۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

۞خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۞

Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)

Markazi Anjuman Khuddam ul Quran Lahore

1

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ ـ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ ـ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَقَالُوا أَلاَ تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسِ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ‏.‏ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ فَقَالَ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسَ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ‏.‏ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، فَلاَ يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلاَّ مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى فَخِذِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا‏.‏ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ‏.‏ قَالَتْ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ، فَأَصَبْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے خبر دی ، انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے بتلایا کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر ( غزوہ بنی المصطلق ) میں تھے ۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے ۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا ۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا ؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے ۔ “ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سرمبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے ۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا ۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ والد ماجد ( رضی اللہ عنہ ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انھوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا ۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔ “ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا ۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا ۔

Narrated `Aisha:

(the wife of the Prophet) We set out with Allah’s Messenger (ﷺ) on one of his journeys till we reached Al- Baida’ or Dhatul-Jaish, a necklace of mine was broken (and lost). Allah’s Messenger (ﷺ) stayed there to search for it, and so did the people along with him. There was no water at that place, so the people went to Abu- Bakr As-Siddiq and said, “Don’t you see what `Aisha has done? She has made Allah’s Apostle and the people stay where there is no water and they have no water with them.” Abu Bakr came while Allah’s Messenger (ﷺ) was sleeping with his head on my thigh, He said, to me: “You have detained Allah’s Messenger (ﷺ) and the people where there is no water and they have no water with them. So he admonished me and said what Allah wished him to say and hit me on my flank with his hand. Nothing prevented me from moving (because of pain) but the position of Allah’s Messenger (ﷺ) on my thigh. Allah’s Messenger (ﷺ) got up when dawn broke and there was no water. So Allah revealed the Divine Verses of Tayammum. So they all performed Tayammum. Usaid bin Hudair said, “O the family of Abu Bakr! This is not the first blessing of yours.” Then the camel on which I was riding was caused to move from its place and the necklace was found beneath it.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 330


10

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ عَمَّارٌ فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ الأَرْضَ، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‏.‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطے سے ، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے ، انھوں نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، انھوں نے اپنے والد سے کہ عمار نے بیان کیا” پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا “ ۔

Narrated `Ammar:

The Prophet (ﷺ) stroked the earth with his hands and then passed them over his face and the backs of his hands (while demonstrating Tayammum).

