaybar along with the Messenger of Allah (ﷺ) and we got spoils there. The Messenger of Allah (ﷺ) divided them among us and placed the rest of them in the booty.


232

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، – الْمَعْنَى – قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَأَنَا لِحَدِيثِهِ، أَتْقَنُ – قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ، مَوْلَى تُجَيْبٍ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يَرْكَبْ دَابَّةً مِنْ فَىْءِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى إِذَا أَعْجَفَهَا رَدَّهَا فِيهِ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَىْءِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى إِذَا أَخْلَقَهُ رَدَّهُ فِيهِ ‏”‏ ‏.‏

رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت کے کسی جانور پر سوار نہ ہو کہ اسے جب دبلا کر ڈالے تو مال غنیمت میں واپس لوٹا دے ، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کر دے تو اسے غنیمت کے مال میں واپس کر دے ۱؎ “ ۔

Narrated Ruwayfi’ ibn Thabit al-Ansari:

The Prophet (ﷺ) said: He who believes in Allah and the Last Day must not ride on packhorse belonging to the booty of the Muslims and put it back when he has emaciated it; and he who believes in Allah and the Last Day must not wear a garment belonging to the booty of the Muslims and put it back when he made it threadbare.


233

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، قَالَ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ، – يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيَّ – عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مَرَرْتُ فَإِذَا أَبُو جَهْلٍ صَرِيعٌ قَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ يَا عَدُوَّ اللَّهِ يَا أَبَا جَهْلٍ قَدْ أَخْزَى اللَّهُ الأَخِرَ ‏.‏ قَالَ وَلاَ أَهَابُهُ عِنْدَ ذَلِكَ ‏.‏ فَقَالَ أَبْعَدُ مِنْ رَجُلٍ قَتَلَهُ قَوْمُهُ فَضَرَبْتُهُ بِسَيْفٍ غَيْرِ طَائِلٍ فَلَمْ يُغْنِ شَيْئًا حَتَّى سَقَطَ سَيْفُهُ مِنْ يَدِهِ فَضَرَبْتُهُ بِهِ حَتَّى بَرَدَ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں ( غزوہ بدر میں ) گزرا تو ابوجہل کو پڑا ہوا دیکھا ، اس کا پاؤں زخمی تھا ، میں نے کہا : اللہ کے دشمن ! ابوجہل ! آخر اللہ نے اس شخص کو جو اس کی رحمت سے دور تھا ذلیل کر ہی دیا ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اس سے ڈر نہیں رہا تھا ، اس پر اس نے کہا : اس سے زیادہ تو کوئی بات نہیں ہوئی ہے کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے مار ڈالا اور یہ کوئی عار کی بات نہیں ، پھر میں نے اسے کند تلوار سے مارا لیکن وار کارگر نہ ہوا یہاں تک کہ اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی ، تو اسی کی تلوار سے میں نے اس کو ( دوبارہ ) مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

I passed when AbuJahl had fallen as his foot was struck (with the swords). I said: O enemy of Allah, AbuJahl, Allah has disgraced a man who was far away from His mercy. I did not fear him at that moment. He replied: It is most strange that a man has been killed by his people. I struck him with a blunt sword. But it did not work, and then his sword fell down from his hand, I struck him with it until he became dead.


234

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، وَبِشْرَ بْنَ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَاهُمْ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلاً، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تُوُفِّيَ يَوْمَ خَيْبَرَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَتَغَيَّرَتْ وُجُوهُ النَّاسِ لِذَلِكَ فَقَالَ ‏”‏ إِنَّ صَاحِبَكُمْ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏”‏ ‏.‏ فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ فَوَجَدْنَا خَرَزًا مِنْ خَرَزِ يَهُودَ لاَ يُسَاوِي دِرْهَمَيْنِ ‏.‏

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا غزوہ خیبر کے دن انتقال ہو گیا ، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا : ” اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو “ ، یہ سن کر لوگوں کے چہرے بدل گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے ساتھی نے جہاد میں خیانت کی ہے “ ، پھر جب ہم نے اس کا سامان ڈھونڈا تو یہود کے مونگوں میں سے ہمیں چند مونگے ملے جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہ تھی ۔

Narrated Zayd ibn Khalid al-Juhani:

A man from the Companions of the Prophet (ﷺ) died on the day of Khaybar. They mentioned the matter to the Messenger of Allah. He said: Offer prayer over your companion. When the faces of the people looked perplexed, he said: Your companion misappropriated booty in the path of Allah. We searched his belongings and found some Jewish beads not worth two dirhams.


235

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ خَيْبَرَ فَلَمْ يَغْنَمْ ذَهَبًا وَلاَ وَرِقًا إِلاَّ الثِّيَابَ وَالْمَتَاعَ وَالأَمْوَالَ – قَالَ – فَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ وَادِي الْقُرَى وَقَدْ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَبْدٌ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِوَادِي الْقُرَى فَبَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ فَقَتَلَهُ فَقَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لَهُ الْجَنَّةُ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كَلاَّ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ شِرَاكَيْنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے سال نکلے ، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی ، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا ، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا ، اتنے میں اس کو ایک تیر آ لگا اور وہ مر گیا ، لوگوں نے کہا : اس کے لیے جنت کی مبارک بادی ہو ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہرگز نہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ چادر جو اس نے خیبر کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے تقسیم سے قبل لی تھی اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے “ ، جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ آگ کا ایک تسمہ ہے “ یا فرمایا : ” آگ کے دو تسمے ہیں “ ۔

Abu Hurairah said “We went out along with the Apostle of Allaah(ﷺ) in the year of Khaibar. We did not get gold or silver in the booty of war except clothes, equipment and property. The Apostle of Allaah(ﷺ) sent (a detachment) towards Wadi Al Qura. The Apostle of Allaah(ﷺ) was presented a black slave called Mid’am. And while they were in Wadi Al Qura and Mid’am was unsaddling a Camel belonging to the Apostle of Allaah(ﷺ) he was struck by a random arrow which killed him. The people said “Congratulations to him, he will go to paradise. But the Apostle of Allaah(ﷺ) said “Not at all. By Him in Whose hand my soul is the cloak he took on the day of Khaibar from the spoils which was not among the shares divided will blaze with fire upon him. When they (the people) heard that, a man brought a sandal strap or two sandal straps to the Apostle of Allaah(ﷺ). The Apostle of Allaah(ﷺ) said “A sandal strap of fire or two sandal straps of fire.”


236

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَامِرٌ، – يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ – عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَصَابَ غَنِيمَةً أَمَرَ بِلاَلاً فَنَادَى فِي النَّاسِ فَيَجِيئُونَ بِغَنَائِمِهِمْ فَيُخَمِّسُهُ وَيُقَسِّمُهُ فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِكَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا فِيمَا كُنَّا أَصَبْنَاهُ مِنَ الْغَنِيمَةِ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَسَمِعْتَ بِلاَلاً يُنَادِي ‏”‏ ‏.‏ ثَلاَثًا ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَجِيءَ بِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ ‏”‏ كُنْ أَنْتَ تَجِيءُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَلَنْ أَقْبَلَهُ عَنْكَ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ لوگ اپنا مال غنیمت لے کر آئیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس ( پانچواں حصہ ) نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیتے ، ایک شخص اس تقسیم کے بعد بال کی ایک لگام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ بھی اسی مال غنیمت میں سے ہے جو ہمیں ملا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ آواز لگاتے سنا ہے ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر اسے لانے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ “ تو اس نے آپ سے کچھ عذر بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ لے جاؤ ، قیامت کے دن لے کر آنا ، میں تم سے اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

When the Messenger of Allah (ﷺ) gained booty he ordered Bilal to make a public announcement. He made a public announcement, and when the people brought their booty, he would take a fifth and divide it. Thereafter a man brought a halter of hair and said: Messenger of Allah, this is a part of the booty we got. He asked: Have you heard Bilal making announcement three times? He replied: Yes. He asked: What did prevent you from bringing it? He made some excuse, to which he said: Be (as you are), you may bring it on the Day of Judgment, for I shall not accept it from you.


237

حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، – قَالَ النُّفَيْلِيُّ الأَنْدَرَاوَرْدِيُّ – عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، – قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَصَالِحٌ هَذَا أَبُو وَاقِدٍ – قَالَ دَخَلْتُ مَعَ مَسْلَمَةَ أَرْضَ الرُّومِ فَأُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ غَلَّ فَسَأَلَ سَالِمًا عَنْهُ فَقَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا وَجَدْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ غَلَّ فَأَحْرِقُوا مَتَاعَهُ وَاضْرِبُوهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَوَجَدْنَا فِي مَتَاعِهِ مُصْحَفًا فَسَأَلَ سَالِمًا عَنْهُ فَقَالَ بِعْهُ وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ ‏.‏

صالح بن محمد بن زائدہ کہتے ہیں کہمیں مسلمہ کے ساتھ روم کی سر زمین میں گیا تو وہاں ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں چوری کی تھی ، انہوں نے سالم سے اس سلسلہ میں مسئلہ پوچھا تو سالم بن عبداللہ نے کہا : میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ کہ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو ، اور اسے مارو ۔ راوی کہتے ہیں : ہمیں اس کے سامان میں ایک مصحف بھی ملا تو مسلمہ نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا ، انہوں نے کہا : اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ۔

Narrated Umar ibn al-Khattab:

Salih ibn Muhammad ibn Za’idah (AbuDawud said: This Salih is AbuWaqid) said: We entered the Byzantine territory with Maslamah. A man who had been dishonest about booty was brought.

He (Maslamah) asked Salim about him. He said: I heard my father narrating from Umar ibn al-Khattab from the Prophet (ﷺ). He said: When you find a man who has been dishonest about booty, burn his property, and beat him. He beat him. He said: We found in his property a copy of the Qur’an. He again asked Salim about it. He said: Sell it and give its price in charity.


238

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى الأَنْطَاكِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ وَمَعَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَغَلَّ رَجُلٌ مَتَاعًا فَأَمَرَ الْوَلِيدُ بِمَتَاعِهِ فَأُحْرِقَ وَطِيفَ بِهِ وَلَمْ يُعْطِهِ سَهْمَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا أَصَحُّ الْحَدِيثَيْنِ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ هِشَامٍ حَرَّقَ رَحْلَ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ – وَكَانَ قَدْ غَلَّ – وَضَرَبَهُ ‏.‏

صالح بن محمد کہتے ہیں کہہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ غزوہ کیا اور ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز بھی تھے ، ایک شخص نے مال غنیمت سے ایک سامان چرا لیا تو ولید بن ہشام کے حکم سے اس کا سامان جلا دیا گیا ، پھر وہ سب لوگوں میں پھرایا گیا اور اسے اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : دونوں حدیثوں میں سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے ، اسے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے کہ ولید بن ہشام نے زیاد بن سعد کے ساز و سامان کو اس لیے جلوا دیا تھا کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی ، اور اسے زد و کوب بھی کیا ۔

Salih bin Muhammad said “We went out on an expedition with Al Walid bin Hisham and Salim bin ‘Abd Allaah bin ‘Umat and ‘Umar bin ‘Abd Al Aziz were with us. A man had been dishonest about booty. Al Walid ordered to burn his property and it was circulated (among the people). He did not give him his share.

Abu Dawud said “This is sounder of the two traditions. Others narrated that Al Walid bin Hashim burnt the Camel saddle of Ziyad bin Sa’d “He had been dishonest about booty and he beat him.”


239

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ الْغَالِّ وَضَرَبُوهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَزَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ عَنِ الْوَلِيدِ – وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ – وَمَنَعُوهُ سَهْمَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدَّثَنَا بِهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَوْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ مَنَعَ سَهْمَهُ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دیا اور اسے مارا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : علی بن بحر نے اس حدیث میں ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسے اس کا حصہ نہیں دیا ، لیکن میں نے یہ زیادتی علی بن بحر سے نہیں سنی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہم سے ولید بن عتبہ اور عبدالوہاب بن نجدہ نے بھی بیان کیا ہے ان دونوں نے کہا اسے ہم سے ولید ( ولید بن مسلم ) نے بیان کیا ہے انہوں نے زہیر بن محمد سے زہیر نے عمرو بن شعیب سے موقوفاً روایت کیا ہے اور عبدالوہاب بن نجدہ حوطی نے ” حصہ سے محروم کر دینے “ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Messenger of Allah (ﷺ), AbuBakr and Umar burned the belongings of anyone who had been dishonest about booty and beat him.

Abu Dawud said: ‘Ali b. Bahr added on the authority of al-Walid, and I did not hear (a tradition) from him: And they denied him his share.”

Abu Dawud said: This tradition has also been transmitted by al-Walid b. ‘Utbah from ‘Abd al-Wahhab b. Najdah; They said: This has been transmitted by al-Walid, from Zuhair b. Muhammad, from ‘Amr b. Shu’aib. ‘Abd al-Wahhab b. Najdah al-Huti did not mention the words “He denied him his share” (as narrated by ‘Ali b. Bahr from al-Walid).


24

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ كُلُّ الْمَيِّتِ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ، إِلاَّ الْمُرَابِطَ فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ ‏”‏ ‏.‏

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کر دیا جاتا ہے ، سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے ، اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کر دیا جائے گا “ ۔

Narrated Fadalah ibn Ubayd:

The Prophet (ﷺ) said: Everyone who dies will have fully complete his action, except one who is on the frontier (in Allah’s path), for his deeds will be made to go on increasing till the Day of Resurrection, and he will be safe from the trial in the grave.


240

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ أَمَّا بَعْدُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ مَنْ كَتَمَ غَالاًّ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ ‏”‏ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانہوں نے حمد و صلاۃ کے بعد کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ” جو شخص غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی جیسا ہے “ ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

The Prophet (ﷺ) said: To begin with, anyone who conceals one who has been dishonest about booty is like him.


241

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي عَامِ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ – قَالَ – فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلاَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ – قَالَ – فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ فَأَقْبَلَ عَلَىَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ ‏.‏ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏”‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّانِيَةَ ‏”‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ ‏”‏ قَالَ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ لاَهَا اللَّهِ إِذًا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَأَعْطَانِيهِ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الإِسْلاَمِ ‏.‏

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے ، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے ، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا ، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی ، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا ، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا : ” جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ۱؎ “ ۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ( جب میں نے یہ سنا ) تو میں اٹھ کھڑا ہوا ، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار فرمایا : ” جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا “ ۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ( جب میں نے یہ سنا ) تو اٹھ کھڑا ہوا ، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابوقتادہ کیا بات ہے ؟ “ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا ، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے ، آپ ان کو اس بات پر راضی کر لیجئے ( کہ وہ مال مجھے دے دیں ) اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ سچ کہہ رہے ہیں ، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو “ ۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس نے مجھے دے دیا ، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا ، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا ۔

Abu Qatadah said “We went out with the Apostle of Allaah(ﷺ) in the year of Hunain. And when the armies met, the Muslims suffered a reverse. I saw one of the polytheists prevailing over a Muslim, so I went round him till I came to him from behind and struck him with my sword at the vein between his neck and shoulder. He came towards me and closed with me, so that I felt death was near, but he was overtaken by death and let me go. I then caught upon on “Umar bin Al Khattab and said to him “What is the matter with the people?” He said “It is what Allaah has commanded. Then the people returned and the Apostle of Allaah(ﷺ)sat down and said “If anyone kills a man and can prove it, he will get his spoil. I stood up and said “Who will testify for me? I then sat down.” He said again “If anyone kills a man and can prove it, he will get his spoil. I stood up and said “Who will testify for me? I then sat down.” He then said the same for the third time. I then stood up. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “What is the matter with you, Abu Qatadah? I told him the story. A man from the people said “He has spoken the truth, and I have this spoil with me, so make him agreeable (to take something in exchange). Abu Bakr said “In that case I swear by Allaah that he must not do so. One of the Allaah’s heroes does not fight for Allaah and his Apostle and then give you his spoil. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “He has spoken the truth, hand it over to him. Abu Qatadah said “he handed it over to me, I sold the coat of mail and brought a garden among Banu Salamh. This was the first property I acquired in the Islamic period.


242

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ – يَعْنِي يَوْمَ حُنَيْنٍ – ‏ “‏ مَنْ قَتَلَ كَافِرًا فَلَهُ سَلَبُهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَةَ يَوْمَئِذٍ عِشْرِينَ رَجُلاً وَأَخَذَ أَسْلاَبَهُمْ وَلَقِيَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ وَمَعَهَا خِنْجَرٌ فَقَالَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا مَعَكِ قَالَتْ أَرَدْتُ وَاللَّهِ إِنْ دَنَا مِنِّي بَعْضُهُمْ أَبْعَجُ بِهِ بَطْنَهُ ‏.‏ فَأَخْبَرَ بِذَلِكَ أَبُو طَلْحَةَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَرَدْنَا بِهَذَا الْخِنْجَرَ وَكَانَ سِلاَحَ الْعَجَمِ يَوْمَئِذٍ الْخِنْجَرُ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن یعنی حنین کے دن فرمایا : ” جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس کے مال و اسباب اسی کے ہوں گے “ ، چنانچہ اس دن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیس آدمیوں کو قتل کیا اور ان کے مال و اسباب لے لیے ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے ملے تو دیکھا ان کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا انہوں نے پوچھا : ام سلیم ! تمہارے ساتھ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے یہ قصد کیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی میرے نزدیک آیا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی ، تو اس کی خبر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ، اس حدیث سے ہم نے سمجھا ہے کہ خنجر کا استعمال جائز ہے ، ان دنوں اہل عجم کے ہتھیار خنجر ہوتے تھے ۔

Anas reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “He who kills and infidel gets his spoil.” Abu Talhah killed twenty men that day meaning the day of Hunain and got their spoils. Abu Talhah met Umm Sulaim who had a dagger with her. He asked “What is with you, Umm Sulaim”? She replied “I swear by Allaah, I intended that if anyone came near me I would pierce his belly with it. Abu Talhah informed the Apostle of Allaah(ﷺ)about it.

Abu Dawud said “This is good (hasan) tradition.”

Abu Dawud said “By this was meant dagger. The weapon used by the Non – Arabs in those days was dagger.”


243

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، قَالَ خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ فَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُ سَيْفِهِ فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا فَسَأَلَهُ الْمَدَدِيُّ طَائِفَةً مِنْ جِلْدِهِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَاتَّخَذَهُ كَهَيْئَةِ الدَّرَقِ وَمَضَيْنَا فَلَقِينَا جُمُوعَ الرُّومِ وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ عَلَيْهِ سَرْجٌ مُذْهَبٌ وَسِلاَحٌ مُذْهَبٌ فَجَعَلَ الرُّومِيُّ يُغْرِي بِالْمُسْلِمِينَ فَقَعَدَ لَهُ الْمَدَدِيُّ خَلْفَ صَخْرَةٍ فَمَرَّ بِهِ الرُّومِيُّ فَعَرْقَبَ فَرَسَهُ فَخَرَّ وَعَلاَهُ فَقَتَلَهُ وَحَازَ فَرَسَهُ وَسِلاَحَهُ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُسْلِمِينَ بَعَثَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَخَذَ مِنَ السَّلَبِ قَالَ عَوْفٌ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ يَا خَالِدُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ ‏.‏ قُلْتُ لَتَرُدَّنَّهُ عَلَيْهِ أَوْ لأُعَرِّفَنَّكَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ قَالَ عَوْفٌ فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَدَدِيِّ وَمَا فَعَلَ خَالِدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا خَالِدُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ ‏”‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَكْثَرْتُهُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَا خَالِدُ رُدَّ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ عَوْفٌ فَقُلْتُ لَهُ دُونَكَ يَا خَالِدُ أَلَمْ أَفِ لَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَمَا ذَلِكَ ‏”‏ فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ يَا خَالِدُ لاَ تَرُدَّ عَلَيْهِ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي لَكُمْ صِفْوَةُ أَمْرِهِمْ وَعَلَيْهِمْ كَدَرُهُ ‏”‏ ‏.‏

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلا تو اہل یمن میں سے ایک مددی میرے ساتھ ہو گیا ، اس کے پاس ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا ، پھر ایک مسلمان نے کچھ اونٹ ذبح کئے تو مددی نے اس سے تھوڑی سی کھال مانگی ، اس نے اسے دے دی ، مددی نے اس کھال کو ڈھال کی شکل کا بنا لیا ، ہم چلے تو رومی فوجیوں سے ملے ، ان میں ایک شخص اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا ، اس پر ایک سنہری زین تھی ، ہتھیار بھی سنہرا تھا ، تو رومی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اکسانے لگا تو مددی اس سوار کی تاک میں ایک چٹان کی آڑ میں بیٹھ گیا ، وہ رومی ادھر سے گزرا تو مددی نے اس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے ، وہ گر پڑا ، اور مددی اس پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر کے گھوڑا اور ہتھیار لے لیا ، پھر جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مددی کے پاس کسی کو بھیجا اور سامان میں سے کچھ لے لیا ۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو میں خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے کہا : خالد ! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کے لیے سلب کا فیصلہ کیا ہے ؟ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں ، میں جانتا ہوں لیکن میں نے اسے زیادہ سمجھا ، تو میں نے کہا : تم یہ سامان اس کو دے دو ، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ کو ذکر کروں گا ، لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے لوٹانے سے انکار کیا ۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا ہوئے تو میں نے آپ سے مددی کا واقعہ اور خالد رضی اللہ عنہ کی سلوک بیان کیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد ! تم نے جو یہ کام کیا ہے اس پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا ؟ “ خالد نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اسے زیادہ جانا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد ! تم نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دو “ ۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا : خالد ! کیا میں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ کیا ہے ؟ “ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اسے آپ سے بتایا ۔ عوف کہتے ہیں : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے ، اور فرمایا : ” خالد ! واپس نہ دو ، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میرے امیروں کو چھوڑ دو کہ وہ جو اچھا کام کریں اس سے تم نفع اٹھاؤ اور بری بات ان پر ڈال دیا کرو “ ۔

‘Awf bin malik Al Ashja’I said “I went out with Zaid bin Harith in the battle of Mutah. For the reinforcement of the Muslim army a man from the people of Yemen accompanied me. He had only his sword with him. A man from the Muslims slaughtered a Camel. The man for the reinforcement asked him for a part of its skin which he gave him. He made it like the shape of a shield. We went on and met the Byzantine armies. There was a man among them on a reddish horse with a golden saddle and golden weapons. This Byzantinian soldiers began to attack the Muslims desperately. The man for reinforcement sat behind a rock for (attacking) him. He hamstrung his horse and overpowered him and then killed him. He took his horse and weapons. When Allah, Most High, bestowed victory on the Muslims. Khalid bin Al Walid sent for him and took his spoils. ‘Awf said “I came to him and said “Khalid, do you know that the Apostle of Allaah(ﷺ) had decided to give spoils to the killer? He said “Yes, I thought it abundant. I said “You should return it to him, or I shall tell you about it before the Apostle of Allaah(ﷺ). But he refused to return it. ‘Awf said “We then assembled with the Apostle of Allaah(ﷺ). I told him the story of the man of reinforcement and what Khalid had done. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Khalid, what made you do the work you have done?” He said “Apostle of Allaah(ﷺ), I considered it to be abundant. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “Khalid, return it to him what you have taken from him.” ‘Awf said “I said to him “here you are, Khalid. Did I not keep my word? The Apostle of Allaah(ﷺ) said “What is that? I then informed him.” He said “The Apostle of Allaah(ﷺ) became angry and said “Khalid, do not return it to him. Are you going to leave my commanders? You may take from them what is best for you and eave to them what is worst.


244

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ سَأَلْتُ ثَوْرًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، نَحْوَهُ ‏.‏

اس سند سے بھیعوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Awf bin Malik Al Ashja’I through a different chain of narrators.


245

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ وَلَمْ يُخَمِّسِ السَّلَبَ ‏.‏

عوف بن مالک اشجعی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلب کا فیصلہ قاتل کے لیے کیا ، اور سلب سے خمس نہیں نکالا ۔

Narrated Awf ibn Malik al-Ashja’i ; Khalid ibn al-Walid:

The Messenger of Allah (ﷺ) gave judgement that the killer should have what was taken from the man he killed, and did not make this subject to division into fifths.


246

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ الأَزْدِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ نَفَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ سَيْفَ أَبِي جَهْلٍ كَانَ قَتَلَهُ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بدر کے دن ابوجہل کی تلوار بطور نفل دی اور انہوں نے ہی اسے قتل کیا تھا ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

At the battle of Badr the Messenger of Allah gave me AbuJahl’s sword, as I had killed him.


