حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ الْوَلِيدُ بْنُ عَيْزَارٍ أَخْبَرَنِي قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ، يَقُولُ أَخْبَرَنَا صَاحِبُ، هَذِهِ الدَّارِ ـ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ ـ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ ” الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا ”. قَالَ ثُمَّ أَىُّ قَالَ ” ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ”. قَالَ ثُمَّ أَىّ قَالَ ” الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ”. قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
ہم سے ابو الولید ہشام نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، انہوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار نے خبر دی ، کہا کہ میں نے ابوعمرو شیبانی سے سنا ، کہا کہہمیں اس گھر والے نے خبر دی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے گھر کی طرف اشارہ کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا ۔ پوچھا کہ پھر کون سا ؟ فرمایا کہ والدین کے سا تھ اچھا سلوک کرنا ، پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے ۔
Narrated Al-Walid bin ‘Aizar:
I heard Abi `Amr ‘Ash-Shaibani saying, “The owner of this house.” he pointed to `Abdullah’s house, “said, ‘I asked the Prophet (ﷺ) ‘Which deed is loved most by Allah?” He replied, ‘To offer prayers at their early (very first) stated times.’ ” `Abdullah asked, “What is the next (in goodness)?” The Prophet (ﷺ) said, “To be good and dutiful to one’s parents,” `Abdullah asked, “What is the next (in goodness)?” The Prophet (ﷺ) said, “To participate in Jihad for Allah’s Cause.” `Abdullah added, “The Prophet (ﷺ) narrated to me these three things, and if I had asked more, he would have told me more.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 7 Good Manners and Form (Al-Adab)
وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ قَدِمَتْ أُمِّي وَهْىَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ، إِذْ عَاهَدُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ وَهْىَ رَاغِبَةٌ {أَفَأَصِلُهَا} قَالَ “ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ ”.
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہمیری والدہ مشرکہ تھیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریش کے ساتھ صلح کے زمانہ میں اپنے والد کے ساتھ ( مدینہ منورہ ) آئیں ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا کہ میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے الگ ہیں ( کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں ؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اپنے والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔
USC-MSA web (English) reference
Vol. 1, Book 73, 8 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِي النَّجْوَى قَالَ “ يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ فَيَقُولُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا. فَيَقُولُ نَعَمْ. وَيَقُولُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا. فَيَقُولُ نَعَمْ. فَيُقَرِّرُهُ ثُمَّ يَقُولُ إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ ”.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے صفوان بن محرز سے کہایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کانا پھوسی کے بارے میں کیا سناہے ؟ ( یعنی سرگوشی کے بارے میں ) انہوں نے کہا آنحضرت فرماتے تھے ( قیامت کے دن تم مسلمانوں ) میں سے ایک شخص ( جو گنہگار ہو گا ) اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا ۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے ( فلاں دن دنیا میں ) یہ یہ برے کام کئے تھے ، وہ عرض کرے گا ۔ بیشک ( پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے ) غرض ( سارے گناہوں کا ) اس سے ( پہلے ) اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں ۔
Narrated Safwan bin Muhriz:
A man asked Ibn `Umar, “What did you hear Allah’s Messenger (ﷺ) saying regarding An-Najwa (secret talk between Allah and His believing worshipper on the Day of Judgment)?” He said, “(The Prophet (ﷺ) said), “One of you will come close to his Lord till He will shelter him in His screen and say: Did you commit such-and-such sin? He will say, ‘Yes.’ Then Allah will say: Did you commit such and such sin? He will say, ‘Yes.’ So Allah will make him confess (all his sins) and He will say, ‘I screened them (your sins) for you in the world, and today I forgive them for you.”‘
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 9 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ الْقَيْسِيُّ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ، كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَاعِفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ، أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ ”.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم سے معبد بن خالد قیسی نے بیان کیا ، ان سے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں ۔ ہر کمزور و تواضع کرنے والا اگر وہ ( اللہ کا نام لے کر ) قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے ۔ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں ۔ ہر تند خو ، اکڑ کر چلنے والا اور متکبر ۔
Narrated Haritha bin Wahb:
Al-Khuzai: The Prophet (ﷺ) said, “Shall I inform you about the people of Paradise? They comprise every obscure unimportant humble person, and if he takes Allah’s Oath that he will do that thing, Allah will fulfill his oath (by doing that). Shall I inform you about the people of the Fire? They comprise every cruel, violent, proud and conceited person.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 10 Good Manners and Form (Al-Adab)
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ.