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 339


11

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَإِنَّا أَسْرَيْنَا، حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلاَ وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلاَّ حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلاَنٌ ثُمَّ فُلاَنٌ ثُمَّ فُلاَنٌ ـ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ ـ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لأَنَّا لاَ نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ رَجُلاً جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ قَالَ ‏”‏ لاَ ضَيْرَ ـ أَوْ لاَ يَضِيرُ ـ ارْتَحِلُوا ‏”‏‏.‏ فَارْتَحَلَ فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ نَزَلَ، فَدَعَا بِالْوَضُوءِ، فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلاَةِ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلاَتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ قَالَ ‏”‏ مَا مَنَعَكَ يَا فُلاَنُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ، فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ فَنَزَلَ، فَدَعَا فُلاَنًا ـ كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ ـ وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ ‏”‏ اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ ‏”‏‏.‏ فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ ـ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ ـ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالاَ لَهَا أَيْنَ الْمَاءُ قَالَتْ عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا‏.‏ قَالاَ لَهَا انْطَلِقِي إِذًا‏.‏ قَالَتْ إِلَى أَيْنَ قَالاَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَتِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ قَالاَ هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ فَانْطَلِقِي‏.‏ فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ قَالَ فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا وَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِإِنَاءٍ، فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ ـ أَوِ السَّطِيحَتَيْنِ ـ وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا، وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ، وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا‏.‏ فَسَقَى مَنْ شَاءَ، وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ قَالَ ‏”‏ اذْهَبْ، فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ ‏”‏‏.‏ وَهْىَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اجْمَعُوا لَهَا ‏”‏‏.‏ فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ، حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ، وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا، وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا قَالَ لَهَا ‏”‏ تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا ‏”‏‏.‏ فَأَتَتْ أَهْلَهَا، وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ قَالُوا مَا حَبَسَكِ يَا فُلاَنَةُ قَالَتِ الْعَجَبُ، لَقِيَنِي رَجُلاَنِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ‏.‏ وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ، فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ ـ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالأَرْضَ ـ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَلاَ يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلاَءِ الْقَوْمَ يَدَعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِي الإِسْلاَمِ فَأَطَاعُوهَا فَدَخَلُوا فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، کہا کہ ہم سے عوف نے ، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے ، انھوں نے کہا کہہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی ۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا ۔ پھر فلاں پھر فلاں ۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے ۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں ۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے ۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے ۔ اسی طرح باآواز بلند ، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے ۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں ۔ سفر شروع کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا ۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو ۔ یہی تجھ کو کافی ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں ( یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما ) کو بلایا ۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا ۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو ۔ یہ دونوں نکلے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی ۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی ( یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں ) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ۔ انھوں نے اس سے کہا ۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو ۔ اس نے پوچھا ، کہاں چلوں ؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ۔ اس نے کہا ، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا ، یہ وہی ہیں ، جسے تم کہہ رہی ہو ۔ اچھا اب چلو ۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے ۔ اور سارا واقعہ بیان کیا ۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا ۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے ۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا ۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں ۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا ( اور سب سیر ہو گئے ) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لے جا اور غسل کر لے ۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم ! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا ، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے ( کھانے کی چیز ) جمع کرو ۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور ( عجوہ ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا ۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا ۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا ۔ پھر وہ اپنے گھر آئی ، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی ! کیوں اتنی دیر ہوئی ؟ اس نے کہا ، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں ۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا ، خدا کی قسم ! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا ۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی ۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے ۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے ۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے ۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے ؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی ۔ ¤ حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ «صبا» کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو «اصب» کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی «امل» کے ہیں ۔

Narrated `Imran:

Once we were traveling with the Prophet (ﷺ) and we carried on traveling till the last part of the night and then we (halted at a place) and slept (deeply). There is nothing sweeter than sleep for a traveler in the last part of the night. So it was only the heat of the sun that made us to wake up and the first to wake up was so and so, then so and so and then so and so (the narrator `Auf said that Abu Raja’ had told him their names but he had forgotten them) and the fourth person to wake up was `Umar bin Al- Khattab. And whenever the Prophet (ﷺ) used to sleep, nobody would wake up him till he himself used to get up as we did not know what was happening (being revealed) to him in his sleep. So, `Umar got up and saw the condition of the people, and he was a strict man, so he said, “Allahu Akbar” and raised his voice with Takbir, and kept on saying loudly till the Prophet (ﷺ) got up because of it. When he got up, the people informed him about what had happened to them. He said, “There is no harm (or it will not be harmful). Depart!” So they departed from that place, and after covering some distance the Prophet (ﷺ) stopped and asked for some water to perform the ablution. So he performed the ablution and the call for the prayer was pronounced and he led the people in prayer. After he finished from the prayer, he saw a man sitting aloof who had not prayed with the people. He asked, “O so and so! What has prevented you from praying with us?” He replied, “I am Junub and there is no water. ” The Prophet (ﷺ) said, “Perform Tayammum with (clean) earth and that is sufficient for you.” Then the Prophet (ﷺ) proceeded on and the people complained to him of thirst. Thereupon he got down and called a person (the narrator `Auf added that Abu Raja’ had named him but he had forgotten) and `Ali, and ordered them to go and bring water. So they went in search of water and met a woman who was sitting on her camel between two bags of water. They asked, “Where can we find water?” She replied, “I was there (at the place of water) this hour yesterday and my people are behind me.” They requested her to accompany them. She asked, “Where?” They said, “To Allah’s Messenger (ﷺ) .” She said, “Do you mean the man who is called the Sabi, (with a new religion)?” They replied, “Yes, the same person. So come along.” They brought her to the Prophet (ﷺ) and narrated the whole story. He said, “Help her to dismount.” The Prophet (ﷺ) asked for a pot, then he opened the mouths of the bags and poured some water into the pot. Then he closed the big openings of the bags and opened the small ones and the people were called upon to drink and water their animals. So they all watered their animals and they (too) all quenched their thirst and also gave water to others and last of all the Prophet (ﷺ) gave a pot full of water to the person who was Junub and told him to pour it over his body. The woman was standing and watching all that which they were doing with her water. By Allah, when her water bags were returned the looked like as if they were more full (of water) than they had been before (Miracle of Allah’s Messenger (ﷺ)) Then the Prophet (ﷺ) ordered us to collect something for her; so dates, flour and Sawiq were collected which amounted to a good meal that was put in a piece of cloth. She was helped to ride on her camel and that cloth full of foodstuff was also placed in front of her and then the Prophet (ﷺ) said to her, “We have not taken your water but Allah has given water to us.” She returned home late. Her relatives asked her: “O so and so what has delayed you?” She said, “A strange thing! Two men met me and took me to the man who is called the Sabi’ and he did such and such a thing. By Allah, he is either the greatest magician between this and this (gesturing with her index and middle fingers raising them towards the sky indicating the heaven and the earth) or he is Allah’s true Apostle.” Afterwards the Muslims used to attack the pagans around her abode but never touched her village. One day she said to her people, “I think that these people leave you purposely. Have you got any inclination to Islam?” They obeyed her and all of them embraced Islam. Abu `Abdullah said: The word Saba’a means “The one who has deserted his old religion and embraced a new religion.” Abul ‘Ailya [??] said, “The S`Abis are a sect of people of the Scripture who recite the Book of Psalms.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 340


