۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

Tricks

Markazi Anjuman Khuddam ul Quran Lahore

1

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَخْطُبُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لاِمْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ هَاجَرَ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے ، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے بیان کیا کہمیں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے خطبہ میں سنا انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا اے لوگو ! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اسے ہجرت ( کا ثواب ملے گا ) اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا ہو گی کہ جسے وہ حاصل کر لے یا کوئی عورت ہو گی جس سے وہ شادی کر لے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے ۔

Narrated `Umar bin Al-Khattab:

The Prophet (ﷺ) said, ‘O people! The reward of deeds depends upon the intentions, and every person will get the reward according to what he has intended. So, whoever emigrated for Allah and His Apostle, then his emigration was for Allah and His Apostle, and whoever emigrated to take worldly benefit or for a woman to marry, then his emigration was for what he emigrated for.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 85


10

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ النَّجْشِ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش سے منع فرمایا ۔

Narrated Ibn `Umar:

Allah’s Messenger (ﷺ) forbade the practice of An-Najsh.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 93


11

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ يُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ فَقَالَ ‏ “‏ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لاَ خِلاَبَةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ خریدوفروخت میں دھوکہ کھاجاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کچھ خریدا کرو تو کہہ دیا کرو کہ اس میں کوئی دھوکہ نہ ہونا چاہئے ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

A man mentioned to the Prophet (ﷺ) that he had always been cheated in bargains. The Prophet (ﷺ) said, “Whenever you do bargain, say, ‘No cheating.'”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 94


12

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ كَانَ عُرْوَةُ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ‏}‏‏.‏ قَالَتْ هِيَ الْيَتِيمَةُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا، فَيَرْغَبُ فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا، فَيُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ نِسَائِهَا، فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ، إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ فِي إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، ثُمَّ اسْتَفْتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ‏}‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ‏.‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے کہ عروہ ان سے بیان کرتے تھے کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت ” اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں “ آپ نے کہا کہ اس آیت میں ایسی یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ولی لڑکی کے مال اور اس کے حسن سے رغبت رکھتا ہو اور چاہتا ہو کہ عورتوں ( کے مہر وغیرہ کے متعلق ) جو سب سے معمولی طریقہ ہے اس کے مطابق اس سے نکاح کرے تو ایسے ولیوں کو ان لڑکیوں کے نکاح سے منع کیا گیا ہے ۔ سوا اس صورت کے کہ ولی مہر کو پورا کرنے میں انصاف سے کام لے ۔ پھر لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بعد مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ويستفتونك في النساء ‏ اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ پوچھتے ہیں “ اور اس واقعہ کا ذکر کیا ۔

Narrated `Urwa:

That he asked `Aisha regarding the Verse: ‘If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls, marry (other) women of your choice.’ (4.3) `Aisha said, “It is about an orphan girl under the custody of her guardian who being attracted by her wealth and beauty wants to marry her with Mahr less than other women of her status. So such guardians were forbidden to marry them unless they treat them justly by giving them their full Mahr. Then the people sought the verdict of Allah’s Apostle for such cases, whereupon Allah revealed: ‘They ask your instruction concerning women..’ (4.127) (The sub-narrator then mentioned the Hadith.)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 95


13

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن دینار نے ، اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar:

The Prophet (ﷺ) said, “For every betrayer there will be a flag by which he will be recognized on the Day of Resurrection. ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 96


14

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلاَ يَأْخُذْ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے ، ان سے ہشام نے ، ان سے عروہ نے ، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں ۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے ، میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے ۔ کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں ۔

Narrated Um Salama:

The Prophet (ﷺ) said, “I am only a human being, and you people have disputes. May be some one amongst you can present his case in a more eloquent and convincing manner than the other, and I give my judgment in his favor according to what I hear. Beware! If ever I give (by error) somebody something of his brother’s right then he should not take it as I have only, given him a piece of Fire.” (See Hadith No. 638. Vol. 3)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 97


15

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَلاَ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ ‏”‏‏.‏ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ ‏”‏ إِذَا سَكَتَتْ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ لَمْ تُسْتَأْذَنِ الْبِكْرُ وَلَمْ تَزَوَّجْ‏.‏ فَاحْتَالَ رَجُلٌ فَأَقَامَ شَاهِدَىْ زُورٍ أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا بِرِضَاهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّ الشَّهَادَةَ بَاطِلَةٌ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَطَأَهَا، وَهْوَ تَزْوِيجٌ صَحِيحٌ‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ اس کی ( کنواری کی ) اجازت کی کیا صورت ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی اجازت ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے نکاح کیا ۔ لیکن کسی شخص نے حیلہ کر کے دو جھوٹے گواہ کھڑے کر دئیے کہ اس نے لڑکی سے نکاح کیا ہے اس کی مرضی سے اور قاضی نے بھی اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا ۔ حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے کہ گواہی جھوٹی تھی اس کے باوجود اس لڑکی سے صحبت کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ نکاح صحیح ہو گا ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “A virgin should not be married till she is asked for her consent; and the matron should not be married till she is asked whether she agrees to marry or not.” It was asked, “O Allah’s Apostle! How will she (the virgin) express her consent?” He said, “By keeping silent.” Some people said that if a virgin is not asked for her consent and she is not married, and then a man, by playing a trick presents two false witnesses that he has married her with her consent and the judge confirms his marriage as a true one, and the husband knows that the witnesses were false ones, then there is no harm for him to consummate his marriage with her and the marriage is regarded as valid.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 98