اور محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی ، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لئے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی ۔
Anas bin Malik said, “Any of the female slaves of Medina could take hold of the hand of Allah’s Messenger (ﷺ) and take him wherever she wished.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 11 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ ـ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ وَهْوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لأُمِّهَا ـ أَنَّ عَائِشَةَ حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ، أَوْ لأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا. فَقَالَتْ أَهُوَ قَالَ هَذَا قَالُوا نَعَمْ. قَالَتْ هُوَ لِلَّهِ عَلَىَّ نَذْرٌ، أَنْ لاَ أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا. فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا، حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ فَقَالَتْ لاَ وَاللَّهِ لاَ أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا، وَلاَ أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي. فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لاَ يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذُرَ قَطِيعَتِي. فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ فَقَالاَ السَّلاَمُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ قَالَتْ عَائِشَةُ ادْخُلُوا. قَالُوا كُلُّنَا قَالَتْ نَعَمِ ادْخُلُوا كُلُّكُمْ. وَلاَ تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ، فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلاَّ مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولاَنِ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ، فَإِنَّهُ لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ. فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ إِنِّي نَذَرْتُ، وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ. فَلَمْ يَزَالاَ بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ، وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً. وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي، حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے ، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے ، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جوان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لئے حجر کا حکم جاری کر دوں گا ۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی ۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا ۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لئے ان سے سفارش کی گئی ( کہ انہیں معاف فرما دیں ) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں اللہ کی قسم اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی ۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب ؟ کہا ہاں ، سب آ جاؤ ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے ( کہ معاف کر دیں ، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے ) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اوررونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے ؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برا بر کوشش کرتے رہے ، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم ( توڑ نے ) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے ۔ اس کے بعدجب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ۔
Narrated `Aisha:
(the wife of the Prophet) that she was told that `Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, “By Allah, if `Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth.” I said, “Did he (`Abdullah bin Az-Zubair) say so?” They (people) said, “Yes.” `Aisha said, “I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair.” When this desertion lasted long, `Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, “By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow.” When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al- Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin ‘Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, “I beseech you, by Allah, to let me enter upon `Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me.” So Al-Miswar and `Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked `Aisha’s permission saying, “Peace and Allah’s Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?” `Aisha said, “Come in.” They said, “All of us?” She said, “Yes, come in all of you,” not knowing that Ibn Az- Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of `Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and `Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), “The Prophet (ﷺ) forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days).” So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others’ sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, “I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one.” They (Al-Miswar and `Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with `Abdullah bin Az- Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 12 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ ”.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو ، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اورکسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے ۔
Narrated Anas bin Malik:
Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Do not hate one another, nor be jealous of one another; and do not desert one another, but O Allah’s worshipers! Be Brothers! And it is unlawful for a Muslim to desert his brother Muslim (and not to talk to him) for more than three nights.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 13 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ ”.
