حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ، مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَنْظُورٍ عَنْ عَمِّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ، أَخِي الْخُضْرِ – قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ النُّفَيْلِيُّ هُوَ الْخُضْرُ وَلَكِنْ كَذَا قَالَ – قَالَ إِنِّي لَبِبِلاَدِنَا إِذْ رُفِعَتْ لَنَا رَايَاتٌ وَأَلْوِيَةٌ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالُوا هَذَا لِوَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ تَحْتَ شَجَرَةٍ قَدْ بُسِطَ لَهُ كِسَاءٌ وَهُوَ جَالِسٌ عَلَيْهِ وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ فَذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الأَسْقَامَ فَقَالَ ” إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ ثُمَّ أَعْفَاهُ اللَّهُ مِنْهُ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِيَ كَانَ كَالْبَعِيرِ عَقَلَهُ أَهْلُهُ ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ وَلَمْ يَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ ” . فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ حَوْلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الأَسْقَامُ وَاللَّهِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” قُمْ عَنَّا فَلَسْتَ مِنَّا ” . فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ كِسَاءٌ وَفِي يَدِهِ شَىْءٌ قَدِ الْتَفَّ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُكَ أَقْبَلْتُ إِلَيْكَ فَمَرَرْتُ بِغَيْضَةِ شَجَرٍ فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي كِسَائِي فَجَاءَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَى رَأْسِي فَكَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ مَعَهُنَّ فَلَفَفْتُهُنَّ بِكِسَائِي فَهُنَّ أُولاَءِ مَعِي . قَالَ ” ضَعْهُنَّ عَنْكَ ” . فَوَضَعْتُهُنَّ وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلاَّ لُزُومَهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَصْحَابِهِ ” أَتَعْجَبُونَ لِرُحْمِ أُمِّ الأَفْرَاخِ فِرَاخَهَا ” . قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم . قَالَ ” فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الأَفْرَاخِ بِفِرَاخِهَا ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّى تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ ” . فَرَجَعَ بِهِنَّ .
خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے ، تو میں آپ کے پاس آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے ، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎ ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا : ” جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت ، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو ، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بیماریاں کیا ہیں ؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو اٹھ جا ، تو ہم میں سے نہیں ہے “ ۲؎ ۔ عامر کہتے ہیں : ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا ، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا ، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی ، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی ، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری ، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا ، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کو یہاں رکھو “ ، میں نے انہیں رکھ دیا ، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : ” کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو ؟ “ ، صحابہ نے عرض کیا : ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے ، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو “ ، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا ۔
Narrated Amir ar-Ram:
We were in our country when flags and banners were raised. I said: What is this?
The (the people) said: This is the banner of the Messenger of Allah (ﷺ). So I came to him. He was (sitting) under a tree. A sheet of cloth was spread for him and he was sitting on it. His Companions were gathered around him. I sat with them.
The Messenger of Allah (ﷺ) mentioned illness and said: When a believer is afflicted by illness and Allah cures him of it, it serves as an atonement for his previous sins and a warning to him for the future.
But when a hypocrite becomes ill and is then cured, he is like a camel which has been tethered and then let loose by its owners, but does not know why they tethered it and why they let it loose.
A man from among those around him asked: Messenger of Allah, what are illnesses? I swear by Allah, I never fell ill.
The Messenger of Allah (ﷺ) said: Get up and leave us. You do not belong to our number. When we were with him, a man came to him. He had a sheet of cloth and something in his hand.
He turned his attention to him and said: Messenger of Allah, when I saw you, I turned towards you. I saw a group of trees and heard the sound of fledglings. I took them and put them in my garment. Their mother then came and began to hover round my head. I showed them to her, and she fell on them. I wrapped them with my garment. They are now with me.
He said: Put them away from you. So I put them away, but their mother stayed with them.
The Messenger of Allah (ﷺ) said to his companions: Are you surprised at the affection of the mother for her young?
They said: Yes, Messenger of Allah. He said: I swear by Him Who has sent me with the Truth, Allah is more affectionate to His servants than a mother to her young ones. Take them back put them and where you took them from when their mother should have been with them. So he took them back.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ مَا مِنْ رَجُلٍ يَعُودُ مَرِيضًا مُمْسِيًا إِلاَّ خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى يُصْبِحَ وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ وَمَنْ أَتَاهُ مُصْبِحًا خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى يُمْسِيَ وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ .
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیںجو شخص کسی بیمار کی دن کے اخیر حصے میں عیادت کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور فجر تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے ، اور جو شخص دن کے ابتدائی حصے میں عیادت کے لیے نکلتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے ۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَهِيَّ، قَالَ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمَقَاعِدِ . قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ قِيلَ لَهُ حَدَّثَكُمُ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِينَ لَيْلَةً .
وائل بن داود کہتے ہیں : میں نے بہی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نشست گاہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے سعید بن یعقوب طالقانی پر پڑھا کہ آپ سے حدیث بیان کی ابن مبارک نے انہوں نے یعقوب بن قعقاع سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی اس وقت وہ ستر دن کے تھے ۔
Narrated Al-Bahiyy:
When Ibrahim, the son of the Prophet (ﷺ) died, he prayed over him at the place where he used to sit.
Abu Dawud said: I recited to Sa’id b. Ya’qub al-Taliqani saying: Ibn al-Mubarak transmitted to you from Ya’qub b. al-Qa’qa’ on the authority of ‘Ata that the Prophet (ﷺ) prayed over his son Ibrahim when he was seventeen days old.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَجْلاَنَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ وَاللَّهِ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ إِلاَّ فِي الْمَسْجِدِ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںقسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی ۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، – يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ – عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى ابْنَىْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ سُهَيْلٍ وَأَخِيهِ .
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںاللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي صَالِحٌ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلاَ شَىْءَ عَلَيْهِ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۱؎ “ ۔
Narrated AbuHurayrah:
The Prophet (ﷺ) said: If anyone prays over the dead in the mosque, there is nothing on him.
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُلَىِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ ثَلاَثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ أَوْ كَمَا قَالَ .
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہتین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے : ایک تو جب سورج چمکتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے ، دوسرے جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور تیسرے جب سورج ڈوبنے لگے یہاں تک کہ ڈوب جائے یا اسی طرح کچھ فرمایا ۔
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ صُبَيْحٍ، حَدَّثَنِي عَمَّارٌ، مَوْلَى الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ شَهِدَ جَنَازَةَ أُمِّ كُلْثُومٍ وَابْنِهَا فَجُعِلَ الْغُلاَمُ مِمَّا يَلِي الإِمَامَ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ وَفِي الْقَوْمِ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ وَأَبُو قَتَادَةَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالُوا هَذِهِ السُّنَّةُ .
حارث بن نوفل کے غلام عمار کا بیان ہے کہوہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے کے جنازے میں شریک ہوئے تو لڑکا امام کے قریب رکھا گیا تو میں نے اسے ناپسند کیا اس وقت لوگوں میں ابن عباس ، ابو سعید خدری ، ابوقتادہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے اس پر ان لوگوں نے کہا : سنت یہی ہے ( یعنی پہلے لڑکے کو رکھنا پھر عورت کو ) ۔
Yahya ibn Subayh said:
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ كُنْتُ فِي سِكَّةِ الْمِرْبَدِ فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ كَثِيرٌ قَالُوا جَنَازَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ فَتَبِعْتُهَا فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَيْهِ كِسَاءٌ رَقِيقٌ عَلَى بُرَيْذِينَتِهِ وَعَلَى رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِيهِ مِنَ الشَّمْسِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ قَالُوا هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ . فَلَمَّا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ قَامَ أَنَسٌ فَصَلَّى عَلَيْهَا وَأَنَا خَلْفَهُ لاَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ لَمْ يُطِلْ وَلَمْ يُسْرِعْ ثُمَّ ذَهَبَ يَقْعُدُ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ الْمَرْأَةُ الأَنْصَارِيَّةُ فَقَرَّبُوهَا وَعَلَيْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ فَقَامَ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا نَحْوَ صَلاَتِهِ عَلَى