247

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَبَانَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى سَرِيَّةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ فَقَدِمَ أَبَانُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَصْحَابُهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِخَيْبَرَ بَعْدَ أَنْ فَتَحَهَا وَإِنَّ حُزُمَ خَيْلِهِمْ لِيفٌ فَقَالَ أَبَانُ اقْسِمْ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ لاَ تَقْسِمْ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ أَبَانُ أَنْتَ بِهَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرُ عَلَيْنَا مِنْ رَأْسِ ضَالٍ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اجْلِسْ يَا أَبَانُ ‏”‏ ‏.‏ وَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہما کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک سریہ کا سردار بنا کر بھیجا تو ابان بن سعید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ خیبر فتح کر چکے تھے ، ان کے گھوڑوں کے زین کھجور کی چھال کے تھے ، تو ابان نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی حصہ لگائیے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے : ہیں اس پر میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان کے لیے حصہ نہ لگائیے ، ابان نے کہا : تو ایسی باتیں کرتا ہے اے وبر ! جو ابھی ہمارے پاس ضال پہاڑ کی چوٹی سے اتر کے آ رہا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابان تم بیٹھ جاؤ “ ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حصہ نہیں لگایا ۔

Narrated Sa’id ibn al-‘As:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent AbuSa’id ibn al-‘As with an expedition from Medina towards Najd. Aban ibn Sa’id and his companions came to the Messenger of Allah (ﷺ) at Khaybar after it had been captured. The girths of their horses were made of palm fibres. Aban said: Give us a share (from the booty), Messenger of Allah. AbuHurayrah said: I said: Do not give them a share, Messenger of Allah. Aban said: Why are you talking so, Wabr. You have come to us from the peak of Dal. The Prophet (ﷺ) said: Sit down, Aban. The Messenger of Allah (ﷺ) did not give any share to them (from the booty).


248

حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، وَسَأَلَهُ، إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ فَحَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَنْبَسَةَ بْنَ سَعِيدٍ الْقُرَشِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِخَيْبَرَ حِينَ افْتَتَحَهَا فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُسْهِمَ لِي فَتَكَلَّمَ بَعْضُ وُلْدِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ لاَ تُسْهِمْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ يَا عَجَبًا لِوَبْرٍ قَدْ تَدَلَّى عَلَيْنَا مِنْ قَدُومِ ضَالٍ يُعَيِّرُنِي بِقَتْلِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَكْرَمَهُ اللَّهُ عَلَى يَدَىَّ وَلَمْ يُهِنِّي عَلَى يَدَيْهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَؤُلاَءِ كَانُوا نَحْوَ عَشَرَةٍ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ وَرَجَعَ مَنْ بَقِيَ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں مدینہ اس وقت آیا جب خیبر فتح ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے بھی حصہ دیجئیے ۱؎ تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے لڑکوں میں سے کسی نے کہا : اللہ کے رسول ! اسے حصہ نہ دیجئیے ، تو میں نے کہا : ابن قوقل کا قاتل یہی ہے ، تو سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا : تعجب ہے ایک وبر پر جو ہمارے پاس ضال کی چوٹی سے اتر کر آیا ہے مجھے ایک مسلمان کے قتل پر عار دلاتا ہے جسے اللہ نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کے ہاتھ سے مجھ کو ذلیل نہیں کیا ۲؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ لوگ نو یا دس افراد تھے جن میں سے چھ شہید کر دیئے گئے اور باقی واپس آئے ۔

Abu Hurairah said “I came to Madeenah when the Abu Apostle of Allaah(ﷺ) was in Khaibar, after it was captured. I asked him to give me a share from the booty. A son of Sa’id bin Al ‘As spoke and said “Do not give him any share, Apostle of Allaah(ﷺ). I said “This is the killer of Ibn Qauqal.” (The son of) Sa’id bin Al ‘As said “Oh, how wonderful! A Wabr who came down to us from the peak of Dal blames me of having killed a Muslim whom Allaah honored at my hands and did not disgrace me at his hands.

Abu Dawud said “They were about ten persons. Six of them were killed and the remaining returned.


249

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ قَدِمْنَا فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ قَالَ فَأَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلاَّ لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلاَّ أَصْحَابَ سَفِينَتِنَا جَعْفَرٌ وَأَصْحَابُهُ فَأَسْهَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ ‏.‏

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم ( حبشہ سے ) آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح خیبر کے موقع پر ملے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مال غنیمت سے ) ہمارے لیے حصہ لگایا ، یا ہمیں اس میں سے دیا ، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے ، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ۱؎ ۔

Abu Nusa said “We arrived just at the moment when the Apostle of Allaah(ﷺ) conquered Khaibar and he allotted us a portion (or he said he gave us some of it). He allotted nothing to anyone who was not present at the conquest of Khaybar, giving shares only to those who were present with him except for those who were in our ship, Ja’far and his companions to whom he gave (a portion) something along with them.


25

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، – يَعْنِي ابْنَ سَلاَّمٍ – عَنْ زَيْدٍ، – يَعْنِي ابْنَ سَلاَّمٍ – أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ، قَالَ حَدَّثَنِي السَّلُولِيُّ أَبُو كَبْشَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ فَأَطْنَبُوا السَّيْرَ حَتَّى كَانَتْ عَشِيَّةً، فَحَضَرْتُ الصَّلاَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَاءَ رَجُلٌ فَارِسٌ فَقَالَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي انْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ حَتَّى طَلَعْتُ جَبَلَ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ آبَائِهِمْ بِظُعُنِهِمْ وَنَعَمِهِمْ وَشَائِهِمُ اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَيْنٍ ‏.‏ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ تِلْكَ غَنِيمَةُ الْمُسْلِمِينَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ ‏:‏ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَارْكَبْ ‏”‏ ‏.‏ فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ اسْتَقْبِلْ هَذَا الشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِي أَعْلاَهُ وَلاَ نُغَرَّنَّ مِنْ قِبَلِكَ اللَّيْلَةَ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى مُصَلاَّهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ هَلْ أَحْسَسْتُمْ فَارِسَكُمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَسْنَاهُ ‏.‏ فَثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلاَتَهُ وَسَلَّمَ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ فَارِسُكُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلاَلِ الشَّجَرِ فِي الشِّعْبِ فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ فَقَالَ ‏:‏ إِنِّي انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَيْثُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اطَّلَعْتُ الشِّعْبَيْنِ كِلَيْهِمَا فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ‏.‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ هَلْ نَزَلْتَ اللَّيْلَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ لاَ إِلاَّ مُصَلِّيًا أَوْ قَاضِيًا حَاجَةً ‏.‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ قَدْ أَوْجَبْتَ فَلاَ عَلَيْكَ أَنْ لاَ تَعْمَلَ بَعْدَهَا ‏”‏ ‏.‏

سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہلوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے دن چلے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ چلے ، یہاں تک کہ شام ہو گئی ، میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اتنے میں ایک سوار نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ لوگوں کے آگے گیا ، یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ سب کے سب اپنی عورتوں ، چوپایوں اور بکریوں کے ساتھ بھاری تعداد میں مقام حنین میں جمع ہیں ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ” ان شاءاللہ یہ سب کل ہم مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے “ ، پھر فرمایا : ” رات میں ہماری پہرہ داری کون کرے گا ؟ “ انس بن ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو سوار ہو جاؤ “ ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس گھاٹی میں جاؤ یہاں تک کہ اس کی بلندی پہ پہنچ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ ہم تمہاری وجہ سے آج کی رات دھوکہ کھا جائیں “ ، جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر آئے ، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا : ” تم نے اپنے سوار کو دیکھا ؟ “ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے اسے نہیں دیکھا ، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے لیکن دوران نماز کنکھیوں سے گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے اور سلام پھیرا تو فرمایا : ” خوش ہو جاؤ ! تمہارا سوار آ گیا “ ، ہم درختوں کے درمیان سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے ، یکایک وہی سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور سلام کیا اور کہنے لگا : میں گھاٹی کے بالائی حصہ پہ چلا گیا تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا تو جب صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں دکھائی پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” کیا تم آج رات گھوڑے سے اترے تھے ؟ “ ، انہوں نے کہا : نہیں ، البتہ نماز پڑھنے کے لیے یا قضائے حاجت کے لیے اترا تھا ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” تم نے اپنے لیے جنت کو واجب کر لیا ، اب اگر اس کے بعد تم عمل نہ کرو تو تمہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ۱؎ “ ۔

Narrated Sahl ibn al-Hanzaliyyah:

On the day of Hunayn we travelled with the Messenger of Allah (ﷺ) and we journeyed for a long time until the evening came. I attended the prayer along with the Messenger of Allah (ﷺ).

A horseman came and said: Messenger of Allah, I went before you and climbed a certain mountain where saw Hawazin all together with their women, cattle, and sheep, having gathered at Hunayn.

The Messenger of Allah (ﷺ) smiled and said: That will be the booty of the Muslims tomorrow if Allah wills. He then asked: Who will be on guard tonight?

Anas ibn AbuMarthad al-Ghanawi said: I shall , Messenger of Allah. He said: Then mount your horse. He then mounted his horse, and came to the Messenger of Allah (ﷺ).

The Messenger of Allah said to him: Go forward to this ravine till you get to the top of it. We should not be exposed to danger from your side. In the morning the Apostle of of Allah (ﷺ) came out to his place of prayer, and offered two rak’ahs. He then said: Have you seen any sign of your horseman?

They said: We have not, Messenger of Allah. The announcement of the time for prayer was then made, and while the Messenger of Allah (ﷺ) was saying the prayer, he began to glance towards the ravine. When he finished his prayer and uttered salutation, he said: Cheer up, for your horseman has come. We therefore began to look between the trees in the ravine, and sure enough he had come.

He stood beside the Messenger of Allah (ﷺ), saluted him and said: I continued till I reached the top of this ravine where the Messenger of Allah (ﷺ) commanded me, and in the morning I looked down into both ravines but saw no one.

The Messenger of Allah (ﷺ) asked him: Did you dismount during the night?

He replied: No, except to pray or to relieve myself. The Messenger of Allah (ﷺ) said: You have ensured your entry to (Paradise). No blame will be attached to you supposing you do not work after it.


250

حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ هَانِئِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ – يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ – فَقَالَ ‏ “‏ إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِسَهْمٍ وَلَمْ يَضْرِبْ لأَحَدٍ غَابَ غَيْرُهُ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا : ” بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں “ ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) stood up, i.e. on the day of Badr, and said: Uthman has gone off on the business of Allah and His Apostle, and I shall take the oath of allegiance on his behalf. The Messenger of Allah (ﷺ) then allotted him a share, but did not do so for anyone else who was absent.


251

حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ كَذَا، وَكَذَا، وَذَكَرَ، أَشْيَاءَ وَعَنِ الْمَمْلُوكِ، أَلَهُ فِي الْفَىْءِ شَىْءٌ وَعَنِ النِّسَاءِ، هَلْ كُنَّ يَخْرُجْنَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهَلْ لَهُنَّ نَصِيبٌ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْلاَ أَنْ يَأْتِيَ أُحْمُوقَةً مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ أَمَّا الْمَمْلُوكُ فَكَانَ يُحْذَى وَأَمَّا النِّسَاءُ فَقَدْ كُنَّ يُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيَسْقِينَ الْمَاءَ ‏.‏

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہنجدہ ۱؎ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا وہ ان سے فلاں فلاں چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور بہت سی چیزوں کا ذکر کیا اور غلام کے بارے میں کہ ( اگر جہاد میں جائے ) تو کیا غنیمت میں اس کو حصہ ملے گا ؟ اور کیا عورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتی تھیں ؟ کیا انہیں حصہ ملتا تھا ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ وہ احمقانہ حرکت کرے گا تو میں اس کو جواب نہ لکھتا ( پھر انہوں نے اسے لکھا : ) رہے غلام تو انہیں بطور انعام کچھ دے دیا جاتا تھا ، ( اور ان کا حصہ نہیں لگتا تھا ) اور رہیں عورتیں تو وہ زخمیوں کا علاج کرتیں اور پانی پلاتی تھیں ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

Yazid ibn Hurmuz said: Najdah wrote to Ibn Abbas asking him about such-and-such, and such-and-such, and he mentioned some things; he (asked) about a slave whether he would get something from the spoils; and he (asked) about women whether they used to go out (on expeditions) along with the Messenger of Allah (ﷺ), and whether they would be allotted a share, Ibn Abbas said: Had I not apprehended a folly, I would not have written (a reply) to him. As for the slave, he was given a little of the spoils (as a reward from the booty); as to the women, they would treat the wounded and supply water.


252

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، – يَعْنِي الْوَهْبِيَّ – حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، وَالزُّهْرِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنِ النِّسَاءِ، هَلْ كُنَّ يَشْهَدْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهَلْ كَانَ يُضْرَبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ قَالَ فَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ قَدْ كُنَّ يَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَّا أَنْ يُضْرَبَ لَهُنَّ بِسَهْمٍ فَلاَ وَقَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُنَّ ‏.‏

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہنجدہ حروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا ، وہ عورتوں کے متعلق آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں جایا کرتی تھیں ؟ اور کیا آپ ان کے لیے حصہ متعین کرتے تھے ؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خط میں نے ہی نجدہ کو لکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں حاضر ہوتی تھیں ، رہی ان کے لیے حصہ کی بات تو ان کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہوتا تھا البتہ انہیں کچھ دے دیا جاتا تھا ۔

Yazid bin Humruz said “Najdah Al Hururi wrote to Ibn ‘Abbas asking him whether the women participated in battle along with the Apostle of Allaah(ﷺ) and whether they were allotted a share from the spoils. I (Yazid bin Hurmuz) wrote a letter on behalf of Ibn ‘Abbas to Najdah. They participated in the battle along with the Apostle of Allaah(ﷺ), but no portion (from the spoils) was allotted to them, they were given only a little of it.


253

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، وَغَيْرُهُ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ حَدَّثَنَا رَافِعُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي حَشْرَجُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ أَبِيهِ، أَنَّهَا خَرَجَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَةٍ فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَبَعَثَ إِلَيْنَا فَجِئْنَا فَرَأَيْنَا فِيهِ الْغَضَبَ فَقَالَ ‏”‏ مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِإِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعَرَ وَنُعِينُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحَى وَنُنَاوِلُ السِّهَامَ وَنَسْقِي السَّوِيقَ فَقَالَ ‏”‏ قُمْنَ ‏”‏ حَتَّى إِذَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ أَسْهَمَ لَنَا كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ لَهَا يَا جَدَّةُ وَمَا كَانَ ذَلِكَ قَالَتْ تَمْرًا ‏.‏

حشرج بن زیاد اپنی دادی ( ام زیاد اشجعیہ ) سے روایت کرتے ہیں کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی جنگ میں نکلیں ، یہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا ، ہم آئے تو ہم نے آپ کو ناراض دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” تم کس کے ساتھ نکلیں ؟ اور کس کے حکم سے نکلیں ؟ “ ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نکل کر بالوں کو بٹ رہی ہیں ، اس سے اللہ کی راہ میں مدد پہنچائیں گے ، ہمارے پاس زخمیوں کی دوا ہے ، اور ہم مجاہدین کو تیر دیں گے ، اور ستو گھول کر پلائیں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا چلو “ یہاں تک کہ جب خیبر فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی ویسے ہی حصہ دیا جیسے کہ مردوں کو دیا ، حشرج بن زیاد کہتے ہیں : میں نے ان سے پوچھا : دادی ! وہ حصہ کیا تھا ؟ تو وہ کہنے لگیں : کچھ کھجوریں تھیں ۱؎ ۔

Narrated Umm Ziyad:

Hashraj ibn Ziyad reported on the authority of his grandmother that she went out with the Messenger of Allah (ﷺ) for the battle of Khaybar. They were six in number including herself.

(She said): When the Messenger of Allah (ﷺ) was informed about it, he sent for us. We came to him, and found him angry.

He said: With whom did you come out, and by whose permission did you come out?

We said: Messenger of Allah, we have come out to spin the hair, by which we provide aid in the cause of Allah. We have medicine for the wounded, we hand arrows (to the fighters), and supply drink made of wheat or barley.

He said: Stand up. When Allah bestowed victory of Khaybar on him, he allotted shares to us from spoils that he allotted to the men. He (Hashraj ibn Ziyad) said: I said to her: Grandmother, what was that? She replied: Dates.


254

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، – يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَيْرٌ، مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ قَالَ شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِي فَقُلِّدْتُ سَيْفًا فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ فَأُخْبِرَ أَنِّي مَمْلُوكٌ فَأَمَرَ لِي بِشَىْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ مَعْنَاهُ أَنَّهُ لَمْ يُسْهِمْ لَهُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ كَانَ حَرَّمَ اللَّحْمَ عَلَى نَفْسِهِ فَسُمِّيَ آبِي اللَّحْمِ ‏.‏

محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ مجھ سے عمیر مولی آبی اللحم نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہمیں جنگ خیبر میں اپنے مالکوں کے ساتھ گیا ، انہوں نے میرے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ نے مجھے ( ہتھیار پہننے اور مجاہدین کے ساتھ رہنے کا ) حکم دیا ، چنانچہ میرے گلے میں ایک تلوار لٹکائی گئی تو میں اسے ( اپنی کم سنی اور کوتاہ قامتی کی وجہ سے زمین پر ) گھسیٹ رہا تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ میں غلام ہوں تو آپ نے مجھے گھر کے سامانوں میں سے کچھ سامان دیئے جانے کا حکم دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا ، ابوداؤد کہتے ہیں : انہوں ( آبی اللحم ) نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا ، اسی وجہ سے ان کا نام آبی اللحم رکھ دیا گیا ۔

Narrated Umayr, client of AbulLahm:

I was present at Khaybar along with my masters who spoke about me to the Messenger of Allah (ﷺ). He ordered about me, and a sword was girded on me and I was trailing it. He was then informed that I was a slave. He, therefore, ordered that I should be given some inferior goods.

Abu Dawud said: This means that he (the Prophet) did not allot a portion of the spoils.

Abu Dawud said: Abu ‘Ubaid said: As he (the narrator Abi al-Lahm) made eating meat unlawful on himself, he was called Abi al-Lahm (one who hates meat).


255

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُنْتُ أَمِيحُ أَصْحَابِي الْمَاءَ يَوْمَ بَدْرٍ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں بدر کے دن ( پانی کم ہونے کی وجہ سے ) صحابہ کے لیے چلو سے پانی کا ڈول بھر رہا تھا ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

I supplied water to my companions on the day of Badr.


256

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْفُضَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ يَحْيَى أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الْمُشْرِكِينَ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لِيُقَاتِلَ مَعَهُ فَقَالَ ‏”‏ ارْجِعْ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ اتَّفَقَا فَقَالَ ‏”‏ إِنَّا لاَ نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہمشرکوں میں سے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملا تاکہ آپ کے ساتھ مل کر لڑائی کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوٹ جاؤ ، ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے “ ۔

A’ishah said (this is the version of narrator Yahya). A man from the polytheists accompanied the Prophet (ﷺ) to fight along with him. He said “Go back. Both the narrators (Musaddad and Yahya) then agreed. The Prophet said “We do not want any help from a polytheist.”


257

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَسْهَمَ لِرَجُلٍ وَلِفَرَسِهِ ثَلاَثَةَ أَسْهُمٍ سَهْمًا لَهُ وَسَهْمَيْنِ لِفَرَسِهِ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی اور اس کے گھوڑے کو تین حصہ دیا : ایک حصہ اس کا اور دو حصہ اس کے گھوڑے کا ۔

Ibn ‘Umar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) allotted three portions for a man and his horse, one for him and two for his horse.


258

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَمَعَنَا فَرَسٌ فَأَعْطَى كُلَّ إِنْسَانٍ مِنَّا سَهْمًا وَأَعْطَى لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ ‏.‏

ابو عمرہ کے والد عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم چار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہمارے ساتھ ایک گھوڑا تھا ، تو آپ نے ہم میں سے ہر آدمی کو ایک ایک حصہ دیا ، اور گھوڑے کو دو حصے دئیے ۔

Narrated AbuUmrah (al-Ansari?):

We four persons, came to the Messenger of Allah (ﷺ), and we (i.e. each one of us) had horses. He therefore, allotted one portion for each of us, and two portions for his horse.


259

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ آلِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، بِمَعْنَاهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ ‏.‏ زَادَ فَكَانَ لِلْفَارِسِ ثَلاَثَةُ أَسْهُمٍ ‏.‏

اس سند سے بھی ابو عمرہ سے اسی حدیث کے ہم معنی مروی ہےمگر اس میں یہ ہے کہ ہم تین آدمی تھے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ سوار کو تین حصے ملے تھے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu ‘Umrah through a different chain of narrators to the same effect. But this version has “Three Persons” and added “To the horseman three portions.”


26

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا وُهَيْبٌ، – قَالَ عَبْدَةُ ‏:‏ يَعْنِي ابْنَ الْوَرْدِ – أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سُمَىٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِالْغَزْوِ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص مر گیا اور اس نے نہ جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کی نیت کی تو وہ نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم پر مرا “ ۔

Abu Hurairah reported the Prophet (ﷺ) as saying “He who dies without having fought or having felt fighting (against the infidels) to be his duty will die guilty of a kind of hypocrisy.”


260

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَمِّعِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَعْقُوبَ بْنَ مُجَمِّعٍ، يَذْكُرُ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمِّهِ، مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيِّ وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِينَ قَرَءُوا الْقُرْآنَ قَالَ شَهِدْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْهَا إِذَا النَّاسُ يَهُزُّونَ الأَبَاعِرَ فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ مَا لِلنَّاسِ قَالُوا أُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ نُوجِفُ فَوَجَدْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ عِنْدَ كُرَاعِ الْغَمِيمِ فَلَمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ قَرَأَ عَلَيْهِمْ ‏{‏ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا ‏}‏ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَتْحٌ هُوَ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّهُ لَفَتْحٌ ‏”‏ ‏.‏ فَقُسِّمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَمِائَةٍ فِيهِمْ ثَلاَثُمِائَةِ فَارِسٍ فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَيْنِ وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ حَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ وَأَرَى الْوَهَمَ فِي حَدِيثِ مُجَمِّعٍ أَنَّهُ قَالَ ثَلاَثُمِائَةِ فَارِسٍ وَكَانُوا مِائَتَىْ فَارِسٍ ‏.‏

مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےاور وہ ان قاریوں میں سے ایک تھے جو قرآت قرآن میں ماہر تھے ، وہ کہتے ہیں : ہم صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، جب ہم وہاں سے واپس لوٹے تو لوگ اپنی سواریوں کو حرکت دے رہے تھے ، بعض نے بعض سے کہا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی گئی ہے تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ ( اپنی سواریوں ) کو دوڑاتے اور ایڑ لگاتے ہوئے نکلے ، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کراع الغمیم ۱؎ کے پاس کھڑا پایا جب سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» پڑھی ، تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہی فتح ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہی فتح ہے “ ، پھر خیبر کی جنگ میں جو مال آیا وہ صلح حدیبیہ کے لوگوں پر تقسیم ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کے اٹھارہ حصے کئے اور لشکر کے لوگ سب ایک ہزار پانچ سو تھے جن میں تین سو سوار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں کو دو حصے دئیے اور پیدل والوں کو ایک حصہ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابومعاویہ کی حدیث ( نمبر ۲۷۳۳ ) زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے ، اور میرا خیال ہے مجمع کی حدیث میں وہم ہوا ہے انہوں نے کہا ہے : تین سو سوار تھے حالانکہ دو سو سوار تھے ۲؎ ۔

Narrated Mujammi’ ibn Jariyah al-Ansari:

Mujammi’ was one of the Qur’an-reciters (qaris), and he said: We were present with the Messenger of Allah (ﷺ) at al-Hudaybiyyah. When we returned, the people were driving their camels quickly.

The people said to one another: What is the matter with them?

They said: Revelation has come down to the Prophet (ﷺ). We also proceeded with the people, galloping (our camels). We found the Prophet (ﷺ) standing on his riding-animal at Kura’ al-Ghamim.

When the people gathered near him, he recited: “Verily We have granted thee a manifest victory.

A man asked: Is this a victory, Messenger of Allah? He replied: Yes. By Him in Whose hands the soul of Muhammad is, this is a victory. Khaybar was divided among those who had been at al-Hudaybiyyah, and the Messenger of Allah (ﷺ) divided it into eighteen portions. The army consisted of one thousand five hundred men, of which three hundred were cavalry, and he gave two shares to a horseman and one to a foot-soldier.