ہم سے عبدالرحمٰن بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے ، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔
Narrated Abu Aiyub Al-Ansari:
Allah’s Messenger (ﷺ) said, “It is not lawful for a man to desert his brother Muslim for more than three nights. (It is unlawful for them that) when they meet, one of them turns his face away from the other, and the other turns his face from the former, and the better of the two will be the one who greets the other first.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 14 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” إِنِّي لأَعْرِفُ غَضَبَكِ وَرِضَاكِ ”. قَالَتْ قُلْتُ وَكَيْفَ تَعْرِفُ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ” إِنَّكِ إِذَا كُنْتِ رَاضِيَةً قُلْتِ بَلَى وَرَبِّ مُحَمَّدٍ. وَإِذَا كُنْتِ سَاخِطَةً قُلْتِ لاَ وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ ”. قَالَتْ قُلْتُ أَجَلْ لَسْتُ أُهَاجِرُ إِلاَّ اسْمَكَ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی ، انہیں ہشام بن عروہ نے ، انہیں ان کے والدنے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری ناراضگی اورخوشی کو خوب پہنچانتا ہوں ۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کس طرح سے پہنچانتے ہیں ؟ فرمایا کہ جب تم خوش ہوتی ہو کہتی ہو ، ہاں محمد کے رب کی قسم ، اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، ابراہیم کے رب کی قسم ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ، جی ہاں آپ کا فرمانا بالکل صحیح ہے میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی دیتی ہوں ۔
Narrated `Aisha:
Allah’s Messenger (ﷺ) said, ” I know whether you are angry or pleased.” I said, “How do you know that, Allah’s Messenger (ﷺ)?” He said, “When you are pleased, you say, “Yes, by the Lord of Muhammad,’ but when you are angry, you say, ‘No, by the Lord of Abraham!’ ” I said, “Yes, I do not leave, except your name.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 15 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ،. وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَىَّ إِلاَّ وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْهِمَا يَوْمٌ إِلاَّ يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَرَفَىِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَبَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ قَالَ قَائِلٌ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلاَّ أَمْرٌ. قَالَ “ إِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي بِالْخُرُوجِ ”.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، ان سے زہری نے ( دوسری سند ) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہجب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیرو پایا اور کوئی دن ایسانہیں گزرتا تھا کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں ، ایک دن ابوبکر رضی اللہ عنہ ( والد ماجد ) گھر میں بھری دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ، یہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت ہمارے یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا معمول نہیں تھا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سے ہو سکتا ہے ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے مکہ چھوڑنے کی اجازت مل گئی ہے ۔ ( ورنہ میرے دل میں آپ کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں ہوتی ) ۔
Narrated `Aisha:
(the wife of the Prophet) “I do not remember my parents believing in any religion other than the Religion (of Islam), and our being visited by Allah’s Messenger (ﷺ) in the morning and in the evening. One day, while we were sitting in the house of Abu Bakr (my father) at noon, someone said, ‘This is Allah’s Messenger (ﷺ) coming at an hour at which he never used to visit us.’ Abu Bakr said, ‘There must be something very urgent that has brought him at this hour.’ The Prophet (ﷺ) said, ‘I have been allowed to go out (of Mecca) to migrate.’ “
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 16 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَارَ أَهْلَ بَيْتٍ فِي الأَنْصَارِ فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَمَرَ بِمَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَنُضِحَ لَهُ عَلَى بِسَاطٍ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا لَهُمْ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی ، انہیں خالد حذاء نے ، انہیں انس بن سیرین نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ انصار کے گھرانہ میں ملاقات کے لئے تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا ، جب آپ واپس تشریف لانے لگے تو آپ کے حکم سے ایک چٹائی پر پانی چھڑکا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور گھر والوں کے لئے دعا کی ۔
Narrated Anas bin Malik:
Allah’s Messenger (ﷺ) visited a household among the Ansars, and he took a meal with them. When he intended to leave, he asked for a place in that house for him, to pray so a mat sprinkled with water was put and he offered prayer over it, and invoked for Allah’s Blessing upon them (his hosts).
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 17 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ قَالَ لِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَا الإِسْتَبْرَقُ قُلْتُ مَا غَلُظَ مِنَ الدِّيبَاجِ وَخَشُنَ مِنْهُ. قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ رَأَى عُمَرُ عَلَى رَجُلٍ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْتَرِ هَذِهِ فَالْبَسْهَا لِوَفْدِ النَّاسِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ ” إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ ”. فَمَضَى فِي ذَلِكَ مَا مَضَى، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ إِلَيْهِ بِحُلَّةٍ فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ بَعَثْتَ إِلَىَّ بِهَذِهِ، وَقَدْ قُلْتَ فِي مِثْلِهَا مَا قُلْتَ قَالَ ” إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا مَالاً ”. فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ لِهَذَا الْحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے ، کہا کہمجھ سے سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا کہ دیبا سے بنا ہوا دبیز اور کھردرا کپڑا پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے آپ خرید لیں اور وفد جب آپ سے ملاقات کے لئے آئیں تو ان کی ملاقات کے وقت اسے پہن لیا کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ریشم تو وہی پہن سکتا ہے جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہ ہو خیر اس بات پر ایک مدت گزر گئی پھر ایسا ہوا کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں ایک جوڑا بھیجا تو وہ اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جوڑا میرے لئے بھیجا ہے ، حالانکہ اس کے بارے میں آپ اس سے پہلے ایسا ارشاد فرما چکے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ ( بیچ کر ) مال حاصل کرو ۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اسی حدیث کی وجہ سے کپڑے میں ( ریشم کے ) بیل بوٹوں کو بھی مکروہ جانتے تھے ۔
Narrated `Abdullah:
`Umar saw a silken cloak over a man (for sale) so he took it to the Prophet (ﷺ) and said, ‘O Allah’s Apostle! Buy this and wear it when the delegate come to you.’ He said, ‘The silk is worn by one who will have no share (in the Here-after).’ Some time passed after this event, and then the Prophet (ﷺ) sent a (similar) cloak to him. `Umar brought that cloak back to the Prophet (ﷺ) and said, ‘You have sent this to me, and you said about a similar one what you said?’ The Prophet (ﷺ) said, ‘I have sent it to you so that you may get money by selling it.’ Because of this, Ibn `Umar used to hate the silken markings on the garments.