12

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ـ هُوَ غُنْدَرٌ ـ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ قَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ لاَ يُصَلِّي‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ رَخَّصْتُ لَهُمْ فِي هَذَا، كَانَ إِذَا وَجَدَ أَحَدُهُمُ الْبَرْدَ قَالَ هَكَذَا ـ يَعْنِي تَيَمَّمَ وَصَلَّى ـ قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ قَوْلُ عَمَّارٍ لِعُمَرَ قَالَ إِنِّي لَمْ أَرَ عُمَرَ قَنِعَ بِقَوْلِ عَمَّارٍ‏.‏

ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا ، کہا مجھ کو محمد نے خبر دی جو غندر کے نام سے مشہور ہیں ، شعبہ کے واسطہ سے ، وہ سلیمان سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابووائل سے کہ ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہاگر ( غسل کی حاجت ہو اور ) پانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے ۔ عبداللہ نے فرمایا ہاں ! اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا ۔ اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے ۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا کیا جواب ہو گا ۔ بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے ۔

Narrated Abu Wail:

Abu Musa said to `Abdullah bin Mas`ud, “If one does not find water (for ablution) can he give up the prayer?” `Abdullah replied, “If you give the permission to perform Tayammum they will perform Tayammum even if water was available if one of them found it cold.” Abu Musa said, “What about the statement of `Ammar to `Umar?” `Abdullah replied, “`Umar was not satisfied by his statement.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 341


13

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ، مَاءً كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ الْمَاءَ‏.‏ فَقَالَ أَبُو مُوسَى فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ كَانَ يَكْفِيكَ ‏”‏ قَالَ أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ‏.‏ فَقَالَ أَبُو مُوسَى فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ، كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الآيَةِ فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ فَقَالَ إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ‏.‏ فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا قَالَ نَعَمْ‏.‏

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے ، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا ، انھوں نے کہا کہمیں عبداللہ ( بن مسعود ) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا ، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے ۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے ۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے ۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف ( ہاتھ اور منہ کا تیمم ) کافی تھا ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے ۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے ( جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے ) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کا کوئی جواب نہ دے سکے ۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا ۔ اور تیمم کر لیا کرے گا ۔ ( اعمش کہتے ہیں کہ ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی ۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں ۔

Narrated Shaqiq bin Salama:

I was with `Abdullah and Abu Musa; the latter asked the former, “O Abu `Abdur-Rahman! What is your opinion if somebody becomes Junub and no water is available?” `Abdullah replied, “Do not pray till water is found.” Abu Musa said, “What do you say about the statement of `Ammar (who was ordered by the Prophet (ﷺ) to perform Tayammum). The Prophet (ﷺ) said to him: “Perform Tayammum and that would be sufficient.” `Abdullah replied, “Don’t you see that `Umar was not satisfied by `Ammar’s statement?” Abu- Musa said, “All right, leave `Ammar’s statement, but what will you say about this verse (of Tayammum)?” `Abdullah kept quiet and then said, “If we allowed it, then they would probably perform Tayammum even if water was available, if one of them found it (water) cold.” The narrator added, “I said to Shaqiq, “Then did `Abdullah dislike to perform Tayammum because of this?” He replied, “Yes.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 342


14

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى لَوْ أَنَّ رَجُلاً أَجْنَبَ، فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ وَيُصَلِّي فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الآيَةِ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ ‏{‏فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا‏}‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ‏.‏ قُلْتُ وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِذَا قَالَ نَعَمْ‏.‏ فَقَالَ أَبُو مُوسَى أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَاجَةٍ فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏”‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا ‏”‏‏.‏ فَضَرَبَ بِكَفِّهِ ضَرْبَةً عَلَى الأَرْضِ ثُمَّ نَفَضَهَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهَا ظَهْرَ كَفِّهِ بِشِمَالِهِ، أَوْ ظَهْرَ شِمَالِهِ بِكَفِّهِ، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ وَزَادَ يَعْلَى عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى فَقَالَ أَبُو مُوسَى أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَنِي أَنَا وَأَنْتَ فَأَجْنَبْتُ فَتَمَعَّكْتُ بِالصَّعِيدِ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْنَاهُ فَقَالَ ‏”‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا ‏”‏‏.‏ وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ وَاحِدَةً

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے ، انھوں نے شقیق سے ، انھوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے کہا کہاگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے ؟ شقیق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے ( اور نماز موقوف رکھے ) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ” اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو ۔ “ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے ۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا ۔ انھوں نے کہا ہاں ۔ پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو حضرت عمار کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا ۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی ، لیکن پانی نہ ملا ۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا ۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انھوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی ۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا ۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا ۔

Narrated Al-A`mash:

Shaqiq said, “While I was sitting with `Abdullah and Abu Musa Al-Ash`ari, the latter asked the former, ‘If a person becomes Junub and does not find water for one month, can he perform Tayammum and offer his prayer?’ (He applied in the negative). Abu Musa said, ‘What do you say about this verse from Sura “Al-Ma’ida”: When you do not find water then perform Tayammum with clean earth? `Abdullah replied, ‘If we allowed it then they would probably perform Tayammum with clean earth even if water were available but cold.’ I said to Shaqiq, ‘You then disliked to perform Tayammum because of this?’ Shaqiq said, ‘Yes.’ (Shaqiq added), “Abu Musa said, ‘Haven’t you heard the statement of `Ammar to `Umar? He said: I was sent out by Allah’s Messenger (ﷺ) for some job and I became Junub and could not find water so I rolled myself over the dust (clean earth) like an animal does, and when I told the Prophet (ﷺ) of that he said, ‘Like this would have been sufficient.’ The Prophet (ﷺ) (saying so) lightly stroked the earth with his hand once and blew it off, then passed his (left) hand over the back of his right hand or his (right) hand over the back of his left hand and then passed them over his face.’ So `Abdullah said to Abu- Musa, ‘Don’t you know that `Umar was not satisfied with `Ammar’s statement?’ ” Narrated Shaqiq: While I was with `Abdullah and Abu Musa, the latter said to the former, “Haven’t you heard the statement of `Ammar to `Umar? He said, “Allah’s Messenger (ﷺ) sent you and me out and I became Junub and rolled myself in the dust (clean earth) (for Tayammum). When we came to Allah’s Apostle I told him about it and he said, ‘This would have been sufficient,’ passing his hands over his face and the backs of his hands once only.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 343


15

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الْخُزَاعِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَى رَجُلاً مُعْتَزِلاً لَمْ يُصَلِّ فِي الْقَوْمِ فَقَالَ ‏”‏ يَا فُلاَنُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْقَوْمِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ‏.‏ قَالَ ‏”‏ عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی ، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی ، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا ۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا ، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا ۔