Abu Dawud said: Abu Mu’awiyah’s tradition is sounder, and it is one which is followed. I think the error is in the tradition of Mujammi’, because he said: “three hundred horsemen.” when there were only two hundred.


261

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، قَالَ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ ‏”‏ مَنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَلَهُ مِنَ النَّفْلِ كَذَا وَكَذَا ‏”‏ قَالَ فَتَقَدَّمَ الْفِتْيَانُ وَلَزِمَ الْمَشْيَخَةُ الرَّايَاتِ فَلَمْ يَبْرَحُوهَا فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَالَتِ الْمَشْيَخَةُ كُنَّا رِدْءًا لَكُمْ لَوِ انْهَزَمْتُمْ لَفِئْتُمْ إِلَيْنَا فَلاَ تَذْهَبُوا بِالْمَغْنَمِ وَنَبْقَى فَأَبَى الْفِتْيَانُ وَقَالُوا جَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ ‏}‏ يَقُولُ فَكَانَ ذَلِكَ خَيْرًا لَهُمْ فَكَذَلِكَ أَيْضًا فَأَطِيعُونِي فَإِنِّي أَعْلَمُ بِعَاقِبَةِ هَذَا مِنْكُمْ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا : ” جس نے ایسا ایسا کیا اس کو بطور انعام اتنا اتنا ملے گا “ ، جوان لوگ آگے بڑھے اور بوڑھے جھنڈوں سے چمٹے رہے اس سے ہٹے نہیں ، جب اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی تو بوڑھوں نے کہا : ہم تمہارے مددگار اور پشت پناہ تھے اگر تم کو شکست ہوتی تو تم ہماری ہی طرف پلٹتے ، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ غنیمت کا مال تم ہی اڑا لو ، اور ہم یوں ہی رہ جائیں ، جوانوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم کو دیا ہے ، تب اللہ نے یہ آیت کریمہ «يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله» ” یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئیے کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو ، بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی “ ( سورۃ الانفال : ۱-۵ ) سے «كما أخرجك ربك من بيتك بالحق وإن فريقا من المؤمنين لكارهون» تک نازل فرمائی ، پھر ان کے لیے یہی بہتر ہوا ، اسی طرح تم سب میری اطاعت کرو ، کیونکہ میں اس کے انجام کار کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) said on the day of Badr: He who does such-and-such, will have such-and such. The young men came forward and the old men remained standing near the banners, and they did not move from there. When Allah bestowed victory on them, the old men said: We were support for you. If you had been defeated, you would have returned to us. Do not take this booty alone and we remain (deprived of it). The young men refused (to give), and said: The Messenger of Allah (ﷺ) has given it to us. Then Allah sent down: “They ask thee concerning (things taken as) spoils of war, Say: (Such) spoils are at the disposal of Allah and the Apostle……Just as they Lord ordered thee out of thy house in truth, even though a party among the believers disliked it.” This proved good for them. Similarly obey me. I know the consequence of this better than you.


262

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ ‏ “‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ كَذَا وَكَذَا وَمَنْ أَسَرَ أَسِيرًا فَلَهُ كَذَا وَكَذَا ‏”‏ ثُمَّ سَاقَ نَحْوَهُ وَحَدِيثُ خَالِدٍ أَتَمُّ ‏.‏

اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن فرمایا : ” جو شخص کسی کافر کو مارے تو اس کے لیے اتنا اور اتنا ( انعام ) ہے ، اور جو کسی کافر کو قید کرے اس کے لیے اتنا اور اتنا ( انعام ) ہے “ ، پھر آگے اسی حدیث کی طرح بیان کیا ، اور خالد کی ( یعنی : پچھلی حدیث ) زیادہ کامل ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) said on the day of Badr: He who kills a man will get such-and-such, and he who captivates a man will get such-and-such. The narrator then transmitted the rest of the tradition in a similar manner. The tradition of Khalid is more perfect.


263

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلاَلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ أَخْبَرَنِي دَاوُدُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ قَالَ فَقَسَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالسَّوَاءِ ‏.‏ وَحَدِيثُ خَالِدٍ أَتَمُّ ‏.‏

اس سند بھی سے داود سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہےاس میں ہے : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برابر برابر تقسیم کیا “ ، اور خالد کی حدیث ( نمبر ۲۷۳۷ ) کامل ہے ۔

The tradition mentioned above has been transmitted by Dawud with a different chain of narrators. He said “The Apostle of Allaah(ﷺ) apportioned it (spoils of war) equally. The tradition of Khalid is more perfect.


264

حَدَّثَنِي هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ جِئْتُ إِلَى النَّبِي صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ بِسَيْفٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَفَى صَدْرِي الْيَوْمَ مِنَ الْعَدُوِّ فَهَبْ لِي هَذَا السَّيْفَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ إِنَّ هَذَا السَّيْفَ لَيْسَ لِي وَلاَ لَكَ ‏”‏ فَذَهَبْتُ وَأَنَا أَقُولُ يُعْطَاهُ الْيَوْمَ مَنْ لَمْ يُبْلِ بَلاَئِي ‏.‏ فَبَيْنَا أَنَا إِذْ جَاءَنِي الرَّسُولُ فَقَالَ أَجِبْ ‏.‏ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَىْءٌ بِكَلاَمِي فَجِئْتُ فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِنَّكَ سَأَلْتَنِي هَذَا السَّيْفَ وَلَيْسَ هُوَ لِي وَلاَ لَكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ جَعَلَهُ لِي فَهُوَ لَكَ ثُمَّ قَرَأَ ‏{‏ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قِرَاءَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ يَسْأَلُونَكَ النَّفْلَ ‏.‏

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں غزوہ بدر کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تلوار لے کر آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! آج اللہ نے میرے سینے کو دشمنوں سے شفاء دی ، لہٰذا آپ مجھے یہ تلوار دے دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری “ یہ سن کر میں چلا اور کہتا جاتا تھا : یہ تلوار آج ایسے شخص کو ملے گی جس نے مجھ جیسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ، اسی دوران مجھے قاصد بلانے کے لیے آیا ، اور کہا چلو ، میں نے سوچا شاید میرے اس بات کے کہنے کی وجہ سے میرے سلسلے میں کچھ وحی نازل ہوئی ہے ، چنانچہ میں آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ” تم نے یہ تلوار مانگی جب کہ یہ تلوار نہ تو میری ہے نہ تمہاری ، اب اسے اللہ نے مجھے عطا کر دیا ہے ، لہٰذا ( اب ) یہ تمہاری ہے “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ پوری پڑھی «يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول» ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «يسألونك عن النفل» ہے ۔

Mus’ab bin Sa’d reported on the authority of his father (Sa’ad bin Abi Waqqas) “I brought a sword to the Prophet(ﷺ) on the day of the Badr and I said (to him) Apostle of Allaah(ﷺ) , Allaah has healed up my breast from the enemy today, so give me this sword. He said “This sword is neither mine nor yours. I then went away saying “today this will be given to a man who has not been put to trial like me. Meanwhile a messenger and came to me and said “Respond, I thought something was revealed about me owing to my speech. I came and the Prophet (ﷺ) said to me “You asked me for this sword, but this was neither mine nor yours. Now Allaah has given it to me, hence it is yours. He then recited “they ask thee concerning (things taken as) spoils of war. Say “(Such) spoils are at the disposal of Allaah and the Apostle.

Abu Dawud said “According to the reading of the Qur’an of Ibn Mas’ud the verse goes. They ask thee concerning (things taken as ) spoils of war.


265

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْطَاكِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرٌ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَهُمْ – الْمَعْنَى، – كُلُّهُمْ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي جَيْشٍ قِبَلَ نَجْدٍ وَانْبَعَثَتْ سَرِيَّةٌ مِنَ الْجَيْشِ فَكَانَ سُهْمَانُ الْجَيْشِ اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا وَنَفَّلَ أَهْلَ السَّرِيَّةِ بَعِيرًا بَعِيرًا فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمْ ثَلاَثَةَ عَشَرَ ثَلاَثَةَ عَشَرَ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجد کی جانب ایک لشکر میں بھیجا اور اس لشکر کا ایک دستہ دشمن سے مقابلہ کے لیے بھیجا گیا ، پھر لشکر کے لوگوں کو بارہ بارہ اونٹ ملے اور دستہ کے لوگوں کو ایک ایک اونٹ بطور انعام زیادہ ملا تو ان کے حصہ میں تیرہ تیرہ اونٹ آئے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent us along with an army towards Najd, and he sent a detachment of that army (to face the enemy). The whole army got twelve camels per head as their portion, but he gave the detachment one additional camel (apart from the division made to the army). Thus they got thirteen camels each (as a reward).


266

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ قَالَ الْوَلِيدُ – يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ – حَدَّثْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ قُلْتُ وَكَذَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ لاَ تَعْدِلْ مَنْ سَمَّيْتَ بِمَالِكٍ هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ يَعْنِي مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ‏.‏

ولید بن مسلم کہتے ہیں : میں نے ابن مبارک سے یہی حدیث بیان کی ، میں نے کہااور اسی طرح ہم سے ابن ابی فروہ نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ہے تو ابن مبارک نے کہا : جن کا نام تم نے لیا ہے وہ مالک کے برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح یا اس جیسی بات انہوں نے کہی ، اس سے وہ امام مالک بن انس کو مراد لے رہے تھے ۔

Al Walid bin Muslim said “I narrated this tradition (mentioned above) to Ibn Al Mubarak and said “And similarly it has been narrated by Ibn Abi Farwah to us on the authority of Nafi’(as narrated by Shu’aib). He (Ibn Al Mubarak) said “Those whom you have named cannot be equal to Malik i.e, Malik bin Anas.


267

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، – يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ الْكِلاَبِيَّ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً إِلَى نَجْدٍ فَخَرَجْتُ مَعَهَا فَأَصَبْنَا نَعَمًا كَثِيرًا فَنَفَّلَنَا أَمِيرُنَا بَعِيرًا بَعِيرًا لِكُلِّ إِنْسَانٍ ثُمَّ قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَسَّمَ بَيْنَنَا غَنِيمَتَنَا فَأَصَابَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا بَعْدَ الْخُمُسِ وَمَا حَاسَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالَّذِي أَعْطَانَا صَاحِبُنَا وَلاَ عَابَ عَلَيْهِ بَعْدَ مَا صَنَعَ فَكَانَ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا ثَلاَثَةَ عَشَرَ بَعِيرًا بِنَفْلِهِ ‏.‏

اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ ۱؎ نجد کی جانب بھیجا ، میں بھی اس کے ساتھ نکلا ، ہمیں بہت سے اونٹ ملے ، تو ہمارے دستہ کے سردار نے ایک ایک اونٹ ہم میں سے ہر شخص کو بطور انعام دیا ، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ نے ہمارے غنیمت کے مال کو ہم میں تقسیم کیا ، تو ہر ایک کو ہم میں سے خمس کے بعد بارہ بارہ اونٹ ملے ، اور وہ اونٹ جو ہمارے سردار نے دیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حساب میں شمار نہ کیا ، اور نہ ہی آپ نے اس سردار کے عمل پر طعن کیا ، تو ہم میں سے ہر ایک کو اس کے نفل سمیت تیرہ تیرہ اونٹ ملے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent a detachment to Najd. I went out along with them, and got abundant riches. Our commander gave each of us a camel as a reward. We then came upon the Messenger of Allah (ﷺ) and he divided the spoils of war among us. Each of us received twelve camels after taking a fifth of it. The Messenger of Allah (ﷺ) did not take account of our companion (i.e. the commander of the army), nor did he blame him for what he had done. Thus each man of us had received thirteen camels with the reward he gave.


268

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، – الْمَعْنَى – عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ سَرِيَّةً فِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا إِبِلاً كَثِيرَةً فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمُ اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا ‏.‏ زَادَ ابْنُ مَوْهَبٍ فَلَمْ يُغَيِّرْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک سریہ بھیجا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے ، ان لوگوں کو غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے ، ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے ، اور ایک ایک اونٹ انہیں بطور نفل ( انعام ) دئیے گئے ۔ ابن موہب کی روایت میں یہ اضافہ ہے : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقسیم کو بدلا نہیں ۔

Nafi’ reported on the authority of ‘Abd Allaah bin ‘Umar “The Apostle of Allaah(ﷺ) sent a detachment towards Najd. ‘Abd Allaah bin ‘Umar also accompanied it. They gained a large number of Camels as a booty. Their portion was twelve Camels each and they were rewarded (in addition) one Camel each. The version of Ibn Mawhab added “The Apostle of Allaah(ﷺ) did not change it”


269

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ فَبَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعِيرًا بَعِيرًا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرَوَاهُ أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ وَنُفِّلْنَا بَعِيرًا بَعِيرًا ‏.‏ لَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ‏.‏

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا ، تو ہمارے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے ، اور ایک ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بطور انعام دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے برد بن سنان نے نافع سے عبیداللہ کی حدیث کے ہم مثل روایت کیا ہے اور اسے ایوب نے بھی نافع سے اسی کے مثل روایت کیا ، مگر اس میں یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل دئیے گئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

‘Abd Allaah (bin ‘Umar) said “The Apostle of Allaah(ﷺ) sent us along with a detachment. The share of each was twelve Camels. The Apostle of Allaah(ﷺ) gave each one of us a Camel as a reward.

Abu Dawud said “Burd bin Sinan narrated a similar tradition from Nafi’ as narrated by ‘Ubaid Allaah. Ayyub also narrated from Nafi’ a similar tradition, but his version goes “We were rewarded one Camel each. He did not mention the Prophet (ﷺ).


27

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَقَرَأْتُهُ، عَلَى يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ الْجُرْجُسِيِّ قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ لَمْ يَغْزُ أَوْ يُجَهِّزْ غَازِيًا أَوْ يَخْلُفْ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ أَصَابَهُ اللَّهُ بِقَارِعَةٍ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ فِي حَدِيثِهِ ‏:‏ ‏”‏ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‏”‏ ‏.‏

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے جہاد نہیں کیا یا کسی جہاد کرنے والے کے لیے سامان جہاد فراہم نہیں کیا یا کسی مجاہد کے اہل و عیال کی بھلائی کے ساتھ خبرگیری نہ کی تو اللہ اسے کسی سخت مصیبت سے دو چار کرے گا “ ، یزید بن عبداللہ کی روایت میں «قبل يوم القيامة» ” قیامت سے پہلے “ کا اضافہ ہے ۔

Narrated AbuUmamah:

The Prophet (ﷺ) said: He who does not join the warlike expedition (jihad), or equip, or looks well after a warrior’s family when he is away, will be smitten by Allah with a sudden calamity. Yazid ibn Abdu Rabbihi said in his tradition: ‘before the Day of Resurrection”.


270

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، ح وَحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، قَالَ حَدَّثَنِي حُجَيْنٌ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً النَّفْلَ سِوَى قَسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ وَالْخُمُسُ فِي ذَلِكَ وَاجِبٌ كُلُّهُ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن سریوں کو بھیجتے انہیں عام لشکر کی تقسیم کے علاوہ بطور نفل خاص طور سے کچھ دیتے تھے اور خمس ان تمام میں واجب ہوتا ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) used to give to some of the detachments he sent out (something extra) for themselves in particular apart from the division made to the whole army. The fifth is necessary in all that.


271

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُيَىٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلاَثِمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَانْقَلَبُوا حِينَ انْقَلَبُوا وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلاَّ وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی : «اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم» ” اے اللہ ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کر دے ، اے اللہ ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دیدے ، اے اللہ ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے “ ، پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی ، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو ، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہو گئے اور وہ آسودہ بھی ہو گئے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) went out on the day of Badr along with three hundred and fifteen (men). The Messenger of Allah (ﷺ) said: O Allah, they are on foot, provide mount for them; O Allah , they are naked, clothe them; O Allah, they are hungry, provide food for them. Allah then bestowed victory on them. They returned when they were clothed. There was no man of them but he returned with one or two camels; they were clothed and ate to their fill.


272

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ الشَّامِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جَارِيَةَ التَّمِيمِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُنَفِّلُ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ ‏.‏

حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مال غنیمت میں سے ) خمس ( پانچواں حصہ ) نکالنے کے بعد ثلث ( ایک تہائی ) بطور نفل ( انعام ) دیتے تھے ۱؎ ۔

Narrated Habib ibn Maslamah al-Fihri:

The Messenger of Allah (ﷺ) would give a third of the spoils after he would keep off the fifth.


273

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنِ ابْنِ جَارِيَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُنَفِّلُ الرُّبُعَ بَعْدَ الْخُمُسِ وَالثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ إِذَا قَفَلَ ‏.‏

حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس نکالنے کے بعد ربع ( ایک چوتھائی ) بطور نفل دیتے تھے ( ابتداء جہاد میں ) اور جب جہاد سے لوٹ آتے ( اور پھر ان میں سے کوئی گروہ کفار سے لڑتا ) تو خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی بطور نفل دیتے ۔

Narrated Habib ibn Maslamah:

The Messenger of Allah (ﷺ) used to give a quarter of the booty as reward after the fifty had been kept off, and a third after the fifth had been kept off when he returned.


274

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ، وَمَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيَّانِ، – الْمَعْنَى – قَالاَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَهْبٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ مَكْحُولاً، يَقُولُ كُنْتُ عَبْدًا بِمِصْرَ لاِمْرَأَةٍ مِنْ بَنِي هُذَيْلٍ فَأَعْتَقَتْنِي فَمَا خَرَجْتُ مِنْ مِصْرَ وَبِهَا عِلْمٌ إِلاَّ حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى ثُمَّ أَتَيْتُ الْحِجَازَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلاَّ حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى ثُمَّ أَتَيْتُ الْعِرَاقَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلاَّ حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى ثُمَّ أَتَيْتُ الشَّامَ فَغَرْبَلْتُهَا كُلُّ ذَلِكَ أَسْأَلُ عَنِ النَّفْلِ فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي فِيهِ بِشَىْءٍ حَتَّى أَتَيْتُ شَيْخًا يُقَالُ لَهُ زِيَادُ بْنُ جَارِيَةَ التَّمِيمِيُّ فَقُلْتُ لَهُ هَلْ سَمِعْتَ فِي النَّفْلِ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيَّ يَقُولُ شَهِدْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَفَّلَ الرُّبُعَ فِي الْبَدْأَةِ وَالثُّلُثَ فِي الرَّجْعَةِ ‏.‏

مکحول کہتے ہیںمیں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا ، اس نے مجھے آزاد کر دیا ، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا ، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا ، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا ، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا ، ہر شخص سے میں نفل کا حال پوچھتا تھا ، میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کرے ، یہاں تک کہ میں ایک شیخ سے ملا جن کا نام زیاد بن جاریہ تمیمی تھا ، میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ نے نفل کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ کہا : ہاں ! میں نے حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں ایک چوتھائی بطور نفل دیا اور لوٹ آنے کے بعد ( پھر حملہ کرنے پر ) ۱؎ ایک تہائی بطور نفل دیا ۔

Narrated Habib ibn Maslamah al-Fihri:

Makhul said: I was the slave of a woman of Banu Hudhayl; afterwards she emancipated me. I did not leave Egypt until I had acquired all the knowledge that seemed to me to exist there.

I then came to al-Hijaz and I did not leave it until I had acquired all the knowledge that seemed to be available.

Then I came to al-Iraq, and I did not leave it until I had acquired all the knowledge that seemed to be available.

I then came to Syria, and besieged it. I asked everyone about giving rewards from the booty. I did not find anyone who could tell me anything about it.

I then met an old man called Ziyad ibn Jariyah at-Tamimi. I asked him: Have you heard anything about giving rewards from the booty? He replied: Yes. I heard Maslamah al-Fihri say: I was present with the Prophet (ﷺ).

He gave a quarter of the spoils on the outward journey and a third on the return journey.


275

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، – هُوَ مُحَمَّدٌ – بِبَعْضِ هَذَا ح وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنِي هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّعُهُمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ لاَ يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلاَ ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ ‏”‏ ‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ إِسْحَاقَ الْقَوَدَ وَالتَّكَافُؤَ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمانوں کے خون برابر ہیں ۱؎ ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے ، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی ، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے ( گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو ) اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ۲؎ جس کی سواریاں زور آور اور تیز رو ہوں وہ ( غنیمت کے مال میں ) اس کے برابر ہو گا جس کی سواریاں کمزور ہیں ، اور لشکر میں سے کوئی سریہ نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر کے باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے ، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو “ ۔ ابن اسحاق نے «القود» ۳؎ اور «التكافؤ» کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Muslims are equal in respect of blood. The lowest of them is entitled to give protection on behalf of them, and the one residing far away may give protection on behalf of them. They are like one hand over against all those who are outside the community. Those who have quick mounts should return to those who have slow mounts, and those who got out along with a detachment (should return) to those who are stationed. A believer shall not be killed for an unbeliever, nor a confederate within the term of confederation with him.

Ibn Ishaq did not mention retaliation and equality in respect of blood.


276

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَغَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَتَلَ رَاعِيَهَا وَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ فَجَعَلْتُ وَجْهِي قِبَلَ الْمَدِينَةِ ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ يَا صَبَاحَاهُ ‏.‏ ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ فَجَعَلْتُ أَرْمِي وَأَعْقِرُهُمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَىَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ جَعَلْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي وَحَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثِينَ رُمْحًا وَثَلاَثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا ثُمَّ أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ مَدَدًا فَقَالَ لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ ‏.‏ فَقَامَ إِلَىَّ أَرْبَعَةٌ مِنْهُمْ فَصَعِدُوا الْجَبَلَ فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمْ قُلْتُ أَتَعْرِفُونِي قَالُوا وَمَنْ أَنْتَ قُلْتُ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم لاَ يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكُنِي وَلاَ أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي ‏.‏ فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ أَوَّلُهُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِيُّ فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ الأَخْرَمُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى فَرَسِ الأَخْرَمِ فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ بِأَبِي قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ فَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الأَخْرَمِ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي جَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُو قَرَدٍ فَإِذَا نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي خَمْسِمِائَةٍ فَأَعْطَانِي سَهْمَ الْفَارِسِ وَالرَّاجِلِ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہعبدالرحمٰن بن عیینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ لیا ، آپ کے چرواہے کو مار ڈالا ، اور اونٹوں کو ہانکتا ہوا وہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے چلے ، تو میں نے اپنا رخ مدینہ کی طرف کیا ، اور تین بار پکار کر کہا «يا صباحاه» ( اے صبح کا حملہ ) ۱؎ ، اس کے بعد میں لٹیروں کے پیچھے چلا ، ان کو تیر مارتا اور زخمی کرتا جاتا تھا ، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے اونٹوں کو میں نے اپنے پیچھے کر دیا ، انہوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے تیس سے زائد نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں نیچے پھینک دیں ، اتنے میں عیینہ ان کی مدد کے لیے آ پہنچا ، اور اس نے کہا : تم میں سے چند آدمی اس شخص کی طرف ( یعنی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ) کی طرف جائیں ( اور اسے قتل کر دیں ) چنانچہ ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے ، جب اتنے فاصلہ پر ہوئے کہ میں ان کو اپنی آواز پہنچا سکوں تو میں نے کہا : تم مجھے پہچانتے ہو ، انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں اکوع کا بیٹا ہوں ، قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی عنایت کی ، تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو کبھی نہ پکڑ سکے گا ، اور میں جس کو چاہوں گا وہ بچ کر جا نہ سکے گا ، پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے بیچ سے چلے آ رہے ہیں ، ان میں سب سے آگے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ تھے ، وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ فزاری سے جا ملے ، عبدالرحمٰن نے ان کو دیکھا تو دونوں میں بھالا چلنے لگا ، اخرم رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن کے گھوڑے کو مار ڈالا ، اور عبدالرحمٰن نے اخرم رضی اللہ عنہ کو مار ڈالا ، پھر عبدالرحمٰن اخرم رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا ، اس کے بعد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن کو جا لیا ، دونوں میں بھالا چلنے لگا ، تو اس نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کو مار ڈالا ، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن کو مار ڈالا ، پھر ابوقتادہ اخرم کے گھوڑے پر سوار ہو گئے ، اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا ، آپ ذو قرد نامی چشمے پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا تو دیکھتا ہوں کہ آپ پانچ سو آدمیوں کے ساتھ موجود ہیں ، آپ نے مجھے سوار اور پیدل دونوں کا حصہ دیا ۲؎ ۔

Salamah (bin Al ‘Akwa) said “Abd Al rahman bin ‘Uyainah raided the Camels of the Apostle of Allaah(ﷺ) and killed their herdsman. He and some people who were with him on horses proceeded on driving them away. I turned my face towards Madeenah and shouted three times. A morning raid, I then went after the people shooting arrows at them and hamstringing them (their beasts). When a horseman returned to me, I sat in the foot of a tree till there was no riding beast of the Prophet (ﷺ) created by Allaah which I had not kept behind my back. They threw away more than thirty lance and thirty cloaks to lighten themselves. Then ‘Uyainah came to them with reinforcement and said “A few of you should go to him. Four of them stood and came to me. They ascended a mountain. Then they came near me till they could hear my voice. I told them “Do you know me?” They said “Who are you? I replied “I am Ibn Al ‘Akwa. By Him Who honored the face of Muhammad (ﷺ) if any man of you pursues he cannot catch me and if I pursue him, I will not miss him. This went on with me till I saw the horsemen of the Apostle of Allaah(ﷺ) coming through the trees. Al Akhram Al Asadi was at their head. He then joined ‘Abd Al Rahman bin ‘Uyainah and ‘Abd Al Rahman turned over him. They attacked each other with lances. Al Akhram hamstrung ‘Abd Al Rahman’s horse and ‘Abd Al Rahman pierced a lance in his body and killed him. ‘Abd al Rahman then returned on the horse of Al Akhram. I then came to the Apostle of Allaah(ﷺ) who was present at the same water from where I drove them away and which is known as Dhu Qarad. The Prophet (ﷺ) was among five hundred people. He then gave me two portions a horseman’s and a footman’s.