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 18 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فَقَالَ يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہہرقل نے انہیں بلا بھیجا تو انہوں نے اسے بتایا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز ، صدقہ ، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم فرماتے ہیں ۔
Narrated Abu Sufyan:
That Heraclius sent for him and said, “What did he, i.e. the Prophet (ﷺ) order you?” I replied, “He orders us to offer prayers; to give alms; to be chaste; and to keep good relations with our relatives.
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 19 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَآخَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم “ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ”.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہجب عبدالرحمٰن بن عوف ہمارے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور سعد بن ربیع میں بھائی چارگی کرائی تو پھر ( جب عبدالرحمٰن بن عوف نے نکاح کیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ولیمہ کر خواہ ایک بکری کا ہو ۔
Narrated Anas:
When `Abdur-Rahman came to us, the Prophet (ﷺ) established a bond of brotherhood between him and Sa`d bin Ar-Rabi`. Once the Prophet (ﷺ) said, “As you (O `Abdur-Rahman) have married, give a wedding banquet even if with one sheep.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 20 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ قُلْتُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ حِلْفَ فِي الإِسْلاَمِ ”. فَقَالَ قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالأَنْصَارِ فِي دَارِي.
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا ، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان احول نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، کیا تم کو یہ بات معلوم ہے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام میں معاہدہ ( حلف ) کی کوئی اصل نہیں ؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قریش اور انصار کے درمیان میرے گھر میں حلف کرائی تھی ۔
Narrated `Asim:
I said to Anas bin Malik, “Did it reach you that the Prophet (ﷺ) said, “There is no treaty of brotherhood in Islam’?” Anas said, “The Prophet (ﷺ) made a treaty (of brotherhood) between the Ansar and the Quraish in my home.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 21 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ رِفَاعَةَ، الْقُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَبَتَّ طَلاَقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلاَّ مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، لِهُدْبَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ جِلْبَابِهَا. قَالَ وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَابْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ بِبَابِ الْحُجْرَةِ لِيُؤْذَنَ لَهُ، فَطَفِقَ خَالِدٌ يُنَادِي أَبَا بَكْرٍ، يَا أَبَا بَكْرٍ أَلاَ تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى التَّبَسُّمِ ثُمَّ قَالَ “ لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ ”.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں عروہ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہرفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی نہیں دی ۔ اس کے بعد ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا ، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں رفاعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں ۔ پھر مجھ سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا ، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ( مراد یہ کہ وہ نامرد ہیں ) اور انہوں نے اپنے چادر کا پلو پکڑ کر بتایا ( راوی نے بیان کیا کہ ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن العاص کے لڑکے خالد حجرہ کے دروازے پر تھے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے ۔ خالد بن سعید اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہنے لگے کہ آپ اس عورت کو ڈانتے نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی بات کہتی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کے سوا اور کچھ نہیں فرمایا ۔ پھر فرمایا غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تم ان کا ( عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کا ) مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں ۔
Narrated `Aisha:
Rifa`a Al-Qurazi divorced his wife irrevocably (i.e. that divorce was the final). Later on `Abdur- Rahman bin Az-Zubair married her after him. She came to the Prophet (ﷺ) and said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! I was Rifa`a’s wife and he divorced me thrice, and then I was married to `Abdur-Rahman bin AzZubair, who, by Allah has nothing with him except something like this fringe, O Allah’s Messenger (ﷺ),” showing a fringe she had taken from her covering sheet. Abu Bakr was sitting with the Prophet (ﷺ) while Khalid Ibn Sa`id bin Al-As was sitting at the gate of the room waiting for admission. Khalid started calling Abu Bakr, “O Abu Bakr! Why don’t you reprove this lady from what she is openly saying before Allah’s Apostle?” Allah’s Messenger (ﷺ) did nothing except smiling, and then said (to the lady), “Perhaps you want to go back to Rifa`a? No, (it is not possible), unless and until you enjoy the sexual relation with him (`Abdur Rahman), and he enjoys the sexual relation with you.”