الرَّجُلِ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يَا أَبَا حَمْزَةَ هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ كَصَلاَتِكَ يُكَبِّرُ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَيَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَعَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ قَالَ نَعَمْ . قَالَ يَا أَبَا حَمْزَةَ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ نَعَمْ غَزَوْتُ مَعَهُ حُنَيْنًا فَخَرَجَ الْمُشْرِكُونَ فَحَمَلُوا عَلَيْنَا حَتَّى رَأَيْنَا خَيْلَنَا وَرَاءَ ظُهُورِنَا وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ يَحْمِلُ عَلَيْنَا فَيَدُقُّنَا وَيَحْطِمُنَا فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ وَجَعَلَ يُجَاءُ بِهِمْ فَيُبَايِعُونَهُ عَلَى الإِسْلاَمِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ عَلَىَّ نَذْرًا إِنْ جَاءَ اللَّهُ بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ مُنْذُ الْيَوْمِ يَحْطِمُنَا لأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ . فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجِيءَ بِالرَّجُلِ فَلَمَّا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُبْتُ إِلَى اللَّهِ . فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لاَ يُبَايِعُهُ لِيَفِيَ الآخَرُ بِنَذْرِهِ . قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَتَصَدَّى لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَأْمُرَهُ بِقَتْلِهِ وَجَعَلَ يَهَابُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ لاَ يَصْنَعُ شَيْئًا بَايَعَهُ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَذْرِي . فَقَالَ ” إِنِّي لَمْ أُمْسِكْ عَنْهُ مُنْذُ الْيَوْمِ إِلاَّ لِتُوفِيَ بِنَذْرِكَ ” . فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَوْمَضْتَ إِلَىَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ” إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يُومِضَ ” . قَالَ أَبُو غَالِبٍ فَسَأَلْتُ عَنْ صَنِيعِ أَنَسٍ فِي قِيَامِهِ عَلَى الْمَرْأَةِ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَحَدَّثُونِي أَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ لأَنَّهُ لَمْ تَكُنِ النُّعُوشُ فَكَانَ الإِمَامُ يَقُومُ حِيَالَ عَجِيزَتِهَا يَسْتُرُهَا مِنَ الْقَوْمِ . قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَوْلُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ” أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ” . نَسَخَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ فِي قَتْلِهِ بِقَوْلِهِ إِنِّي قَدْ تُبْتُ .
نافع ابوغالب کہتے ہیں کہمیں سکۃ المربد ( ایک جگہ کا نام ہے ) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ گزرا ، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے ، لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے ، یہ سن کر میں بھی جنازہ کے ساتھ ہو لیا ، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ باریک شال اوڑھے ہوئے چھوٹی گھوڑی پر سوار ہے ، دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ایک کپڑے کا ٹکڑا ڈالے ہوئے ہے ، میں نے لوگوں سے پوچھا : یہ چودھری صاحب کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا : یہ انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر جب جنازہ رکھا گیا تو انس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی ، میں ان کے پیچھے تھا ، میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے ، چار تکبیریں کہیں ( اور تکبیریں کہنے میں ) نہ بہت دیر لگائی اور نہ بہت جلدی کی ، پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا : ابوحمزہ ! ( انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے ) یہ انصاری عورت کا بھی جنازہ ہے ( اس کی بھی نماز پڑھا دیجئیے ) یہ کہہ کر اسے قریب لائے ، وہ ایک سبز تابوت میں تھی ، وہ اس کے کولہے کے سامنے کھڑے ہوئے ، اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی نماز مرد کی پڑھی تھی ، پھر اس کے بعد بیٹھے ، تو علاء بن زیاد نے کہا : اے ابوحمزہ ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح جنازے کی نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح آپ نے پڑھی ہے ؟ چار تکبیریں کہتے تھے ، مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے کولھے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے ، انہوں نے کہا : ہاں ۔ علاء بن زیاد نے ( پھر ) کہا : ابوحمزہ ! کیا آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، میں جنگ حنین ۲؎ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، مشرکین نکلے انہوں نے ہم پر حملہ کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ۳؎ اور قوم ( کافروں ) میں ایک حملہ آور شخص تھا جو ہمیں مار کاٹ رہا تھا ( پھر جنگ کا رخ پلٹا ) اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دی اور انہیں ( اسلام کی چوکھٹ پر ) لانا شروع کر دیا ، وہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنے لگے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے اگر اللہ اس شخص کو لایا جو اس دن ہمیں مار کاٹ رہا تھا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے ، پھر وہ ( قیدی ) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا ، اس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اللہ سے توبہ کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کرنے میں توقف کیا تاکہ دوسرا بندہ ( یعنی نذر ماننے والا صحابی ) اپنی نذر پوری کر لے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیعت لینے سے پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے ) لیکن وہ شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگا کہ آپ اسے اس کے قتل کا حکم فرمائیں اور ڈر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو میں اسے قتل کر ڈالوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوں ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کر لی ، تب اس صحابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری نذر تو رہ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں جو اب تک رکا رہا اور اس سے بیعت نہیں کی تھی تو اسی وجہ سے کہ اس دوران تم اپنی نذر پوری کر لو “ ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں اس کا اشارہ کیوں نہ فرما دیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ رمز سے اشارہ کرے “ ۔ ابوغالب کہتے ہیں : میں نے انس رضی اللہ عنہ کے عورت کے کولہے کے سامنے کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا کہ ( وہ وہاں کیوں کھڑے ہوئے ) تو لوگوں نے بتایا کہ پہلے تابوت نہ ہوتا تھا تو امام عورت کے کولہے کے پاس کھڑا ہوتا تھا تاکہ مقتدیوں سے اس کی نعش چھپی رہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث : «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله» سے اس کے قتل کی نذر پوری کرنے کو منسوخ کر دیا گیا ہے کیونکہ اس نے آ کر یہ کہا تھا کہ میں نے توبہ کر لی ہے ، اور اسلام لے آیا ہوں ۔
Nafi’ AbuGhalib said:
They said: Bier of Abdullah ibn Umayr. So I followed it. Suddenly I saw a man, who had a thin garment on riding his small mule. He had a piece of cloth on his head to protect himself from the sun. I asked: Who is this important man? People said: This is Anas ibn Malik.
When the bier was placed, Anas stood and led the funeral prayer over him while I was just behind him, and there was no obstruction between me and him. He stood near his head, and uttered four takbirs (Allah is Most Great). He neither lengthened the prayer nor hurried it. He then went to sit down. They said: AbuHamzah, (here is the bier of) an Ansari woman. They brought her near him and there was a green cupola-shaped structure over her bier. He stood opposite her hips and led the funeral prayer over her as he had led it over the man. He then sat down.
Al-Ala’ ibn Ziyad asked: AbuHamzah, did the Messenger of Allah (ﷺ) say the funeral prayer over the dead as you have done, uttering four takbirs (Allah is Most Great) over her, and standing opposite the head of a man and the hips of a woman?
He replied: Yes. He asked: AbuHamzah, did you fight with the Messenger of Allah? He replied: Yes. I fought with him in the battle of Hunayn. The polytheists came out and invaded us so severely that we saw our horses behind our backs. Among the people (i.e. the unbelievers) there was a man who was attacking us, and striking and wounding us (with his sword). Allah then defeated them. They were then brought and began to take the oath of allegiance to him for Islam.
A man from among the companions of the Prophet (ﷺ) said: I make a vow to myself that if Allah brings the man who was striking us (with his sword) that day, I shall behead him. The Messenger of Allah (ﷺ) kept silent and the man was brought (as a captive).
When he saw the Messenger of Allah (ﷺ), he said: Messenger of Allah, I have repented to Allah. The Messenger of Allah (ﷺ) stopped (for a while) receiving his oath of allegiance, so that the other man might fulfil his vow. But the man began to wait for the order of the Messenger of Allah (ﷺ) for his murder. He was afraid of the Messenger of Allah (ﷺ) to kill him. When the Messenger of Allah (ﷺ) saw that he did not do anything, he received his oath of allegiance. The man said: Messenger of Allah, what about my vow? He said: I stopped (receiving his oath of allegiance) today so that you might fulfil your vow. He said: Messenger of Allah, why did you not give any signal to me? The Prophet (ﷺ) said: It is not worthy of a Prophet to give a signal.
AbuGhalib said: I asked (the people) about Anas standing opposite the hips of a woman. They told me that this practice was due to the fact that (in the days of the Prophet) there were no cupola-shaped structures over the biers of women. So the imam used to stand opposite the hips of a woman to hide her from the people.