277

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ الْجَرْمِيِّ، قَالَ أَصَبْتُ بِأَرْضِ الرُّومِ جَرَّةً حَمْرَاءَ فِيهَا دَنَانِيرُ فِي إِمْرَةِ مُعَاوِيَةَ وَعَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ يُقَالُ لَهُ مَعْنُ بْنُ يَزِيدَ فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَأَعْطَانِي مِنْهَا مِثْلَ مَا أَعْطَى رَجُلاً مِنْهُمْ ثُمَّ قَالَ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ نَفْلَ إِلاَّ بَعْدَ الْخُمُسِ ‏”‏ ‏.‏ لأَعْطَيْتُكَ ‏.‏ ثُمَّ أَخَذَ يَعْرِضُ عَلَىَّ مِنْ نَصِيبِهِ فَأَبَيْتُ ‏.‏

ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں روم کی سر زمین میں مجھے ایک سرخ رنگ کا گھڑا ملا جس میں دینار تھے ۱؎ ، اس وقت قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے ، ہمارے اوپر حاکم تھے ، ان کو معن بن یزید کہا جاتا تھا ، میں اسے ان کے پاس لایا ، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا اور مجھ کو اس میں سے اتنا ہی دیا جتنا ہر شخص کو دیا ، پھر کہا : اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے سنا نہ ہوتا کہ نفل خمس ۲؎ نکالنے کے بعد ہی ہے تو میں تمہیں اوروں سے زیادہ دیتا ، پھر وہ اپنے حصہ سے مجھے دینے لگے تو میں نے لینے سے انکار کیا ۔

Narrated Ma’an ibn Yazid:

AbulJuwayriyyah al-Jarmi said: I found a red pitcher containing dinars in Byzantine territory during the reign of Mu’awiyah. A man from the Companions of the Prophet (ﷺ) belonging to Banu Sulaym was our ruler. He was called Ma’an ibn Yazid. I brought it to him. He apportioned it among the Muslims. He gave me the same portion which he gave to one of them. He then said: Had I not heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: There is no reward except after taking the fifth (from the booty), I would have given you (the reward). He then presented his own share to me, but I refused.


278

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ ‏.‏

اس سند سے بھی عاصم بن کلیب سےاسی طریق سے اور اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Asim bin Kulaib through a different chain of narrators to the same effect.


279

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلاَءِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ الأَسْوَدَ، قَالَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ، قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى بَعِيرٍ مِنَ الْمَغْنَمِ فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ الْبَعِيرِ ثُمَّ قَالَ ‏ “‏ وَلاَ يَحِلُّ لِي مِنْ غَنَائِمِكُمْ مِثْلُ هَذَا إِلاَّ الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ ‏”‏ ‏.‏

عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مال غنیمت کے ایک اونٹ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی ، پھر جب سلام پھیرا تو اونٹ کے پہلو سے ایک بال لیا ، اور فرمایا : ” تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اتنا بھی حلال نہیں سوائے خمس کے ، اور خمس بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Amr ibn Abasah:

The Messenger of Allah (ﷺ) led us in prayer facing a camel which had been taken in booty, and when he had given the salutation, he took a hair from the camel’s side and said: I have no right as much as this of your booty, but only to the fifth. and the fifth is returned to you.


28

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ ‏”‏ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مشرکوں سے اپنے اموال ، اپنی جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: Use your property, your persons any your tongues in striving against the polytheists.


280

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، اور کہا جائے گا : یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے “ ۔

Ibn ‘Umar reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “A banner will be hoisted for a treacherous man on the Day of Judgment, it will then be announced. This is a treachery of so and so, son of so and so.


281

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ بِهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے ( تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہو گی ) “ ۱؎ ۔

Abu Hurarirah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “A Muslim ruler is shield by which a battle is fought.”


282

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أُلْقِيَ فِي قَلْبِيَ الإِسْلاَمُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنِّي لاَ أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلاَ أَحْبِسُ الْبُرُدَ وَلَكِنِ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الآنَ فَارْجِعْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَسْلَمْتُ ‏.‏ قَالَ بُكَيْرٌ وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلاَ يَصْلُحُ ‏.‏

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہقریش نے مجھے ( صلح حدیبیہ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں ، تم واپس جاؤ ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا “ ، ابورافع کہتے ہیں : میں قریش کے پاس لوٹ آیا ، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا ۔ بکیر کہتے ہیں : مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎ ۔

Narrated AbuRafi’:

The Quraysh sent me to the Messenger of Allah (ﷺ), and when I saw the Messenger of Allah (ﷺ), Islam was cast into my heart, so I said: Messenger of Allah, I swear by Allah, I shall never return to them. The Messenger of Allah (ﷺ) replied: I do not break a covenant or imprison messengers, but return, and if you feel the same as you do just now, come back. So I went away, and then came to the Prophet (ﷺ) and accepted Islam.

The narrator Bukair said: He informed me that Abu Rafi’ was a Copt.

Abu Dawud said: This was valid in those days, but today it is not valid.


283

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، – رَجُلٍ مِنْ حِمْيَرَ – قَالَ كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلاَدِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ غَزَاهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لاَ غَدْرٌ فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلاَ يَشُدُّ عُقْدَةً وَلاَ يَحُلُّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ ‏”‏ ‏.‏ فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ ‏.‏

سلیم بن عامر سے روایت ہے ، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے ، وہ کہتے ہیںمعاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے ، ( اس مدت میں ) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے ، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی ، تو انہوں نے ان سے جنگ کی ، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا ، وہ کہہ رہا تھا : اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا ، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے ، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے “ ، تو یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ واپس آ گئے ۔

Narrated Amr ibn Abasah:

Sulaym ibn Amir, a man of Himyar, said: There was a covenant between Mu’awiyah and the Byzantines, and he was going towards their country, and when the covenant came to an end, he attacked them. A man came on a horse, or a packhorse saying, Allah is Most Great, Allah is Most Great; let there be faithfulness and not treachery. And when they looked they found that he was Amr ibn Abasah. Mu’awiyah sent for him and questioned him (about that). He said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: When one has covenant with people he must not strengthen or loosen it till its term comes to an end or he brings it to an end in agreement with them (to make both the parties equal). So Mu’awiyah returned.


284

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ‏”‏ ‏.‏

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا “ ۔

Narrated AbuBakrah:

The Prophet (ﷺ) said: If anyone kills a man whom he grants protection prematurely, Allah will forbid him to enter Paradise.


285

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، – يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ كَانَ مُسَيْلِمَةُ كَتَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ وَقَدْ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَشْجَعَ يُقَالُ لَهُ سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُعَيْمِ بْنِ مَسْعُودٍ الأَشْجَعِيِّ عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَآ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ ‏”‏ مَا تَقُولاَنِ أَنْتُمَا ‏”‏ قَالاَ نَقُولُ كَمَا قَالَ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلاَ أَنَّ الرُّسُلَ لاَ تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا ‏”‏ ‏.‏

نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا : ” تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ “ ان دونوں نے کہا : ” ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ ۱؎ نے کہا ہے “ ، ( یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا “ ۔

Narrated Nu’aym ibn Mas’ud:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say when he read the letter of Musaylimah: What do you believe yourselves? They said: We believe as he believes. He said: I swear by Allah that were it not that messengers are not killed, I would cut off your heads.


286

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ فَقَالَ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ حِنَةٌ وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ ‏.‏ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَالَ لَهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لَوْلاَ أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ ‏”‏ ‏.‏ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلاً بِالسُّوقِ ‏.‏

حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہانہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا : میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے ، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں ، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا ، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا ، اور ابن نواحہ سے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : ” اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے “ ۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی ، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

Harithah ibn Mudarrib said that he came to Abdullah ibn Mas’ud and said (to him): There is no enmity between me and any of the Arabs. I passed a mosque of Banu Hanifah. They (the people) believed in Musaylimah. Abdullah (ibn Mas’ud) sent for them. They were brought, and he asked them to repent, except Ibn an-Nawwahah. He said to him: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Were it not that you were not a messenger, I would behead you. But today you are not a messenger. He then ordered Qarazah ibn Ka’b (to kill him). He beheaded him in the market. Anyone who wants to see Ibn an-Nawwahah slain in the market (he may see him).


287

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهَا أَجَارَتْ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ ‏ “‏ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمجھ سے ام ہانی بنت ابوطالب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو امان دی ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہم نے اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی ، اور ہم نے اس کو امان دیا جس کو تم نے امان دیا “ ۔

Ibn ‘Abbas said “Umm Hani daughter of Abu Talib told me that in the year of the conquest she gave protection to a man from the polytheists. She came to the Prophet (ﷺ) and mentioned it to him. He said “We have given security to those to whom you have given it.”


288

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ إِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ لَتُجِيرُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ فَيَجُوزُ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہاگر کوئی عورت کسی کافر کو مسلمانوں سے پناہ دے دیا کرتی تو وہ پناہ درست ہوتی تھی ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

A woman would give security from the believers and it would be allowed.


289

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ، حَدَّثَهُمْ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشَرَةَ مِائَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْىَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ ‏.‏ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَا خَلأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ ثُمَّ أَتَاهُ – يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ – فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ ‏.‏ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ‏.‏ فَقَالَ أَىْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَّا الإِسْلاَمُ فَقَدْ قَبِلْنَا وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لاَ حَاجَةَ لَنَا فِيهِ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ‏”‏ ‏.‏ وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَى أَنَّهُ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا ‏.‏ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأَصْحَابِهِ ‏”‏ قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الآيَةَ فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ – يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ – فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذَا بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلاَنُ جَيِّدًا ‏.‏ فَاسْتَلَّهُ الآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا ‏”‏ ‏.‏ فَقَالَ قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ ‏”‏ ‏.‏ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ ‏.‏

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا ، اور اشعار کیا ، اور عمرہ کا احرام باندھا ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے : اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی ، لوگوں نے کہا : ” حل حل “ ۱؎ قصواء اڑ گئی ، قصواء اڑ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے ، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا ، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا ، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے ، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہیں ، اس پر عروہ نے کہا : اے بدعہد ! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی ؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا ، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا ، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں “ ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لکھو ، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے “ ، پھر پورا قصہ بیان کیا ۔ سہیل نے کہا : اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے ، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا : ” اٹھو اور اونٹ نحر ( ذبح ) کرو ، پھر سر منڈا ڈالو “ ، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا ، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا ، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا ، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے ، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے ، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے ، اس نے میان سے نکال کر کہا : ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں ، ابوبصیر نے کہا : مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں ، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی ، تو انہوں نے ( اسی تلوار سے ) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا ، ( یہ دیکھ کر ) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ ڈر گیا ہے “ ، وہ بولا : قسم اللہ کی ! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا ، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے : اللہ کے رسول ! آپ نے اپنا عہد پورا کیا ، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا ، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تباہی ہو اس کی ماں کے لیے ، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے ، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا “ ، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے ، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور ( ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا ) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی ۔

Al Miswar bin Makhramah said :The Messenger of Allah (ﷺ) came out in the year of al-Hudaibbiyyah with over ten hundreds of Companions and when he came to Dhu al Hulaifah. He garlanded and marked the sacrificial animals, and entered the sacred state of Umrah. He then went on with the tradition. The Prophet moved on and when he came to the mountain, pass by which one descends (to Mecca) to them, his riding-beast knelt down, and the people said twice: Go on, go on, al-Qaswa has become jaded. The Prophet (May peace be upon him) said: She has not become jaded and that is not a characteristic of hers, but He Who restrained the elephant has restrained her. He then said: By Him in Whose hand my soul is, they will not ask any me good thing by which they honor which God has made sacred without my giving them it. He then urged her and she leaped up and he turned aside from them, and stopped at the farthest side of al-Hudaibiyyah at a pool with little water. Meanwhile Budail bin Warqa al-Khuza’I came, and ‘Urwah bin Mas’ud joined him. He began to speak to the Prophet (ﷺ). Whenever he spoke to the Prophet (ﷺ), he caught his beard. Al Mughriah bin Shu’bah was standing beside the Prophet (ﷺ).He had a sword with him, wearing a helmet. He (Al Mughriah) struck his (‘Urwah’s) hand with the lower end of his sheath, and said: Keep away your hand from his beard. ‘Urwah then raised his hand and asked: Who is this? They replied: Al-Mughirah bin Shu’bah. He said: O treacherous one! Did I not use my offices in your treachery? In pre-Islamic days Al-Mughirah bin Shu’bah accompanied some people and murdered them, and took their property. He then came (to the Prophet) and embraced Islam. The Prophet (ﷺ) said: As for Islam we accepted it, but as to the property, as it has been taken by treachery, we have no need of it. He went on with the tradition the Prophet (ﷺ) said: Write down: This is what Muhammad, the Messenger of Allah, has decided. He then narrated the tradition. Suhail then said: And that a man will not come to you from us, even if he follows your religion, without you sending him back to us. When he finished drawing up the document, the Prophet (ﷺ) said to his Companions: Get up and sacrifice and then shave. Thereafter some believing women who were immigrants came. (Allah sent down: O yea who believe, when believing women come to you as emigrants). Allah most high forbade them to send them back, but ordered them to restore the dower. He then returned to Medina. Abu Basir a man from the Quraish (who was a Muslim), came to him. And they sent (two men) to look for him; so he handed him over to the two men. They took him away, and when they reached Dhu Al Hulaifah and alighted to eat some dates which they had, Abu Basir said to one of the men : I swear by Allah so-and-so, that I think this sword of yours is a fine one; the other drew the sword and said : Yes I have tried it. Abu Basir said: Let me look at it. He let him have it and he struck him till he died, whereupon the other fled and came to Medina, and running entered the mosque. The Prophet ( may peace be upon him) said: This man has seen something frightful. He said: I swear by Allah that my Companion has been killed, and im as good as dead. Abu Basir then arrived and said: Allah has fulfilled your covenant. You returned me to them, but Allah saved me from them. The Prophet (ﷺ) said: Woe to his mother, stirrer up of war! Would that he had someone (i.e. some kinsfolk). When he heard that he knew that he would send him back to them, so he went out and came to the seashore. Abu Jandal escaped and joined Abu Basir till a band of them collected.


29

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏{‏ إِلاَّ تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ‏}‏ وَ ‏{‏ مَا كَانَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ يَعْمَلُونَ ‏}‏ نَسَخَتْهَا الآيَةُ الَّتِي تَلِيهَا ‏{‏ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ‏}‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں«إلا تنفروا يعذبكم عذابا أليما» ” اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا “ ( سورۃ التوبہ : ۳۹ ) اور « ما كان لأهل المدينة» سے «يعملون » ” مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں “ ( سورۃ التوبہ : ۱۰ ) کو بعد والی آیت «وما كان المؤمنون لينفروا كافة» ” مناسب نہیں کہ مسلمان سب کے سب جہاد کے لیے نکل پڑیں “ ( سورۃ التوبہ : ۱۲۲ ) نے منسوخ کر دیا ہے ۔

Ibn ‘Abbas said “The Qur’anic verse “Unless you go forth, He will punish you with a grievous penalty, and the verse “It is not fitting for the people of Medina”… up to “that Allaah might required their deed with the best (possible reward) have been repealed by the verse. Nor should the believers all go forth together.”


290

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أَنَّهُمُ اصْطَلَحُوا عَلَى وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِينَ يَأْمَنُ فِيهِنَّ النَّاسُ وَعَلَى أَنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَكْفُوفَةً وَأَنَّهُ لاَ إِسْلاَلَ وَلاَ إِغْلاَلَ ‏.‏

عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہمسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی ، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے ، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے ۲؎ ۔

Al Miswar bin Makhramah and Marwan bin Al Hakam said “They agreed to abandon war for ten years during which the people which have security on the basis that there should be sincerity between them and that there should be not theft or treachery.


291

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ مَالَ مَكْحُولٌ وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْتُ مَعَهُمَا فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، قَالَ قَالَ جُبَيْرٌ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ذِي مِخْبَرٍ – رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم – فَأَتَيْنَاهُ فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنِ الْهُدْنَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ ‏”‏ ‏.‏

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہمکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں : جبیر نے ( مجھ سے ) کہا : ہمیں ذومخبر رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو ، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا ، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے “ ۔

Narrated Dhu Mikhbar:

Hassan ibn Atiyyah said: Makhul and Ibn Zakariyya went to Khalid ibn Ma’dan, and I also went along with them. He reported a tradition on the authority of Jubayr ibn Nufayr. He said: Go with us to Dhu Mikhbar, a man from the Companions of the Prophet (ﷺ). We came to him and Jubayr asked him about peace. He said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: You will make a secure peace with the Byzantines, then you and they will fight an enemy behind you.


292

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا ‏.‏ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ قُلْ ‏”‏ ‏.‏ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا الصَّدَقَةَ وَقَدْ عَنَّانَا قَالَ وَأَيْضًا لَتَمَلُّنَّهُ ‏.‏ قَالَ اتَّبَعْنَاهُ فَنَحْنُ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَىِّ شَىْءٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ ‏.‏ قَالَ كَعْبٌ أَىَّ شَىْءٍ تَرْهَنُونِي قَالَ وَمَا تُرِيدُ مِنَّا قَالَ نِسَاءَكُمْ قَالُوا سُبْحَانَ اللَّهِ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا فَيَكُونُ ذَلِكَ عَارًا عَلَيْنَا ‏.‏ قَالَ فَتَرْهَنُونِي أَوْلاَدَكُمْ ‏.‏ قَالُوا سُبْحَانَ اللَّهِ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ رُهِنْتَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ ‏.‏ قَالُوا نَرْهَنُكَ اللأْمَةَ يُرِيدُ السِّلاَحَ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ فَلَمَّا أَتَاهُ نَادَاهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُتَطَيِّبٌ يَنْضَخُ رَأْسُهُ فَلَمَّا أَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ وَقَدْ كَانَ جَاءَ مَعَهُ بِنَفَرٍ ثَلاَثَةٍ أَوْ أَرْبَعَةٍ فَذَكَرُوا لَهُ قَالَ عِنْدِي فُلاَنَةُ وَهِيَ أَعْطَرُ نِسَاءِ النَّاسِ ‏.‏ قَالَ تَأْذَنُ لِي فَأَشُمُّ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي رَأْسِهِ فَشَمَّهُ قَالَ أَعُودُ قَالَ نَعَمْ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي رَأْسِهِ فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ قَالَ دُونَكُمْ ‏.‏ فَضَرَبُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے “ ، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے : اللہ کے رسول ! میں ، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، کہہ سکتے ہو “ ، پھر انہوں نے کعب کے پاس آ کر کہا : اس شخص ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقے مانگ مانگ کر ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے ، کعب نے کہا : ابھی کیا ہے ؟ تم اور اکتا جاؤ گے ، اس پر انہوں نے کہا : ہم اس کی پیروی کر چکے ہیں اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے ؟ ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ ایک وسق یا دو وسق اناج ہمیں بطور قرض دے دو ، کعب نے کہا : تم اس کے عوض رہن میں میرے پاس کیا رکھو گے ؟ محمد بن مسلمہ نے کہا : تم کیا چاہتے ہو ؟ کعب نے کہا : اپنی عورتوں کو رہن رکھ دو ، انہوں نے کہا : ” سبحان الله ! “ تم عربوں میں خوبصورت ترین آدمی ہو ، اگر ہم اپنی عورتوں کو تمہارے پاس گروی رکھ دیں تو یہ ہمارے لیے عار کا سبب ہو گا ، اس نے کہا : اپنی اولاد کو رکھ دو ، انہوں نے کہا : ” سبحان الله ! “ جب ہمارا بیٹا بڑا ہو گا تو لوگ اس کو طعنہ دیں گے کہ تو ایک وسق یا دو وسق کے بدلے گروی رکھ دیا گیا تھا ، البتہ ہم اپنا ہتھیار تمہارے پاس گروی رکھ دیں گے ، کعب نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب کے پاس گئے اور اس کو آواز دی تو وہ خوشبو لگائے ہوئے نکلا ، اس کا سر مہک رہا تھا ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ان کے ساتھ تین چار آدمی جو اور تھے سبھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر شروع کر دیا ، کعب کہنے لگا کہ میرے پاس فلاں عورت ہے جو سب سے زیادہ معطر رہتی ہے ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں ( تمہارے بال ) سونگھوں ؟ اس نے کہا : ہاں ، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈال کر سونگھا ، پھر دوبارہ اجازت چاہی اس نے کہا : ہاں ، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا ، پھر جب اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو ( اپنے ساتھیوں سے ) کہا : پکڑو اسے ، پھر ان لوگوں نے اس پر وار کیا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا ۔

Jabir reported:The Messenger of Allah ( may peace be upon him) said : Who will pursue Ka’b bin Al-Ashraf, for he has caused trouble to Allah and His Apostle? Muhammad bin Maslamah stood up and said: I (shall do), Messenger of Allah. Do you want that I should kill him? He said: Yes. He said: So permit me to say something (against you). He said: Yes say. He then came to him (Ka’b b. al-Ashraf) and said to him: This man has asked us for sadaqah (alms) and has put us into trouble. He (Ka’b) said: You will be more grieved. He (Muhammad bin Maslamah) said: We have followed him and we do not like to forsake him until we see what will be the consequences of his matter. We wished if you could lend us one or two wasqs. Ka’b said: What will you mortgage with me? He asked: what do you want from us? He replied : your Women. They said: Glory be to Allah: You are the most beautiful of the Arabs. If we mortgage our women with you, that will be a disgrace for us. He said “The mortgage your children.” They said “Glory be to Allaah, a son of us may abuse saying “You were mortgaged for one or two wasqs.” They said “We shall mortgage or coat of mail with you. By this he meant arms”. He said “Yes, when he came to him, he called him and he came out while he used perfume and his head was spreading fragrance. When he at with him and he came there accompanied by three or four persons who mentioned his perfume. He said “I have such and such woman with me. She is most fragrant of the women among the people. He (Muhammad bin Maslamah) asked “Do you permit me so that I may smell? He said “Yes. He then entered his hand through his hair and smell it.” He said “May I repeat?” He said “Yes. He again entered his hand through his hair. When he got his complete control, he said “Take him. So he struck him until they killed him.”


293

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُزَابَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، – يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ – حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ الإِيمَانُ قَيَّدَ الْفَتْكَ لاَ يَفْتِكُ مُؤْمِنٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایمان نے کسی کو دھوکہ سے قتل کرنے کو روک دیا ، کوئی مومن دھوکہ سے قتل نہیں کرتا ۱؎ “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Faith prevented assassination. A believer should not assassinate.