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 22 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَسْأَلْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ، عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ تَبَادَرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَدَخَلَ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَضْحَكُ فَقَالَ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَقَالَ ” عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلاَءِ اللاَّتِي كُنَّ عِنْدِي، لَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ تَبَادَرْنَ الْحِجَابَ ”. فَقَالَ أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِنَّ فَقَالَ يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَمْ تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْنَ إِنَّكَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” إِيهٍ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا إِلاَّ سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ ”.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے ، ان سے محمد بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی ۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی کئی بیویاں جو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے خرچ دینے کے لیے تقاضا کر رہی تھیں اور اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ جلدی سے بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ داخل ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہنس رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ آپ کو خوش رکھے ، یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پر مجھے حیرت ہوئی ، جو ابھی میرے پاس تقاضا کر رہی تھیں ، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراً بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے ، پھر عورتوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا ، اپنی جانوں کی دشمن ! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو او اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں ۔ انہوں نے عرض کیا آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت ہیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان بھی تمہیں راستے پر آتا ہوا دیکھے گا تو تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا ۔
Narrated Sa`d:
`Umar bin Al-Khattab asked permission of Allah’s Messenger (ﷺ) to see him while some Quraishi women were sitting with him and they were asking him to give them more financial support while raising their voices over the voice of the Prophet. When `Umar asked permission to enter, all of them hurried to screen themselves the Prophet (ﷺ) admitted `Umar and he entered, while the Prophet (ﷺ) was smiling. `Umar said, “May Allah always keep you smiling, O Allah’s Messenger (ﷺ)! Let my father and mother be sacrificed for you !” The Prophet (ﷺ) said, “I am astonished at these women who were with me. As soon as they heard your voice, they hastened to screen themselves.” `Umar said, “You have more right, that they should be afraid of you, O Allah’s Messenger (ﷺ)!” And then he (`Umar) turned towards them and said, “O enemies of your souls! You are afraid of me and not of Allah’s Messenger (ﷺ)?” The women replied, “Yes, for you are sterner and harsher than Allah’s Messenger (ﷺ).” Allah’s Messenger (ﷺ) said, “O Ibn Al-Khattab! By Him in Whose Hands my life is, whenever Satan sees you taking a way, he follows a way other than yours!”
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 23 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَمَّا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالطَّائِفِ قَالَ ” إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ ”. فَقَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لاَ نَبْرَحُ أَوْ نَفْتَحَهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ” فَاغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ ”. قَالَ فَغَدَوْا فَقَاتَلُوهُمْ قِتَالاً شَدِيدًا وَكَثُرَ فِيهِمُ الْجِرَاحَاتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ ”. قَالَ فَسَكَتُوا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِالْخَبَرِ كُلَّهُ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، ان سے ابو العباس سائب نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تھے ( فتح مکہ کے بعد ) تو آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہاں سے کل واپس ہوں گے ۔ آپ کے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک اسے فتح نہ کر لیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی بات ہے تو کل صبح لڑائی کرو ۔ بیان کیا کہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نے گھمسان کی لڑائی لڑی اور بکثرت صحابہ زخمی ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ انشاءاللہ ہم کل واپس ہوں گے ، بیان کیا کہ اب سب لوگ خاموش رہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ۔ حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے پوری سند خبر کے لفظ کے ساتھ بیان کی ۔
Narrated `Abdullah bin `Umar:
When Allah Apostle was in Ta’if (trying to conquer it), he said to his companions, “Tomorrow we will return (to Medina), if Allah wills.” Some of the companions of Allah’s Messenger (ﷺ) said, “We will not leave till we conquer it.” The Prophet (ﷺ) said, “Therefore, be ready to fight tomorrow.” On the following day, they (Muslims) fought fiercely (with the people of Ta’if) and suffered many wounds. Then Allah’s Messenger (ﷺ) said, “Tomorrow we will return (to Medina), if Allah wills.” His companions kept quiet this time. Allah’s Messenger (ﷺ) then smiled.