16

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ امْرَأَةً، مِنْ وَلَدِ جَعْفَرٍ تَخَوَّفَتْ أَنْ يُزَوِّجَهَا وَلِيُّهَا وَهْىَ كَارِهَةٌ فَأَرْسَلَتْ إِلَى شَيْخَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُجَمِّعٍ ابْنَىْ جَارِيَةَ قَالاَ فَلاَ تَخْشَيْنَ، فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهْىَ كَارِهَةٌ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ذَلِكَ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ وَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ عَنْ أَبِيهِ إِنَّ خَنْسَاءَ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے قاسم نے کہجعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی ( جن کی وہ زیرپرورش تھیں ) ان کا نکاح کر دے گا ۔ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمٰن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے کہلا بھیجا انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں ۔ کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا ۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن کو اپنے والد سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہا آخر حدیث تک بیان کیا ۔

Narrated Al-Qasim:

A woman from the offspring of Ja`far was afraid lest her guardian marry her (to somebody) against her will. So she sent for two elderly men from the Ansar, `AbdurRahman and Mujammi’, the two sons of Jariya, and they said to her, “Don’t be afraid, for Khansa’ bint Khidam was given by her father in marriage against her will, then the Prophet (ﷺ) cancelled that marriage.” (See Hadith No. 78)

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 99


17

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ‏”‏‏.‏ قَالُوا كَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ ‏”‏ أَنْ تَسْكُتَ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ احْتَالَ إِنْسَانٌ بِشَاهِدَىْ زُورٍ عَلَى تَزْوِيجِ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ بِأَمْرِهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا إِيَّاهُ، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَتَزَوَّجْهَا قَطُّ، فَإِنَّهُ يَسَعُهُ هَذَا النِّكَاحُ، وَلاَ بَأْسَ بِالْمُقَامِ لَهُ مَعَهَا‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے ابوسلمہ نے ، اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بیوہ سے اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے اور کسی کنواری سے اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے ۔ صحابہ نے پوچھا اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ یہ کہ وہ خاموش ہو جائے ۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہاگر کسی شخص نے دو جھوٹے گواہوں کے ذریعہ حیلہ کیا ( اور یہ جھوٹ گھڑا ) کہ کسی بیوہ عورت سے اس نے اس کی اجازت سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے بھی اس مرد سے اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا جبکہ اس مرد کو خوب خبر ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے تو یہ نکاح جائز ہے اور اس کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنا جائز ہو جائے گا ۔

Narrated Abu Haraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “A lady slave should not be given in marriage until she is consulted, and a virgin should not be given in marriage until her permission is granted.” The people said, “How will she express her permission?” The Prophet (ﷺ) said, “By keeping silent (when asked her consent).” Some people said, “If a man, by playing a trick, presents two false witnesses before the judge to testify that he has married a matron with her consent and the judge confirms his marriage, and the husband is sure that he has never married her (before), then such a marriage will be considered as a legal one and he may live with her as husband.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 100


18

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحْيِي قَالَ ‏”‏ إِذْنُهَا صُمَاتُهَا ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ هَوِيَ رَجُلٌ جَارِيَةً يَتِيمَةً أَوْ بِكْرًا، فَأَبَتْ فَاحْتَالَ فَجَاءَ بِشَاهِدَىْ زُورٍ عَلَى أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا، فَأَدْرَكَتْ فَرَضِيَتِ الْيَتِيمَةُ، فَقَبِلَ الْقَاضِي شَهَادَةَ الزُّورِ، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ بِبُطْلاَنِ ذَلِكَ، حَلَّ لَهُ الْوَطْءُ‏.‏

ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ، ان سے ابن جریج نے ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے ، ان سے ذکوان نے ، اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی ۔ میں نے پوچھا کہ کنواری لڑکی شرمائے گی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے ۔  اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر کسی یتیم لڑکی یا کنواری لڑکی سے نکاح کا خواہشمند ہو ۔ لیکن لڑکی راضی نہ ہو اس پر اس نے حیلہ کیا اور دو جھوٹے گواہوں کی گواہی اس کی دلائی کہ اس نے لڑکی سے شادی کر لی ہے پھر جب وہ لڑکی جوان ہوئی اور اس نکاح سے وہ بھی راضی ہو گئی اور قاضی نے اس جھوٹی شہادت کو قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سارا ہی جھوٹ اور فریب ہے ۔ تب بھی اس سے جماع کرنا جائز ہے ۔

Narrated `Aisha:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “It is essential to have the consent of a virgin (for the marriage). I said, “A virgin feels shy.” The Prophet; said, “Her silence means her consent.” Some people said, “If a man falls in love with an orphan slave girl or a virgin and she refuses (him) and then he makes a trick by bringing two false witnesses to testify that he has married her, and then she attains the age of puberty and agrees to marry him and the judge accepts the false witness and the husband knows that the witnesses were false ones, he may consummate his marriage.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 101


19

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ فَقِيلَ لِي أَهْدَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْهُ شَرْبَةً‏.‏ فَقُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ‏.‏ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ قُلْتُ إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ فَقُولِي لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لاَ‏.‏ فَقُولِي لَهُ مَا هَذِهِ الرِّيحُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدُ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ‏.‏ فَقُولِي لَهُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ‏.‏ وَسَأَقُولُ ذَلِكَ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قُلْتُ تَقُولُ سَوْدَةُ وَالَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ قَالَ ‏”‏ سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَىَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ‏.‏ وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَسْقِيكَ مِنْهُ قَالَ ‏”‏ لاَ حَاجَةَ لِي بِهِ ‏”‏‏.‏ قَالَتْ تَقُولُ سَوْدَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ‏.‏ قَالَتْ قُلْتُ لَهَا اسْكُتِي‏.‏