294

حَدَّثَنِي الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الأَرْضِ ثَلاَثَ تَكْبِيرَاتٍ وَيَقُولُ ‏ “‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو ہر بلندی پر چڑھتے وقت تین بار «الله اكبر» کہتے ، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے : «لا إله إلا الله ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون ، صدق الله وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده» ” اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لیے بادشاہت ہے ، اور اسی کے لیے حمد ہے ، او وہ ہر چیز پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں ، عبادت کرنے والے ہیں ، سجدہ کرنے والے ہیں ، اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں ، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی مدد کی ، اور اکیلے ہی جتھوں کو شکست دی “ ۔

‘Abd Allah bin ‘Umar said “When the Apostle of Allaah(ﷺ) returned from an expedition, Hajj or ‘Umrah on every rising piece of ground he would say three times “Allaah is Most Great” and he would say “There is no god bt Allaah alone who has no partner, to Whom the dominion belongs, to Whom praise is due, and Who is Omnipotent, serving, prostrating ourselves before our Lord and expressing praise. Allaah alone has kept his word, helped His servant and routed the confederate.


295

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ‏{‏ لاَ يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ‏}‏ الآيَةَ نَسَخَتْهَا الَّتِي فِي النُّورِ ‏{‏ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ غَفُورٌ رَحِيمٌ ‏}‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہآیت کریمہ «لا يستأذنك الذين يؤمنون بالله واليوم الآخر» ” اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔ “ ( سورۃ التوبہ : ۴۴ ) کو سورۃ النور کی آیت «إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله» سے «غفور رحيم» تک ” باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے ، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں ، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے “ ( سورۃ النور : ۶۲ ) نے منسوخ کر دیا ہے ۱؎ ۔

Ibn ‘Abbas said “The verse “Those who believe in Allaah and the Last Day ask thee for no exemption from fighting with their goods and persons” was abrogated by the verse “Only those are believers who believe in Allaah and His Apostle….For Allaah is Oft-Forgiving, Most Merciful.”


296

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ أَلاَ تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ ‏”‏ ‏.‏ فَأَتَاهَا فَحَرَّقَهَا ثُمَّ بَعَثَ رَجُلاً مِنْ أَحْمَسَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يُبَشِّرُهُ يُكْنَى أَبَا أَرْطَاةَ ‏.‏

جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے ؟ “ ۲؎ ، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے ۔

Jarir (bin ‘Abd Allaah) said “The Apostle of Allaah(ﷺ) said to me “Why do you not give me rest from Dhu Al Khulasah? He went there and burned it. He then sent a man from Ahmas to the Prophet (ﷺ) to give him good tidings. His surname was Artah.


297

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ ‏.‏ وَقَصَّ ابْنُ السَّرْحِ الْحَدِيثَ قَالَ وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَىَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَىَّ السَّلاَمَ ثُمَّ صَلَّيْتُ الصُّبْحَ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا فَسَمِعْتُ صَارِخًا يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ ‏.‏ فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَىَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ فَقَامَ إِلَىَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي ‏.‏

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے ( اس کے بعد ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں ۱؎ سے بات کرنے سے منع فرما دیا ، یہاں تک کہ مجھ پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا ، میں نے ان کو سلام کیا ، اللہ کی قسم انہوں نے جواب تک نہیں دیا ، پھر میں نے اپنے گھر کی چھت پر پچاسویں دن کی نماز فجر پڑھی تو ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار رہا تھا : کعب بن مالک ! خوش ہو جاؤ ، پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا ، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے ، اور میں مسجد نبوی کی طرف چل پڑا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے ، مجھ کو دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی ۲؎ ۔

Ka’ab bin Malik said “When the Prophet(ﷺ) arrived from a journey, he first went to a mosque where he prayed two rak’ahs after which he sat in it and gave audience to the people. The narrator Ibn Al Sarh then narrated the rest of the tradition. He said “The Apostle of Allaah(ﷺ) forbade the Muslims to speak to any three of us. When considerable time had passed on me, I ascended the wall of Abu Qatadah who was my cousin. I saluted him, but, I swear by Allaah he did not return my salutation. I then offered the dawn prayer on the fiftieth day on the roof of one of our houses. I then hear d a crier say “Ka’ab bin Mailk, have good news”. When the man whose voice I heard came to me giving me good news, I took off my garments and clothed him. I went on till I entered the mosque. The Apostle of Allaah(ﷺ) was sitting there. Talhah bin ‘Ubaid Allaah stood up and hastened to me till he shook hands with me and greeted me.


298

حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، بَكَّارِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخْبَرَنِي أَبِي عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَاءَهُ أَمْرُ سُرُورٍ أَوْ بُشِّرَ بِهِ خَرَّ سَاجِدًا شَاكِرًا لِلَّهِ ‏.‏

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی خوشی کی بات آتی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ۱؎ ۔

Narrated AbuBakrah:

When anything came to the Prophet (ﷺ) which caused pleasure (or, by which he was made glad), he prostrated himself in gratitude to Allah.


299

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ عُثْمَانَقَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهُوَ يَحْيَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ مَكَّةَ نُرِيدُ الْمَدِينَةَ فَلَمَّا كُنَّا قَرِيبًا مِنْ عَزْوَرَا نَزَلَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا فَمَكَثَ طَوِيلاً ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا اللَّهَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا فَمَكَثَ طَوِيلاً ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ خَرَّ سَاجِدًا ذَكَرَهُ أَحْمَدُ ثَلاَثًا قَالَ ‏ “‏ إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي وَشَفَعْتُ لأُمَّتِي فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي فَخَرَرْتُ سَاجِدًا شُكْرًا لِرَبِّي ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي فَأَعْطَانِي ثُلُثَ أُمَّتِي فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي شُكْرًا ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي فَسَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي فَأَعْطَانِي الثُّلُثَ الآخَرَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَشْعَثُ بْنُ إِسْحَاقَ أَسْقَطَهُ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حِينَ حَدَّثَنَا بِهِ فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْهُ مُوسَى بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ‏.‏

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے نکلے ، ہم مدینہ کا ارادہ کر رہے تھے ، جب ہم عزورا ۱؎ کے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے ، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا ، اور کچھ دیر اللہ سے دعا کی ، پھر سجدہ میں گر پڑے ، اور بڑی دیر تک سجدہ ہی میں پڑے رہے ، پھر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر تک اللہ سے دعا کی ، پھر سجدے میں گر پڑے اور دیر تک سجدہ میں پڑے رہے ، پھر اٹھے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر دعا کی ، پھر دوبارہ آپ سجدے میں گر پڑے ، اور فرمایا : ” میں نے اپنے رب سے دعا کی اور اپنی امت کے لیے سفارش کی تو اللہ نے مجھے ایک تہائی امت دے دی ، میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گیا ، پھر سر اٹھایا ، اور اپنی امت کے لیے دعا کی تو اللہ نے مجھے اپنی امت کا ایک تہائی اور دے دیا تو میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے پھر سجدہ میں گر گیا ، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا ، اور اپنی امت کے لیے اپنے رب سے درخواست کی تو اللہ نے جو ایک تہائی باقی تھا اسے بھی مجھے دے دیا تو میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑا “ ۔

Narrated Sa’d ibn AbuWaqqas:

We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) from Mecca making for Medina. When we were near Azwara’, he alighted, then raised his hands, and made supplication to Allah for a time, after which he prostrated himself, remaining a long time in prostration. Then he stood up and raised his hands for a time, after which he prostrated himself, remaining a long time in prostration.

He then stood up and raised his hands for a time, after which he prostrated himself. Ahmad mentioned it three times.

He then said: I begged my Lord and made intercession for my people, and He gave me a third of my people, so I prostrated myself in gratitude to my Lord. Then I raised my head and begged my Lord for my people, and He gave me a third of my people, so I prostrated myself in gratitude to my Lord. Then I raised my head and begged my Lord for my people and He gave me the remaining third, so I prostrated myself in gratitude to my Lord.

Abu Dawud said: When Ahmad b. Salih narrated this tradition to us, he omitted the name of Ash’ath b. Ishaq, but Musa b. Sahl al-Ramli narrated it to us through him.


3

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ لاَ تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا ‏”‏ ‏.‏

معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” ہجرت ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے ، اور توبہ ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے ۱؎“ ۔

Narrated Mu’awiyah:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Migration will not end until repentance ends, and repentance will not end until the sun rises in the west.


30

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ الْحَنَفِيِّ، حَدَّثَنِي نَجْدَةُ بْنُ نُفَيْعٍ، قَالَ ‏:‏ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ، ‏{‏ إِلاَّ تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ‏}‏ قَالَ ‏:‏ فَأُمْسِكَ عَنْهُمُ الْمَطَرُ وَكَانَ عَذَابَهُمْ ‏.‏

نجدہ بن نفیع کہتے ہیں کہمیں نے آیت کریمہ «إلا تنفروا يعذبكم عذابا أليما» ” اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا “ ( سورۃ التوبہ : ۳۹ ) کے سلسلہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا : عذاب یہی تھا کہ بارش ان سے روک لی گئی ( اور وہ مبتلائے قحط ہو گئے ) ۔

Najdah bin Nufai’ said “I asked Ibn ‘Abbas about the verse. “Unless you go forth, He will punish you with a grievous penalty.” He replied “The rain stopped from them. This was their punishment.”


300

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَكْرَهُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ طُرُوقًا ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Messenger of Allah (ﷺ) disapproved that a man should come to his family during the night (after returning from a journey).


301

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ أَحْسَنَ مَا دَخَلَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَوَّلَ اللَّيْلِ ‏”‏ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںآپ نے فرمایا : ” سفر سے گھر واپس آنے کا اچھا وقت یہ ہے کہ آدمی شام میں آئے “ ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

The Prophet (ﷺ) said: The best time for a man to go in to his family on return from a journey is at the beginning of the night.


302

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي سَفَرٍ فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ قَالَ ‏ “‏ أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلاً لِكَىْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ الزُّهْرِيُّ الطُّرُوقُ بَعْدَ الْعِشَاءِ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ لاَ بَأْسَ بِهِ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ، جب ہم بستی میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ٹھہرو ہم رات میں جائیں گے ، تاکہ پراگندہ بال والی کنگھی کر لے ، اور جس عورت کا شوہر غائب تھا وہ زیر ناف کے بالوں کو صاف کر لے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زہری نے کہا : ممانعت عشاء کے بعد آنے میں ہے ، ابوداؤد کہتے ہیں : مغرب کے بعد کوئی حرج نہیں ہے ۔

Jabir bin ‘Abd Allaah said “We were on a journey with the Apostle of Allaah(ﷺ). When we were going to come to our family, he said “Stay till we enter during the night, so that the disheveled woman combs herself and the woman whose husband has been away cleans herself.

Abu Dawud aid “Al Zuhri said “(this prohibition applies) when one arrives after the night prayer.

Abu dawud said “There is no harm in coming (to one’s family) after the sunset prayer.


303

حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ تَلَقَّاهُ النَّاسُ فَلَقِيتُهُ مَعَ الصِّبْيَانِ عَلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ ‏.‏

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے مدینہ آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا ، تو میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جا کر ثنیۃ الوداع پر ملا ۔

Al Sai’ib bin Yazid said “When the Prophet(ﷺ) turned from the battle of Tabuk to Madeenah, the people received him, I met him along with the children at Thaniyyat Al Wada’.


304

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ فَتًى، مِنْ أَسْلَمَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْجِهَادَ وَلَيْسَ لِي مَالٌ أَتَجَهَّزُ بِهِ ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ اذْهَبْ إِلَى فُلاَنٍ الأَنْصَارِيِّ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ تَجَهَّزَ فَمَرِضَ فَقُلْ لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُقْرِئُكَ السَّلاَمَ وَقُلْ لَهُ ادْفَعْ إِلَىَّ مَا تَجَهَّزْتَ بِهِ ‏”‏ ‏.‏ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ لاِمْرَأَتِهِ يَا فُلاَنَةُ ادْفَعِي لَهُ مَا جَهَّزْتِنِي بِهِ وَلاَ تَحْبِسِي مِنْهُ شَيْئًا فَوَاللَّهِ لاَ تَحْبِسِينَ مِنْهُ شَيْئًا فَيُبَارِكَ اللَّهُ فِيهِ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہقبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کر سکوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا ، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام کہا ہے ، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو “ ، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی ، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا : جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے ، اس میں سے کچھ مت رکھنا ، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎ ۔

Anas bin Malik said “A youth of Aslam said “Apostle of Allaah(ﷺ), I wish to go on an expedition, but I have no property to make myself equipped. He said “go to so and so Ansari who prepared equipment(for the battle), but he fell ill and tell him that the Apostle of Allaah(ﷺ) has conveyed his regards to you, and then tell him “Give him all the equipment you have made. He came to him and told him that. He said to his wife “O so and so, give him all the equipment I have made and do not detain anything from him. I swear by Allaah, if you detain anything from him, Allaah will not bless it.


305

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلاَنِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، وَعَمِّهِ، عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِمَا، كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لاَ يَقْدِمُ مِنْ سَفَرٍ إِلاَّ نَهَارًا ‏.‏ قَالَ الْحَسَنُ فِي الضُّحَى فَإِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ أَتَى الْمَسْجِدَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِ ‏.‏

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے دن ہی میں آتے ، ( حسن کہتے ہیں ) چاشت کے وقت آتے اور جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں آ کر دو رکعت پڑھتے پھر اس میں بیٹھتے ۔

Ka’ab bin Malik said “The Prophet (ﷺ) used to arrive from a journey in the daytime. Al Hasan said “During the forenoon.” When he arrived from a journey he went first to the mosque where he prayed two rak’ahs after which he sat in it and gave audience to the people.


306

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَقْبَلَ مِنْ حَجَّتِهِ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَأَنَاخَ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ ثُمَّ دَخَلَهُ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَيْتِهِ ‏.‏ قَالَ نَافِعٌ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ كَذَلِكَ يَصْنَعُ ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت حجۃ الوداع سے واپس آئے اور مدینہ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی کے دروازہ پر اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اندر جا کر دو رکعتیں پڑھیں پھر اپنے گھر گئے ۔ نافع کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

When the Messenger of Allah (ﷺ) arrived from his hajj, he entered Medina, and made (his camel) kneel down at the gate of his mosque; and he entered it and offered two rak’ahs of prayer; he then returned to his home. Nafi’ said: Ibn Umar also used to do so.


307

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا الزَّمْعِيُّ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ إِيَّاكُمْ وَالْقُسَامَةَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَقُلْنَا وَمَا الْقُسَامَةُ قَالَ ‏”‏ الشَّىْءُ يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَجِيءُ فَيَنْتَقِصُ مِنْهُ ‏”‏ ‏.‏

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «قسامہ» سے بچو “ تو ہم نے کہا : «قسامہ» کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک چیز کئی آدمیوں میں مشترک ہوتی ہے پھر تقسیم کرنے والا آتا ہے اور ہر ایک کے حصہ میں تھوڑا تھوڑا کم کر دیتا ہے ( اور اسے تقسیم کی اجرت کے طور پر خود لے لیتا ہے ) “ ۔

Narrated AbuSa’id al-Khudri:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Beware of the wages of a distributor of booty (qusamah). We asked: What is qusamah (wages of a distributor)? He said: It means a thing which is shared by the people, and then it is reduced.


308

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، – يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ – عَنْ شَرِيكٍ، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي نَمِرٍ – عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ ‏.‏ قَالَ ‏ “‏ الرَّجُلُ يَكُونُ عَلَى الْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ فَيَأْخُذُ مِنْ حَظِّ هَذَا وَحَظِّ هَذَا ‏”‏ ‏.‏

عطاء بن یسار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے ، اس میں ہے کہآپ نے فرمایا : ” ایک شخص لوگوں کی مختلف جماعتوں پر مقرر ہوتا ہے تو وہ اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے اور اس کے حصہ سے بھی لیتا ہے “ ۔

Narrated Ata’ ibn Yasar:

Ata’ reported a similar tradition (to No 2777) from the Prophet (ﷺ).

This version adds: a man is appointed on groups of people, and takes (wages) from the share of this, and from the share of this.


309

حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، – يَعْنِي ابْنَ سَلاَّمٍ – عَنْ زَيْدٍ، – يَعْنِي ابْنَ سَلاَّمٍ – أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ، يَقُولُ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَلْمَانَ، أَنَّ رَجُلاً، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَهُ قَالَ لَمَّا فَتَحْنَا خَيْبَرَ أَخْرَجُوا غَنَائِمَهُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبْىِ فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ غَنَائِمَهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ رَبِحْتُ رِبْحًا مَا رَبِحَ الْيَوْمَ مِثْلَهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ هَذَا الْوَادِي قَالَ ‏”‏ وَيْحَكَ وَمَا رَبِحْتَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مَا زِلْتُ أَبِيعُ وَأَبْتَاعُ حَتَّى رَبِحْتُ ثَلاَثَمِائَةِ أُوقِيَّةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَنَا أُنَبِّئُكَ بِخَيْرِ رَجُلٍ رَبِحَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏”‏ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ‏”‏ ‏.‏

عبیداللہ بن سلمان نے بیان کیا ہے کہایک صحابی نے ان سے کہا کہ جب ہم نے خیبر فتح کیا تو لوگوں نے اپنے اپنے غنیمت کے سامان اور قیدی نکالے اور ان کی خرید و فروخت کرنے لگے ، اتنے میں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس وقت آپ نماز سے فارغ ہوئے آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آج میں نے اس وادی میں جتنا نفع کمایا ہے اتنا کسی نے نہ کمایا ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تباہی ہو تیرے لیے ، کیا نفع کمایا تو نے ؟ “ بولا : میں برابر بیچتا اور خریدتا رہا ، یہاں تک کہ میں نے تین سو اوقیہ نفع کمائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جس نے ( تجھ سے ) زیادہ نفع کمایا ہے “ اس نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جس نے فرض نماز کے بعد دو رکعت ( سنت کی ) پڑھی “ ۔

Narrated A man from the Companions of the Prophet:

Ubaydullah ibn Salman reported on the authority of a man from the Companions of the Prophet (ﷺ): When we conquered Khaybar, they (the people) took out their spoils which contained equipment and captives. The people began to buy and sell their spoils. When the Messenger of Allah (ﷺ) prayed, a man came to him and said: Messenger of Allah, I have gained today so much so that no one gained from this valley. He asked: Woe unto you, how much did you gain? He replied: I kept on selling and buying until I gained three hundred uqiyahs. The Messenger of Allah (ﷺ) said: I tell you a man who gained better than you. He asked: What is that, Messenger of Allah? He replied! Two rak’ahs (of supererogatory prayer) after the (obligatory) prayer.


31

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ ‏:‏ كُنْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى فَخِذِي، فَمَا وَجَدْتُ ثِقَلَ شَىْءٍ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ اكْتُبْ ‏”‏ ‏.‏ فَكَتَبْتُ فِي كَتِفٍ ‏:‏ لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏.‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ – وَكَانَ رَجُلاً أَعْمَى – لَمَّا سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ فَقَالَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ لاَ يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا قَضَى كَلاَمَهُ غَشِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم السَّكِينَةُ فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الأُولَى ثُمَّ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ اقْرَأْ يَا زَيْدُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَرَأْتُ ‏{‏ لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ‏}‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ‏}‏ الآيَةَ كُلَّهَا ‏.‏ قَالَ زَيْدٌ ‏:‏ فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ وَحْدَهَا فَأَلْحَقْتُهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ فِي كَتِفٍ ‏.‏

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا ( یعنی وحی اترنے لگی ) ( اسی دوران ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” لکھو “ ، میں نے شانہ ( کی ایک ہڈی ) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» ” اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں “ ( سورۃ النساء : ۹۵ ) آخر آیت تک لکھ لیا ، عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ( ایک نابینا شخص تھے ) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! مومنوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے ؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا ( وحی اترنے لگی ) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” زید ! پڑھو “ ، تو میں نے «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» پوری آیت پڑھی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : «غير أولي الضرر» کا اضافہ فرمایا ، زید کہتے ہیں : تو «غير أولي الضرر» کو اللہ نے الگ سے نازل کیا ، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کر دیا ، اللہ کی قسم ! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا ۔

Zaid bin Thabit said “I was beside the Apostle of Allaah(ﷺ) when the divinely-inspired calmness overtook him and the thigh of the Apostle of Allaah(ﷺ) fell on my thigh. I did not find any weightier than the thigh of the Apostle of Allaah(ﷺ). He then regained his composure and said “Write down. I wrote on a shoulder. Not equal are thise believers who sit (at home), other than those who have a (disabling) hurt, and those who strive in the way of Allaah. When Ibn Umm Makhtum who was blind heard the excellence of the warriors. He stood up and said “Apostle of Allaah(ﷺ) how is it for those believers who are unable to fight (in the path of Allaah)? When he finished his question his divinely-inspired calmness overtook him, and his thigh fell on my thigh and I found its weight the second time as I found the first time.” When the Apostle of Allaah(ﷺ) regained his composure, he said “Apostle of Allaah(ﷺ) said “Other than those who have a (disabling hurt). Zaid said “Allaah, the exalted, revealed it alone and I appended it.” By Him in Whose hands is my life, I am seeing, as it were the place where I put it (i.e., the verse) at the crack in the shoulder.”


310

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ، – رَجُلٍ مِنَ الضِّبَابِ – قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِي يُقَالُ لَهَا الْقَرْحَاءُ فَقُلْتُ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ لِتَتَّخِذَهُ قَالَ ‏”‏ لاَ حَاجَةَ لِي فِيهِ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أُقِيضَكَ بِهِ الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ ‏”‏ ‏.‏ قُلْتُ مَا كُنْتُ أُقِيضُهُ الْيَوْمَ بِغُرَّةٍ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَلاَ حَاجَةَ لِي فِيهِ ‏”‏ ‏.‏

ذوالجوشن ابوشمر ضبابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بدر سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے پاس اپنے قرحاء نامی گھوڑے کا بچھڑا لے کر آیا ، اور میں نے کہا : محمد ! میں آپ کے پاس قرحا کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے اپنے استعمال میں رکھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ اگر تم بدر کی زرہوں میں سے ایک زرہ اس کے بدلے میں لینا چاہو تو میں اسے لے لوں گا “ ، میں نے کہا : آج کے دن تو میں اس کے بدلے گھوڑا بھی نہ لوں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں ۱؎ “ ۔

Narrated Dhul-Jawshan:

A man of ad-Dabab, said: When the Prophet (ﷺ) became free from the people of Badr I brought to him a colt of my mare called al-Qarha’ I said: Muhammad, I have brought a colt of a al-Qarha’ , so that you may take it. He said: I have no need of it. If you wish that I give you a select coat of mail from (the spoils of) Badr, I shall do it. I said: I cannot give you today a colt in exchange. He said: Then I have no need of it.


311

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ ‏”‏ ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں«أما بعد» ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص مشرک کے ساتھ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ رہے تو وہ اسی کے مثل ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

To proceed, the Messenger of Allah (ﷺ) said: Anyone who associates with a polytheist and lives with him is like him.


32

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ لَقَدْ تَرَكْتُمْ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلاَ أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ وَلاَ قَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ إِلاَّ وَهُمْ مَعَكُمْ فِيهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَكُونُونَ مَعَنَا وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے “ ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہیں عذر نے روک رکھا ہے “ ۔

Anas bin Malik reported on the authority of his father, The Apostle of Allaah(ﷺ) said “ You left behind some people in Madeenah who did not fail to be with you wherever you went and whatever you spent (of your goods) and whatever valley you crossed. They asked Apostle of Allaah(ﷺ) how can they be with us when they are still in Madeenah? He replied “They were declined by a valid excuse.”


33

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ جَهَّزَ غَاَزِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ فَقَدْ غَزَا ‏”‏ ‏.‏

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے سامان جہاد فراہم کیا اس نے جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے اہل و عیال کی اچھی طرح خبرگیری کی اس نے جہاد کیا “ ۔

Zaid bin Khalid al Juhani reported that Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “He who equips a fighter in Allaah’s path has taken part in the fighting. And he looks after a fighter’s family when he is away has taken part in the fighting.”


34

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، مَوْلَى الْمَهْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏:‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ إِلَى بَنِي لِحْيَانَ وَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ لِيَخْرُجْ مِنْ كُلِّ رَجُلَيْنِ رَجُلٌ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِلْقَاعِدِينَ ‏:‏ ‏”‏ أَيُّكُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ بِخَيْرٍ كَانَ لَهُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایا : ” ہر دو آدمی میں سے ایک آدمی نکل کھڑا ہو “ ، اور پھر خانہ نشینوں سے فرمایا : ” تم میں جو کوئی مجاہد کے اہل و عیال اور مال کی اچھی طرح خبرگیری کرے گا تو اسے جہاد کے لیے نکلنے والے کا نصف ثواب ملے گا “ ۔

Abu Sa’id Al Khudri said “The Apostle of Allaah(ﷺ) sent an expedition towards Banu Lihyan and said “One of the two persons should go forth. He then said to those who sat (at home), If any one of you looks after the family and property of a warrior, he will receive half the reward of the one who goes forth (in jihad).”