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 24 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ هَلَكْتُ وَقَعْتُ عَلَى أَهْلِي فِي رَمَضَانَ. قَالَ ” أَعْتِقْ رَقَبَةً ”. قَالَ لَيْسَ لِي. قَالَ ” فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ”. قَالَ لاَ أَسْتَطِيعُ. قَالَ ” فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا ”. قَالَ لاَ أَجِدُ. فَأُتِيَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ ـ قَالَ إِبْرَاهِيمُ الْعَرَقُ الْمِكْتَلُ فَقَالَ ” أَيْنَ السَّائِلُ تَصَدَّقْ بِهَا ”. قَالَ عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي وَاللَّهِ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنَّا. فَضَحِكَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ. قَالَ ” فَأَنْتُمْ إِذًا ”.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی ، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے ، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں تو تباہ ہو گیا اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں ( روزہ کی حالت میں ) ہمبستری کر لی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر ۔ انہوں نے عرض کیا میرے پاس کوئی غلام نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے روزے رکھ ۔ انہوں نے عرض کیا اس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اتنا بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ بیان کیا کہ پھر کھجور کا ایک ٹوکرا لایا گیا ۔ ابراہیم نے بیان کیا کہ ” عرق “ ایک طرح کا ( نو کلوگرام کا ) ایک پیمانہ تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، پوچھنے والا کہاں ہے ؟ لو اسے صدقہ کر دینا ۔ انہوں نے عرض کی مجھ سے جو زیادہ محتاج ہو اسے دوں ؟ اللہ کی قسم مدینہ کے دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ بھی ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دندان مبارک کھل گئے ، اس کے بعد فرمایا ، اچھا پھر تو تم میاں بیوی ہی اسے کھا لو ۔
Narrated Abu Huraira:
A man came to the Prophet (ﷺ) and said, “I have been ruined for I have had sexual relation with my wife in Ramadan (while I was fasting)” The Prophet (ﷺ) said (to him), “Manumit a slave.” The man said, ” I cannot afford that.” The Prophet (ﷺ) said, “(Then) fast for two successive months continuously”. The man said, “I cannot do that.” The Prophet (ﷺ) said, “(Then) feed sixty poor persons.” The man said, “I have nothing (to feed them with).” Then a big basket full of dates was brought to the Prophet. The Prophet (ﷺ) said, “Where is the questioner? Go and give this in charity.” The man said, “(Shall I give this in charity) to a poorer person than l? By Allah, there is no family in between these two mountains (of Medina) who are poorer than we.” The Prophet (ﷺ) then smiled till his premolar teeth became visible, and said, “Then (feed) your (family with it).
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 25 Good Manners and Form (Al-Adab)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً ـ قَالَ أَنَسٌ فَنَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَقَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ـ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ. فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ، ان سے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا ۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی ، جس کا حاشیہ موٹاتھا ۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے ، اس پر نشان پڑ گئے ۔ پھر اس نے کہا اے محمد ! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرما یئے ۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرادیئے پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا ۔
Narrated Anas bin Malik:
While I was going along with Allah’s Messenger (ﷺ) who was wearing a Najrani Burd (sheet) with a thick border, a bedouin overtook the Prophet (ﷺ) and pulled his Rida’ (sheet) forcibly. I looked at the side of the shoulder of the Prophet (ﷺ) and noticed that the edge of the Rida’ had left a mark on it because of the violence of his pull. The bedouin said, “O Muhammad! Order for me some of Allah’s property which you have.” The Prophet (ﷺ) turned towards him, (smiled) and ordered that he be given something.
USC-MSA web (English) reference
Vol. 8, Book 73, 26 Good Manners and Form (Al-Adab)