Abu Dawud said: The saying of the Prophet (ﷺ) “I have been commanded to fight against the people until they say: There is no god bu Allah” abrogated this tradition of fulfilling the vow by his remark: “I have repented”.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا لِلصَّلاَةِ وَسَطَهَا .
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیںمیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّ بِقَبْرٍ رَطْبٍ فَصَفُّوا عَلَيْهِ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا . فَقُلْتُ لِلشَّعْبِيِّ مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ الثِّقَةُ مَنْ شَهِدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ .
شعبی سے روایت ہے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک نئی قبر پر سے ہوا ، تو لوگوں نے اس پر صف بندی کی آپ نے ( نماز پڑھائی اور ) چار تکبیریں کہیں ۔ ابواسحاق کہتے ہیں : میں نے شعبی سے پوچھا : آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی ؟ انہوں نے کہا : ایک معتبر آدمی نے جو اس وقت موجود تھے ، یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ كَانَ زَيْدٌ – يَعْنِي ابْنَ أَرْقَمَ – يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُكَبِّرُهَا . قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَأَنَا لِحَدِيثِ ابْنِ الْمُثَنَّى أَتْقَنُ .
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہزید یعنی ابن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا ( آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں ؟ ) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ( بھی ) کہتے تھے ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے ۔
Zaid b. Arqam used to utter four takbirs (Allah is Most Great) over our dead person (during prayer). He uttered five takbirs on a dead person. So I asked him. He replied: The Messenger of Allah (ﷺ) used to utter those.
Abu Dawud said: I remember the tradition of Ibn al-Muthanna in a more guarded way.
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمَعْنَاهُ لَمْ يَذْكُرِ الْخَرِيفَ . قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاهُ مَنْصُورٌ عَنِ الْحَكَمِ أَبِي حَفْصٍ كَمَا رَوَاهُ شُعْبَةُ .
علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی معنی کی حدیث روایت کرتے ہیںلیکن انہوں نے اس میں «خریف» کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے منصور نے حکم سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے شعبہ نے ۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by ‘Ali from the Prophet (ﷺ) through a different chain of narrators to the same effect. This version does not mention the word “garden” (khartf).
Abu Dawud said:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَقَالَ إِنَّهَا مِنَ السُّنَّةِ .
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہمیں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا : یہ سنت میں سے ہے ۱؎ ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، – يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ “ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الْمَيِّتِ فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ” جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو “ ۔
Narrated AbuHurayrah:
The Prophet (ﷺ) said: When you pray over the dead, make a sincere supplication for him.
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُلاَسِ، عُقْبَةُ بْنُ سَيَّارٍ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ شَمَّاخٍ، قَالَ شَهِدْتُ مَرْوَانَ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ قَالَ أَمَعَ الَّذِي قُلْتَ قَالَ نَعَمْ . قَالَ كَلاَمٌ كَانَ بَيْنَهُمَا قَبْلَ ذَلِكَ . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ “ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبُّهَا وَأَنْتَ خَلَقْتَهَا وَأَنْتَ هَدَيْتَهَا لِلإِسْلاَمِ وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهَا وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّهَا وَعَلاَنِيَتِهَا جِئْنَاكَ شُفَعَاءَ فَاغْفِرْ لَهُ ” . قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَخْطَأَ شُعْبَةُ فِي اسْمِ عَلِيِّ بْنِ شَمَّاخٍ قَالَ فِيهِ عُثْمَانُ بْنُ شَمَّاسٍ وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْمَوْصِلِيَّ يُحَدِّثُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قَالَ مَا أَعْلَمُ أَنِّي جَلَسْتُ مِنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ مَجْلِسًا إِلاَّ نَهَى فِيهِ عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ وَجَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ .
علی بن شماخ کہتے ہیںمیں مروان کے پاس موجود تھا ، مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے کے نماز میں کیسی دعا پڑھتے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : کیا تم ان باتوں کے باوجود مجھ سے پوچھتے ہو جو پہلے کہہ چکے ہو ؟ مروان نے کہا : ہاں ۔ راوی کہتے ہیں : ان دونوں میں اس سے پہلے کچھ کہا سنی ( سخت کلامی ) ہو گئی تھی ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم أنت ربها وأنت خلقتها وأنت هديتها للإسلام وأنت قبضت روحها وأنت أعلم بسرها وعلانيتها جئناك شفعاء فاغفر له» ” اے اللہ ! تو ہی اس کا رب ہے ، تو نے ہی اس کو پیدا کیا ہے ، تو نے ہی اسے اسلام کی راہ دکھائی ہے ، تو نے ہی اس کی روح قبض کی ہے ، تو اس کے ظاہر و باطن کو زیادہ جاننے والا ہے ، ہم اس کی سفارش کرنے آئے ہیں تو اسے بخش دے “ ۔
Ali ibn Shammakh said:
Abu Hurairah said: O Allah, Thou art its Lord. Thou didst create it, Thou didst guide it to Islam, Thou hast taken its spirit, and Thou knowest best its inner nature and outer aspect. We have come as intercessors, so forgive him.
Abu Dawud said: Shu’bah made a mistake in mentioning the name of ‘Ali b. Shammakh. He said in his version: ‘Uthman b. Shammas.
Abu Dawud said: I heard Ahmad b. Ibrahim al-Mawsili say that Ahmad b. Hanbal said: In every meeting which I attended with Hammad b. Zaid he forbade to narrate this traditions from ‘Abd al-Warith and Ja’far b. Sulaiman.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، – يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ – عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى جَنَازَةٍ فَقَالَ “ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإِيمَانِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الإِسْلاَمِ اللَّهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَهُ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو یوں دعا کی : «اللهم اغفر لحينا وميتنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا وشاهدنا وغائبنا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده» ” اے اللہ ! تو بخش دے ، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو ، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو ، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو ، اے اللہ ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ایمان پر زندہ رکھ ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے اسلام پر موت دے ، اے اللہ ! ہم کو تو اس کے ثواب سے محروم نہ رکھنا ، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا “ ۔
Narrated AbuHurayrah:
When the Messenger of Allah (ﷺ) prayed over a dead person, he said: O Allah, forgive those of us who are living and those of us who are dead, those of us who are present and those of us who are absent, our young and our old, our male and our female. O Allah, to whomsoever of us Thou givest life grant him life as a believer, and whomsoever of us Thou takest in death take him in death as a follower of Islam. O Allah, do not withhold from us the reward (of faith) and do not lead us astray after his death.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ح وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، – وَحَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَتَمُّ – حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جُنَاحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ فِي ذِمَّتِكَ فَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ ” . قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ” فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِ اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ” . قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ جُنَاحٍ .
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے : «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك فقه فتنة القبر» ” اے اللہ ! فلاں کا بیٹا فلاں تیری امان و پناہ میں ہے تو اسے قبر کے فتنہ ( عذاب ) سے بچا لے “ ۔ عبدالرحمٰن کی روایت میں : «في ذمتك» کے بعد عبارت اس طرح ہے : «وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحمد اللهم فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم» ” اے اللہ ! وہ تیری امان میں ہے ، اور تیری حفاظت میں ہے ، تو اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا لے ، تو وعدہ وفا کرنے والا اور لائق ستائش ہے ، اے اللہ ! تو اسے بخش دے ، اس پر رحم فرما ، تو بہت بخشنے والا ، اور رحم فرمانے والا ہے “ ۔
Narrated Wathilah ibn al-Asqa’:
The Messenger of Allah (ﷺ) led us in prayer over bier of a Muslim and I heard him say: O Allah, so and so, son of so and so, is in Thy protection, so guard him from the trial in the grave. (AbdurRahman in his version said: “In Thy protection and in Thy nearer presence, so guard him from the trial in the grave) and the punishment in Hell. Thou art faithful and worthy of praise. O Allah, forgive him and show him mercy. Thou art the forgiving and the merciful one.” AbdurRahman said: “On the authority of Marwan ibn Janah.”
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةً، سَوْدَاءَ أَوْ رَجُلاً كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَ عَنْهُ فَقِيلَ مَاتَ . فَقَالَ ” أَلاَّ آذَنْتُمُونِي بِهِ ” . قَالَ ” دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ ” . فَدَلُّوهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا ، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی ؟ “ آپ نے فرمایا : ” مجھے اس کی قبر بتاؤ “ ، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ( حبشہ کا بادشاہ ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے ، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز ( جنازہ ) پڑھی ۲؎ ۔