35

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَىِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مَرْوَانَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ شَرُّ مَا فِي رَجُلٍ شُحٌّ هَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” آدمی میں پائی جانے والی سب سے بری چیز انتہا کو پہنچی ہوئی بخیلی اور سخت بزدلی ہے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: What is evil in a man are alarming niggardliness and unrestrained cowardice.


36

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ، لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ ‏:‏ غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ فَقَالَ النَّاسُ ‏:‏ مَهْ، مَهْ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ ‏:‏ إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ وَأَظْهَرَ الإِسْلاَمَ، قُلْنَا ‏:‏ هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ‏}‏ فَالإِلْقَاءُ بِالأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحَهَا وَنَدَعَ الْجِهَادَ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِمْرَانَ ‏:‏ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ ‏.‏

اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہہم مدینہ سے جہاد کے لیے چلے ، ہم قسطنطنیہ کا ارادہ کر رہے تھے ، اور جماعت ( اسلامی لشکر ) کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے ، اور رومی شہر ( قسطنطنیہ ) کی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے تھے ۱؎ ، تو ہم میں سے ایک دشمن پر چڑھ دوڑا تو لوگوں نے کہا : رکو ، رکو ، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، یہ تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال رہا ہے ، ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ آیت تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں اتری ، جب اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے اپنے دلوں میں کہا ( اب جہاد کی کیا ضرورت ہے ) آؤ اپنے مالوں میں رہیں اور اس کی دیکھ بھال کریں ، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو “ ( سورۃ البقرہ : ۱۹۵ ) اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یہ ہے کہ ہم اپنے مالوں میں مصروف رہیں ، ان کی فکر کریں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابوعمران کہتے ہیں : ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے ۔

Narrated AbuAyyub:

AbuImran said: We went out on an expedition from Medina with the intention of (attacking) Constantinople. AbdurRahman ibn Khalid ibn al-Walid was the leader of the company. The Romans were just keeping their backs to the walls of the city. A man (suddenly) attacked the enemy.

Thereupon the people said: Stop! Stop! There is no god but Allah. He is putting himself into danger.

AbuAyyub said: This verse was revealed about us, the group of the Ansar (the Helpers). When Allah helped His Prophet (ﷺ) and gave Islam dominance, we said (i.e. thought): Come on! Let us stay in our property and improve it.

Thereupon Allah, the Exalted, revealed, “And spend of your substance in the cause of Allah, and make not your hands contribute to (your destruction)”. To put oneself into danger means that we stay in our property and commit ourselves to its improvement, and abandon fighting (i.e. jihad).

AbuImran said: AbuAyyub continued to strive in the cause of Allah until he (died and) was buried in Constantinople.


37

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلاَّمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏”‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ ‏:‏ صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ، وَارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلاَّ ثَلاَثٌ ‏:‏ تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتُهُ أَهْلَهُ وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْىَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ كَفَرَهَا ‏”‏ ‏.‏

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے : ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے ، دوسرے اس کے چلانے والے کو ، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو ، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو ، اور تمہارا تیر اندازی کرنا ، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے ، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے : ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا ، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا ، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دیا ، تو یہ ایک نعمت ہے جسے اس نے چھوڑ دیا “ ، یا راوی نے کہا : ” جس کی اس نے ناشکری کی “ ۱؎ ۔

Narrated Uqbah ibn Amir:

I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Allah, Most High, will cause three persons to enter Paradise for one arrow: the maker when he has a good motive in making it, the one who shoots it, and the one who hands it; so shoot and ride, but your shooting is dearer to me than your riding. Everything with which a man amuses himself is vain except three (things): a man’s training of his horse, his playing with his wife, and his shooting with his bow and arrow. If anyone abandons archery after becoming an adept through distaste for it, it is a blessing he has abandoned; or he said: for which he has been ungrateful.


38

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ، ‏:‏ ثُمَامَةَ بْنِ شُفَىٍّ الْهَمْدَانِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ ‏:‏ ‏”‏ ‏{‏ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ‏}‏ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْىُ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْىُ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْىُ ‏”‏ ‏.‏

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : آپ آیت کریمہ «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» ” تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو “ ( سورۃ الأنفال : ۶۰ ) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے : ” سن لو ، قوت تیر اندازی ہی ہے ، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے ، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے “ ۔

‘Uqabah bin Amir Al Juhani said “I heard the Apostle of Allaah(ﷺ) recite when he was on the pulpit “Against them make ready your strength to the utmost of your power. Beware, strength is shooting, beware strength is shooting, beware strength is shooting.”


39

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنَبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً، وَعَصَى الإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ ‏”‏ ‏.‏

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد دو طرح کے ہیں : رہا وہ شخص جس نے اللہ کی رضا مندی چاہی ، امام کی اطاعت کی ، اچھے سے اچھا مال خرچ کیا ، ساتھی کے ساتھ نرمی اور محبت کی ، اور جھگڑے فساد سے دور رہا تو اس کا سونا اور اس کا جاگنا سب باعث اجر ہے ، اور جس نے اپنی بڑائی کے اظہار ، دکھاوے اور شہرت طلبی کے لیے جہاد کیا ، امام کی نافرمانی کی ، اور زمین میں فساد مچایا تو ( اسے ثواب کیا ملنا ) وہ تو برابر برابر بھی نہیں لوٹا ۱؎ “ ۔

Narrated Mu’adh ibn Jabal:

The Prophet (ﷺ) said: Fighting is of two kinds: The one who seeks Allah’s favour, obeys the leader, gives the property he values, treats his associates gently and avoids doing mischief, will have the reward for all the time whether he is asleep or awake; but the one who fights in a boasting spirit, for the sake of display and to gain a reputation, who disobeys the leader and does mischief in the earth will not return credit or without blame.


4

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَكَّةَ ‏ “‏ لاَ هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ( مکہ ) کے دن فرمایا : ” اب ( مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے ) ہجرت نہیں ( کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا ) لیکن جہاد اور ( ہجرت کی ) نیت باقی ہے ، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو “ ۔

Ibn ‘Abbas reported that Apostle of Allah (ﷺ) as saying on the day of the conquest of Makkah:There is no emigration (after the conquest of Makkah), but only Jihad (striving in the path of Allah) and some intention. So when you are summoned to go forth (for Jihad), go forth.


40

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، ‏:‏ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنِ ابْنِ مِكْرَزٍ، – رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ – عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏:‏ أَنَّ رَجُلاً، قَالَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ لاَ أَجْرَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَأَعْظَمَ ذَلِكَ النَّاسُ، وَقَالُوا لِلرَّجُلِ ‏:‏ عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَعَلَّكَ لَمْ تُفَهِّمْهُ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ لاَ أَجْرَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا لِلرَّجُلِ ‏:‏ عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَقَالَ لَهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ ‏:‏ ‏”‏ لاَ أَجْرَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و منال چاہتا ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں “ ، لوگوں نے اسے بڑی بات سمجھی اور اس شخص سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو ، شاید تم انہیں نہ سمجھا سکے ہو ، اس شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و اسباب چاہتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں “ ، لوگوں نے اس شخص سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو ، اس نے آپ سے تیسری بار پوچھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا : ” اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

A man said: Messenger of Allah, a man wishes to take part in jihad in Allah’s path desiring some worldly advantage? The Prophet (ﷺ) said: He will have not reward. The people thought it terrible, and they said to the man: Go back to the Messenger of Allah (ﷺ), for you might not have made him understand well. He, therefore, (went and again) asked: Messenger of Allah, a man wishes to take part in jihad in Allah’s path desiring some worldly advantage? He replied: There is no reward for him. They again said to the man: Return to the Messenger of Allah. He, therefore, said to him third time. He replied: There is no reward for him.


41

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏:‏ أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏:‏ إِنَّ الرَّجُلَ يُقَاتِلُ لِلذِّكْرِ، وَيُقَاتِلُ لِيُحْمَدَ، وَيُقَاتِلُ لِيَغْنَمَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ مَنْ قَاتَلَ حَتَّى تَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ أَعْلَى فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏”‏ ‏.‏

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : کوئی شہرت کے لیے جہاد کرتا ہے کوئی جہاد کرتا ہے تاکہ اس کی تعریف کی جائے ، کوئی اس لیے جہاد کرتا ہے تاکہ مال غنیمت پائے اور کوئی اس لیے جہاد کرتا ہے تاکہ اس مرتبہ کا اظہار ہو سکے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے صرف اس لیے جہاد کیا تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند رہے تو وہی اصل مجاہد ہے “ ۔

Abu Musa said “A beduoin came to the Apostle of Allaah(ﷺ) and said “One man fights for reputation, one fights for being praised, one fights for booty and one for his place to be seen. (Which of them is in Allaah’s path?)”. The Apostle of Allaah(ﷺ) replied “The one who fights that Allaah’s word may have pre-eminence is in Allaah’s path.”


42

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ ‏:‏ سَمِعْتُ مِنْ أَبِي وَائِلٍ، حَدِيثًا أَعْجَبَنِي ‏.‏ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ ‏.‏

عمرو کہتے ہیں کہمیں نے اپنے والد وائل سے ایک حدیث سنی جو مجھے پسند آئی ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ۔

‘Amr said “I heard from Abu Wa’il a tradition which surprised me, he then narrated the tradition to the same effect (as mentioned before).


43

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ حَنَانِ بْنِ خَارِجَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ الْجِهَادِ، وَالْغَزْوِفَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، إِنْ قَاتَلْتَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا بَعَثَكَ اللَّهُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، وَإِنْ قَاتَلْتَ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا بَعَثَكَ اللَّهُ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَلَى أَىِّ حَالٍ قَاتَلْتَ أَوْ قُتِلْتَ بَعَثَكَ اللَّهُ عَلَى تِيكَ الْحَالِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہانہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے عبداللہ بن عمرو ! اگر تم صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور محتسب ( ثواب کی نیت رکھنے والا ) بنا کر اٹھائے گا ، اور اگر تم ریاکاری اور فخر کے اظہار کے لیے جہاد کرو گے تو اللہ تمہیں ریا کار اور فخر کرنے والا بنا کر اٹھائے گا ، اے عبداللہ بن عمرو ! تم جس حال میں بھی لڑو یا شہید ہو اللہ تمہیں اسی حال پر اٹھائے گا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

Messenger of Allah, tell me about jihad and fighting. He replied: Abdullah ibn Amr, if you fight with endurance seeking from Allah your reward, Allah will resurrect you showing endurance and seeking your reward from Him, but, if you fight for vain show seeking to acquire much, Allah will resurrect you making a vain show and seeking to acquire much. In whatever you fight or are killed, Abdullah ibn Amr, in that state Allah will resurrect you.


44

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ لَمَّا أُصِيبَ إِخْوَانُكُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللَّهُ أَرْوَاحَهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ، تَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا، وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مِنْ ذَهَبٍ مُعَلَّقَةٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ، فَلَمَّا وَجَدُوا طِيبَ مَأْكَلِهِمْ وَمَشْرَبِهِمْ وَمَقِيلِهِمْ قَالُوا ‏:‏ مَنْ يُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْيَاءٌ فِي الْجَنَّةِ نُرْزَقُ لِئَلاَّ يَزْهَدُوا فِي الْجِهَادِ وَلاَ يَنْكُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ فَقَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ ‏:‏ أَنَا أُبَلِّغُهُمْ عَنْكُمْ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏ وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ‏}‏ ‏”‏ ‏.‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹ میں رکھ دیا ، جو جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں ، اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں ، جب ان روحوں نے اپنے کھانے ، پینے اور سونے کی خوشی حاصل کر لی ، تو وہ کہنے لگیں : کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہمارے بارے میں یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میں تمہاری جانب سے انہیں یہ خبر پہنچائوں گا “ ، راوی کہتے ہیں : تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» ” جو اللہ کے راستے میں شہید کر دئیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو “ ( سورۃ آل عمران : ۱۶۹ ) اخیر آیت تک نازل فرمائی ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: When your brethren were smitten at the battle of Uhud, Allah put their spirits in the crops of green birds which go down to the rivers of Paradise, eat its fruit and nestle in lamps of gold in the shade of the Throne. Then when they experienced the sweetness of their food, drink and rest, they asked: Who will tell our brethren about us that we are alive in Paradise provided with provision, in order that they might not be disinterested in jihad and recoil in war? Allah Most High said: I shall tell them about you; so Allah sent down; “And do not consider those who have been killed in Allah’s path.” till the end of the verse.


45

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَتْنَا حَسْنَاءُ بِنْتُ مُعَاوِيَةَ الصَّرِيمِيَّةُ، قَالَتْ حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ مَنْ فِي الْجَنَّةِ قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْوَئِيدُ فِي الْجَنَّةِ ‏”‏ ‏.‏

حسناء بنت معاویہ کے چچا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : جنت میں کون ہو گا ؟ آپ نے فرمایا : ” نبی جنت میں ہوں گے ، شہید جنت میں ہوں گے ، ( نابالغ ) بچے اور زندہ درگور کئے گئے بچے جنت میں ہوں گے “ ۔

Narrated Hasana’ daughter of Mu’awiyah:

She reported on the authority of her paternal uncle: I asked the Prophet (ﷺ): Who are in Paradise? He replied: Prophets are in Paradise, martyrs are in Paradise, infants are in Paradise and children buried alive are in Paradise.


46

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ الذِّمَارِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي، ‏:‏ نِمْرَانُ بْنُ عُتْبَةَ الذِّمَارِيُّ قَالَ ‏:‏ دَخَلْنَا عَلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ وَنَحْنُ أَيْتَامٌ فَقَالَتْ ‏:‏ أَبْشِرُوا فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ يُشَفَّعُ الشَّهِيدُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ صَوَابُهُ رَبَاحُ بْنُ الْوَلِيدِ ‏.‏

نمران بن عتبہ ذماری کہتے ہیں : ہم ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے پاس گئےاور ہم یتیم تھے ، انہوں نے کہا : خوش ہو جاؤ کیونکہ میں نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شہید کی شفاعت اس کے کنبے کے ستر افراد کے لیے قبول کی جائے گی “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ( ولید بن رباح کے بجائے ) صحیح رباح بن ولید ہے ۔

Narrated AbudDarda’:

The Prophet (ﷺ) said: The intercession of a martyr will be accepted for seventy members of his family.

Abu Dawud said: The correct name if the narrator is Rabah b. al-Walid (and not al-walid b. Rabah as occurred in the chain of narrators in the text of the tradition)


47

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، – يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ ‏:‏ لَمَّا مَاتَ النَّجَاشِيُّ كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّهُ لاَ يَزَالُ يُرَى عَلَى قَبْرِهِ نُورٌ ‏.‏

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہجب نجاشی کا انتقال ہو گیا تو ہم کہا کرتے تھے کہ ان کی قبر پر ہمیشہ روشنی دکھائی دیتی ہے ۔

Narrated Aisha, Ummul Mu’minin:

When Negus died, we were told that a light would be seen perpetually at his grave.


48

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُبَيِّعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِيِّ، قَالَ ‏:‏ آخَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ رَجُلَيْنِ فَقُتِلَ أَحَدُهُمَا وَمَاتَ الآخَرُ بَعْدَهُ بِجُمُعَةٍ أَوْ نَحْوِهَا، فَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ مَا قُلْتُمْ ‏”‏ ‏.‏ فَقُلْنَا ‏:‏ دَعَوْنَا لَهُ، وَقُلْنَا ‏:‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَأَلْحِقْهُ بِصَاحِبِهِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ فَأَيْنَ صَلاَتُهُ بَعْدَ صَلاَتِهِ وَصَوْمُهُ بَعْدَ صَوْمِهِ ‏”‏ ‏.‏ شَكَّ شُعْبَةُ فِي صَوْمِهِ ‏:‏ ‏”‏ وَعَمَلُهُ بَعْدَ عَمَلِهِ إِنَّ بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ‏”‏ ‏.‏

عبید بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں میں بھائی چارہ کرایا ، ان میں سے ایک شہید کر دیا گیا اور دوسرے کا اس کے ایک ہفتہ کے بعد ، یا اس کے لگ بھگ انتقال ہوا ، ہم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے کیا کہا ؟ “ ہم نے جواب دیا : ہم نے اس کے حق میں دعا کی کہ : اللہ اسے بخش دے اور اس کو اس کے ساتھی سے ملا دے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی نمازیں کہاں گئیں ، جو اس نے اپنے ساتھی کے ( قتل ہونے کے ) بعد پڑھیں ، اس کے روزے کدھر گئے جو اس نے اپنے ساتھی کے بعد رکھے ، اس کے اعمال کدھر گئے جو اس نے اپنے ساتھی کے بعد کئے ؟ ان دونوں کے درجوں میں ایسے ہی فرق ہے جیسے آسمان و زمین میں فرق ہے ۱؎ “ شعبہ کو «صومه بعد صومه» اور «عمله بعد عمله» میں شک ہوا ہے ۔

Narrated Ubaydullah ibn Khalid as-Sulami:

The Messenger of Allah (ﷺ) made a brotherhood between two men, one of whom was killed (in Allah’s path), and a week or thereabouts later the other died, and we prayed at his funeral). The Messenger of Allah (ﷺ) asked: What did you say? We replied: We prayed for him and said: O Allah, forgive him, and join him to his companion. The Messenger of Allah (ﷺ) said: What about his prayers since the time the other died, and his fasting since the time the other died–the narrator Shu’bah doubted the words, “his fasting–and his deeds since the time the other died. The distance between them is just like the distance between heaven and earth.


49

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا ح، وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، – الْمَعْنَى وَأَنَا لِحَدِيثِهِ، أَتْقَنُ – عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏:‏ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنِ ابْنِ أَخِي أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ سَتُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الأَمْصَارُ، وَسَتَكُونُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ تُقْطَعُ عَلَيْكُمْ فِيهَا بُعُوثٌ فَيَكْرَهُ الرَّجُلُ مِنْكُمُ الْبَعْثَ فِيهَا فَيَتَخَلَّصُ مِنْ قَوْمِهِ ثُمَّ يَتَصَفَّحُ الْقَبَائِلَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَيْهِمْ يَقُولُ ‏:‏ مَنْ أَكْفِيهِ بَعْثَ كَذَا، مَنْ أَكْفِيهِ بَعْثَ كَذَا أَلاَ وَذَلِكَ الأَجِيرُ إِلَى آخِرِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهِ ‏”‏ ‏.‏

ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” عنقریب تم پر شہر کے شہر فتح کئے جائیں گے اور عنقریب ایک بھاری لشکر ہو گا اور اسی میں سے تم پر ٹکڑیاں متعین کی جائیں گی ، تو تم میں سے جو شخص اس میں بغیر اجرت کے بھیجے جانے کو ناپسند کرے اور ( جہاد میں جانے سے بچنے کے لیے ) اپنی قوم سے علیحدہ ہو جائے ، پھر قبیلوں کو تلاش کرتا پھرے اور اپنے آپ کو ان پر پیش کرے اور کہے کہ : کون مجھے بطور مزدور رکھے گا کہ میں اس کے لشکر میں کام کروں اور وہ میرا خرچ برداشت کرے ؟ کون مجھے بطور مزدور رکھے گا کہ میں اس کے لشکر میں کام کروں اور وہ میرا خرچ برداشت کرے ؟ خبردار وہ اپنے خون کے آخری قطرہ تک مزدور ہی رہے گا “ ۔

Narrated AbuAyyub al-Ansari:

AbuAyyub heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Capitals will be conquered at your hands, and you will have to raise companies in large armies. A man will be unwilling to join a company, so he will escape from his people and go round the tribes offering himself to them, saying: Whose place may I take in such and such expedition? Whose place may I take in such and such expedition? Beware: That man is a hireling to the last drop of his blood.


5

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، قَالَ أَتَى رَجُلٌ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو وَعِنْدَهُ الْقَوْمُ حَتَّى جَلَسَ عِنْدَهُ فَقَالَ أَخْبِرْنِي بِشَىْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ‏”‏ ‏.‏

عامر شعبی کہتے ہیں کہایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا ، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا : مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں ، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے “ ۔

‘Amir said “A man came to ‘Abd Allaah bin ‘Amr while the people were with him. He sat with him and said “Tell me anything that you heard from the Apostle of Allaah(ﷺ)”. He said “I hears the Apostle of Allaah(ﷺ) say “A Muslim is he from whose tongue and hand the Muslims remain safe and an emigrant is he who abandons what Allaah has prohibited.””


50

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، – يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ – ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنِ ابْنِ شُفَىٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏ “‏ لِلْغَازِي أَجْرُهُ، وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد کرنے والے کو اس کے جہاد کا اجر ملے گا اور مجاہد کو تیار کرنے والے کو تیار کرنے اور غزوہ کرنے دونوں کا اجر ملے گا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

The Prophet (ﷺ) said: The warrior gets his reward, and the one who equips him gets his own reward and that of the warrior.


51

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، أَنَّ يَعْلَى بْنَ مُنْيَةَ، قَالَ ‏:‏ آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ لَيْسَ لِي خَادِمٌ، فَالْتَمَسْتُ أَجِيرًا يَكْفِينِي وَأُجْرِي لَهُ سَهْمَهُ، فَوَجَدْتُ رَجُلاً، فَلَمَّا دَنَا الرَّحِيلُ أَتَانِي فَقَالَ ‏:‏ مَا أَدْرِي مَا السُّهْمَانُ وَمَا يَبْلُغُ سَهْمِي فَسَمِّ لِي شَيْئًا كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ يَكُنْ ‏.‏ فَسَمَّيْتُ لَهُ ثَلاَثَةَ دَنَانِيرَ، فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِيمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِيَ لَهُ سَهْمَهُ، فَذَكَرْتُ الدَّنَانِيرَ، فَجِئْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ، فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ مَا أَجِدُ لَهُ فِي غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ إِلاَّ دَنَانِيرَهُ الَّتِي سَمَّى ‏”‏ ‏.‏

یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کا اعلان کیا اور میں بہت بوڑھا تھا میرے پاس کوئی خادم نہ تھا ، تو میں نے ایک مزدور تلاش کیا جو میری خدمت کرے اور میں اس کے لیے اس کا حصہ جاری کروں ، آخر میں نے ایک مزدور پا لیا ، تو جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نہیں جانتا کہ کتنے حصے ہوں گے اور میرے حصہ میں کیا آئے گا ؟ لہٰذا میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئیے خواہ حصہ ملے یا نہ ملے ، لہٰذا میں نے اس کے لیے تین دینار مقرر کر دئیے ، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اس کا حصہ دینا چاہا ، پھر خیال آیا کہ اس کے تو تین دینار مقرر ہوئے تھے ، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا معاملہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اس کے لیے اس کے اس غزوہ میں دنیا و آخرت میں کچھ نہیں پاتا سوائے ان تین دیناروں کے جو متعین ہوئے “ ۔

Narrated Ya’la ibn Munyah:

The Messenger of Allah (ﷺ) announced an expedition, and I was a very old man and I had no servant. I, therefore, sought a hireling who would serve instead of me, and I would give him his portion. So I found a man. When the time of departure arrived, he came to me and said: I do not know what would be the portions, and how much would be my portion. So offer something (as wages) to me, whether there would be any portion or not. I offered three dinars (as his wages) for him. When some booty arrived, I wanted to offer him his portion. But I remembered the dinars, so I went to the Prophet (ﷺ) and mentioned the matter to him. He said: All I can find for him regarding this expedition of his in this world and the next is three dinars which were offered him.


52

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏:‏ جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَتَرَكْتُ أَبَوَىَّ يَبْكِيَانِ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ ارْجِعْ عَلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا : میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں ، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے پاس واپس جاؤ ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-‘As:

A man came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: I came to you to take the oath of allegiance to you on emigration, and I left my parents weeping. He (the Prophet) said: Return to them and make them laugh as you made them weep.


53

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُجَاهِدُ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَلَكَ أَبَوَانِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ نَعَمْ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ أَبُو الْعَبَّاسِ هَذَا الشَّاعِرُ اسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں جہاد کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہیں دونوں میں جہاد کرو ۱؎ “ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابو العباس شاعر ہیں جن کا نام سائب بن فروخ ہے ۔

‘Abd Allah bin ‘Amr said “A man came to the Prophet(ﷺ) and said “Apostle of Allaah(ﷺ), May I take part in jihad?” He asked “Do you have parents?” He replied “Yes”. So, strive for them.”