ہم سے عبیدبن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ ( یعنی میٹھی چیز ) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے ( ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے ) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا ۔ میں نے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا ۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب آنحضرت آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں ۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا ۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی آنحضرت سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آنحضرت سے یہ کہنا چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے ۔ آخر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا ۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں ۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا ۔ میں نے کہا چپ رہو ۔

Narrated `Aisha:

Allah’s Messenger (ﷺ) used to like sweets and also used to like honey, and whenever he finished the `Asr prayer, he used to visit his wives and stay with them. Once he visited Hafsa and remained with her longer than the period he used to stay, so I enquired about it. It was said to me, “A woman from her tribe gave her a leather skin containing honey as a present, and she gave some of it to Allah’s Messenger (ﷺ) to drink.” I said, “By Allah, we will play a trick on him.” So I mentioned the story to Sauda (the wife of the Prophet) and said to her, “When he enters upon you, he will come near to you whereupon you should say to him, ‘O Allah’s Messenger (ﷺ)! Have you eaten Maghafir?’ He will say, ‘No.’ Then you say to him, ‘What is this bad smell? ‘ And it would be very hard on Allah’s Messenger (ﷺ) that a bad smell should be found on his body. He will say, ‘Hafsa has given me a drink of honey.’ Then you should say to him, ‘Its bees must have sucked from the Al-`Urfut (a foul smelling flower).’ I too, will tell him the same. And you, O Saifya, say the same.” So when the Prophet (ﷺ) entered upon Sauda (the following happened). Sauda said, “By Him except Whom none has the right to be worshipped, I was about to say to him what you had told me to say while he was still at the gate because of fear from you. But when Allah ‘s Apostle came near to me, I said to him, ‘O Allah’s Messenger (ﷺ)! Have you eaten Maghafir?’ He replied, ‘No.’ I said, ‘What about this smell?’ He said, ‘Hafsa has given me a drink of honey.’ I said, ‘Its bees must have sucked Al-`Urfut.’ ” When he entered upon me, I told him the same as that, and when he entered upon Safiya, she too told him the same. So when he visited Hafsa again, she said to him, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Shall I give you a drink of it (honey)?” He said, “I have no desire for it.” Sauda said, Subhan Allah! We have deprived him of it (honey).” I said to her, “Be quiet!”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 102


2

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاَةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ‏”‏‏.‏

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے ہمام نے ، ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے وضو کی ضرورت ہو یہاں تک کہ وہ وضو کر لے ۔

Narrated Abu Huraira:

The Prophet (ﷺ) said, “Allah does not accept prayer of anyone of you if he does Hadath (passes wind) till he performs the ablution (anew).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 86


20

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، فَلَمَّا جَاءَ بِسَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَاءَ وَقَعَ بِالشَّأْمِ فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِذَا سَمِعْتُمْ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ‏”‏‏.‏ فَرَجَعَ عُمَرُ مِنْ سَرْغَ‏.‏ وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ إِنَّمَا انْصَرَفَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبداللہ ابن عامر بن ربیعہ نے کہحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ( سنہ 18 ھ ماہ ربیع الثانی میں ) شام تشریف لے گئے ۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو ان کو یہ خبرملی کہ شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے ۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ کسی سرزمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس میں داخل مت ہو ، لیکن اگر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو وبا سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقام سرغ سے واپس آ گئے ۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے ، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر واپس ہو گئے تھے ۔

Narrated `Abdullah bin ‘Amir bin Rabi`a:

`Umar bin Al-Khattab left for Sham, and when he reached a placed called Sargh, he came to know that there was an outbreak of an epidemic (of plague) in Sham. Then `AbdurRahman bin `Auf told him that Allah’s Messenger (ﷺ) said, “If you hear the news of an outbreak of an epidemic (plague) in a certain place, do not enter that place: and if the epidemic falls in a place while you are present in it, do not leave that place to escape from the epidemic.” So `Umar returned from Sargh.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 103


21

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، يُحَدِّثُ سَعْدًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَ الْوَجَعَ فَقَالَ ‏ “‏ رِجْزٌ ـ أَوْ عَذَابٌ ـ عُذِّبَ بِهِ بَعْضُ الأُمَمِ، ثُمَّ بَقِيَ مِنْهُ بَقِيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الْمَرَّةَ وَيَأْتِي الأُخْرَى، فَمَنْ سَمِعَ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ يَقْدَمَنَّ عَلَيْهِ، وَمَنْ كَانَ بِأَرْضٍ وَقَعَ بِهَا فَلاَ يَخْرُجْ فِرَارًا مِنْهُ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عامر ابن سعد بن ابی وقاص نے کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کر رہے تھے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا اس کے بعد ا سکا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس آتاجا ہے ۔ پس جو شخص کسی سرزمین پر اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے لیکن اگر کوئی کسی جگہ ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں ۔

Narrated ‘Amir bin Sa`d bin Abi Waqqas:

That he heard Usama bin Zaid speaking to Sa`d, saying, “Allah’s Messenger (ﷺ) mentioned the plague and said, ‘It is a means of punishment with which some nations were punished and some of it has remained, and it appears now and then. So whoever hears that there is an outbreak of plague in some land, he should not go to that land, and if the plague breaks out in the land where one is already present, one should not run away from that land, escaping from the plague.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 104