Narrated `Imran bin Husain Al-Khuza`i:

Allah’s Messenger (ﷺ) saw a person sitting aloof and not praying with the people. He asked him, “O so and so! What prevented you from offering the prayer with the people?” He replied, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I am Junub and there is no water.” The Prophet (ﷺ) said, “Perform Tayammum with clean earth and that will be sufficient for you.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 344


2

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ح قَالَ وَحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ النَّضْرِ، قَالَ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ ـ هُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ الْفَقِيرُ ـ قَالَ أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن سنان عوفی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ( دوسری سند ) کہا اور مجھ سے سعید بن نضر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی ہشیم نے ، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی سیار نے ، انھوں نے کہا ہم سے یزید الفقیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں جابر بن عبداللہ نے ,نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں ۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی ۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو ( جہاں بھی ) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے ۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے ۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا ۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah:

The Prophet (ﷺ) said, “I have been given five things which were not given to any one else before me. -1. Allah made me victorious by awe, (by His frightening my enemies) for a distance of one month’s journey. -2. The earth has been made for me (and for my followers) a place for praying and a thing to perform Tayammum, therefore anyone of my followers can pray wherever the time of a prayer is due. -3. The booty has been made Halal (lawful) for me yet it was not lawful for anyone else before me. -4. I have been given the right of intercession (on the Day of Resurrection). -5. Every Prophet used to be sent to his nation only but I have been sent to all mankind.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 331


3

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلاَدَةً فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً، فَوَجَدَهَا فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاَةُ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَصَلَّوْا، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ‏.‏ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ لِعَائِشَةَ جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلاَّ جَعَلَ اللَّهُ ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ خَيْرًا‏.‏

ہم سے سے زکریابن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے ، وہ اپنے والد سے ، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہانھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا ، وہ گم ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا ، جسے وہ مل گیا ۔ پھر نماز کا وقت آ پہنچا اور لوگوں کے پاس ( جو ہار کی تلاش میں گئے تھے ) پانی نہیں تھا ۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے ۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی ۔

Narrated `Urwa’s father:

Aisha said, “I borrowed a necklace from Asma’ and it was lost. So Allah’s Messenger (ﷺ) sent a man to search for it and he found it. Then the time of the prayer became due and there was no water. They prayed (without ablution) and informed Allah’s Messenger (ﷺ) about it, so the verse of Tayammum was revealed.” Usaid bin Hudair said to `Aisha, “May Allah reward you. By Allah, whenever anything happened which you did not like, Allah brought good for you and for the Muslims in that.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 332


4

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَيْرًا، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَسَارٍ، مَوْلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي جُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأَنْصَارِيِّ فَقَالَ أَبُو الْجُهَيْمِ أَقْبَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ، فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، انھوں نے جعفر بن ربیعہ سے ، انھوں نے عبدالرحمٰن اعرج سے ، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر بن عبداللہ سے سنا ، انھوں نے کہا کہمیں اور عبداللہ بن یسار جو کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ، ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ( صحابی ) کے پاس آئے ۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ” بئر جمل “ کی طرف سے تشریف لا رہے تھے ، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا ( یعنی خود اسی ابوجہیم نے ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا ۔

Narrated Abu Juhaim Al-Ansari:

The Prophet (ﷺ) came from the direction of Bir Jamal. A man met him and greeted him. But he did not return back the greeting till he went to a (mud) wall and wiped his face and hands with its dust (performed Tayammum) and then returned back the greeting.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 333


5

حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ الْمَاءَ‏.‏ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَصَلَّيْتُ، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا ‏”‏‏.‏ فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِكَفَّيْهِ الأَرْضَ، وَنَفَخَ فِيهِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا ، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے ، انھوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، وہ اپنے باپ سے ، انھوں نے بیان کیا کہایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا ( تو میں اب کیا کروں ) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا ، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے ، ہم دونوں جنبی ہو گئے ۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا ، اور نماز پڑھ لی ۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا ۔

Narrated `Abdur Rahman bin Abza [??]:

A man came to `Umar bin Al-Khattab and said, “I became Junub but no water was available.” `Ammar bin Yasir said to `Umar, “Do you remember that you and I (became Junub while both of us) were together on a journey and you didn’t pray but I rolled myself on the ground and prayed? I informed the Prophet (ﷺ) about it and he said, ‘It would have been sufficient for you to do like this.’ The Prophet then stroked lightly the earth with his hands and then blew off the dust and passed his hands over his face and hands.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 334


6

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عَمَّارٌ بِهَذَا، وَضَرَبَ شُعْبَةُ بِيَدَيْهِ الأَرْضَ، ثُمَّ أَدْنَاهُمَا مِنْ فِيهِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‏.‏ وَقَالَ النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ قَالَ سَمِعْتُ ذَرًّا يَقُولُ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى قَالَ الْحَكَمُ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عَمَّارٌ‏.‏

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے کہا کہ مجھے حکم بن عیینہ نے خبر دی ذر بن عبداللہ سے ، وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، وہ اپنے باپ سے کہ عمار نےیہ واقعہ بیان کیا ( جو پہلے گزر چکا ) اور شعبہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا ۔ پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کر لیا ( اور پھونکا ) پھر ان سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا اور نضر بن شمیل نے بیان کیا کہ مجھے شعبہ نے خبر دی حکم سے کہ میں نے ذر بن عبداللہ سے سنا ، وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کے حوالہ سے حدیث روایت کرتے تھے ۔ حکم نے کہا کہ میں نے یہ حدیث ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے سنی ، وہ اپنے والد کے حوالہ سے بیان کرتے تھے کہ عمار نے کہا ( جو پہلے مذکور ہوا ) ۔

Narrated Sa`id bin `Abdur Rahman bin Abza:

(on the authority of his father who said) `Ammar said so (the above Statement). And Shu`ba stroked lightly the earth with his hands and brought them close to his mouth (blew off the dust) and passed them over his face and then the backs of his hands. `Ammar said, “Ablution (meaning Tayammum here) is sufficient for a Muslim if water is not available.”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 335


7

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ شَهِدَ عُمَرَ وَقَالَ لَهُ عَمَّارٌ كُنَّا فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا، وَقَالَ تَفَلَ فِيهِمَا‏.‏

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطہ سے حدیث بیان کی ، وہ ذر بن عبداللہ سے ، وہ ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، وہ اپنے والد سے کہوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم ایک لشکر میں گئے ہوئے تھے ۔ پس ہم دونوں جنبی ہو گئے ۔ اور ( اس میں ہے کہ بجائے «نفخ فيهما‏» کے ) انھوں نے «تفل فيهما‏» کہا ۔

Narrated `Abdur Rahman bin Abza:

that while he was in the company of `Umar, `Ammar said to `Umar, “We were in a detachment and became Junub and I blew the dust off my hands (performed the rolling over the earth and prayed.)”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 336


8

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ قَالَ عَمَّارٌ لِعُمَرَ تَمَعَّكْتُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ “‏ يَكْفِيكَ الْوَجْهُ وَالْكَفَّانِ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے ، وہ ذر بن عبداللہ سے ، وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، وہ اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، انھوں نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہمیں تو زمین میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے لیے صرف چہرے اور پہنچوں پر مسح کرنا کافی تھا ( زمین پر لیٹنے کی ضرورت نہ تھی ) ۔

Narrated `Abdur Rahman bin Abza:

`Ammar said to `Umar “I rolled myself in the dust and came to the Prophet (ﷺ) who said, ‘Passing dusted hands over the face and the backs of the hands is sufficient for you.’ ”

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 337


9

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ شَهِدْتُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ عَمَّارٌ‏.‏ وَسَاقَ الْحَدِيثَ‏.‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے ، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے ، انھوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ۔ انھوں نے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے ، انھوں نے کہا کہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ۔ پھر انھوں نے پوری حدیث بیان کی ۔

Narrated `Ammar:

As above.

USC-MSA web (English) reference

Vol. 1, Book 7, Hadith 338


Scroll to Top
Skip to content