Abu Dawud said:The name of the narrator Abu al-‘Abbas, a poet, is al-Sa’ib b. Farrukh.


54

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏:‏ أَنَّ رَجُلاً، هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ أَبَوَاىَ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَذِنَا لَكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ لاَ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وَإِلاَّ فَبِرَّهُمَا ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا ، آپ نے اس سے فرمایا : ” کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، میرے ماں باپ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو ، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو “ ۔

Narrated AbuSa’id al-Khudri:

A man emigrated to the Messenger of Allah (ﷺ) from the Yemen. He asked (him): Have you anyone (of your relatives) in the Yemen? He replied: My parents. He asked: Did they permit you? He replied: No. He said: Go back to them and ask for their permission. If they permit you, then fight (in the path of Allah), otherwise be devoted to them.


55

حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ مُطَهِّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ ‏:‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ لِيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

When the Messenger of Allah (ﷺ) went on an expedition, he took Umm Sulaym, and he had some women of the Ansar who supplied water and tended the wounded.


56

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي نُشْبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ ثَلاَثَةٌ مِنْ أَصْلِ الإِيمَانِ ‏:‏ الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَلاَ تُكَفِّرْهُ بِذَنْبٍ وَلاَ تُخْرِجْهُ مِنَ الإِسْلاَمِ بِعَمَلٍ، وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِيَ اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لاَ يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلاَ عَدْلُ عَادِلٍ، وَالإِيمَانُ بِالأَقْدَارِ ‏”‏ ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین باتیں ایمان کی اصل ہیں : ۱- جو لا الہٰ الا اللہ کہے اس ( کے قتل اور ایذاء ) سے رک جانا ، اور کسی گناہ کے سبب اس کی تکفیر نہ کرنا ، نہ اس کے کسی عمل سے اسلام سے اسے خارج کرنا ۔ ۲- جہاد جاری رہے گا جس دن سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑے گا ، کسی بھی ظالم کا ظلم ، یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں کر سکتا ۔ ۳- تقدیر پر ایمان لانا “ ۔

Narrated Anas ibn Malik:

The Prophet (ﷺ) said: Three things are the roots of faith: to refrain from (killing) a person who utters, “There is no god but Allah” and not to declare him unbeliever whatever sin he commits, and not to excommunicate him from Islam for his any action; and jihad will be performed continuously since the day Allah sent me as a prophet until the day the last member of my community will fight with the Dajjal (Antichrist). The tyranny of any tyrant and the justice of any just (ruler) will not invalidate it. One must have faith in Divine decree.


57

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ، وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد تم پر ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیک ہو ، یا بد اور نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد ، اگرچہ وہ کبائر کا ارتکاب کرئے ، اور نماز ( جنازہ ) واجب ہے ہر مسلمان پر نیک ہو یا بد اگرچہ کبائر کا ارتکاب کرے “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Striving in the path of Allah (jihad) is incumbent on you along with every ruler, whether he is pious or impious; the prayer is obligatory on you behind every believer, pious or impious, even if he commits grave sins; the (funeral) prayer is incumbent upon every Muslim, pious and impious, even if he commits major sins.


58

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ، إِنَّ مِنْ إِخْوَانِكُمْ قَوْمًا لَيْسَ لَهُمْ مَالٌ وَلاَ عَشِيرَةٌ فَلْيَضُمَّ أَحَدُكُمْ إِلَيْهِ الرَّجُلَيْنِ أَوِ الثَّلاَثَةَ فَمَا لأَحَدِنَا مِنْ ظَهْرٍ يَحْمِلُهُ إِلاَّ عُقْبَةٌ كَعُقْبَةِ ‏”‏ ‏.‏ يَعْنِي أَحَدِهِمْ ‏.‏ فَضَمَمْتُ إِلَىَّ اثْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً، قَالَ ‏:‏ مَا لِي إِلاَّ عُقْبَةٌ كَعُقْبَةِ أَحَدِهِمْ مِنْ جَمَلِي ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا ارادہ کیا تو فرمایا : ” اے مہاجرین اور انصار کی جماعت ! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ ، تو ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو شریک کر لے ، تو ہم میں سے بعض کے پاس سواری نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ باری باری سوار ہوں “ ، تو میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو لے لیا ، میں بھی صرف باری سے اپنے اونٹ پر سوار ہوتا تھا ، جیسے وہ ہوتے تھے ۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:

Once the Messenger of Allah (ﷺ) intended to go on an expedition. He said: O group of the emigrants (Muhajirun) and the helpers (Ansar), among your brethren there are people who have neither property nor family. So one of you should take with him two or three persons; with me. I also rode on my camel by turns like one of them.


59

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ، أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الإِيَادِيَّ، حَدَّثَهُ قَالَ ‏:‏ نَزَلَ عَلَىَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ الأَزْدِيُّ فَقَالَ لِي ‏:‏ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِنَغْنَمَ عَلَى أَقْدَامِنَا فَرَجَعْنَا فَلَمْ نَغْنَمْ شَيْئًا وَعَرَفَ الْجُهْدَ فِي وُجُوهِنَا فَقَامَ فِينَا فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ اللَّهُمَّ لاَ تَكِلْهُمْ إِلَىَّ فَأَضْعُفَ عَنْهُمْ، وَلاَ تَكِلْهُمْ إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَيَعْجِزُوا عَنْهَا، وَلاَ تَكِلْهُمْ إِلَى النَّاسِ فَيَسْتَأْثِرُوا عَلَيْهِمْ ‏”‏ ‏.‏ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي – أَوْ قَالَ ‏:‏ عَلَى هَامَتِي – ثُمَّ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ يَا ابْنَ حَوَالَةَ إِذَا رَأَيْتَ الْخِلاَفَةَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ فَقَدْ دَنَتِ الزَّلاَزِلُ وَالْبَلاَبِلُ وَالأُمُورُ الْعِظَامُ، وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ يَدِي هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ حِمْصِيٌّ ‏.‏

ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہعبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ میرے پاس اترے ، اور مجھ سے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں ، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : ” اللہ ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جاؤں ، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ ( بھی ) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آ جائیں ، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا : ” اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے ، تو سمجھ لو کہ زلزلے ، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات ( کے ظہور کا وقت ) قریب آ گیا ہے ، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے “ ۔

Narrated Abdullah ibn Hawalah al-Azdi:

The Messenger of Allah (ﷺ) sent us on foot to get spoil, but we returned without getting any. When he saw the signs of distress on our faces, he stood up on our faces and said: O Allah, do not put them under my care, for I would be too weak to care for them; do not put them in care of themselves, for they would be incapable of that, and do not put them in the care of men, for they would choose the best things for themselves. He then placed his hand on my head and said: Ibn Hawalah, when you see the caliphate has settled in the holy land, earthquakes, sorrows and serious matters will have drawn near and on that day the Last Hour will be nearer to mankind than this hand of mine is to your head.

Abu Dawud said: ‘Abd Allah b. Hawalah belongs to Hims.


6

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ فَخِيَارُ أَهْلِ الأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ وَيَبْقَى فِي الأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرَضُوهُمْ تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی تو زمین والوں میں بہتر وہ لوگ ہوں گے جو ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ ( شام ) کو لازم پکڑیں گے ، اور زمین میں ان کے بدترین لوگ رہ جائیں گے ، ان کی سر زمین انہیں باہر پھینک دے گی ۱؎ اور اللہ کی ذات ان سے گھن کرے گی اور آگ انہیں بندروں اور سوروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی ۲؎ “ ۔

‘Abd Allaah bin ‘Amr said “ I heard the Apostle of Allaah(ﷺ) say “There will be emigration after emigration and the people who are best will be those who cleave most closely to places which Abraham migrated. The worst of its people will remain in the earth cast out by their lands, abhorred by Allaah, collected along with apes and swine by fire.””


60

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلٍ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَانْهَزَمَ ‏”‏ ‏.‏ يَعْنِي أَصْحَابَهُ ‏:‏ ‏”‏ فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ فَرَجَعَ حَتَّى أُهْرِيقَ دَمُهُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لِمَلاَئِكَتِهِ ‏:‏ انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي حَتَّى أُهَرِيقَ دَمُهُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہمارا رب اس شخص سے خوش ہوتا ہے ۱؎ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، پھر اس کے ساتھی شکست کھا کر ( میدان سے ) بھاگ گئے اور وہ گناہ کے ڈر سے واپس آ گیا ( اور لڑا ) یہاں تک کہ وہ قتل کر دیا گیا ، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : میرے بندے کو دیکھو میرے ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے ڈر سے لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا گیا “ ۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:

The Prophet (ﷺ) said: Our Lord Most High is pleased with a man who fights in the path of Allah, the Exalted; then his companions fled away (i.e. retreated). But he knew that it was a sin (to flee away from the battlefield), so he returned, and his blood was shed. Thereupon Allah, the Exalted, says to His angels: Look at My servant; he returned seeking what I have for him (i.e. the reward), and fearing (the punishment) I have, until his blood was shed.


61

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَيْشٍ، كَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَكَرِهَ أَنْ يُسْلِمَ حَتَّى يَأْخُذَهُ فَجَاءَ يَوْمَ أُحُدٍ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ أَيْنَ بَنُو عَمِّي قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ أَيْنَ فُلاَنٌ قَالُوا ‏:‏ بِأُحُدٍ ‏.‏ فَلَبِسَ لأْمَتَهُ وَرَكِبَ فَرَسَهُ ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَالُوا ‏:‏ إِلَيْكَ عَنَّا يَا عَمْرُو ‏.‏ قَالَ ‏:‏ إِنِّي قَدْ آمَنْتُ ‏.‏ فَقَاتَلَ حَتَّى جُرِحَ، فَحُمِلَ إِلَى أَهْلِهِ جَرِيحًا، فَجَاءَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لأُخْتِهِ ‏:‏ سَلِيهِ حَمِيَّةً لِقَوْمِكَ أَوْ غَضَبًا لَهُمْ أَمْ غَضَبًا لِلَّهِ فَقَالَ ‏:‏ بَلْ غَضَبًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فَمَاتَ ‏.‏ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَا صَلَّى لِلَّهِ صَلاَةً ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہعمرو بن اقیش رضی اللہ عنہ کا جاہلیت میں کچھ سود ( وصول کرنا ) رہ گیا تھا انہوں نے اسے بغیر وصول کئے اسلام قبول کرنا اچھا نہ سمجھا ، چنانچہ ( جب وصول کر چکے تو ) وہ احد کے دن آئے اور پوچھا : میرے چچازاد بھائی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے کہا : احد میں ہیں ، کہا : فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : احد میں ، کہا : فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : احد میں ، پھر انہوں نے اپنی زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہوئے ، پھر ان کی جانب چلے ، جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا : عمرو ہم سے دور رہو ، انہوں نے کہا : میں ایمان لا چکا ہوں ، پھر وہ لڑے یہاں تک کہ زخمی ہو گئے اور اپنے خاندان میں زخم خوردہ اٹھا کر لائے گئے ، ان کے پاس سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آئے اور ان کی بہن سے کہا : اپنے بھائی سے پوچھو : اپنی قوم کی غیرت یا ان کی خاطر غصہ سے لڑے یا اللہ کے واسطہ غضب ناک ہو کر ، انہوں نے کہا : نہیں ، بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کے واسطہ غضب ناک ہو کر لڑا ، پھر ان کا انتقال ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئے ، حالانکہ انہوں نے اللہ کے لیے ایک نماز بھی نہیں پڑھی ۔

Narrated AbuHurayrah:

Amr ibn Uqaysh had given usurious loans in pre-Islamic period; so he disliked to embrace Islam until he took them. He came on the day of Uhud and asked: Where are my cousins? They (the people) replied: At Uhud. He asked: Where is so-and-so? They said: At Uhud. He asked: Where is so-and-so? They said: At Uhud. He then put on his coat of mail and rode his horse; he then proceeded towards them. When the Muslims saw him, they said: Keep away, Amir. He said: I have become a believer. He fought until he was wounded. He was then taken to his family wounded. Sa’d ibn Mu’adh came to his sister: Ask him (whether he fought) out of partisanship, out of anger for them, or out of anger for Allah. He said: Out of anger of Allah and His Apostle. He then died and entered Paradise. He did not offer any prayer for Allah.


62

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَحْمَدُ ‏:‏ كَذَا قَالَ هُوَ – يَعْنِي ابْنَ وَهْبٍ – وَعَنْبَسَةُ – يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ – جَمِيعًا عَنْ يُونُسَ قَالَ أَحْمَدُ ‏:‏ وَالصَّوَابُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ قَالَ ‏:‏ لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالاً شَدِيدًا، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي ذَلِكَ – وَشَكُّوا فِيهِ – ‏:‏ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلاَحِهِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ‏:‏ ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ فَحَدَّثَنِي عَنْ أَبِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ ‏”‏ ‏.‏

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہجب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے ، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو ( وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے ؟ ) ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے “ ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے اسی کے مثل بیان کیا ، مگر اتنا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگوں نے جھوٹ کہا ، وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے ، اسے دوہرا اجر ملے گا “ ۔

Salamah bin Al Akwa’ said “On the day of the battle of the Khaibar, my brother fought desperately. But his sword fell back on him and killed him. The Companions of the Apostle of Allaah(ﷺ) talked about him and doubted it (his martyrdom) saying “A man who died with his own weapon”. The Apostle of Allaah(ﷺ) said “he died as a warrior striving in the path of Allaah. Ibn Shihab said “I asked the son of Salamah bin Al Akwa’.” He narrated to me on the authority of his father similar to that except that he said “The Apostle of Allaah(ﷺ) said “They told a lie, he died as a warrior striving in the path of Allaah. There is a double reward for him.””


63

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ أَغَرْنَا عَلَى حَىٍّ مِنْ جُهَيْنَةَ فَطَلَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلاً مِنْهُمْ فَضَرَبَهُ فَأَخْطَأَهُ وَأَصَابَ نَفْسَهُ بِالسَّيْفِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏”‏ أَخُوكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ‏”‏ ‏.‏ فَابْتَدَرَهُ النَّاسُ فَوَجَدُوهُ قَدْ مَاتَ، فَلَفَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِثِيَابِهِ وَدِمَائِهِ وَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَفَنَهُ، فَقَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشَهِيدٌ هُوَ قَالَ ‏:‏ ‏”‏ نَعَمْ، وَأَنَا لَهُ شَهِيدٌ ‏”‏ ‏.‏

ابو سلام ایک صحابی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہہم نے جہینہ کے ایک قبیلہ پر شب خون مارا تو ایک مسلمان نے ایک آدمی کو مارنے کا قصد کیا ، اس نے اسے تلوار سے مارا لیکن تلوار نے خطا کی اور اچٹ کر اسی کو لگ گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمانوں کی جماعت ! اپنے مسلمان بھائی کی خبر لو “ ، لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑے ، تو اسے مردہ پایا ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی کے کپڑوں اور زخموں میں لپیٹا ، اس پر نماز جنازہ پڑھی اور اسے دفن کر دیا ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا وہ شہید ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں اور میں اس کا گواہ ہوں “ ۔

Narrated AbuSalam:

AbuSalam reported on the authority of a man from the companion of the Prophet (ﷺ). He said: We attacked a tribe of Juhaynah. A man from the Muslims pursued a man of them, and struck him but missed him. He struck himself with the sword. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Your brother, O group of Muslims. The people hastened towards him, but found him dead. The Messenger of Allah (ﷺ) wrapped him with his clothes and his blood, and offered (funeral) prayer for him and buried him. They said: Messenger of Allah, is he a martyr? He said: Yes, and I am witness to him.


64

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ ثِنْتَانِ لاَ تُرَدَّانِ، أَوْ قَلَّمَا تُرَدَّانِ ‏:‏ الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ، وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مُوسَى ‏:‏ وَحَدَّثَنِي رِزْقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ وَوَقْتَ الْمَطَرِ ‏.‏

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دو ( وقت کی ) دعائیں رد نہیں کی جاتیں ، یا کم ہی رد کی جاتی ہیں : ایک اذان کے بعد کی دعا ، دوسرے لڑائی کے وقت کی ، جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں “ ۔ موسیٰ کہتے ہیں : مجھ سے رزق بن سعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا وہ ابوحازم سے روایت کرتے ہیں وہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا : ” اور بارش کے وقت کی “ ۔

Narrated Sahl ibn Sa’d:

The Prophet (ﷺ) said: Two (prayers) are not rejected, or seldom rejected: Prayer at the time of the call to prayer, and (the prayer) at the time of fighting, when the people grapple with each other. Musa said: Rizq ibn Sa’id ibn AbdurRahman reported from AbuHazim on the authority of Sahl ibn Sa’d from the Prophet (ﷺ) as saying: And while it is raining.


65

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مَرْوَانَ، وَابْنُ الْمُصَفَّى، قَالاَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، يَرُدُّ إِلَى مَكْحُولٍ إِلَى مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ، سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ مِنْ نَفْسِهِ صَادِقًا ثُمَّ مَاتَ أَوْ قُتِلَ فَإِنَّ لَهُ أَجْرَ شَهِيدٍ ‏”‏ ‏.‏ زَادَ ابْنُ الْمُصَفَّى مِنْ هُنَا ‏:‏ ‏”‏ وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً فَإِنَّهَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغْزَرِ مَا كَانَتْ، لَوْنُهَا لَوْنُ الزَّعْفَرَانِ، وَرِيحُهَا رِيحُ الْمِسْكِ، وَمَنْ خَرَجَ بِهِ خُرَاجٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ طَابَعَ الشُّهَدَاءِ ‏”‏ ‏.‏

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” جس نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی دوہنے والے کے دو بار چھاتی پکڑنے کے درمیان کے مختصر عرصہ کے بقدر بھی جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی ، اور جس شخص نے اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت مانگی پھر اس کا انتقال ہو گیا ، یا قتل کر دیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے ، اور جو اللہ کی راہ میں زخمی ہوا یا کوئی چوٹ پہنچایا ۱؎ گیا تو وہ زخم قیامت کے دن اس سے زیادہ کامل شکل میں ہو کر آئے گا جتنا وہ تھا ، اس کا رنگ زعفران کا اور بو مشک کی ہو گی اور جسے اللہ کے راستے میں پھنسیاں ( دانے ) نکل آئیں تو اس پر شہداء کی مہر لگی ہو گی “ ۔

Narrated Mu’adh ibn Jabal:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: If anyone fights in Allah’s path as long as the time between two milkings of a she-camel, Paradise will be assured for him. If anyone sincerely asks Allah for being killed and then dies or is killed, there will be a reward of a martyr for him. Ibn al-Musaffa added from here: If anyone is wounded in Allah’s path, or suffers a misfortune, it will come on the Day of resurrection as copious as possible, its colour saffron, and its odour musk; and if anyone suffers from ulcers while in Allah’s path, he will have on him the stamp of the martyrs.


66

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حُمَيْدٍ، ح وَحَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، جَمِيعًا عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ نَصْرٍ الْكِنَانِيِّ، عَنْ رَجُلٍوَقَالَ أَبُو تَوْبَةَ ‏:‏ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ شَيْخٍ، مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، – وَهَذَا لَفْظُهُ – أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏:‏ ‏ “‏ لاَ تَقُصُّوا نَوَاصِيَ الْخَيْلِ وَلاَ مَعَارِفَهَا وَلاَ أَذْنَابَهَا، فَإِنَّ أَذْنَابَهَا مَذَابُّهَا، وَمَعَارِفَهَا دِفَاؤُهَا، وَنَوَاصِيهَا مَعْقُودٌ فِيهَا الْخَيْرُ ‏”‏ ‏.‏

عتبہ بن عبدسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” گھوڑوں کی پیشانی کے بال نہ کاٹو ، اور نہ ایال یعنی گردن کے بال کاٹو ، اور نہ دم کے بال کاٹو ، اس لیے کہ ان کے دم ان کے لیے مورچھل ہیں ، اور ان کے ایال ( گردن کے بال ) گرمی حاصل کرنے کے لیے ہیں اور ان کی پیشانی میں خیر بندھا ہوا ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Utbah ibn AbdusSulami:

Utbah heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: Do not cut the forelocks, manes, or tails of horse, for their tails are their means of driving flies, their manes provide them with warmth, and blessing is tide to their forelocks.


67

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ، – وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ – قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ عَلَيْكُمْ بِكُلِّ كُمَيْتٍ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ، أَوْ أَشْقَرَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ، أَوْ أَدْهَمَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ ‏”‏ ‏.‏

ابو وہب جشمی سے روایت ہےاور انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اپنے اوپر ہر چتکبرے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا سرخ سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا کالے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے گھوڑے کو لازم پکڑو “ ۔

Narrated AbuWahb al-Jushami,:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Keep to every dark bay horse with a white blaze and white on the legs, or sorrel with a white blaze and white on the legs , or black with a white blaze and white on the legs.


68

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، حَدَّثَنَا عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ عَلَيْكُمْ بِكُلِّ أَشْقَرَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ، أَوْ كُمَيْتٍ أَغَرَّ ‏”‏ ‏.‏ فَذَكَرَ نَحْوَهُ ‏.‏ قَالَ مُحَمَّدٌ – يَعْنِي ابْنَ مُهَاجِرٍ – سَأَلْتُهُ ‏:‏ لِمَ فَضَّلَ الأَشْقَرَ قَالَ ‏:‏ لأَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ سَرِيَّةً فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ جَاءَ بِالْفَتْحِ صَاحِبُ أَشْقَرَ ‏.‏

ابو وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اپنے اوپر ہر سرخ سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے یا ہر چتکبرے سفید پیشانی کے گھوڑے لازم پکڑو ۱؎ “ ، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا ۔ محمد یعنی ابن مہاجر کہتے ہیں : میں نے عقیل سے پوچھا : سرخ رنگ کے گھوڑے کی فضیلت کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا : اس وجہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا تو سب سے پہلے جو شخص فتح کی بشارت لے کر آیا وہ سرخ گھوڑے پر سوار تھا ۔

Narrated AbuWahb:

The Prophet (ﷺ) said: Keep to every sorrel horse with a white blaze and white on the legs, or dark bay with a white blaze. He then mentioned something similar. Muhammad ibn al-Muhajir said: I asked him: Why was a sorrel horse preferred? He replied: Because the Prophet (ﷺ) had sent a contingent, and the man who first brought the news of victory was the rider of a sorrel horse.


69

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏:‏ ‏ “‏ يُمْنُ الْخَيْلِ فِي شُقْرِهَا ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گھوڑے کی برکت سرخ رنگ کے گھوڑے میں ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Prophet (ﷺ) said: The most favoured horses are the sorrel.


7

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدٍ، – يَعْنِي ابْنَ مَعْدَانَ – عَنْ أَبِي قُتَيْلَةَ، عَنِ ابْنِ حَوَالَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ سَيَصِيرُ الأَمْرُ إِلَى أَنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ عَلَيْكَ بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيَرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيَرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ وَاسْقُوا مِنْ غُدُرِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے ، ایک ٹکڑی شام میں ، ایک یمن میں اور ایک عراق میں “ ۔ ابن حوالہ نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے اوپر شام کو لازم کر لو ، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے ، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا ، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا ، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ۱؎ “ ۔

Narrated Ibn Hawalah:

The Prophet (ﷺ) said: It will turn out that you will be armed troops, one is Syria, one in the Yemen and one in Iraq. Ibn Hawalah said: Choose for me, Messenger of Allah, if I reach that time. He replied: Go to Syria, for it is Allah’s chosen land, to which his best servants will be gathered, but if you are unwilling, go to your Yemen, and draw water from your tanks, for Allah has on my account taken special charge of Syria and its people.


70

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏:‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُسَمِّي الأُنْثَى مِنَ الْخَيْلِ فَرَسًا ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی مادہ کو بھی «فرس» کا نام دیتے تھے ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Messenger of Allah (ﷺ) used to name a mare a horse.