22

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ، لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے ‘ ہمارے لیے بری مثال مناسب نہیں ۔

Narrated Ibn `Abbas:

The Prophet (ﷺ) said, “The one who takes back his gift is like a dog swallowing its own vomit, and we (believers) should not act according to this bad example.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 105


23

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ الشُّفْعَةُ لِلْجِوَارِ‏.‏ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى مَا شَدَّدَهُ فَأَبْطَلَهُ، وَقَالَ إِنِ اشْتَرَى دَارًا فَخَافَ أَنْ يَأْخُذَ الْجَارُ بِالشُّفْعَةِ، فَاشْتَرَى سَهْمًا مِنْ مِائَةِ سَهْمٍ، ثُمَّ اشْتَرَى الْبَاقِيَ، وَكَانَ لِلْجَارِ الشُّفْعَةُ فِي السَّهْمِ الأَوَّلِ، وَلاَ شُفْعَةَ لَهُ فِي بَاقِي الدَّارِ، وَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ فِي ذَلِكَ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکتی ہو ۔ پس جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ۔  اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ اس کا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر اس سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہو گا ۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہو گا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) has decreed that preemption is valid in all cases where the real estate concerned has not been divided, but if the boundaries are established and the ways are made, then there is no preemption. A man said, “Preemption is only for the neighbor,” and then he makes invalid what he has confirmed. He said, “If someone wants to buy a house and being afraid that the neighbor (of the house) may buy it through preemption, he buys one share out of one hundred shares of the house and then buys the rest of the house, then the neighbor can only have the right of preemption for the first share but not for the rest of the house; and the buyer may play such a trick in this case.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 106


24

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ جَاءَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَى سَعْدٍ فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ لِلْمِسْوَرِ أَلاَ تَأْمُرُ هَذَا أَنْ يَشْتَرِيَ مِنِّي بَيْتِي الَّذِي فِي دَارِي‏.‏ فَقَالَ لاَ أَزِيدُهُ عَلَى أَرْبَعِمِائَةٍ، إِمَّا مُقَطَّعَةٍ وَإِمَّا مُنَجَّمَةٍ‏.‏ قَالَ أُعْطِيتُ خَمْسَمِائَةٍ نَقْدًا، فَمَنَعْتُهُ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ‏”‏‏.‏ مَا بِعْتُكَهُ أَوْ قَالَ مَا أَعْطَيْتُكَهُ‏.‏ قُلْتُ لِسُفْيَانَ إِنَّ مَعْمَرًا لَمْ يَقُلْ هَكَذَا‏.‏ قَالَ لَكِنَّهُ قَالَ لِي هَكَذَا‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبِيعَ الشُّفْعَةَ فَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ فَيَهَبُ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي الدَّارَ، وَيَحُدُّهَا وَيَدْفَعُهَا إِلَيْهِ، وَيُعَوِّضُهُ الْمُشْتَرِي أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلاَ يَكُونُ لِلشَّفِيعِ فِيهَا شُفْعَةٌ‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن الشرید سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہمسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر میں ان کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو ابورافع نے اس پر کہا کہ اس کا چار سو سے زیادہ میں نہیں دے سکتا اور وہ بھی قسطوں میں دوں گا ۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے اور میں نے انکار کر دیا ۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ بیچتا ۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے اس پر پوچھا کہ معمر نے اس طرح نہیں بیان کیا ہے ۔ سفیان نے کہا کہ لیکن مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی ۔  اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ شفیع کو حق شفعہ نہ دے تو اسے حیلہ کرنے کی اجازت ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک خریدار کو وہ جائیداد ہبہ کر دے پھر خریدار یعنی موہوب لہ اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائیداد کو ہزار درہم مثلاً ہبہ کر دے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا حق نہ رہے گا ۔

Narrated ‘Amr bin Ash-Sharid:

Al-Miswar bin Makhrama came and put his hand on my shoulder and I accompanied him to Sa’d. Abu Rafi’ said to Al-Miswar, “Won’t you order this (i.e. Sa’d) to buy my house which is in my yard?” Sa’d said, “I will not offer more than four hundred in installments over a fixed period.” Abu Rafi said, “I was offered five hundred cash but I refused. Had I not heard the Prophet (ﷺ) saying, ‘A neighbor is more entitled to receive the care of his neighbor,’ I would not have sold it to you.” The narrator said, to Sufyan: Ma’mar did not say so. Sufyan said, “But he did say so to me.” Some people said, “If someone wants to sell a house and deprived somebody of the right of preemption, he has the right to play a trick to render the preemption invalid. And that is by giving the house to the buyer as a present and marking its boundaries and giving it to him. The buyer then gives the seller one-thousand Dirham as compensation in which case the preemptor loses his right of preemption.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 107


25

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ سَعْدًا، سَاوَمَهُ بَيْتًا بِأَرْبَعِمِائَةِ مِثْقَالٍ فَقَالَ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ‏”‏‏.‏ لَمَا أَعْطَيْتُكَ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ اشْتَرَى نَصِيبَ دَارٍ، فَأَرَادَ أَنْ يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ، وَهَبَ لاِبْنِهِ الصَّغِيرِ وَلاَ يَكُونُ عَلَيْهِ يَمِينٌ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن شرید نے ، ان سے ابورافع نے کہحضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے ایک گھر کی چار سو مثقال قیمت لگائی تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ دیتا ۔  اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی گھر کا حصہ خریدا اور چاہا کہ اس کا حق شفہ باطل کر دے تو اسے اس گھر کو اپنے چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینا چاہیے ۔ اب نابالغ پر قسم بھی نہیں ہو گی ۔

Narrated ‘Amr bin Ash-Sharid:

Abu Rafi’ said that Sa’d offered him four hundred Mithqal of gold for a house. Abu Rafi ‘ said, “If I had not heard Allah’s Messenger (ﷺ) saying, ‘A neighbor has more right to be taken care of by his neighbor,’ then I would not have given it to you.” Some people said, “If one has bought a portion of a house and wants to cancel the right of preemption, he may give it as a present to his little son and he will not be obliged to take an oath.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 107


26

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ اللُّتَبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ قَالَ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَهَلاَّ جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ، حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ‏”‏‏.‏ ثُمَّ خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلاَّنِي اللَّهُ، فَيَأْتِي فَيَقُولُ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي‏.‏ أَفَلاَ جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ، وَاللَّهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ، إِلاَّ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبْطِهِ يَقُولُ ‏”‏ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ‏”‏‏.‏ بَصْرَ عَيْنِي وَسَمْعَ أُذُنِي‏.‏

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے عامل بنایا ان کا نام ابن اللتیبہ تھا پھر جب یہ عامل واپس آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حساب لیا ‘ اس نے سر کاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کی نسبت کہنے لگا کہ یہ ( مجھے ) تحفہ میں ملا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا پھر کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے اگر تم سچے ہو تو وہیں یہ تحفہ تمہارے پاس آ جاتا ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا امابعد ! میں تم میں سے کسی ایک کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے پھر وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا تھا ۔ اسے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہنا چاہئیے تھا تاکہ اس کا تحفہ وہیں پہنچ جاتا ۔ اللہ کی قسم تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہو گا بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھائے ہو گا جو بلبلا رہا ہو گا یا گائے اٹھائے ہو گا جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی یا بکری اٹھائے ہو گا جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا اے اللہ رضی اللہ عنہ کیا میں نے پہنچا دیا ۔ یہ فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں سے سنا ۔

Narrated Abu Humaid As-Sa`idi:

Allah’s Messenger (ﷺ) appointed a man called Ibn Al-Lutabiyya to collect the Zakat from Bani Sulaim’s tribe. When he returned, the Prophet (ﷺ) called him to account. He said (to the Prophet, ‘This is your money, and this has been given to me as a gift.” On that, Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Why didn’t you stay in your father’s and mother’s house to see whether you will be given gifts or not if you are telling the truth?” Then the Prophet (ﷺ) addressed us, and after praising and glorifying Allah, he said: “Amma Ba’du”, I employ a man from among you to manage some affair of what Allah has put under my custody, and then he comes to me and says, ‘This is your money and this has been given to me as a gift. Why didn’t he stay in his father’s and mother’s home to see whether he will be given gifts or not? By Allah, not anyone of you takes a thing unlawfully but he will meet Allah on the Day of Resurrection, carrying that thing. I do not want to see any of you carrying a grunting camel or a mooing cow or a bleating sheep on meeting Allah.” Then the Prophet (ﷺ) raised both his hands till the whiteness of his armpits became visible, and he said, “O Allah! Haven’t I have conveyed (Your Message)?” The narrator added: My eyes witnessed and my ears heard (that Hadith).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 108


27

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ اشْتَرَى دَارًا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يَشْتَرِيَ الدَّارَ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَيَنْقُدَهُ تِسْعَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَمِائَةَ دِرْهَمٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَيَنْقُدَهُ دِينَارًا بِمَا بَقِيَ مِنَ الْعِشْرِينَ الأَلْفَ، فَإِنْ طَلَبَ الشَّفِيعُ أَخَذَهَا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَإِلاَّ فَلاَ سَبِيلَ لَهُ عَلَى الدَّارِ، فَإِنِ اسْتُحِقَّتِ الدَّارُ، رَجَعَ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِمَا دَفَعَ إِلَيْهِ، وَهْوَ تِسْعَةُ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَتِسْعُمِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ، لأَنَّ الْبَيْعَ حِينَ اسْتُحِقَّ انْتَقَضَ الصَّرْفُ فِي الدِّينَارِ، فَإِنْ وَجَدَ بِهَذِهِ الدَّارِ عَيْبًا وَلَمْ تُسْتَحَقَّ، فَإِنَّهُ يَرُدُّهَا عَلَيْهِ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ‏.‏ قَالَ فَأَجَازَ هَذَا الْخِدَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ دَاءَ وَلاَ خِبْثَةَ وَلاَ غَائِلَةَ ‏”‏‏.‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے ‘ ان سے عمرو بن شرید نے اور ان سے حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حقدار ہے ۔  اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی شخص نے ایک گھر بیس ہزار درہم کا خریدا ( تو شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے ) یہ حیلہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مالک مکان کو نو ہراز نو سو ننانوے درہم نقد ادا کرے اب بیس ہزار کے تکملہ میں جو باقی رہے یعنی دس ہزار اور ایک درہم اس کے بدل مالک مکان کو ایک دینار ( اشرفی ) دیدے ۔ اس صورت میں اگر شفیع اس مکان کو لینا چاہے گا تو اس کو بیس ہزار درہم پر لینا ہو گا ورنہ وہ اس گھر کو نہیں لے سکتا ۔ ایسی صورت میں اگر بیع کے بعد یہ گھر ( بائع کے سوا ) اور کسی کا نکلا تو خریدار بائع سے وہی قیمت واپس لے گا جو اس نے دی ہے یعنی نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار ( بیس ہزار دہم نہیں واپس سکتا ) کیونکہ جب وہ گھر کسی اور کا نکلا تو اب وہ بیع صرف جو بائع اور مشتری کے بیچ میں ہو گئی تھی بالکل باطل ہو گئی ( تو اصل دینار پھر نا لازم ہو گا نہ کہ اس کے ثمن ( یعنی دس ہزرا اور ایک درہم ) اگر اس گھر میں کوئی عیب نکلا لیکن وہ بائع کے سوا کسی اور کی ملک نہیں نکلا تو خریدار اس گھر کو بائع کو واپس اور بیس ہزار درہم اس سے لے سکتا ہے ۔ حضرت امام بخاری نے کہا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکروفریب کو جائز رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے مسلمان کی بیع میں جو مسلمان کے ساتھ ہو نہ عیب ہونا چاہئیے ( بیماری ) نہ خباثت نہ کوئی آفت ۔