71

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلْمٍ، – هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ – عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَكْرَهُ الشِّكَالَ مِنَ الْخَيْلِ ‏.‏ وَالشِّكَالُ ‏:‏ يَكُونُ الْفَرَسُ فِي رِجْلِهِ الْيُمْنَى بَيَاضٌ وَفِي يَدِهِ الْيُسْرَى بَيَاضٌ، أَوْ فِي يَدِهِ الْيُمْنَى وَفِي رِجْلِهِ الْيُسْرَى ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ‏:‏ أَىْ مُخَالِفٌ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے میں «شکال» کو ناپسند فرماتے تھے ، اور «شکال» یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پیر اور بائیں ہاتھ میں ، یا دائیں ہاتھ اور بائیں پیر میں سفیدی ہو ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی دائیں اور بائیں ایک دوسرے کے مخالف ہوں ۔

Abu Hurairah said “The Prophet (ﷺ) disapproved the shikal horses. Shikal are the horses that are white on their right hind leg and white on their left foreleg or white on their right foreleg and left hind leg.

Abu Dawud said “This means alternate legs”.


72

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، – يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ ‏:‏ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ، فَقَالَ ‏:‏ ‏ “‏ اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً ‏”‏ ‏.‏

سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ اس کی پشت سے مل گیا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان بے زبان چوپایوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو ، ان پر سواری بھلے طریقے سے کرو اور ان کو بھلے طریقے سے کھاؤ ۱؎ “ ۔

Narrated Sahl ibn al-Hanzaliyyah:

The Messenger of Allah (ﷺ) came upon an emaciated camel and said: Fear Allah regarding these dumb animals. Ride them when they are in good condition and feed them when they are in good condition.


73

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ ‏:‏ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَلْفَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَسَرَّ إِلَىَّ حَدِيثًا لاَ أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، وَكَانَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِحَاجَتِهِ هَدَفًا أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ ‏.‏ قَالَ ‏:‏ فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ، لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ ‏”‏ ‏.‏ فَجَاءَ فَتًى مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ ‏:‏ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ أَفَلاَ تَتَّقِي اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللَّهُ إِيَّاهَا، فَإِنَّهُ شَكَى إِلَىَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ ‏”‏ ‏.‏

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دن اپنے پیچھے سوار کیا پھر مجھ سے چپکے سے ایک بات کہی جسے میں کسی سے بیان نہیں کروں گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشری ضرورت کے تحت چھپنے کے لیے دو جگہیں بہت ہی پسند تھیں ، یا تو کوئی اونچا مقام ، یا درختوں کا جھنڈ ، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو سامنے ایک اونٹ نظر آیا جب اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رونے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے ، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا ، اس کے بعد پوچھا : ” یہ اونٹ کس کا ہے ؟ “ ایک انصاری جوان آیا ، وہ کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میرا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم ان جانوروں کے سلسلے میں جن کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے اللہ سے نہیں ڈرتے ، اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا مارتا اور تھکاتا ہے “ ۔

‘Abd Allaah bin Jafar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) seated me behind him(on his ride) one day, and told me secretly a thing asking me not to tell it to anyone. The place for easing dearer to the Apostle of Allaah(ﷺ) was a mound or host of palm trees by which he could conceal himself. He entered the garden of a man from the Ansar(Helpers). All of a sudden when a Camel saw the Prophet (ﷺ) it wept tenderly producing yearning sound and it eyes flowed. The Prophet (ﷺ) came to it and wiped the temple of its head. So it kept silence. He then said “Who is the master of this Camel? Whose Camel is this? A young man from the Ansar came and said “This is mine, Apostle of Allaah(ﷺ).” He said “Don’t you fear Allaah about this beast which Allaah has given in your possession. It has complained to me that you keep it hungry and load it heavily which fatigues it.”


74

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَىٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏:‏ ‏”‏ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ ‏:‏ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَنِي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلأَ خُفَّيْهِ فَأَمْسَكَهُ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ فَسَقَى الْكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ ‏”‏ ‏.‏ فَقَالُوا ‏:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لأَجْرًا فَقَالَ ‏:‏ ‏”‏ فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک آدمی کسی راستہ پہ جا رہا تھا کہ اسی دوران اسے سخت پیاس لگی ، ( راستے میں ) ایک کنواں ملا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا ، پھر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا ہے ، اس شخص نے دل میں کہا : اس کتے کا پیاس سے وہی حال ہے جو میرا حال تھا ، چنانچہ وہ ( پھر ) کنویں میں اترا اور اپنے موزوں کو پانی سے بھرا ، پھر منہ میں دبا کر اوپر چڑھا اور ( کنویں سے نکل کر باہر آ کر ) کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول فرما لیا اور اسے بخش دیا “ ، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہمارے لیے چوپایوں میں بھی ثواب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر تر کلیجہ والے ( جاندار ) میں ثواب ہے “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “ While a man was going on his way, he felt himself thirsty severely. He found a well and e went down in it. He drank water and came out. Suddenly he saw a dog panting and eating soil due to thirst. The man said (to himself) “This dog must have reached the same condition due to thirst as I had reached. So he went down into the well, filled his sock with water, held it with his mouth and came up. He supplied water to the dog. Allaah appreciated this and forgave him.” They asked “Apostle of Allaah(ﷺ), Is there any reward for us for these beasts? He replied, For every cool liver there is a reward.”


75

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَمْزَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ كُنَّا إِذَا نَزَلْنَا مَنْزِلاً لاَ نُسَبِّحُ حَتَّى نَحُلَّ الرِّحَالَ ‏.‏

حمزہ ضبی کہتے ہیں کہمیں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم کسی جگہ اترتے تو نماز نہ پڑھتے جب تک کہ ہم کجاؤں کو اونٹوں سے نیچے نہ اتار دیتے ۔

Narrated Anas ibn Malik:

When we alighted at a station (for stay), we did not pray until we united the saddles of the camels.


76

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَسُولاً – قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ – وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ ‏ “‏ لاَ يُبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ وَلاَ قِلاَدَةٌ إِلاَّ قُطِعَتْ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ مَالِكٌ أَرَى أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَجْلِ الْعَيْنِ ‏.‏

ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا ، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے : ” کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے ، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے “ ۔ مالک کہتے ہیں : میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے ۔

Abu Bashir Al Ansari said that he was with the Apostle of Allaah(ﷺ) on one of his journeys. The Apostle of Allaah(ﷺ)sent a messenger. The narrator ‘Abd Allah bin Abu Bakr said “I think he said while the people were sleeping. No necklace of bowstring or anything else must be left on a Camels’ neck, must be cut off. The narrator Malik said “I think this was due to evil eye.”


77

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ، – وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ – قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ارْتَبِطُوا الْخَيْلَ وَامْسَحُوا بِنَوَاصِيهَا وَأَعْجَازِهَا ‏”‏ ‏.‏ أَوْ قَالَ ‏”‏ أَكْفَالِهَا ‏”‏ ‏.‏ ‏”‏ وَقَلِّدُوهَا وَلاَ تُقَلِّدُوهَا الأَوْتَارَ ‏”‏ ‏.‏

ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانہیں ( اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ) صحبت حاصل تھی – وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گھوڑوں کو سرحد کی حفاظت کے لیے تیار کرو ، اور ان کی پیشانیوں اور پٹھوں پر ہاتھ پھیرا کرو ، اور ان کی گردنوں میں قلادہ ( پٹہ ) پہناؤ ، اور انہیں ( نظر بد سے بچنے کے لیے ) تانت کا قلادہ نہ پہنانا “ ۔

Narrated AbuWahb al-Jushami,:

The Messenger of Allah (ﷺ) said: Tie the horses, rub down their forelocks and their buttocks (or he said: Their rumps), and put things on their necks, but do not put bowstrings.


78

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي الْجَرَّاحِ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَئِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا جَرَسٌ ‏”‏ ‏.‏

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہآپ نے فرمایا : ” ( رحمت کے ) فرشتے ۱؎ اس جماعت کے ساتھ نہیں ہوتے جس کے ساتھ گھنٹی ہو “ ۔

Narrated Umm Habibah:

The Prophet (ﷺ) said: The angels do not go with a travelling company in which there is a bell.


79

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَئِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا كَلْبٌ أَوْ جَرَسٌ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( رحمت کے فرشتے ) اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس کے ساتھ کتا یا گھنٹی ہو “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “The angels do not accompany the fellow travelers who have a dog or bell (with them).”


8

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ‏”‏ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری امت کا ایک گروہ ۱؎ ہمیشہ حق کے لیے لڑتا رہے گا اور ان لوگوں پر غالب رہے گا جو ان سے دشمنی کریں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ مسیح الدجال سے قتال کریں گے ۲؎ “ ۔

Narrated Imran ibn Husayn:

The Prophet (ﷺ) said: A section of my community will continue to fight for the right and overcome their opponents till the last of them fights with the Antichrist.


80

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي الْجَرَسِ ‏ “‏ مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹی کے بارے میں فرمایا : ” وہ شیطان کی بانسری ہے “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “The bell is a wooden wind musical instrument of Satan.”


81

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ نُهِيَ عَنْ رُكُوبِ الْجَلاَّلَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہگندگی کھانے والے جانور کی سواری سے منع کیا گیا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

It has been prohibited to ride the beast which eats dung.


82

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَهْمِ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي قَيْسٍ – عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْجَلاَّلَةِ فِي الإِبِلِ أَنْ يُرْكَبَ عَلَيْهَا ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی کھانے والے اونٹوں کی سواری کرنے سے منع فرمایا ہے ۔

Narrated Abdullah ibn Umar:

The Messenger of Allah (ﷺ) prohibited to ride a camel which eats dung.


83

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ ‏.‏

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا جس کو «عفیر» کہا جاتا تھا ۱؎ ۔

Mu’adh said “I was seated behind the Prophet (ﷺ) on a donkey that was called ‘Ufair”.


84

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمَّى خَيْلَنَا خَيْلَ اللَّهِ إِذَا فَزِعْنَا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُنَا إِذَا فَزِعْنَا بِالْجَمَاعَةِ وَالصَّبْرِ وَالسَّكِينَةِ وَإِذَا قَاتَلْنَا ‏.‏

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ حمد و صلاۃ کے بعد کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سواروں کو جب ہمیں دشمن سے گھبراہٹ ہوتی ( تسلی دیتے ہوئے ) «خیل اللہ» کہتے ، اور ہمیں جماعت کو لازم پکڑنے اور صبر و سکون سے رہنے کا حکم دیتے ، اور جب ہم قتال کر رہے ہوتے ( تو بھی انہیں کلمات کے ذریعہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے ) ۔

Narrated Samurah ibn Jundub:

The Prophet (ﷺ) named our cavalry “the Cavalry of Allah,” when we were struck with panic, and when panic overtook us, the Messenger of Allah (ﷺ) commanded us to be united, to have patience and perseverance; and to be so when we fought.


85

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ فِي سَفَرٍ فَسَمِعَ لَعْنَةً فَقَالَ ‏”‏ مَا هَذِهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالُوا هَذِهِ فُلاَنَةُ لَعَنَتْ رَاحِلَتَهَا ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ضَعُوا عَنْهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ ‏”‏ ‏.‏ فَوَضَعُوا عَنْهَا ‏.‏ قَالَ عِمْرَانُ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا نَاقَةً وَرْقَاءَ ‏.‏

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ، آپ نے لعنت کی آواز سنی تو پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : فلاں عورت ہے جو اپنی سواری پر لعنت کر رہی ہے ، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس اونٹنی سے کجاوہ اتار لو کیونکہ وہ ملعون ہے ۱؎ “ ، لوگوں نے اس پر سے ( کجاوہ ) اتار لیا ۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی ۔

‘Imran bin Hussain said “The Prophet (ﷺ) was on a journey. He heard a curse. He asked “What is this? They (the people) said “This is so and so (a woman) who cursed her riding beast. The Prophet (ﷺ) said “Remove the saddle from it, for it is accursed. So, they removed (the saddle) from it. ‘Imran said “As if I am looking at it a grey she Camel.”


86

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ ‏.‏

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎ ۔

Narrated Abdullah ibn Abbas:

The Messenger of Allah (ﷺ) prohibited to provoke the beasts for fighting.


87

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِأَخٍ لِي حِينَ وُلِدَ لِيُحَنِّكَهُ فَإِذَا هُوَ فِي مِرْبَدٍ يَسِمُ غَنَمًا – أَحْسِبُهُ قَالَ – فِي آذَانِهَا ‏.‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں اپنے بھائی کی پیدائش پر اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا تاکہ آپ اس کی تحنیک ( گھٹی ) ۱؎ فرما دیں ، تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کے ایک باڑہ میں بکریوں کو نشان ( داغ ) لگا رہے تھے ۔ ہشام کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ان کے کانوں پر داغ لگا رہے تھے ۔

Anas bin Malik said “I brought my brother when he was born to Prophet(ﷺ) to chew something for him and rub his palate with it and found him in a sheep pen branding the sheep, I think, on their ears.”


88

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم مُرَّ عَلَيْهِ بِحِمَارٍ قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ ‏ “‏ أَمَا بَلَغَكُمْ أَنِّي قَدْ لَعَنْتُ مَنْ وَسَمَ الْبَهِيمَةَ فِي وَجْهِهَا أَوْ ضَرَبَهَا فِي وَجْهِهَا ‏”‏ ‏.‏ فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ ‏.‏

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرہ کو داغ دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانوروں کے چہرے کو داغ دے ، یا ان کے چہرہ پہ مارے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ۔

Jabir reported the Prophet (ﷺ) as saying when an ass which had been branded on its face passed him. Did it not reach you that I cursed him who branded the animals on their faces or struck them on their faces. So he prohibited it.


89

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنِ ابْنِ زُرَيْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، – رضى الله عنه – قَالَ أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَغْلَةٌ فَرَكِبَهَا ‏.‏ فَقَالَ عَلِيٌّ لَوْ حَمَلْنَا الْحَمِيرَ عَلَى الْخَيْلِ فَكَانَتْ لَنَا مِثْلُ هَذِهِ ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ ‏”‏ ‏.‏

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیہ میں دیا گیا تو آپ اس پر سوار ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر ہم ان گدھوں سے گھوڑیوں کی جفتی کرائیں تو اسی طرح کے خچر پیدا ہوں گے ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو ( شریعت کے احکام سے ) واقف نہیں ہیں ۱؎ “ ۔

Narrated Ali ibn AbuTalib:

The Messenger of Allah (ﷺ) was present with a she-mule which he rode, so Ali said: If we made asses cover mares we would have animals of this type. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Only those who do not know do that.


9

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ سُئِلَ أَىُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْمَلُ إِيمَانًا قَالَ ‏ “‏ رَجُلٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ وَرَجُلٌ يَعْبُدُ اللَّهَ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ قَدْ كُفِيَ النَّاسُ شَرَّهُ ‏”‏ ‏.‏

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا مومن سب سے زیادہ کامل ایمان والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے ، نیز وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی ۱؎ میں اللہ کی عبادت کرتا ہو ، اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں “ ۔

Abu Sa’id (Al Khudri) reported The Prophet(ﷺ) was asked “Which believers are most perfect in respect of faith? He replied “A man who strives in the path of Allaah with his life and property and a man who worships Allaah in a mountain valley where he protects the people from his evil.””


90

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُوَرِّقٍ، – يَعْنِي الْعِجْلِيَّ – حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ اسْتُقْبِلَ بِنَا فَأَيُّنَا اسْتُقْبِلَ أَوَّلاً جَعَلَهُ أَمَامَهُ فَاسْتُقْبِلَ بِي فَحَمَلَنِي أَمَامَهُ ثُمَّ اسْتُقْبِلَ بِحَسَنٍ أَوْ حُسَيْنٍ فَجَعَلَهُ خَلْفَهُ فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ وَإِنَّا لَكَذَلِكَ ‏.‏

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے ، جو ہم میں سے پہلے پہنچتا اس کو آپ آگے بٹھا لیتے ، چنانچہ ( ایک بار ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے پایا تو مجھے اپنے آگے بٹھا لیا ، پھر حسن یا حسین پہنچے تو انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا ، پھر ہم مدینہ میں اسی طرح ( سواری پر ) بیٹھے ہوئے داخل ہوئے ۔

‘Abd Allah bin Ja’far said “When the Prophet (ﷺ) arrived after a journey, we were taken for his reception. Any of us who met him first he lifted him in front of him. As I was the first to meet him, he lifted me in front of him. Then Hasan or Hussain was brought to him and he set him behind him. We the entered Madeenah and we (were) riding so (three on one beast).”


91

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِيَّاكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا ظُهُورَ دَوَابِّكُمْ مَنَابِرَ فَإِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُبَلِّغَكُمْ إِلَى بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلاَّ بِشِقِّ الأَنْفُسِ وَجَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فَعَلَيْهَا فَاقْضُوا حَاجَتَكُمْ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے جانوروں کی پیٹھ کو منبر بنانے سے بچو ، کیونکہ اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ وہ تمہیں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائیں جہاں تم بڑی تکلیف اور مشقت سے پہنچ سکتے ہو ، اور اللہ نے تمہارے لیے زمین بنائی ہے ، تو اسی پر اپنی ضروریات کی تکمیل کیا کرو ۱؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Prophet(ﷺ) as saying “Do not treat the backs of your beasts as pulpits, for Allaah has made them subject to you only to convey you to a town which you cannot reach without difficulty and He has appointed the earth (a floor to work) for you, so conduct your business on it.


92

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ تَكُونُ إِبِلٌ لِلشَّيَاطِينِ وَبُيُوتٌ لِلشَّيَاطِينِ فَأَمَّا إِبِلُ الشَّيَاطِينِ فَقَدْ رَأَيْتُهَا يَخْرُجُ أَحَدُكُمْ بِجَنِيبَاتٍ مَعَهُ قَدْ أَسْمَنَهَا فَلاَ يَعْلُو بَعِيرًا مِنْهَا وَيَمُرُّ بِأَخِيهِ قَدِ انْقَطَعَ بِهِ فَلاَ يَحْمِلُهُ وَأَمَّا بُيُوتُ الشَّيَاطِينِ فَلَمْ أَرَهَا ‏”‏ ‏.‏ كَانَ سَعِيدٌ يَقُولُ لاَ أُرَاهَا إِلاَّ هَذِهِ الأَقْفَاصَ الَّتِي يَسْتُرُ النَّاسُ بِالدِّيبَاجِ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کچھ اونٹ ۱؎ شیطانوں کے ہوتے ہیں ، اور کچھ گھر شیطانوں کے ہوتے ہیں ، رہے شیطانوں کے اونٹ تو میں نے انہیں دیکھا ہے ، تم میں سے کوئی شخص اپنے کوتل اونٹ کے ساتھ نکلتا ہے جسے اس نے کھلا پلا کر موٹا کر رکھا ہے ( خود ) اس پر سواری نہیں کرتا ، اور اپنے بھائی کے پاس سے گزرتا ہے ، دیکھتا ہے کہ وہ چلنے سے عاجز ہو گیا ہے اس کو سوار نہیں کرتا ، اور رہے شیطانوں کے گھر تو میں نے انہیں نہیں دیکھا ہے “ ۲؎ ۔ سعید کہتے تھے : میں تو شیطانوں کا گھر انہیں ہودجوں کو سمجھتا ہوں جنہیں لوگ ریشم سے ڈھانپتے ہیں ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “There are Camels which belong to devils and there are houses which belong to devils. As for the Camels of the devils, I have seen them. One of you goes out with his side Camels which he has fattened neither riding any of them nor giving a lift to a tired brother when he meets. As regard the houses of the devils, I have not seen them. The narrator Sa’id says “I think they are those cages (Camel litters) which conceal people with brocade.”


93

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ فَأَعْطُوا الإِبِلَ حَقَّهَا وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْجَدْبِ فَأَسْرِعُوا السَّيْرَ فَإِذَا أَرَدْتُمُ التَّعْرِيسَ فَتَنَكَّبُوا عَنِ الطَّرِيقِ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سرسبز علاقوں میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حق دو ۱؎ اور جب قحط والی زمین میں سفر کرو تو تیز چلو ۲؎ ، اور جب رات میں پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ کرو تو راستے سے ہٹ کر پڑاؤ ڈالو ۳؎ “ ۔

Abu Hurairah reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “When you travel in fertile country, give the Camel their due (from the ground), and when you travel in time of drought make them go quickly. When you intend to encamp in the last hours of the night, keep away from the roads.”


94

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ هَذَا قَالَ بَعْدَ قَوْلِهِ ‏”‏ حَقَّهَا ‏”‏ ‏.‏ ‏”‏ وَلاَ تَعْدُوا الْمَنَازِلَ ‏”‏ ‏.‏

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بھینبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی روایت کی ہے ، مگر اس میں آپ کے قول «فأعطوا الإبل حقها» کے بعد اتنا اضافہ ہے کہ منزلوں کے آگے نہ بڑھو ( تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو ) ۔

A similar tradition has also been narrated by Jabir bin ‘Abd Allaah from the Prophet (ﷺ). But this version adds after the phrase “their due” And do not go beyond the destinations.


95

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ عَلَيْكُمْ بِالدُّلْجَةِ فَإِنَّ الأَرْضَ تُطْوَى بِاللَّيْلِ ‏”‏ ‏.‏

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رات کے آخری حصہ میں سفر کرنے کو لازم پکڑو ، کیونکہ زمین رات کو لپیٹ دی جاتی ہے ۱؎ “ ۔

Anas reported the Apostle of Allaah(ﷺ) as saying “Keep to travelling by night, for the earth is traversed (more easily) by night.


96

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْشِي جَاءَ رَجُلٌ وَمَعَهُ حِمَارٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ارْكَبْ ‏.‏ وَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ أَنْتَ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِكَ مِنِّي إِلاَّ أَنْ تَجْعَلَهُ لِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ لَكَ ‏.‏ فَرَكِبَ ‏.‏

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک گدھا تھا ، اس نے کہا : اللہ کے رسول سوار ہو جائیے اور وہ پیچھے سرک گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا مجھ سے زیادہ حقدار ہو ، الا یہ کہ تم مجھے اس اگلے حصہ کا حقدار بنا دو “ ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو اس کا حقدار بنا دیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے ۔

Narrated Buraydah ibn al-Hasib:

While the Messenger of Allah (ﷺ) was walking a man who had an ass came to him and said: Messenger of Allah, ride; and the man moved to the back of the animal. The Messenger of Allah (ﷺ) said: No, you have more right to ride in front on your animal than me unless you grant that right to me. He said: I grant it to you. So he mounted.


97

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ – حَدَّثَنِي أَبِي الَّذِي، أَرْضَعَنِي وَهُوَ أَحَدُ بَنِي مُرَّةَ بْنِ عَوْفٍ – وَكَانَ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ غَزَاةِ مُؤْتَةَ – قَالَ وَاللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى جَعْفَرٍ حِينَ اقْتَحَمَ عَنْ فَرَسٍ لَهُ شَقْرَاءَ فَعَقَرَهَا ثُمَّ قَاتَلَ الْقَوْمَ حَتَّى قُتِلَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ ‏.‏

عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہمیرے رضاعی والد نے جو بنی مرہ بن عوف میں سے تھے مجھ سے بیان کیا کہ وہ غزوہ موتہ کے غازیوں میں سے تھے ، وہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! گویا کہ میں جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں جس وقت وہ اپنے سرخ گھوڑے سے کود پڑے اور اس کی کونچ کاٹ دی ۱؎ ، پھر دشمنوں سے لڑے یہاں تک کہ قتل کر دیئے گئے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے ۲؎ ۔

Narrated Abbad ibn Abdullah ibn az-Zubayr:

My foster-father said to me – he was one of Banu Murrah ibn Awf, and he was present in that battle, the battle of Mu’tah: By Allah, as if I am seeing Ja’far who jumped from his reddish horse and hamstrung it; he then fought with the people until he was killed.

Abu Dawud said: The tradition is not strong.


98

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ سَبْقَ إِلاَّ فِي خُفٍّ أَوْ فِي حَافِرٍ أَوْ نَصْلٍ ‏”‏ ‏.‏

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مقابلہ میں بازی رکھنا جائز نہیں ۱؎ سوائے اونٹ یا گھوڑے کی دوڑ میں یا تیر چلانے میں “ ۔

Narrated AbuHurayrah:

The Prophet (ﷺ) said: Wagers are allowed only for racing camels, or horses or shooting arrows.


99

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي قَدْ ضُمِّرَتْ مِنَ الْحَفْيَاءِ وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ وَسَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضْمَرْ مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ كَانَ مِمَّنْ سَابَقَ بِهَا ‏.‏

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کے درمیان ۱؎ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کرایا ، اور غیر چھریرے بدن والے گھوڑوں ، کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے ۔

‘Abd Allah bin Umar said “The Apostle of Allaah(ﷺ) held race between the horses which had been made lean by training from Al Hafya’. The goal was Thaniyyat Al Wada’ and he held a race between the horses Banu Zuraiq and ‘Abd Allaah was one of the racers.


Scroll to Top
Skip to content