Narrated Abu Rafi`:

The Prophet (ﷺ) said, “The neighbor has more right to be taken care of by his neighbor (than anyone else).” Some men said, “If one wants to buy a house for 20,000 Dirhams then there is no harm to play a trick to deprive somebody of preemption by buying it (just on paper) with 20,000 Dirhams but paying to the seller only 9,999 Dirhams in cash and then agree with the seller to pay only one Dinar in cash for the rest of the price (i.e. 10,001 Dirhams). If the preemptor offers 20,000 Dirhams for the house, he can buy it otherwise he has no right to buy it (by this trick he got out of preemption). If the house proves to belong to somebody else other than the seller, the buyer should take back from the seller what he has paid, i.e., 9,999 Dirhams and one Dinar, because if the house proves to belong to somebody else, so the whole bargain (deal) is unlawful. If the buyer finds a defect in the house and it does not belong to somebody other than the seller, the buyer may return it and receive 20,000 Dirhams (instead of 9999 Dirham plus one Dinar) which he actually paid.’ Abu `Abdullah said, “So that man allows (some people) the playing of tricks amongst the Muslims (although) the Prophet (ﷺ) said, ‘In dealing with Muslims one should not sell them sick (animals) or bad things or stolen things.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 109


28

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ، سَاوَمَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ بَيْتًا بِأَرْبَعِمِائَةِ مِثْقَالٍ وَقَالَ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ‏”‏‏.‏ مَا أَعْطَيْتُكَ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن شرید نے کہابورافع رضی اللہ عنہ نے سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو ایک گھر چار سو مثقال میں بیچا اور کہا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی حق پڑوس کا زیادہ حقدار ہے تو میں آپ کو یہ گھر نہ دیتا ( اور کسی کے ہاتھ بیچ ڈالتا ) ۔

Narrated `Amr bin Ash-Sharid:

Abu Rafi` sold a house to Sa`d bin Malik for four-hundred Mithqal of gold, and said, “If I had not heard the Prophet (ﷺ) saying, ‘The neighbor has more right to be taken care of by his neighbor (than anyone else),’ then I would not have sold it to you.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 110


3

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَ لَهُ فَرِيضَةَ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ وَلاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن عبداللہ الانصاری نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ، اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ( زکوٰۃ ) کا حکم نامہ لکھ کر بھیجا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا تھا کہ متفرق صدقہ کو ایک جگہ جمع نہ کیا جائے اور نہ مجتمع صدقہ کو متفرق کیا جائے زکوٰۃ کے خوف سے ۔

Narrated Anas:

That Abu Bakr wrote for him, Zakat regulations which Allah’s Messenger (ﷺ) had made compulsory, and wrote that one should neither collect various portions (of the property) nor divide the property into various portions in order to avoid paying Zakat.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 87


4

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَائِرَ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الصَّلاَةِ فَقَالَ ‏”‏ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ شَيْئًا ‏”‏‏.‏ فَقَالَ أَخْبِرْنِي بِمَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الصِّيَامِ قَالَ ‏”‏ شَهْرَ رَمَضَانَ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ شَيْئًا ‏”‏‏.‏ قَالَ أَخْبِرْنِي بِمَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الزَّكَاةِ قَالَ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَرَائِعَ الإِسْلاَمِ‏.‏ قَالَ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لاَ أَتَطَوَّعُ شَيْئًا وَلاَ أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ شَيْئًا‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ ‏”‏‏.‏ أَوْ ‏”‏ دَخَلَ الْجَنَّةَ إِنْ صَدَقَ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ فِي عِشْرِينَ وَمِائَةِ بَعِيرٍ حِقَّتَانِ‏.‏ فَإِنْ أَهْلَكَهَا مُتَعَمِّدًا، أَوْ وَهَبَهَا أَوِ احْتَالَ فِيهَا فِرَارًا مِنَ الزَّكَاةِ، فَلاَ شَىْءَ عَلَيْهِ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے ابوسہیل نافع نے ، ان سے ان کے والد مالک بن ابی عامر نے ، اور ان سے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہایک دیہاتی ( تمام بن ثعلبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے سر کے بال پراگندہ تھے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں ۔ سوا ان نمازوں کے جو تم نفلی پڑھو ۔ اس نے کہا مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے روزے فرض کئے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے روزے سوا ان کے جو تم نفلی رکھو ۔ اس نے پوچھا مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کتنی فرض کی ہے ؟ بیان کیا کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے مسائل بیان کئے ۔ پھر اس دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ عزت بخشی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کیا ہے اس میں نہ میں کسی قسم کی زیادتی کروں گا اور نہ کمی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں جائے گا اور بعض لوگوں نے کہا کہ ایک سو بیس اونٹوں میں دو حصے تین تین برس کی دو اونٹنیاں جو چوتھے برس میں لگی ہوں زکوٰۃ میں لازم آتی ہیں پس مگر کسی نے ان اونٹوں کو عمداً تلف کر ڈالا ( مثلاً ذبح کر دیا ) اور کوئی حیلہ کیا تو اس کے اوپر سے زکوٰۃ ساقط ہو گی ۔

Narrated Talha bin ‘Ubaidullah:

A bedouin with unkempt hair came to Allah’s Messenger (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Tell me what Allah has enjoined on me as regards prayers.” The Prophet (ﷺ) said, “You have to offer perfectly the five (compulsory) prayers in a day and a night (24 hrs.), except if you want to perform some extra optional prayers.” The bedouin said, “Tell me what Allah has enjoined on me as regards fasting.” The Prophet (ﷺ) said, “You have to observe fast during the month of Ramadan except if you fast some extra optional fast.” The bedouin said, “Tell me what Allah has enjoined on me as regard Zakat.” The Prophet (ﷺ) then told him the Islamic laws and regulations whereupon the bedouin said, “By Him Who has honored you, I will not perform any optional deeds of worship and I will not leave anything of what Allah has enjoined on me.” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “He will be successful if he has told the truth (or he will enter Paradise if he said the truth).” And some people said, “The Zakat for one-hundred and twenty camels is two Hiqqas, and if the Zakat payer slaughters the camels intentionally or gives them as a present or plays some other trick in order to avoid the Zakat, then there is no harm (in it) for him.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 88


5

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يَكُونُ كَنْزُ أَحَدِكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، يَفِرُّ مِنْهُ صَاحِبُهُ فَيَطْلُبُهُ وَيَقُولُ أَنَا كَنْزُكَ‏.‏ قَالَ وَاللَّهِ لَنْ يَزَالَ يَطْلُبُهُ حَتَّى يَبْسُطَ يَدَهُ فَيُلْقِمَهَا فَاهُ ‏”‏‏.‏ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ إِذَا مَا رَبُّ النَّعَمِ لَمْ يُعْطِ حَقَّهَا، تُسَلَّطُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، تَخْبِطُ وَجْهَهُ بِأَخْفَافِهَا ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ فِي رَجُلٍ لَهُ إِبِلٌ، فَخَافَ أَنْ تَجِبَ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ، فَبَاعَهَا بِإِبِلٍ مِثْلِهَا، أَوْ بِغَنَمٍ، أَوْ بِبَقَرٍ، أَوْ بِدَرَاهِمَ، فِرَارًا مِنَ الصَّدَقَةِ بِيَوْمٍ، احْتِيَالاً فَلاَ بَأْسَ عَلَيْهِ، وَهْوَ يَقُولُ إِنْ زَكَّى إِبِلَهُ قَبْلَ أَنْ يَحُولَ الْحَوْلُ بِيَوْمٍ أَوْ بِسَنَةٍ، جَازَتْ عَنْهُ‏.‏

مجھ سے اسحاق نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا ، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن تم میں سے کسی کا خزانہ چتکبرا اژدھابن کر آئے گا اس کا مالک اس سے بھاگے گا لیکن وہ اسے تلاش کر رہا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا خزانہ ہوں ۔ فرمایا واللہ وہ مسلسل تلاش کرتا رہے گا یہاں تک کہ وہ شخص اپنا ہاتھ پھیلادے گا اور اژدھا اسے لقمہ بنائے گا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہو گا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کردےئے جائیں گے اور وہ اپنی کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے ۔  اور بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر ایک شخص کے پاس اونٹ ہیں اور اسے خطرہ ہے کہ زکوٰۃ اس پر واجب ہو جائے گی اور اس لیے وہ کسی دن زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کے طور پر اسی جیسے اونٹ یا بکری یا گائے یا دراہم کے بدلے میں بیچ دے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اونٹ کی زکوٰۃ سال پورے ہونے سے ایک دن یا ایک سال پہلے دیدے تو زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے ۔

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “On the Day of Resurrection the Kanz (Treasure or wealth of which, Zakat has not been paid) of anyone of you will appear in the shape of a huge bald headed poisonous male snake and its owner will run away from it, but it will follow him and say, ‘I am your Kanz.'” The Prophet (ﷺ) added, “By Allah, that snake will keep on following him until he stretches out his hand and let the snake swallow it.” Allah’s Messenger (ﷺ) added, “If the owner of camels does not pay their Zakat, then, on the Day of Resurrection those camels will come to him and will strike his face with their hooves.” Some people said: Concerning a man who has camels, and is afraid that Zakat will be due so he sells those camels for similar camels or for sheep or cows or money one day before Zakat becomes due in order to avoid payment of their Zakat cunningly! “He has not to pay anything.” The same scholar said, “If one pays Zakat of his camels one day or one year prior to the end of the year (by the end of which Zakat becomes due), his Zakat will be valid.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 89


6

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ اسْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ الأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، تُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ اقْضِهِ عَنْهَا ‏”‏‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِذَا بَلَغَتِ الإِبِلُ عِشْرِينَ، فَفِيهَا أَرْبَعُ شِيَاهٍ، فَإِنْ وَهَبَهَا قَبْلَ الْحَوْلِ أَوْ بَاعَهَا، فِرَارًا وَاحْتِيَالاً لإِسْقَاطِ الزَّكَاةِ، فَلاَ شَىْءَ عَلَيْهِ، وَكَذَلِكَ إِنْ أَتْلَفَهَا فَمَاتَ، فَلاَ شَىْءَ فِي مَالِهِ‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عتبہ نے ، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہسعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں سوال کیا جو ان کی والدہ پر تھی اور ان کی وفات نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ہو گئی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ان کی طرف سے پوری کر ۔  اس کے باوجود بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب اونٹ کی تعداد بیس ہو جائے تو اس میں چار بکریاں لازم ہیں ۔ پس اگر سال پورا ہونے سے پہلے اونٹ کو ہبہ کر دے یا اسے بیچ دے ۔ زکوٰۃ سے بچنے یا حیلہ کے طور پر تاکہ زکوٰۃ اس پر ختم ہو جائے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی ۔ یہی حال اس صورت میں ہے اگر اس نے ضائع کر دیا اور پھر مرگیا تو اس کے مال پر کچھ واجب نہیں ہو گا ۔

Narrated Ibn Abbas:

Sa’d bin ‘Ubada Al-Ansari sought the verdict of Allah’s Messenger (ﷺ) regarding a vow made by his mother who had died before fulfilling it. Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Fulfill it on her behalf.” Some people said, “If the number of camels reaches twenty, then their owner has to pay four sheep as Zakat; and if their owner gives them as a gift or sells them in order to escape the payment of Zakat cunningly before the completion of a year, then he is not to pay anything, and if he slaughters them and then dies, then no Zakat is to be taken from his property.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 90


7

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ الشِّغَارِ‏.‏ قُلْتُ لِنَافِعٍ مَا الشِّغَارُ قَالَ يَنْكِحُ ابْنَةَ الرَّجُلِ وَيُنْكِحُهُ ابْنَتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ، وَيَنْكِحُ أُخْتَ الرَّجُلِ وَيُنْكِحُهُ أُخْتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ احْتَالَ حَتَّى تَزَوَّجَ عَلَى الشِّغَارِ، فَهْوَ جَائِزٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ‏.‏ وَقَالَ فِي الْمُتْعَةِ النِّكَاحُ فَاسِدٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُهُمُ الْمُتْعَةُ وَالشِّغَارُ جَائِزٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا ، اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” شغار “ سے منع فرمایا ۔ میں نے نافع سے پوچھا شغار کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کہ کوئی شخص بغیر مہر کسی کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے یا اس سے بغیر مہر کے اپنی لڑکی کا نکاح کرتا ہے پس اس کے سوا کوئی مہر مقرر نہ ہو اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا تو نکاح کا عقد درست ہو گا اور شرط لغو ہو گی ( اور ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہو گا ) اور ہاں بعض لوگوں نے متعہ میں کہا ہے کہ وہاں نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے اور بعض حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ متعہ اور شغار دونوں جائز ہوں گے ۔ اور شرط باطل ہو گی ۔

Narrated ‘Abdullah:

Nafi narrated to me that ‘Abdullah said that Allah’s Messenger (ﷺ) forbade the Shighar. I asked Nafi’, “What is the Shighar?” He said, “It is to marry the daughter of a man and marry one’s daughter to that man (at the same time) without Mahr (in both cases); or to marry the sister of a man and marry one’s own sister to that man without Mahr.” Some people said, “If one, by a trick, marries on the basis of Shighar, the marriage is valid but its condition is illegal.” The same scholar said regarding Al-Mut’a, “The marriage is invalid and its condition is illegal.” Some others said, “The Mut’a and the Shighar are permissible but the condition is illegal.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 90


8

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ، ابْنَىْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِمَا، أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ قِيلَ لَهُ إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لاَ يَرَى بِمُتْعَةِ النِّسَاءِ بَأْسًا‏.‏ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْهَا يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الإِنْسِيَّةِ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ احْتَالَ حَتَّى تَمَتَّعَ، فَالنِّكَاحُ فَاسِدٌ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُهُمُ النِّكَاحُ جَائِزٌ وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا ، ان سے حسن اور عبداللہ بن محمد بن علی نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے کہحضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حیلہ سے متعہ کر لیا تو نکاح فاسد ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ نکاح جائز ہو جائے گا اور میعاد کی شرط باطل ہو جائے گی ۔

Narrated Muhammad bin `Ali:

`Ali was told that Ibn `Abbas did not see any harm in the Mut’a marriage. `Ali said, “Allah’s Messenger (ﷺ) forbade the Mut’a marriage on the Day of the battle of Khaibar and he forbade the eating of donkey’s meat.” Some people said, “If one, by a tricky way, marries temporarily, his marriage is illegal.” Others said, “The marriage is valid but its condition is illegal.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 91


9

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَاءِ لِيُمْنَعَ بِهِ فَضْلُ الْكَلإِ ‏”‏‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہ ہم سے امام مالک نے ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچا ہوا بے ضرورت پانی اس لیے نہ روکاجائے کہ اس کی وجہ سے بچی ہوئی گھاس بھی بچی رہے ( اس میں بھی حیلہ سازی سے روکا گیا ہے ۔ )

Narrated Abu Huraira:

Allah’s Messenger (ﷺ) said, “One should not prevent others from watering their animals with the surplus of his water in order to prevent them from benefiting by the surplus of grass.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 9, Book 86, Hadith 92


Scroll to Top
Skip to content